Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا قاری محمد طیب
Authors

ARI Id

1676046603252_54338822

Access

Open/Free Access

Pages

193

موت العالمِ موت العالَم
وادریغا!دودمان قاسمی کالعل شب چراغ گم ہوگیا۔چمن زار دارالعلوم دیوبند کا گل سرسبد مرگ کی باد صرصر سے نذرخزاں ہوگیا،بزم علم وعرفان کی شمع فروزاں بجھ گئی،حسن بیان وخطابت کے ایوان میں زلزلہ آگیا،مسند وعظ ومصطبۂ ارشاد وہدایت بے رونق ہوگئے، یعنی ۱۷/جولائی کوحضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کم وبیش۸۸برس کی عمر میں عالم آب وگل کوخیرآباد کہہ کر عالم آخرت کی طرف منتقل ہوگئے۔اناﷲ واناالیہ راجعون۔ شب میں عشاء کی نمازکے بعد ہزاروں ماتم گساروں کے مجمع میں نمازجنازہ دارالعلوم کے احاطۂ مولسری میں ادا کی گئی اورپھرتدفین جدامجد نوراﷲ مرقدہ کے پہلو میں ہوئی، اس طرح گویا:
پہنچی وہیں پہ خاک کہ جس کاخمیر تھی
کل من علیہا فانoویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔
حضرت مرحوم جب پیداہوئے، یہ دارالعلوم دیوبند کے اوج شباب کا زمانہ تھا۔ اساتذہ کرام اپنے اپنے فن میں یگانۂ روزگار تھے جن کے علم وفضل اور مہارت فن کا آوازہ ممالک غیر میں بھی دور دور تک پہنچا ہواتھا۔پھر اس دور کی ایک بڑی اوراہم خصوصیت یہ تھی کہ اصحاب درس وتدریس خود بھی روحانی اور باطنی کمالات کے حامل اورجامع ہوتے تھے، اوران کے علاوہ تھانہ بھون، سہارنپور اور دیوبند میں مستقل طورپرطریقت ومعرفت کی درس گاہیں قائم تھیں اور دارالعلوم جس کانام تھا وہ درحقیقت انہی دونوں قسم کے علوم وفنون کی تعلیم وتربیت گاہ تھا، غرض کہ ایک طرف یہ سرچشمہ ہائے فیض تھے جوپوری آب وتاب کے ساتھ رواں دواں تھے اوردوسری جانب حضرت مرحوم خانوادۂ قاسمی کے چشم و چراغ ہونے کے باعث ہرایک کے نور نظر اورلخت جگر تھے اورخود بھی ذاتی طورپر نہایت ذہین اور طباع، روشن ضمیر و نکتہ رس تھے اورطلب علم کاجوہر فطری رکھتے تھے، پھر کسر کس بات کی تھی، جوان ہوئے توحافظ قرآن اورقاری خوش الحان ہونے کے ساتھ ایک پختہ استعداد کے بالغ النظر عالم ہوگئے۔
اس زمانہ میں دارالعلوم کے مہتمم اگرچہ حضرت مرحوم کے والد ماجد حافظ محمد احمد صاحب مرحوم تھے لیکن اہتمام کاساراکام نائب مہتمم مولانا حبیب الرحمن عثمانی ؒ کرتے تھے جوعربی زبان کے ادیب اوربلندپایہ شاعرہونے کے علاوہ حد درجہ ذہین،معاملہ فہم اوراعلیٰ درجہ کے مدبر اورمنتظم تھے۔ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ بلاکے مردم شناس اورمردم آفریں تھے، وہ مدرسہ کے ہونہار طلبا پر کڑی نظر رکھتے تھے، چنانچہ اس قسم کے طلبا میں سے جب کوئی فارغ التحصیل ہوتاتواس کو روک لیتے اوراس کے ذوق اوراستعداد کے مطابق مدرسہ کی کوئی خدمت اس کے سپرد کردیتے تھے۔اسی قسم کے فارغ التحصیل طلبا کے لیے انھوں نے مدرسہ میں معین المدرسین کاایک شعبہ قائم کررکھا تھا۔ حق یہ ہے کہ اپنے اس جوہر مردم شناسی و مردم آفرینی کے زیر سایہ مولانا حبیب الرحمن عثمانی نے نامور اساتذہ علم و فن، مقرر اور خطیب، مناظراورواعظ، مفتی، مصنف،صحافی،شاعر اورادیب اس کثرت سے پیداکیے کہ انھوں نے ملک میں پھیل کر ہرشعبۂ زندگی میں اپنا اثر و نفوذ قائم کیا۔
ظاہرہے، مولانا کی نگاہ دوررس سے معدن قاسمی کایہ گوہر تاباں کیونکر مخفی رہ سکتا تھا،آپ نے موصوف کواپنی تربیت خاص کی آغوش میں لے کراس طرح تربیت کی کہ موصوف کی فطرت وطبیعت کاایک ایک جوہر قابل نشوونما پانے اورپروان چڑھنے لگا، چنانچہ آپ درس تودیتے ہی تھے حسن بیان وخطابت کی خلقی استعداد وصلاحیت کے باعث جلسوں میں تقریر کی غرض سے ادھراُدھر بھی بھیجے جانے لگے، لیکن سوال یہ تھا کہ گلبن دارالعلوم کے اس نہال نوکاآئندہ کیرئیر (Career)کیاہو؟ موصوف میں اہتمام وانتظام کی صلاحیت بہت اچھی تھی، علاوہ ازیں ان اوصاف وکمالات سے بھی متصف تھے جومدرسہ کی ترقی وتوسیع میں ممدومعاون ہوسکتی تھیں، ان امور کے پیش نظر مولانا حبیب الرحمن عثمانی نے فیصلہ کیا کہ انھیں آئندہ مدرسے کا مہتمم ہوناہے، چنانچہ آپ نے ان کو اپنا معین و مددگار یعنی نائب مہتمم مقرر کرلیا۔
یہ ذکر اس زمانہ کاہے جب کہ راقم الحروف دارالعلوم دیوبند کاطالب علم تھا۔ اس کے بعد مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی کا انتقال ہوگیا تومولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم بنادیے گئے۔ اگرچہ آپ کی شہرت اورملک میں مقبولیت کا آغاز نیابت اہتمام کے زمانہ میں ہی ہوگیا تھا لیکن مہتمم ہونے کے بعد وقت آیا کہ آپ کے اوصاف وکمالات پورے طورپرابھریں اورجلا پائیں، یہ کمالات تین قسم کے تھے، علمی،عملی اوراخلاقی، اوّل الذکر کمال تویہ تھا کہ علوم وفنون میں پختہ استعداد کے ساتھ ایک طرف حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی تصنیفات و تالیفات پرگہری نظررکھتے تھے اوردوسری جانب حضرت تھانویؒ سے بیعت کا تعلق رکھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جوشخص ان دونوں نابغۂ روزگار بزرگوں کے علوم و فنون پرحاوی ہواس کوشریعت وطریقت کارمز شناس ونکتہ دان بننے کے لیے اور کیا درکار ہے، پھر اس پر حسن تقریروخطابت کاملکۂ خداداد سونے پرسہاگہ! گھنٹوں بولتے تھے، زبان بڑی شگفتہ اورشائستہ، کہیں کہیں ظرافت اورمزاح کے چھینٹے، آوازازاول تاآخر یکساں،نہ زیروبم نہ اتار چڑھاؤ مگرساتھ ہی منطقی استدلال اور فلسفیانہ تشقیق، اس لیے تقریر عوام خواص دونوں کے کام کی، بات سے بات اور نکتہ درنکتہ، پھر معلومات کی کثرت اورطبیعت کی روانی کایہ عالم کہ کیا مجال، ایک تقریر کامضمون دوسری تقریر میں مکررآجائے، میرے نزدیک یہ سب کچھ فیضان حضرت نانوتویؒاورحضرت تھانویؒ کاتھا۔
عملی کمال یہ تھا کہ کارکردگی کی صلاحیت غیرمعمولی تھی۔جس کام کو کرتے تھے پوری توجہ اوریکسوئی سے کرتے تھے۔ہم نے بارہا دیکھاہے ایک مجمع میں بیٹھے ہیں لوگ بات چیت کرنے میں مصروف ہیں اورآپ ایک گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے اورکاتبوں کی طرح بیٹھے کوئی مضمون مسلسل لکھے جارہے ہیں، خالی بیٹھنا توجانتے ہی نہ تھے، ہروقت کام سے کام تھا، اخلاقی اعتبار سے وہ اس شعر کامصداق تھے:
ھنیون لینون ایسارُذووکرم
سواس مکرمۃ ابناء ایسارً
خندہ جبین وشگفتہ، نرم دم گفتگو اورنرم خو،حلیم وبردبار،متواضع ومنکسر المزاج، پھر ظاہری حسن ووجاہت بھی ایسی کہ ہزاروں میں ایک نظر آتے تھے۔ حسن قرأت کایہ عالم کہ وجد آفریں وکیف آور،غرض کہ یہ کمالات سہہ گانہ تھے جنھوں نے مولانا کی شخصیت کوبرصغیر کے علما میں بہت نمایاں اورممتاز کردیا تھا اور آپ سچ مچ سرخیل طائفہ بن گئے تھے۔ اﷲ کے فضل وکرم سے عمر کافی طویل پائی، اس لیے جس طرح آپ کے اہتمام کی مدت دارالعلوم کے تمام سابق مہتمموں کی مدت اہتمام سے زیادہ ہے، اسی طرح مدرسہ میں جوتوسیع آپ کے عہد میں ہوئی کسی کے عہد میں نہیں۔ آپ کی فیض رسانی کادائرہ برصغیرتک محدود نہیں رہا بلکہ ایشیااورافریقہ کے دور دراز خطوں کے علاوہ امریکہ اوریورپ پر محیط ہوگیا،اس لیے آپ کاحادثۂ وفات عالم اسلام کا وہ عظیم دوسرا المیہ ہے جو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کی وفات کے بعد پیش آیا ہے۔ آپ کے سانحۂ ارتحال سے دارالعلوم دیوبند کاایک دوراورایک عہدختم ہوگیا۔
مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی اورحضرت قاری صاحب دونوں ہم جماعت اورہم درس ہونے کے علاوہ وہ بھی صاحبزادہ اوریہ بھی صاحبزادہ، اس لیے ہم جماعت و ہم مقام بھی تھے، اس لیے دونوں میں بڑی دوستی اوربڑی بے تکلفی تھی۔ لیکن میں ایک جونئیر طالب علم تھا،اس لیے حضرت مرحوم سے کوئی سابقہ نہ تھا۔ البتہ ان کے برادرخوردمولوی محمد طاہر مرحوم بڑے ہنسوڑ،خوش مزاج و یار باش انسان تھے ان سے بڑی دوستی اوربے تکلفی تھی، میں ان کے گھر جاتا اور وہ میرے کمرہ میں آتے اورہم دونوں گھنٹوں گلخپ کرتے رہتے تھے، البتہ ۱۹۶۲ء میں مجلس شوری کاممبرمنتخب ہوا تواب حضرت مرحوم سے بھی ذاتی تعلقات پیداہوگئے جو محض رسمی اورواجبی نہ تھے بلکہ حقیقی اورقلبی وروحانی تھے، اب ان سے صرف ادب واحترام کاتعلق نہ تھابلکہ محبت اورتعلق خاطر بھی تھا،محبت کبھی یک طرفہ نہیں ہوتی بلکہ متعدی ہوتی ہے چنانچہ ادھر بھی ایسا ہی تھا۔اس کاپائیدار ثبوت یہ ہے کہ حضرت کاذوق شعروادب بھی بڑاپاکیزہ تھااورخود بھی قادر الکلام شاعر تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنے ایک قصیدہ کے ایسے چند اشعار خود اپنے قلم سے لکھ کرمجھ کوعنایت فرمائے جن میں ازراہ شفقت بزرگانہ اس ہیچ میرز کی نسبت ایسے خیالات کااظہار کیا گیا تھا جن کو پڑھ کر میں شرم سے پانی پانی ہوگیا، میں نے یہ تحریر تبرک سمجھ کرحفاظت سے رکھ لی۔ ایک مرتبہ خیال ہواکہ تحدیث نعمت کے طور پران اشعار کوبرہان میں چھاپ دوں، لیکن خودستائی کے ڈر سے جہاں میں برہان کی ڈاک کے اس قسم کے روزانہ دوتین خطوط نہیں چھاپتا۔ان اشعار کو بھی صرف اپنے تک محدود رکھا۔آج یہ شفقت ومحبت اورالتفات خاص و مراعات یادآتے ہیں تودل بے چین ہوجاتااورتڑپ اٹھتاہے اوریہ حادثہ ملی و قومی ہی نہیں بلکہ ذاتی اورشخصی بھی ہوجاتاہے، مگر بہرحال بقول غالبؔ:
صبر کرتے ہی بنے گی غالب
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃً
[اگست۱۹۸۳ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...