Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

میاں ایم اسلم
Authors

ARI Id

1676046603252_54338825

Access

Open/Free Access

Pages

195

ایم اسلم
برعظیم پاک وہند کے مشہور ناول نگار اورافسانہ نویس میاں ایم اسلم مورخہ ۲۳/ نومبر ۱۹۸۳ء کو۹۸ سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کرگئے۔پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں ان کے دیرینہ ساتھی اور ان کی تصانیف کے ناشر خواجہ بدرالاسلام فروغی نے مرحوم کے والد میاں نظام الدین کے ایک رجسٹر کے حوالے سے ان کی تاریخ ولادت۶/اگست ۱۸۸۵ء بتائی ہے۔
میاں ایم اسلم لاہور کے ایک رئیس گھرانے کے فرد تھے۔ان کے والد میاں نظام الدین لاہور کی کشمیری برداری کے سربراہ اوروسیع جائدادکے مالک تھے۔میاں ایم اسلم نے زراعتی کالج لائل پور(حال زرعی یونیورسٹی فیصل آباد) میں تعلیم حاصل کی اورمحکمہ انہار میں ضلع دار کی حیثیت سے ملازمت کاآغاز کیا۔یہ ملازمت انھیں راس نہ آئی اس لیے استعفی دے کر لکھنے پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔میاں صاحب اپنے والد کے اکلوتے فرزند تھے اس لیے گھر میں روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔
انھوں نے اپنی زندگی میں ڈھائی صد کے لگ بھگ ناول اور سیکڑوں افسانے لکھے۔مرحوم اپنے احباب سے کہا کرتے تھے کہ انھوں نے ایک لاکھ سے زائد صفحات لکھے ہیں۔
برعظیم پاک وہند کے تمام اہل علم کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم تھے۔ جس کے ساتھ ایک بارتعلق پیداہوگیا اسے مرحوم نے تازیست نبھایا۔ایک افسانہ نگار اور ناول نویس ہونے کے باوجود ان کی زندگی بڑی پاکیزہ تھی۔ہفتہ وارچھٹی کے دن ان کے احباب علی الصبح ان کے ہاں پہنچ جاتے اور اکھٹے بیٹھ کر ناشتہ کرتے۔احباب کی یہ محفل دوپہر تک جاری رہتی۔راقم الحروف بھی اس محفل کاایک باقاعدہ رکن تھا۔
میاں ایم اسلم لاہور کی ایک پرانی تہذیب اورروایات کے صحیح نمائندے تھے۔انھوں نے اپنے ناولوں میں اسلامی تہذیب کے خدوخال نمایاں کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔عبدالماجد دریابادی فرماتے تھے کہ ایم اسلم نے ناول کو عبادت بنادیاہے۔
میاں صاحب نے دوشادیاں کیں لیکن اولاد سے محروم رہے۔ان کی دونوں بیویاں ان کی زندگی ہی میں فوت ہوگئی تھیں۔گذشتہ ایک سال سے ان پر ضعف غالب آگیا تھا اورقوت حافظہ بھی جواب دے گئی تھی یہاں تک کہ پرانے احباب کوبھی پہچان نہیں سکتے تھے۔وفات سے کوئی سال سواسال پہلے ان کے بہنوئی اور عم زاد میاں امیرالدین انھیں اپنے ہاں لے گئے تھے اوران کی رہائش گاہ پر ہی میاں صاحب کاانتقال ہوا۔نماز جنازہ میاں امیرالدین کے بنگلے کے وسیع لان میں ہوئی اورانھیں میانی صاحب کے قبرستان میں اپنی خاندانی ادواڑ میں دفن کیاگیا۔
ان کی قبر سے ڈاکٹر محمد دین تاثیر، خواجہ عبدالحئی فاروقی، سعادت حسن منٹو، مولانا احمد علی لاہوری، آغاحشر، احسان دانش، ڈاکٹر احمد عابد علی، سرشیخ عبدالقادر، عبدالعزیز فلک پیمااورسعید بزمی کی قبریں زیادہ دور نہیں ہیں۔
[مارچ۱۹۸۴ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...