Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

سید عبدالدائم الجلالی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338827

Access

Open/Free Access

Pages

196

آفتاب علم وفضل غروب ہوگیا
[سید عبدالدائم الجلالی]
۵/نومبر۱۹۸۳ء شنبہ کے روزساڑھے بارہ بجے دن بذریعہ ٹیلیفون عزیزم سید نجم السلام میاں کی زبانی اس خبر ِوحشت اثر سے کہ استاذی علامہ سیدعبد الدائم الجلالی مفسر قرآن کریم داغ مفارقت دے گئے، قلب ودماغ کوسخت صدمہ پہنچا۔
مولانا سید عزیز عبدالدائم صاحب جلالی مرحوم ۱۹۰۱ء میں رام پور میں پیدا ہوئے۔ وہیں تعلیم حاصل کی، اوررام پور ہی کی قدیم وعظیم علمی درسگاہ مدرسہ عالیہ میں تقریباً۲۵ سال مدرس وپرنسپل رہے۔
مصطفی آباد عرف رام پور پٹھانوں کی ایک چھوٹی سی ریاست تھی، لیکن علم و فضل کے اعتبارسے ایک قدآور شہر تھا،اورایک زمانے میں بخارائے ہند کے نام سے مشہور تھا، یہ عظیم خطہ علماء،شعراء،اطباء وصوفیاء اورعظیم سیاسی لیڈروں کا مولد و مسکن رہا ہے۔
علامۂ عصر محقق زمانہ مولاناعبدالعلی بحرالعلوم فرنگی محلی فرزند مولانا نظام الدین سہالوی مؤسس درس نظامی، رام پور کی شہرۂ آفاق درس گاہ مدرسہ عالیہ کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے تھے۔ اور مشہور منطقی وفلسفی ملامحمدحسن جن کی شہرۂ آفاق منطق کی کتاب’’ملاحسن‘‘جوہندوپاک کی ہر بڑی عربی درس گاہ میں داخل نصاب ہے مدرسہ عالیہ رام پور میں مدرس رہے اوررامپور ہی میں پیوند خاک ہوئے۔
اولیاء اﷲ میں مقتدائے مشائخ حضرت سید عبداﷲ شاہ بغدادی رحمۃ اﷲ علیہ، اور مشہور بزرگ حافظ شاہ جمال اﷲ علیہ الرحمۃ نے بھی رام پور ہی کو اپنا مسکن بنایا اور ہر دو بزرگوں کی آخری آرام گاہ بھی رامپور ہی ہے۔ اول الذکر بزرگ کے بغداد سے دہلی پہنچنے پر مشہور نقشبندی و مجددی بزرگ حضرت میاں مظہر جانجاناں اور سلسلۂ چشتیہ نظامیہ کے مجدد حضرت مولانا فخر الدینؒ نے موصوف کی پالکی کو کاندھا دیا تھا۔
شیخِ شیوخ العالم امام الصوفیاء شاہ احمد سعید مجددی کا وطن بھی رامپور ہی ہے، جن کے مریدین و خلفاء میں عرب و عجم کے نامور علماء و مشائخ شامل تھے۔
امام منطق و فلسفہ، مجاہد ِ آزادیِ ہند علامہ فضل ِ حق خیر آبادی اور ان کے صاحبزادے بو علی سینائے وقت، علماء منطق و فلاسفہ کے استاذِ اعظم علامہ عبدالحق خیر آبادی، جن کی وفات پر جامعہ ازہر مصر میں کئی رو ز کی تعطیل کردی گئی تھی اور جن کی کتابیں ان کی حیات ہی میں داخل ِ نصاب ہندو مصر ہوگئی تھیں، اسی مدرسہ عالیہ رامپور میں مدتِ مدید تک پرنسپل رہے۔
اور اسی بخارائے ہند کی خاکِ پاک سے عظیم محدث میاں محمد شاہ صاحب استاذ مولانا ابوالکلام آزاد و علامہ شبلی نعمانی، اورمیاں صاحب کے والد ِ بزرگوار سید حسن شاہ صاحب محدث پیدا ہوئے۔
بو علی سینائے ہند حکیم اعظم خاں رامپوری کی عظیم طبی تصانیف، اور مشہور مورخ مولوی نجم الغنی خاں صاحب کی عظیم علمی تصانیف کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آخر الذکر سے دوران گفتگو مصور فطرت شمس العلماء خواجہ حسن نظامی نے کہا تھا کہ مولانا میری مصنفات کی تعداد تقریباً ڈیڑھ سو ہے، (اس وقت غالباً خواجہ صاحب کی مصنفات کی تعداد ڈیڑھ سو ہی ہوگی) لیکن آپ کی ایک ہی کتاب میری تمام کتابوں سے زیادہ ضخیم ہے۔
مؤرخ اعظم علامہ شبلی نعمانی اور موجودہ صدی کے ہندو پاک کے سب سے بڑے عربی زبان و ادب کے ماہر علامہ عبدالعزیز میمن نے بھی اسی مدینۃ العلوم رامپور کے مدرسہ عالیہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اور یہیں مشہور عالم مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی نے علامہ عبدالعلی ریاضی داں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔
طبقۂ شعراء میں مشہور شاعر قائم چاند پوری اور بقول مولانا عرشی مرحوم ثم رامپوری کا مسکن و مدفن بھی رام پور ہی ہے۔ جگت استاد داغؔ دہلوی اور عظیم شاعر امیرؔ مینائی کے مدت تک یہاں رہنے کی وجہ سے رامپور کو شاعری کے ایک تیسرے دبستان ہونے کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ نظامؔ رامپوری کی حسین غزلوں اور شیخ علی بخش بیمارؔ رامپوری کی شاعری کو اردو فراموش نہیں کرسکتی۔ اور غالبؔ کا تذکرہ رامپورسے تعلق کے بغیر نامکمل ہے۔
اور اس آخری دورِ انحطاط و زوال میں بھی مولانا محمد علی جیسا عظیم سیاست داں اور مردِ مجاہد جس کے متعلق کچھ کہنا آفتاب کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، اور عظیم و مشہور عالم و ادیب مولانا امتیاز علی خاں صاحب عرشیؔ مرحوم بھی رامپور ہی میں پیدا ہوئے اور یہیں علمی میدان میں چلنا اور دوڑنا سیکھا۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی، ذکر تھا مولانا سید عبدالدائم الجلالی کا۔ مولانا جلالی مرحوم و مغفور عصرِ حاضر کے بلندپایہ عالم، بلکہ جامع العلوم تھے، تفسیر و حدیث، فقہ و ادب، منطق و فلسفہ اور تصوف پر گہری نظر رکھتے تھے۔مطالعہ وسیع تھا، علوم متداولہ مستحضر تھے، وہ خطابت و تحریر دونوں میدانوں کے شہسوار تھے۔
مولانا اعلیٰ درجے کے کامیاب مدرس تھے، منطق ہو یا فلسفہ، ادب ہو یا تفسیر، یعنی علومِ عقلیہ و نقلیہ جدید وقدیم دونوں کی کتابوں کے پڑھانے کی صلاحیت و استعداد ِ تامہ رکھتے تھے کسی بھی مضمون کی کتاب جواُن کے سپرد کی جاتی تھی بہت عمدہ طریقے سے نہایت روانی کے ساتھ پڑھاتے تھے جس سے کہ طالب علم مکمل طورپر مطمئن ہوجاتاتھا۔میں نے مرحوم سے عربی ادب کی اعلیٰ کتابیں پڑھی ہیں، مقامات حریری جوعربی ادب کی نہایت مشکل کتاب ہے اور جس میں مغلق ودقیق الفاظ وعبارات بکثرت ہیں، بغیر مطالعے اوربغیر غوروفکر وتامل کے پڑھایا کرتے تھے اورترجمہ اس قدر عمدہ کرتے تھے کہ اس سے بہتر ترجمہ ممکن نہیں تھا۔ عموماً ایک عربی لفظ کے معنی ایک ہی اردو لفظ میں بیان کرتے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس عربی لفظ کامقابل کوئی دوسرا اردو مترادف اس سے بہتر ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسا نہیں تھاکہ ایک لفظ کی تشریح دس دس الفاظ میں کریں تب کہیں طالب علم مفہوم سمجھے۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ عربی الفاظ کے زیادہ معانی نہیں جانتے تھے، وہ حافظ لغت تھے، جس طرح عربی زبان اپنے اندر بے پناہ وسعت رکھتی ہے، ایک ایک عربی لفظ کے دس دس،بیس بیس،پچاس پچاس معانی ہیں، اسی طرح مولانا بھی ایک ایک لفظ کے دسیوں معانی جانتے تھے۔
تفسیر قرآن پرعبور وبصیرت کے سلسلے میں مولانا کے دوواقعے بیان کروں گا، اوروسعتِ معلوماتِ تصوف کے متعلق بھی دوواقعے بیان کرنے پراکتفا کروں گا۔ تقریباً۱۸سال قبل مسجد درگاہ حضرت شاہ ابوالخیرؒ میں تراویح میں ختم قرآن کی مجلس تھی، حضرت مولانا زید ابوالحسن داعی تھے اورمولانا مدعو، کوئی بڑا اجتماع نہیں تھا، البتہ حاضرین پڑھے لکھے تھے۔مولانا جلالی مرحوم نے قرآن کریم کے نزول وسبب ِنزول پرنہایت جامع اور بصیرت افروز تقریر کی،کیا عرض کروں اس تقریر کے متعلق، معلوم ہوتاتھا کہ سمندرٹھاٹھیں ماررہاہے، حضرت مولانا زید جو خود ایک متبحر عالم اورصاحبِ نسبت بزرگ ہیں، جھوم رہے تھے اورفرمارہے تھے کہ کیا تبحر علمی ہے، افسوس ہے کہ ٹیپ ریکارڈر نہیں تھا کہ تقریر ٹیپ کرلی جاتی۔
دوسرے واقعے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ مولانا جلالی مرحوم نے قیام دہلی کے دوران مسجد گلی قاسم جان دہلی میں دومرتبہ قرآن عظیم ترجمہ وتفسیر میں ختم کیا۔ مولانا نہایت پابندی کے ساتھ روزانہ اپنے مکان واقع گلی مدرسہ والی نزد جامع مسجد سے گلی قاسم جان قبل از نماز فجر جایاکرتے تھے، حالانکہ یہ پابندی مولانا کی افتاد طبع کے خلاف تھی، غالباً کبھی انھوں نے ایسی پابندی نہیں کی ہوگی۔
مسجد مذکور میں ترجمۂ وتفسیر کی ابتدا کاواقعہ بھی کافی دلچسپ ہے، دہلی کے ایک لائق ومشہور عالم اس مسجد میں مدت دراز سے ترجمۂ کلام اﷲ کیاکرتے تھے، ختم کے روز مولانا جلالی کو اختتامی تقریر اوردعا کے لیے دعوت دی گئی، مولانا نے اپنی تقریر میں سورۂ اخلاص کے معانی ومطالب پرروشنی ڈالی الوہیت و توحید اور صمدیت کا مطلب بیان کیا، تخلیق وتولید کافرق واضح کیا،غالباً تین روز میں تفسیر قل ھواﷲ مکمل ہوئی ۔ سامعین اس سورت کی جسے وہ اپنی پنج وقتہ نمازوں میں پڑھا کرتے تھے تفسیر وتشریح سے بہت متاثر ہوئے اورممبران وصدر منتظمہ کمیٹی مسجد نواب خسرومرزاصاحب نے کہا کہ اب آپ ہی اس مسجد میں ترجمہ وتفسیر کا درس دیا کریں، مولانا نے ہرچند منع کیا، لیکن دوسری طرف سے پیہم اصرار کی وجہ سے مولانا نے تفسیر کادرس شروع کیا۔تصوف پر گہری نظر اوروسعتِ معلومات کااندازہ مندرجہ ذیل واقعات سے ہوتاہے:
چند سال قبل میں اورمولوی ڈاکٹر ماجد علی خاں لیکچرر جامعہ کالج مولانا کی خدمت میں حاضرہوئے،ڈاکٹر ماجد علی خاں باضابطہ سلسلۂ تصوف میں داخل ہیں نیز رموزِ تصوف سے واقف، گفتگو کارُخ تصوف اور وحدت الوجود کاباضابطہ نظریہ پیش کرنے والے حضرت محی الدین ابن عربی اوران کی ادق کتابوں کی طرف مڑ گیا۔مولانا نے اس وقت طویل تقریر نہیں کی بلکہ چند سوالات کیے اورمختصر طور پرچندرموز تصوف بیان کیے، جس پرماجد علی خاں صاحب کہنے لگے کہ آج معلوم ہوا کہ ہم بے پڑھے لکھے ہیں ہم نے اس موضوع پرکچھ نہیں پڑھا۔
اسی طرح ایک مرتبہ ذکر تھا مجلس عرس وبزم مقالات حضرت نظام الدین اولیاء کا، مولانا فرمانے لگے کہ یہ لکھنا اوربیان کرنا بہت آسان ہے کہ حضرت محبوب الٰہی کی کب اور کہاں ولادت ہوئی، لباس کیسا پہنتے تھے، کھانا کیسا تناول فرماتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔لیکن حضرت کی زندگی کااصل مقصد،جس کی تبلیغ میں حضرت نے اپنی عمر ِعزیز صرف کردی یعنی حقیقت تصوف، یہ ہرایک کے بس کی بات نہیں اوراصل چیز یہی ہے۔ بعض اوقات تصوف خصوصاً نظریۂ وحدت الوجود پر نجی صحبتوں میں نہایت بصیرت افروز تقریر فرماتے، رموزو اشارات تصوف جابجا ان کی تفسیر ’بیان السبحان‘ میں پائے جاتے تھے۔ان کے منتسبین میں بہت کم حضرات کویہ معلوم ہوگا کہ مولانا جلالی نظریۂ وحدت الوجود کے قائل وحامی تھے۔
مولانا جلالی مرحوم ذہانت کے اعتبار سے عبقری(جینیس)تھے۔ان کی ذہانت کے بہت سے واقعات ہیں جوان کے شاگردوں اوراحباب کو یاد ہوں گے، میں چند مختصر واقعات اس سلسلے میں بیان کروں گا۔
مولانا جلالی مرحوم کے فارسی زبان وادب کے آخری امتحان منشی فاضل جو اس زمانے میں نہایت مشکل اوراہم امتحان ہوتا تھا کے پاس کرنے کاقصہ بہت دلچسپ ہے۔مولانا نے ارادہ کیا منشی فاضل کے امتحان دینے کاجب کہ صرف۲۵روز بعد امتحان ہونے والا تھا۔ علی نقی صاحب شادماں جو فارسی امتحانات کے مدرسہ عالیہ میں انچارج تھے، ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ نصاب کی کتابیں آپ کے پاس ہیں نہیں،دن بہت تھوڑے باقی ہیں آپ کیسے امتحان دیں گے؟مولانا نے اپنے بردار حقیقی مولوی سید عبدالسلام میاں صاحب سے کہا کہ امتحان ضرور دوں گا۔رام پور کے ایک اورصاحب جن کے والد سے مولانا کے والد بزرگوار کے تعلقات تھے منشی فاضل کے امتحان میں شریک ہورہے تھے، ان کے والد ہی کے ذریعہ طے ہوا کہ ان کی کتابیں مستعارلی جائیں چنانچہ ایک کتاب صبح ساڑھے نوبجے لی جاتی تھی اور پانچ بجے شام واپس کردی جاتی تھی، یعنی ایک کتاب کا مطالعہ صرف ایک روز کیا، بس یہی تیاری تھی۔امتحان دیااور اچھے نمبروں سے پاس ہوئے۔
وزیراحمد صاحب ہیڈ ماسٹر مرتضیٰ اسکول رام پور نے فارسی میں ایم۔اے کاامتحان مولانا سے پڑھ کر دیاتھا، موصوف فرماتے تھے کہ میں نے ایسا انسان اپنی زندگی میں نہیں دیکھا، فارسی کی جوکتاب اُن کے سامنے رکھ دیتا ہوں، بغیر مطالعے کے اپنی ذہانت سے اُس کامطلب سمجھا دیتے ہیں، گھرآکر جب قاآنی اور خاقانی کی شروح دیکھتا ہوں، توسب کچھ وہی ہوتاہے جو مولانا سمجھا دیتے ہیں۔
غالباً۱۹۵۳ء یا۱۹۵۴ء میں حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نور اﷲ مرقدہ رام پور تشریف لائے، مدرسہ عالیہ رام پور میں آپ کے خطاب سے قبل چند توصیفی کلمات حضرت شیخ الاسلام کی شان میں مولانا جلالی نے کہے۔ مولانا مدنی نے اپنی تقریر میں اظہار ناراضگی فرمایا کہ لوگ میرے متعلق تعریفی کلمات کہنے میں مبالغہ کرتے ہیں جو نا مناسب ہے، تقریر ختم ہونے کے بعد مولانا جلالی شکریہ اداکرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور برجستہ اُن کلمات توصیفیہ کی بہت عمدہ فلسفیانہ انداز میں تشریح کی اورایک ایک تعریفی جملے کا جوانھوں نے مولانا مدنی کے متعلق کہے تھے ترجمہ کیا اورکہا کہ میں نے مبالغہ نہیں کیا، کیا حضرت مدنی ان صفات سے متصف نہیں ہیں، حضرت مدنی مسکرانے لگے۔
شروع میں،میں نے عرض کیا تھا کہ مولانا عبدالدائم صاحب خطابت و تحریر دونوں میدانوں کے شہ سوار تھے لیکن اُن کی خطابت سے عوام کم اورخواص زیادہ مستفید ہوتے تھے، مولانا پیشہ ور واعظ نہیں تھے، اس لیے اُن کی تقاریرمیں اُتارچڑھاؤ نہیں تھا اورنہ ان کی تقریر میں لطائف وقصص ہوتے تھے، لیکن موصوف کی تقریر بے جھجھک سادہ اور ایسی مربوط ہوتی کہ اگرلکھ لی جائے توایک مبسوط مقالہ تیارہوجائے بلکہ تقریر مقالہ ہی ہوتی تھی۔ میں نے ایک مرتبہ غالب اکیڈمی میں ایک ماہر پروفیسر کااردو میں ایک مقالہ سنا، کچھ لوگوں کااورخود میرایہ خیال تھاکہ پروفیسر موصوف تقریر کررہے ہیں،لیکن معاً یہ خیال وتعجب ہواکہ ایسی مربوط تقریر مولانا جلالی کے علاوہ کون کررہا ہے فوراً ہی تعجب رفع ہوگیا، پروفیسر موصوف مقالہ پڑھ رہے تھے تقریر نہیں کررہے تھے۔مولانا جلالی کی گفتگو بھی مربوط اور منطقی اسلوب پر ہوتی تھی۔
مولانا کادوسرا اہم میدان تصنیف وتالیف ہے۔جس کے باعث وہ وفات کے بعد بھی زندہ رہیں گے اورطالبان ِعلم وجویانِ حق ان کی تالیفات سے مستفید ہوتے رہیں گے اوریہ عبادت مولانا مرحوم کی آخرت کے لیے باعث اجر ہوگی۔انشاء اﷲ
اپنے ابتدائی دور میں تقریباً پچا س ساٹھ سال قبل مولانا جلالی مرحوم نے ایک ماہنامہ’’ معلّم عربی‘‘کے نام سے شائع کیا جس میں ایک جانب عربی ہوتی تھی اور دوسری طرف اردو۔ دوسرا مجلہ جس کا اجرا پہلے’’اتحاد‘‘اور پھر’’اتحاد اسلامی‘‘ ے نام سے کیا گیا، اس رسالے کی مجلس ادارت میں مشہور شاعر راز ؔیزدانی اورمحشرؔعنایتی شامل تھے، رئیس التحریر مولانا سید عبدالدائم صاحب تھے۔ اس رسالے کے مضامین سے مولانا کی وسعت ِمعلومات اورایک لائق صحافی ہونے کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
غالباًاسی زمانے میں مولانا مرحوم نے ایک کتاب’’شعرالعرب‘‘علامہ شبلی نعمانی کی کتاب’’شعر العجم‘‘کے طرزپرتالیف کرنا شروع کی تھی، جاہلی شعراء کا تذکرہ اوران کے کلام پرتبصرہ پہلی جلد کی شکل بطور مسودہ مولانا کے بردار خورد جناب مولانا سید عبدالسلام میاں کے پاس موجود ہے، اگر یہ کتاب طبع ہوجاتی توطلباء واساتذۂ ادب عربی کے لیے کافی ادبی وعلمی سرمایہ مہیا ہوجاتا۔اوراُسی دور میں مولانا نے استاذ عبدالحسین عراقی کی تالیف’’الزھورفی رامنبور‘‘کے لیے عربی میں کافی مواد فراہم کیا،یہ کتاب رام پور اورنوابان کی بزبان عربی تاریخ ہے۔
مولانا سید عبدالدائم صاحب کثیر الترجمہ اورسریع الترجمہ تھے۔ تقریباً پچاس سال قبل صحاح ستہ میں سے پانچ کتابوں بخاری،مسلم،ابوداؤد،ابن ماجہ اور نسائی کا اردو میں ترجمہ کیاہے۔ان کے علاوہ تجرید ِبخاری اورمشکوۃ المصابیح کابھی ترجمہ کیا ہے۔یہ سب تراجم زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں۔کتب مذکورہ کاسادہ اورشستہ زبان میں ترجمہ کیاہے جواس قدر عمدہ اورجامع ہے کہ ترجمہ پڑھنے کے بعد شرح کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔حدیث شریف کامعیار،نیز احتیاط ملحوظ رکھی گئی ہے۔ان تراجم سے عوام و خواص دونوں مستفید ہوتے ہیں اورہوتے رہیں گے۔سناگیا ہے کہ ان میں سے بعض تراجم حال میں بعض چورمصنفین نے اپنے نام سے شائع کئے ہیں۔
امام اولیاء حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کی کتاب’’غنیۃ الطالبین‘‘ کا ترجمہ بھی اُنھیں کاکیاہواہے جوپاکستان میں عرصہ ہواچھپ چکاہے۔ایک چھوٹا سارسالہ‘‘مبادیِ منطق وفلسفہ‘‘طلباء کے لیے تحریر کیاہے، جو دس روز کی کاوش کا نتیجہ ہے۔یہ رسالہ داخلِ نصاب جامعہ طبیہ وطبیہ کالج ہے۔ تفاسیر کے ذکر سے قبل ایک عربی کتاب’’الغزوالفکری‘‘کے ترجمے کاتذکرہ بھی ضروری ہے۔یہ کتاب موجودہ دور کے ایک اخوانی عالم کی ہے، جس میں جدید اصطلاحات بھی استعمال کی گئی ہیں، یہ ترجمہ جماعت اسلامی کے کسی معتمد کے پاس محفوظ ہے طبع نہیں ہواہے۔
یہاں یہ عرض کرنا بھی بے محل نہیں ہوگا کہ مولانا کوعربی بولنے پرگوزیادہ قدرت نہیں تھی، لیکن سمجھنے،پڑھانے اورترجمہ کرنے پرچاہے جدید عربی ہویاقدیم قدرت تامہ رکھتے تھے، لغت وادب عربی کے ماہر تھے۔
اُن کی ایک اوراہم کتاب’’لغات القرآن‘‘ہے غین سے یاء تک(الف سے عین تک مولاناعبدالرشید نعمانی کی تالیف ہے)یہ ایک علمی کتاب ہے جس میں قرآن عظیم میں مستعمل کلمات کے معانی ومطالب نہایت تحقیق ومحنت سے بیان کیے گئے ہیں، جیساکہ کتاب کے نام سے بھی ظاہر ہے۔ طابع و ناشر ندوۃ المصنفین دہلی ہے، ا س تالیف سے اہل علم، طلاب ومدرسینِ مدارسِ عربیہ استفادہ کرتے ہیں۔مجھ سے اسلامیات وعربی کے ایک فاضل استاذ فرماتے تھے کہ ترجمۂ احادیث توعوام کے لیے ہے، لیکن لغات القرآن سے ہم لوگ یعنی اساتذہ اورمدرسین اکتساب فیض کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ تفسیر مظہری کاترجمہ بھی مولانا مرحوم کامشہور و معروف کارنامہ ہے۔قرآن کریم کی ہندوستان میں لکھی جانے والی تفاسیر میں عربی زبان میں یہ عظیم ترین تفسیر ہے۔یہ قول بروایت ِمفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی محدث اعظم علامہ سید انورشاہ کشمیریؒ کاہے۔اس تفسیر کے مؤلف ہیں علامہ قاضی ثناء اﷲ پانی پتی شاگردرشید امام شاہ ولی اﷲ دہلویؒ اورخلیفہ حضرت میاں جان جاناںؒ۔ اس کاتشریحی ترجمہ ضروری اضافات کے ساتھ بزبان اردو، مولانا سید عبدالدائم صاحب جلالی نے کیا ہے جوگیارہ ضخیم جلدوں میں ہے۔ مولانا نے یہ ترجمہ ساٹھ سال کی عمر کے بعدشروع کیا تھا، گویایہ آپ کے آخری دور کی یادگار ہے۔ترجمہ بہت عمدہ اورصاف وسادہ ہے کہ ہرایک پڑھنے والا سمجھ لے اورمطمئن ہوجائے، آسان زبان میں ہے جو مولانا کی زبان اور تحریر نہیں معلوم ہوتی اورضروری اضافات بشکل نوٹس کاانداز تحریر نہایت مشکل اور فلسفیانہ ہے جومولانا کاطرزنگارش ہے، تعجب ہے کہ ایک ہی کتاب میں تحریر کے دواسلوب ہیں جو مولانا کے ماہر ترجمہ ہونے پردال ہیں،غالباً ترجمے میں مؤلف کے اسلوب وطرز کی اتباع وپابندی کی ہے اوراس کا لحاظ رکھاہے کہ ہرشخص کتاب کے مفہوم کو سمجھ لے اور ضروری اضافات میں اپنی جولانی طبع کامظاہرہ کیاہے۔
چونکہ مولانا جلالی خودایک لائق مفسر تھے اس لیے اضافات میں کہیں کہیں مؤلف سے نہایت ادب کے ساتھ اختلاف بھی کیاہے۔یہ ترجمہ کتابت و طباعت اورکاغذ کے اعتبار سے بہت عمدہ اورلائق تحسین ہے، جوحضرت مفتی عتیق الرحمن صاحب مدظلہ کے علم وفضل، حسن ِذوق اورآپ کے ادارے ندوۃ المصنفین کے سلیقۂ اشاعت کتب کامظہر ہے، مفتی صاحب اس لیے بھی قابل مبارکباد ہیں کہ آپ نے ترجمے کے لیے سیدعبدالدائم صاحب جیسے لائق مفسر اورماہر مترجم کاانتخاب کیا۔
آخر میں مولانا جلالی کی اہم اورمایۂ ناز تالیف کاجس پرموصوف کو بھی ناز تھا۔ تفسیر قرآن عظیم جو’’بیان السبحان‘‘کے نام سے موسوم ہے کاذکر کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ یہ تفسیر وسیم بک ڈپو،فائن آرٹ پریس دیوبند سے۳۰پاروں میں شائع ہوئی ہے، کتابت وطباعت کے اعتبار سے ناقص ہے بلکہ طباعت کتابت سے زیادہ قابل مذمت اورسونے پرسہاگہ ہر ہرپارے کے آخری صفحہ پر اشتہارات ہیں، کچھ پاروں کے آخری صفحات پرفیشن ایبل گھڑیوں،برقعوں اور زیورات کے اشتہارات بھی ہیں، اس پر مولانا مرحوم بھی اظہار افسوس کیا کرتے تھے۔
بیان السبحان موجودہ دور کی بہترین تفسیر ہے جوقدماء کے طرز پرلکھی گئی ہے اورجس میں دلائل نقلیہ وعقلیہ دونوں بیان کیے گئے ہیں۔مولانا نے ترتیب اس طرح رکھی ہے، پہلے ترجمہ آیات قرآنی کابین السطور میں، اس کے بعد تفسیر تفصیلی طورپرجس میں مفسرین کے اقوال بیان کرنے کے بعد قوی قول کوترجیح دی گئی ہے، بعدازاں مقصود بیان یعنی خلاصۂ آیات جونہایت جامع ہوتاہے اورآخر میں اکثرمقامات پررموزواشاراتِ تصوف۔کہیں کہیں نکات اورضروری ہدایات کاعنوان بھی قائم کیاگیا ہے اورکہیں کہیں اپنی رائے کا بھی اظہار کرتے ہیں لیکن قرآن وسنت واقوال صحابہ کی روشنی میں بقدرِامکان غورکرکے کلام الہٰی کے سربستہ راز سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔مولانا تحریر فرماتے ہیں کہ ہم کو انہی کی(یعنی صحابہ)کی پیروی کرتے ہوئے قرآن مجید کے معارف جاننااور کلام پاک کی تفسیر سمجھنا فرض ِقطعی ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن موجودہ دور کی بہترین تفسیر ہے، اس کی عبارت میں روانی وشگفتگی ہے، زبان کے اعتبار سے بھی اعلیٰ درجے کی ہے۔ اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد کاترجمان القرآن بھی ایک عظیم تفسیر ہے بلکہ علماء کی رائے ہے کہ نقش اوّل مولانا آزاد کاترجمان القرآن ہے اورنقش ثانی مولانا مودودی کی تفہیم القرآن اضافات کے ساتھ،لیکن باعتبار کثرت اقوال مفسرین وطریقۂ متقدمین اوررموز تصوف،مولانا جلالی کی تفسیر منفرد ہے۔یہ تفسیر عوام ہی کے لیے نہیں بلکہ اس سے خواص بھی جن میں طلباء واساتذہ اورصوفیاء بھی شامل ہیں استفادہ کرتے ہیں۔ایک اقتباس بطورنمونہ ملاحظہ ہو:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ (البقرہ:۱۲۹)
تفسیر:گذشتہ آیات میں رسول پاک صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کوضمنی طور پر دعائے ابراہیمی میں دخل تھا۔حضرت ابراہیم ؑنے صرف امت مسلمہ کے لیے دعا کی تھی۔اس آیت میں حضرت ابرہیم ؑصراحتہً اپنی دعا میں حضورِگرامی کاتذکرہ کرتے ہیں اوراس امر کوظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ کعبہ کی حفاظت اور نگہداشت امت مسلمہ کرے گی، لیکن امت مسلمہ کوضرورت ایک سردار کی ہوگی جوہرطرح سے اس امت مرحومہ کی قیادت کرے گا اورتمام سعادت وبرکات اسی کے چشمۂ فیض سے وابستہ ہوں گی۔مطلب یہ ہے کہ الہٰی امت مسلمہ کے لیے ایک رسول انہی میں سے مبعوث فرمانااوریہ رسول نہایت عظیم الشان عالی مرتبہ ہو، اس کے اندر وہ اوصاف واخلاق اورنورو معارف موجود ہوں جس سے عام و خاص، جاہل وعالم،تاریک دماغ رکھنے والا اورنورِفطری کے حامل سب یکساں فیض یاب ہوں اور ہرشخص اُس کے چشمۂ فیض سے سیراب ہو۔‘‘
یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ یعنی عام لوگوں کوتیری آیات اورمقدس کلام پڑھ کرسنائے، اُن کو شریعت الہٰیہ کے ظاہری احکام بتائے۔
وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰب یعنی جو لوگ عالم ہیں، لیکن علماء میں ان کامرتبہ امتیازی نہیں بلکہ عمومی ہے، توایسے علماء کو وہ کتاب مقدس کی تعلیم دے،احکام اورادلّہ بتائے،فروع واصول سے واقف کرے اور دلائل توحید ونبوت سمجھائے۔
وَالْحِکْمَۃَ یعنی جو لوگ علماء میں امتیازی شرف رکھتے ہیں، قوت اجتہاد کے مالک ہیں، علمی تبحر اوروسعت ِمعارف کی وجہ سے صرف احکام وادلّہ کاعلم ان کے لیے سیرکن نہیں ہے بلکہ اُن کو اسرارِ حقائق کی ضرورت ہے توایسے لوگوں کو اسرار شریعت کی تعلیم دے، حقائق ومعارف الٰہیہ بتائے، رموز کتاب سے واقف کرے۔
وَیُزَکِّیْہِمْ یہ مرتبہ خاصانِ خاص کاہے،اولیائے امت ہی اس مرتبہ سے سرفراز ہیں ان کے نفوس قدسیہ ہوبہ ہوکمالِ نبوت کاآئینہ ہیں، جن کے اندر نورِ نبوت چمکتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ وہ نبی روشن روح رکھنے والوں کے تزکیہ کابھی سبب ہے، اُن کے آئینہ دل میں اپنی روحانی تعلیم کے پانی سے تمام سیاہی اور زنگ دورکرکے اپنے فیوضِ قدس اورنورِ رسالت سے اُن کومنور کردے۔
مقصودِ بیان:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی اورتمام امت مسلمہ، حضرت ابراہیم ؑواسماعیل ؑکی دعا کانتیجہ ہے۔
امت اسلامیہ میں چار طبقات ہیں: عام، خاص، خاص الخاص، اخص الخاص۔ عام کی ہدایت کے لیے صرف معجزات اورظاہری آیات قرآنیہ اورفرامینِ نبویہ مخصوص ہیں۔ خاص کی ہدایت کے لیے احکام،ادلّہ،فروع و اصول،دلائل توحید وبراہینِ رسالت کاعلم ضروری ہے۔خاص الخاص کے افادے کے لیے اسرار شریعت،حقائق ومعارف اوررموز کی تعلیم ضروری ہے۔
اخص الخاص میں تخلیۂ رذائل اورتحلیہ بالفضائل کامادہ توموجود ہی ہوتاہے اُن کی روحیں سعید اور دل مادۂ ہدایت سے لبریز ہوتے ہیں، لیکن تخلیہ کے بعدان کے قلوب کی صفائی اورتجلیہ وتزکیہ کی بھی احتیاج ہے، اور یہ سب کام جس حسن و خوبی سے حضوراقدس ﷺ نے انجام دیے وہ عدیم النظیر ہیں۔حضوروالا اشرف المخلوقات،اشرف الانبیاء اورخاتم النبین ہوئے۔ سچ ہے۔
کَلَّمِوُ االناَّسَ عَلیٰ قَدْرِ عُقُولِھِم،آیت[ یہ آیت نہیں ہے۔ مرتب] میں ایک لطیف تلمیح اس طرف بھی ہے کہ ہرشخص کافرض ہے کہ وہ ہر مرتبے کوطے کرکے اوپر والے درجے میں پہنچنے کی کوشش کرے تاکہ انتہا پرپہنچ کرکمالات محمدیہ کامکمل آئینہ اورمجسمۂ اخلاق بن جائے۔اسی لیے حضوراکرم ﷺ نے فرمایا کہ علماء امتی کأنبیاء بنی اسرائیل۔
آخر مولانا واستاذنا حضرت سید عبدالدائم صاحب کی زندگی کے متعلق چند ضروری معروضات اوربعض حضرات کے سوالات کے جوابات بھی عرض کر دوں۔ مولانا مرحوم کبھی بھی طالب شہرت نہیں ہوئے، اسی لیے وہ عوام میں ایسی شہرت و قبولیت حاصل نہ کرسکے جس کے وہ مستحق تھے۔خواص میں وہ ضرور ایک مشہور ومستند عالم تھے، لیکن یہ شہرت بھی بہت زیادہ نہیں تھی، اپنے بے پناہ علم و فضل کے اعتبار سے دوسرے عظیم ومشہور علماء کی طرح وہ بلند مقام حاصل نہ کرسکے، جس کاانھیں استحقاق تھا، اس میں علاوہ خواہش وطلب شہرت نہ ہونے کے دوسرے موانع بھی ہیں۔
۱)گوشہ نشینی،عوام سے ربط زیادہ نہ ہونا۔
۲)اظہار صداقت وبیباکی جس سے عوام توعوام خواص بھی گھبراتے تھے۔
۳)جلال ِسادات۔
ایک بات اوربھی عرض کردوں، پیراں نمی پرند ومریداں می پرانند،مولانا کی پشت پرکوئی ایسا مدرسہ یاجماعت نہیں تھی جواُنھیں اُن کاصحیح مقام دلاتی اوراُن کے علم وفضل کاپروپیگنڈہ کرتی۔
حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا، جس کا میں نے بارہا مشاہدہ بھی کیاہے کہ نہایت قابل لوگ بھی اور ایسے حضرات بھی جوہر وقت مباحثے کے لیے تیار رہتے تھے، مولانا سے علمی گفتگو کرتے ہوئے گھبراتے تھے، اور اُن کے منطقی دلائل سے لاجواب ہوجاتے تھے، نیز بریلوی ودیوبندی دونوں مکاتب فکر کے علماء اُن کااکرام اوراعتراف علم وفضل کرتے تھے یااعتراف کرنے پر مجبور تھے۔
ایک شیعہ عالم ومجتہد کاواقعہ مجھے یاد ہے، موصوف کانام تھا مولانا محسن نواب کے جو عربی کے لائق ادیب بھی تھے اور عراق میں بارہ سال رہ کر تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے جدید عربی بولنے اور لکھنے پر قدرت تامہ رکھتے تھے، میں نے ان سے عربی شعر کی کتاب حماسہ پڑھی ہے، اکثر اشعار کا ترجمہ عربی میں ہی کیا کرتے تھے۔ مولانا محسن نواب صاحب مدرسہ عالیہ رامپور میں پرنسپل کے عہدے پر فائز تھے اور مولانا جلالی کے استاذدرجۂ فاضل، شیخ القراء قاری عبدالواحد صاحب نے اپنی سندِ قرأت جدید عربی اسلوب کے مطابق ترمیم کے لیے میرے ذریعے مولانا محسن نواب کے پاس بھیجی لیکن موصوف نے یہ سن کر کہ مولانا جلالی بنظر اصلاح یہ سند ملاحظہ فرماچکے ہیں، ترمیم واصلاح سے یہ کہہ کر سختی سے انکار کردیا کہ ایک بزرگ عالم کی اصلاح ومعائنہ کے بعد میں ہرگز اصلاح نہیں کروں گا، ایک لفظ کے بھی اضافہ کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ مضمون نامکمل رہے گا اگر مولانا جلالی مرحوم کی زندگی کے مندرجہ ذیل گوشوں پر روشنی نہ ڈالوں۔
مولانا مرحوم کے نزدیک مسلمانوں کی اقتصادیات شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں سدھارنے کاکام بہت اہم تھا، وہ ہمیشہ اپنی گفتگو میں اس بات پربہت زور دیتے تھے کہ تعلیمات اسلامی کے مطابق مسلمان کامالی نظام ہونا چاہیے، وہ فرماتے تھے کہ عبادات،نماز وروزے کے ساتھ ساتھ معاملات کی درستگی پربھی زور دینا چاہیے کہ یہ بھی عبادت ہے اوردلیل عقلی سے ثابت کرتے تھے کہ اسلام کا معاشی نظام دنیا کے ہراقتصادی ومعاشی نظام کو چیلنج کرتاہے کہ اس سے بہتر معاشی نظام کسی بھی ازم کے پاس نہیں ہے اوراس سے مکمل طورپر مسلمان اپنی پسماندگی دور کرسکتا ہے۔ ایک مرتبہ مولانا نے حضرت محمد یوسف صاحب امیرجماعت تبلیغ سے کہا تھا کہ مولانا آپ اپنی تبلیغی سرگرمیاں صرف پابندی نماز و روزہ اورچلّہ وگشت تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اپنے نصاب تبلیغ میں مسلمانوں کے مالی نظام کی اصلاح کوبھی شامل کرلیں، جولوگ گشت یا چلہ کے لیے کسی آبادی میں جائیں ان کے ذمہ یہ بھی قرار دیں کہ وہ تلاش کریں کہ اس گاؤں یامحلے میں کوئی ننگا بھوکا تونہیں ہے، اگرہے تو اس کی ضرورت وہاں کے رہنے والے دوسرے مالدار وصاحب حیثیت افراد سے پوری کرائیں۔ مولانا یوسف صاحب مرحوم ومغفور نے اس رائے سے اتفاق کیاتھا اور فرمایا تھا کہ اس کی افادیت و ضرورت سے انکار نہیں ہے اورمیں اس سلسلے میں غور کروں گا۔
دوسری اہم بات، مولانا جلالی موجودہ دور کے جدید مسائل کوتعلیمات اسلامی کی روشنی میں بہت عمدہ طریقے سے حل فرماتے تھے اسی لیے وہ سائنس کی تعلیم کو بہت اہم قراردیتے تھے، اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نئی نسل کے نیاذہن رکھنے والے جدیدیت پسند یا عقلیت پرست حضرات بھی مولانا کے پاس آتے تھے، ا ور مولانا کی گفتگو سے متاثرہوتے تھے، مولانا کبھی ایسے حضرات کی دل آزاری نہیں کرتے تھے، ان کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے تھے اور اپنی مدلل گفتگو سے انھیں قائل اوراُن کے شکوک کورفع فرمادیتے تھے نیز انھیں مسائل حاضرہ کوشریعت اسلامیہ کی روشنی میں سوچنے پرمجبور کردیتے تھے۔
عمر کے آخری حصے میں مولانا مرحوم مدرسہ عالیہ فتح پوری(دہلی)میں استاذ اور مفتی رہے۔ میں اپنامقالہ مولانا کے عزیزساتھی قاری سید محمد میاں استاذ مدرسہ عالیہ فتح پوری کے اس قول پرجو موصوف نے مولانا مرحوم کی وفات کے دوسرے روزکہا تھا ختم کرتاہوں، قاری صاحب نے فرمایا کہ کل علم کی ایک تاریخ لپٹ گئی۔تغمدہ اﷲ فی فسیح جناۃ۔ [محمد نظر علی خاں رام پوری، مارچ۱۹۸۴ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...