Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338828

Access

Open/Free Access

Pages

202

آہ!مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی
ترکش ماراخدنگ آخریں!
اس خامۂ حرماں نصیب نے برہان کے ۴۵ برس کے دور زندگی میں نہ جانے کتنے مشاہیر عالم و نامور ان روزگار کی وفات پرماتم سرائی کی اوران کے درد و فراق میں رنج والم کے آنسو بہائے ہیں، لیکن واحسرتا!آج اسے اس عظیم شخصیت کی جدائی پرنوحہ خوانی کرناہے جو خود ندوۃ المصنفین کی بانی مبانی تھی اور جس کانقش گرم برہان کے اپنے وجود وبقا کاضامن اوراس کاکفیل تھا یعنی حضرت مولانامفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی جو طویل علالت کے بعد ۱۲/مئی۱۹۸۴ء کو ساڑھے تین بجے بعدظہر جان جان آفریں کوسپرد کرکے رحلت گزائے عالم جاودانی ہوئے، ۱۳ مئی کودلی کی جامع مسجد میں ۸بجے صبح کو نمازجنازہ ہوئی جس میں مسلمانوں کے ہرطبقہ اورہرجماعت کے ہزاروں عقیدت مندوں نے شرکت کی اور مہندیوں کے قبرستان میں جسے شاہ ولی اﷲ دہلوی اورآپ کے خانوادۂ گرامی نے برصغیر کاجنت البقیع بنادیاہے، تدفین ہوئی۔اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
مفتی صاحب کی ذات اورشخصیت ایسے اوصاف وکمالات کی جامع تھی جن کا فی زمانہ شخص واحد میں جمع ہونا شاذونادرہی ہوسکتاہے۔آپ دیوبند کے نامی گرامی خاندان عثمانی کے چشم وچراغ تھے جواپنے علمی و دینی امتیازات و خصوصیات کے باعث نہ صرف قصبہ میں بلکہ پورے ضلع میں نہایت ممتاز رہا ہے، مفتی صاحب کے جد امجد مولانا فضل الرحمن دارالعلوم دیوبند کے چار بانیوں میں سے ایک تھے اورخود بڑے صاحب علم وفضل تھے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے جو اولاد ذکور عطافرمائی ان میں شیخ المشائخ حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی، شیخ الاسلام پاکستان حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اورحضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند بھی تھے جو آسمان علم وفضل اورافق شریعت وطریقت پرآفتاب وماہتاب بن کر چمکے اور ایک عالم کو اپنی ضیابخشیوں سے منور کرگئے۔ ان ہر سہ اصحاب ثلاثہ میں موخر الذکر دونوں بزرگ لاولد تھے البتہ حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے دو بیٹے اورمتعدد بیٹیاں عطافرمائیں۔ان دو بیٹوں میں بڑے صاحبزادہ مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی تھے اور ان کے برادر خورد قاری جلیل الرحمن عثمانی ہیں جو دارالعلوم دیوبند میں درجہ تجوید وقرأت کے پرانے استاد ہیں۔
مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی بچپن سے ہی بڑے ہونہار تھے، نہایت ذہین وذکی،لکھنے پڑھنے کے شوقین،طبیعت کے نیک اورصالح،ان اوصاف کے باعث حضرت مفتی صاحب کوآپ سے بڑی محبت تھی اورآپ نے ان کی تعلیم و تربیت پرخصوصی توجہ مبذول فرمائی، چنانچہ سب سے پہلے آپ نے قرآن مجید تجوید و قرأت کے ساتھ حفظ کیا پھردارالعلوم کے درجۂ فارسی میں داخل ہوئے تو اس درجہ کے صدر مولانا محمد یسیٰن صاحب تھے، یہ فارسی کے نامور اوربڑے لائق و فاضل استاد تھے، مفتی صاحب نے ان سے خاطرخواہ استفادہ کیا جس کی وجہ سے ان کافارسی ادب اور شعروشاعری کاذوق اعلیٰ اوررگ رگ میں رچابسا تھا۔ فارسی درجہ کی پنج سالہ تعلیم کی تکمیل کے بعد مفتی صاحب عربی کے درجہ میں داخل ہوئے توسبحان اﷲ!یہاں کا عالم ہی کچھ اور تھا۔ یہ زمانہ دارالعلوم کے شباب اور اوج کمال کاتھا۔ہراستاد اپنے فن میں نابغہ روزگار اورمیدان تعلیم وتربیت کا شہسوار، علم وفضل، تقوی وطہارت اورعلوم کے درس کی وہ گرم بازاری تھی کہ پورا برصغیر اس کے زمزموں سے گونج رہا تھا۔مفتی صاحب نے اپنی خدادادذہانت و ذکاوت اورشوق وذوق طلب علم کے باعث اس سرچشمۂ فیوض وبرکات سے سیرابی وکام جوئی میں کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھا، نتیجہ یہ ہواکہ ہردرجہ میں اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہوتے چلے گئے اورآخر میں دورۂ حدیث میں بھی فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔
طالب علمی سے فراغت کے بعد ان کودرس اورافتاء کی خدمات سپرد کی گئیں، حسن تقریر کا ملکہ خداداد تھا اور استعداد پختہ، جلد ہی مدرس اورمفتی کی حیثیت سے دارالعلوم میں ان کی شہرت ہوگئی، پھر حضرت شاہ صاحب اور دوسرے اکابر کے ساتھ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں منتقل ہوئے تو وہاں طبقۂ علیا کے استاد اور مفتی کی حیثیت سے یہ دونوں خدمات بہ حسن وخوبی انجام دیتے رہے۔ ڈابھیل میں چندبرس قیام کے بعدکلکتہ پہنچے، وہاں کولوٹولہ اسٹریٹ کی مسجد میں برسوں خطیب رہے اورساتھ ہی درس قرآن کامشغلہ جاری رہا۔قیام کلکتہ کے زمانہ میں ہی انھوں نے اسلامیات پرمعیاری کتابوں کی تصنیف وتالیف اور ان کی عمدہ کتابت وطباعت کے ساتھ اشاعت کی غرض سے ایک ادارہ قائم کرنے کا منصوبہ بنالیا۔ چنانچہ۱۹۳۷ء میں وہ دہلی آگئے اوریہاں ندوۃ المصنفین اور مجلہ ’برہان‘ کی بنا ڈالی، ان برسوں میں اس ادارہ اوراس کے مجلہ نے علم ادب اور اسلامیات کی جوعظیم الشان خدمات انجام دی ہیں وہ سب پر روشن ہیں۔یہ سب کچھ بلاشبہ مفتی صاحب کی غیرمعمولی قوت عمل،جذبہ،فہم وفراست اورحسن نظم و نسق کے باعث ممکن ہوسکا۔
ایک انسان کا زندگی میں عظمت اور کامیابی حاصل کرنا تین چیزوں پر موقوف ہے: جذبہ،شعوراور قوت عمل، مفتی صاحب میں یہ تینوں اوصاف بدرجۂ اتم تھے۔ دارالعلوم کی روایات کے مطابق استخلاص وطن کاجذبہ شروع سے تھا اس لیے انھوں نے کانگریس کی تحریک آزای اوراس سلسلے میں اس کے منصوبوں اورپروگراموں کی ہمیشہ تائید واعانت کی۔ جمعیت علمائے ہند کے صف اوّل کے زعما میں ان کاشمار ہوتا تھا۔ ۱۹۶۲ء میں صدارت کے معاملہ میں ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی تو وہ جمعیت سے کنارہ کش ہوگئے اوراب آل انڈیا مجلس مشاورت ان کی عملی سرگرمیوں کی جولانگاہ بن گئی۔ مفتی صاحب کی شخصیت اورملک میں ان کے وقار اورحیثیت سے ہرطبقہ اورہرجماعت کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا لیکن مفتی صاحب جس کھلے دماغ کے انسان تھے اس کا ساتھ بہت کم لوگ دے سکے اس لیے افسوس ہے کہ مجلس مشاورت میں کھنڈت پڑگئی اور اس کے متعلق مفتی صاحب کاخواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا جس کارنج ان کوآخر تک رہا۔
مفتی صاحب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایک پختہ استعدادکے وسیع النظر عالم دین ہونے کے باوصف ایک بلندپایہ سیاسی رہنما بھی تھے، جوبات کہتے دماغ سے اتار کرکہتے تھے، تقریر اورتحریر دونوں کااسلوب بڑا دل نشیں اور موثر ہوتا تھا۔اسلامی معاشرہ اورعام پبلک میں ان کابڑا اعتبار تھااور دوسری جانب گورنمنٹ بھی ان کا بڑالحاظ رکھتی اوران کی عزت کرتی تھی۔ وہ نہایت بے لوث وبے غرض، حددرجہ خوددار،حق گو اوربیباک انسان تھے انھوں نے اپنے اثرورسوخ سے ہزاروں کوفائدہ پہنچایا مگر کبھی کسی سے فائدہ کی امید نہ باندھی، وہ اگر پسند کرتے توگورنمنٹ سے انھیں کیا کچھ نہ مل سکتا تھا لیکن جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کااندیشہ ہو مرحوم کوطبعاً اس سے نفرت تھی، اخلاق و شمائل اورعادات وخصائل کے اعتبارسے وہ بڑے پاکیزہ سرشت اوربلند مرتبہ انسان تھے۔ عمر۸۴برس کی ہوئی۔ ان کی وفات بے شبہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم حادثہ ہے جس کوجلد نہ بھلایا جاسکے گا۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ وبرد مضجعہ۔
پس ماندگان میں ایک اہلیہ جوکم و بیش اٹھارہ برس سے خودصاحب فراش اور سخت علیل ہیں اورچاربیٹے اورایک بیٹی ہیں۔سب سے بڑے بیٹے مجیب الرحمن عرصہ سے حبشہ میں برسرروزگار ہیں، باقی سب اولاد یہیں دلّی میں ہے، ان میں سے دوسرے بیٹے منیب الرحمن اپنا کاروبار کررہے ہیں، سب سے چھوٹے فرزند نجیب الرحمن سرکاری ملازمت میں ہیں، تیسرے بیٹے عمیدالرحمن نے ادارہ اوربرہان کے نظم ونسق سنبھال رکھاہے اورماشاء اﷲ بڑی سوجھ بوجھ اور محنت سے کام کررہے ہیں، صاحبزادی اپنے دونوں بچوں کے ساتھ ہمیشہ مفتی صاحب کے ساتھ رہی ہیں اورتمام خانگی انتظامات انھیں کے سپرد رہے ہیں، ان کے شوہر مولوی اظہر صدیقی ہیں، وہ بھی یہیں رہتے ہیں۔ مفتی صاحب کی سوا دو برس کی شدید علالت کے زمانہ میں ان سب نے اورخصوصاً صاحبزادی نے خانہ داری کی ذمہ داریوں کے ساتھ مفتی صاحب مرحوم کی جوخدمت دن رات ایک کرکے کی ہے اس کی مثال شاذونادر ہی ملے گی۔دعاہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کاحامی وناصر ہواوراپنے حفظ وامان میں رکھے۔آمین
برہان کی کاپیاں پریس کو جانے والی تھیں کہ یہ حادثۂ فاجعہ پیش آگیا، اس لیے کتابت شدہ نظرات کو روک کر یہ چند سطریں رواروی میں لکھ دی گئیں ہیں، ورنہ مفتی صاحب پر ایک مضمون ان شاء اﷲ جلد ہدیۂ ناظرین ہوگا جس میں راقم مفتی صاحب سے اپنے ساٹھ برس کے عمیق تعلقات کی دلچسپ مگر صبر آموز داستان سنائے گا۔ [مئی۱۹۸۴ء]
ّّ__________________
حضرت مفتی عتیق الرحمن عثمانی کی رحلت پر ملت اسلامیہ سوگوار
گذشتہ ماہ قارئین برہان پڑھ چکے ہیں کہ علم واخلاق اوررشد ہدایت کاجو آفتاب عالم تاب آج سے۸۴سال پہلے دیوبند کے افق پر طلوع ہوا تھا وہ اپنی نورانی کرنوں، روحانی واخلاقی ضیا پاشیوں،ملی وملکی خدمتوں اورانسانی ہمدردی و غمگساری کے جوہردکھا کر،تقریر وخطابت اورتصنیف وتالیف کے میدانوں میں گراں قیمت ضوفشاں چراغ روشن کرکے اورتحمل وبردباری،اخلاق و شائستگی،بے نفسی اور عفو و درگزر کے تابندہ نقوش ثبت کرکے۱۲/مئی ۱۹۸۴ء کوغروب ہوگیا۔ اس طرح ایک زریں عہد، ایک شاندار تاریخ، اورایک ایسے تابندہ و روشن دور کا خاتمہ ہوگیا جس کے ہرموڑ، ہررخ اور ہرپہلو میں شرافت و وضعداری،انسانیت دوستی اورسیرچشمی ونرم گفتاری کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی وحق گوئی کی لافانی نور افشاں اورتابناک شمع روشن تھی۔
حضرت مفتی صاحبؒکے انتقال کی خبردہلی کے اندر اوراخبارات اورریڈیو وغیرہ کے ذریعہ ملک کے تمام صوبوں بلکہ بیرون ملک بھی بہت سی جگہوں پرہوگئی ہرجگہ دینی،علمی اورملی حلقوں کوتڑپا گئی۔آپ کووصال ۳بج کر ۲۰منٹ پرہوا اور ۴بجے حاجی کرامت اﷲ نے مکہ مکرمہ میں بذریعہ فون عالم اسلام کی معروف و برگزیدہ شخصیت حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کویہ اطلاع دی۔آپ کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو اس حادثۂ فاجعہ کی اطلاع ہوئی اوراسی وقت سینکڑوں لوگوں نے حضرت مفتی صاحب کے ایصال ثواب کے لیے طواف کیا۔
علی میاں مدظلہ ، نے سعودی ریڈیو سے ایک تقریر فرمائی جس میں حضرت مفتی صاحب ؒ کے علمی کارناموں،ملی خدمتوں،اخلاقی وانسانی اوصاف اوران کی منفرد وممتاز صلاحیتوں اورعظمتوں کاتذکرہ فرمایا۔ان کی وفات کوملتِ اسلامیہ کا ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔مدینہ منورہ میں بھی کافی حضرات نے ختم کلام اﷲ در ایصال ثواب کا اہتمام کیا۔حق تعالیٰ سب حضرات کوجزائے خیر عطا فرمائے۔ دہلی،میرٹھ،غازی آباد،دارالعلوم دیوبند، لکھنؤ، بریلی، کلکتہ، حیدرآباد، بہار، مدراس اورگجرات کے کئی شہروں اور مدارس اسلامیہ میں حضرتؒ کے لیے ایصال ثواب اورجلسہ ہائے تعزیت کیے گئے۔ اخبارات نے بھی آپ کے سلسلہ میں تعزیتی مضامین اوراداریہ وغیرہ شائع کیے۔افریقہ، لندن اوردوسرے ملکوں سے بھی اس قسم کی اطلاعات مل ہیں جن کا سلسلہ برابرجاری ہے۔
۱۲/مئی سے اس وقت تک یہ بات ہرحساس وباشعور قلب وروح کومحسوس ہوئی کہ حضرت مفتی صاحب کے وصال سے ملی وقومی،اسلامی اوردینی اداروں کے سرپر ایک ایسا شجر سایہ دار کاسایہ اٹھ گیا ہے جوبڑے بڑے طوفانوں،تیزوتند آندھیوں اوربادسموم کے جھکڑوں سے ان سب کی حفاظت کاباعث تھا۔اب زندگی کی تپتی ہوئی دوپہر میں کوئی سایہ نظرنہیں آتا۔حق تعالیٰ اپنی رحمتوں کے سایہ سے ہم سب کو،پوری ملت کواورخاص طورپر ان کے خونِ دل وجگر سے سینچے ہوئے گلشن علم وادب__ندوۃ المصنفین__ کومحروم نہ فرمائے، ہرشراور نقصان سے اس کی حفاظت فرمائے اورہم سب کوحضرت مفتی صاحب کے روشن و منور نقوش قدم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
[محمد اظہر صدیقی، جون۱۹۸۴ء]
__________________
مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ
ایک سال بیت گیا __۱۲ ؍مئی ۸۴ء کودن کے تین بجے__ جب آسمان پر سورج اپنی پوری تابانیوں ،حرارت اورتمازت کے ساتھ چمک رہاتھا__ٹھیک اُس وقت ایک آفتاب درخشاں اور ماہتاب ضوفشاں غروب ہوگیا جوعلم ودین، شریعت وطریقت، اخلاق وشرافت کی روشن روایات، تفقہ فی الدین، دانشمندی و فراست، دُور اندیشی و بصیرت کے آسمانوں پرگذشتہ تریسٹھ سال سے چمک رہا تھا۔ اوراپنی زرتاب کرنوں سے زندگی کے بہت سے میدانوں اورعلم ودین، دانش وبینشن کے ایوانوں ،ادب وانشا کی محفلوں، تصنیف وتالیف کے چمنستانوں کو برابر اور مسلسل منّور کررہا تھا۔ یعنی ملّتِ اسلامیۂ عالم کے مخلص رہنما خادم انسانیت مفکّر ملّت مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی ؒ ۸۳ سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے رُخصت ہوگئے۔
ہاں وہ آفتابِ درخشاں غروب ہوگیا جس کی زرتاب کرنوں نے تاریخ کے صفحات کواخلاص وایثار، خدمتِ خلق قرآن وسنت کی ترویج واشاعت کے بہت سے روشن اور گراں مایہ نقوش عطاکیے تھے،آہ وہ آفتاب جس کی بدولت اور جس کی مخلصانہ کوششوں سے کتنے نوجوانوں کے ذہن وفکر کے اُفق روشن ہوئے تھے،ان کو زندگی کے میدانوں، علم وادب کے شبستانوں اوردرس وتدریس کے مسندوں کی رونق بننے کی صلاحیت ملی تھی۔
بلاشک وشبہ حضرت مفتی صاحبؒ کی زندگی قیمتی__ قیمتی زندگی __ جہد مسلسل اور کوششِ پیہم کانمونہ تھی۔ وہ ملّت کی تعمیر واصلاح کے اہم مقصد میں اور علم ودین کی ترویج واشاعت میں اس طرح لگے رہے کہ کوئی لمحہ بے فکری کا باقی نہیں رہا، اس لیے کہ وہ اس نبی برحق ﷺ کے شیدائی اور پیروتھے جو رحمت للعٰلمین تھا، معلّم اخلاق تھا، محسنِ انسانیت تھا__راہ کی دشوارگذاریاں، پیچ وخم __راستہ کے نشیب وفراز اورناہمواریاں ان کے پائے عزم وثبات میں کبھی لغزش نہ لاسکیں۔ ان کاعقیدہ تھاکہ زندگی کے آخری سانس تک ملّتِ اسلامیہ اور پوری انسانیت کی خدمت کے میدان میں پیہم،مسلسل اور لگاتار سرگرم عمل رہنا اس اُمت کے فرد کی حیثیت سے ان کا مقصدِحیات اورفریضہ ہے جوخالقِ کائنات کی طرف سے خیر اُمت کے اہم لقب کے ساتھ اس زمین کے اوپر بھیجی گئی ہے۔
لاریب__!کہ مفتی صاحب مجسم محبت تھے، مجسم شرافت تھے، ان کا قلب اک ایسا صاف وشفاف آئینہ تھاجس پرکسی کی بُرائی کاکوئی معمولی سابھی داغ نہ تھا، تنگ نظری وتنگ دلی سے وہ کوسوں دُور رہے، وہ اسلاف واکابر اور روحانیت کے تاجدار بزرگوں، اولیائے کرام اور علمائے اسلام کے اس بلند و مقدس قافلہ کی یادگار تھے جس کے بغیر ہماری شاہراہ علم وعمل تنگ وتاریک دکھائی دیتی ہے۔وہ عظمت کامنار بھی تھے ،علم وتفقہ کاپہاڑ بھی تھے، فکر وتدبر کاایسا روشن چراغ بھی تھے جس کی لَو آندھیوں کامقابلہ کرتی ہے ،طوفانوں اورسیلابوں کی تباہ کاریوں کے سامنے سینہ تانے کھڑی رہتی ہے اور گھٹا ٹوپ اندھیاروں میں روشنی پیدا کرتی ہے__ہاں__! وہ چراغِ ضوفشاں جوزبانِ حال سے یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ ؂
جلتے رہے ہم تُند ہواؤں کے مقابل
آزاد چراغِ تہہ داماں نہ رہے ہم
حضرت مفتی صاحبؒ ہندوستان کے انقلابی علماء کے اس گروہ میں شروع سے ہی شامل رہے جس کے متعلق مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک تاریخی موقع پر اجلاس جمعیۃ علمائے ہند منعقدہ کراچی ۱۹۳۰ء میں مہاتماگاندھی کومخاطب کرتے ہوئے اوراُن سے علمائے ہند کا تعارف کراتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ:
’’__گاندھی جی__ ! آپ کے سامنے یہاں جویہ بوریہ نشین علما بیٹھے ہوئے ہیں اُنھوں نے انقلابِ فرانس نہیں پڑھا لیکن میں آپ کویقین دلاتا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں میں اور پورے ملک میں اِن سے بڑی انقلابی جماعت کوئی دوسری موجود نہیں ہے___‘‘
حضرت مفتی صاحبؒ نے۱۹۱۹ء سے ہی ملکی تحریکات میں فکری وعملی حصّہ لینا شروع کردیاتھا اور زندگی کے آخری سانس تک ملک وملّت کی خدمت کرتے رہے۔
بلاشک وشبہ وہ مُدبّر تھے،مفکّر تھے اورسیاسی بصیرت اور ملکی وبین الاقوامی معاملات میں بلند پایہ فہم وفراست رکھتے تھے مگروہ اس قسم کے سیاست داں نہیں تھے جس کے متعلق ایک مغربی مفکر کاقول ہے کہ ’’سیاست داں صرف اپنی ذات کے لیے سوچتا ہے۔‘‘ یاگذشتہ سال ہمارے نائب صدر جمہوریہ کایہ مقولہ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں شائع ہواتھا کہ ’’اک سیاسی لیڈر اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے جب کہ سیاسی مُدبّر اگلی نسل کے لیے سوچتا ہے۔‘‘
بلاشک وشبہ حضرت مفتی صاحب ؒ ایسے سیاسی مدبّر ومفکر اور دانشور تھے جن کی نگاہیں دُنیائے انسانیت کے مستقبل پرلگی رہتی ہیں اورجن کے دل ودماغ اور ذہن وفکر کی ساری توانائیاں حال کوسنوارنے ،اس کے پیچیدہ مسئلوں اوراُلجھی ہوئی گتھیوں کوسلجھانے کے لیے وقف رہتی ہیں،آنے والی نسلوں کی فکر بھی دامن گیر رہتی ہے اور مستقبل کوتابناک بنانے کی دُھن اور لگن سے بھی وہ خالی نہیں ہوتے۔ الیکشنی سیاست سے حضرت مفتی صاحب کی دلچسپی صرف اسی حدتک رہتی تھی ان کی خواہش اورکوشش ہوتی تھی کہ ملک کے قانون ساز اداروں میں ایسے صاف ذہن وسیع قلب، سیکولر مزاج انصاف پسند لوگ کامیاب ہوکر پہنچیں جو ملک کی جمہوری وسیکولر اسپرٹ کے مطابق عدل وانصاف کے تقاضوں کی تکمیل کرسکیں اورخاص طور پراقلیتوں کے سلسلہ میں جن کے دل ودماغ ہمدردی و دل سوزی کے جذبات سے لبریز ہوں، اس سلسلہ میں اپنے اثرات، مشوروں، کوششوں اور جدوجہد میں وہ کبھی تامل وکوتاہی نہ فرماتے تھے،ایسے نازک وقت بھی آئے جب اک خاص قسم کی فضا ملک میں ایسی قائم ہوئی اورایسا ماحول سیاسی بازیگروں نے بنادیا جس میں سچّی بات کہنا اور مذہب وفرقہ کی سطح سے بلند ہوکر کسی سیکولر مزاج اُمیدوار کی حمایت کرنا اک صبر آزما کام ہوگیا۔مگریہ مفتی صاحبؒ کادل گردہ تھا،ان کی جرأت وہمّت کاکمال بھی تھا، ان کی حق پرستی کا ثبوت بھی تھا اوران کی دُور اندیشی وبصیرت کامظاہرہ بھی کہ ایسے ماحول میں بھی اُنھوں نے مناسب وموزوں اُمیدواروں کی حمایت فرمائی چاہے اس کی وجہ سے کچھ سیاسی رہنماؤں کی پیشانیاں شکن آلود ہوگئیں اور ع
کچھ خاص دوستوں کے چہرے بھی اُترگئے
آج ملتِ اسلامیہ ہند کونہایت نزاکتوں کاسامنا ہے ،دشوارگذار راستوں سے گذرتے ہوئے اس کو ۳۸ سال کاعرصہ گذرچکا ہے مگرافسوس کہ امن وسکون کی وہ منزل اس سے دُور ہی دُور ہوتی چلی جاتی ہے جس پر پہنچ کروہ اپنی سماجی اورانسانی ڈیوٹی اورتعمیر وترقی کی ذمہ داریاں پوری کرسکے اوردُنیا کودکھا سکے کہ مسلمان جب انسانیت کی خدمت کے میدان میں قدم رکھتا ہے تواس کے ہرقدم سے ایسے روشن نقش اُبھرتے چلے جاتے ہیں جو مورخوں کی رہنمائی کافرض انجام دیتے ہیں مصلحین کوطریقِ کار بخشتے ہیں اور خدمت انسانی کے راستہ کے مسافروں کے لیے مشعل راہ بنتے ہیں ۔مگر افسوس کہ اس ملک میں مسلمانوں کو امن وعافیت اورسکون واطمینان کی وہ منزل نصیب نہیں ہو پائی جہاں پہنچ کراس کی افادیت کے جوہر کھل سکتے ۔زندگی کے موڑ، حالات کی کروٹیں اوروقت کی رفتار یہ کہنے پرمجبور کرتی ہے کہ ؂
یہ کیسی منزل ہے کیسی راہیں کہ تھک گئے پاؤں چلتے چلتے
مگروہی فاصلہ ہے قایم جوفاصلہ تھا سفر سے پہلے
مگر حضرت مفتی صاحب ؒ کے درج ذیل خیالات وافکارملاحظہ فرمایے کہ وہ کس حوصلہ ، اُمنگ ولولہ اورہمّت کے جوہروں سے لبریز ہیں اورمایوس سے مایوس کمزور سے کمزور دل ودماغ کوبھی عمل کی تلقین کرتے اورعزم وحوصلہ کاپیغام دیتے ہیں:
’’میں ہندوستان کے مسلمانوں سے قطعاً مایوس نہیں۔ان کی ایک ایک بستی میں ایسے سیکڑوں تڑپنے والے دل موجود ہیں جواسلام کوچلتی پھرتی حالت میں ا ور مسلمانوں کواس کا عملی نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ ان تڑپتے ہوئے دلوں کوکس طرح جوڑا جائے۔ ہمارے یہاں الحمداﷲ مسلمانوں کی متعدد تنظیمیں کام کررہی ہیں اوران میں لاتعداد ایسے افراد موجود ہیں جن کے تقدس اورتقویٰ کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔میں اس زوال اور افلاس کے عالم میں پورے دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ مخلص اور بے لوث کارکنوں کاجوسرمایہ مسلمانان ہند کے پاس موجود ہے اس کی مثال اس ملک میں کسی گروہ یا جماعت کے پاس نہیں پائی جاتی،لیکن اُمّت ان جماعتوں سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور اس کی ذمہ داریاں ان سے زیادہ وسیع ہیں جو اب تک ہماری تمام تنظیموں نے لے رکھی ہیں۔اس لیے ہم نے چاہا تھا کہ ہماری ان تمام تنظیموں اوران سے ماورا ہمارے تمام مسالک اور مکاتبِ خیال کے اکابر کاایک فورم ایسا ضرور ہونا چاہیے جہاں ہم بیٹھ کراپنے حالات کاجائزہ لے سکیں ایک دوسرے کے کاموں میں ہاتھ بٹاسکیں اور مشترکہ اُمور میں مل جل کرآگے بڑھ سکیں، مسلم مجلسِ مشاورت اسی فورم کادوسرا نام ہے۔
اپنے ملک کے غیر مسلموں کوہم ایک طرح سے مظلوم سمجھتے ہیں۔وہ عام مسلمانوں سے کچھ مخصوص تاریخی پس منظر کی وجہ سے بدگمان ہیں اور اس بدگمانی کے باعث ان کی اکثر صلاحیتیں اورقوتیں ان مسائل پرصرف ہوتی رہتی ہیں جوصرف ایک پسماندہ اور آپس میں پھٹی ہوئی قوم کاخاصہ ہیں۔ان کی اس سے بھی بڑی مظلومیت یہ ہے کہ ان کی رہنمائی کی باگ دوڑ کسی اخلاقی قیادت کی بجائے سیاسی مفادات، زبان وذات کی خود غرضی اور گروہی اغراض رکھنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں جاچکی ہے۔ایک عام غیر مسلم شہری کے زخمی دل پر پھائے رکھنے والاکوئی نہیں۔ہماری تمنّا تھی کہ مسلمان اس طرح آگے آتے کہ ان غیر مسلموں کے دلوں میں بھی ڈھارس پیدا ہوتی اوروہ سمجھتے کہ چشتیؒ اور محبوبِ الٰہیؒ اورانھیں کی نہیں بلکہ رسول اکرمﷺ اورصحابۂ کرام کے واقعات بیان کرنے والے محض تاریخ انسانی کاکوئی باب نہیں بلکہ مشاہدہ کی آنکھ آج بھی اس سیرت وکردار کو دیکھ سکتی ۔رہا مسلم تنظیموں کامعاملہ تو جماعت کے دائرے سے نکل کراِنھیں اُمّت کاوسیع تر دائرہ میّسر آرہاہے اوراس طرح ان کی صلاحیت کارکو ایک عظیم میدان فراہم ہورہا ہے جہاں وہ باہمی تعاون سے اپنی استعداد اورقربانی کی حدتک آگے بڑھ سکتے ہیں ۔کام اصلاح کاہویا دعوت تبلیغ کا،تعلیمی ہویا اقتصادی اوراس کادائرہ سیاست تک پھیلا ہوا ہویا علم و دانش کے ارتقاء تک ہر ایک کو اپنی اپنی دلچسپیوں کے لحاظ سے پھیلاؤ وسعت اور گہرائی وگیرائی ملتی جاتی اور نئے نئے رفقائے کارفراہم ہوتے۔‘‘
افسوس کہ آج سے __ایک سال پہلے__ تقدیر کے ایک بہت بڑے المیہ سے دوچار ہوکر علم وعمل کے ایک ایسے چراغ سے ہم محروم ہوگئے۔بہت بڑاسہارا تھا جوٹوٹ گیا اب یاس ہے نااُمیدی ہے،غم ہے،سوگ ہے،آنکھوں کی اشک فشانی ہے، دل کی فریاد ہے، نامرادیوں کاڈراورناکامیوں کاخوف ہے۔زندگی کاکارواں چل رہا ہے مگرہرموڑ پربلکہ ہرقدم پرخطرے ہیں اندیشے ہیں جو شب کے پُر ہَول سَنّاٹے میں زندگی کے قافلہ کودرپیش ہیں اور راستہ میں پستیاں بھی ہیں بلندیاں بھی ہیں اور بہت سی ٹھوکریں بھی ہیں۔ سچ ہے بالکل سچ__!کہ وقت کروٹیں بدلتا رہے گا انسان پیداہوتے رہیں گے مگر حضرت مفتی صاحبؒ جیسا مختلف صفات کامجموعہ شخصیت اس دور زبوں حالی اور عہد ِ زوال میں کہاں پیدا ہوگی__؟
دین ودانش، فکر وذہن اورعلم وعمل کے ایک پیکرِ عظیم کااُٹھ جانا قوم کابہت بڑا نقصان ہوتا ہے، حضرت مفتی صاحبؒ کے حلقۂ احباب وارادت اوران کے ہر چھوٹے بڑے واقف کارکا فرض ہے کہ وہ ان روشنیوں کوقائم رکھنے میں بھرپور امدادو تعاون کریں جوحضرت مفتی صاحبؒ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں اورجس کوقائم رکھنے اور جلا دینے کے لیے اُنھوں نے زندگی کی ساری توانائیاں بلکہ اپنا گراں مایہ خونِ دل وجگر صرف کیا__ربِّ کریم وکارساز ہم سب کوان کی روایات ،ان کی یادگاروں اوران کی عظمتوں کوقائم رکھنے کی توفیق دے کہ درحقیقت یہ ہی ہے سچّا،حقیقی اوردرست خراجِ عقیدت اس مفکّر مِلّت کی روح ِ اقدس کوجوعلم کی روشنی تھا، فکروعمل کاچشمہ صانی تھا، اخلاق وہمدردی انسانیت ومحبت کی شمع فروزاں تھا__ اورجو بسترمرگ پربھی ملّت کی تعمیر، دینی اداروں کی ترقی وحفاظت اور ہر انسان کی خدمت واعانت کو وقت کا سب سے بڑاتقاضہ اورسب سے بڑی عبادت سمجھتا رہا۔ اورجس کے فکر وعمل میں اس سچائی کاعکس پوری طرح جھلکتا تھاکہ:
عارضی چیز ہے تسخیرِ ممالک اے دوست
فتح کہتے ہیں جسے قلب کی تسخیر میں ہے
تمام حضرات مخلصین اورذمّہ داران مدارس دینیہ سے خاص طور پر درخواست ہے کہ ماہِ مبارک میں ایصالِ ثواب وبلندی درجات کے لیے دعاؤں کاخاص اہتمام فرمائیں۔ [محمد اظہر صدیقی، مئی ۱۹۸۵ء]
ّّّ_____________
آہ جناب مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ
دوبرس ہاں دوبرس پہلے کی بات
آرہی ہے خودبخود ہونٹوں پہ آج
تھااِسی ماہ مئی میں بارہ کا دن
جب ہوا تھاشیخ کایومِ وفات
اُن کا مسلک تھاہر اک کی عافیت
خویش ہو یا غیر ہو سب کا بھلا!!
بعدازختمِ قرآنِ کریم اور درود،فاتحہ خوانی نیز دعائے مغفرت اورتعزیت کے ایصالِ ثواب برائے روحِ پاک جناب مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی ؒ ساکن کڑانظام جامع مسجددہلی، منجانب مدرسہ دارالاصلاح شاہی مسجد بارگ والی سُوہنہ ضلع گوڑگانوہ ہریانہ برموقعہ اُن کی دوسری برسی بتاریخ ۱۲؍مئی ۱۹۸۶ء بمطابق ۲؍رمضان المبارک (۱۴۰۶ھ)
مرحوم جناب مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ علم وانسانیت کے آفتاب کسرِ نفسی کے جوہرِ انسانیت کے چراغ اﷲ کے عاشق، رسول کے شیدا، فدا کارِ ملّت غرباء پرور، بیکس نواز قوم گیر ملّت ساز، خدا ترس، رحم دل، مشفق، شفیق، انکسارِ سادہ منکسر المزاج، علاوہ ازیں وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ بالخصوص قوم کے ایک ایسے ممتاز ہردلعزیز سچّے قائد جن کی شہرت دہلی سے گزرکر باہر بیرون میں پورے ملک اور ملک سے باہر دورتک پہنچ رہی تھی جس کی بناء پر ان کی زندگی دن بدن روشن ہوتی جارہی تھی اور جس کی وجہ سے اُن کانام اورکام ہمہ گیر اہمیت کامرکز بناہوا تھالہٰذا اسی لیے آج بھی پوری ملّت اُن کے لیے سر پیٹ رہی ہے اور پیٹتی رہے گی۔
دراصل حقیقت یہ ہے کہ مخلص مجاہد، دانشور ،مدبّر، مفکّر، مبلّغ اورسچّا قائد کہ یہ ایسی شخصیتیں ہیں جن کے حسین کردار اور اعلیٰ کارناموں میں ملّت کے وجود کی ضمانت پوشیدہ ہے لہٰذا اسی لیے یہ شخصیتیں ملّت کے لیے حاصلِ عمرکی حیثیت رکھتی ہیں۔افسوس کہ آج ہم ایسی ہی عظیم شخصیت سے جناب مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی ؒ سے محروم ہوکر اُن کے سوگ میں بیٹھے ہیں جن کے ارادے آہنی تھے اوربس یہی نہیں بلکہ وہ اپنے ٹھوس ضمیر اور صادق القول ہونے کی بناء پرایک فولادی انسان تھے۔ تاریخ کوسخت جستجو اور گہری کھوج کے بعد کوئی ہیرا ملتا ہے۔ قوم کوخداوند کریم نے مفتی مرحوم صاحب ایک ہیرا دیے تھے افسوس کہ آج وہ ہیرا ہم سے چھن گیا اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ راجعُوْن۔
دعاہے کہ اﷲ تعالیٰ مرحوم کی تمام دینی و ملّی وقومی خدمات کوبے حد قبول فرماکر پسرانِ عزیز ان کو اُن کانعم البدل عطا فرمادے،آمین ثم آمین اوراُن کی پوری پوری مغفرت فرماکر اُن کی قبر کونورسے بھردیں،آمین اور جملہ پسماندگان کوصبرِ جمیل بالخصوص اُن کے پیارے بیٹوں کومرحوم موصوف کے اوصافِ حمیدہ کو اپنانے کی پوری توفیق عطا فرمادیں۔ (آمین)
تجھ کواے مردِ سخی ہرگز بھلا سکتے نہیں
تیرے احسانوں کا بدلہ ہم چکا سکتے نہیں
ابرِ رحمت تیرے مرقد پرگُہر باری کرے
حشرمیں شانِ کریمی ناز برداری کرے
خاص طورپر جناب عمیدالرحمن عثمانی جوحضرت مفتی صاحبؒ کے ادارہ ندوۃ المصنفین میں ذمہ دار کی حیثیت سے بیٹھتے ہیں ان کوحوصلہ اورعمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) [مئی ۱۹۸۶ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...