Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

شریمتی اندرا گاندھی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338835

Access

Open/Free Access

Pages

211

شریمتی اندراگاندھی
۳۰/جنوری۱۹۴۸ء کو گاندھی جی کے دردناک حادثۂ قتل کے بعد ۳۱/ اکتوبر ۱۹۸۴ء کووزیراعظم شریمتی اندراگاندھی کااپنے ہی حفاظتی دستہ کے دوظالم و سفاک نوجوانوں کی گولیوں کی بوچھار کا شکار ہوکرہلاک ہوجانا آزادی کے بعد سے اب تک وہ دوسرا نہایت الم ناک اوردردناک حادثہ ہے جس نے ملک وقوم میں دردوکرب اورشدت غم کی لہردوڑادی ہے، حقیقت یہ ہے کہ جب اندرا گورنمنٹ نے دربار صاحب امرتسر میں فوج بھیجنے کا اقدام کیاتھا ہمارا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھاکہ اب خیر نہیں ہے، کیونکہ جہاں تک خالصتان کے مطالبہ کاتعلق ہے وہ ایک خالص سیاسی معاملہ تھا اوراس لیے سکھوں میں ایک طبقہ ایسابھی تھا جو خالصتان کامخالف تھا لیکن دربار صاحب میں فوج کاداخلہ خالص ایک مذہبی معاملہ تھاجس پرسب سکھ متفق ہوگئے خواہ وہ خالصتان کے حامی ہوں یا نہ ہوں۔
ایک نفسیاتی اصول ہے کہ جب مذہبی جذبات بھڑکتے ہیں توانسان دیوانہ ہوجاتا ہے اوراس وقت وہ یہ نہیں سوچتا کہ جو کچھ ہوا ہے اس میں خود اس کی کم نظری یا غفلت کودخل ہے یا نہیں۔اس کے عتاب اورغضب کانشانہ صرف وہ شخص یا جماعت ہوتی ہے جس نے اس کے مذہبی جذبات کوبھڑکایا ہے، چنانچہ وہی ہوا جس کاہمیں اندیشہ پہلے سے تھا اورملک اندراگاندھی جیسی محبوب اورہر دلعزیز شخصیت سے محروم ہوگیا۔
اندراگاندھی کی ہر دلعزیزی اوران کی قائدانہ شخصیت کا ثبوت اس سے بڑھ کرکیا ہوسکتا ہے کہ ایک مرتبہ الیکشن میں اس طرح شکست کھاجانے کے بعد کہ ان کا اوران کی پارٹی کانام ونشان مٹ گیا اورملک میں جنتا گورنمنٹ قائم ہوگئی اس وقت بھی انھوں نے ہمت نہیں ہاری، حالانکہ ان کی مختلف طریقوں سے تذلیل کی گئی اوران کی توہین میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیاگیا۔ وہ اپنی تقریروں میں برابر یہ کہتی رہیں کہ جنتا گورنمنٹ بھانت بھانت کے لوگوں کا ایک سنگھٹن ہے جو ’’اندرا ہٹاؤ‘‘کے نعرے پرمتفق ہوگئے ہیں۔اب جب کہ اندرا ہٹ گئی ہے اورزمام حکومت ان لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے تواب ان کے اندرونی اختلافات ابھریں گے اورنتیجہ یہ ہوگا کہ الیکشن کی مدت ختم ہونے سے پہلے پہلے حکومت کا شیرازہ منتشر ہوجائے گا۔چنانچہ انھوں نے جوکچھ کہا تھا اورجو پیشین گوئی کی تھی وہ حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ابھی پورے دوبرس بھی نہیں ہوئے تھے کہ جنتا گورنمنٹ ختم ہوگئی اوراندراگاندھی پھراس شان وشوکت اور ساتھیوں اور رفیقوں کے ساتھ واپس آگئیں اورپھردوبارہ ہندوستان کی وزیراعظم بنیں۔ اس چیز نے ان کی ہردلعزیزی کالوہا ساری دنیا سے منوالیا اوراس میں شک نہیں کہ موجودہ زمانے میں اس کی کوئی مثال شاذونادر ہی مل سکتی ہے۔
لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ ان کی حکومت کایہ دور آخر اتنا شاندار اور کامیاب نہیں رہا جتنا کامیاب پہلا دور تھا اوراس کی وجہ یہ ہے کہ گورنمنٹ نے ان کاپوراساتھ نہیں دیا۔انھوں نے فرقہ وارانہ فسادات روکنے کے لیے خاص مسلمانوں کے متعلق تمام ریاستوں کوجو احکامات بھیجے ان پرکسی حکومت نے عمل نہیں کیا۔یہی حال ان ضوابط کاہوا جو قومی یکجہتی کے لیے حکومت کے منظورکردہ تھے۔گورنمنٹ کے افسروں میں قانون کی خلاف ورزی کاایک عام رحجان پیدا ہوگیا تھا۔رشوت کے بغیرکوئی کام ہوہی نہیں سکتا تھا۔اشیاء کی گرانی میں روزبروز ہوش ربا اضافہ ہورہا تھا، شہروں میں گندگی کے انبار نظرآتے تھے، بجلی کا ہونانہ ہونا برابر تھا، جن اداروں میں کبھی رشوت کاتصور بھی نہیں ہوسکتا تھا مثلاً کالج، یونیورسٹیاں وغیرہ،ان میں بھی داخلے اورامتحان میں رشوت کی گرم بازاری شروع ہوگئی تھی، عوام کی زندگی اجیرن بن گئی تھی، جولوگ ناجائز ذرائع سے روپیہ کماتے ہیں یہ ملک انھیں کے رہنے کی جگہ بن گیا تھا پھر سب سے اخیرمیں دربار صاحب میں کروڑوں روپے کے نہایت مہلک اسلحہ کاجوذخیرہ ہاتھ لگا،یا اب بھی پنجاب کے مختلف علاقوں میں اسلحے برآمد ہورہے ہیں، کیایہ سب کچھ اعلیٰ افسران حکومت کی سازش اور غیر آئینی حرکات کے بغیرممکن ہوسکتا تھا، اور دور کیوں جائیے؟ اندراگاندھی کااپنے حفاظتی دستے کے دو نوجوانوں کے ہاتھوں اس دردناک طریقہ پرہلاک ہوجانا خوداس کی دلیل ہے کہ ان کا اعلیٰ خفیہ پولیس کاانتظام کس درجہ ناقص اور خراب ہے، یہ دونوں نوجوان سکھ تھے اس لیے خفیہ پولیس کافرض تھا کہ ان کے حرکات و سکنات پرکڑی نگاہ رکھے، سیکورٹی ضوابط کے ماتحت یہ دو نوجوان بیک وقت یکجا نہیں ہوسکتے تھے پھر یہ کیسے جمع ہوئے، اس کے علاوہ ایک قاتل دو ماہ کی رخصت لے کرپنجاب میں اپنے وطن چلاگیا تھا، خفیہ پولیس کا فرض تھا کہ وہ یہ معلوم کرتی کہ پنجاب میں جو دہشت پسند فوج کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں ان میں کوئی اس نوجوان کاقریبی عزیز وقریب تو نہیں تھا، پھریہ بھی دیکھنا چاہیے تھا کہ دومہینے کی چھٹی کے زمانے میں یہ نوجوان کیا کرتارہا اورکن لوگوں سے اس کی ملاقاتیں ہوئی ہیں اورکن کن لوگوں سے کیا کیاگفتگوئیں ہوئی ہیں، اگراعلیٰ محکمۂ خفیہ پولیس اس طرح وزیراعظم کے حفاظتی دستے کی نگرانی کرتا تو غالباً یہ واقعہ پیش نہیں آسکتا تھا، بہرحال جومقدر تھا وہ پیش آکے رہا اور ہم اس کو بھی حکومت کی نااہلیت اورکرپشن کاایک شاخسانہ کہہ سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کہ حکومت کی ان کمزوریوں اورنااہلیوں کے باوجود خوداندراگاندھی کی شخصیت ایک عہد آفریں اورتاریخ ساز شخصیت تھی، انھوں نے شخصی اورذاتی طورپر اس ملک کوآگے بڑھانے کے لیے اوراس ملک میں سالمیت برقرار رکھنے کی غرض سے جوعظیم الشان کارنامے انجام دیے ہیں وہ تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گے اوران کا اس دنیا سے رخصت ہوجانا یقینا ایک عہد کا خاتمہ ہے، ساتھ ہی ہم ہندوستان کے تمام ارباب سیاست سے خواہ وہ بااقتدار پارٹی کے افراد ہوں یامخالف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہوں دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ اس وقت ملک نہایت خطرناک حالات سے گزر رہاہے، ضرورت ہے کہ سب لوگ اپنی اپنی پارٹی کے مفاد کونظرانداز کرکے ملک وقوم کے مفادات کوپیش نظر رکھیں اور ان کے لیے مل جل کر اتحادواتفاق سے کام کریں، ملک میں بہت بڑے پیمانے پر فوری طورپر جوفرقہ وارانہ فسادات ہوئے اورجس میں ہزاروں آدمی ہلاک اوربربادہوگئے ان کی کروڑوں روپے کی جائیدادیں اور املاک تباہ ہوگئیں، حددرجہ افسوسناک اورملک کی پیشانی کانہایت بدنما داغ ہے۔ ہرمحب وطن کافرض ہے کہ وہ آئندہ کے لیے اس بات کاعہد کرے کہ وہ اس صورت حال کاجرأت اوردلیری کے ساتھ مقابلہ کرے گا اوراس کاپھر دوبارہ اعادہ نہیں ہونے دے گا۔ [نومبر۱۹۸۴ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...