Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > اہلیہ ، مفتی عتیق الرحمن عثمانی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

اہلیہ ، مفتی عتیق الرحمن عثمانی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338836

Access

Open/Free Access

Pages

213

اہلیہ، مفتی عتیق الرحمن عثمانی
ایک افسوس ناک خبر
نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ ۲۷/ مارچ ۱۹۸۵ء کی صبح سات بجے حضرت مفتی عتیق الرحمن عثمانی کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ تدفین قبرستان مہندیان میں ہزارہا افراد کے درمیان عمل میں آئی۔
حضرت مفتی صاحب کی اہلیہ کی رحلت سے خاندان عثمانی کو زبردست جھٹکا لگا ہے۔ براہِ کرم زیادہ سے زیادہ ایصال ثواب کریں۔ مرحومہ اہلیہ مفتی صاحب بڑی خوبیوں اور بے پناہ صلاحیتوں کی مالک تھیں۔ ادارہ ندوۃ المصنفین کے بہت سے علمی، دینی اور مذہبی و تجارتی معاملات میں حصہ لیتیں اور اپنے مشوروں سے ادارے کو کمک پہنچاتی تھیں جس سے استفادہ حاصل ہوتا اور حضرت مفتی صاحب ان کے اس عمل سے بے حد متاثر ہوتے۔ اگر آپ حضرت مفتی عتیق الرحمن کی اہلیہ کے ابتدائی حالاتِ زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں تو وہ جن حالات سے دوچار ہوتی رہیں کس طرح انھوں نے اس کو حسن و خوبی سے نبھایاوہ ہر لحاظ سے بے مثال ہے۔
حضرت مفتی عتیق الرحمن صاحب کے دل میں ان کی خوبیوں کی قدرو منزلت دن دوگنی رات چوگنی برابر مزید بڑھتی چلی گئی اور اہلیہ کی اتنی طویل علالت سے ان کا دل بے حد متاثر ہوتا تھا۔ میری والدہ ماجدہ کی جدائی میرے لیے بہت بڑا سانحہ ہے۔ [عمید الرحمن عثمانی، اپریل ۱۹۸۵ء]
___________________
مفتی عتیق الرحمن عثمانی کی اہلیہ کاانتقال
افسوس ہے کہ ۲۷؍ مارچ کوحضرت مفتی عتیق الرحمن عثمانی ؒ کی اہلیہ محترمہ راقم الحروف کی خالہ اماں__ہم سب کو داغِ مفارقت دے گئیں اس طرح ایک ہی خاندان کے تین افراد دس ماہ کے اندر اندر اس دُنیا سے رخصت ہوکررفیق اعلیٰ سے جاملے۔ سب سے پہلے گذشتہ سا ل۱۰؍ مئی کواحقر کی والدۂ محترمہ کے سایہ عاطفت سے ہم محروم ہوئے اس کے دو دن بعد حضرت مفتی صاحب ؒ داغِ مفارقت دے گئے اوراب مرحومہ __خالہ اماں بھی رخصت ہوئیں ؂
داغِ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
ایک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
یوں تو مرحومہ گذشتہ اٹھارہ ۱۸ سال سے علیل تھیں تقریباً ۱۲ سال سے قطعی طور پرصاحبِ فراش اورشدید تکالیف میں مبتلا تھیں، اُن کی زندگی کاہرسانس کربناکیوں اورحرماں نصیبوں کاصبر آزما امتحان اورآزمائش کی شکل اختیار کیے ہوئے تھا۔ خود مرحومہ برسہا برس سے صحت وشفا، طاقت و توانائی کے بجائے ایمان پرخاتمہ کی دُعا کرنے کی ہر چھوٹے بڑے سے خواہش فرماتی تھیں حالانکہ حضرت مفتی صاحبؒ نے مرحومہ کا ہر ممکن طریقہ پر علاج کرایا دُور دُور سے ڈاکٹروں کوبُلا کردکھایا اوران کی رائے سے قیمتی سے قیمتی علاج کرایا۔مگراﷲ کی مرضی___! اس وقت تویہ دُنیا اس کی ساری ہماہمی اور ساری بھاگ دوڑ ایک بے معنی سی بات لگتی ہے ۔حالانکہ خوب معلوم ہے کہ موت کاذائقہ ہرایک کوضرور چکھنا ہے ۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ :
مشیّت ہیں مجالِ دَم زدن توبہ، معاذ اﷲ__
مرحومہ قدیم وضع داریوں،بندگانہ شفقت وعنایت، غربا پروری، اقربا نوازی، ہمدردی و غم گساری اوراس کے ساتھ قربانی اور ایثار، عزم وحوصلہ جذبۂ انسانی شرافت وپاکبازی، وفا شعاری کی ایسی تصویراور اُجلا، صاف ستھرا اور پاکیزہ نمونہ تھیں،جن سے دُنیا خالی ہوتی جارہی ہے وہ قدریں اب یہ بزرگ خواتین اپنے ساتھ لے جارہی ہیں جو قدیم مشرقی تہذیب کی جان اور قلب و رُوح کی حیثیت رکھتی ہیں اور جن کے نمونے اب نگاہوں سے اوجھل ہوتے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم ان کی اولاد اوراہلِ خاندان ہی نہیں بلکہ ہر وہ انسان، ان کاغم محسوس کررہاہے جسے ان کی ذات سے کچھ نہ کچھ واقفیت تھی ہم تو قدرتی طور پر یہی محسوس کررہے ہیں کہ ایک ایسی نورانی کڑی ٹوٹ گئی جوماضی کے نقوش کی قیمتی یادگار تھی وہ شمع بُجھ گئی، وہ جوگذشتہ ۶۷ سال سے حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمۃ کی گراں قدر علمی، دینی سماجی اور ملکی وملّی خدمات کی راہوں کو روشن کرتی تھی، ایک بزرگ دانشمند خاتون جوخلوص، صداقت، سلیقہ اورہوشمندی ہمّت وحوصلہ کے ساتھ حضرت مفتی صاحب کونہ صرف گھرکے اندر کے امور، اولاد کی دیکھ بھال، گھرکے تمام نظم وضبط ہی سنبھالے ہوئے نہیں تھیں بلکہ جب تک ان کی شدید علالت کاسلسلہ شروع نہیں ہوا حضرت مفتی صاحب کے ادارہ ندوۃ المصنفین کے انتظامی معاملات میں بھی ان کی معاونت کرتی تھیں۔
عرصۂ دراز سے انھوں نے طویل، پریشان کُن اورصبر آزما علالت کی کرب ناکیوں کوجس طرح برداشت کیاامراض کی مسلسل یورش، ضعف ونقاہت اور پھر معذوری اﷲ کی دی ہوئی توفیق سے ان کی صاحبزادی (راقم الحروف کی اہلیہ)نے جس طرح اس طویل عرصہ میں شب وروز ان کی خدمت وتیمارداری کی وہ بھی اک مثالی کردار ہے، اس مثالی خاتون کی بیٹی کاجو مفتی اعظم عارف بااﷲ حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب ؒ کی فیض یافتہ اورحضرت مفکّرملّت ؒ جیسے دردمندملی رہنما کی شریکِ حیات تھیں۔اﷲ تعالیٰ ان کی ساری تکلیفوں، ساری اذیتوں اورپریشانیوں کومرحومہ کے لیے آخرت کی بہترین نعمتوں کاذریعہ بنادے، اپنا قرب عطا فرمائے اوران کی صاحب زادی کی ساری خدمات قبول فرما کر دین و دُنیا میں سکون وراحت اورعافیت وسربلندی کاذریعہ بنادے۔ اور اپنے فضل وکرم سے ہم سب کو نوازے ۔آمین
اﷲ تعالیٰ کاشکر ہے کہ خالہ اماں مرحومہ جوہمیشہ سے صوم وصلوٰۃ کی پابند اور دُعاؤں کاخاص اہتمام کرنے والی خاتون تھیں،آخری وقت میں بھی کئی روزسے اﷲ کاذکر مسلسل کررہی تھیں،بے ہوشی اورحدسے زیادہ نقاہت وکمزوری کے باوجود ان کی زبان پراﷲ کانام آتارہتا تھاآخری وقت میں راقم الحروف صبح بعد نماز فجر سے ان کے پاس بیٹھ کرکسی قدر بلند آواز سے کلمۂ طیبہ کاورد کررہا تھا طبیعت پررقّت کاعالم اورآنکھوں سے آنسو جاری تھے، وہ مقدّس ومحترم خاتون اب رُخصت ہورہی تھیں،جن کی شفقت وعنایت نے خود اس گنہ گار کوزندگی کے ہرموڑ پرنوازاتھا، سہارا دیا تھا، اسی عالم میں دیکھا کہ مرحومہ کوکچھ سکون ساہونے لگا ہے ، زبان کوحرکت ہوئی جیسے دوباراﷲ ۔اﷲ کہہ رہی ہوں، چہرہ پربشاشت ظاہر ہوئی اورپھرخود بخود منہ بند کرلیا، قریب میں کھڑے ہوئے برادر عزیز عمید الرحمن کی چیخ نکل گئی، ان کی ہمشیرہ نے ان کو صبر کی تلقین کی اوران کو سنبھالا۔
اتنی تکلیفوں، اذیتوں اور کربناکیوں کے طویل سلسلہ کے بعد اس دُنیا سے ان کا رخصت ہوناآخرت میں بلند درجات کی قوی اُمید دلاتا ہے۔ حضور اقدسؐ کے یہ ارشادات گرامی بھی دل، دماغ اورروح کے لیے مشعلِ تاباں بنے ہوئے ہیں کہ: ’’ اﷲ تعالیٰ کے یہاں آدمی کے لیے کوئی مقام مخصوص ہوتا ہے جب وہ اُسے اعمال کے ذریعہ حاصل نہیں کر پاتاتو پھراﷲ تعالیٰ اُسے ناگواریوں میں مبتلا کرتا ہے یہاں تک کہ اسے اُس مقام تک پہنچادیتا ہے‘‘ (ابو یعلیٰ ابن حیان) اور حضوراقدس محسنِ انسانیت ﷺ کایہ ارشاد گرامی کہ:
’’بلاؤں کاشکار سب سے زیادہ انبیائے کرام ہوتے ہیں پھر اس کے بعد وہ جواُن سے زیادہ قریب ہوں___ ‘‘(ترمذی ابن ماجہ)
یہ ارشادات تنگ وتاریک حالات، یاس انگیز اور پریشان کن لمحات میں اُمید اور حوصلہ کی روشنی دکھاتے ہیں کہ اپنے عظیم بزرگوں کی دردناک تکالیف اور ان کی اذّیت ناکیاں دونوں جہان کی نعمتیں محسوس ہونے لگتی ہیں۔
حق تعالیٰ شانہ ،مرحومہ کی بال بال مغفرت فرمائے اورہم لوگوں پراُن کے جو بے شمار احسانات ہیں اُن کااجرِ عظیم اپنی شانِ عالی کے مطابق عطافرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے ۔ ربِّ کریم ہم پس ماندگان کوصبرِ جمیل کی توفیق بخشے۔ آمین
قارئین کرام اور حضرت مفتی صاحب ؒ کے حلقہ کے تمام حضرات خصوصاً تمام مدارس دینیہ کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ وہ مرحومہ کے لیے ایصالِ ثواب کا بطورِ خاص اہتمام فرمائیں۔
ماہنامہ برہان کے پرنٹر و پبلشر اور ادارہ ندوۃ ا لمصنفین کے جنرل منیجر، برادر عمید الرحمن اور ان کی ہمشیرہ جو مرحومہ خالہ اماں صاحبہ اور حضرت مفتی صاحبؒ سے سب سے زیادہ قریب رہے ہیں، خاص طور پر بہت ملول اور غمزدہ ہیں۔ عمید میاں پر ادارہ اور گھر کی تمام تر ذمہ داریاں بھی ہیں۔ حق تعالیٰ شانہ ان دونوں کو بطورِ خاص اپنے فضل و کرم سے نوازے اور ہر طرح نصرت و اعانت ان کے شامل حال فرمائے۔ آمین [محمد اظہر صدیقی، اپریل ۱۹۸۵ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...