Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا سعید احمد اکبر آبادی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا سعید احمد اکبر آبادی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338837

Access

Open/Free Access

Pages

214

مولانا سعیداحمد اکبرآبادی
اس سے زیادہ دلدوز خبر،مفتی عتیق الرحمن ؒ کے وصال کے بعد ندوۃ المصنفین ماہنامہ برہان کے لیے کوئی دوسری نہیں کہ ۲۴؍ مئی مولانا سعید اکبرآبادی کاکراچی میں انتقال ہوگیا۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ْ
مولانا سعید احمد اکبرآبادی کی رحلت،علمی، ادبی، اوردینی، اور صحافتی دنیا کا ایک ایسا نقصان ہے جس کی تلافی کی کوئی صورت بظاہر موجود نہیں ہے وہ ان نادر شخصیتوں میں سے جن کے اندر قدیم اورجدید علوم جمع ہوجاتے ہیں اور وہ زمانہ کو اپنی خداداد ذہانت اور طبائع کی روشنی سے منّور کرنے کاایسا عظیم الشان کام انجام دیتے ہیں، جوقدیم علوم کے ماہرین اور جدید علوم کے علمبردار وں سے الگ الگ صورت میں ممکن نہیں۔ مولانا سعید احمد اکبرآبادی ایک طرف علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے ذریعہ اورواسطے سے ،اس سلسلۃ الذہب سے منسلک نظرآتے ہیں،جواسرار علوم نبوت کے محرموں اورفقہ وحدیث کے بالغ نظر عالموں، اسلامی شرع اوردینی کمالات کے حامل شخصیتوں کاایک ایسا قافلہ ہے، جس نے دینی علوم کوتحقیقی صلاحیتوں کے قالب میں ڈھال کر ہرزمانہ اور ہرعہد کے مطابق بنانے اور اس کی رہنمایانہ استعدادقائم ر کھنے میں ناقابلِ فراموش حصّہ لیا۔ دوسری طرف سے وہ جدید علوم سے پوری طرح واقف، اور دنیا میں سائنسی اورصنعتی اورمعاشی انقلابات کے اثرات ونتائج سے مکمل طورپر باخبر اور نئے زمانے کے تقاضوں کاپورا شعور رکھنے والے ایک دانشور تھے، جوقدیم علوم کی آب و تاب،مذہبی روایات کے تقدس کی برقراری اور اصول واحکام دین کی پاسداری بلکہ نگہبانی کافرض آدھی صدی سے بھی زیادہ مدّت تک انجام دیتے رہے۔وہ ایک طرف مفتی عتیق الرحمن عثمانی ؒ،مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ، مولانامحمد یوسف بنوری ؒ، مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ،قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی(تعالیٰ اﷲ عمرہٗ) مولانا احمدعلی لاہوریؒ،اورمولانا قاری محمد طےّب قاسمیؒ ،جیسے نابغۃ العصراور فقید المثال ماہرین علوم شریعت اور رہنمایانِ دین وملّت کی بزم کے ممتاز رفیق، اور مولانا آزادؒ ،مولانا مدنی ؒ، مولانا شبیر احمدعثمانی ؒ، علامہ ابراہیم بلیاوی جیسے عبقریوں کے ہم جلیس اورخوشہ چین تھے۔دوسری طرف ان کاتعلق ان تمام مشاہیر، مستشرقین اور جدید علوم کے ممتاز ماہرین سے جنہوں نے بیسویں صدی میں اپنی ذہانت اورقدیم علوم کی جدید توجیہات اورتطابق کی شمعیں جلائیں۔ اور ایک دنیا کو ان کی روشنی سے اپنے ذوق کی تسکین اورعقائد کے استقرار واستحکام میں مدد پہنچائی۔
مولاناسعید احمد اکبر آبادی کے فیضان علمی اوراثرات شخصی کاسلسلہ ہندوستان تک محدود نہیں تھا،بلکہ ان کی عظیم شخصیت کی کرنیں ،قومی، سیاسی اور ملکی حدود کو توڑ کرمہذب دنیا کے سبھی علمی اورمذہبی حلقوں تک پھیل گئی تھیں۔وہ ہندوستان کے علاوہ پاکستان، انگلینڈ، امریکہ، جرمنی، فرانس، کینیڈا اور ایشیا، انڈونیشیا کے علمی اورتحقیقی حلقوں میں بھی ایک جانی پہچانی شخصیت سمجھے جاتے تھے اور ان کا نام عزت اوراحترام کے ساتھ لیاجاتا تھا۔وہ ایک برگزیدہ محقق اوردینی علوم کے ماہر دانشور کی حیثیت سے دنیا کے اکثر ملکوں کادورہ کرچکے تھے۔اوران ملکوں کے دینی، مذہبی،علمی اورتحقیقی حلقوں میں اپنی ذکاوت،ذہانت، تبحر علمی اور تحقیقی صلاحیت کی دھاک جماچکے تھے۔وہ ہندوستان کی ایسی علمی شخصیتوں میں ایک ممتاز دینی شخصیت تھے جودنیا بھر میں معروف اورجانی پہچانی شخصیتیں سمجھی جاتی ہیں۔
ہندوستان کے اہم، دینی، علمی اور تہذیبی اداروں سے ان کاتعلق رہا۔ وہ مدرسہ عالیہ کلکتہ ، دارالعلوم دیوبند اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات کی سربراہی سے لے کر دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ منتظمہ تک کی رکنیت تک وہ ایک باعزت مقام اورقابل احترام حیثیت کے مالک رہے، دہلی کے مشہور اسٹیفنس کالج کے بھی وہ پروفیسر رہے۔جہاں پاکستان کے موجودہ صدر جنرل ضیاء الحق سمیت طالب علموں اورمتعلموں کی ایک کثیر تعداد نے ان کی علمی شخصیت سے فیضان حاصل کیااوراپنے ذہنوں کوان کے چشمۂ علوم وذہانت سے سیراب کیا۔
یورپ اورامریکہ کی متعدد یونیورسٹیوں نے ان کے علمی اوردینی کمالات کے اعتراف سے انہیں وزیٹنگ پروفیسر کے اعزاز سے نوازا،اورانہوں نے دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں کے علوم شرقیہ کے حلقوں کواپنے خیالات اورعلمی موشگافیوں سے متأ ثر کیا۔وہ دنیا کے مختلف ملکوں میں ہونے والے بیشمار علمی مباحثوں، سمیناروں اورعلمی ودینی کانفرسوں میں شریک ہوئے اور مستقل رکن کی حیثیت سے متعدد عالمی انجمنوں اوراداروں میں شریک کیے گئے۔
دارالعلوم دیوبند،ان کی مادرِ علمی،ندوۃ المصنفین ان کاآشیانہ،ماہنامہ برہان ان کے ذہن کاترجمان اورساری دنیا ان کی پرواز کی زد میں رہی۔ ندوۃ المصنفین اورماہنامہ برہان، ان کے اصل مرکز علمی کی حیثیت سے آخرتک ان کے ساتھ رہے، انہوں نے مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ کے علمی کاموں کے شریک، تصنیفی اورتحقیقی کارناموں کے سہیم اور ان کے ذہن وفکر کے امین کی حیثیت سے اپنے علمی وقار اور ندوۃ المصنفین کی شہرت کوچار چاند لگانے میں ناقابل ِ فراموش حصّہ لیا۔
مولاناسعیداحمد اکبرآبادی ندوۃ المصنفین کے رفیق،اورماہنامہ برہان کے مدیر ہی نہیں تھے، مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ کے دست راست ،بلکہ ایک بھائی کی حیثیت سے ان کی زندگی تک ایسے اعلیٰ مقام پر فائز رہے جن پر مفتی صاحب کی تمام شفقتیں،برادرانہ تعلق، اور جذباتی محبتیں نچھاور ہوتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ ندوۃ المصنفین کے قیام اور اس ادارہ کوہندوستان کاسب سے بڑا علمی، تحقیقی، اورتصنیفی مرکزکی شکل میں تبدیل کرنے کے منصوبے میں لاریب__ مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ کے سوا کوئی شریک نہ تھالیکن اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ ندوۃ المصنفین کوایک ممتاز اورباوقار علمی اور دینی ادارہ کی آب وتاب اور عز و احتشام دینے میں مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ اورمولاناسعید احمد اکبرآبادی ؒ کا حصّہ سب سے زیادہ رہا۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگرمفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ کو مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ اورمولانا سعید احمداکبر آبادیؒ کی رفاقت اور دست گیری کایقین نہ ہوتا تواس عظیم الشان منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت ہی وہ بمشکل کرسکتے تھے۔ جہاں تک مفتی صاحب کی عزیمت اور استقلال کاسوال ہے،اس کاثبوت ۱۹۴۷ء کے ان فرقہ وارانہ فسادات کے زمانہ میں غیر مشکوک انداز میں سامنے آیا۔جب کہ ان فسادات کی آگ کی لپٹیں دہلی کی قدیم تہذیب اورسماجی نظام کے ساتھ ندوۃ المصنفین تک کی چار دیواری تک بھی پہنچیں۔اوروہ اس بُری طرح ان کی زد میں آیاکہ لاکھوں روپیہ کی کتابیں جل کرخاک ہوگئیں اور بربادی اس خوف ناک حدتک پہنچی کہ تن کے کپڑوں کے سوا، مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے پاس اثاثہ کے نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔اور وہ ندوۃ المصنفین کی قرول باغ کی جلی ہوئی تاراج عمارت سے معجزانہ طور پرمحفوظ اور صحیح وسالم پرانی دہلی پہنچ گئے۔ یہ وقت جودہلی اور ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں بھی مجسم طور پرسوالیہ نشان بن کر کھڑا ہوگیاتھا،ندوۃ المصنفین کی زندگی اورموت کے بارے میں بھی فیصلہ کن وقت تھا اوریہ وہ وقت تھاکہ ایک مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ کے علاوہ،ندوۃ المصنفین کے احیاء جدیداورجلے ہوئے تنکوں سے آشیانہ کی تعمیر نوکی ہمّت کسی کے اندر باقی نہ رہی تھی۔اورہم اس کے چشم دید گواہ ہیں کہ جب مفتی صاحبؒ نے دوبارہ ندوۃ المصنفین کے شیرازہ کو جمع کرنے کی تجویزرکھی تومولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ کے ساتھ مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ بھی حیرت زدہ دکھائی دینے لگے، لیکن مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ کے عزم، حوصلہ اوراستقامت نے دوبارہ اس ناممکن کام کو ممکن کردکھایا ۔جسے اس وقت بلا استثناء سبھی لوگ ناممکن سمجھ رہے تھے اوراس بارے میں کامیابی سے مایوس تھے۔
مولاناسعیداحمد اکبرآبادی ؒ کی مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ کے ساتھ تعلق کی داستان بلامبالغہ آدھی صدی سے بھی زیادہ مدّت کااحاطہ کرتی ہے اور کلکتہ سے دہلی تک کی غیر منقطع ہم نشینی کی مدت تک پھیلی ہوئی ہے۔اس تعلق کی خود نوشت کہانی مولانا اکبر آبادی ؒنے برہان میں مفتی صاحبؒ کی وفات کے بعد شروع کی تھی جوافسوس ہے کہ خود ان کی وفات سے نامکمل رہ گئی، تاہم ہم جیسے مشاہدوں کی نظرسے بھی وہ والہانہ تعلق ،جذباتی وابستگی اور ذہنی ہم رنگی پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھی جومفتی صاحب کو مولانا اکبرآبادی ؒ کے ساتھ تھی۔ وہ بلا مبالغہ مولانا اکبر آبادی ؒ کواپنا عزیز بھائی ،اپنا دست وبازو ،اوراپنے خاندان کاایک فرد ، ہرمعنوں میں سمجھتے تھے۔آخرعمر میں، دارالعلوم کے مسئلہ پردونوں کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی میں کچھ فرق ضرور آگیاتھا۔لیکن کچھ تو مفتی صاحبؒ کے صاحب فراش ہو کر سرگرم اورعملی سرگرمیوں سے الگ تھلگ ہوجانے اورکچھ محبوبیت اوررفاقت کے اس مضبوط رشتے کی وجہ سے ،جس کا ذکر اوپر کیاجاچکا ہے۔جذباتی تعلق میں ذرا بھی فرق نہیں آیا اوردل سوزی اوردل ربائی کی کیفیت آخر تک باقی رہی۔
مفتی صاحب کی رحلت کے بعد ،مولانا سعیداحمداکبرآبادی ؒ کی صحت میں بھی فرق آگیاتھا اور قوائے جسمانی میں انحطاط کے آثار نمایاں ہوگئے تھے۔عوارض اور کمزوری نے ان پر اس درجہ قابو پالیا تھاکہ وہ مفتی صاحبؒ کی شخصیت پراپنا وہ تعزیتی مضمون بھی مکمل نہ کرسکے ، جس کاسلسلہ انہوں نے برہان میں شروع کیا تھا۔آخرعمر میں ا نہیں اپنے جوان لڑکے کی موت کاصدمہ دیکھنا پڑا، جوان کے لیے عملی طور پرناقابل برداشت ثابت ہوا اوران کے مرض کی شدت بڑھتی چلی گئی۔ چند مہینے پہلے وہ بغرض علاج اپنے اہل خاندان کے پاس کراچی چلے گئے۔ جہاں کینسر کے موذی مرض کی تشخیص ہوئی اوراسی مرض میں ۲۴؍مئی کوان کاانتقال ہوگیا۔اﷲ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے۔ان کے ساتھ رحم کا معاملہ کرے اورانہیں اپنی رحمتوں کے سایہ میں جگہ دے ۔آمین۔
ندوۃ المصنفین کے سلسلے میں ہم نے ۱۹۴۷ء کے حالات کاتذکرہ اس مقصد کے تحت کیاہے کہ جس طرح مفتی صاحبؒ کی زندگی میں،دہلی میں پھٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات اورتقسیم ملک کے بعد کے حالات نے ندوۃ المصنفین کی زندگی اور موت کاسوال پیدا کردیا تھا، وہی صورت اس ادارے کو مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ کی وفات اوراب مولانا سعیداحمد اکبرآبادیؒ کے بعد ندوۃ المصنفین کے مستقبل کودرپیش ہے۔مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ نے اپنی حیات میں بے شمار مرتبہ ندوۃ المصنفین کے مستقبل کے بارے میں تشویش ظاہر کی، اور ہر بار انہوں نے اس نکتہ پرگفتگو کوختم کردیاکہ:
’’ندوۃ المصنفین جیسے ادارے باربار نہیں بنتے ،ایک باریہ ادارہ برباد ہوگیا تو دوبارہ ایسا ادارہ قائم ہونے کی کوئی امید نہیں۔‘‘
اس سلسلے میں اطمینان کی ایک بات یہ ہے کہ عزیزی عمیدالرحمن عثمانی نے مفتی صاحب کی زندگی میں ہی ندوۃ المصنفین کااہتمام اورانتظام سنبھال لیاتھا اوراس فرض کوایسی قابلیت اور ذمہ داری کے ساتھ انجام دیاکہ مفتی صاحب ؒ کی زندگی کے آخری لمحات ندوۃ المصنفین کے سلسلے میں یک گونہ بے فکری کے ساتھ گزرے اوراس عرصے میں ندوۃ المصنفین کے کاموں میں نہ صرف کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ عمیدالرحمن عثمانی کے حسنِ انتظام کے بہتر آثار بھی نمایاں طور پر سامنے آئے۔ بہت سی کتابیں نئی صوری خوبیوں کے ساتھ منصّۂ شہود پر آئیں۔ اوراس کے تجارتی دائرے میں بھی وسعت پیدا ہوئی ۔سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ عمیدالرحمن نے معاملات اورحالات پرمکمل قابو پانے کی ایسی صلاحیت کامظاہرہ کیا جوخوش آئندہ بھی تھا اورامید افزا بھی۔اس صورت حال میں سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ ندوۃ المصنفین ان کے انتظام اوران ہی کی نگرانی میں بدستور چلتا رہے۔ اور کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہو جو چلتے چلاتے ادارے میں برہمی اورابتری پیدا کرنے کاباعث بن سکے ۔
ہمیں امید ہے کہ ندوۃ المصنفین کے بہی خواہ اور متعلقین اس ادارے کے تحفظ کی ذمہ داری محسوس کریں گے اور مفتی صاحبؒ کے اہل خاندان بھی مفتی صاحبؒ کی اس حقیقی یادگار،اور ہندوستان کے ممتاز علمی اوراشاعتی ادارے کوقائم رکھنے اورترقی دینے میں، پورے جذبۂ خلوص اورسنجیدگی کے ساتھ عزیزی عمیدالرحمن کاہاتھ بٹائیں گے، جس کے لیے مفتی صاحب کے الفاظ سے بہتر کوئی الفاظ ہمیں نہیں ملتے کہ’’ ندوۃ المصنفین جیسے ادارے باربار نہیں بنتے۔‘‘ اس لیے سب کی کوشش بجا ہونی چاہیے کہ یہ ادارہ قائم رہے۔ [جون ۱۹۸۵ء]
__________________

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...