Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا ابوسلمہ شفیع احمد بہاری

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا ابوسلمہ شفیع احمد بہاری
Authors

ARI Id

1676046603252_54338838

Access

Open/Free Access

Pages

217

مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری
بہارکی سرزمین سے آخری دورمیں جوچند نامور علماء پیداہوئے ان میں جناب مولانا ابو سلمہ شفیع بہاری رحمۃ اﷲ علیہ اپنے علم وفضل ،تقویٰ و طہارت ،دینی و علمی خدمت ،نیک نفسی ، تدریس وتعلیم ،تصنیف وتالیف ،ارشاد وتبلیغ اوردیگر دینی وعلمی کارناموں کی وجہ سے خاص مقام ومرتبہ رکھتے ہیں، افسوس کہ علم وعمل کایہ چراغ دوشنبہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۸۵ء کوکلکتہ کی سرزمین میں چھپ گیا رحمۃ اﷲ علیہ وغفراﷲ لہٗ۔ نماز جنازہ جناب مولانا حکیم محمدزماں صاحب حسینی نے پڑھائی، عام اندازہ کے مطابق جنازہ میں تیس چالیس ہزار مسلمان شریک تھے، جومولانا مرحوم کی عنداﷲ وعندالناس مقبولیت کاکھلا ہواثبوت ہے۔
مولانامرحوم نے نام ونمود سے نفوراور شہرت وناموری سے دوررہ کرپوری زندگی دینی وعلمی خدمات میں بسرکی،اس لیے مناسب معلوم ہوتاہے کہ ان کی زندگی کاخاکہ ناظرین کے سامنے آجائے۔ آپ ۱۹۱۲ء میں بہار شریف میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا حکیم امیرحسن صاحبؒ سے حاصل کی ا ور عربی کی ابتدائی کتابیں اپنے خسر مولانااصغر حسن صاحبؒ پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ سے پڑھیں، اس کے بعد مدرسہ قومیّہ میں داخل ہوکر سند حاصل کی، پھر مدرسہ عزیزیہ بہار شریف میں داخلہ لیا۔ان دنوں مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم بھی اسی مدرسہ میں زیر تعلیم تھے ،دونوں حضرات کی دوستی یہیں سے شروع ہوئی اورآخری وقت تک قائم رہی۔آخرمیں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے، یہاں ایک سال رہ کر جامعہ اسلامیہ ڈابھیل سُورت (گجرات) چلے گئے اوریہیں سے سند فراغت پائی،آپ کے اساتذہ میں مولانا محمدانور شاہ کشمیریؒ ، مولانا شبیراحمدصاحب عثمانیؒ اورمشہور ادیب مولانا ابوعبداﷲ بن یوسف سورتی ؒ ہیں، مولانامفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی ؒ سے بھی بعض کتابیں پڑھیں۔
فراغت کے بعد وطن آکرمدرسہ قومیہ میں تعلیم وتدریس میں لگ گئے،اسی کے ساتھ سیاسی اور ملّی وقومی تحریکات میں حصہ لیتے رہے،سیاسیات میں کانگریس کمیٹی میں رہ کر کام کیا،مگر ۱۹۴۷ء کے بعد عملاً اس سے علیحدہ ہوگئے۔
۱۹۴۸ء میں امام بیہقیؒ کی مشہور ومعروف کتاب معرفتہ السنن وآلاثار کاپہلا حصّہ تعلیق وتصحیح کے بعد شائع کیا،۱۹۴۹ء میں مدرسہ عالیہ کلکتہ میں حدیث وتفسیر کے استاذ مقرر ہوئے اوراس عہدہ کونہایت ذمہ داری اورقابلیت کے ساتھ پورا کرنے کے بعد۱۹۷۲ء میں ریٹائر ہوئے،اس کے بعدادارۂ ترجمہ وتالیف کی بنیادرکھی اوراس ادارہ سے امام ابن قتیبہ کی کتاب المعارف سے سیرۃ الرسول کااردوترجمہ مفید حواشی کے ساتھ شائع کیا اوردیگر کتابیں بھی اس ادارہ سے شائع کیں، ۱۹۵۰ء میں مولانا سید سلیمان ندوی کے مضامین کامجموعہ سید صاحب کے دیباچہ کے ساتھ شائع کیا۔۱۹۶۲ء سے۱۹۸۵ء تک خلافت کمیٹی کلکتہ کے زیر اہتمام عیدین کی امامت فرمائی،وعظ وخطابت میں خاص ملکہ رکھتے تھے،ان کی تقریر عالمانہ اورپُرمغز ہونے کے ساتھ بڑی دلچسپ ہوتی تھی اس لیے عوام وخواص دونوں طبقے ان کی تقریر کے شیدائی تھے،زوربیان اورطرز خطابت میں امتیاز حاصل تھا،بڑے بڑے دینی جلسوں میں ان کی شرکت ہوتی تھی،اسی کے ساتھ کلکتہ کی مختلف مسجدوں میں درس قرآن دیاکرتے تھے،ان میں ٹیپوسلطان کی مسجد،شاہی مسجد،چترنجن ایونیوکی مسجد،راجہ بازار کی جامع مسجد اورسبزی منڈی کی مسجد میں درس قرآن کی بڑی اہمیت وافادیت تھی،حال کی بات ہے کہ جب کلکتہ ہائی کورٹ میں قرآن مجید کے خلاف ایک اسلام دشمن نے مقدمہ دائر کیاتومولانا کی تحریک پرعالموں،دانشوروں اورمسلم وکیلوں نے دفاع قرآن کمیٹی قائم کی، جس نے بروقت مسلمانوں کی رہنمائی کی،مولانا مرحوم نے دفاع قرآن کمیٹی کو بیس ہزار روپیہ کی کتابیں عنایت فرمائیں جن کوفروخت کرنے کے بعدبیس ہزار کی رقم دفاع قرآن کمیٹی میں جمع ہوگئی۔مولانا قرآن کے نام پر عام چندہ کرنے کوسخت ناپسند کرتے تھے۔
ادارۂ ترجمہ وتالیف کوبغیر کسی سے چندہ لیے نہایت کامیابی کے ساتھ چلایا اور کئی اہم اورمفید کتابیں شائع کیں،اس ادارہ سے مسلمانوں کی اصلاح اور ردشرک وبدعت کے سلسلہ میں کئی پوسٹر شائع کیے۔
مولانا تقریر کی طرح تحریر میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے،ان کوتصنیف وتالیف کانہایت ستھرا ذوق تھا،ان کی تصنیفات میں(۱)یکساں سول کوڈ اوراس کااسلامی احکام پراثر، (۲)ختم رسالت اورقادیانی فتنہ، (۳)اکبر کادین الٰہی،(۴)حجۃ الوداع،(۵)تعلیمات قرآن وغیرہ قابل ذکر کتابیں ہیں،عیدین کے خطبے بھی شائع کرتے تھے پیغام عمل کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالتے تھے۔
یوں تومولانا مرحوم جملہ اسلامی علوم وفنون کے عالم تھے اورمروجہ علوم میں یدطولیٰ رکھتے تھے مگران کو علم حدیث سے عشق کی حد تک تعلق تھا،اس میں خاص استناد کادرجہ رکھتے تھے اوران کے علمی وتصنیفی کارناموں میں علم وحدیث کونمایاں حیثیت حاصل ہے۔
حضرت امام بیہقی کی نادر ونایاب اور نہایت اہم کتاب معرفۃ السنن والآثار کواپنی تصحیح وتعلیق سے شائع کرنا چاہتے تھے اوراس کا پہلا حصّہ خود چھاپ کر بھی شائع بھی کیا۔مولانا نے اس کے چند نسخے میرے پاس بمبئی میں بھیجے تھے، میں نے اس کاایک نسخہ مولانا ابولوفا افغانی رئیس الجنۃ احیاء المعارف النعمانیہ حیدرآباد کوبھیجا تومولانا نے حدیث کے اس نادر ونایاب تحفہ پربڑے والہانہ انداز میں شکریہ ادافرمایاتھا،امام ابن حزم ظاہری متوفی۴۵۶ھ کی کتاب اسماء الصحابۃ الرواۃ ومالکل واحد من العدد بھی اپنے اہتمام سے شائع کی۔
رسالہ برہان ۱۹۵۰ء امام دارقطنی پرتین چارقسطوں میں مضمون شائع کیا۔ ۱۹۵۳ء میں رسالہ برہان میں پانچ قسطوں میں’’ہندوستان میں علم حدیث کی تالیفات‘‘کے نام سے مقالہ شائع کیا،۱۹۶۶ء کے رسالہ برہان میں مسند امام احمد پرایک طویل مقالہ سپردقلم فرمایا اور۱۹۷۴ء کے برہان میں امام شافعی کی ’’کتاب الاُمّم‘‘ پرمحققانہ مضمون لکھا۔اس طرح مولانا نے بہت سے خالص علمی وتحقیقی مقالات تحریر کیے جن میں علم حدیث سے متعلق اہم معلومات ۔۔۔
۱۹۶۶ء میں مولانا حج وزیارت کوتشریف لے گئے۔راقم بھی اسی سال حاضریٔ حرمین شریفین سے مشرف ہواتھا۔اس مبارک سفر میں مولانا مرحوم سے پہلی ملاقات ہوئی جو نہایت مخلصانہ اوردیرپا رہی۔اس سفر میں ان کی شفقت و محبت،ان کاخلوص وایثار،ان کی سادگی ونیک نفسی،اوران کا علمی شغف بہت قریب سے دیکھنے میں آیااورمولانا کی شخصیت نے اپنا گرویدہ بنالیا،ہم دونوں حرمین شریفین کے کتب خانوں میں ایک ساتھ جاتے۔مولانا علم حدیث سے متعلق مخطوطات ونوادرات سے اخذ واقتباس فرماتے اورراقم اپنے موضوعات سے متعلق معلومات جمع کرتاتھا۔اس وقت مکہ مکرمہ کے مشہور عالم سید علوی مالکیؒ حیات تھے،ہم لوگ ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوتے تھے،ان کے صاحبزادے ڈاکٹر محمد حسن علوی مالکیؒ نے مولانا مرحوم سے حدیث کی سند بھی لی تھی۔ مدینہ منورہ میں کتب خانہ شیخ الاسلام عارف حکمت میں ہم دونوں صبح سویرے ہی پہنچ جاتے اور ظہر کی نماز کے وقت وہاں سے نکلتے تھے، واپسی کے بعدمولانا نے ادارۂ ترجمہ وتالیف قائم کیا توراقم کوبھی اس کابھی رکن بنایا تھا۔ اس کے بعد پھر ایک بار بمبئی میں ملاقات ہوئی تھی اوروہی خلوص،وہی یگانیت، اور وہی عالمانہ انداز تھا مگر یہ ملاقات بہت مختصر رہی۔ادھر بہت دنوں سے کلکتہ جانے اور مولانا مرحوم اوران کے بعض دوسرے احباب سے ملاقات کرنے کا ارادہ ہورہا تھا کہ اچانک ایک دن اخبار میں مولانا کے وصال پُر ملال کی خبر پڑھی۔دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اوران کے درجات بلند کرے،اوراُن کے صاحبزادے مولوی ابوطلحہ صاحب ندوی کوان کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطافرمائے اوروہ اپنے والد مرحوم کی طرح دینی وعلمی زندگی کے وارث ہوں۔آمین [ قاضی اطہر مبارک پوری، فروری۱۹۸۶ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...