Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا حفیظ الرحمن واصف
Authors

ARI Id

1676046603252_54338839

Access

Open/Free Access

Pages

219

مولاناحفیظ الرحمن واصف
گذشتہ مہینے (۱۳ مارچ) کواجڑنے اور باربار بسنے والی دلّی کی ایک اور فخر روزگار شخصیت مولانا حفیظ الرحمن واصف کی شکل میں اس دنیا سے اٹھ گئی اور دلّی کی بساط علم و دین اورادب وشعر پرچھایا ہوا اندھیرا کچھ اور گہرا ہوگیا، ان کی وفات پر محدود صحافتی اورعلمی حلقوں میں اضطراب اور ہلچل کی کمزورسی کیفیت نظر آئی جو مولانا حفیظ الرحمن واصف جیسی جلیل القدر شخصیت کے ماتم کے لیے نہ صرف ناکافی بلکہ کہناچاہیے کہ ان کی رفعت شان سے حددرجہ کم تر تھی۔ وہ ان ٹمٹماتی ہوئی شمعوں میں سے ایک شمع تھے جوآزادی سے پہلے اورآزادی کے بعد کی دہلی کی تمدنی تبدیلیوں اورلسانی اورسماجی تلاطم کی نوعیت اور کیفیتوں کی عکاس تھی اوروہ خود آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کے درمیان نہ صرف حدِ فاصل کی حیثیت رکھتے تھے بلکہ ان کاشمارسماجی انقلاب حال کے مشہور ماتم گساروں اور میرؔ،سوداؔ، غالبؔ ،حالیؔ اورداغؔ جیسے نوحہ خوانوں میں ہوتاتھا۔
وہ اس خانوادۂ علم وشریعت کے چشم وچراغ تھے، جس نے ۱۸۵۷ء میں اجڑنے والی دہلی کواز سر نوسجانے اور بہاروں سے آراستہ کرنے میں حصہ لیا تھااور ایک پورے تمدن کی تباہی کے بعد اس کے ملبہ سے نئی اوردلآویز عمارت تعمیر کرنے کی ہمت دکھائی تھی۔
وہ حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ کے فرزند دلبند اوران کی سیرت اور خصلت کے بے شمار پہلوؤں میں ان کے حقیقی وارث اور جانشین تھے۔انہوں نے آنکھ کھول کراپنے یگانہ روزگار والد کے علاوہ جن لوگوں کی آنکھیں دیکھی تھیں، اور جن کی صحبتوں سے فیض اٹھایا تھاوہ سب وہ لوگ تھے کہ اب ان کا ثانی، دہلی کی سرزمین پرشاید ہی چشم فلک کوکبھی دیکھنا نصیب ہو۔
آج کی دہلی میں ان کاوجود بہاروں کی یادگار یاغالب کے الفاظ میں داغِ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی ایک شمع کی طرح دکھائی دیتاتھا،کیونکہ ان کے دیکھتے ہی وہ دنیا یکسر تبدیل ہوگئی تھی، جسے انہوں نے آنکھ کھول کردیکھا تھا، اور جس کی امتیازی خصوصیات کواپنی شخصیت میں جذب کرکے ،اس کا منفرد سانچہ تیار کیاتھا۔ وہ خواجہ حسن نظامی، خواجہ عبدالمجید،سائل دہلوی،بے خوددہلوی، راشد الخیری، دتاتریہ کیفی، ملاواحدی، آصف علی(بیرسٹر)، خواجہ محمد شفیع، آغا شاعر، حیدر دہلوی، خواجہ عزیز حسن بقائی،شاہد احمد دہلوی،مولانا احمدسعید دہلوی اورمولاناسمیع اﷲ کی دہلی کے ترجمان تھے اوراس کہکشاں کاایک ستارہ تھے، جس میں ان کے فخر روزگار والدحضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ ایک آفتاب عالم تاب کی حیثیت رکھتے تھے ۔
مفتی کفایت اﷲ ؒ کاشمارآزادی سے پہلے کے اسلامیات ہندکی مقتدر اور اہم ترین شخصیتوں میں ہوتاتھا ۔مفتی کفایت اﷲؒ سیاسی فراست ،مردم شناسی، اور دینی تبحر کے اعتبارسے اپنے معاصرین میں اتنے ممتاز تھے کہ ان کے پورے عہد میں صرف مفتی صاحب کا لفظ، ان کی شناخت کے لیے کفایت کرتاتھا اور ہر کس و ناکس سمجھ سکتا تھا کہ اس سے مفتی کفایت اﷲ کے سوا کوئی دوسری ذات مراد نہیں۔یہ و ہ شرف وامتیاز ہے جوان کے بعد صرف وہ مفتی صاحب کے حوالے سے سارے ہندوستان میں پہچانے گئے۔
مولاناحفیظ الرحمن واصف کی دلچسپیوں اوررجحانات میں بڑی رنگارنگی پائی جاتی تھی، دینی علم انہیں ان کے عظیم الشان والد سے ورثہ میں ملاتھا اوران کی تعلیم و تربیت بھی خالص دینی ماحول بلکہ کہنا چاہیے کہ مفتی اعظم کے گھرانے میں ہوئی، انہوں نے آنکھ کھول کر تصنیف وتالیف ،شعروادب ،اورمجلس آرائیوں کی وہ فضا دیکھی جس کی بدولت اس زمانہ کی دہلی، ہندوستان کادھڑکتا ہوادل بن گئی تھی۔ ان مجلسوں میں ایک طرف حکیم اجمل خاں کی شرافتِ نفسی کی پھوارسے شریکِ بزم لوگوں کا مشام جاں معطر ہوتا، دوسری طرف مولانا محمد علی کی وغایت کی گرج اور شیر جیسی دہاڑ سے سیاستدانوں کے محلوں کے کنگرے لرزتے نظر آتے، ایک طرف سائلؔ اور بیخودؔ کی شاعری کے زمزموں سے دہلی کی ادبی فضائیں گونجتیں، دوسری طرف خواجہ حسن نظامی، اورراشد الخیری کاسحر نگار قلم ادب کے کینوس پرفطرت اورغم کی مصوری اورعکاسی کرتادکھائی دیتا۔مولاناحفیظ الرحمن واصف کی شخصیت نے ان سارے اجزاء بلکہ ان کے بہتر عناصرکواپنے اندر جذب کیا۔ وہ شاعری میں سائل دہلوی کے باقاعدہ شاگرد ہوئے، اورمولانا احمد سعید دہلوی اورخواجہ حسن نظامی کی صحبتوں میں انہوں نے میرتقی میر کے بقول چیلوں کے کوچوں کی ٹکسالی زبان اردو کاشعور اور ملکہ حاصل کیااور نظم ونثر میں اتنی مہارت بہم پہنچائی کہ ان کا شمار ایک طرف توداغؔ اسکول کے نامورترجمانوں اور صاحب دیوان (دیوان کانام زرگل) شاعروں میں ہونے لگا،اور دوسری طرف وہ اردو بول چال اور نثری ادب کے ماہر اور مستند اہل قلم تسلیم کیے گئے۔ جگرؔ مراد آبادی کے بعد مولانا حفیظ الرحمن واصف ہی اردو کے ایسے شاعرتھے جو خوش نویسی میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے اور جن کے بارے میں کہا جاسکتا تھاکہ اگر وہ شاعرنہ ہوتے توبہت بڑے خطاط اورخوش نویس ہوتے۔ انہوں نے خوش نویسی نہ صرف اپنے والد مولانا مفتی کفایت اﷲ ؒ سے ورثہ میں پائی تھی،بلکہ مشق اور محنت کے ذریعہ اس میں استادانہ مہارت بھی حاصل کی تھی۔
مولاناحفیظ الرحمن واصف، دہلی کے قدیم وجدید دورکے ایک نمائندہ ادیب، شاعر اور عالم تھے،انہوں نے علمی دنیا پرسب سے بڑا احسان یہ کیا کہ مفتی کفایت اﷲؒ کے لاکھوں فتوؤں کا انتخاب کفایت المفتی،کے نام سے نو(۹) ضخیم جلدوں میں شائع کرکے ، دین وفقہ کے ایک بڑے سرمایہ کوہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔کفایت المفتی کی ۹ جلدیں، یقیناً ان کی تالیفی صلاحیت،محنت اور سرمغزی کاایسا ثبوت ہیں جوآنے والے لوگوں کے لیے ایک ولولہ انگیز مثال بنی رہیں گی۔ بلاشبہ یہ ایک آدمی کاکام معلوم نہیں ہوتا اوراس اعتبارسے حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے اسے خاموشی کے ساتھ انجام دے دیا، اس ایک کارنامے کے علاوہ سائل دہلوی کی ایک سوانح عمری جس کا شمارہم ان کی ابتدائی تصانیف میں کرتے ہیں، اور خود ان کی شاعری کامجموعہ ’زرگل‘بھی ان کے فن اورقلم کی یاد دلاتے رہیں گے۔
وہ عربی کے باقاعدہ عالم،دینی علوم کے ماہر اورفارسی اوراردو زبانوں کے فاضل اور نکتہ شناس تھے اور ۱۹۵۴ء میں مفتی کفایت اﷲؒ کی وفات کے بعد مدرسہ امینیہ دہلی میں،ان کی مسند پر بیٹھ کر ان کے جانشین کی حیثیت سے تفسیر اوردینی علوم کی مدرسی اورمعلمی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے تھے۔ فارسی زبان پر پورے عبور اوراردو زبان کے پرانے محاورات اور مصادر پران کی گہری نظرتھی،اس لیے انہیں اس بے راہ روی سے زبردست تکلیف پہنچتی تھی، جسے اردو کے موجودہ شاعر اورادیب اپنی ناواقفیت کے باعث نظم ونثر میں روا رکھتے ہیں۔ انہوں نے اردو زبانوں کی صحت اوردرستگی پرزور دینے کے لیے جہاں ’اردو مصدر نامہ‘ جیسی اہم کتاب تصنیف کی وہاں سینکڑوں مضامین اردو زبان کی صحت اور لغت کے موضوع پر لکھے، جن میں سے بیشتر مضامین برہان میں شائع ہوئے۔
وہ ماہنامہ برہان کے مستقل سرپرستوں اور رفیقان قلم میں سے ایک تھے، مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے نام کے شیدا، اور برہان کے ان قدردانوں میں سے تھے جن کے اخلاص، تعلق اور صحبت کی گرمی سے محرومی کا احساس ہمیشہ باقی رہے گا، جس کی تلافی کی اب کوئی صورت موجود نہیں۔ جب بھی وہ کوئی اہم مضمون یا تحقیقی مقالہ لکھتے، برہان کو ہی اس کی اشاعت کا ذریعہ بناتے۔ اردو زبان کے مصادر اور لغوی تحقیق اور لسانی نزاکتوں پر ان کے مضامین اور مقالوں کا ایک پورا سلسلہ برہان کی فائلوں میں محفوظ ہے۔ جو ان کی اردو زبان پر قدرت اور عربی و فارسی زبانوں پر ان کے کامل عبور کی دلیل ہے۔
ان کی وفات سے نہ صرف دہلی کی پرانی تہذیب اور اردو کے مخصوص کلچر کی نمائندہ ایک عظیم شخصیت اس دنیا سے اٹھ گئی بلکہ برہان کو ایک ایسے مستقل قدرداں اور عظیم اہل ِقلم سے محرومی کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا، جس کی تحریروں کو پورے ملک میں قدر اور عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاسکتا تھا۔ ان کی وفات بلاشبہ خاندان عثمانی اور برہان کے ادارے کے لیے ایک ذاتی صدمہ کی حیثیت رکھتی ہے، اﷲ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین
[اپریل۱۹۸۷ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...