Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

پرنس نجم الدین
Authors

ARI Id

1676046603252_54338840

Access

Open/Free Access

Pages

220

پرنس نجم الدین
پرنس نجم الدین کی وفات کا حادثہ اتنا الم ناک اورصدمہ انگیز ہے کہ ہمیں اس کے دوررس اثرات کے تصور ہی سے وحشت ہورہی ہے ان جیسا دردمند مسلمان، ان جیسا عالم وفاضل اورذہین شخص،ان جیسا سوشل ریفارمر،ان جیسا ماہر تعلیم اوران جیسا اعلیٰ دماغ منتظم ایک مدت سے مسلمانوں میں کوئی دوسرا نہیں تھا ،کہنے کو وہ بوہرہ فرقہ کے مسلمانوں کے روحانی پیشواؤں کے خاندان کے اہم ترین فرد تھے لیکن حقیقتاً ان کے فکر ونظر کی اڑان آفاقی تھی۔جہاں کہیں مسلمانوں کی صف میں کسی بدنظمی کے آثار ظاہر ہوتے،جہاں کہیں کسی مسلم تحریک کو مشکل درپیش ہوتی،جہاں کہیں کسی مسلم ادارہ کورہنمائی، تعاون اورمدد کی ضرورت ہوتی، ان کا دل دردمندی اوربے قراری کی شدت سے دھڑکنے لگتا اوروہ پوری توجہ اور فراخ دلی کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے۔کتنے مسلم رہنماؤں نے ان کی دل سوزی اورہمدردی سے فیض اٹھایا،کتنے اداروں نے ان کی فیاضی اور سیر چشمی سے استحکام حاصل کیا،کتنی تحریکوں نے ان کے تعاون اورخاموش امداد سے قوت اور حوصلہ پایا۔کتنے صاحب علم وفن ان کی قدردانی اورسرپرستی سے سیراب اور فیض یاب ہوئے ان کی لامتناہی اورطویل داستان، اب ان ہی کے ساتھ خاموش ہوگئی۔
وہ مسلمانوں کی فلاحی تحریکوں کے روح رواں آدھی صدی سے زیادہ عرصے تک بنے رہے لیکن ان کی سمندروں جیسی گہرائی،ان کی فطرت کاخاموش جوہر، ان کی منکسرمزاجی نے کبھی بھی اپنے کوکھولنے اورواشگاف کرنے کے سطحی انداز کے قریب نہیں آنے دیا۔مسلمانوں کی ملّی سرگرمیوں کی سرزمین پران کا وجود سورج کی طرح تھا، جس کی کرنوں کا فیض خاص وعام کے امتیاز اورفرق کے بغیر ہرایک کے لیے دستیاب تھا۔
وہ بوہرہ فرقہ کی فلاحی اورجماعتی سرگرمیوں کاایک ایسا محور تھے کہ بلاشبہ اس کے معاشی،علمی، دینی اور سماجی امنگوں کے سارے سوتے ان ہی کی ذات کے سرچشمے سے پھوٹتے رہے۔ انھوں نے اپنے عظیم الشان والد سیدنا طاہر سیف الدین سے ملت کی دلسوزی،رہنمائی اورفیض رساں طبیعت ورثہ میں پائی تھی اور ان ہی کی تربیت سے ان کے اندر وہ علمی اورتہذیبی مذاق پیداہوا جس کی بلندی اورگہرائی کی دوسری مثال ان کے حلقے میں نہیں پائی جاتی۔نوجوانی ہی کے دور میں ان کی علمی اور ادبی اورتاریخی شعور کی پرچھائیاں ملت کے دینی،علمی اورمذہبی حلقوں پرمحسوس ہونے لگی تھیں، پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کے کاموں اور مشغولیتوں کادائرہ وسیع ہوتاگیااورآخر آخر وہ ایک ایسے آفتاب عالم تاب کی طرح موجودہ وقت کے عالم اسلام پر قائم ہوگئے جس کی کرنوں کے سامنے ملکوں اور سلطنتوں کی حدود بے معنی ہوکر رہ گئیں۔
ان کے عظیم المرتبت بھائی سیدنابرہان الدین کی شفقتوں اورمحبتوں نے جہاں ان کی اپنی دنیا کوروشن کیا وہاں ان کی اپنی دنیا کی روشنی نے ساری دنیا میں پھیلی ہوئی بوہرہ فرقہ کی ترقی اورکارناموں کی رفتار میں ایسی تیزی پیدا کی کہ یہ فرقہ پورے عالم اسلام میں بے مثال احترام اورعزت کامستحق سمجھاجانے لگا۔
پرنس نجم الدین نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان،یمن،مصراور سبھی ایسے ملکوں میں جہاں بوہرہ فرقہ کی آبادیاں پائی جاتی ہیں، ایک ایسے قابل احترام درجہ اورایک ایسے باعزت مقام کے مالک بن گئے جس کے بنانے میں ان کی ذاتی خوبیوں اورشخصی کمالات نے حصہ لیا تھا۔وہ عربی،گجراتی اورانگریزی کے قادر الکلام ادیب اور ایسی شخصیتوں میں سے ایک تھے، جن کے افکار اور جن کی تعمیری جدوجہد میں حیرت ناک مطابقت پائی جاتی تھی، وہ سورت کی جامعۃ السیفیہ کے ریکٹر اوراس یونیورسٹی کے ایسے معمار تھے جس نے بوہرہ فرقہ میں، عالموں اور فاضلین مذہب کی ایک پوری قطار پیداکرنے میں حصہ لیا تھا،ان کی متعدد کتابوں سے جو حسب ضرورت عربی،گجراتی اورانگریزی میں لکھی گئیں ان کے تبحر علمی اور گہرے مذہبی شعور کی ترجمانی کے علاوہ بوہرہ فرقہ کی دینی اورمذہبی رہنمائی میں بھی حددرجہ مفید اورکارآمد ثابت ہوئیں اورجامعۃ السیفیہ کاعلمی اور داخلی معیار دنیا بھر کے مدرسوں اوردینی اداروں کے لیے ایک مثالی اورقابل رشک معیاربن گیا۔ابھی کچھ دنوں پہلے انھوں نے پاکستان میں بھی سورت کی اس جامعۃ السیفیہ کے نمونے پرایک یونیورسٹی قائم کی، اورسیدنا برہان الدین کی سرپرستی میں ایک عظیم الشان لائبریری اوردوسرے شعبے قائم کرنے کی تقریب منعقد کی توصدر پاکستان جنرل ضیاء الحق اورپاکستان کے دوسرے وزیروں نے جہاں اس تقریب میں شرکت کرکے اس کے وقار میں اضافہ کیا، وہاں پرنس نجم الدین اورسیدنا برہان الدین کی وجہ سے ہندوستان کانام بھی روشن ہوااورایک ایسی مثال قائم ہوئی جس سے ثابت ہواکہ پاکستان کی ایک علمی ضرورت کو ہندوستان کے صاحب علم لوگ اس طرح پورا کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے ارباب علم واقتدار اس کے معیار اورنفاست کودیکھ کر حیران رہ جائیں۔
اس سے پہلے، انھوں نے قاہرہ کی فاطمی اقتدار کی یادگار مسجد کی تعمیر نو میں حصہ لیا اوراپنے اسلاف کے ورثہ کی حفاظت اوراس کی قابل فخرطرزتعمیر کی بقاء کے سلسلے میں ایک ایسا لازوال کارنامہ انجام دیا جوآنے والی صدیوں میں سیدنا برہان الدین اورپرنس نجم الدین دونوں کی اعلیٰ ظرفی،بلند حوصلگی اورفیاضی کی یاد دلاتا رہے گا۔انھوں نے اس جامع مسجد کی تعمیرنو میں دراصل اس تعمیری آرٹ کو از سرنو زندہ کرنے اور اسے ا بدیت سے ہمکنار کرنے کے جذبہ کی تکمیل کی جو مصر کی خلافت کے مخصوص اورامتیازی فن تعمیر کی حیثیت رکھتاتھا اورگردش ایام سے مٹنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔
وہ نہ صرف مصر کی فاطمی خلافت کی روایتوں کے امین بلکہ اس کے قابل فخر کارناموں کے سچے معنوں میں وارث تھے اورانھیں اپنے اسلاف کی عظمتوں کا پورا احساس تھا اوروہ فاطمی خلفاء کے جانشین کی حیثیت سے ان تمام روایتوں اور امتیازی کاموں کوزندہ رکھنے کاایک تیز اورشدید جذبہ رکھتے تھے، جن کی بدولت تاریخ اسلام میں فاطمی خلافت کوایک ممتاز درجہ حاصل ہواتھا۔
سیدنا برہان الدین اورپرنس نجم الدین کے اس بے لوث جذبہ اورگہری جذباتی وابستگی کااندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ جب انھوں نے قاہرہ کی اس یادگار جامع مسجد کواپنے خرچ پرتعمیر کرنے کی تجویز مصری حکومت کے سامنے پیش کی توان کی نیت اور مقاصد کے بارے میں اوّل اوّل مصری لیڈروں کوشک و شبہات پیداہوئے اورانھوں نے اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے کے باوجود بہت دنوں تک اس تعمیر کے مقاصد کے بارے میں خفیہ تحقیقات جاری رکھی، لیکن جب انھیں ان کی بے لوثی اوربے غرضی کایقین ہوگیا تواس کی افتتاحی تقریب میں نہ صرف صدرسادات، پوری خوش دلی اورقلبی انشراح کے ساتھ شریک ہوئے بلکہ پوری مصری حکومت نے اس تقریب کویادگار اورباوقار بنانے میں اس طرح حصہ لیا کہ یہ تقریب عالم اسلام کی ایک یادگار تقریب بن گئی۔
جہاں تک ہندوستان کاتعلق ہے توپرنس نجم الدین، یہاں کی ہرملّی اوردینی تحریکوں کے جزولاینفک سمجھے جاتے تھے، مسلم مجلس مشاورت کی سرگرمیاں ہوں، تحفظ شریعت کی تحریک یامسلم پرسنل لابورڈ کی جدوجہد یامسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کی مہم__ہرتحریک میں انھوں نے پوری دلچسپی کے ساتھ نہ صرف حصہ لیا، ہرملّی کام میں نہ صرف یہ کہ پوری طرح شریک رہے بلکہ ہرآڑے وقت میں ان کاموں کی رہنمائی اورہرطرح کے تعاون اورامداد میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ان کی دلچسپیاں،ان کی ہمدردی اورتعلق صرف بوہرہ فرقہ کے لیے مخصوص اورمحدود نہیں تھابلکہ وہ فرقہ اور برادری کے محدود دائروں سے بہت بلند اور پورے عالم اسلام کی سربلندی کے ایک ایسے علم بردار تھے، جن کی نظیر اس زمانے میں مفقود اورناپید تھی۔مفتی عتیق الرحمان عثمانی ؒ کے ساتھ ان کا ذاتی تعلق،ان کی گہری رفاقت اورعزت واحترام کارویہ نہ صرف اوّل سے آخر تک برقراررہا بلکہ وہ ان کے ایسے قدردانوں اوررفیقوں میں سے ایک تھے، جن کے جذبۂ اخلاص کی حدود، مفتی عتیق الرحمان عثمانی کی عقیدت تک بعض اوقات وسیع ہوجاتی تھیں۔ ماہنامہ ’’برہان‘‘کے مفکر ملت نمبر کے لیے ان کے جوتاثرات ابھی حال ہی میں موصول ہوئے تھے جس میں انھوں نے پوری فراخدلی کے ساتھ ان کی ملّی خدمات کوخراج عقیدت و تحسین پیش کیا تھا۔ ہمارے لیے یہ بڑی ہی اذیت ناک اور صدمہ انگیز بات ہے کہ ہمیں نظرات کے کالموں کویکے بعد دیگرے ماتم کے لیے مخصوص کرنا پڑا۔گزشتہ شمارے میں مولانا حفیظ الرحمان واصفؔ کی وفات پر غم و اندوہ کے تاثرات ابھی تازہ تھے کہ پرنس نجم الدین کی رحلت کایہ تازہ سانحہ پیش آگیا، ان کی وفات سے یقینا’’برہان‘‘کوایک سچے قدردان سے محروم ہونا پڑا اور ملت اسلامیہ ایک ایسے صدمہ انگیز نقصان سے دوچارہوئی، جس کی تلافی کی کوئی صورت موجود نہیں۔اﷲ تعالیٰ ان کے مقام اخروی کوبلند کرے اوران کے عظیم الشان بھائی سیدنا برہان الدین اوربوہرہ فرقہ کو ان کی وفات کے صدمہ پر صبر کی توفیق عطافرمائے۔ [مئی۱۹۸۷ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...