Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا سید صباح الدین عبدالرحمن

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا سید صباح الدین عبدالرحمن
Authors

ARI Id

1676046603252_54338841

Access

Open/Free Access

Pages

222

سید صباح الدین عبدالرحمن
بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ مشہور عالم،تحقیقی،علمی اور ادبی مرکز دار المصنفین اعظم گڑھ کے ناظم اور اردو زبان کے ممتاز علمی،ادبی اور تحقیقی رسالے ’معارف‘ کے مدیر سید صباح الدین عبدالرحمن کااچانک ایک سڑک حادثے میں انتقال ہوگیا۔انا ﷲ واناالیہ راجعون۔وہ اپنے ایک عزیزاورمشہور مصنف سید شہاب الدین دسنوی کے ساتھ ایک رکشہ پرندوہ سے فرنگی محل جارہے تھے کہ ایک گائے ان کے رکشہ سے ٹکراگئی اورگائے کی یہ ٹکر موت کی ٹکر ثابت ہوئی کیونکہ سید صباح الدین اس کی ٹکر کے جھٹکے سے سڑک پرگرے توپیچھے سے آنے والے ٹرک نے ان کے سرکوکچل دیا اوروہ آناًفاناً اس دنیا کوچھوڑ کر دوسری دنیا کے سفر پر روانہ ہوگئے۔یہ حادثہ ڈالی گنج کے لوہے کے پل کے قریب پیش آیا ان کے ہمراہی سید شہاب الدین دسنوی پوری طرح محفوظ رہے اورانھیں کوئی گزند نہیں پہنچا، اس سے ثابت ہوتاہے کہ موت دراصل ان ہی کے لیے رکشہ تک آئی تھی اورایک جھپٹے میں ان کی روح قبض کرکے اس نے مشیت کے حکم کی تعمیل کردی۔ اﷲ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
سید صباح الدین عبدالرحمن شبلی اسکول کے آخری تابندہ ستارے تھے اور اس سلسلے کی آخری کڑی تھے، جس نے مولانا شبلی نعمانی اوران کے تربیت یافتہ مصنفین نے اردو ادب کے علمی،ادبی اورتحقیقی میدانوں میں ایسے کارنامے انجام دیے کہ اردو جیسی شعر و شاعری کی زبان اورزبانوں کی برادری میں سب سے کم عمر اور نئی زبان دنیا کی ترقی یافتہ اورعلمی زبانوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کے قابل بن گئی۔سید صباح الدین عبدالرحمن کواگرچہ شبلی کے دامن سے براہ راست وابستگی کاموقع نہیں ملا لیکن وہ دارالمصنفین اورماہنامہ معارف کے اس سنہری دور میں دارالمصنفین سے وابستہ ہوئے جو سید سلیمان ندوی کے علمی، تاریخی اور تحقیقی کارناموں اوران کارناموں پراقصائے عالم میں اٹھنے والے داد و تحسین کے شور سے گونج رہا تھا۔ انھوں نے تحریر کی تربیت اورتحقیق کاذوق بھی سید سلیمان ندوی سے حاصل کیا۔ وہ کم وبیش پچاس برس تک دارالمصنفین کے ساتھ وابستہ رہے اور اس آدھی صدی کی مدت میں انھوں نے دارالمصنفین کی تنگی اورفراخی کے دور دیکھے اورہرحال میں خوش رہنے کے اصول پرکاربند رہ کر دارالمصنفین کے ایک رکن کی حیثیت سے لے کر اس کی سربراہی کے منصب کے تمام مراحل دارالمصنفین کی عمارت میں رہ کر ہی طے کیے اورتصنیف وتالیف سے لے کر مالیاتی شعبوں تک کے آدھی صدی کے تجربات سے حقیقی معنوں میں سبق حاصل کیے اوران ہی تجربات اور ان کے سبق کانتیجہ تھا کہ وہ حقیقی معنوں میں دارالمصنفین کے ترجمان اوراس کی روح کے محافظ بن گئے تھے اور ان کی یہ حیثیت ساری دنیا میں مسلمہ اورغیر متنازعہ تسلیم کرلی گئی۔ ان کا شمار اردوزبان کے ایسے ممتاز مصنف اورباوقار اہل قلم میں ہوتا تھا جو ہندوستان اورہندوستان سے باہر کی علمی،ادبی،مجلسوں،سمیناروں اوراجتماعات میں عزواحترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے اوران کی شرکت ان اجتماعات کی شان میں اضافہ کاسبب بنتی تھی۔
حضرت امیر خسرو پران کا وہ مقالہ جو انھوں نے امریکہ میں پڑھا اور اجودھیا کی بابری مسجد کی تاریخ جوانھوں نے دارالمصنفین کی خلوتوں تنہائیوں میں بیٹھ کر مرتب کی،ان کی تحقیقی صلاحیت،گیرائی اورگہرائی اورجلالت شان کے شاہد عادل کہے جاسکتے تھے۔وہ ہندوستان میں مذہبی رواداری کے بہت بڑے حامی تھے اوربڑھتی ہوئی فرقہ واریت کے رحجان سے بے حد دکھی اور پریشان رہتے تھے، اس لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے موضوعات پراپنے قلم کے جوہر دکھاتے تھے جوہندوستان میں قومی یک جہتی، فرقہ وارانہ امن اور ہندومسلمان کے درمیان فاصلے کوکم کرنے کے لیے مفید ثابت ہوسکیں، اس سلسلے میں مغل سلاطین کی مذہبی رواداری اورصوفیائے کرام کی وسیع مشربی کے موضوعات پرایسی تحریریں کتابوں کی شکل میں یادگار چھوڑیں جو ماضی کے ہندومسلم اتحاد اوریگانگت پرمستند دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں۔
وہ سید سلیمان ندوی کے شاگرد ہی نہیں عاشق صادق بھی تھے۔ جب ان کا تذکرہ آتاتو ان کا قلم بے اختیار ہوکرلعل وگُہر اگلنے لگتا تھا انھوں نے سید سلیمان ندوی کی زیر تربیت تحریر و تحقیق کاملکہ حاصل کیا تھا وہ ان کے قریبی رشتہ دار بھی تھے۔ان کے قلم سے کوئی چالیس کے قریب کتابیں نکلیں،ان میں بزم صوفیہ،بزم تیموریہ،بزم مملوکیہ اورہندوستان کے عہد وسطیٰ کے مسلمانوں کی ایک جھلک نے بڑی شہرت پائی۔ان کی آخری تصانیف میں اورنگ زیب عالمگیر اوربابری مسجد کی تاریخ کاشمار کیاجاسکتاہے۔ان میں اورنگ زیب عالمگیر جس میں انھوں نے جادوناتھ سرکار کی متعصبانہ تحریفوں اور تحقیقی ٹھوکروں کی نشاندہی بڑی جاں فشانی کے ساتھ کی ہے غالباً ابھی تک شائع نہیں ہوسکی۔
۷۸ سالہ سید صباح الدین عبدالرحمن کاشمار اس وقت چوٹی کے محققین اور اہل قلم میں ہوتا تھا، ان کی تحریر میں سید سلیمان ندوی جیسی جامعیت، مولانا عبدالسلام ندوی جیسی گہرائی، مولانا عبدالسلام قدوائی جیسی سنجیدگی اورشاہ معین الدین احمد جیسی تازگی اورگیرائی نہیں تھی لیکن ان کے قلم کی روانی،شگفتگی اوررواں دواں تحریر کواقبال کے الفاظ اوران کے اشعار کے مفہوم سے ہم آہنگ کرتے چلنے کا فن،ان کے پیش روؤں کے قائم کردہ معیار میں اضافہ کی حیثیت رکھتا تھا اور اس منفرد اسلوب کی بدولت ان کی تحریر اتنی شگفتہ اور اتنی دلآویز ہوگئی تھی کہ سینکڑوں تحریروں کے درمیان بھی اپنے البیلے انداز کے سبب ممتاز اورنمایاں نظر آتی تھی۔
جن لوگوں کوان پر فوقیت حاصل تھی وہ ان کے سامنے ہی سامنے اپنی زندگی کی مہلت پوری کرکے اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے، اس لیے اب شبلی اسکول کے اہل قلم اورصاحب اسلوب مصنفین میں ان کاکوئی ہمسر باقی نہ رہا تھا۔ وہ اپنی ملّی دردمندی،دانشوری اوردوسرے اخلاقی خصائص کے لحاظ سے ایک ایسی قابل احترام اورمقبول شخصیت کے مالک تھے کہ ہرمجلس میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے اوران کے وسیع اورگہرے مطالعہ اورعلمی ژرف نگاہی حاضرین کو متعجب اورمسرور کردیتے تھے۔
سید صباح الدین عبدالرحمن نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی وہ علی گڑھ کے گریجویٹ بھی تھے اورانگریزی لکھنے پربھی انھیں پوری قدرت حاصل تھی لیکن انھوں نے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد سرکاری ملازمت کے بجائے اردو کاایک مصنف اورمحقق بننے کو ترجیح دی۔ وہ دارالمصنفین اعظم گڑھ میں آئے اورانھوں نے بڑی قلیل تنخواہ پردارالمصنفین کے رکن کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی شروع کی۔ سید سلیمان ندوی کی صحبتوں اوران کی تربیت کی بدولت جلد ہی ان کاشمار صاحب طرز مصنفین اورسلیقہ مند محققین میں ہونے لگا اوران کی شہرت ہندوستان کے علمی حلقوں کے علاوہ رسالہ معارف کی وساطت سے بین الاقوامی حلقوں تک پہنچ گئی اوردنیا بھر کے علمی اداروں اوردانش گاہوں میں ان کے علمی اورادبی اورتحقیقی مرتبہ کااعتراف کیاجانے لگا۔وہ دارالمصنفین کے ناظم، رسالہ معارف کے ایڈیٹر کے علاوہ ندوۃ العلماء کی مجلس منتظمہ،انجمن ترقی اردو ہندکی مجلس عاملہ اوراترپردیش کی مجلس منتظمہ کے ممبر بھی تھے۔ان کے علاوہ وہ ہندوستان،پاکستان،برطانیہ اورامریکہ کے اہم اردو اجتماعات اور سمیناروں میں گئے جہاں انھوں نے ا پنی دانشوری اورعلمی وادبی صلاحیتوں کااچھا اثر علمی،تحقیقی اور تاریخی حلقوں پر چھوڑا۔ان اجتماعات اورسمیناروں میں انھوں نے جو مقالے پڑھے وہ اپنی جگہ مستقل کتابوں کی حیثیت رکھتے تھے ان میں سے بعض مقالے کتابوں کی شکل میں شائع بھی ہوئے۔
سید صباح الدین کے پس ماندگان میں ان کی بیوہ،دولڑکیاں اوردولڑکے ہیں ان کی میت کی پہلی نماز ندوۃ العلماء کے صحن میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے پڑھائی جس کے بعد ان کے جسد خاکی کواعظم گڑھ لے جایا گیا جہاں سوگواروں کی کثیر تعداد کی موجودگی میں انھیں آخری منزل پرپہنچادیا گیا۔
اردوزبان کو جوپہلے ہی اپنے عظیم المرتبت اہل قلم،شاعروں اورمصنفین کی دائمی جدائی کے صدموں سے بے حال تھی،سید صباح الدین کی وفات سے زبردست صدمہ اور ناقابل تلافی نقصان سے دوچارہونا پڑاہے جب تک وہ زندہ تھے ان کے بعد رونما ہونے والی صورت حال کا تصور تک کسی کونہ تھا لیکن ان کے اچانک رخصت ہونے کے بعد دارالمصنفین پہلے سے زیادہ ویران اور مستقبل کے خوفناک اندیشوں کے ہجوم میں گھرا ہوادکھائی دینے لگاہے وہ ایک ایسی قوم کے فرد تھے جوزوال اورانحطاط کے ایسے دور سے گزر رہی ہے کہ ایک شخصیت کے دنیا سے گزر جانے سے ایک پورے ادارے کا وجود بے یقینی سے دوچار نظر آنے لگتاہے۔
سید صباح الدین عبدالرحمن کی زندگی ہی میں دارالمصنفین اورشبلی اکیڈمی کے سلسلے میں ملکیت کے تنازعے کھڑے ہوگئے تھے اورمقدمہ بازی تک نوبت پہنچی تھی، اب ان کے بعد معلوم نہیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔دارالعلوم دیوبند کے سلسلے میں جن لوگوں نے ادارے سے باہر کمیٹیاں بناکر ان کے ذریعے دارالعلوم پرقبضہ کی جو مثال قائم کی تھی اس کی بدولت ملک بھرمیں کتنے ہی اہم اور تاریخی اداروں اورتعلیم گاہوں کامستقبل خطرہ میں پڑگیا تھا اورایک جگہ کی کامیابی، دس جگہ اسی طرح کی حرص کوجگانے کاسبب بن رہی ہے۔بہرحال ہماری دعا ہے کہ دارالمصنفین کا موجودہ علمی اور تحقیقی معیار اوراس کابنیادی کردار باقی رہے اورعلم وادب وتحقیق کایہ مرکز تخریب اورتباہی کی آندھیوں سے محفوظ رہے کہ ایسے ادارے صدیوں میں جاکر کہیں بنتے اورتعمیر ہوتے ہیں۔
[نومبر۱۹۸۷ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...