Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > جنرل محمد ضیاء الحق[صدرِ پاکستان]

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

جنرل محمد ضیاء الحق[صدرِ پاکستان]
Authors

ARI Id

1676046603252_54338843

Access

Open/Free Access

Pages

227

جنرل محمد ضیاء الحق
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق اوران کے ہمراہ کئی اعلیٰ فوجی آفیسر ۱۷/اگست کوبہاول پور کے قریب ایک فضائی حادثے کاشکار ہوکر جاں بحق ہوگئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
پرواز کے چند لمحے کے بعد ہی طیارہ میں زبردست دھماکہ ہوا اورمرحوم کا صدارتی طیارہ آناًفاناً ٹوٹ کربکھرگیا۔طیارہ کے تمام مسافر،امریکی سفیر مسٹر آرنلڈ رافل،پاکستان کے فوج کے سربراہ جناب جنرل محمد ضیاء،پاکستان کے دولیفٹنٹ جنرل،تین میجر جنرل،پانچ بریگیڈ،ایک کرنل،ایک اسکواڈرن سمیت ۱۳۷ افراد لقمۂ اجل بن گئے۔
حادثہ کی وجوہات کیاہیں؟اعلیٰ پیمانے پرتحقیقات جاری ہیں اوراس سلسلے میں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ ہرممکن تعاون اور سی۔آئی۔اے کے ذریعہ تحقیقات میں مدد دینے کی پیش کش کی ہے۔
اس بھیانک حادثہ اوربین الاقوامی سازش کے جو بھی ذمہ دار ہوں حقیقت یہ ہے کہ صدر ضیاء الحق اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
صدر ضیاء الحق مرحوم۱۲/اگست۱۹۲۳ء میں پنجاب کے مشہور شہر جالندھر میں ایک متوسط گھرانے میں پیداہوئے۔دہرہ دون کے دون اسکول میں ابتدائی تعلیم کے بعد سینٹ اسٹیفن کالج دہلی میں داخلہ لیا جہاں قبلہ جناب پروفیسر مولانا سعید احمد اکبر آبادی مرحوم سابق مدیر ’’برہان‘‘سے بھی مرحوم صدر کواستفادہ کا موقع ملا اوراس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل ضیاء، حضرت اکبرآبادی سے تمام زندگی بے حد متاثر رہے۔۱۹۴۶ء میں دہرہ دون کی رائل ملٹری اکیڈمی سے فراغت کے بعد فوج میں شامل ہوگئے۔۱۹۷۶ء تک وہ ایک جونئیر افسر تھے جنرل ٹکاخاں کے ریٹائر ہونے کے بعد مسٹر بھٹو نے ان کوجنرل بنادیا۔۱۹۷۷ء میں جنرل ضیاء بھٹو کاتختہ الٹ کر خوداقتدار پر قابض ہوگئے۔۱۹۷۷ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد چیف ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ستمبر۱۹۷۸ء میں مرحوم باضابطہ پاکستان کے صدربن گئے۔۱۹۸۴ء میں مرحوم نے ریفرنڈم کرایا جس کا نتیجہ ان کے حق میں نکلا، اس کے بعد انھوں نے پھر ملک کے منتخب سربراہ کی حیثیت سے صدر کے عہدہ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔اس دوران انھوں نے جو بھی اقدامات اٹھائے وہ اپنے ذہن وفکر کے اعتبار سے پاکستانی عوام کی فلاح وبہبودی کے لیے اٹھائے۔بلاشرکت غیرے پاکستان کے سب سے بڑے اورذمہ دار عہدے پرفائر رہ کر انھوں نے ثابت کردکھایا کہ وہ ایک اعلیٰ درجہ کے سیاست داں،ہوش مند قائد اورمدبر ومنتظم بھی ہیں جنھوں نے اپنی انفرادیت، خودی اورتشخیص[تشخص] کوہرحال میں قائم رکھا اورجس کا اعتراف آج مرحوم کی وفات کے بعد ملکی و بین الاقوامی اورعالمی سطح پرکیاجارہا ہے۔ ذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء۔
مرحوم کی شہادت کی وجوہات سے قطع نظر جنرل محمد ضیاء الحق کی شخصیت اور عظمت کسی بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے۔بلاشبہ صدرپاکستان مرحوم برصغیر کی حالیہ سیاسی تاریخ کی اہم ترین شخصیات میں سے تھے۔پاکستان اورپڑوسی ملک کے ساتھ ساتھ پورے عالم اسلام کے لیے ان کی موت ایسا دردناک سانحہ ہے جس کے اثرات طویل مدت تک محسوس کیے جائیں گے۔
یہ بات اپنی جگہ سوفیصد درست ہے کہ ان کی موت کاحادثہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اتنا ہی اہم موڑ ثابت ہوگا جتنا کہ گیارہ سال پیشتر۱۹۷۷ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کاتختہ الٹ کر اقتدار پرقبضہ کرنا تھا۔اندورنی وبیرونی مخالفت ومزاحمت اورپاکستان میں متحارب قوتوں کی اقتدار کے لیے رسہ کشی اور سازشوں کے باوجود مرحوم صدرایک طویل عرصے تک بڑی شان و وقار کے ساتھ برسراقتدار رہے،اوراس دوران مادّی،انتظامی اورسیاسی اعتبار سے پاکستان کے استحکام کے لیے زبردست کوششیں کیں اوراسے بین الاقوامی برادری میں ایک ممتاز اورمنفرد مقام دلایا۔
صدر ضیاء نے پڑوسی ممالک خاص طور پرہندوستان کے ساتھ برادرانہ اور خیرسگالی کے تعلقات رفتہ رفتہ معمول پرلانے کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا سے تعلقات اورروابط میں بھی صدر مرحوم نے مناسب،موزوں اورمتوازی حکمت عملی(STRATEGY)اپنائی تھی۔
وہ اگرچہ بعض توسیع پسند اورطاقتور ملکوں کے لیے ہمیشہ ان کی راہ میں ایک رکاوٹ رہے۔ان ممالک کی اندرونی سازشوں اورمخالفتوں کے باوجود کامیابی اوراستقلال کے ساتھ ملکی نظم ونسق سنبھالتے رہے۔پاکستان کی تاریخ میں اتنا طویل دورحکومت کسی اور حکمراں کونصیب نہیں ہوا۔اقتدار کی اس طویل مدت میں ان کے کٹر سے کٹر سیاسی مخالفین بھی ان کی دیانت وامانت یا ذاتی نوعیت کے کسی معاملہ میں ان کانام کبھی ملوث نہیں کرسکے کہ اپنے قریب ترین عزیز واقارب اوردوستوں کوبے جا مراعات یامالی منفعت پہنچائی ہو۔
جالندھر (پنجاب) میں پیداہونے والے اس پیشہ ورسپاہی اور مجاہد کے لیے ’’پاکستانی جغرافیائی وطن میں نہیں بن سکتا تھا پاکستان مرحوم کے لیے ایک نظریاتی وطن تھا‘‘۔ مرحوم ضیاء کی ذاتی زندگی میں اخلاص اورپاکیزگی اورعوامی زندگی میں فرض شناسی اوردیانت داری کااعتراف دوست دشمن سب کورہا۔یہ اسی’’آئیڈیل ازم‘‘ کانتیجہ تھاکہ پاکستان کوایک تاریخی وارثت،ایک نظریہ،ایک فلاحی ریاست اور مثالی مملکت اورنظریات کی بنیاد پرقبول کیاجانے والا وطن سمجھتے تھے۔
جنرل ضیاء مرحوم کے گیارہ سال پر محیط دوراقتدار کاتجزیہ فی الوقت ممکن نہیں ہے۔مرحوم نے ملک کے سیاسی اورانتظامی ڈھانچے میں جو مثبت،تعمیری اصلاحات کیں، ان کی فہرست بہت لمبی ہے۔
اسلام کوبحیثیت ایک نظام(SYSTEM)اورپاکستان میں اسلامی شریعت کے نفاذ اوراس ملک کواسلام کانمائندہ ملک بنانے میں جنرل ضیاء الحق ذاتی طورپر بڑے مخلص،اس کے پُرجوش حامی اورداعی تھے اوراس تعلق سے وہاں جو کچھ بہتری نظرآرہی ہے وہ مرحوم کی ذاتی کوشش اوراورخواہش ہی کا نتیجہ ہے۔ نئی حکومت’’اسلامی شریعت کے نفاذ‘‘کے تعلق سے کیاپالیسی اپناتی ہے ابھی یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔صدر مرحوم کی ہلاکت کے پیش نظر فی الحال پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے اورعام لوگوں کے بنیادی حقوق معطل اورسیاسی سرگرمیوں پرپابندی عائد کردی گئی ہے۔
اسی طرح مسلم ممالک سے روابط اورتعلقات میں صدرضیاء کے دور میں قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔مسلم سربراہ کانفرنس میں صدر مرحوم نے خصوصی مقام حاصل کیا۔وہ امن کمیٹی کے چیئرمین (Chairman)تھے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کمیٹی کے سربراہ مقررہوئے۔مصر کو دوبارہ کانفرنس کارکن بنانے کاذریعہ بنے اور اس سے تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہوئے۔اسلامی سربراہی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پرپاکستان کانمائندہ منتخب کیاگیا۔ پاکستان غیرجانبدار تحریک کارکن بنا۔افغانستان کے مسئلہ کا باوقار اورپُرامن حل اور وہاں سے روسی افواج کے انخلاء کے معاملہ میں بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری اورجرأت مندانہ موقف نے صدر مرحوم کوایک یادگار اوربلند وقار عطا کیا۔پاکستان نے۳۰لاکھ افغان مہاجرین کوپناہ دے کر اوران کی بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرکے جو عظیم انسانی کارنامہ انجام دیا ہے اسے دنیا بھر میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔اقوام متحدہ میں اس کی پیش کردہ قراردادوں پر ۱۲۳ ممالک نے حمایت میں ووٹ ڈالے جومسلم اورغیر مسلم دنیا اورمتعدد اشتراکی ممالک کی جانب سے اظہار اعتماد کاایک شاندار اورقابل فخر ریکارڈ ہے اور یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ آج کاپاکستان دنیا کی نظروں میں کل کے پاکستان سے بہت بلند مقام پرفائز ہے۔
پاکستان کے سیاسی افق سے صدر ضیاء کے اچانک غائب ہوجانے سے پاکستان کے سامنے کئی اہم ترین موڑ آگئے ہیں اور فی الحقیقت پاکستان مسائل اور آزمائشوں سے دوچار ہوگیاہے۔صدر ضیاء کی ہلاکت سے طاقتوں کاہرتوازن اثرانداز ہواہے۔سیاست کی وہ ساری بساط الٹ گئی ہے۔پاکستان کے تین پیشہ ور سپاہیوں کی ایک ساتھ موت،پاکستان ہی نہیں بلکہ مغربی ایشیا اوروسط ایشیا تک سیاست بدل گئی ہے۔اب افغانستان، ایران، سعودی عرب،عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں سیاست کارخ بدل سکتاہے۔مرنے والے کی نظر بڑی وسیع،ذہن بڑا درّاک اورتعلقات بڑے وسیع تھے۔ان کی سیاست،دانائی،تدبر،فراست اور معاملہ فہمی مسلمہ تھی۔
بہرحال مرحوم کی المناک فضائی حادثے میں شہادت سے ایک ایسے دور کاخاتمہ ہوگیاہے جسے مستقبل کامورخ کسی قیمت پرنظرانداز نہیں کرسکتا۔چونکہ صدر مرحوم ایک ہوائی حادثہ کاشکار ہوکراﷲ کے حضور پہنچے ہیں اورشریعت اسلامی کے اعتبار سے ایک مسلمان جب کسی ناگہانی حادثہ کاشکار ہوکرمرتا ہے تواس کو ’’شہادت حکمی‘‘کاعظیم مرتبہ ملتاہے۔اس معنی کر [کذا] صدر ضیاء کی موت ایک شہید کی موت ہے اورروزمحشر میں شہید سے کوئی پوچھ گچھ نہیں۔
بارگارہ خداوندی میں ہم دعاگو ہیں اﷲ تعالیٰ مرحوم اوران کے رفقاء کواعلیٰ علیین میں جگہ دیں، ان کے درجات بلند فرمائیں، اپنے دیدار سے نوازیں۔ اور سوگوارخاندان، ہم سب کو اورپاکستانی عوام کواس حادثۂ جانکاہ کوبرداشت کرنے کی توفیق وہمت دیں۔
ہماری دعا ہے اﷲ تعالیٰ پاکستان کے موجودہ حاکموں کوپورے عزم اور یکجہتی کے ساتھ حالات میں سدھارلانے کی توفیق دے اور پاکستانی قیادت اور باشعور عوام جلداز جلد اس خلا کوپُر کرسکیں جو صدر مرحوم کے اٹھ جانے کے بعد پیدا ہواہے۔ دراصل ایک متحد،مضبوط،پائیدار اوراندرونی اعتبار سے مستحکم پاکستان سے ہی ہندوستان اوربرصغیر کے لوگوں کاوسیع ترمفاد وابستہ ہے!!!
[ستمبر۱۹۸۸ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...