Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

امام خمینی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338844

Access

Open/Free Access

Pages

229

امام خمینی
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
انقلاب ایران کے تاریخ ساز قائد، ایران میں اسلامی جمہوریہ کے بانی، روحانی پیشوا اور عالمِ اسلام کے ایک عظیم فرزند علامہ روح اﷲ آیت اﷲ خمینی مرحوم ۳؍جون بروز شنبہ کواپنی علالت اورآپریشن میں ناکامی کے بعد بالآخر وہاں پہنچ گئے جہاں ہم میں سے ہرایک کوایک دن جانا ہے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ راجِعُوْن۔علامہ خمینی کے انتقال کی خبر سے مسلم ممالک میں صفِ ماتم بچھ گئی، موت اَٹل اوربَرحق ہے اور یہ تلخ گھونٹ ہر متنفّس کواپنے وقت پر پینا ہے۔’’کل نفسٍ ذائقۃُ الموت‘‘ اور ’’اِذَا جَآء اجُلُھَا لَا ےَسْتَاخِرُون ساعۃ وَلَا یستقدمون ‘‘ فرمان الٰہی ہے۔
تاہم اس کار گاہِ ہستی میں بعض شخصیات ایسی بھی پیدا ہوتی ہیں، جن کے دنیا سے اُٹھ جانے کے بعد جوخلاء پیداہوتا ہے،اس کاپُر ہونا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ صدی میں جن اہم شخصیات نے جدید تاریخ پرگہرے نقوش واثرات چھوڑے ہیں، اور ایک لمبی مدت تک جن کی یاد باقی رکھی جائے گی ان میں مرحوم رہنما کی انقلاب آفریں ذات بھی شامل ہے۔
بلاشبہ علامہ خمینی کے انتقال سے سیاسی بالغ نظری، جرأت،بے باکی انقلاب، عزم اور خودداری کے ایک دور کاخاتمہ ہوگیا، علامہ خمینی اپنی ذاتی خصوصیات اوصاف اور کمالات کے اعتبار سے ایک پُرکشش، باوضع اوربھاری بھرکم شخصیت کے مالک تھے ان کے بعض عقائد وافکار ونظریات ،سیاسی سوچ و اپروچ اور طریقِ کارسے جمہوری اختلاف کے باوجود ان کی اصول پسندی، جذبۂ حرّیت ،ایثار وقربانی اور جدوجہد کی تعریف کیے بغیر چارۂ کار نہیں ہے۔
علامہ آیت اﷲ خمینی ۱۹۰۰ء میں شمالی ایران کے جران نامی ایک قصبہ خمین میں پیدا ہوئے، کل عمر ۸۹؍ سال کی پائی، بچپن سے ہی آپ کی تعلیم وتربیت ایک خاص ماحول میں ہوئی۔آپ نے اسلامیات ،دینیات ،فقہ اور فلسفہ کے شعبوں میں تعلیم حاصل کی ، وہ بلا کے ذہین اور تیز آدمی تھے، اور شروع سے ہی ایران میں شاہی طرز نظام اور پہلوی سلطنت کی مغرب نواز پالیسیوں کے سخت مخالف تھے۔ جوانی کی دہلیز میں قدم رکھتے ہی انھوں نے بادشاہی طرز ِ نظام کے خلاف مہم کاآغاز کردیا۔ایران کے سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی کے دورِ اقتدار میں جب ملک میں بدعنوانی اورانارکی کاغلبہ ہوگیا اور پورے ملک میں مغربی تہذیب وکلچر کایلغار ہونے لگا توایران کے مذہبی علماء اورعوام حکمران طبقہ کے شدید مخالف ہوگئے اور آیت اﷲ خمینی کی امیج ایک بے باک رہنما کی حیثیت سے بننے لگی، ۱۹۶۳ء میں خمینی نے حکومتِ وقت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، نتیجۃً ملک بھر میں بڑے پیمانے میں تشدداور افراتفری پھیل گئی۔حکومت نے آیت اﷲ خمینی کو گرفتار کرلیا اوراس کے بعد ۱۹۶۴ء میں ان کو ملک بدر کردیا۔پہلے آپ نے عراق میں پناہ لی اوروہاں بھی انھوں نے پہلوی راج کے خاتمہ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ جب انہیں عراق سے بھی نکالا گیا تووہ پیر س چلے گئے اور جلا وطنی کی چودہ سالہ مدت میں بھی حکومتِ ایران کاتختہ الٹنے کی شبانہ یوم فکر میں کوشاں رہے اس دوران خمینی نے زیادہ سے زیادہ ایرانی عوام کااعتماد اور ہمدردیاں بھی حاصل کرنے کی کوشش کی اوراس میں پوری طرح کامیاب رہے، چنانچہ ۱۹۷۸ء میں جب اندرون ملک شاہی نظام کے خلاف زبردست پھوٹ پڑی تورضا شاہ پہلوی کو ۱۶؍ جنوری ۱۹۷۹ء کو اپناتخت وتاج چھوڑ کرفرار ہونا پڑا۔ جلاوطنی کے طویل وقفے کے بعد ۱۹۷۹ء میں علامہ خمینی اسلامی جمہوریہ انقلاب کے بانی کی حیثیت سے اپنے وطن لوٹے توان کی عمر ۷۰ سال کے قریب تھی، اپنی پیرانہ سالی اورضعیف العمری کے باوجود ان میں جو قوت ارادی، عزم وعمل اپنے نظریہ کی حقانیت ، صداقت پراعتماد اورمقصد کے حصول کے لیے لگن تھی تاریخِ عالم میں اس کی مثالیں بہت ہی خال خال نظرآتی ہیں۔
مارچ ۱۹۷۹ء میں ایرانی عوام کی اکثریت نے ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کے حق میں ووٹ دیااور ملک میں ’’شیعہ مذہب‘‘ کوسرکاری دین قرار دیاگیا اور جوجدید آئین مرتب کیاگیا اس کے تحت علماء کونسل کو’’ ویٹو پاور ‘‘ حاصل ہوگیا اورعلامہ خمینی تاحیات ایران کے اعلیٰ اختیار والے رہنما قرار دیے گئے۔ ایران میں شہنشاہی نظام کے خاتمہ کے بعد جوسیاسی اور فکری انقلاب آیااس نے پوری دنیا کوحیرت واستعجاب میں ڈال دیا۔علامہ خمینی نے اپنے فکر وتدبّر اورسیاسی سوجھ بوجھ سے ایرن میں انقلاب برپا کرکے نہ صرف شہنشاہیت کی تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی بلکہ ملک کاپورا سیاسی اوراقتصادی نظام بدل کررکھ دیا۔
علامہ خمینی نے اپنی زندگی میں جس قدر نشیب وفراز دیکھے اور جس طرح واقعات پر وہ اثر انداز رہے اس کی بھی کوئی جھلک ہمیں دوسرے معاصر سیاسی قائدین کی زندگیوں میں نظر نہیں آتی۔ علامہ کی وطن سے جلا وطنی، ایرانی انقلاب، شاہ ایران کی معزولی اور زوال، امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ تصادم، سفارت کاروں کایرغمال، امریکہ سے اثاثہ جات کاحصول، عراق کے ساتھ طویل ترین جنگ پھر جنگ بندی ایسے ہنگامہ خیز واقعات ہیں جن میں سے ایک آدھ بھی بہت سے رہنماؤں کی زندگی میں وقوع پذیر نہیں ہوتا۔
جدید دور کی تاریخ میں یہ بہت ہی اہم واقعہ ہے کہ علامہ خمینی کی رہنمائی اور پیام کے نتیجے میں ایران کی نوجوان نسل نے مغرب زدگی اور جدیدیت کی نقالی کی بدترین لعنت سے نجات حاصل کی اوراپنے آپ کو مذہب اوراقتدار سے وابستہ کرکے سراٹھاکر فخر اوروقار کے ساتھ جینے لگے، اس عظیم انقلابی کارنامہ کا عالم عرب سمیت عالم اسلام نے بجاطور پردل سے خیر مقدم کیاتھا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انقلابِ ایران کے بعد اکثر عرب اوراسلامی ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات میں کشیدگی رہی اوراس کی وجہ وہ ایرانی تحریکات تھیں جن کے ذریعہ علامہ خمینی نے ایرانی طرز کااسلامی انقلاب ان ممالک میں بھی درآمد کرنے کی کوشش اورتلقین کی تھی۔
ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ علامہ خمینی موجودہ دَورکے ان عظیم رہنماؤں میں شامل تھے جو فکری انقلاب کے ذریعہ دنیا میں تعمیری تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں۔
علامہ خمینی ایران کوایک اسلامی مملکت کانمونہ بناکر پیش کرنا چاہتے تھے کہ آج کے جدید اور مغرب زدہ ماحول میں ایک ایسی سلطنت وجود میں آئے جو عملاً اسلام کی حقیقی اورعملی تصویربن جائے۔علامہ خمینی کایہ نعرہ کہ ’’لاشرقیہ ولا غربیہ۔ اسلامیہ اسلامیہ ‘‘کامفہوم ہی یہ تھا کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جو مغرب اورمشرق کے مہلک اثرات سے پاک ہواور جس میں اسلامی فکر وشعور کی جھلک ملتی ہو، یہ تصور بہت اچھا اور یہ کوشش بہت مبارک تھی۔اگر یہ ساری صورت حال عملی شکل اختیار کرلیتی تواسلامی ممالک امریکی اورروسی غلبے اور تسلّط سے نکل کر اپنی ایک آزاد معیشت قائم کرلیتے اور دونوں بلاکوں کے معاشی اور تمدنی غلبے کاشکار ہونے سے بچ جاتے ۔مگر افسوس ایسا نہیں ہوسکا۔ ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
علامہ خمینی اب اس دنیا میں نہیں رہے اوران کی موت نے ردّ عمل کاجو سلسلہ شروع کیاہے وہ حالانکہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ایران سے باہر بھی رنج وغم کی لہر فطری ہے۔اس طرح یہ تشویش بھی بجا ہے کہ علامہ خمینی کے بعد وہاں کے سیاسی حالات کیاکچھ رُخ اختیارکریں گے؟ مغربی ایشیا کی صورت حال پرعلامہ کے انتقال سے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اورعالمِ اسلام سمیت اب بڑی طاقتوں کی بھی خارجی پالیسی کیا کچھ بنے گی؟ اورجناب علی خامنائی نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں تاہم علامہ خمینی کوجو مقام ومرتبہ اور ایرانی عوام میں مقبولیت ومحبوبیت اوراثر ورسوخ حاصل تھاوہ سب کچھ کسی دوسرے رہنما کوحاصل ہونا ممکن نہیں۔ پھر بھی امید کی جاسکتی ہے کہ خمینیؔ اور خامنائی میں جوصوتی ولفظی یکسانیت اور ہم آہنگی ہے وہ گفتار و کردار اور فکر وعمل کے سانچے میں بھی ڈھل سکیں گے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ علامہ خمینی اس صدی کے ان عظیم رہنماؤں میں تھے جن کے اثرات مادی اور جغرافیائی حدود سے ماوراتھے اوربقول شاعر مشرق:
ہزاروں سال نرگس اپنے بے نوری پہ رُوتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
[عمید الرحمن عثمانی، ستمبر ۱۹۸۹ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...