Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا محمد تقی امینی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338851

Access

Open/Free Access

Pages

233

مولانا محمد تقی امینی
’’آفتاب جوغروب ہوگیا‘‘
تیرہ وتار تھی پہلے ہی یہاں شام حیات
;دامن چرخ سے ایک اورستارہ ٹوٹا
Eکوئی بتلاؤ میری قوم کے معصوموں کو
9کون برباد ہواکس کاسہارا ٹوٹا
Jیہی کوئی دن کے ساڑھے بارہ بجے ہوں گے جب ہمارے ایک دوست نے اطلاع دی کہ مولانا محمدتقی امینی صاحب کاانتقال ہوگیا۔یہ خبر سنتے ہی اولاً توسکتہ کی سی کیفیت ہوگئی۔ کانوں کو جیسے یقین نہ آیا ہو۔ابھی تقریباً ایک گھنٹہ قبل انہوں نے مجھے یاد فرمایا تھا۔ میں حاضر ہواتو دیکھا کہ دھوپ سینک رہے ہیں۔ اورخاصے روبہ صحت معلوم ہورہے ہیں لیکن اب اچانک یہ خبر؟کیاواقعی مولٰینا کا انتقال ہوگیاہے۔کیاسچ مچ مولانا ہم سے جدا ہوگئے ہیں؟ کیایہ سچ ہے کہ مولٰینا نے رخت سفر باندھ لیا ہے اور کوچ کرگئے؟ کیاامت کایہ درشاہوار بے نور ہوگیا؟ کیایہ عظیم المرتبت شخصیت ہمیں داغ مفارقت دے گئی ؟ کیااُمّت کی تقدیر کے آسمان سے ایک اورستارہ شہاب ثاقب ہوگیا؟ ___ہم جلدی سے مولٰینا کے گھر کی طرف لپکے مگردروازے ہی پر جیسے کسی نے قدم پکڑ لیے ہوں۔نالہ وشیون کی آوازیں ایسا ثبوت تھیں کہ ہمیں اس خبر پریقین کرنے کے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔ ؂
چل بسا داغؔ آہ میت اسکی زیب دوش ہے
آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے
پروفیسر سابق ڈین فکلٹی آف تھیالوجی مولٰینا محمدتقی امینی صاحب کے اُٹھ جانے سے ایک پوری انجمن خالی ہوگئی ہے،وہ ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک کارواں تھے۔ وہ ایک آدمی نہیں بلکہ ایک انجمن تھے۔ایک بزم اورایک محفل تھے۔اگران کوآج کے دور میں علماء کاسرخیل کارواں کہاجائے، میں سمجھتاہوں کہ بے جا نہ ہوگا۔ ان کی ذات اپنے آپ میں ایک ادارہ تھی۔وہ علم وحکمت کاچلتا پھرتا خزانہ تھے۔ اُن کے دم سے علی گڑھ میں علم دین کی قندیل روشن تھی،جب کبھی کوئی دینی، فقہی مسئلہ حل نہیں ہوپاتا تھا تویقین رہتاتھا کہ مولٰینا کے یہاں حل ہوجائے گا۔ مگرآہ___کسی کو بھی نہ بخشنے والی موت نے آج آپ کی باری لگادی۔ انھیں بھی ہم سے چھین لیا۔اوروہ بھی ہم سے جدا ہوگئے۔ ؂
ہائے گلچین اجل یہ تجھ سے نادانی ہوئی
پھول وہ توڑا چمن میں جس سے ویرانی ہوئی
ابھی چندماہ پہلے ہی کی توبات ہے مجھے مولٰینا نے یاد فرمایا اور ہفتہ وار اخبار ’’بلٹز‘‘کاایک شمارہ دکھاتے ہوئے کہا۔’’مشتاق میاں! اس میں ہمارے متعلق ایک مضمون آیاہے۔اسے دیکھو ۔‘‘ میں نے لیا اور پڑھا ۔اس کاعنوان تھا ’’ستارہ جوآفتاب بنا‘‘ اس عنوان کاذکر کرتے ہوئے مولٰینا نے فرمایا کہ کچھ دنوں بعد آئیگا ’’آفتاب جوغروب ہوگیا‘‘ اگرچہ اس لفظ کی دہشت سے ہمارا کلیجہ اچھل کر حلق میں آنے کوہوا تھا مگرہمیں یقین تھاکہ ہمارے مشفق استاد ابھی تادیر ہمارے سروں پرسایہ فگن رہیں گے اور ہم ان کی صحبت میں علم وفن کے موتی چنتے رہیں گے۔لیکن ان کاآفتاب بننا سچ مچ ان کے غروب کی علامت بن گیا۔
؂ کیاخبر تھی یہ تغیرموت کاپیغام ہے
آج امت مسلمہ جس قحط الرجال سے دوچار ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ جب امت کاسیاسی وسماجی اورخصوصاً مذہبی شیرازہ منتشر ہورہاہے ،پوری قوم ایک مستقل کرب وبے چینی میں مبتلا ہے،امت کے مسائل ومصائب کامسلسل اضافہ ہورہاہے ،ان کی پریشانیاں پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہیں، آئے دن کے ہنگاموں اور شور شوں میں قوم کی رہی سہی قوّت بھی ختم ہورہی ہے، ایسے مصائب سے پُر حالات میں مولانا جیسے مدبّر ،ذہین اورزبردست عالم دین کااٹھ جانا پوری اُمّت کے لیے ایک سانحہ سے کم نہیں ہے۔
ضرورت جتنی بڑھتی جارہی ہے صبح روشن کی
اندھیرا اور گہرا‘ اور گہرا ہوتا جاتا ہے
مولٰینا محمد تقی امینی صاحب کی ولادت ۲۲؍ شوال ۱۳۴۴ھ مطابق ۵؍مئی ۱۹۳۶ء کوضلع بارہ بنکی کے ایک گاؤں میں ہوئی تھی۔آپ کے والد کانام عبدالحلیم تھا۔ابتدائی تعلیم کے لیے آپ کوگاؤں ہی کے ایک مدرسہ میں داخل کیاگیا۔وہاں مولانا نے کلام پاک کوحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ قرأت وتجوید کی تعلیم بھی حاصل کی۔ذہانت وفطانت کی علامات بچپن ہی سے نمایاں تھیں۔اس لیے آپ کے اساتذہ نے ان کے والد صاحب سے مشورہ کرکے انہیں جامع العلوم کانپور میں داخل کروا دیا۔یہاں آپ نے عربی زبان کے علاوہ اسلامیات،فقہ اور تفسیر کی تعلیم پائی۔اس وقت ہندوستان کے طول وعرض میں علوم دینیہ کی تعلیم کے لیے تین ادارے خصوصیت سے قابلِ ذکرہیں۔ دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور اورمدرسہ امینیہ دہلی۔ مگران میں مفتی کفایت اﷲ صاحب کی وجہ سے امینیہ کوایک خاص اہمیت حاصل تھی۔اس وقت توامینیہ کے درو دیوارسے بھی علم و عرفان کی بارش ہوتی تھی۔دارالعلوم دیوبند کے علماء بھی سند فراغت لینے کے بعد وہاں درس حدیث کے لیے آتے تھے اس لیے مولانا محمدتقی صاحب کے بھی اساتذہ نے سمجھا کہ اس درشاہوار کوجب تک مولانا مفتی کفایت اﷲؒ جیسا عظیم المرتبت فقیہہ اورمحدث نہیں ملے گا اس وقت تک اس کی فطری تابناکی محتاج رونمائی رہے گی۔ چنانچہ آپ کواعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسہ امینیہ دہلی بھیج دیاگیا۔یہاں گویاآپ کومنزلِ مقصود مل گئی یافردوس گم گشتہ آپ کوحاصل ہوگئی۔ آپ کی امیدیں بَرآئیں،علم وعرفان کی جس محفل کے لیے آپ کے سینہ میں نامعلوم سی خلش تھی،اس کوتسکین مل گئی۔علم وفقہ کی تخم ریزی کاتب ازل نے آپ کی فطرت میں رکھی تھی اس کو برگ وبار نکالنے کاموقع ملاگیا اور اس نے اپنی ننھی ننھی کونپلیں نکالنی شروع کیں۔مفتی کفایت اﷲ صاحبؒ نے بھی جلدہی محسوس کرلیا کہ یہ ایک انتہائی ذہین اورباصلاحیت طالب علم ہے اس لیے اپنی خصوصی توجہات مولانا پر منعطف کردیں۔قابل عظمت استاذ کے زیرِ سایہ یہ ننھا سا پودا بہت جلد تناور درخت بن گیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولٰینا کی نسبت ’’امینی‘‘ سے عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ’’امینیہ‘‘ کی طرف نسبت ہے۔جبکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ نسبت مولانا کے ’’نظریہ امانت‘‘ کی غماز ہے۔جس کوانہوں نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’اسلام کازرعی نظام‘‘ میں پیش کیا ہے۔ بعض وجوہ اورحالات کی نامساعدت کی وجہ سے اس نظریہ کوفروغ نہ مل سکا اور لوگوں نے ’’امینی‘‘ کومدرسہ کی طرف نسبت سمجھ لیا۔
امینیہ سے فارغ ہوتے ہی مفتی کفایت اﷲ صاحبؒ نے آپ کی عمدہ صلاحیتوں کے پیشِ نظر اپنی ذمہ پر میواتیوں کے مشہور مدرسۂ سبحانیہ میں جواس وقت قرول باغ دہلی میں تھا مدرس کی حیثیت سے بھیج دیا۔
مشہور عالم، مولٰینا عبدالمنان صاحب، مولانا عبدالغفار صاحب صدر مدرس و شیخ الحدیث مدرسہ عالیہ فتحپوری دہلی اورمولانا محمداسحاق صاحب شیخ الحدیث مدرسہ معین الا سلام قصبہ نوح (میوات) نے اسی زمانہ میں آپ سے فیض حاصل کیا۔اسی دور میں آپ کے تعلقات ندوۃ المصنفین کے بانی مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی اور’’برہان‘‘ کے مدیر مولٰینا سعید احمد اکبرآبادی مرحوم سے استوار ہوگئے تھے جوتادم حیات باقی رہے ۔لیکن مولٰینا کو مدرسہ سبحانیہ کی فضاراس نہ آئی اس لیے جلدہی دارالعلوم ندوۃ العلماء چلے گئے ، یہاں کی علمی محفلوں سے مولٰینا خودبھی مستفید ہوئے بلکہ مولانا کی آمد سے ان میں رونق آگئی۔ لیکن مولانا یہاں بھی زیادہ عرصہ تک نہ رہ سکے ۔آپ کوجلدہی ندوۃ العلماء سے سبکدوش ہو جانا پڑا۔اس کے بعد آپ جامع العلوم کانپور اور وہاں سے مستعفی ہوکر مدرسہ ثانویہ ناگپور (مہاراشٹر) تشریف لے گئے۔یہیں آپ نے اپنی سب سے مشہور کتاب ’’اسلام کازرعی نظام‘‘ لکھی۔یہ مولانا کی پہلی باضابطہ تصنیف تھی۔ناگپور کے مدرسہ سے سبکدوش ہوئے تودارالعلوم معینیہ اجمیر میں خدمات شروع کردیں۔یہاں آپ نے اپنی دوسری مشہور کتاب ’’فقہ اسلامی کاتاریخی پس منظر‘‘ لکھی۔
اگرچہ مولانا ایک کامیاب مدرس تھے اور مختلف مدرسوں اورعلاقوں میں ایک عرصہ تک خدمات انجام دیتے رہنے سے مزید تجربات ہوگئے تھے۔ مگر مولاناکے مزاج میں جو فطری آزادی ودیعت کی ہوئی تھی اور آزادانہ کام کرنے کا جو مادہ مولانا کی طبیعت کاجزو ثانی تھا وہ مولاناکو کسی جگہ جمنے نہیں دیتا تھا۔مولانا چاہتے تھے کہ انہیں ایسا میدان عمل مہیا ہوجائے جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کی ترجمانی کرسکیں۔اپنی تصنیفی اورتالیفی سرگرمیوں کوبغیر کسی کی مداخلت کے جاری رکھ سکیں، جہاں ان کے خیالات پرکسی مہتمم یا صدرمدرس کی قدغن کا اندیشہ نہ ہو۔اوراﷲ تعالیٰ نے مولانا کی منشاء کے مطابق انہیں جگہ دلوادی۔آپ ۱۹۶۴ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ دینیات میں لکچرر کی حیثیت سے مقرر ہوگئے۔
علیگڑھ میں مولانا کے لیے جہاں اور سہولیات تھیں وہاں ایک خاص قابل ذکر بات یہ ہے کہ مولانا سعیداحمداکبرآبادی ؒ اورمولانا فضل الرحمن گنوری جیسے دانشوروں کی رفاقت مل گئی۔
مولانا کو جومعاشی بے فکری اوراظہار خیال کی آزادی نصیب ہوئی تو آپ نے اپنی بہترین صلاحیتوں کوتصنیف وتالیف کے میدان میں وقف کردیا۔ اپنی پوری توجہ تحقیق وتصنیف پر مبذول کردی اوراس میدان میں بہت ہی مختصر وقت میں وہ حیرت انگیز کارکردگی کااظہار کیاکہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔یونیورسٹی کے ارباب انتظام نے اس غیر معمولی ذہانت کااعتراف کرتے ہوئے لکچرر سے براہ راست پروفیسر بنادیا۔ مولانا خود فرماتے تھے کہ’’ اﷲ کاشکر ہے مجھے پروفیسر بننے کے لیے نہ کسی کی سفارش کی ضرورت پیش آئی اور نہ ہی درخواست دینے کی، خودبہ خود پروموشن ہوتاگیا۔‘‘
مولانا محمد تقی امینی صاحب یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے پروفیسر اور ڈین فیکلٹی بھی رہے۔ آپ نے اس شعبہ کے بکھرے وقار کومستحکم کیااوراس کی اہمیت منوائی۔ آپ کی اورمولانا سعیداحمداکبرآبادی ہی کی شبانہ روز کی محنتوں کے نتیجہ میں اس شعبہ کی علیٰحدہ عمارت بنی اور لائبریری بھی۔اس شعبہ میں آپ نے نظامت دینیات کے فرائض بھی انجام دیے۔
اگرچہ آپ کی عمر ریٹائرڈ ہونے کی ہوچکی تھی مگر صحت اچھی تھی ۔اور یونیورسٹی کے اربابِ انتظام کااصرار تھااس لیے ابھی خدمات انجام دے رہے تھے۔ مگرتین سال قبل اچانک گٹھیا کے مرض نے شدید حملہ کیااور چندہی مہینوں میں بالکل صاحب فراش ہوگئے۔ایک سال پہلے تو یہ محسوس ہوتا تھاکہ شاید مولانا داعیٔ اجل کو لبیک کہنے والے ہیں۔لیکن اﷲ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور پھر روبصحت معلوم ہونے لگے۔بلکہ خاصے صحت مند محسوس ہونے لگے تھے۔تاہم سردی میں شدّت کی وجہ سے عموماً گھرہی میں رہتے تھے۔اگر دھوپ تیز ہوتی تو کبھی کبھی چہل قدمی بھی کرلیتے تھے۔حکیم کلیم اﷲ صاحب کا علاج چل رہاتھا اوراس سے خاصے مطمئن تھے۔
آج ہی ۲۱؍ دسمبر کوصبح مجھے بلوایا اورکہا ’’ہماری طبیعت کچھ خراب معلوم ہوتی ہے۔ذراحکیم صاحب کو میرا حال بتاآؤ ۔‘‘ میں نے سائیکل لی اور فوراً دوا لے کرآگیا اس وقت یہی کوئی سواگیارہ بجے تھے۔مولانا دھوپ سینک رہے تھے۔ میں اجازت لے کر اندر گیا اوردوا پیش کی۔دوا لیتے ہوئے مولانا نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔’’میاں تم آتے ہی نہیں میں نے تم سے کہاتھا ہرروز آیاکرو تم سے مل کر طبیعت ذراخوش ہوجاتی ہے اور کچھ علمی باتیں بھی ہوجاتی ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا۔’’حضرت آپ کی خرابی صحت کی وجہ سے پابندی نہیں کرپاتا ۔کہیں تکلیف نہ ہو۔‘‘فرمایا ۔’’آیاکروہمیں تمہارا انتظار رہتا ہے ۔‘‘ میں نے وعدہ کرلیا اور چلاآیا۔ابھی مجھے آئے ہوئے تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ ایک عزیز نے آکر اطلاع دی،مولانا محمدتقی امینی صاحب چل بسے ،انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
تقریباًساڑھے بارہ بجے کاوقت تھا جب اُمّت کایہ درشاہوار،یہ تابندہ و درخشندہ ستارہ اور یہ آفتاب غروب ہوگیا۔
وہ ایک دل جوچمک رہا تھا خلوص وایماں کی تابشوں سے
خلوص و ایماں کے دشمنوں کو خبر سناؤ کہ وہ بھی ڈوبا
پروفیسر مولانا محمدتقی امینی صاحب کے آخری دنوں میں مجھے خاص طور پر ان کی خدمت میں رہنے کاموقعہ حاصل ہوا۔ان دنوں میں عموماً آپ کی خدمت میں حاضری دیتارہتا تھا۔ میں نے مولانا کے مزاج میں جوخاص عناصر ترکیبی پائے جن سے کوئی بھی شخصیت تشکیل پاتی ہے وہ ان کی سادگی تھی۔وہ انتہائی سادہ طبیعت کے انسان تھے۔نام ونمود،شہرت وناموری،عجب وخودبینی،غرور و تکبر، کبرونخوت،حسد وجلن وغیرہ بُری صفات سے قطعی مبّرا تھے۔ بلکہ ان کو سخت ناپسند کرتے تھے۔بھیڑ بھاڑ،جلسے جلوس سے آپ کی طبیعت گھبراتی تھی۔ اگرچہ آپ شعلہ بیان خطیب تھے مگر یونیورسٹی کی جامع مسجد کے علاوہ کہیں بھی کیسا بھی جلسہ ہواس میں شریک نہیں ہوتے تھے۔آپ زیادہ تر گوشہ گیر ہی رہتے تھے۔
آپ کے مزاج کادوسرا اہم عنصر محبت تھا۔آپ ہرکسی سے محبت کرتے تھے، بلکہ محبّت ہی آپ کی طبیعت کاغالب پہلو تھا۔آپ کی محبت کافیض اتناعام تھا کہ اس میں کسی طبقہ ،یا گروہ،کسی مسلک یامذہب،کسی ذات یابرادری کی کوئی قید نہیں تھی۔جس طرح ایک بڑا آدمی آپ کی محبت میں شریک ہوسکتا تھا اسی طرح ایک چھوٹا آدمی بھی ۔آپ جیسے ایک مسلم کومحبت کی نظرسے دیکھتے تھے اسی طرح ایک غیر مسلم کو بھی ،جس طرح آپ کے جذباتِ محبت عالموں کے لیے تھے اسی طرح جاہلوں کے لیے تھے۔آپ فسادات کی خبریں سن کربے چین ہو جایا کرتے تھے۔آنکھیں پُرنم ہوجاتی تھیں ۔کہتے تھے :’’جس گھر کا کوئی فرداس جنون کی نذر ہوگیااس گھر کا کیاعالم ہوگا‘‘۔
مولاناکی ہمہ گیر اور ہمہ جہت محبت کا ہی ثمرہ تھاکہ ان کے انتقال کی خبر سنتے ہی جہاں یونیورسٹی کے اعلیٰ ذمہ داران اوراساتذہ وطلبہ کاسیلاب امنڈ آیا وہیں محلہ کے معمولی مزدور اور جھگیوں میں رہنے والوں کی آنکھیں بھی اشکبار ہو اُٹھیں۔
مولانا بچوں پر بہت شفقت فرمایاکرتے تھے، ان کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ اگرکسی کا کوئی مضمون شائع ہوجاتا تواسے انعام دیتے ۔چاہے بلواکر ہی دینا پڑتا۔معمولی معمولی کاموں پر بہت زیادہ احسان مندی کااظہار فرماتے حتّی کہ کبھی کبھی توکام کرنے والا شرمندگی محسوس کرنے لگتا۔
مولانا اگرچہ زندگی بھراستاد رہے۔تمام علوم دینیہ کی وقتاً فوقتاً تدریس کی خدمات انجام دیں لیکن مولانا کااصل کارنامہ ان کی تصنیفات ہیں۔ مولانا نے متنوع موضوعات پراتنا تصنیفی کام کیا ہے کہ ایک آدمی سے اس کی مختصر سی زندگی میں اس کی توقع بہت ہی مشکل سے کی جاسکتی ہے۔اگرچہ مولانا کی کتابیں تین درجن کے قریب ہیں۔لیکن موضوع کے تنوع بلکہ نیاپن سے ان کی حیثیت بہت زیادہ ہوگئی ہے۔
اگر ان کی کتاب ’’اسلام کازرعی نظام‘‘ اور’’فقہ اسلامی کاتاریخی پس منظر‘‘ سامنے ہوتووہ ایک بالغ نظر فقیہہ معلوم ہوتے ہیں۔اوراگر ’’احکام شرعیہ میں حالات وزمانہ کی رعایت ‘‘، ’’اجتہاد کا تاریخی پس منظر‘‘ ، ’’اجتہاد اسلامی نقطہ نظرسے‘‘ اور ’’مقالات امینی‘‘ سامنے ہوتو اعلی درجہ اصولی (اصول فقہ کے ماہر) معلوم ہوتے ہیں۔ اگر ’’حدیث کادرایتی معیار‘‘ سامنے ہوتو ان کی محدثانہ وسعت نظرکااندازہ ہوتاہے اوراگر’ ’تہذیب کی تشکیل جدید‘‘ ،’’لامذہبی دورکا تاریخی پس منظر‘ ‘، ’’عروج وزوال کاالٰہی نظام‘‘، ’’مذاہب میں مفاہمت کے اصول ‘‘، ’’عہد جدید کی اجتماعی مشکلات‘‘،’’فتنہ الحاد اب اور ۔۔۔‘‘کوپیش نظر رکھاجائے تومعلوم ہوگا کہ تہذیب و تمدن، عروج وزوال کے اصول پران کی کتنی گہری نظر تھی۔
ان کے علاوہ متعدد موضوعات پران کی عمدہ تصنیفات ہیں جوان کی دقت نظر، وسعت مطالعہ اوراعلیٰ مقام کامنہ بولتا ثبوت ہیں۔ان کی تصنیفات کے متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں اور مختلف ممالک میں بڑی کثرت کے ساتھ ان کوپذیرائی مِل رہی ہے ۔اور آخر میں ’’حکمۃ القرآن‘‘ کے نام سے قرآنیات پر ایک عمدہ کتاب لکھی تھی۔اوراب ’ہدایۃ القرآن‘ کے نام سے تفسیر لکھ رہے تھے۔ مگرافسوس کہ اس کے چھ اجزاء بھی مکمل نہ ہوسکے۔
مولانا نے ایک علمی پندرہ روزہ ’’احتساب ‘‘ بھی جاری کیاتھا جو ایک عرصہ تک فقہ واسلامیات پر قابل قدر مواد پیش کرتا رہا لیکن مولانا کی خرابی صحت کے سبب بند ہوگیا۔ کاش کہ کوئی مولانا کی نگارشات کوزندہ رکھے۔
[ محمد مشتاق تجاوری ،مارچ ۱۹۹۱ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...