Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

غفار احمد ناز انصاری
Authors

ARI Id

1676046603252_54338856

Access

Open/Free Access

Pages

238

آہ!ناز انصاری
کچھ ہستیاں ،جنھیں ہم مسلسل دیکھتے رہے ہیں، لازوال معلوم ہوتی ہیں۔ ان کے بارے میں یہ وہم وگمان بھی نہیں ہوتاکہ یہ بھی فنا پذیر ہیں اور ایک دن ان کی موت کاغم سہنا ہوگا۔اس دنیاکی ہر چیز فنا پذیر ہے۔اگرانسان اس حقیقت کو ہمہ وقت پیش نظررکھے توشاید موت کا غم آسان ہوجائے۔
سرکردہ جرنلسٹ غفار احمد نازانصاریؔ بھی ان ہی ہستیوں میں سے تھے جن کے بارے میں یہ خیال بھی نہیں تھا کہ ایک دن ہم سے جدا ہوجائیں گے لیکن ’’کُل من علیھا فان‘‘کے مصداق اس دنیا سے ہرایک کوجانا ہے۔حج کے دوران میں میدان عرفات میں نازانصاریؔ کی رحلت کی خبر بذریعہ فون یہاں دہلی میں اہل خانہ کوملی ۔اہل خانہ سے حکومت سعودی عرب نے تدفین کے متعلق پوچھا تھا۔ اہل خانہ نے وہیں مکہ معظمہ کے قبرستان جنت المعلٰی میں تدفین کی اجازت دے دی۔مرحوم حج پرجانے سے پہلے وصیت بھی کرگئے تھے کہ موت ہوجانے کی صورت میں انہیں وہیں دفن کردیا جائے ۔اﷲ تعالیٰ نے مرحوم کی یہ دعا یاتمنا بھی پوری کردی۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ، چار لڑکیاں اور چار داماد ہیں۔اﷲ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کوصبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اردو صحافت میں نازانصاری کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔عہدجوانی ہی سے انہیں اخبار نویسی کاشوق تھا۔۱۹۴۶ء میں ریلوے کی نوکری چھوڑ کر صحافت میں آئے اورروزانہ اخبار’ انصاری‘ سے اپنے صحافتی کیرئر کاآغاز کیا،اس کے بعد وہ متعدد روزناموں اور ہفت روزہ اخبارات میں کام کرتے رہے۔ الجمعیتہ،نئی دنیا،پیام مشرق ،مشرقی آواز اور تیج میں باقاعدہ ملازمت کرتے رہے۔ الجمعیتہ کے چیف ایڈیٹر کے عہدہ تک پہنچے ۔ان کے علاوہ کئی ہفت روزہ اورماہناموں میں مستقل طور پر کالم لکھتے رہے ۔اخیر عمر میں اپنا روزنامہ’ انتباہ‘ نکالا تھاجوابھی تک جاری ہے۔ صحافت میں نازانصاری کی خدمات نصف صدی پر محیط ہیں۔انہوں نے ایسے وقت میں اپنے قلم سے مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی جب ہندستان میں ان کاسیاسی اور ملّی وجودہی خطرہ میں پڑگیا تھا۔۱۹۴۷ء کے پر آشوب دور میں اور اس کے بعد کی خوف، بے اعتمادی اور مایوسی کی دودہائیوں میں ان کی انقلابی تحریروں نے مسلمانوں کے تن مردہ میں جان ڈالی اورانہیں پھرسے جینے کاحوصلہ دیا۔وہ پکّے نیشنلسٹ تھے اپنے نظریات کے بارے میں انہوں نے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔مفکر ملّت حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ سے ان کے مخلصانہ تعلقات تھے۔ وہ کسی بھی وقت کسی اہم مسئلہ پرصلاح مشورہ کے لیے ان کی خدمات میں آجایا کرتے تھے۔
ہم دعاکرتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ ان کو اعلیٰ علیین میں درجات عطا کرے۔ آمین۔ [جولائی ۱۹۹۲]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...