Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا شمس الرحمن نوید عثمانی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا شمس الرحمن نوید عثمانی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338864

Access

Open/Free Access

Pages

242

آہ! مولانا شمس الرحمن نویدؔ عثمانی
۷/ ربیع الاوّل ۱۴۱۴ھ مطابق ۲۶/ اگست ۱۹۹۳ء بروز جمعرات کو نیک و برگزیدہ عالم دین، اسلامی مصنف اور ملّتِ اسلامیہ کے ہمدرد و غم خوار جناب شمس الرحمن نوید عثمانی یوپی کے نوابی شہر رامپور میں اچانک انتقال فرماگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
مرحوم مولانا شمس الرحمن نویدؔ عثمانی حضرت مفکر ملّت مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے چچیرے چھوٹے بھائی تھے اور راقم الحروف کی والدہ مرحومہ سے بھی ان کی قریبی رشتے داری تھی گویا ان سے راقم کے کئی رشتے تھے۔ وہ راقم کے چچا بھی، بھائی بھی، ماموں بھی اور پھوپھا بھی تھے۔ بڑے ہی جیّد عالم تھے، اسلامی مسائل پر انھیں بَلا کا عبور حاصل تھا۔ جدید علوم کے شناسا و ماہر تھے۔ سائنس اور قرآن پر ان کی معرکۃ الآرا کتاب علم داں طبقے میں بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھی گئی اور پسند کی گئی۔ وید اور قرآن پر بھی انھوں نے ٹھوس علمی کام کیا ہے۔ ادارہ ندوۃ المصنفین دہلی کے ترجمان ـ’’برہان‘‘ میں ان کے علمی و ادبی و تحقیقی اور پُراز معلومات مضامین ہر خاص و عام سے داد تحسین حاصل کرتے رہے ہیں۔ مرحوم نویدؔ عثمانی جماعت اسلامی ہند کے رکن خاص تھے۔
حضرت مفکر ملّت مفتی عتیق الرحمن عثمانی کا بڑا ہی ادب و احترام کرتے تھے اور جب حضرت مفتی صاحب کے انتقال کی خبر سنی تو آہ کے ساتھ ان کے منہ سے بے ساختہ جملہ نکلا: ’’آج ملّتِ اسلامیہ یتیم ہوگئی‘‘۔ مسلمانانِ ہند کا سچا قائد، رہبر و غم خوار وہ مفتی عتیق الرحمن عثمانی کو کہا کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اب دیکھنا ملّتِ اسلامیہ ہند کو کن کن مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا۔ چنانچہ ان کا یہ اندیشہ و خیال آگے چل کر صحیح ثابت ہوا۔ مفتی عتیق الرحمن عثمانی کا انتقال مئی ۱۹۸۴ء میں ہوا اس کے بعد اکتوبر ۱۹۸۴ء میں اندرا گاندھی آنجہانی ہوئیں۔ راجیو گاندھی وزیر اعظم ہوئے ۔ ان کے دورِ وزارت ِ عظمیٰ ۱۹۸۶ء میں بابری مسجد کا تالہ کھلا، اس میں کھلّم کھلّا پوجا پاٹ شروع ہوئی اور پھر مسلمانانِ ہندی کے نئے نئے قائدین پیدا ہونا شروع ہوئے، انہوں نے جس طرح مسلمانوں کی قیادت کی اس سے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے مسلمانان ہند کوئی قوم نہیں بلکہ فروخت ہونے والی کوئی شے ہے۔ لیڈری کی دوکانیں سجائی گئیں اور بالآخر اس کا انجام بابری مسجد کی شہادت کی صورت میں ہوا۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ اﷲ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے۔
مرحوم جناب شمس الرحمن نویدؔ عثمانی برہان کے نظرات بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔ قبلہ ابّا جان حضرت مفکر ملّت مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے انتقال کے بعد ان کے قائم کردہ ادارہ ندوۃ المصنفین اور رسالہ برہان کے کام کو جس لگن، محنت اور کامیابی کے ساتھ مفتی صاحب کے پروگرام کے مطابق جاری و ساری رکھا اسے دیکھ کر مسرت کا اظہار کرتے تھے اور شاباشی کے ساتھ بارگاہِ عالی میں احقر کے لیے دعاگو رہتے تھے۔
گزشتہ جون جولائی ۹۳ء کے نظرات میں جو حاجی احمد اﷲ مرحوم کا واقعہ حسب روایت مرحوم احمد اﷲ کے صاحبزادہ حشمت اﷲ شائع ہوا تھا اسے پڑھ کر تعریفی خط لکھا ،کئی کشمیری حضرات کے تعریفی جملے سنائے۔ حاجی احمد اﷲ مرحوم کشمیر ی کے لیے کہا کہ ایسے ہی لوگ اسلام کے مبلغ ہیں جو دین کے ساتھ بنی نوع انسان کی خدمت کرتے ہوئے اﷲ کے بندے پر عائد حقوق العباد کو بجا لانے کا حق ادا کرتے ہیں۔
ادارہ ندوۃ ا لمصنفین و ماہانہ ’’برہان‘‘ کو مولانا شمس الرحمن نویدؔ عثمانی کی ناگہانی وفات پر بڑا دکھ و صدمہ ہوا ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولانا مرحوم کو بال بال مغفرت فرما کر اپنی جوارِ رحمت میں مقام عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین ۔
راقم الحروف ادارہ ندوۃ المصنفین کی طرف سے خود اپنے آپ سے اور متعلقین سے اظہار تعزیت کرتا ہے۔ بارگاہِ رب العزت میں صبر جمیل کی استدعا ہے۔ [ستمبر ۱۹۹۳ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...