Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

لیڈی ڈیانا
Authors

ARI Id

1676046603252_54338875

Access

Open/Free Access

Pages

247

لیڈی ڈیانا
جوملک ابھی کچھ عرصہ تک دنیا کے بہت بڑے حصّے پرحکمراں تھا اور جس ملک کے باشندوں کواپنے ملک کی تہذیب اورانسانیت پر بڑافخروناز تھااس ملک کی ملکہ ڈائنا اپنے خاوند شہزادہ پرنس چارلس کی اپنے سے بے وفائی اوردوسری بے نکاحی عورتوں کے ساتھ معاشقے سے پریشان ہوکر اس سے علیحدگی وطلاق حاصل کرنے پربالآخر مجبورہوئی اورپھر جب اس نے اپنی طلاق کے بعد شہزادی ملکہ نے کسی دوسرے مرد سے عشق کی پینگیں بڑھائیں تووہ کسی کار حادثہ شکار ہوکر ملک الموت کے آغوش میں جاپہنچی۔یہ ہے مہذب ملک کے لوگوں کاکردار ․․․ دوسرے لفظوں میں ماڈرن انسانوں کے کنگ میکرس․․․مغربی ملکوں کے اخلاق و انسانیت کاحال وخاکہ، جہاں مرد کے لیے کوئی قید ہے کہ وہ کسی سے بھی کوئی تعلق قائم کرے چاہے کسی بھی قسم کااورنہ ہی عورت کے لیے کوئی پابندی ہے کہ وہ کسی ضابطہ میں مقید ہونے کی تکلیف گوارہ کرے۔پرنس چارلس اورلیڈی ڈائنا کی شادی۱۹۸۱ء میں انگلینڈ کے دارالحکومت لندن میں ہوئی تھی اورجس کے نتیجے میں دونوں کے یہاں دوبیٹے ولیم اور ہینری پیداہوئے جو اب جوانی کی دہلیز پر چڑھنے والے ہیں۔کہتے ہیں کہ پرنس چارلس ایک خاتون کومیلاپارکر کے عشق میں مبتلا ہوگئے، ان کی رنگ رلیوں کی خبریں جب شہزادی ڈائنا کے کانوں میں پڑیں توپہلے انھیں ان خبروں پریقین ہی نہیں آیامگر جب آئے دن یہ خبریں باوثوق ذرائع سے شہزادی ڈائنا کے کانوں میں چھید ڈالتی رہیں توپھراس نے بھی اپنے معاشقے شروع کردیئے اورموت سے دس بارہ دن پہلے ہی شہزادی ڈائنا کی محبت میں پھنسے ہوئے ایک مصری مسلمان ارب پتی مسٹرڈوڈی الفہد تھے جن کے والد کامغربی ممالک کے بڑے بڑے شہروں میں ڈیپارٹمینٹل اسٹور ہوٹلس وغیرہ کاکاروبار ہے جن کے یہاں رات بھی دن کی روشنی کے مانند ہے اورجن کا ہردن ہررات عشق کی رنگینیوں ہی میں گذرتا۔
ڈائنا الفہد کے عشق میں کیسے مبتلا ہوئیں یہ کہانی بھی دلچسپ ہے۔ محض ۱۹ سال کی عمر میں اس کی پرنس چارلس سے شادی ہوئی، ۲۰ سال کی عمر میں وہ ماں بن گئی۔ ۲۳ سال کی عمر میں اس کا اپنے خاوند پرنس چارلس سے اختلاف ہوگیا جوتقریباً ۱۰سال چلا۔ ۱۰سال کوئی کم نہیں ہوتے اس درمیان میں ڈائنا اپنی جوانی کی ایک حدپارکرکے پختگی کی عمر کے قریب پہنچ گئی۔۳۳سال کی عمر میں وہ مطلقہ شہزادی بن گئی اوراس کے بعد اس کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں سنائی دینے لگیں۔پاکستان آئی تویہاں اس کے کسی مسلمان ڈاکٹر سے تعلقات کے قصّے چرچا میں ہونے لگے۔اس نے اسلام اورمسلمانوں کے رہن سہن اورطرز معاشرت کی تعریف کرنی شروع کردی۔ اسلام سے اس کے لگاؤ کے واقعات کئی کئی بار سننے کوملے اورآخر میں جب اس کی موت ہوئی تووہ اپنے ایک مسلمان منگیتر ہی کے پہلو میں بیٹھی ہوئی تھی۔اس کے محبوب وعاشق اورمنگیتر ڈوڈی الفہد پیرس کے اپنے ایک ہوٹل میں کھانا کھا کر کار سے کہیں جارہے تھے کہ کار حادثہ کا شکار ہوئی، ڈائنا اوراس کے عاشق ومحبوب الفہد دونوں ہی موت کے منہ میں جا پھنسے۔ الفہد نے ڈائنا کوبیش قیمت قیمتی تحفے تحائف دئیے اوراسی میں ہیرے کی ایک انتہائی قیمتی انگوٹھی بھی اپنی محبت کی نشانی کے طور پراسے پیش کی، اسی طرح شہزادی ڈائنا نے بھی بیش قیمت تحفے دے کر الفہد سے اپنی محبت کااظہار کیا۔ ایک تحفہ پر یہ الفاظ کندہ کرائے: ’’شہزادی ڈائنا کی طرف سے محبت کے ساتھ۔‘‘ بہرحال یہ دونوں ہی جواں دل محبت کے اتھاہ نشے کے سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے دونوں طرف بے قراری تھی محبت کی آگ دونوں طرف لگی ہوئی تھی۔ دونوں ہی کے دل مچل رہے تھے جلدازجلد محبت کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے لیے لیکن موت نے ان کی یہ آرزو پوری نہ ہونے دی۔
۴۱ سالہ مصری ڈوڈی الفہد کی تواس کے والد الفیض نے بُک لینڈس لندن کے قبرستان میں حادثہ کے کچھ گھنٹوں بعد ہی تجہیزوتکفین کردی۔ لیکن تمام دنیا میں سوگواروں کے سیلاب کودیکھتے ہوئے موت کے چھ دن بعد یعنی۶/ستمبر کو ایک جھیل میں بنے ٹاپوپردفنایا گیا جس میں دنیا بھر کے عظیم سیاستدان،حکمران،رہنما شریک ہوئے۔بی ۔بی۔ سی نے تقریباً۴۴زبانوں میں اس کے آخری سفر کا آنکھوں دیکھا حال نشر کیا۔پورے برطانیہ کے عوام نے آنسوؤں کے ساتھ اس کو رخصت کیا۔ میلوں دور تک اس کے جنازہ کوعوام نے کندھا دیا۔ تقریبا۶۰لاکھ انسانوں کاجمِ غفیراس کے آخری سفر کے وقت دیدار کے لیے موجود تھا ۔کہتے ہیں کہ آج تک اس قدر عوام کاہجوم کسی جنازہ میں نہیں دیکھا گیا۔برطانیہ کے عوام کی ہمدردی کایہ عالم تھا کہ وہ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ تک پرڈائنا کی موت کی ذمہ داری کا شک کرنے لگے اوراس کے لیے ان پر نکتہ چینی کی بوچھاڑ کردی۔ اورہمارے لیے یہ ہی پہلو قابل غورہے۔اب بقیہ گفتگو اس پہلو کے پیشِ نظر ہم کرنا چاہیں گے۔
مغربی ممالک میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف جس طرح لیڈران، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ سے پروپیگنڈہ کیا جاتاہے اس کے پیش نظر تمام مغربی ممالک میں جس واقعہ میں بھی کسی بھی اسلام یامسلمان کاکسی طرح نام آجائے تو وہاں کے عوام میں نفرت وغصّہ کا لاوا پھوٹ پڑناچاہیے نہ کہ وہاں برعکس اس کے دوسراہی منظر دیکھنے کوملے، جس میں ہمدردی ورحم کے جذبات صاف دکھائی دے رہے ہوں۔شہزادی ڈائنا کی موت نے ہمیں کچھ اس طرح کا احساس کرایا ہے اوراسی طرح کی مغربی دنیا میں تصویر پیش کی ہے شہزادی ڈائنا برطانوی عیسائی شہزادہ پرنس چارلس سے طلاق لینے کے بعد ایک مسلمان کے عشق میں مبتلا ہوئی، سیاستدان اورکلیسا کے پادریوں نے اسے کیسی ہی بُری نظرسے کیوں نہ دیکھا ہومگر عوام نے اپنے سیاستدان وحکمرانوں اور مذہبی رہنماؤں کے خیالات کے خلاف ہی اپنے خیالات ظاہر کئے جس میں ڈائنا اور اس کے محبوب الفہد کے ساتھ ہمدردی بھری ہوئی تھی، یہ ایک پہلو ہے جسے مبلغین اسلام اپنے دماغ میں محفوظ رکھیں اس پر اظہار خیال ابھی ذرا ٹھہرکر۔
یہ بڑے ہی تعجب کی بات ہے کہ جس دن تمام دنیا کے اخبارات نے یہ خبر شائع کی کہ شہزادی ڈائنا ڈوڈوی الفہد کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہورہی ہے اس خبر کو پڑھتے ہی ہمارے دماغ میں یہ خدشہ پیداہواکہ کیا عیسائی دنیا اوربرطانوی حکمراں اس بات کوبرداشت کرلیں گے کہ برطانوی تخت پرمستقبل قریب میں جوبادشاہ بیٹھنے والا ہے اس کی ماں کاخاوند ایک مسلمان ہے۔الفہد سے شادی کے بعدڈائنا کے اولاد ہوئی توبرطانوی بادشاہ کاتیسرا بھائی یابہن مسلمان ہے۔ہمارا دماغ ان ہی سوالوں میں ڈوبا ہواتھا کہ ڈائنا اورالفہد کی کار حادثہ میں موت کی خبر آگئی اوراس کے دوسرے دن ہی لیبیا کے کرنل قذافی اور مصر کے ایک مبصر کایہ تبصرہ بھی نظرسے گذرا کہ شہزادی ڈائنا اوراس کے محبوب الفہد کی موت میں کوئی سازش ہے اوربرطانوی حکمرانوں کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہوتی کہ برطانوی تخت کے وارث کی ماں یا بھائی وبہن مسلمان بھی ہے۔اس میں کہاں تک صداقت کاپہلو ہے اس پرواقعات خود ہی آسانی سے روشنی ڈال رہے ہیں اورڈالیں گے ہم اورآپ کیوں اس پر مغز پچی کریں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کلیساؤں کاسارازور مذہب اسلام کی بیخ کنی میں لگاہواہے اوروہ عیسائیت کابول بالا کرنے کے لیے ہرممکن ذریعہ کوہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتے ہیں اوراس میں چاہے امریکہ ہویافرانس یابرطانیہ اسی نظریہ سے اس نے اپنے سب سے بڑے مذہبی دشمن یہود سے ہاتھ ملایاہواہے اوراسرائیل کوجس طرح آگے بڑھانے کی کوششیں جاری ہیں وہ بھی اسی کاایک حصّہ ہے۔
اب ذرا ہم پھر آرہے ہیں اسی ایک پہلے والے پہلو کی طرف کہ اس قدر ترکیبیں،سازشیں،کوششیں اسلام مخالف ہونے کے باوجود کلیسا اپنے ناپاک خفیہ منصوبوں میں کامیاب نہیں ہونے پارہی ہے۔انھیں نہ توشرک وبدعت اور مورتی پوجا سے کوئی لینا دینا ہے اورنہ ہی اس کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ دور حاضر میں سائنسی ماحول کے انسان کے لیے سب سے زیادہ اپیل کرنے والا مذہب اسلام ہی ہے اوریہ بات بھلا عیسائیت کے مبلغین کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ ان کی ہرکوشش اسلام مغائر ہی ہے ہرتوڑ اسلام پرہے لیکن جب وہ اس قدر کوششوں کے بعد نہ کامیاب ہوں توان کی جھنجھلاہٹ قابل فہم ہی ہے۔اس موقع پرہمیں اس بات پراطمینان ہے کہ تمام دنیا اسلام کی حقانیت کی اندر ہی اندر قائل نظرآرہی ہے۔انھیں کلیساؤں کے اختیارات اور روئیے سے بے انتہا شکایات بھی ہیں۔اس لیے اب ان کے دل ودماغ میں اسلام یامسلمانوں سے متعلق کوئی نفرت قطعاً نہیں ہے جب ہی تو جن جن جگہوں پر پہلے اسلام اور مسلمانوں کاعروج تھااورعیسائیوں نے اپنی صلیبی جنگوں کے طفیل اور دیگر سازشوں کے ذریعہ اسلام اورمسلمانوں کے عروج کووہاں سے ختم کرکے عیسائیت کا پوری طرح سے تسلط قائم کردیا تھا وہاں بھی اب مسلمانوں کے حالات بحال ہورہے ہیں مسجدیں اورمکتب قائم ہونے شروع ہوگئے ہیں اور اسلامی معاشرہ کی چہل پہل دکھائی دینے لگی ہے۔ نفرت کی جگہ ہمدردی اور تعلقات استوار کرنے بنانے کے جذبہ نے لے لی ہے۔ شہزادی ڈائنا کی موت کے بعد اس سے پیداہوئی عیسائی عوام کی بے پناہ ہمدردی اس کاسب سے بڑا خوش آئند نظارہ ہے جس کو مبلغین اسلام اپنے لیے نیک شگون سمجھتے ہوئے عیسائیت وچرچ اورپادریوں سے بیزار عوام الناس کی طرف پورے سازوسامان کے ساتھ اپنی توجہ مرکوز کردینی چاہیے اسی میں ملت اسلامیہ کے لیے روشن مستقبل کی خوشخبری پنہاں ہے۔اہل نظر کی نظریں صاف طورپر دیکھ رہی ہیں۔
[ستمبر۱۹۹۷ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...