1676046603252_54338879
Open/Free Access
251
آہ!حکیم عبدالحمید دہلوی
موت ہرجاندار کے لیے مقدر ہے جودنیا میں پیداہواہے اسے ایک دن جانا بھی ہے۔موت کسی کونہیں چھوڑتی چاہے وہ پیغمبر وولی ہی کیوں نہ ہو۔لیکن بعض شخصیتوں کی موت کو ایک شخصیت کی موت کہہ کراوراس پر اناﷲ واناالیہ راجعون پڑھ کر اسے بھلایانہیں جاسکتاہے۔ان کی موت سے ایک عالم کورنج وغم اور دکھ وصدمہ کے ساتھ ناقابل تلافی نقصان بھی ہوتاہے۔حکیم عبدالحمید دہلوی کا شمار ایسی شخصیتوں میں ہوتاہے جن کی وفات سے ان کے خاندان کے افراد کو صدمہ ورنج توہے ہی پوری قوم کو پوری ملت کوان کی وفات کی خبر سن کر رنج وغم اور دکھ وصدمہ کے ساتھ ساتھ ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ حکیم عبدالحمید صاحب نے اپنی پوری زندگی ملک وقوم کی بے لوث خدمت کے لیے صرف کی ہے۔ وہ اپنے لیے نہیں بلکہ قوم وملک کے لیے جیتے تھے۔انہوں نے تواپنی زندگی قوم وملک اورانسانیت کی خدمت اورفلاح وبہبودگی کے لیے وقف کردی تھی۔ ان کے دل میں غریبوں کے لیے تڑپ تھی ہمدردی تھی۔۱۹۶۴ء میں مولانا عبدالماجد دریاآبادی کے اخبار ’’صدق جدید‘‘لکھنؤ میں ایک دہلوی صحافی نے حکیم عبدالحمید کی شخصیت اورملک وقوم [کے لیے] ان کی بے لوث خدمات پر ایک مضمون لکھا تھا جس میں حکیم عبدالحمید کوولی کامل کہا گیا تھا۔
ایک وقت تھا جب حکیم عبدالحمید صاحب پابندی سے ہرجمعہ کودفتر ندوۃ المصنفین میں تشریف لاتے تھے اورحضرت قبلہ اباجان مفکر ملت مفتی عتیق الرحمن عثمانی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن، قاضی سجاد حسین صاحب اورسعید احمد اکبر آبادی کے ساتھ رائے ومشورہ کرتے تھے۔ہماری والدہ مرحومہ ہرجمعہ کاانتظار کرتی تھیں کہ ان رہنمایان ملت کے لیے اپنے ہاتھ سے کھانے تیار کرتی تھیں اورہراتوار کوحکیم صاحب گاڑی بھیج کر مفتی عتیق الرحمن عثمانی، مولانا حفظ الرحمن، قاضی سجادحسین اورسعید احمداکبرآبادی کوکوٹلیامارگ نئی دہلی میں واقع اپنی کوٹھی پر ضروری مشورے کے لیے بلایا کرتے تھے۔اتوار کوان علماء کرام کا رات کاکھانا حکیم صاحب ہی کے ساتھ ان کی کوٹھی پرہوتاتھا۔یہ مشورہ ہی کی برکت تھی کہ حکیم صاحب نے تغلق آباد میں جہاں اس وقت آبادی کانام ونشان نہ تھا ہرطرف جنگل ہی جنگل تھا بنجر زمین تھی ہزاروں گززمین خریدی آج وہاں عالیشان ہمدرد نگر آبادہے جس میں اسکول سے لے کر ہمدرد یونیورسٹی مجیدیہ ہاسپٹل وغیرہ وغیرہ قائم ہے۔ ہزاروں چنے ہوئے اعلیٰ دماغ کی قابل ہستیاں براجمان ہیں جو ملت کی خیرخواہی کے پلان پرعمل پیراہیں۔
حکیم عبدالحمید نے ملک وقوم کے لیے وہ عظیم الشان کام کیاہے جس پرہزاروں صفحات پرمشتمل کتابیں لکھی جائیں گی ان کی خدمت پرمورخین ریسرچ کریں گے اورانہیں بیسویں صدی کاانسانیت کامسیحا کہاجائے گا۔ وہ ہرحال میں قناعت پسندی کرتے تھے اپنے اوپر کچھ خرچ نہ کرتے تھے، ان کی کمائی قوم کے کاموں کے لیے فراخ دلی کے ساتھ خرچ ہوتی تھی۔ بہرحال ملت کایہ محسن آج ہمارے درمیان سے اٹھ گیا ہے۔ادارہ ندوۃ المصنفین حکیم عبدالحمید کے انتقال کواپنا ذاتی اور ملک وملت کاعظیم نقصان تصور کرتاہے۔ اﷲ تعالیٰ حکیم عبدالحمید صاحب کوجنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطافرمائے۔آمین
[جولائی،اگست۱۹۹۹ء]
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |