Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا ابوالحسن علی ندوی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا ابوالحسن علی ندوی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338883

Access

Open/Free Access

Pages

254

آہ! مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ
یہ بات کس طرح دل میں اتاری جائے کہ عالم اسلام کی سب سے زیادہ معتبر اورمعروف ومشہور شخصیت حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں، وہ۳۱/دسمبر۱۹۹۹ء کوانتقال فرماگئے ہیں۔ اناﷲ واناالہ راجعون۔ یہ بات اب بات نہیں رہی ہے حقیقت ہوچکی ہے اورحقیقت کوکسی بھی طرح جھٹلایا نہیں جاسکتاہے اورجب یہ حقیقت ہے کہ حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندوی اس دنیا سے ہم سب کو چھوڑ کرچلے گئے ہیں توہمارے لیے رونے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں رہاہے۔رونا اس لیے ہے کہ اس دنیا میں ایک وہ ہی ہستی ایسی بچی تھی جوصرف اورصرف اسلام اورانسانیت کے لیے مستعد عمل تھی۔ جس نے اپنی پوری حیات میں اپنے لیے کچھ نہ پا کرپوری انسانیت کے لیے سب کچھ کیا، اپنی تمام ترتوانائیوں کواسلام کی سربلندی اورانسانیت کی بہتری و فلاح کے لیے صرف کیا۔مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے انتقال کوہم بیسویں صدی کاسب سے بڑا المیہ ہی کہیں گے۔اس پرفتن ماحول میں وہ شرافت میں یکتاتھے، انسانیت میں منفرد تھے، اخلاق وتہذیب اورتمدن عالم انسانیت کے لیے فقید المثال تھے، رواداری ووضعداری میں ان کی زندگی ایک نمونہ تھی، تقویٰ وطہارت میں انہیں امتیازی خصوصیات حاصل تھیں۔ سادگی ان کااوڑنا بچھونا تھی، دوسروں کے لیے ان کے یہاں سب کچھ تھا ضرورت مندوں،حاجت مندوں کے لیے وہ بادشاہ تھے، لیکن اپنے لیے وہ کچھ نہ تھے انہوں نے اپنی زندگی کو دوسروں کی خدمت، انسانیت کی فلاح اوراسلام مذہب کی آبیاری کے لیے وقف کررکھا تھا۔ وہ اپنے آپ میں ایک انجمن تھے ان میں اسلامی تعلیمات کی صحیح معنوں میں تمام ہی خصوصیات تھیں۔ان کی ہربات میں اسلامیت جھلکتی تھی۔ وہ دورصحابہؓ کی تمام خصوصیات و اچھائیوں اورخوبیوں کے حامل تھے۔
ان کی وفات سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ انسانیت کی روشنی مدھم ہوگئی ہے۔ کس طرح بتائیں کہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے انتقال سے کس قدر غم وصدمہ ہواہے ان کی ذات میں کسی بھی قسم کی کمی کاکوئی بھی ذرہ نہ تھا۔
مولانا وحید الدین خاں کے بقول:’’مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی ذات میں یہ تمام حیثیتیں بہ تمام وکمال جمع ہوگئیں تھیں‘‘۔مولانا محمد منظور نعمانی نے ایک بار موصوف کو’’رُجل موہوب‘‘کہاتھا۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے لیے یہ خطاب لفظ بلفظ درست ہے، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کاکارنامۂ حیات تقریباً پوری صدی پرپھیلاہواہے۔وہ اپنی ذات میں ایک متحرک صدی تھے۔ صدی کی آخری تاریخ کویہ متحرک شخصیت خاموش ہوگئی۔وہ انسانیت سے جداہوکر اپنے رب سے جاملے۔اناﷲ واناالیہ راجعون۔
مولانا سیدابوالحسن علی ندوی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ان کے اندر بیک وقت مختلف اورمتنوع خصوصیات موجود تھیں۔مولانا سید مناظر احسن گیلانی نے کہا تھا کہ یورپ میں جوکام اکادمی کرتی ہے وہ ہمارے یہاں ایک آدمی کرتاہے، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اس قول کاایک زندہ نمونہ تھے وہ ایک فرد تھے مگرا نہوں نے کئی اداروں کے برابر کام کیا۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی شخصیت کوعالم اسلام میں اچھی طرح سمجھا گیا پہچانا گیا، خانۂ کعبہ کی چابی ان کوسونپ کران کی شخصیت میں یقین واعتماد کااظہار کیا گیا جواعزاز بادشاہ وقت کوحاصل تھے وہ اعزاز حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کودے کر دنیائے اسلام میں ان کی بے لوث خدمات کوسراہا گیا۔ وہ عربی کے فاضل تھے، انگریزی زبان کے ماہر تھے، اردوادب کے مسلمہ ادیب تھے، اس کے علاوہ کئی زبانیں انہیں آتی تھیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد ایک سو کے قریب ہے جن میں بڑی بڑی مایہ ناز کتابیں ہیں جنہیں عوام الناس میں سراہا گیا۔ عربی زبان جب بولتے تھے توعرب کے لوگ حیرت واستعجاب کے عالم میں انہیں دیکھتے ہی رہ جاتے تھے۔عربی میں ان کی تصانیف علوم کاخزانہ ہیں جنہیں عرب لوگ پاکر اپنی خوشیاں نہ چھپا پاتے تھے۔عربوں کوانہوں نے علم وفن سے مالامال کردیاجب ہی توعربوں نے ان کوبڑے بڑے انعام دے کر اپنے کوخوشی و مسرت سے ہمکنار کیا۔ کنگ فیصل ایوارڈ،برونائی اورعرب امارات کے خصوصی ایوارڈ دے کر دراصل عرب دنیا نے اپنے آپ ہی کو دنیا میں نمایاں کیا۔مولانا موصوف کے لیے یہ ایوارڈ صرف خدمت انسانی کے لیے ہی تھے، ان کی شخصیت ان ایوراڈسے بے نیاز رہی ان کی شخصیت سے یہ ایوارڈ جب وابستہ ہوئے تو حقیقت میں ان ایوارڈ کی خصوصیت واہمیت میں نمایاں اضافہ ہی ہوا۔جب مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کورابطہ عالم اسلامی کارکن،رابطہ ادب اسلامی کا صدر اورآکسفورڈ سلامک یونیورسٹی کے اسلامک سینٹر کا صدر بنایا گیا تو دراصل یہ مولانا موصوف کی شخصیت کی نہیں بلکہ انہوں نے خود اپنے اداروں کی حیثیت نمایاں کی اور جس کی وجہ سے انہیں بے پناہ استفادہ حاصل ہوا۔
حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندوی کے انتقال سے ادارہ ندوۃ المصنفین ذاتی نقصان محسوس کرتا ہے۔ ادارہ کے تمام کاموں سے وقتاً فوقتاً واقفیت حاصل کرتے رہتے ۔ ان کے اکثر خطوط میں ادارہ کے سلسلے میں مشورے ہوتے تھے جو ادارے کے لیے باعث افتخار ہیں۔حضرت قبلہ اباجان مفکر ملت مفتی عتیق الرحمن عثمانی سے انہیں والہانہ عقیدت و محبت اور انسیت تھی۔ ان کی اولاد سے وہ بڑی محبت کرتے تھے۔ میرے چھوٹے بھائی نجیب الرحمن عثمانی کے انتقال پر ان کا گرامی نامہ بطور تعزیت کے وصول ہوا جسے پڑھ کر ہم سب خاندان کے افراد کو ڈھارس ملی۔ مفکر ملت مفتی عتیق الرحمن عثمانی کی شخصیت و کارناموں پر ایک عظیم سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت باوجود انتہائی مصروفیت کے انھوں نے بخوشی قبول کی اور سیمینار میں شروع سے آخرتک موجود رہے اور حضرت مفکر ملت کی خدمات اور ان سے اپنے قریبی تعلقات پر سیر حاصل تقریر فرمائی جو ٹیپ کی گئی اور جسے حاصل سیمینار کہا گیا۔
ہندوستانی مسلمانوں کی انہوں نے جس طرح قیادت کی ہے ہرمعاملہ میں چاہے وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعے، چاہے ندوۃ العلماء جیسے دینی اور عالمی شہرت کے مالک ادارے کے ذریعے، سچ تویہ ہے کہ انہوں نے حق ادا کر دیا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے یوپی حکومت کے ایک وزیر کی شرانگیزی اورتعلیمی معاملات میں دخل اندازی اورپرائمری اسکولوں میں وندناسرسوتی جیسی ایک مخصوص دعا جوہندومذہب سے تعلق رکھتی ہے کولازم قراردینے پر جس طرح ہندوستانی مسلمانوں اورملک کے سیکولر عوام ولیڈروں کودکھ وتکلیف پہنچی اوراس پر پورے ہندوستان میں ایک عجیب بحران پیداہوگیا تھااس وقت حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے جس طرح پورے ہندوستان کے سیکولر عوام کی رہنمائی کی اس سے حکومت کے ارباب حل وعقد کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔بالآخر حکومت ہند کے وزیراعظم جناب اٹل بہاری باجپئی کو درمیان میں پڑ کر مداخلت کرنی پڑی اور سرسوتی وندنا جیسی متنازعہ پرارتھنا کواسکولوں میں پڑھنے کے فیصلے کو واپس لینا پڑا اور صوبائی سرکار کے وزیر تعلیم کوذلت وخواری نصیب ہوئی۔
مولانا کے صرف ایک ہی بیان نے فرقہ پرست عناصر کی شرانگیز سیاست کی بساط ہی کوالٹ کررکھ دی۔بابری مسجد کی تحریک سیاست کے ٹھیکے داروں نے اپنے ہاتھ میں لے کرجس طرح ہندوستانی مسلمانوں کونقصان پہنچایا اس سے مولانا کویقینا دلی کوفت ہوئی ہوگی۔کیونکہ بابری مسجد کی تحریک جس طرح چلائی گئی وہ مولانا کے مزاج سے مطابقت ہی نہیں رکھتی تھی بلکہ اسے دیکھ کر تومولانا کو ذہنی اذیت ہوتی ہوگی، سیاست کے بازی گروں نے اسے اس مقام پرپہنچا دیاتھا کہ جس سے اس کی واپس ممکن ہی نہیں تھی یہ اسی کانتیجہ تھا کہ بابری مسجد شہید ہو کر رہی اوراس طرح تمام دنیا نے ہندوستان کے سیکولرزم کے انہدام کو دن کی روشنی میں ہرجگہ دیکھا، دنیا کے تمام انسان ہائیں ہائیں کرتے رہ گئے اورفرقہ پرستوں کی یلغار سے بابری مسجد کی شہادت کونہ بچا سکے۔بہرحال ہم کہاں چلے گئے حضرت مولانا سیدابوالحسن علی میاں ندوی کے انتقال کے صدمہ نے کچھ ایسی تلخ یادوں کوبھی ابھاردیاہے جس سے یقینا اس بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیت کو دکھ ہواہوگا۔ حضرت مولانا موصوف معصوم فطرت انسان تھے ان کادل صاف تھا جس میں ہرایک کے لیے محبت تھی انسیت تھی مگرکسی کے لیے نفرت کاشائبہ تک نہ تھا۔وہ دنیا سے اس قدر انس رکھتے تھے جس قدرایک مومن کے لیے دنیا کی ضرورت ہوتی ہے وہ حق پرست تھے دنیا کے سازوسامان سے ان کاکوئی لگاؤ نہ تھا دنیا ان کے پیچھے پیچھے تھی دنیا کے اسباب ان کے انتقال کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے مگر وہ ان سے کوسوں دور تھے وہ بوریہ نشین تھے۔ان کے گھر میں پکافرش تک نہ تھاایک چٹائی پران کااٹھنا بیٹھناتھا مگر بڑے بڑے شاہوں کے محل ان کے آگے ہاتھ باندھے ہروقت کھڑے رہتے تھے اوروہ اس چاہ میں ہاتھ ملتے رہ گئے کہ مولانا صرف ان کی طرف ایک نگاہ ہی کرکے کرم فرمادیں لیکن مولانا ان سب سے بے نیاز تھے۔ محلوں کے بیچ میں ان کواپنے سادہ بوریہ بستر ہی میں محلوں کی شان وشوکت کی خوشبو ملتی تھی۔انہیں عیش وآرام اورجدید آسائشوں سے سجے دھجے شان وشوکت کے محلوں کے بجائے اپنی سادگی میں راحت و اطمینان نصیب تھا۔ ان کی مسرت سادگی کی زندگی میں تھی اوریہ بات موجودہ دنیا میں صرف حضرت مولانا سیدابوالحسن علی میاں ندوی ہی کی شخصیت میں پنہاں تھی۔ایسی ہمہ جہت صفات شخصیت اب ہمارے درمیان میں نہ رہی ہے یہ کس قدر دکھ صدمہ اوراتھاہ غم کی بات ہے۔
اب اسے ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی عالم اسلام کی بیسویں صدی کی سب سے بڑی اورسب سے اہم وبے مثال ہستی تھی جو بیسویں صدی میں پیداہوئی اور جسے بیسویں صدی نے ہی ہم سے چھین بھی لیااور ہم سب روتے بلکتے ہی رہ گئے۔ادارہ ندوۃ المصنفین عالم اسلام سے عالم انسانیت سے اس حادثۂ وفات پراظہارتعزیت کرتاہے ؂
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے جہاں میں دیدہ ورپیدا
[جنوری،فروری۲۰۰۰ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...