Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں |
Asian Research Index
قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں

باب اول: قدرتی وسائل کا مطالعہ
ARI Id

1686875689131_56115780

Access

Open/Free Access

Pages

19

قدرتی وسائل کا تعارف

فیروز اللغات میں قدرتی کے لغوی معنی " طبعی، فطری، اصلی، حقیقی، پیدائشی" [1] بیان کئے گئےہیں۔ جبکہ وسائل کا لفظ وسیلہ کی جمع ہے اس لئے فروز اللغات میں وسیلے کے لغوی معنی "وسیلے، واسطے"[2] کے بیان کئے گئے ہیں۔ علمی اردو لغت کے قدرتی کےلغوی معنی "قدرت سے منسوب، فطری، خلقی، پیدائشی، اصلی، ذاتی۔ "[3] بیان کئے گئے ہیں۔ جبکہ اردو لغت میں وسیلہ کے معنی "ذریعہ، واسطہ، سبب"[4] بیان کئے گئے ہیں۔

"البحث اللغوی عند العرب "میں قدرتی وسائل کو بیان کیا گیا ہے:

"المعجم مبوب بحسب ما في الكون كله من آثار في الأرض، وآيات في السماء وبكل ما تحمل الدنيا ويدب فيها من إنسان أو حيوان أو طير أو نبات، وما تحفل به بطنها من معدن، أو ينتأ فوقها من صخر"[5]

 کائنات میں زمین اہم قدرتی وسیلہ ہے جس پر انسان، جانور، پرندے، حیوانات اور دوسری اشیاء پائی جاتی ہیں۔ زمین کا پیٹمعدنیات سے بھرا ہوا ہے جبکہ دوسرے قدرتی وسائل زمین کی سطح پر پھیلی ہوئے ہیں۔ پانی، ہوا، خوراک اور روشنی و حرارت جیسےقدرتی وسائل کرہ ارض پر جانداروں کی حیات و بقا کے لئے بنیادی ضروریاتِ زندگی ہیں۔

 معروف مسلم فلاسفر امام غزالیؒ لکھتے ہیں:

" الأموال إنما تحصل من المعادن والنبات والحيوان"[6]

امام غزالی ؒ کے مطابق انسان کی معاشی ضروریات کرہ ارض پر پائی جانے والے قدرتی وسائل معدنیات، نباتات اور حیوانات سے پوری ہوتی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ دنیا کا پورا معاشی نظام تین بنیادی اور بڑے قدرتی وسائل معدنیات، نباتات اور حیوانات پر انحصار رکھتا ہے۔

بھارت کا ماہر ماحولیات A R Agwᾱn لکھتا ہے:

“Nature is a web of relations”[7]

تمام قدرتی اشیا کا آپس میں تعلق ہوتا ہے اور ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے۔ ہر قدرتی وسیلے کی بقا دوسرے قدرتی وسیلے سے کسی نہ کسی طرح جڑی ہوئی ہے۔

آکسفورڈ ڈکشنری میں میں ہے:

“Materials or conditions occurring in nature and capable of economic exploitation.”[8]

قدرتی وسائل زمین پر قدرتی طور پر پائے جانے والے ایسے مادے ہوتے ہیں جن کا تعلق معاشی و اقتصادی صورتحال و استحصال سے ہوتا ہے۔

ڈکشنری آف انوائرنمنٹ میں میں ہے۔

“The reserves are that part of the current economic and social conditions.”[9]

ڈکشنری آف انوائرنمنٹ میں قدرتی وسائل کو قدرتی ذخائر کا نام دیا گیا ہے۔ ذخائر یعنی قدرتی وسائل موجودہ معاشی اور معاشرتیماحول کا حصہ ہیں۔ سماجی اور معاشی، اقتصادی ترقی و خوشحالی میں قدرتی ذخائر کا اہم کردار ہوتا ہے۔

انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“The primary necessities for maintaining life,food, water ,air and a source of heat have been available to humans for thousands of years.”[10]

امریکہ کے ماہر ارضیات "جے۔ ایس۔ لیوس "بیان کرتے ہیں:

“The Earth ,with its atmosphere and oceans , its biosphere ,its crust of relatively oxidized , silica rich , sedimentary , igneous , and metamorphic rocks overlaying (a magnesium) silicate mantle and core) of metallic iron, with its ice caps ,deserts ,forests , tundra , jungles , grasslands , fresh –water lakes , coal beds , oil deposits , plants ,animals ,magnetic field , ionosphere , mid ocean ridges , convincing is a system of stunning complexity,”[11]

خوراک، پانی، ہوا اور حرارت زندگی برقرار رکھنے کے لئے بنیادی ضروریات ہیں جو ہزاروں سالوں سے انسانوں کے لئے وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ معدنیات، نباتات اور حیوانا ت بنیادی قدرتی وسائل ہیں جن سے ضروریات ِ زندگی حاصل ہوتی ہیں۔ خوراک، پانی، ہوا اور حرارت کرہ ارض پر زندگی برقرار رکھنے کے لئے بنیادی ضروریات اور قدرتی وسائل ہیں جو انسان کی منعفت و سہولت کے لئے دستیاب و میسر ہیں۔

حیوانات، نباتات، معدنیات اہمیت و افادیت کے حامل قدرتی وسائل ہیں جنہیں سائنسی اصطلاح میں "را میٹریل " کہا جاتا ہے۔

انڈیا کےجغرافیہ دان "ایم ایس راؤ" اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں:

“Refers to a substance intended for processing, fabrication or manufacture; it may be natural (animal, vegetable, mineral) or a product of some other activity (e.g. coal tar, wood pulp) .”[12]

خام مال اشیا کی تیاری کےلئے مطلوبہ قدرتی مادہ ہوتا ہے۔ یہ قدرتی مادہ (جانوروں، سبزیوں، معدنیات) یا کسی دوسری سرگرمی (جیسے کوئلے، لکڑی کا گودا) کی پیداوار ہوسکتاہے۔ قدرتی وسائل کی اصطلاح اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی تمام اشیا اور نسل انسانی کی بنیادی ضروریات کے لئے استعمال ہوتی ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز اپنی معروف کتاب "کنزرویشن اور اسلام" میں رقمطراز ہیں:

“The term natural resources includes not only timber ,gas, oil, coal ,minerals, lakes and submerged lands ,but also features which supply a human need and contribute to the health, welfare and benefit of a community are essential to wellbeing thereof ,and proper enjoyment of property devoted to parks and recreational purposes.”[13]

قدرتی وسائل کی اصطلاح میں نہ صرف جنگلات، گیس، تیل، کوئلہ، معدنیات، جھیلیں اور زرخیز زمین شامل ہیں بلکہ اس میں ساری اشیاء بھی داخل ہیں جن سے انسانی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور کمیونٹی کی فلاح و بہبود میں حصہ دار ہیں اور جو تفریحی مقاصد اور پارکوں کے لیے مختص ہیں اور فلاح ِ انسانیت کے لیے ضروری ہیں۔

مذکورہ بالا تشریحات و توضیحات سے ثابت کرتی ہیں۔ قدرتی وسائل میں وہ تمام اشیاء شامل ہیں جن کو قدرت یعنی قادرِ مطلق اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا ہے۔ زمین، آبی وسائل، ہوا، سمندر، دریا، جنگلات و نباتات، نمکیات و معدنیات، مٹی، تیل، گیس، کوئلہ، دھاتی وسائل، لوہا، سونا، چاندی وغیرہ اہم قدرتی وسائل ہیں۔ قدرتی وسائل میں وہ تما م ما دے شامل ہیں، جن کا استعمال انسان اور دوسرے جاندار اپنے فائدے کے لیے استعمال کررہے ہیں، کرہ ارض پر موجود مختلف ماحولیاتی نظام اور ان میں بسنے والی حیات بھی قدرتی وسائل میں شامل ہے۔ [14]قدرتی وسائل سے مراد اللہ تعالیٰ کے پیداکردہ قدرتی ذرائع ہیں چاہے وہ زمین کے خشکی کے قطعات (براعظم) کی صورت میں ہوں یا زمین پرزرعی پیداوار کی صورت ہوں یا زیرِ زمین پائے جانے والے معدنیات کی صورت میں ہو یا زمین پر پائے جانے والے حیوانات و نباتات، دریاؤں کی صورت میں ہوں یا پھر سمندر وں کی شکل میں پائے جائیں۔ یہ سب چیزیں قدرتی وسائل میں شامل و داخل ہیں۔

وسائل کی اقسام( Types of Resources)

قابل تجدید وسائل (Renewable Resources)

ایسے قدرتی وسائل جن کی تجدید کی جا سکتی ہے قابلِ تجدید ذرائع کہلاتے ہیں، دنیا بھر میں قابل تجدید ذرائع مقدارمیں ناقابل تجدید ذرائع کی نسبت بہت زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ علاقے کے قدرتی وسائل کے مطابق قا بل تجدید توانائی کا حصول ناقابل تجدید ذرائع کی نسبت زیادہ مستحکم، دیر پا، سستا اور ماحول دوست ہوتا ہے۔ یہ معدنی ایندھن سے بہت زیادہ مقدار میں کرہ ارض پر بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ امریکہ کے محکمے توانائی نے اندازہ و تخمینہ لگایا ہے کہ وہاں ان ذرائع سے حاصل ہونے والے ایندھن کی سالانہ مقدار اس مقدار سے دس گنا زیادہ ہے جو اس ملک میں معدنی اور ایٹمی ایندھن کے ذخائر سے حاصل ہوتے ہیں اور خوشی و مسرت کی بات یہ ہے کہ یہ ذرائع وہاں بآسانی دستیاب و میسر ہیں۔

انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا کے مطابق قابل تجدید وسائل:

“Natural Resources are classified as either renewable or Nonrenewable .Living resources –animals and plants –can reproduce or renew themselves ;minerals cannot. Yet Renewable resources must be “mined “judiciously so that their numbers remain stable and the ecosystem in which that operate remains healthy.”[15]

مذکورہ بالا عبارت سے نمایاں ہوتا ہےکہ قابل تجدید وسائل میں جاندار اشیاء، حیوانات اور نباتات قابل تجدید قدرتی وسائل میں شامل ہیں جبکہ معدنی ذخائرکو ناقابل تجدید وسائل قرار دیا جاتا ہے۔ ہوا، پانی اور شمسی توانائی قابل تجدید قدرتی وسائل ہیں۔ قابل تجدید وسائل کا استعمال انتہائی دانشمندی سے کرنا چاہئے کیونکہ ان وسائل پر ماحولیاتی نظاموں کی بقا کا انحصار ہوتا ہے۔ توانائی اور قدرتی وسائل کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ قدرتی حرارت و روشنی کا منبع سورج ہے۔ توانائی و حرارت کی بدولت ہماری کائنات کے قدرتی وسائل و ذرائع اپنے اپنے دائرہ کار میں رواں دواں ہیں۔ قابل ِ تجدید توانائی میں شمسی توانائی، مدوجزر کی توانائی، پن بجلی، نباتاتی گیس، ہوائی توانائی اور زیرِ زمین حرارتی توانائی شامل ہیں۔ ماہرین ارضیات کے مطابق قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع پر توجہ دیے بغیر پاکستان توانائی کے بحران سے نہیں نکل سکتا۔

 عبدالحمید لکھتے ہیں:

“Allah has seen fit to support mankind and all other creatures by His provision of renewable resources, those which by proper and judicious use are perfectly capable of nurturing all of life until the end of time.”[16]

اللہ تعالٰی نے قابل تجدید وسائل کی فراہمی کے ذریعہ بنی نوع انسان اور دیگر تمام مخلوقات کی مدد کرنے کے لئے مناسب وسائل پیدا کئے ہیں۔ جن کا مناسب اور درست استعمال کیا جائے تو یہ ساری انسانیت کے لئے کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ جاندار اشیا ء و عناصر قابل تجدید قدرتی وسائل میں شامل کئے جاتے ہیں۔ جاندار عناصر کو انگریزی زبان میں"بائیوٹیک" کہا جاتا ہے۔

"ڈکشنری آف جیوگرافی " میں ہے:

“The factors reflect the influence of living organisms in the development of soil and vegetation (e.g., bacteria, earthworms, ants, termites, moles, field-mice; in U.S.A. also prairie-dogs ground-squirrels and gophers.) ”[17]

حیوانات اور نباتات دونوں جانداروں میں شامل ہیں۔ اور یہ سب قابل تجدید قدرتی وسائل کی مثالیں ہیں۔ ناقابلِ تجدید ذرائع سے چلنے والے بجلی گھر وں کی جگہ مختصر سائزوں میں قابل تجدید ذرائع والے بجلی گھر بنائے جا سکتے ہیں۔ کوئلے سے چلنے والے عام پلانٹ جتنی جگہ گھیرتے ہیں اس کے تقریباً ہزارویں حصے میں ایسے پلانٹ لگائے جا سکتے ہیں جو سورج اور ہوا کی مدد سے چلتے ہیں اور توانائی کی مختلف اقسام ایک ساتھ پیدا کرتے ہیں۔ اس قسم کے مختصر پلانٹ گھروں میں بھی لگائے جاسکتے ہیں۔ توانائی کی ترسیل کو ماحول دوست بنایا جا سکتا ہے اور توانائی کے ضیاع کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ دورِحاضر میں میں ترقی یافتہ ممالک میں ناقابلِ تجدید قدرتی وسائل کوئلہ، تیل وغیرہکی بجائے قابلِ تجدید ذرائع (شمسی توانائی، پن بجلی، ہوا کی توانائی وغیرہ) توانائی حاصل کرنے کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔

 ناقابل تجدید وسائل (Non-Renewable Resources)

یہ وہ قدرتی وسائل ہیں جو ایک دفعہ استعمال ہو جائیں تو ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے ختم ہو جاتے ہیں، ان کی صرف شدہ مقد ار کا بدل نہیں ملتاہے فوسل ایندھن معدنیات ایندھن، معدنیات، پٹرولیم، نمک، قدرتی گیس اور کوئلہ وغیرہ ناقابلِ تجدید وسائل کی مثالیں ہیں۔ [18]

نیو انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کا مقالہ نگار ناقابلِ تجدید وسائل کے متعلق لکھتا ہے:

“Fossil fuels are classed as Non renewable .They are slow to form and are destroyed by use. Minerals are also Nonrenewable, but, some, such as ,iron , are plentiful, and others ,such as ,aluminum can be recycled on economical basis.”[19]

فوسل فیولز کو ناقابل تجدید وسائل کہا جاتا ہے۔ فوسل فیولز بننے میں سست ہیں اور استعمال سے ختم ہوجاتے ہیں۔ معدنیات بھی ناقابل تجدید وسائل ہیں لیکن کچھ معدنیات جیسے آئرن بہت زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں اور دوسری معدنیات جیسےایلومینیم کو اقتصادی بنیاد پر ری سائیکل کیا جاسکتا ہے۔ کرہ ارض ابتدا ء میں پودےاونچے اونچےدرختوں، گھاس کے وسیع و عریض میدانوں اور جنگلات وغیرہ پر مشتمل تھی۔ بعد ازاں کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے یہ عظیم الشان ڈھانچہ زیرِ زمین چلے گیا اور ایک خاص کیمیائی عمل کی وجہ سے تیل کی شکل و صورت میں تبدیل ہو گیا۔ [20]فوسل فیولز کے بننے میں کئی ملین سا ل درکار ہوتے ہیں۔ فوسل فیولز عموماً ہائیڈرو کاربن کے مرکبات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس لئے جب انہیں استعمال کیا جاتا ہے تو یہ ماحول میں موجود آکسیجن کے ساتھ کیمیائی عمل کرتے ہیں اورکاربن ڈائی آکسائیڈ بنتی ہے جو قدرتی ماحول کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔

ڈکشنری آف انوائرنمنٹ میں "فوسل فیولز" کی تعریف:

“ The fuels derived from ancient organic remains: peat, coal, crude oil, and natural gas. Tar-sands and oil-shales, though currently no widely exploited, are included in resources of fossil fuels.”[21]

قدیم نامیاتی باقیات سے حاصل شدہ ایندھن فوسل فیول کہلاتا ہے۔ پیٹ، کوئلہ، خام تیل اور قدرتی گیس۔ ٹار سینڈ اور آئل شیل، اگرچہ فی الحال ان کا بڑے پیمانے پر کوئی استحصال نہیں کیا گیا ہے لیکن وہ سب فوسل فیولز کے وسائل میں شامل ہیں۔ صنعت وحرفت اور ٹرانسپورٹ کو رواں دواں رکھنے کےلئے کوئلہ، تیل اور گیس جیسے فوسل فیولز دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر استعمال ہورہے ہیں۔ معدنی ایندھن نا پائید ار اور ناقابل تجدید ہیں اور ان سے حاصل کردہ توانائی ناقابلِ تجدید ہے۔ فوسل فیولز سے حرارتی توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ فوسل فیولز سے حرارتی توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ فوسل فیولز کوئلے، تیل اور قدرتی گیس پر مشتمل ہیں۔ حرارتی توانائی پر چین اور مشرقی ممالک میں ایک ٹریلین ڈالر کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔ یہ توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

خام تیل کو کالا سونا بھی کہا جاتا ہے۔ تیل ایک اہم ناقابل ِ تجدید قدرتی وسیلہ ہے۔ پاکستان میں تیل کی روزانہ پیداوار 70 ہزار بیرل ہے جبکہ کھپت روزانہ 822 ہزار بیرل ہے۔ زمین سے نکالنے کے بعد خام تیل سے کئی اقسام کے تیل اور دوسرے اجزاء حاصل کیے جاتے ہیں۔ کل توانائی ضروریات کا قریباً 44 فیصد حصہ تیل سے حاصل کیا جاتا ہے۔ [22]ماہرین ماحولیات پٹرولیم، قدرتی گیس، کوئلہ اور دیگر معدنی وسائل کو ناقابل تجدید قدرتی وسائل میں شامل کرتے ہیں۔ ناقابل تجدید قدرتی وسائل کا استعمال مجبوری و معذوری کے تحت کفایت شعاری اور دانشمندی سے استعمال کرنا اور آنے والی نسلوں کے لئے ان کا تحفظ کرنا نسل ِ انسانی کا اخلاقی و قومی فریضہ ہے۔

کائنات کی تخلیق (Creation of the Universe)

کائنات اوراس میں قدرتی طور پر پائی جانے والی تمام قدرتی اشیا کا بنانے والا اور ان کا حقیقی مالک اللہ تعالی وحدہ لا شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر ماڈل یا نمونہ کے وسیع و عریض کائنات کو اپنی کمال قدرت و حکمت سے پیدا کیا ہے۔

ا س کے بارے میں قرآن فرماتاہے:

" فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا "[23]

" آسمانوں اور زمین کا بنانے والا، جس نے تمہاری اپنی جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے "

سید محمد طنطاویؒ مذکورہ بالا آیت کی تشریح فرماتے ہیں:

"فاطِرُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أى هو خالقهما وموجدهما على غير مثال سابق، من فطر الشيء إذا ابتدعه واخترعه دون أن يسبق إلى ذلك"[24]

آسمانوں اور زمین کو بنانے والایعنی ان کا موجد اور خالق اکیلااللہ تعالیٰ ہے۔ اس کائنات کا وجوداس نے کسی سابقہ نمونے یا مثال کے بغیر ایجاد کیا ہے۔ کائنات کی تخلیق قدرتِ الہی کا عظیم شاہکار ہے۔ کائنات کی تخلیق اس قدر جامع، حیرت انگیز اور بے مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرقانِ حمید میں دنیا کے تمام سانئسدانوں، فلسفیوں اور ماہرینِ فلکیات کو چیلنج کیا ہے کہ وہ بار بار کوش و کاوش کے باوجود قیامت تک کائنات کے اجزاء میں نقص و خلل، بے ترتیبی، بے ربطی اور عدم تناسب تلاش نہیں کر سکتے۔

امام سمرقندی ؒ رقمطراز ہیں:

“مَّا ترى فِى خَلْقِ السموات من عيب"[25]

اس کائنات کا نظام اور اس میں موجود ہر شےکی تخلیق و ترتیب اس قدر خوبصورت، محکم، مربوط اور کامل و اکمل ہے کہ اس میں کسی خلل، نقص، رخنے، بدنظمی یا عدم تناسب و غیر موزوں نیت کا کہیں شائبہ تک دکھائی نہیں آتا۔ اس حقیقت کا اعتراف و اقرار نسل انسانی نے اپنے اجتماعی علم کی بنیاد پر ہر زمانے میں دی ہے۔ ہر زمانے کے اہل فکرو دانش نے فلکیات ‘ ارضیات ‘ طبیعیات ‘ حیوانیات ‘ نباتات غرض سائنس کے تمام شعبوں میں حیران انگیز تحقیقات کی ہیں لیکن آج تک کوئی ایک محقق یا فلاسفریہ نہیں کہہ سکا کہ قدرت کی بنائی ہوئی فلاں چیز میں فلاں نقص یا خرابی ہے یا یہ کہ فلاں چیز اگر ایسے کی بجائے ویسے ہوتی تو زیادہ عمدہ ہوتی۔

 تخلیق کائنات سے پہلے ہر طرف گیسوں کا دھواں تھا۔ دورِ جدید کے سائنسدان اس امر پر اتفاق کرتے ہیں کہ کائنات میں کہکشاؤں کی تخلیق سے قبل مادہ بنیادی طور پر مختلف گیسوں پر مشتمل تھا۔ دراصل کہکشاؤں کی تخلیق سے پہلے گیسوں کا دھواں موجود تھا جسے دھواں کہنا زیادہ مناسب دکھائی دیتا ہے۔ [26]

کتاب اللہ میں ہے:

" ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ وَهِىَ دُخَانٌ "[27]

" پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا۔ "

مذکورہ آیت ِ قرآنی میں کائنات کی تخلیق کے ابتدائی مرحلے کے بارے میں کچھ شواہد ثابت ہوتے ہیں۔ سائنسی شواہد و تحقیقات کے مطابق عظیم دھماکے (بگ بینگ) کے بعد آگ کا ایک بہت بڑا گولا وجود میں آیا۔ پھر اس گولے میں مزید دھماکے ہونا شروع ہوئے اور اس طرح اس مادے کے جو حصے الگ الگ ہوئے، ان سے کہکشاؤں نے وجود میں آنا شروع کردیا۔

بگ بینگ (Bing Bang)

ماہرین ِ فلکیات کے مطابق کائنات ایک عظیم دھماکہ سے وجود میں آئی جسے بگ بینگ کہا جاتا ہے۔ کا ئنات کی تخلیق کا مقبول عام نظریہ دی بگ بینگ نظریہ کہلاتا ہے۔ بینگ کے مطابق یہ دنیا آغاز میں بنیادی ستاروں کا ایک جھرمٹ تھی۔ اس کے بعد ثانوی علیحدگی انجام پائی جس کے نتیجے میں کہکشاں عمل میں اس کے بعد یہ ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی شکل میں تبدیل ہو گئی۔ اس دنیا کا منفرد آغا ز تھااور اس کے اتفاقاً وجود میں آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ [28]Big Bang کے بعد مادے کا جو ایک بہت بڑا گولا وجود میں آیا تو وہ ایک یکجا وجود (Homogenous mass) کی صورت میں تھا۔ پھر مادے کے اس گولے میں تقسیم ہوئی، مختلف ستاروں اور سیاروں کے گچھے بنے، کہکشائیں (Galaxies) وجود میں آئیں، سورج اور اس کے سیاروں کی تخلیق ہوئی ‘ اور یوں ہماری زمین بھی پیدا ہوئی۔ گویا اس سارے تخلیقی عمل کا اظہار اس ایک جملے میں ہوگیا کہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے اور ہم نے انہیں کھول دیا، جدا جدا کردیا۔ [29]

عالمی شہرت یافتہ مسلم سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک "بگ بینگ" کے متعلق رقمطراز ہیں:

“According to the ‘Big Bang’, the whole universe was initially on big mass (Primary Nebula) . Then there was a ‘Big Bang’ (Secondary Separation) which resulted in the formation of Galaxies. These then divided to from stars, planets, the sun, the moon, etc.”[30]

’بگ بینگ تھیوری کے مطابق، پوری کائنات ابتدا میں بڑے مادہ کی شکل میں تھی۔ پھر ایک بڑے دھماکے کی صورت میں (ثانوی علیحدگی) ہوئی جس کا نتیجہ کہکشاؤں کی تشکیل میں وقوع پذیر ہوا۔ اس کے بعد یہ ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہمیں منقسم ہے۔

معروف مسلم سکالر ہارون یحیی ٰ 'بگ بینگ' کےبارے میں بیان کرتے ہیں:

“The big bang theory holds that the Universe began with single explosion .”[31]

بگ بینگ تھیوری کا نظریہ اسطرح ہے کہ کائنات کا آغاز ایک ہی دھماکے سے ہوا تھا۔ بگ بینگ کے ثبوت گزشتہ کئی عشروں کے دوران مشاہدات و تجربات کے ذریعے ماہرینِ فلکیات کی جمع کردہ معلومات و حقائق موجود ہیں۔ بگ بینگ تھیوری کے مطابق ابتداء میں ساری کائنات ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھی پھر ایک عظیم دھماکہ ہوا جس کا نتیجہ کہکشاؤں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ پھر یہ کہکشائیں تقسیم ہوکر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں۔ سائنسی نظریہ "بگ بینگ "کا انکشاف قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ پہلے نہ صرف اس واقعے کا انکشاف پایا جاتا ہے بلکہ اس میں کچھ مزید سائنسی حقائق کی طرف اشارے و کنایے اور سائنسدانوں کی تحقیق وجستجو کے لیے ایسے نئے فکری زایوں کی نشاندہی و بنیاد پائی جاتی ہے جو ابھی تک سائنسدانوں کی فکروسوچ سے اوجھل ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ جستجو اور غورو تدبر کریں تو ان کی سائنسی تحقیق کے لیے قرآنی آیات نیا فکری و تحقیقی میدان فراہم کرتی ہیں۔

کتاب ِ الہی میں ہے:

" اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا "[32]

"کیا وہ لوگ جنہوں نے ﴿ نبی کی بات ماننے سے﴾ انکار کردیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا۔ "

مذکورہ بالا آیت ِ قرآنی سے سائنسی نطریہ بگ بینگ (Big Bang) کی تصدیق ہوتی ہے۔

امام جلال الدین سیوطی ؒ اپنی تالیف "اسرار الکون" میں بیان کرتے ہیں:

" كانت السموات والأرضون ملتزقتين، فلما رفع السماء وأنبذها من الأرض فكان فتقها الذي ذكر الله”[33]

مذکورہ بالا اقتباس کا حاصل یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کو آپس میں جوڑ دیا گیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان کو اٹھایا اور زمین سےالگ کر دیا۔ سارے آسمان اور زمین ایک ٹھوس حالت میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پناہ قوت اور کمال قدرت کے ساتھ ان کو الگ الگ کرکے درمیان میں ہوا اور خلا کا فاصلہ کردیا اور آسمانوں کو سات آسمان اور زمین کو سات زمین بنا دیا۔ آج کل سائنس بھی تسلیم کرتی ہے کہ کائنات پہلے ایک تودے کی شکل میں تھی، بھر ایک بہت بڑے دھماکےکے ساتھ جدا جدا ہوئی۔ [34]مذکورہ آیت میں "رتق" اور "فتق" انتہائی اہم اور جامع الفاظ ہیں۔

ہارون یحییٰ ان الفاظ کی تشریح انتہائی مناسب انداز میں کرتے ہیں:

“The fatq “we unstitched” is the verb fatk in Arabic and implies that some thing comes into being by tearing a part or destroying the structure of ratk.The sprouting of a seed from the soil is one of the actions for which this verb is applied.”[35]

1925ءمیں معروف سائنسدان ایڈون ہبل نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ اسی فلکی و سائنسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ کی سچی اور آخری کتاب قرآن مجید یوں بیان کرتی ہے:

"وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ”[36]

"اور ہم نے اس (کائنات) کو بنا یا ہے اور یقیناً ہم اس (کائنات) کو وسعت اور پھیلاؤ دیتے جارہے ہیں۔"

 ابو القاسم الغرناطی اپنی معروف تفسیر "ا لتسہیل لعلوم التنزیل " میں کائنات کی وسعت یوں بیان کرتے ہیں:

" جعلنا السماء واسعة، أو جعلنا بينها وبين الأرض سعة"[37]

مذکورہ اقتباس کےمفہوم کے مطابق آسمانوں کو اللہ سبحانہ نے آسمانوں کو اپنےہاتھوں سے تخلیق کیا۔ اللہ تعالی کائنات کی توانائی اور قوت و طاقت کو وسعت دے رہا ہے۔ اللہ تعالی نے اس میں معاش کے مواقع کو وسیع کر دیا ہے۔

اسٹیفن ہاکنگ[38] عصر حاضر کا معروف ماہر فلکیات ہے۔ اس نے اپنی معروف تصنیف "اے بریف ہسٹری آف ٹائم " میں لکھا ہے کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے، بیسویں صدی عیسوی کے عظیم علمی و فکری انقلابات میں سے ایک ہے۔ [39]

ڈاکٹر ذاکر نائیک [40]کائنات کی وسعت کے بارے میں رقمطراز ہیں:

“In 1925, an American astronomer by the name of Edwin Hubble, provided observational evidence that all galaxies are receding from one another , which implies that the universe is expanding. The expansion of the universe is now an established fact.”[41]

1925ءمیں امریکی ماہر فلکیات "ایڈون ہبل" نے تحقیقات کے بعد ثابت کیا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ اسطرح کائنات کا پھیلاؤ سائنسی طور پر تسلیم کی ہوئی حقیقت ہے۔ جسے قرآن پاک میں تقریباً1400 برس پہلے ہی کردیا گیا ہے۔ یہ سانئسی انکشاف دنیا بھر کے غیر مسلموں کے لئے دعوتِ اسلام کے عالمگیر پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔

 ممتاز سکالر ہارون یحیٰ کائنات کی وسعت و پھیلاؤ اور کہکشاؤں کی تعداد کے بارے تحریر فرماتے ہیں:

“Scientists estimate that there are over 300 billion galaxies in the whole universe. These galaxies have a number of different forms (spiral ,elliptical, etc) and each contains about as many stars as the universe contains galaxies. One of the these stars, the sun, has nine major planets rotating around in it in great harmony .All of us live on the third of those planets counting from the sun .”[42]

جدید سائنسدانوں کے مطابق کائنات میں 300 بلین سے زائد کہکشاؤں کا وجود پایا جاتا ہے۔ ہر کہشکشاں کھربوں ستاروں پر مشتمل ہے۔ ان کھربوں ستاروں میں سے سورج بھی ایک ستارہ ہے جس کے گرد 9 سیارے گردش کررہے ہیں اور سورج کے ان سیاروں میں تیسرے نمبر زمین کا سیارہ ہے جس پر انسان اپنی حیات بسر کررہا ہے۔

سیاہ شگاف (Black Holes)

سیاہ شگاف ستارے کے فنا ہونے کی وجہ سے خالی رہ جانے والی جگہ کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ایک ستارہ ایک مخصوص حجم رکھتا ہے۔ ستارے کا فنا ہونا یا مر جانے کا مطلب ہے کہ وہ توانائی جو اسے قائم رکھے ہوئے تھی ختم ہو چکی ہے، جیسے ہی ایک ستارہ مرتا ہے وہ اپنی ہی کشش ثقل سے دب کر اتنا سکڑ جاتا ہے کہ نظر نہیں آتا۔ یہ اپنے قریب سے گزرنے والے ستاروں کو ہڑپ کر جا تا ہے۔ سیاہ شگاف کو ایک ستارے کا پر اسرار مقبرہ کہا جا سکتا ہے جو تمام مادی اشیاء اوروقت کو کھینچ لیتاہے۔ [43]

معروف ماہرِ فلکیات اسٹیفن ہاکنگ "سیاہ شگاف "کی تعریف بیان کرتا ہے:

"سپیس ٹائم کا ایک خطہ جہاں سے کچھ بھی، حتیٰ کہ روشنی بھی، باہر نہیں نکل سکتی کیونکہ تجاذب کی قوت نہایت زوردارہوتی ہے۔ "[44]

قرآن کریم ستاروں کے قبرستان یعنی بلیک ہولز کی قسم کھائی گئی ہے۔

 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ"[45]

"میں قسم کھاتا ہوں ان جگہوں کی جہاں ستارے گرتے ہیں"

معروف تفسیر "ایجاز البیان "میں مواقع النجوم کی تشریح و توضیح یوں بیان کی گئی ہے:

"بِمَواقِعِ النُّجُومِ: مطالعها ومساقطها أو انتثارها يوم القيامة ”[46]

روز ِ قیامت تمام ستارے بے نور ہو جائیں گے۔ مواقع النجوم کا معنی ستارے گرنے کی جگہیں ہیں جنسے مراد ستاروں کے غروب ہونے کے مقامات ہیں، یا شہاب ثاقب کی صورت میں شیاطین پر برسنے والے ستاروں کے گرنے کے مقامات ہیں۔ [47] جدید سائنس کے مطابق ستارے گرنے کو جگہوں کو "بلیک ہولز" کہا جاتا ہے۔ بلیک ہولز کی طرح وائٹ ہولز [48]بھی پائے جاتے ہیں۔

نظام شمسی (SOLAR SYSTEM)

ہماری زمین کائنات کے جس حصے میں واقع ہے اسے نظام شمسی کہتے ہیںاس کے بڑے ستارے کو سورج کہتے ہیں۔ سورج نظام شمسی کا مرکزی حصہ ہے۔ سورج روشنی و حرارت کا قدرتی وسیلہ و ذریعہ ہے۔ قرآن پاک میں سورج اور دوسرے اجرام ِ فلکی کی اہمیت و افادیت کا تذکرہ جا بجا آیا ہے۔

فرمانِ الہی ہے:

"ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً ۚ "[49]

" وہی ہے جس نے سورج کو اجیالا بنایا "

ہماری زمین، سورج، نظام شمسی اور چھوٹے بڑے بیشمار ستاروں اور سیاروں کا ایک عظیم الشان اور لامتناہی نظام بھی اس کی قدرت کے مظاہر میں سے ہے۔ دورِ جدید کا انسان جانتا ہے کہ اس نظام کے اندر ایسے ایسے ستارے بھی ہیں جن کے مقابلے میں ہمارے سورج کی جسامت کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ یہ اتنے بڑے بڑے اجرام سماویہ اللہ ہی کے حکم سے اپنے اپنے مدار پر قائم ہیں اور یوں اس کی مشیت سے کائنات کا یہ مجموعی نظام چل رہا ہے۔ [50]

ہارون یحییٰ رقم طراز ہیں:

“The sun is specially created for us. This great ball of fire in the sky is gigantic “lamp” that was created so as to meet our needs .Recent research indicates that sunlight has magnificent features that inspires amazement.”[51]

سورج نسل انسانی کی حیات وبقا کے لئے خاص نعمت ِ خداوندی ہے۔ یہ لیمپ کی طرح بہت بڑا آگ کا گولا ہے جس سے کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کی حرارت و روشنی کی ضروریات منسلک ہیں۔ جدید تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی حیرت انگیز خواص کی حامل ہوتی ہے جو کرہ ارض پر زندگی کی روانی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

سائنس انسائیکلو پیڈیا میں ہے:

“The sun and all the celestial objects that move in Orbit around it, including the nine known planets (Mercury; Venus; Earth; Mars; Jupiter; Saturn; Uranus; Neptune; Pluto) , their 58 known moons, the Asteroids, Comets, meteoroidsand a large quantity of gas and dust”[52]

سورج کے گرد گھومنے والے حصوں کو سیارے کہا جاتا ہے۔ ان کی تعد اد 9 ہے۔ ان میں زمین بھی ایک سیارہ ہے۔ نطام شمسی میں 9 سیارے، 60 چاند اور بے شمار سیارچے، دم دار ستارے اور کائناتی اجسام شامل ہیں۔ اس نظام کے مرکز میں سورج ہے، سورج سے توانائی حاصل ہوتی ہے۔ نظام شمسی میں شامل تمام سیارے سورج کے گرد بھی گھوم رہے ہیں اور خود اپنے مدار کے گرد بھی گھوم رہے ہیں۔ [53]

جغرافیہ دان "ایم ایس راؤ" لکھتے ہیں:

“It is an incandescent, almost spherical body, the centre of the solar system, moving a diameter of about 865,000 miles, a mean surface temperature of about 57000C., and a very high internal temperature.”[54]

سورج نظام شمسی کا مرکز ہے، سورج کا قطر 865000 میل ہے جبکہ اس کی بیرونی سطح کا درجہ حرارت 5700 ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ زمین پر زندگی کی روانی کے لیے سورج کی روشنی و حرارت بنیادی و کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا کی تمام موجودات و مخلوقات دنیا کی رنگینیاں ورعنائیاں دیکھنے کے لیے سورج کی روشنی و حرارت پر انحصار کرتی ہیں۔ سورج وسیع و عریض کائنات کی لاتعداد کہکشاؤں میں سے ایک کہکشاں[55] ملکی وے کے کنارے پر واقع ہے۔ سورج حرارت و روشنی کےاخراج کا دیو قامت سرچشمہ ہے جو انتہائی زیادہ درجہ حرارت کے ساتھ پوری آب و تاب سے مسلسل چمک رہا ہے۔ اس کا قطر زمین کے قطر سے 100 گنا بڑا ہے اور یہ کائنات کے ہلکے ترین عناصر ہائیڈروجن اور ہیلئم پر مشتمل ہے۔ اس کی کمیت زمین کی کمیت سے تین لاکھ گنا زیادہ ہے۔ [56]

 نامور مفکر ہارون یحییٰ اپنی تالیف " “Creation of The Universe میں سورج کی افادیت کے ضمن میں لکھتے ہیں:

“It keeps the world warm ,supports biological functions of complex life forms , enables photosynthesis , and allows the creatures of this world to see.”[57]

سورج کرہ ارض کو حرارت فراہم کرتا ہے۔ سورج کی حرارت و روشنی کی مدد سے بہت حیاتاتی عوامل انجام پاتے ہیں۔ پودے سورج کی روشنی کی مدد سے ضیائی تالیف کے کیمیائی عمل کے دوران فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتے ہیں اور فضا میں آکسیجن چھوڑتے ہیں۔ آکسیجن کے بغیر کرہ ارض پر انسانی و حیوانی حیات برقرار رہنا ناممکن ہے۔

ایک مغربی مفکر ڈاکٹر ہیرونگ یو ں اعتراف ِ حقیقت کرتے ہیں کہ ہمیں قرآن مجید کے سر چشمہ علوم ہونے پر متحیر نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے ہر موضوع پر جس کا تعلق ارض و سما سے ہو متعدد مقالوں کو ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ جب اسلامی دنیا میں روحانی فکر وعمل کا آغاز ہوا، یہ محفل علم الٰہیات کی مذہبی مو شگافیوں اور قیاس آرائیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے برعکس آپ ﷺنے بار بار مناظر فطرت، شمس و قمر اور فلکیاتی گردش کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ یہ سب معجزات الہیہ اور شعائر ربانیہ کے مظاہر ہیں جنہیں انسانی خدمت کے لیے مسخر کیا گیا ہے۔ [58]سورج خلا میں تقریباً 240 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سفر کرتا ہے اور ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے گرد ایک چکر پورا کرنے کے لئے اسے دو سو ملین برس درکار ہوتے ہیں۔ جدید علم فلکیات کی تحقیق کے مطابق سورج اور چاند کے انفرادی مدار موجود ہیں اور وہ اپنے مدار کے گرد گردش کے ساتھ ساتھ خلا میں محوِ سفر ہیں۔ سورج اپنے نظام شمسی کےہمراہ جس مقررہ جگہ کی جانب سفر کررہے ہیں، جدید ماہرینِ فلکیات اسے "سولر اپیکس" کا نام دیتے ہیں۔ [59]

سورج کے خلا میں سفر کو قرآن بیان کرتا ہے:

" لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۭ وَكُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ"[60]

" نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔ "

ترکی کے معروف مفکرِ اسلام ہارون یحیی ٰ نظامِ شمسی کے بارے میں مختلف سائنسدانوں کا نقطہ نظر یو ں بیان کرتے ہیں:

“Galileo,Kepler,and Newton all recognized that the structure of Universe ,the order in the solar system, the laws of physics and their states of equilibrium were all created by Allah and they arrived at that conclusion as a result of their own research and observations.”[61]

گلیلیو، کیپلر اور نیوٹن جیسے سائنسدان اعتراف و اقرار کرتے ہیں کہ اجرام فلکی کے ترتیب و توازن اور جدید فزکس کے قوانین و اصول میں مکمل طور پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ان سائنسی تحقیقات و مشاہدات کےنتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے کائنات میں توازن سے ہر شے بنائی ہے۔

سائنس انسائیکلو پیڈیا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“The largest of the inner planets of Solar system, the third planet from the sun and, so far as is known, the sole home of life in the Solar system.”[62]

شمسی نظام کے تما م سیاروں میں سے صرف زمین ہی ایسا سیارہ ہےجہاں زندگی کا وجود پایا جاتا ہے۔ مریخ اور زمین میں کافی اشیاء کے لحاظ سے ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن مریخ کا ماحول بھی زندگی کی روانی کے لئے موزوں نہیں ہے۔

علم ارضیات (Geology)

 زمین کا مطالعہ ارضیات کہلاتا ہے۔ ارضیات کا علم ایک سائنس ہے۔ ارضیاتی سائنس کی اہمیت کے پیش نظر جامعات میں جیالوجی (ارضیات) کے شعبہ جات بنائے گئے ہیں۔

علامہ الجاحظؒ لکھتے ہیں:

"والأرض هي أحد الأركان الأربعة، التي هي الماء والأرض والهواء والنار"[63]

زمین کی مٹی کائنات کے چار بنیادی ارکا ن میں سے ایک ہے۔ اس لئے زمینی علوم کی تحقیق (Geology) انتہائی اہم فن وعلم ہے۔

ڈکشنری آف بیالوجی میں جیالوجی کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:

“The science which deals with the structure and history of the earth.”[64]

مقالہ نگارمحسن جمیل بٹ جیالوجی کی تعریف کرتے ہیں:

“Goelogy is the study of exploration of minerals, hydrocarbons, earth-related potential hazards, such as volcanoes, landslides, and earthquaks. Geological studies are critical for urban planning and constructions.”[65]

مذکورہ بالا تعریفات کی روسے زمین کی مطالعہ معدنیات کی دریافت اور آفات سے بچاؤ کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جیالوجی کے مطالعے سے شہر بسانے کی منصوبہ بندی اور تعمیر ات کرنے میں معاونت اور آسانی پیدا ہوتی ہے۔ عطارد اور زہرہ کے بعد سورج کے قریب ترین سیارہ زمین ہے، زمین سورج 9 کروڑ تیس لاکھ میل دور ہے۔ زمین کا قطر 7910 میل ہے۔ زمین کی کثافت پانی کی کثافت سے ساڑھے پانچ گنا زیادہ ہے۔ زمین اپنے محور کے گرد اور سورج کے گرد چکر لگاتی ہے، مشرق سے مغرب کی طرف گھومتی ہے، سورج کے گرد گھومتے ہوئے اس کی رفتار ساڑھے 18 میل فی سیکنڈ ہے جو قریباً 70 ہزار میل فی گھنٹہ بنتی ہے۔

زمین (Earth)

زمین اہم قدرتی وسیلہ ہے۔ وسیع و رعریض کائنات میں زمین ہی وہ سیارہ ہے جہاں جانداروں کے زندہ رہنے کے لیے مناسب اور

موزوں قدرتی ماحول پایا جاتا ہے۔

ہارون یحیی ٰ رقمطراز ہیں:

Earth is a planet which Allah created as a hospitable environment for life.”[66]

ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

" الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّجَعَلَ لَكُمْ فِيْهَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ "[67]

" وہی ہےجس نے تمہارے لیے اس زمین کو گہوارہ بنایااور اس میں تمہاری خاطر راستے بنا دیے تاکہ تم اپنی منزل مقصود کی راہ پاسکو۔ "

امام فخر الدین الرازیؒ مذکورہ بالا آیت کی تشریح و توضیح کرتے ہیں:

" أَنَّ الْأَرْضَ لِلْخَلْقِ كَالْمَهْدِ لِلصَّبِيِّ، وَهُوَ الَّذِي مُهِّدَ لَهُ فَيُنَوَّمُ عَلَيْهِ"[68]

زمین کائنات کے بنیادیکرہ ارض اور اس کی سطح کو مخلوقات کے لئے ہموار بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس پر بسیرا کر سکیں۔ عناصر اربعہ میں سے ایک ہے جن سے کائنات وجود میں آئی ہے۔

 الجاحظؒ رقمطراز ہیں:

" والأرض هي أحد الأركان الأربعة، التي هي الماء والأرض والهواء والنار"[69]

 مذکورہ عبارت کے مطابق پانی، زمین کی مٹی، ہوااور آگ کائنات کے چار قدرتی عناصر ہیں جن سے ساری کائنات وجود میں آئی ہے۔ اس سے زمین کی مٹی کی افادیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔

معروف محقق ابو بکر احمد اپنے ایک آرٹیکل میں زمینی وسائل کی اہمیت و افادیت یوں بیان کرتے ہیں:

“The land and soil are essential for the perpetuation of our lives and the lives of other creatures.”[70]

امام ابن قیمؒ رقمطراز ہیں:

"لَمَّا كَانَ فِي الْإِنْسَانِ جُزْءٌ أَرْضِيٌّ، وَجُزْءٌ هَوَائِيٌّ، وَجُزْءٌ مَائِيٌّ"[71]

اما م ابن القیم ؒ کے مطابق اشرف المخلوقات انسان تین بنیادی اجزاء زمین کی مٹی، ہوا اور پانی کا مرکب ہے۔ زمین حرارتی قوت کا قدرتی سرچشمہ ہے۔ زمین کے اند ر بہت زیادہ حرارت و توانائی موجود ہے۔ گرم پانی کے چشمے اور آتش فشاں پہاڑ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کسی بھی کان میں ذرا سی گہرائی میں جاکر اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ زمین کا اندرونی حصہ اس قدر حرارت و توانائی کا حامل ہے کہ زمین کی تہہ میں چٹانوں ہر مکعب میل سے بے پناہ توانائی حاصل ہوگی۔ [72]

ہارون یحییٰ لکھتے ہیں:

“The planet Earth is a part of the solar system... Earth is the third planet from the Sun.”[73]

مذکورہ عبارت واضح کرتی ہے کہ نظام شمسی میں ایک ستارہ یعنی سورج کے گرد بڑے سیارے، 54 سیٹلائٹ اور لاتعداد سیارچے مسلسل گردش کررہے ہیں۔ زمین شمسی نظام کا ایک سیارہ ہے جو سورج سے تیسرے نمبر پر واقع ہے۔

امام راغب اصفہانی ؒلکھتے ہیں:

"الأرض: الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون"[74]

کرہ ارض آسمان کے مقابل واقع ہے جبکہ ارض کی جمع ارضون ہے۔ زمین سے مراد قدرتی عامل پیدائش ہےجو براہ راست اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے، اور اس کے پیدا کرنے میں کسی انسانی فعل کا کوئی دخل نہیں۔ [75]اللہ تعالیٰ نے زمین کے اس حیرت ناک کرے کو بچھایا اور پہاڑوں کے عظیم الشان لنگر ڈال دیے تاکہ اس میں تمام مخلوقات امن و سکون کے ساتھ اپنی زندگی بسرکر سکیں اور یہ کرہ ارضی مخلوقات کو لے کر ڈولنے یا لرزنے نہ لگے۔ نباتاتی وسائل اور پہاڑوں کی بدولت زمین کا منظر بھی نہایت خوبصورت اور دلربا ہےاور اس کے اندر انسان کےلئے طرح طرح کے عظیم الشان فوائد و منافع بھی ہیں۔

صاحب"ڈکشنری آف انوائرنمنٹ" لکھتا ہے:

“Biosphere: The part of the earth and its atmosphere in which organisms live.”[76]

مذکورہ عبارت کاتجزیہ کا نتیجہ یوں ہے کہ زمین کی فضا وماحول کو ذاتِ باری تعالی ٰ نے اپنی قدرت و حکمت جانداروں کے لئے موزوں بنایا ہے۔ زمین کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر انسان، حیوانات اور نباتات و جمادات کے لئے تخلیق کیا ہے۔ سائنسی زبان میں اسے "بائیو سفیئر" کہا جاتا ہے۔ زمینی مٹی میں پودے نشوونما پاتے ہیں اور یہ مختلف العناصر کا مجموعہ ہے۔ جس میں معدنیاتی معدے، چکنی مٹی، سلٹ، چکنی مٹی کا گارا، ریت وغیرہ گلا سڑا ہوا نامیاتی مادہ اور خوردبینی حیات شامل ہیں۔ مٹی پودوں کو مضبوطی مہیا کر تی ہے، پودوں کو پانی کے ذریعے حل شدہ غذا مہیا کر تی ہے۔

ایم ایس راؤ لکھتا ہے:

“ It is penetrated by the roots of plants, that derive from it nutrients and moisture; in fact, from the standpoint of agriculture, soil is made up of the top few cm of mantle rock in which cultivated plants are grown.”[77]

مذکورہ عبارت واضح کرتی ہے کہ مٹی کی بیرونی تہہ کرہ ارض پر نباتات کے لئے کار آمد اور ساز گار ماحول فراہم کرتی ہے۔ نباتات اور اس کی جڑوں کی نشوونما کے لئے زمین کی بیرونی تہہ میں غذائیت، نمی اور ہوا پائی جاتی ہے۔

زمین کی ساخت (Structure of Earth)

نمبر شمار

اردو

انگریزی

لمبائی

1

قشرِارض

The Crust

40 کلومیٹر

2

کرہ حجری

The Mantle

2800 کلومیٹر

3

بیرونی مرکزہ

The outer Core

2300 کلو میٹر

4

اندرونی مرکزہ

The Inner Core

1220 کلو میٹر

زمین نظام شمسی کا چھوٹا سا رکن ہے۔ زمین میں بھی ایسے ہی مقناطیسیت موجودہے جیسے لوہے کی ایک سلاخ میں ہوتی ہے جسے مقناطیس بنایا گیا ہو۔ زمین کے اندر لوہا اور دوسری دھاتیں ہیں جن میں نکل بھی شامل ہے۔ زمین لوہے، کثیف چٹانوں، گرینائٹ، گاؤ آمیز چٹانوں اور سمندر پر مشتمل ہے۔ زمین میں لوہے کی مقدار دوسرے نمبرپر ہے لیکن وہ زمین کے بیرونی حصے پر بہت کم ہے۔ اس کا بیشتر حصہ زمین کے اندر ہے جو پگھلا ہواہے۔ [78]

ماہرین ارضیات نے زمین کے اندرون کو تین حصوں کریسٹ، مینٹل اور کور میں اجمالی طور پر تقسیم کیا ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ مینٹل کی نچلی پرت پر موجود ہے۔ [79]زمین ناشپاتی کی طرح گول ہے۔ اور زمین کا محیط 40، 000 میٹر اور سطح کا رقبہ 31، 50، 00، 000 مربع کلو میٹر ہے جس میں سے 89، 60، 000 کلو میٹر خشکی اور باقی پانی ہے۔ زمین کا وزن 5.98 × 1021 میڑک سو ٹن ہے۔ زمین اپنے محور پر گھومنے کے علاوہ 29.40 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے چاروں طرف گردش کرتی ہے وہ اس کا مدار ہے۔[80]کرسٹ کے نیچے مینٹل کی تہہ ہے جبکہ مینٹل کے نیچےگہرائی میں کور کی تہہ واقع ہے۔

صاحب "ڈکشنری آف جیوگرافی" یوں لکھتا ہے:

“Refers to the layer of rock lying below the earth`s crust or Lithosphere, made up of rocks higher density than those of the latter, and separated from it by the Moho; it extends downwards to about 2900 km (1800 miles) under earth`s surface. Below the mantle is the Core.”[81]

معروف سائنسدان کوپر نیکس نے 16 ویں صدی میں عیسوی میں نظام شمسی پر نہایت شاندار کتاب لکھی، کتاب کانام (ریولیوشنز) ہے۔ یہ کتاب نظام شمسی اور کرہ ارضی کے حوالے علم کا خزانہ ہے۔ [82]

قدرتی وسائل میں فطرت و قدرت کی طرف سے پیدا ہونے والے سارے مادے داخل ہوتے ہیں اور انسانوں کی جانب سے ان کے فائدے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔ زمین، ہوا، پانی، درخت، معدنیات اور حیوانات بنیادی قدرتی وسائل ہیں۔ بعض اوقات انسان خود انسان ان قدرتی عطیات کو تباہی سے دوچار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم دنیا میں قدرتی وسائل جیسے ہوا، پانی، مٹی، معدنیات، درخت، جانور، غذا اور گیس پر انحصار کرتے ہیں۔ کرہ ارض پر زندگی میں توازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ زمین پر موجود تمام قدرتی وسائل اور جانداروں کی بقا قائم رہے۔ کسی ایک جاندار یا قدرتی وسیلے کی بقا کو بھی خطرہ ہوگا تو پوری زمین خطرے سے دوچار ہوجائےگی کیونکہ کرہ ارض پر تمام جاندار اور قدرتی وسائل و ذرائع ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

قدرتی وسائل کی اہمیت و افادیت

قدرتی وسائل انسانی زندگی ہی نہیں بلکہ کائنات کے وجود و بقا کے لیے خالق کائنات کی پیدا کردہ نعمتوں میں سے عظیم نعمتیں ہیں۔ انسان کی پیدائش و تخلیق سے لے کر کائنات کے قائم ہونے تک سبھی چیزوں میں قدرتی وسائل کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ اس کرہ ارض پر جتنے بھی جاندار ہیں ان سب کی زندگی کی بقا قدرتی وسائل پر ہی منحصر ہے۔

زمین پرقدرتی وسائل انسان کے لیے بیش بہا قیمتی چیزیں ہیں۔ زمین دوسرے سیاروں سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جانداروں کو تخلیق کرنے سے پہلے دو دن میں جانداروں کی ضرورت کی تمام اشیاء پیدا کیں۔ خلا ء میں جانے والے سانئس دانوں کو سانس لینے کے لیے کمر پر بیس کلووزنی آکسیجن سلنڈر اٹھانا پڑتا ہے۔ قدرت ِ الہی نے جانداروں کے سانس کے لیے زمین کی فضا میں کثیر مقدار میں آکسیجن پیدا کرنے کے لئے کرہ ارض کو نباتات سے مزین کر دیا۔ دنیا کےتمام ادیان و مذاہب میں قدرتی وسائل کا تذکرہ ملتا ہے۔ زرتشت مذہب کے ماننے والے زمین اور اس میں پائے جانے والے قدرتی وسائل و ذرائع کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ ہر پھول کو فرشتہ قرار دیتے ہیں۔

اس ضمن میں آے۔ آر۔ آگوان لکھتا ہے:

“The Parsees, contemporary followers of Zoroaster, are told that “every flower is appropriate to an angel.” In their Jashan ceremony, they revere and remember fire, water, the animal and the vegetable kingdoms, the earth, the minerals and metals in the earth and the air, and even the other that occupies space.”[83]

پارسی قدرتی وسائل کی اہمیت کے پیش نظر ا ن کے احترام و اکرام میں محافل کا انعقاد کرتے ہیں اور وہ اپنی تقریبات میں آگ، ہوا، پانی، حیوانوں، عالم نباتات، زمین، معدنیات اور دھاتوں کی تعریفات کا پل باندھ دیتے ہیں جبکہ ان وسائل کو پیدا کرنے والی ذاتِ باری کی وحدانیت سے جی چراتےہیں۔

معروف سکالر عبدالحمید بنیادی قدرتی وسائل کی اہمیت اسطرح لکھتے ہیں:

“Clearly, as a living, social creatures, man has biological and ecological needs such as light, air , water, food, shelter and community, and he may utilize the resources of the earth to secure those basic necessities , as may every other living creature on earth.”[84]

کرہ ارض پر مخلوقات کی ماحولیاتی اور حیاتیاتی بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کرنے لئے قدرتی وسائل و ذرائع کو تخلیق کیا گیا۔ روشنی، ہوا، پانی، خوراک بنیادی ضروریات ِ زندگی کی عام مثالیں ہیں۔ زمین نسلِ انسانی اور تمام مخلوقات کے لیے اللہ تعالیٰ کا عظیم تحفہ ہے، نامیاتی اور غیر نامیاتی مرکبات نے ز مین کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔ زمین کی سطح اور اس کے اندر موجود قدرتی وسائل و ذرائع اس کے حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں، پھولوں پھلوں اور بھرے باغات زمین کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اللہ وہی تو ہے جس نے انسان کے لئے زمین تخلیق کی اور اس میں نباتات، جمادات اور حیوانات کے ڈھیر لگا دیئے تاکہ اشرف المخلوقات انسان اس سے بھرپور فوائد و منافع اٹھائے پھر اس میں دریا، سمندر، پہاڑ اور ہواؤں، فضاؤں کا ایسا انتظام و انصرام کردیا جو اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا"[85]

" وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔ "

اس تناظر میں ڈاکٹرقبلہ ایاز لکھتے ہیں:

“The Earth `s resources are useful for living beings but also that dead bodies dissolve within the Earth, in short ,all things on the Earth have been created to serve mankind.”[86]

مذکورہ عبارت دلالت کرتی ہے کہ تما م موجودات عالم انسان کے فوائد کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا نسل ِ انسانی پرعظیم احسان ہے کہ اس نے زمین پر ان کے فائدے کے لیے بے شمار قدرتی وسائل مثلاًمختلف رنگ کے حیوانات اور مختلف انواع و اقسام کے نباتات، جمادات اور معدنیات پیدا کیے، جن میں گوناگوں منفعت و خاصیت ہوتی ہے۔ انسان کی ترقی و خوشحالی اور ضروریات کے پیش نظر دنیا کی ساری چیزوں کو اس کے زیر تصرف کر دیا گیا ہے۔ ان اشیا میں جاندار بھی ہیں اور بے جان بھی۔ ایک جرثومہ سے لے کر سورج جیسے فلکی اجسام سبھی انسان کی نفع رسانی کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں۔ شجر، حجر، معدنیات، ہوا، پانی، جنگلات، حیوانات، چرند و پرند اور خود انسان قدرتی وسائل کا حصّہ ہیں۔ جن قوموں کے پاس قدرتی وسائل و ذرائع کی بھرمار ہوتی ہے انہیں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اپنے عوام کی حالت بہتر کرنے اور دنیا میں اپنامقام بنانے میں دیر نہیں لگتی۔ کثیرالجہتی وسائل کی بنیاد پر وقوع پذیر ہونے والی یہ ترقی و خوشحالی قطعی طورپر ناقابل فہم نہیں۔ جن ممالک میں قدرتی وسائل کی فراوانی ہے، وہاں ترقی و خوشحالی کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے یہ قدرتی وسائل انسان کےلیے زمین میں پیدا فرما ئے ہیں۔ اس میں زمین پر پیدا ہونے والے سب قدرتی وسائل شامل و داخل ہیں۔ یہ قدرتی وسائل رنگ برنگے ہیں، ان کی مختلف شکلیں اور صورتیں ہیں اور طرح طرح کی انواع و اقسام ہیں۔ حقیقت میں ان سب میں انسان کی نسلکے لیے منفعت ونافعیت پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی شے یعنی کوئی قدرتی وسیلہ بے مقصد اور فضول پیدا نہیں کی۔ ایک ایٹم سے لے کر وسیع و عریض اجرام ِ فلکی تک ہر چیز انسان کے نفع و سہولت و آسائش کے لیے پیدا کی گئی ہے۔

فرمانِ الہی ہے:

"وَمَاخَلَقْنَالسَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ "[87]

"ہم نے زمین اور آسمان کو اور ان کی موجودات کو حق کے سوا کسی اور بنیاد پر خلق نہیں کیا ہے۔ "

امام ابن جریر طبریؒ مذکورہ بالا آیت کی تفیسر و تشریح کرتے ہیں:

" يقول تعالى ذكره: وما خلقنا الخلائق كلها، سماءها وأرضَها، ما فيهما وما بينهما، يعني بقوله (وَمَا بَيْنَهُمَا) مما في أطباق ذلك (إِلا بِالْحَقِّ) يقول: إلا بالعدل والإنصاف"[88]

مذکورہ بالا عبارت ظاہر کرتی ہے کہ زمین و آسمان میں پائی جانے والی تمام مخلوقات و عجائبات عدل و انصاف سے اپنی دی ہوئی ذمہ داری پر گامزن ہیں۔ اس وسیع وعریض کائنات میں انسان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کیتمام اشیاء کو اس کے زیر تسلط کر دیا گیا ہے۔ ان میں جاندار اشیاء بھی ہیں اور بے جان اشیا ء بھی۔ ایکذرے (ایٹم) سے لے کر سورج جیسے وسیع فلکی اجسام سبھی کو انسان کی خدمت و فائدےکے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔

سعید بن علی قحطانی ؒ "العروۃ الوثقی ٰ" میں رقمطراز ہیں:

" فقد شمل هذا الامتنان جميع النعم: الظاهرة والباطنة، الحسيّة والمعنوية، فجميع ما في السموات والأرض قد سُخّر لهذا الإنسان، وهو شامل لأجرام السموات والأرض، وما أودع فيهما من: الشمس، والقمر، والكواكب، والثوابت والسيارات، والجبال، والبحار، والأنهار، وأنواع الحيوانات”[89]

اللہ تعالیٰ نے زمین میں موجود تما م قدرتی وسائل و ذرائع کو انسان کے زیر ِ تسلط کیا ہے، اجرام ِ فلکی، چاند، سورج، ستارے، سیارے، زمین، ہوا، پانی، معدنیات، مٹی، پہاڑ، جنگلات، حیوانات، دریا، سمندر وغیرہ قدرتی وسائل ہیں جو انسانی زندگی کی بقا کے ضامن ہیں۔ زمین اور اس میں موجود تما م قدرتی وسائل و ذرائع اللہ تعالیٰ کی ذات نے انسان کےنفع کے لیے پیدا کیے ہیں۔

ہارون یحییٰ رقمطرازہیں:

“All the elements whose existence serve some function in human life. Not of them is either superfluous or purposeless. This situation is further evidence that the universe was created by Allah for mankind.”[90]

اس حقیقت کو غیر مسلم سائنسدان اور مفکرین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات اور اس میں موجود قدرتی وسائل و ذرائع کو خاص طور پر انسان کی رہائش کو ممکن بنانے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔

ایک غیر مسلم سائنسدان "ڈینٹن " کے مطابق کائنات کی تخلیق کا مقصد یوں ہے:

“The Universe was specially created to make humane life possible.”[91]

امام ابو البرکات نسفی ؒ قدرتی وسائل کی تخلیق کا مقصد بیان کرتے ہیں:

"{والأرض وضعها} خفضها مدحورة على الماء {لِلأَنَامِ} للخلق وهو كل ما على ظهر الأرض من دابة وعن الحسن الإنس والجن فهي كالمهاد لهم يتصرفون فوقها "[92]

ان گنت قدرتی وسائل انسان کے فائدے اور زمین کی آرائش زیبائش کے لیے پیدا کیےگئے ہیں اور تمام قدرتی وسائل کو انسان کے زیرِ تسلط کر دیا گیا ہے۔ سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 13 میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کے لیے معدن (سونا، چاندی) ، حیواناتی وسائل (گھوڑے، مویشی) اور نباتاتی وسائل (زرعی کھیت) کو بڑا خوش آئند اور زینت بنادیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ قدرت سے طرف سے پیدا کردہ اشیا کا ایک مقصد انسان کی جمالیاتی حس کی تسکین کے لئے زینت و سجاوٹ کا بندوبست بھی ہے۔

قدرتی وسائل پر تحقیق (Research on Natural Resources)

اسلام زمین اور اس میں پائے جانے والےفطرتی عناصر اور اس سے متعلق مسائل پر ایک ہمہ جہتی نقطۂ نظر رکھتا ہے۔ شریعت اسلامی انسان کے دیگر جان داروں (نباتات و حیوانات) ، طبعی ماحول اور سماجی ماحول سے متعلق واضح ہدایات رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمت و مصلحت ہے۔ متعدد آیات میں کائنات کے رموز و اسرار میں غوروفکر کرنے اور ان کی تعلیم و تحقیق کی ترغیب و تاکید کی گئی ہے۔

ارشادِ الہی ہے:

" اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ "[93]

" کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا ؟"

امام بیضاویؒ رقمطراز ہیں:

" أَوَلَمْ يَنْظُرُوا نظر استدلال. فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَما خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ مما يقع عليه اسم الشيء من الأجناس التي لا يمكن حصرها ليدلهم على كمال قدرة صانعها، ووحدة مبدعها وعظم شأن مالكها، ومتولي أمرها ليظهر لهم صحة ما يدعوهم إليه”[94]

قرآن مجید میں متعدد قدرتی وسائل و ذرائع کا تذکرہ موجود ہے اور متعد دآیا تِ قرآنی بنی نوع انسان کو ترغیب دلاتی ہیں کہ وہ ان قدرتی وسائل و ذرائع کے بارے گہرائی سے فکرو تدبر کریں۔ عالمی سائنسی ماہرین بھی قرآنی صداقتوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ اسلام اور سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ"[95]

" یقیناً رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور ہر اس چیز میں جو اللہ نے زمین اور آسمانوں میں پیدا کی ہے، نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ﴿غلط بینی و غلط روی سے﴾ بچنا چاہتے ہیں۔ "

امام فخرالدین رازی ؒنے مفاتیح الغیب میں سائنسی علوم فلکیات، آبیات، بحریات، معدنیات، نباتیات، حیوانیات کےحصول کا تذکرہ کیا ہے۔

امام رازیؒ لکھتے ہیں:

"الْأَحْوَالُ الْحَادِثَةُ فِي الْعَنَاصِرِ الْأَرْبَعَةِ، وَيَدْخُلُ فِيهَا أَحْوَالُ الرَّعْدِ وَالْبَرْقِ وَالسَّحَابِ وَالْأَمْطَارِ وَالثُّلُوجِ وَيَدْخُلُ فِيهَا أَيْضًا أَحْوَالُ الْبِحَارِ، وَأَحْوَالُ الْمَدِّ وَالْجَزْرِ، وَأَحْوَالُ الصَّوَاعِقِ وَالزَّلَازِلِ وَالْخَسْفِ. وَثَانِيهَا: أَحْوَالُ الْمَعَادِنِ وَهِيَ عَجِيبَةٌ كَثِيرَةٌ. وَثَالِثُهَا: اخْتِلَافُ أَحْوَالِ النَّبَاتِ. وَرَابِعُهَا: اخْتِلَافُ أَحْوَالِ الْحَيَوَانَاتِ"[96]

مذکورہ بالا دلائل و براھین دلالت کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ارض و سماء اور ان میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کا بے مقصد نہیں بنایا۔ یہ وسائل و ذرائع کو انسان کی سہولت و آسائش لئے مصروف ِ عمل ہیں۔ قدرتی وسائل کے علوم پر تعلیم و تحقیق کرنا اسلامی احکام و ہدایات کے عین مطابق ہے۔

قدرتی وسائل میں فہم و ادارک (Percieving Skill of Natural Resources)

اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل و ذرائع (حیوانات، نباتات ومعدنیات و جمادات) میں فہم و ادراک پیدا کر دیا ہے، جس سے وہ اپنے رب کی پاکی بیان کرتے ہیں۔ بے جان اشیاء میں بھی خوفِ الہی کا ادراک پایا جاتا ہے۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق پتھر اللہ تعالیٰ کی ذات کے خوف سے گر پڑتے ہیں اور ان کا ریزہ ریزہ ہو جانا خشیت ِ الہی کی علامت ہے۔ پہاڑ، پودے اور درخت خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ سنگریزے، نبادات، جمادات، حیوانات اور پانی کے قطرے بھی ذات ِ باری تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں رطب اللسان ہیں۔ پہاڑ حضرت داؤد ؑ کے ساتھااللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس بیان کرتے تھے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں باور کروایا گیا ہے کہ کائنات کی کل اشیاء اللہ کی تسبیح و تحمید کرتی ہیں۔

 قرآن کریم میں موجوداتِ کائنات کی تسبیح و تحمید کو بیا ن کیا گیا ہے:

"أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ"[97]

" کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں ؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے، اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔ "

ابن عطیہ الاندلسی ؒ لکھتے ہیں:

" قال المفسرون قوله مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ عامة لكل شيء من له عقل وسائر الجمادات"[98]

کائنات کی ہرچیز زندہ ہے اوراللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کرتی ہے۔ زندہ چیزوں میں بھی ہائیڈروجن ایٹم استعمال ہوتے ہیں اور خود ہائیڈروجن گیس میں ہائیڈروجن ہے، لیکن یہ ہمارا مغالطہ ہے کہ ہائیڈروجن گیس مردہ ہے۔ سب اشیاء زندہ ہیں اور سب تسبیح پڑھتے ہیں۔ [99]

ابو الفرج عبدالرحمٰن ابن الجوزیؒ لکھتے ہیں:

“قوله عزّ وجلّ: سَبَّحَ لِلَّهِ ما فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أمّا تسبيح ما يعقل، فمعلوم، وتسبيح ما لا يعقل، قد ذكرنا معناه في قوله عزّ وجلّ: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ"[100]

مذکورہ تشریحات و توضیحات سے ثابت ہوتا ہے کہ کائنات میں موجود تما م قدرتی وسائل و ذرائع فہم و ادراک رکھتے ہیں جس انسانی علم ادراک نہیں کرسکتا۔ قدرتی وسائل و ذرائع کی قدروقیمت اوراہمیت کھل کر واضح ہو جاتی ہے۔

مٹی (Soil)

اللہ تعالیٰ نے ہر قدرتی وسیلے کو مفید اور خوبصورت بنایا ہے۔ مٹی کے شرف و عظمت کی داستان طویل ہے اشرف المخلوقات کی تخلیق مٹی سے ہوئی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"الَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ"[101]

"جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی"

انسان تین عناصر مٹی، ہوا اور پانی پر مشتمل ہے۔ معروف یونانی فلاسفر "ارسطو کے مطابق ہر چیز کے چار بنیادی عناصر ہیں۔ مٹی ان

میں سے ایک ہے۔ ہر چیز چار عناصر مٹی، آگ، پانی اور ہوا سے مل کر بنی ہے۔

ابوبکر احمد اپنے ایک آرٹیکل میں مٹی کی اہمیت و افادیت کے بارے میں لکھتے ہیں:

“God has made the land a source of sustenance and livelihood for us and other living creatures: He has made soil fertile to grow the vegetation upon which we and all animal life depend.”[102]

 ثابت ہوا کہ مٹی بہت قیمتی قدرتی وسیلہ ہے۔ یہ سیارہ زمین پر اپنی فراوانی کی وجہ سے سستی ہے۔ یہ اپنے اندر پانی ذخیرہ کرتی ہے اوراس میں بیج پھوٹ سکتا ہے۔ پھر اس سے پھوٹنے والا پودا آکسیجن پیدا کرتا ہے اور اس آکسیجن کو زمین کی کشش چقل فرار نہیں ہونے دیتی ہے۔ مٹی جانداروں کے لیے خاص الخاص تحفہ ہے۔ زمین کی کشش ثقل سے نکلا جائے تو زندگی بہت تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔ اگر کلی کی جائے تو پانی نیچے جانے کی بجائے آپ کے منہ کے آگے نہیں ہی پڑا رہ جائے گا۔ صفائی کرنا مشکل ہو جائے۔ جبکہ سیارہ زمین کی مٹی سب کچھ جذب کر لیتی ہے۔ زمین کی کشش ثقل پانی کو بھی فرار نہیں ہونے دیتی۔ زمین پر ہر قدرتی وسیلے کا پورا نظام موجود ہے۔

بھارت کے جغرافیہ دان ایم ایس راؤ لکھتے ہیں:

“Biotic Complex: Refers to the interacting complex of soils, plants and animals that, in response to climatic and other environmental conditions, forms a varied covering over much of the earth.”[103]

پاکستان دنیا کی زرخیز ترین مٹی رکھتا ہے۔ پاکستان کرہ ارض پہ پہترین معدنی وسائل رکھنے والی سر زمین ہے۔ پاکستانی قوم دنیا کی سات ذہین اقوام میں سے ایک ہے۔ پاکستان کا کل رقبہ تقریباً 79 ملین ہیکٹر ہے۔ تقریباًن23 ملین ہیکٹر قابلِ کاشت زمین ہے۔ جو کل رقبے کا 28 فیصد بنتا ہے۔ 16 ملین ہیکٹر رقبہ زیرِ کاشت ہےجبکہ اسکا نصف سے زائد یعنی 8 ملین ہیکٹر سے زائد رقبہ فصلوں کو ترس رہا ہے۔

ہوا ((Air

ہوا ایک اہم ترین قدرتی وسیلہ ہے۔ کرہ ارض پر زندگی کی روانی کے لئے ہوا لازمی عنصر ہے۔ ہوا کے بغیر ایک لمحہ بھی سانس لینا دشوار ہوتا ہے۔ نور للغات میں ہوا کے معنی "وہ فضا جو آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ "[104] بیان کئے گئے ہیں۔

بھارت کے ماہر جغرافیہ ایم۔ ایس راؤ "فضا" کےبارے میں لکھتے ہیں:

“The Earth`s atmosphere consists mainly of nitrogen (78 percent by volume) and oxygen (21 percent) .Of the other constituents the most abundant are water vapor, argon and carbon dioxide.”[105]

کرہ ارض کی فضا میں نائٹروجن 78 فیصد، آکسیجن 21 فیصد، پانی کے بخارات، آرگون اور کاربن ڈائی آکسائیڈ پائی جاتی ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز لکھتے ہیں:

“Proportion and chain nitrogen ,oxygen and carbon dioxide in the air ,spread of seas on 3/4th of the globe ,the distance of Earth from the sun ,the bending of the earth`s centre ,daily and annual circulations of the earth and their duration and such other states have made the environment proper and balanced for human life.”[106]

معروف و مشہور سائنسدان جیرلڈ بیوس کے مطابق ہوا کا خول 200 اور 300 میل کے درمیان ہے۔ عام ماہرین 500 سے 600 میل تک ہوا کی موجودگی کے قائل ہیں البتہ 25 میل سے اوپر ہوا کا احساس نہیں ہو تا۔ ہوا باقاعدہ وزن رکھتی ہے۔ کرہ ارض کے گرد ہوائی کمبل ہمارے جسم کے ہر مربع انچ پر قریباً 15 پونڈ کا دباؤ ڈالتا ہے۔ 5 سے6 میل کی بلندی پر بیرونی ہوا کا دباؤ کم ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوہِ ہمالیہ کی چوٹیاں سر کرتے وقت کوہِ پیما آکسیجن ساتھ لے جاتے ہیں۔ چاند پر ہوا نہیں ہے۔ ہوا میں آبی اور خاکی ذرات آئینہ کی طرح روشنی منعکس کر کے وہ ذرات سائے اور کمروں میں بھیجتے ہیں۔ اگر ہوا نہ ہوتی تو کمروں اور میں گھٹا ٹوپ تاریکی ہوتی۔ چونکہ چاند پر ہوا نہیں ہےاس لیے وہا ں سائے میں رات کا سماں ہوتاہے۔ سورج کی روشنی میں موجود تیز بنفشی شعائیں کسی زندہ چیز پر زیادہ مقدار میں پڑتی رہیں تو وہ چیز مر جا تی ہے۔ زمین کا ہوائی غلاف ان خطرناک شعاعوں کو بڑی حد تک کمزور کر دیتا ہے۔ [107]

 بقائے حیات کے لئے ہوا کے کردار کو ایک سکالر اسطرح بیان کرتا ہے:

“This element is no less important than water for the perpetuation and preservation of life. Nearly all terrestrial creatures are utterly dependent on the air they breathe.”[108]

ہوااللہ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہےجس کے بغیر زندگی ناممکن ہے، جدید سائنس کے مطابق سانس کے ذریعے آکسیجن جسم میں داخل ہوتی ہے اور جسم کے ہر حصے میں پہنچ کر غذا کو تحلیل کرنے اور توانائی پیدا کرتی ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے جو جاندار کے لیے ایک زہریلی گیس ہے۔ خون اسے جسم کے ہر حصے سے لا کر پھیپھڑوں میں چھوڑ دیتا ہے جہاں سے یہ سانس کے ذریعے باہر نکل جاتی ہے۔ [109]کرہ باد زمین سے قریباً 500 کلو میٹر تک پھیلا ہواہے۔ ہوا کرہ باد کا اہم حصہ ہے۔ ہوا کے بغیر زمین پر زندگی، بارش، دھوپ، بادل، گرمی، سردی، برف وغیرہ کا تصور نہیں جا سکتا۔ کرہ ارض پر ہوا کی موجودگی زندگی کی علامت ہے۔ ایک صحت مند انسان روزانہ 16 کلو گرام ہوا سانس کے ذریعے استعمال کرتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ "[110]

" ہواؤں کی گردش میں، اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بیشمار نشانیاں ہیں۔ "

بنی نوع انسان کے لیے ٹھنڈی، گرم، جنوبی، شمالی، شرقی اور غربی ہوائیں فائدہ مند ہیں۔ یہ ہوائیں بارش کا پانی لے کر اللہ کے حکم سے کرہ ارض کے گوشے گوشے میں پہنچاتی ہیں اور کرہ ارض کے ماحول کو انسانی حیات کے لئے ساز گار بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

اس ضمن میں ایم ایس راؤ لکھتا ہے:

“The lowest atmosphere layer, the troposphere, which contains most of the clouds and water vapor, is heated by infrared radiation from the ground; its temperature falls with increasing height.”[111]

خدا تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیز وں میں سے ہوا ایسی شے ہے کہ اس کے بغیر کوئی ذی روح چند لمحے بھی زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس لیے قدرت نے اس سے سارا کرہ ارض دوسری تمام ٖضروریات ِ زندگی سے گھیر کر اسے ہر وقت ہر لمحہ موجود رکھا ہے اور ہر جاندار حسبِ ضرورت بغیر کسی روک ٹوک کے نہایت آسانی سے ہر لمحہ اسے استعمال میں لاتا رہتا ہے۔ [112]حضرت سلیمان ؑ کے لیے ہوا تابع ہو گئی جو صبح وشام کے ہر وقفے میں ان کے تخت کو لیکر ایک ماہ کا فاصلہ کر لیا کرتی تھی۔ سورہ الانبیاء آیت: 81کی روسے حضرت سلیمان ؑکے لئےہوا کو مسخر کر دیا گیا۔ اس (ہوا) کی صبح کی منزل ایک مہینہ بھر کی (راہ) ہوتی اور اس کی شام کی منزل ایک مہینہ بھر کی ہوتی۔ نہ صر ف پرندوں کی پرواز بلکہ ہوا کے اس سلیمانی جہاز نے بھی انسان کو یہ مفروضہ دیا تھا جس کی بنیاد پر وہ ہوائی جہاز اڑا کر فضاؤں کو مسخر کرنے میں کامیاب و کامران ہوا۔

ہوا کا معیار اس وقت معیاری ہوتا ہے جب ہوا میں آلودگی کے عناصر کم مقدار میں ہوں۔ زندگی کی بقا کے لیے تازہ اور صاف ہوا نا گزیر ہے۔ ہوا کے بغیر جاندار ایک منٹ بھی زندہ رہنا محال ہو جاتا ہے۔ زمین میں آکسیجن اتنی بے پناہ رکھی گئی ہے۔ کہ ہر جگہ اور ہر جاندار کے لیے موجود ہے۔ اور اس کی صفائی اور آمد کا مسلسل انتظام ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے۔ دورِ حاضر میں انسان خود اپنے عمل سے اس قدرتی عطیہ کو اپنے عمل سے نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مغرب نے ایسے ہتھیار تیار کر لیے ہیں کہ جب کسی علاقے میں اس کا استعمال ہو تو کچھ وقفہ کے لے آکسیجن ختم کر دے۔ [113]

ہوا میں نائٹروجن، آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گیسیں انسانی صحت کے لئے موزوں اور متوازن مقدار میں پا ئی جاتی ہیں۔ جدید تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ ہوا پودوں کی بارآوری میں خاص حصہ ڈالتی ہے۔ بعض نر اور مادہ پھول قریب قریب ہوتے ہیں۔ جب ہوا یا کسی اور ذریعے سے شاخیں ہلتی ہیں تو پولن مادہ پھول پر گرتا ہے۔ اگر نر اور مادہ دور دور ہوں تو یہ کام ہوا سر انجام دیتی ہے۔

پانی (Water)

پانی کرہ ارض کا بنیادی اور ایک اہم قدرتی وسیلہ ہے۔ پانی میں اللہ تعالیٰ نے صحت اور بقائے حیات کی صفت رکھی ہے۔ اسلام نے پانی کے تحفظ کو بڑی اہمیت دی ہے۔ پانی ایسا سرمایہ ہے جو تمام قیمتی اشیا ءسے زیادہ قیمتی ہے۔ اٹلی کے ماہر حیاتِ نو" لی نارڈو" لکھتے ہیں:

“Water is the driving force of all nature.”[114]

حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں:

"كُلُّ شَيْءٍ خُلِقَ مِنْ مَاءٍ"[115]

ہر شے کی بقا کا انحصار پانی دستیبابی پر ہے۔ پانی سے بھی ہر شے کا وجود میں آنا مسلمہ حقیقت ہے۔ جدید ماہرینِ علم الحیات کی تحقیق کے مطابق ہر جاندار کی ترکیب میں اصلی مادہ پروٹوپلازم کا ہوتا ہےاور یہ پانی کا بنا ہوا ہے۔ تمام جاندار چیزوں کا کا اصلی مادہ پانی ہی ہے۔ پانی کے دانشمندانہ استعمال، اسسے متعلقہ بہتر پالیسیوں، قوانین اور اقدامات کے عمل کو تقویت دینے کی غرض سے دنیا کے کم و بیش دنیا کے ہر ملک میں برس 22 مارچ کو پانی کا گلوبل ڈے مناتے ہیں۔

معدنیات (Minerals)

اللہ تعالیٰ نے انسان کی معاشی و مالی اور دوسری اہم ضروریات کی تکمیل کے لئے زمین کے اندر معدنیات پید ا کی ہیں۔ انسان شروع سے ہی معدنی وسائل سے استفادہ کرتا آیا ہے۔ سونا، چاندی، تانبا اور لوہا اہم معدنیات ہیں جن کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی کیا گیاہے۔ نمک، پیٹرولیم، قدرتی گیس اور کوئلہ وغیرہ کا تعلق بھی معدن سےہے۔ یہ ناقابل تجدید وسائل میں سے ہیں اس لئے انہیں انتہائی سمجھداری سے استعمال کرنا چاہئے۔

نباتات ((Plants

نباتات کرہ ارض پر انسانی حیات کو برقرار رکھنے کے لئے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کرہ ارض کو مختلف انواع و اقسام کے نباتات سے مزین کیا ہے۔ پودوں سے بے ادویات بھی بنائی جاتی ہیں۔ ایک اوسط سائز کا درخت دو خاندانوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے ہوا میں کافی آکسیجن پیدا کر دیتا ہے۔

حیوانات (Animals)

حیواناتی وسائل انسانی زندگی کے حسن اور اس کی معیشت دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، ان کی کھالیں، دانت ہمیشہ سے ملبو سات اور خوبصورتی کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض جانوروں سے دودھ اور گوشت استعمال ہوتا ہے۔ بعض جانوروں کو بار برداری اور زرعی مقاصد کے لیے زیرِ استعمال ہوتےہیں۔ [116]بہت سارے حیوانات ہیں، جن کاتذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے۔ جن میں حیوانات (چرند و پرند) کا ذکر آتا ہے۔ متعدد حیوانات نوع انسانکی آرائش و زیبائش اور آسائش و آرام کا باعث ہیں۔ ان کی کھالوں سے سامانِ حرب، مشکیزے، لباس اور دوسری کارآمد اشیاء بنائی جاتی ہیں۔

قدرتی وسائل کا تحفظ

زمین اورنسلِ انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ کا عظیم تحفہ ہے، جس کے حسن و جمال کو قدرتی وسائل و ذرائع دو بالا کرتے ہیں۔ کرہ ارض کی سطح اور اندرونی حصوں میں بے شمار مفیداور قیمتی قدرتی وسائل موجود ہیں۔ چونکہ انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہےلہٰذا زمین اور اس کے قدرتی وسائل کی ذمہ داری بھی انسان پر عائد ہوتی ہے۔ نام نہاد ترقی وخوشحالی اور آسائش و آرام کی آڑ میں زمین کے فطرتی حسن و جمال کو بے دردی اور تسلسل سے مسخ کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر قدرتی وسائل کا درست استعمال اور تحفظ بنی نوع انسان کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ قدرتی وسائل و ذرائع کا غیر دانشمندانہ استعمال جاری و ساری ہے، قدرتی وسائل کے ضیاع کا سب سے بڑا سبب عوام الناس میں قدرتی وسائل کی اہمیت و افادیت کے بارے میں شعور کی کمی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور انجنئیرنگ و میڈیکل کے شعبہ جات میں کمالات و جمالات کتنے ہی زیادہ ہوں پھر بھی انسانی و حیوانی زندگی کی بقا کا دارو مدار اور انحصار حیاتیاتی و قدرتی وسائل کے تحفظ اوردرست استعمال پر ہے۔

کنزرویشن (Conservation)

قدرتی وسائل و ذرائع کے تحفظ کو سائنسی اور انگریزی زبان میں" کنزرویشن " کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

امریکی ماہر جنگلات لکھتا ہے:

“Conservation means the wise use of the earth and its resources for the lasting good of men” [117]

 ڈاکٹر قبلہ ایاز لکھتے ہیں:

“Conservation means that nature be kept in as pristine a state as possible.It means the wise use and not miserly hoarding of natural resources,”[118]

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کامقالہ نگار "کنزرویشن " کے بارے میں لکھتا ہے:

 “Planned management of a natural resource or the total environment of a particular ecosystem to prevent exploitation, pollution,destruction ,or neglect and to ensure the future use of the resource.”[119]

ایم ایس راؤ لکھتا ہے:

“Refers to the preservation from destruction of natural resources (soil, vegetation, animals) by careful control and management, for the benefit of posterity.”[120]

" کنزرویشن " کا مفہوم و مطلب زمین اور اس میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کا دانشمندا نہ استعمال ہے تاکہ ان کارآمد اور قیمتی وسائل کا فائدہ و نفع دیر پا ہو۔ قدرتی وسائل کے دانشمندانہ استعمال سے مراد قدرتی وسائل کاضیاع نہ کرنا ہےتاکہ آنے والی نسلیں بھی ان وسائل و ذرائع سے مسفید و مستفیض ہو سکیں۔

Donald Worsterقدرتی وسائل کے تحفظ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار اسطرح کرتا ہے:

“One of the most important ethical issues raised anywhere in the past few decades has been whether nature has an order, a pattern that we human are bent to understand and respect and preserve.”[121]

مذکورہ بالا عبارت کا حاصل یہ ہے کہ بطور انسان ہمار ا فرض ہے کہ قدرتی وسائل کے تحفظ کی اہمیت و افادیت کا فہم و ادراک حاصل کریں اور انسان کا اخلاقی فرض ہے کہ قدرتی وسائل کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

 انسائیکلوپیڈک ڈکشنری آف سائنس کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Care of any delicate, fragile, entity; used particularly of the natural environment, or biosphere.[122]

مذکورہ بالا عبارت کے مطابق قدرتی وسائل کے تحفظ سےمراد کرہ ارض پر ہر قدرتی وسیلے کی دیکھ بھال کرنا اور قدرتی ماحول اور حیاتیاتی وسائل کا خصوصی خیال رکھنا ہے۔ قدرتی وسائل کے تحفظ کے لئے ایسے اقدامات اٹھانا ضروری ہے جس سے قدرتی ذخائر کی بچت ہو، کرہ ارض پر منفی انسانی سرگرمیوں کو محدود کر دیا جائے، ایسی آلودگی کا تدارک کیا جائے جس سے جانداروں کی انواع خطرات میں گر جائیں یا قدرتی ماحول میں منفی تبدیلیاں پیدا ہو جائیں۔ پودوں کی خطرات میں گری ہوئی انواع کی نشوونما کرنااور معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں کے شکار کی روک تھام کا بندوبست کرنا بھی قدرتی وسائل کے تحفظ میں شامل و داخل ہے۔ دورِ حاضر میں قدرتی وسائل کا تحفظ عالمی مسئلہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

خلیفۃالارض (Vicegerent of Earth)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو کرہ ارض پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا اور زمین اور اس کے اند ر چھپے خزانوں کو اس کے تابع کر دیا۔ انسان نے نام نہاد ترقی کی آڑ میں زمین کی خوبصورتی کو مسخ کرنا شروع کر دیا ہے، انسان کا فرض ہے کہ قدرتی وسائل و ذرائع کو ایسے دانشمندانہ طریقے سے استعمال میں لائے کہ آئندہ نسلیں بھی اس سے بھرپور مستفید و مستفیض ہو سکیں، کیونکہ قدرتی وسائل آئندہ نسلوںکا حق ہے۔ انسان نے وسیع پیمانے پر قدرتی وسائل کا بے دریغ ضیاع کیا ہے اور زمین کی خوبصورتی کو خراب کر دیا ہے۔ دورِ حاضر میں زمین کی بگڑتی ہوئی صورتحال انسان کے بہت بڑا چیلنج ہے، زمین اور قدرتی وسائل کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار انسان ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے نائب کا درجہ دیکر اتارا ہے۔ پوری کائنات میں صرف زمین ہی ایسا مقا م ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً "[123]

" میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں"

معروف مسلم سکالر عبد الحمیداپنے تحقیقی مقالے میں خلیفہ کی ذمہ داریاں یوں بیان کرتے ہیں:

Among contemporary Muslim commentators it is often held that, according to Ismic principles, a man who does not work to tap the resources of the earth and the universe is a disobedient servant of Allah does not work for the purpose for which he has been created”[124]

خلیفہ وہ ہوتا ہے جو کسی کی ملک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ خلیفہ مالک نہیں ہوتا، بلکہ اصل مالک کا نائب ہوتا ہے۔ اس کے اختیارات ذاتی نہیں ہوتے، بلکہ مالک کے عطا کردہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے منشا کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا، بلکہ اس کا کام مالک کے منشا کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ خود اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے اور تفویض کردہ اختیارات کو من مانے طریقے سے استعمال کرنے لگے، یا اصل مالک کے سوا کسی اور کو مالک تسلیم کر کے اس کے منشا کی پیروی اور اس کے احکام کی تعمیل کرنے لگے، تو یہ سب غداری اور بغاوت کے افعال ہونگے۔ [125]اگر زمین اور اس کے ماحول کا مشاہد ہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنی حدود و قیود سے تجاوز کرتے ہوئے قدرتی وسائل و ذرائع کا بے دردی اور بے رحمی سے استحصال کررہا ہے۔

معروف محقق اے-آر –اگوان اسلام میں خلیفہ کے تصور کو واضح کرتے ہیں:

“In Isᾱm , humanity is the wise inheritor , (khalifah) of the planetary ecosystem as well as the one for whom all things in the earth life may fully benefit from the bounties of nature.”[126]

اس تناظر میں ڈاکٹرقبلہ ایاز لکھتے ہیں:

“A man advances his own destruction by exercising unjust control over natural resources.”[127]

دور ِ جدید میں ہونے والی قدرتی وسائل کی تباہی و بربادی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا ذمہ دارجدید انسان اور اس کی منفی سرگرمیاں ہیں۔

معروف مسلم مفکر حسین نصر رقمطراز ہیں:

“It means the dominion over things which man is allowed to exercise only on the condition that it be according to God ,laws and precisely because he is God`s vicegerent on Earth.”[128]

اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ساری چیزیں انسان کے فائدے کے لیے ہیں اور خاص مقدار میں ہیں۔ ان سارے قدرتی وسائل میں حد درجہ توازن اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ انسان اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے۔ انسان قدرتی وسائل کا مالک نہیں بلکہ محافظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں جس موزونیت اور تناسب کو قائم کیا ہے اور انسان ہی اسکی بقا کا ذمہ دار ہے۔ [129]قدرتی وسائل کی اہمیت کے بارے میں کم علمی کی وجہ سےآلودگی جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، وسیع پیمانے پر جنگلات کی کٹائی، جنگلی حیات کا غیر قانونی شکار اور باغیچوں کے غلط استعمال سے قدرتی وسائل و ذرائع تباہ و برباد ہورہے ہیں۔

بریگیڈئیر (ر) مختار احمد اظہارِ خیال کرتے ہیں:

“Elements such as pollution ,lack of awareness of importance of natural resources ,massive cutting of forests, illegal hunting of wildlife and misuse of orchards are destroying the resources.”[130]

اسلامی نظریہ حیات کے مطابق خدا کی عطا کردہ نعمتوں سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا تحفظ کرنا ضروری ہے۔ یہ خارجی نعمتیں قدرتی وسائل پر مشتمل ہیں جن سے انسان کسب معاش کرتا ہے لہٰذا یہ ضروری ٹھہراکہ ان وسائل سے زیادہ سےزیادہ کام لیا جائے۔ قابل کاشت زمین ہو یا دھاتوں کے خزانے۔ تند خو سمندر ہوں یا وسیع و عریض فضائیں، نباتات و جمادات کے ذخیرے ہوں یا حیوانات کی قسمیں۔ کھلی وادیاں ہوں یا بلند وبالا پہاڑ۔ ان سب سے کام لیکر معیشت کو مضبوط و مستحکم بنانا منشائےایزدی کے مطابق معلوم ہوتا ہے۔ [131]

آبادی (Population)

پاکستان میں انسانی آبادی انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے اس لئے بڑھتی ہوئی آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر قدرتی وسائل کا تحفظ بہت ضروری ہے۔

ڈاکٹر فضل کریم لکھتے ہیں:

“Pakistan possesses a large population, modest resources and low technology. Resources are not fully developed; the standard of living is low and Pakistan is counted as a poor counry. The population is growing at an explosive rate. The population doubled in 50 years from 1901 to 1951 and it doubled again in 21 years from 1951 to 1952… The population in 1981 was 84.3 million.This will increase to 150 million by AD 2000 if the present growth rate continoues.This large population has to be fed, housed and clothed and it will depend on how best we make use of our environment, climate , land, water, and minerals.”[132]

مذکورہ بالا عبار ت میں مذکورہ حقائق و شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر ہمیں معدنیات، پانی اور دوسرے قدرتی وسائل کا استعمال انتہائی دانشمندی اور اعتدال و میانہ روی سے کرنا چاہئے۔

مغرب اور کنزرویشن

مغرب میں چند صدیاں قبل قدرتی وسائل کے تحفط کے بارے میں بیداری آئی ہے۔ مغرب میں قدرتی وسائل کے تحفظ کے قوانین منظور کئے گئے اور سرکاری اور نجی سطح پر مختلف سوسائٹیاں قائم ہوئیں۔ امریکہ میں آج سے سو سال پہلے قدرتی وسائل کے تحفظ کی اصطلاح کا ظہور ہوا اور اس پر مختلف طریقوں سے عمل درآمد کا آغاز ہوا۔

اس تناظر میں ایک مغربی مصنف لکھتا ہے:

“For more than a century, the United States had exprerimented with the management of natural resources including forests, forage, soil, fisheries, wildlife, water, and minerals..”[133]

 تحفظ ِوسائل کی اصطلاح مغریی ممالک میں سے سب سے پہلےامریکہ میں استعمال ہوئی۔ قدرتی جنگلات، جنگلی حیات، پانی اور معدنیات وغیرہ کے تحفظ کے لئے کاوش کی گئی۔ انسان کے لئےقدرتی وسائل کا تحفظ انتہائی ضروری ہے، اس میں جنگلی جانور، عمارتی لکڑی، زرخیز زمین اور چراگاہیں شامل ہیں، ابتداء یورپ میں ہوئی، امریکہ میں 1871ء میں ابتداء ہوئی۔ جب فشریز کمشنر کاعہدہ قائم کیا گیا، 1891ء میں۔ 1909ء میں قومی تحفظ کا کمیشن اور 1916ء میں نیشنل سروس کا قیام عمل میں آیا۔ تھیو ڈور، روزویلٹ اور گفرڈ پنجاٹ مشہور امریکی لیڈر گزرے ہیں۔ پاکستان میں صدر ایوب خاں کی حکومت نے محکمہ جنگلات، ماہی گیری اور محکمہ معدنی وسائل کی از سر نو تنظیم کی۔ زمین کی خرابیوں، سیم، تھور کے خاتمے کے لیے امریکی حکومت نے مدد کی۔ [134]



IUCN

International Union for the Conservation of Nature and Natural Resources

WWF

World Wild Fund For Nature

NWF

Natural Wildlife Federation

UNDP

United Nations Development Program

GSP

Geological Survey of Pakistan

GFW

Gloabal Forest Watch

GP

Green Peace

WRI

World Resourcs Institute

IRS

International Referral System

WCU

World Conservation Union

 

بینالاقوامی ادارہ برائے تحفظ قدرتی وسائل(IUCN)

بین الاقوامی ادارہ برائے تحفظ قدرتی وسائل International Union for the Conservation of Nature and Natural Resources قدرتی وسائل کے تحفظ کا عالمی ادارہ ہے جس کے بارے میں انسائیکلوپیڈیا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“In 1948 an international conference was held at Fontainebleau at which 33 countries were represented and founded the International Union for the protection of Nature, renamed in 1956 the international Union for the Conservation of Nature and Natural Resources. This organization promotes nature conservation from a scientific point of view.”[135]

ماہرِ ماحولیات گردیپ راج لکھتے ہیں:

“It promotes and initiates scientifically based conservation measures and cooperates with United Nations and other inter-government agencies , and with its sister organization the World Wildlife Fund, which exists primarily to raise and allocate funds, mainly by national appeals.”[136]

ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات (Natural Wildlife Federation)

یہ امریکہ کا ادراہ ہے جو قدرتی وسائل کے درست استعمال کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہ قدرتی جنگلی حیا ت کے تحفظ کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کے لئے قومی جنگلی حیات ہفتہ منانے کا اہتمام کرتا ہے۔ اس فیڈریشن نے بہت بڑی لائبریری بھی قائم کی ہے جس میں قدرتی وسائل کے تحفظ کے بارے میں کثیر مقدار و تعداد میں پایا جاتا ہے۔

International Referral System قدرتی وسائل اور ماحولیات کا عالمی ادارہ ہے۔

 راج گردیپ لکھتے ہیں:

“A program for the exchange of information on environmental problems, started as part of the Action Plan agreed at the 1972 UN Conference on the Human Environment.” [137]

اسلام اور کنزرویشن

تحفظ قدرتی وسائل کے تحفظ کی جدید اصطلاح کنزرویشن کچھ عرصہ قبل وجود میں آئی تھی لیکن اسلام میں اس کا مفہوم اس کے ابتدائی زمانہ سے ہی موجود ہے۔ پوری کائنات کا خالق ایک اللہ ہے اور ایک مذہب کے طور پر اسلام میں یہ بات بھی واضح ہے، کرہ ارض پر انسانوں کو کس طرح رہنا چاہیئے۔ اسلام میں قدرتی وسائل کے تحفظ کے بارے میں کئی ہدایات ہیں۔ احکامات والی آیات سے فطرتی اور قدرتی مظاہر والی آیات زیادہ ہیں۔ اسلام جس طرح اپنے پیروکاروں کی زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی کرتا ہے، اسی طرح قدرتی وسائل کے تحفظ کے بارے میں بھی اصولی امور متعارف کرواتاہے۔ تمام مخلوقات کا ایک دوسرے پر انحصار ہے۔ دنیاکی بقا ء کا دارو مدار کے سنہری اصول اعتدال وتوازن پر عمل کرنے میں مضمر ہے۔ کرہ ارض پر پائے جانے والے تمام قدرتی وسائل انتہائی قیمتی اثاثہ ہیں۔ قدرتی وسائل کے استحصال، ان کے غلط استعمال، ان کی تباہی و بربادی اور آلودہ کرنے سے کائناتی توازن متاثر ہورہا ہے۔ قدرتی وسائل کا استحصال و ضیاع دراصل فطرت سے جنگ کے مترادف ہے۔ قدرتی وسائل و ذرائع کے تحفظ و بقا میں انسان اوردوسرے جانداروں کا تحفظ و بقا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر قدرتی وسائل کی حفاظت وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔

تعلیمات ِ اسلامی میں قدرتی وسائل کے تحفظ کی ترغیب و ہدایت دی گئی ہے۔ قدرتی وسائل کےتحفظ کا درس صرف دنیا تک محدود نہیں بلکہ آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں یعنی قدرتی وسائل کاحساب و کتاب لیا جائے گا۔

ارشاد باری تعالی ٰ ہے:

"ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ"[138]

" پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔ "

 اللہ تعالیٰ نے انسان کو لاتعداد نعمتوں سے نوازا ہے جیسے پانی، ہوا، نباتات، حیوانات، معدنیات وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کی بے مثال نعمتوں کی مثالیں ہیں۔ قیامت کے دن ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گا کہ کس نے ان نعمتوں کو اسلام کے حکم کے مطابق استعمال کیا اور کس نے ناقدری کرتے ہوئے ان کا بے دریغ ضیاع کیا۔

اس ضمن میں ابو قاسم محمد بن احمد الغرناطی ؒ اپنی تفسیر "التسهيل لعلوم التنزيل" میں رقم طرازہیں:

" وقال صلى الله عليه وسلم كل نعيم فمسؤول عنه إلا نعيم في سبيل الله، وأكل صلى الله عليه وسلم يوما مع أصحابه رطبا وشربوا عليه ماء فقال لهم هذا من النعيم الذي تسئلون عنه"[139]

مذکورہ روایت سے معلوم ہورہا ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں یعنی قدرتی وسائل کو کفایت شعاری سے استعمال کرنا چاہئے اور ان کا تحفظ کرنا چاہئے کیونکہ روزِ قیامت ہر نعمت کو استعمال کرنے پر باز پرس ہوگی۔

زمین ایک ایسی قیمتی امانت ہے جسے ایک نسل نے دوسری نسل کے منتقل کرنا ہوتا ہے، ہمیں وسائل کو نہایت بصیرت و بصارت کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے کیونکہ آنے والی نسلیں کسی اور کی نہیں بلکہ ہماری ہی ہیں۔

امریکہ کے "مارٹن " لکھتے ہیں:

“Each generation takes the Earth as trustees. We ought to bequeath to prosperity as many as we exhausted and consumed.”[140]

 زمین اور اس میں پائے جانے والے قدرتی وسائل انسان کے پاس اللہ تعالی کی امانت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلام میں امانت کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ امانت کے تحفظ کے بارے میں کتاب و سنت میں تفصیل سے ہدایات ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ"[141]

" اے ایمان لانے والو، جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو۔ "

ابو زید عبد الرحمٰن الثعالبی رقمطراز ہیں:

" وقوله سبحانه: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ هذا خطابٌ لجميع المؤمنين إِلى يوم القيامة، وهو يجمع أنواع الخياناتِ كلَّها قليلَهَا وكثيرَهَا"[142]

پس ثابت ہو ا کہ کرہ ارض پر پائے جانے والے قدرتی وسائل کے استعمال میں خیانت یعنی ان کو تباہ و برباد کرنا اسلامی اصول و ضوابط کے برعکس ہے۔ اسی طرح قومی اور بین الاقوامی قوانین بھی قدرتی وسائل کے استعمال میں ضیاع، خیانت اور دھوکہ دہی سے روکتے ہیں۔

کلام ِ پرور دگار میں ارشاد ہوتا ہے:

"وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ ”[143]

" اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ "

 مذکورہ بالا آیت ِ قرآنی میں بنی نوع انسانی کو حکم ہے، یہ دنیا وہی اشیاء یعنی قدرتی وسائل اسی کےلیے ہی بنائے گئے ہیں اور ان قدرتی وسائل سے جائز اور اعتدال سے استفادہ کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ان قدرتی وسائل کے بےجا استعمال اور اسراف سے اجتناب بھی ضروری ہے کیونکہ اسراف و ضیاع اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ اسلام میں قدرتی وسائل کے بےجا اسراف اور ضیاع سے سختی سے ممنوع ہے اور قدرتی وسائل کی حفاظت کرنا لازمی امر ہے۔

امام ابن کثیر ؒ رقمطراز ہیں:

"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَحَلَّ اللَّهُ الْأَكْلَ وَالشُّرْبَ، مَا لَمْ يَكُنْ سرَفًا أو مَخِيلة "[144]

مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کھانے پینے کی اشیاء کو انسان کے استعمال کے لئے حلال و جائز کیا ہے لیکن انہیں ضائع نہیں کرنا چاہئے جبکہ ان کا تحفظ کرنا ہر انسان کا اخلاقی فرض ہے۔

اس ضمن میں ڈاکٹرقبلہ ایاز لکھتے ہیں:

“The natural resources of Earth are used blindly and ruthlessly causes an imbalance”[145]

مذکورہ بالا تحریر کا حاصل یہ ہے کہ دورِ حاضر میں قدرتی وسائل کےبے تحاشا استعمال کے باعث دنیا کے توازن میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ سیلاب، زلزلے اور دوسری آفات کی بڑی وجہ کرہ ارض میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کا اندھا دھند استعمال ہے۔

انسائیکلوپیڈ ک ڈکسشنری آف سائنس کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“The need has become more urgent and techniques of conservation better developed, though the level of implementation of these is still inadequate.”[146]

دنیا بھر میں قدرتی وسائل کی حفاظت کے متعلققوانین و اصول پائے جاتے ہیں۔ لائق تاسف امر یہ ہے کہ قدرتی وسائل کے تحفظ کے قوانین پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہو پا رہا۔

قدرتی وسائل کے تحفظ کے عالمی دن (International Days For Conservation)

یوم آب

یوم ارض

یوم جنگلات

یوم حیاتیاتی تنوع

یوم ماحولیات

یوم جبل

22 مارچ

22 اپریل

21مارچ

22مئی

5جون

11دسمبر

یومِ نباتات

یومِ حیوانات

یوم صخرہ

یوم توانائی

یومِ بحر

یوم شجرکاری

18 مئی

4 اکتوبر

13 جولائی

22 اکتوبر

8 جون

3-21 مارچ

قدرتی وسائل کے تحفظ کا تقاضا ہے کہ فوسل انیدھن کا استعمال فوراً بند کرنا ضروری ہے۔ سرمایہ داری کے مسلسل پھیلاؤ کا مطلب نہ صرف انسانوں کا بے رحمانہ استعمال بلکہ زمین کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار اور بربادی بھی ہے۔ توانائی کے حصول کے لئے100 فیصد قابلِ تجدید نظام کی طرف جانا وقت کی ضرورت ہے۔ اس ری سائیکل شدہ توانائی کا استعمال اور ماحولیاتی انصاف ہو گا۔ فوسل فیول کی سرمایہ کاری ترک کرنا ہوگی، سرمایہ دارانہ نظام کو خیر باد کہنا ہو گا۔ سائنس، صنعت اور ٹیکنالو جی کو ماحول، قدرتی وسائل اور انسانیت کے تحفظ کے لیے استعمال کرنا وقت کی اہم ترین پکار ہے۔

[1]فیروز الدین، مولوی، ، فیروز اللّغات اردو جامع، فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور، 1965ء، ص- 884

[2]المرجع السابق، 1409

[3]وارث سربندی ایم۔ اے، علمی اردو لغت جامع، علمی کتب خانہ، لاہور، 1993ء، ص- 1041

[4]المرجع السابق، 1553

[5]أحمد مختار عبد الحميد عمر، البحث اللغوي عند العرب، عالم الكتب، 2003م، 1/315

[6]أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الطوسي، إحياء علوم الدين، دار المعرفة –بیروت، س-ن، 2/105

[7]A R Agwᾱn, Isᾱm and the Environment, Institute of Objective Studies N. Delhi, 1997,p.2

[8]The Concise Oxford Dictionary, Oxford University Press, Oxford، 2002,p.907

[9]Rᾱj,Gurdeep,Dictionary of Environment, Anmol Publications,N.Dehlī ,1992,p.181

[10]The New Encyclopedia Britannica, Vol- 3,Chicago,1998 ,p.553

[11]F.Press,R.Siever, Earth,Newyork: W.H.Freeman,1986,p.2

[12]M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography,Anmol publications Pvt.Ltd New Delhi.,1998,p.293

[13]Dr.Kibla Ayᾱz,Dr.MehRᾱj-ul-Isam Zia,Dr.Muhammad Mumtaz Malik,Bahadur Nawab,Translator: Justice Dr. Munir Ahmad ,”Conservation and Isᾱm”,World Wide Fund for Nature Pakistan ,Isᾱmabad,2003,p.16

[14]ممتاز حسین اورسیدہ سائرہ حامد، مطالعہ ماحول، آزاد بک ڈپو، لاہور، ص-67

[15] The New encyclopedia Briatannica, Chicago,V-3,1998,553-554

[16] ‘Abd-al-Ḥamīd, “Exploring The Isᾱmic Environmental Ethics”, p.50

[17]M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography, 42

[18]ممتاز حسین ، مطالعہ ماحول، 67

[19]The New encyclopedia Briatannica,Vlolume 3 , 553-554

[20]ہلوک، نور باقی، ڈاکٹر، قراانی آیات اور سائنسی حقائق، مترجم: سیف فیروز گیلانی، انڈس پبلشنگ کارپوریشن، کراچی، 1998ء، 28-29

[21]Rᾱj, Gurdeep,Dicrtionary of Environment, p.84

[22]ممتاز حسین ،مطالعہ ماحول، 86

[23]ا لشوریٰ، 11: 42

[24]سید محمد طنطاوی، التفسیر الوسید للقرآن، دار نهضة مصر للطباعة والنشر والتوزيع، الفجالة، القاهرة 1998م) ، 13/18

[25]أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي، بحر العلوم، 3/474

[26]ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نا ئک، مترجم محمد زاہد ملک، قرآن پاک اور جدید سائنس، زبیر پبلشرز، لاہور، س-ن، 12

[27]فصلت، 11: 41

[28]ذاکر عبدالکریم نا ئک، قرآن پاک اور جدید سائنس، 11

[29]اسرار احمد، ڈاکٹر، بیان القرآن، حصہ سوم، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، 376

[30]Zakir Naik, The Quran and Modern Science,Isᾱmic Research Foundation, 2000,p. 8

[31]Yahya, Hᾱrūn. The Creation of the Universe,p.34

[32]الانبیاء، 30: 21

[33]عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي، أسرار الكون (الهيئة السَّنِية في الهيئة السُّنِّية، دار الكتب العلمية، بيروت، 2006 م، 1/42

[34]حافظ عبدالسلام بن محمد، تفسیر القرآن الکریم، دارلااندلس پبلشر و ڈسٹری بیوٹر، لاہور س-ن، ص۔ 721

[35]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe, p.30-31

[36]الزاریات، 47: 51

[37]محمد بن أحمد بن محمد بن عبد الله، ابن جزي الغرناطي، التسهيل لعلوم التنزيل، شركة دار الأرقم بن أبي الأرقم –بیروت، 1416 هـ، 2/310

[38]اسٹیفن ہاکنگ کو بیسویں اور اکیسویں صدی عیسوی کا بہت بڑا ماہر ِ فلکیات قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک خطرناک بیماری فالج سے دوچار تھا۔ حتی ٰ کہ وہ کرسی سے اٹھنے سے معذور تھا۔ اور نہ ہی قوت گویائی رکھتا تھا۔ وہ ہاتھ پاؤں کو حرکت دینے سے بھی قاصر تھا۔ اس نے اپنی بیماری کے با وجود فلکیاتی سائنس پر اپنی تحقیق و جستجو نام کمایا۔ انہوں نے فقط آنکھ کے اشاروں کی مدد سے اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کیا۔ اس کی وفات مارچ 2018ء میں ہوئی ۔

[39]ہفت روزہ ایشیاء (لاہور: 11 تا 17 اکتوبر 2018ء) ،ص، 17

[40]ذاکر عبدالکریم نائیک بھارت کے شہر ممبئی میں 1965ء میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹرذاکر تقابل ادیان اور مناظروں کے لحاظ سے عالمی پہچان رکھتے ہیں۔ احمد دیدات جیسے استاد کے شاگرد رہے۔ وہ پیشہ کے اعتبار سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے 1991ء سے اسلام کی تبلیغ و ترویج کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ آپ اسلامی ریسرچ سنٹر اور اسلامی پیس ٹی وی چینل چلا رہے ہیں۔ عوام الناس کی کثیر تعداد آپ کی تبلیغ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر چکی ہے۔ عیسائیت اور ہندو مت کے رہنماؤؐں سے مناظرہ میں خاص دسترس رکھتے ہیں۔ آپ کتب کثیرہ کے مؤلف ہیں۔ معروف مسیحی مناظر ولیم کیمپل کو شکست دے کر عالمی سطح پر اسلام کی حقانیت کا لوہا منوایا۔

[41]Zakir Naik,, The Quran and Modern Science: Compatible or Incompatible, 16

[42]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe,p.34

[43]ہلوک، نور باقی، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۔ 28-29

[44]اسٹیفن ہاکنگ، لیونارڈ ملو ڈینو، کائنات کی ساخت، مترجم: یاسر جواد، ص۔ 146

[45]الواقعہ، 75: 56

[46]النيسابوري، نجم الدين، إيجاز البيان عن معاني القرآن، دار الغرب الإسلامي بيروت، 1415 هـ، ، 2/799

 [47] عبدالسلام بن محمد، حافظ، تفسیر القرآن الکریم، ص۔ 567

[48]سفید شگاف دراصل ناقابلِ یقین مقدار میں توانائی کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے بے پناہ توانائیاں کائنات میں ایک مقام سے چھوڑی جاتی ہیں، فاصلوں تک پہنچتی ہیں۔ یہ کوثریں اتنی زیادہ قوت کی مالک ہوتی ہیں کہ یہ کہکشاں یا اربوں ستاروں کا گچھا بناتی ہیں۔ کچھ سانئسدان ان کو ثروں کو کہکشاں کے بیج تصور کرتے ہیں، جن سے مزید اجرامِ فلکی نکلتے ہیں۔ (ہلوک، نور باقی، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص-36)

[49]یونس، 5: 10

[50]ڈاکٹراسرار احمد، بیان القرآن، حصہ چہارم، ، ص۔ 239

[51]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe,P.111

[52]The Ecyclopedic Dictionary of Sceince, P.220

[53]نعمان طارق، تعلیمی انسائیکلو پیڈ یا، نشریات اردو بازار لاہور، 2009 ء، ص۔ 19-20

[54]M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography,p.345

[55]ماہرین فلکیات کے مطابق اب تک دس ارب کہکشاؤں کا سراغ لگایا چکا ہے۔ ہماری کہکشاں کا نام ملکی وے ہے۔

[56]ڈاکٹر محمد طاہر القادری، تخلیقِ کائنات، منھاج القرآن پبلیکیشنز لاہور، 2017ء، ص۔ 105

[57]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe,P.122

[58]حافظ حقانی میاں قادری، مولانا، ڈاکٹر، سانئنسی انکشافات قرآن و حدیث کی روشنی میں، دار الاشاعت کراچی، نومبر 2000ء، ص۔ 35

[59]ذاکر، عبدالکریم نا ئک، ڈاکٹر، مترجم محمد زاہد ملک،قرآن پاک اور جدید سائنس، زبیر پبلشرز، لاہور، س۔ ن، ص 17

[60]یس، 40: 36

[61]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe,p.13

[62]The Encyclopedic Dictionary of Science, P.82

[63]ابوعثمان، الجاحظ، الحیوان، دارالکتبالعلمیہ، بیروت، 1424ھ، 1/24

[64]Reetᾱ Rᾱnī, Dictionary of Biology, Anmol Publications, New Dehlī ,P.163

[65] Mohsin Jamil Butt, Capacity Bulilding and Employment- Generation in the Field of Employment Satellite Remote –Sensing,Comsats-Comstech National Seminar,11-12 August 2009, P.153

[66]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe,p.91

[67]الزخرف، 10: 43

[68]محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين الملقب بفخر الدين الرازي، مفاتيح الغيب، دار إحياء التراث العربي – بيروت، 1420 هـ، 31/8

[69]عمرو بن بحر بن محبوب الكناني بالولاء، الليثي، أبو عثمان، الشهير بالجاحظ، الحيوان، دار الكتب العلمية – بيروت، 1424 هـ، 1/24

[70]Abūbakar Ahmad Bakadar,Isᾱmic Principles for the Conservation of the Natural Environment, (Isᾱm ant the Environment: Edited by A R Agwᾱn) ,p.79

[71]محمد بن أبي بكر بن أيوب ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، دار الهلال –بيروت، س۔ ن، 1/16

[72]محمد سعید، سائنس اور کائنات، قومی کتب خانہ ریلوے روڈ، لاہور، اکتوبر 1955ءص۔ 44

[73]Haroon Yahya,The Creation Of The Universe,p.71

[74]راغب الأصفهانى، المفردات في غريب القرآن، دار القلم، بيروت، 1412 هـ، 1/73

[75]عثما نی، محمد تقی، مفتی، جسٹس، اسلام اور جدید معیشت و تجارت، ادارۃ المعارف کراچی، 1414ھ، ص۔ 45

[76]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment,p.29

[77]M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography ,p.327

[78]راٹھور، افتخار الدین طارق، اسلام اور سائنس، علمی کتب خانہ لاہور، 1985ء، ص۔ 420-25

[79]معارف (ماہنامہ) اپریل 2019ء، دارلمصنفین شبلی اکیڈمی یو پی انڈیا، ص۔ 297

[80]حا فظ حقانی میاں قادری، مولانا، ڈاکٹر، سانئنسی انکشافات قرآن و حدیث کی روشنی میں، دار الاشاعت کراچی، نومبر 2000ء، ص۔ 37-38

[81]M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography, p.225

[82]نعمان طارق، تعلیمی انسائیکلو پیڈیا، نشریات اردو بازار لا ہور، 2009ء، ص۔ 20

[83] A. R. Agwᾱn, Isᾱm and the Environment,Institute of Objective Studies N. Delhi,1997,P.9

[84]‘Abd-al-Ḥamīd,Exploring The Isᾱmic Environmental Ethics, P.46

[85]البقرہ، 29: 2

[86]Kibla Ayᾱz,Dr.,Conservation and Isᾱm,p.19

[87]الحجر، 85: 15

[88]محمد بن جریر الطبری، جامع البيان في تأويل القرآن، مؤسسة الرسالة، 2000 م، 17/128

[89]سعيد بن علي بن وهف القحطاني، العروة الوثقى في ضوء الكتاب والسُّنَّة، مطبعة سفير، الرياض، مؤسسة الجريسي للتوزيع والإعلان، الرياض، 1/126

[90]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe, P.168

[91]Ibid,P.30

[92]أبو البركات عبد الله بن أحمد النسفي، تفسير النسفي (مدارك التنزيل وحقائق التأويل) ، دار الكلم الطيب، بيروت، 1998 م، 3/411

[93]الاعراف185: 7

[94]ناصر الدين أبو سعيد عبد الله بن عمر البيضاوي، أنوار التنزيل وأسرار التأويل، دار إحياء التراث العربي بيروت، 1418 ه، 3/44

[95] یونس، 10: 6

[96]أبو عبد الله محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين الملقب بفخر الدين الرازي، مفاتيح الغيب، دار إحياء التراث العربي – بيروت، 17/210

[97]النور، 41: 24

[98]ا بن عطية الأندلسي، المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز، دار الكتب العلمية بيروت1422 هـ، 4/188

[99]روزنامہ دنیا لاہور، 14 جون 2019ء

[100] عبدالرحمٰن ابن الجوزی، زاد المسیر فی علم التفسیر، دارلکتاب۔ عربی بیروت، 1422ھ، 4/232

[101]السجدہ، 7: 32

[102] Abūbakar Ahmad Bakadar,Isᾱmic Principles for the Conservation of the Natural Environment, (Isᾱm ant the Environment: Edited by A R Agwᾱn) ,p.79

[103]M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography,p.42

[104]نور الدین، مولوی، نوراللغات (دوئم) ، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد، طبع سوم 2006ء، ص۔ 2053

[105]M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography ,p.25

[106]Kibla Ayᾱz, Dr.,Conservation and Isᾱm,p.34

[107]محمد موسیٰ، فلکیات جدیدہ، ادارہ تصنیف و ادب لاہور، 1392ھ، ص۔ 87-88

[108]Abū Bakr Ahmad Bakadar,Isᾱmic Principles for the Conservation of the Natural Environment ,p.78

[109]قاسمی، ولی اللہ مجید، اسلام اور ماحولیات کا تحفظ، سہ ماہی تحقیقا ت اسلامی، جولائی –ستمبر2018ء، ص۔ 40-41

[110]البقرہ، 164: 2

[111]M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography,p.25

[112]فارابی، فضل کریم، اسلامی اصول ِ صحت، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور، 1991ء، ص۔ 15

[113]خالد سیف اللہ رحمانی، آبی وسائل اور ان سے متعلق شرعی احکام، ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی، انڈیا، 2012ء، ص۔ 7

[114]Natura,quarterly magazine,WWF Pakistan ,vol 42 ,Issue 1 ,2018

[115]أبو عبد الله الحاكم، المستدرك على الصحيحين، دار الكتب العلمية، بيروت، 1411ھ،حدیث، 7278

[116]نیشنل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن، اسلام اور ماحول، پشاور، مارچ 2003ء، ص۔ 29

[117]Natura,quarterly magazine,WWF Pakistan ,vol 42 ,Issue 1 ,2018

[118] Kibla Ayᾱz,Dr.,Conservation and Isᾱm,p.15

[119] The New Encyclopedia Britannica,Volume 3 ,p.553

[120] M. S. Rᾱo, Dictionary of Geography, p.81

[121] Worster, Donald, Nature`s Economy: A History of Ecological Ideas, Cambrdge University Press, 1977, p.ix

[122] The Encyclopedic Dictionary of Science, Facts on File Publications, Oxford, England, 1988,p.68

[123]البقرہ، 30: 2

[124] ‘Abd-al-Ḥamīd, Exploring the Isᾱmic Environment Ethics,p.39

[125]مودودیؒ، مولانا، سید، تفہیم القرآن (جلد اول) ، ادارہ ترجمان القرآن اردو بازار لاہور، دسمبر 2013ء ص۔ 62

[126]A. R. Agwᾱn, Isᾱm and the Environment, P.5

[127] Kibla Ayᾱz,Dr.,Conservation and Isᾱm,p.23

[128]Seyyed Hossein,The Need for a Sacred Science,Routledge, 2005,p.134

[129]قاسمی، ولی اللہ مجید، مولانا، اسلام اور ماحولیات کا تحفظ، سہ ماہی تحقیقات ِ اسلامی، جولائی۔ ستمبر 2018ء، ص۔ 29

[130]Kibla Ayᾱz Dr.,Conservation and Isᾱm,p-9

[131]ڈاکٹر رفیق احمد، اسلامی معاشی اقدار اور اجتہاد کی اساس، القلم، جامعہ پنجاب لاہور1993، ص۔ 81

[132]Fazle Karīm Khᾱn, A Geography of Pakistan: Environment, People and Economy,Oxford University Press Oxford,1991,p.67

[133] Mar L, Miller, Richard P. Gale, Perry J. Brown, Natural Resource Manangement Systems, Westview Press ,Boulder and London,1987, p.3

[134]اردو جامع انسائیکلو پیڈیا، شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور، 1988ء، ص۔ 1132

[135] Encyclopedia Britannica, Volume23,Encylopedia Britannica,Hazen Watson & Viney Limited, 1962,p.606

[136] Rᾱj, Gurdeep, Dictionary of Environment, p. 110

[137] Ibid, p.109

[138]التکا ثر، 8: 102

[139] محمد بن احمد، اتسہیل لعلوم التنزیل، شركة دار الأرقم بن أبي الأرقم بيروت، 1416ھ، 2/510

[140]Natura,quarterly magazine,WWF Pakistan ,vol 42 ,Issue 1 ,2018

[141]الانفال، 27: 8

[142]أبو زيد عبد الرحمن الثعالبي، (بيروت: الجواهر الحسان في تفسير القرآن، دار إحياء التراث العربي، 1418 هـ) ، 3/126

[143]الاعراف، 31: 7

[144] إسماعيل بن عمر بن كثير ، تفسير القرآن العظيم، دار طيبة للنشر والتوزيع، 1999 م، 3/406

[145]Kibla Ayᾱz,Dr.,Conservation and Isᾱm,p.21

[146] The Encyclopedic Dictionary of Science,p.68

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...