Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں |
Asian Research Index
قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں

باب دوم: ماحولیاتی تحفظ کا مطالعہ
ARI Id

1686875689131_56115799

Access

Open/Free Access

Pages

75

ماحولیات کا تعارف

ماحول کو عربی زبان میں "بیئۃ" کہا جاتا ہے۔ ا س کا مادہ "بوأ " ہے۔

صاحب "معجم الوسیط" رقمطراز ہیں:

" (البيئة) الْمنزل وَالْحَال وَيُقَال بيئة طبيعية وبيئة اجتماعية وبيئة سياسية"[1]

 احمد بن خلیل اپنی تالیف "کتاب العین" میں کرتے ہیں:

"بوأ:الباءةُ والمَباءة: منزل القوم حين يَتَبَوَّءُونَ في قِبَلِ وادٍ، أو سَنَد جَبَلٍ، ويقال: [بل هو] كلّ منزلِ يَنْزِلُه القَوْم، يقال: تَبَوَّءُوا منزلا.. وقال تعالى: وَلَقَدْ بَوَّأْنا بَنِي إِسْرائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ "[2]

 ابو نصر فارابی ؒ لکھتے ہیں:

"[بوأ]المباءة: منزل القوم في كل موضع، ويسمى كِناس الثور الوحشي: مباءةً "[3]

احمد بن فارس الرازی رقمطراز ہیں:

" (بَوَأَ) الْبَاءُ وَالْوَاوُ وَالْهَمْزَةُ أَصْلَانِ: أَحَدُهُمَا الرُّجُوعُ إِلَى الشَّيْءِ، وَالْآخَرُ تَسَاوِي الشَّيْئَيْنِ.فَالْأَوَّلُ الْبَاءَةُ وَالْمَبَاءَةُ، وَهِيَ مَنْزِلَةُ الْقَوْمِ"[4]

ابن الاثیرؒ (م606ھ) ماحول کی لغوی تشریح فرماتے ہیں:

"مَنْ كَذب عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقعده مِنَ النَّارِ قَدْ تَكَرَّرَتْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ فِي الْحَدِيثِ، وَمَعْنَاهَا لِيَنْزِلْ مَنْزِلَه مِنَ النَّارِ، يُقَالُ بَوَّأَهُ اللَّهُ مَنْزِلا، أَيْ أسْكنَه إيَّاه، وتَبَوَّأْتُ منزِلا، أَيِ اتَّخَذْته، والمَبَاءَة: الْمَنْزِلُ"[5]

مذکورہ بالا مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹھکانہ، مسکن، ارد گرد کے مقامات، رہائش کا مقام وغیرہ ماحول کے مفہوم میں شامل ہیں۔ "بَوَّأَ" کا معنی ٹھکانہ، قیام کی جگہ، منزل، مسکن، رہنے سہنے کامقام یعنی ماحول ہے۔ماحول اتنا اہمیت کا حامل ہے کہ کتاب اللہ میں بھی ماحول کو مختلف زاویوں سے ذکر کیا گیاہے۔ کلام ِ ربانی میں ماحول کے تذکرہ سے اس کی افادیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

 ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِي اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَـنَةً ۭ "[6]

" جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دیں گے "

ابن جریر طبریؒ مذکور ہ بالا آیت کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

"(لَنُبَوِّئَنَّهُم) : لنحلنهم ولنسكننهم، لأن التبوء في كلام العرب الحلول بالمكان والنزول به، ومنه قول الله تعالى (وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ) "[7]

جامع ازھر کے" مجمع البحوث الاسلامیہ" کے مقالہ نگار لکھتے ہیں:      

" {لَنُبَوِّئَنَّهُمْ}: لنسكننهم وننزلنهم على وجه الإقامة.{غُرَفًا}: جمع غرفةٍ والمراد بها: علالي وقصور جميلة"[8]

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَّبَوَّاَكُمْ فِي الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّتَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُيُوْتًا "[9]

صاحب " تفسیر المنار" ماحول کی تشریح و توضیح کرتے ہیں:

" وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْضِ، أَيْ أَنْزَلَكُمْ فِيهَا وَجَعَلَهَا مَبَاءَةً وَمَنَازِلَ لَكُمْ"[10]

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْقَاۗىِٕمِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ "[11]

" یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے اس گھر ﴿خانہ کعبہ﴾ کی جگہ تجویز کی تھی اس ہدایت کے ساتھ﴾ کہ ” میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو "

جامعہ ازھر کے مجمع البحوث الاسلامیہ میں ہے:

"{وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ}: أَي جعلنا مكانه مباءَة ومرجعا يعود إليه إبراهيم للعبادة والعمارة، ويقال: بوأْته الدار, وبوأْت له الدار بمعنى: أَسكنته إياها."[12]

"بَوَّأ"کے مترادف مسکن کی سائنسی اصطلاح ہے۔ مسکن کو انگریزی میں (habitat) کہا جاتا ہے۔

ڈکشنری آف بیالوجی میں ہے:

“Habitat: Refers to the natural home or dwelling place of an organism.”[13]

معروف مصنف اختر بھٹی لکھتے ہیں:

“The word “environment” indicates everything external to an organism, which itself is part of the environment of other creatures.”[14]

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Environment, the complex of physical chemical,and biotic factors that act upon an organism or an ecological community and ultimately determine its form and survival.”[15]

"ڈکشنری آف انوائرنمنٹ "میں ہے:

“Environment. the physical , chemical an biotic conditions surrounding an organism .”[16]

ایم۔ ایس۔ راؤ رقمطراز ہیں:

“Environment: Refers to the whole sum of the surrounding external conditions within which an organism, a community or an object exists.”[17]

مذکورہ بالا تعریفات و توضیحات سے ثابت ہوتا ہے کہ ماحول میں کسی بھی چیز یا جاندار کےارد گرد پائی جانے والی تمام اشیا (جاندار یا بے جان) شامل ہیں جو اس پر کسی بھی طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہمارے اردگرد پائی جانے والی تما م اشیا ہمارا ماحول کہلاتا ہے۔ کرہ ارض پر پائی جانے والی نباتات، حیوانات و جمادات، گھر، ہوا، پانی، پھل، پھول، جنگلات، پہاڑ، دریا، صحرا، پرند، چرند اور زمین ماحولیاتی عناصر ہیں اور یہ سب ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔

ہارون یحییٰ لکھتے ہیں:

“The atmosphere of Mars cannot sustain human life because it is mostly carbon dioxide.”[18]

مریخ سمیت کسی بھی سیارہ پر زندگی کے آثار نہیں پائے جاتے۔ کیونکہ وہاں کی فضا اور ماحول جانداروں کی بقا کے لیےموافق وموزوں نہیں ہے، کیونکہ مریخ کے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بہتات ہے۔ ماحولیاتی سائنس، سائنس کا ایک کثیر الجہتی شعبہ ہے، جس کا تعلق بائیولوجیکل، فزیکل، سوشل اور کیمیکل دائرہ کار تک وسعت رکھتا ہے۔ ماحولیاتی سائنس کو بین الکلیاتی فیلڈ بھی کہا جا تا ہے۔ یعنی مختلف کلیات جیسے کہ کیمسٹری، بائیولوجی اور جیالوجی کی معلومات و خیالات و میلانات ماحولیاتی مطالعہ میں شامل کیے جاتے ہیں۔ ماحولیاتی سائنس دراصل نیچرل، سوشل سماجی سائنس کا امتزاج ہے۔

ماحولیاتی تحفظ اور انسانی زندگی کی بقا کی خاطر انسان کا فرض ہے کہ اپنے اردگرد زیادہ سے زیادہ پودے اور درخت لگائے کیونکہ درخت ماحول کو صاف رکھتے ہیں۔ کارخانوں سے نکلنے والا زہریلا مواد دریا اور نہریں آلودہ ہورہی ہیں۔ سائنس کی ترقی نے آسان طرزِ زندگی کے ساتھ ساتھ بہت سی آلودگیوں کو بھی جنم دیا ہے۔ موحولیاتی آ لودگی کے نتائج گلوبل وارمنگ اورمہلک بیماریوں کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

ایکولوجی (Ecology)

ماحولیات اور جانداروں کے مابین تعلق کو ماحولیاتی زبان میں ' ایکولوجی' معروف جدید اصطلاح ہے۔

 'ایکولوجی ' کی تعریف درج ذیل ہے:

“The study of the relationship between living organisms and their environment.”[19]

نیو انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Ecology, also called BioEcology, BioNomics, or Environmental Biology,study of the relationships between organisms and their environment.”[20]

ثابت ہوا کہ جاندار اور ان کے ارد گرد پائی جانے والی اشیا کے تعلق مطالعہ ایکولوجی کہلاتا ہے۔

ماحولیاتی نظام ((Ecosystem

تمام جاندار اپنی حیات و بقا کے لئے ایک دوسرے پر انحصار رکھتے ہیں۔ جاندار ایک کمیونٹی کی شکل میں قدرتی ماحول میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ ان کا آپس میں میل جول اور لین دین ماحولیاتی اصطلاح میں ماحولیاتی نظام کہلاتا ہے۔

ڈکشنری آف انوائرنمنٹ میں ماحولیاتی نظام (ایکو سسٹم) :

“Ecosystem; Refers to a community of interdependent organisms together with the environment which they inhabit and with which they interact (e.g. , a pond , an Oakwood) .”[21]

شجر، حجر، معدنیات، ہوا، پانی، آگ، مٹی، جنگلات، حیوانات، چرند و پرند اور خود انسان اس عظیم ماحولیاتی نظام کا حصّہ ہیں۔

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Ecosystem, the complex of living organisms, their physical environment, and all their intetrelationships in a particular unit of space.”[22]

مذکورہ بالا تصویر میں سنگا پور کا ایکو برج Eco-Bridge پوری دنیا کے لئے قابل تقلید مثال ہے۔

قرآن مجید میں بھی مختلف ماحولیاتی عناصر کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ تما م ماحولیاتی عناصر کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے۔

اللہ سبحانہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ "[23]

" زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں۔ "

محمد رشید بن علی رضاؒ " تفسیر المنار"میں رقمطراز ہیں:

" الْعِنَايَةُ بِحِفْظِ أَنْوَاعِ الْحَيَوَانِ وَالرِّفْقُ بِمَا سَخَّرَهُ اللهُ مِنْهَا لِلْإِنْسَانِ، وَبِغَيْرِهِ۔۔۔وَقَدِ اسْتَدَلَّتْ إِحْدَى الصَّحَابِيَّاتِ بِالْآيَةِ عَلَى وُجُوبِ الرِّفْقِ بِالْحَيَوَانِ وَتَحْرِيمِ”[24]

 اس ضمن میں امام ابن حزمؒ لکھتے ہیں:

"ولا أنواع الحيوان المائي والبري وسائر الحشرات، وإنما يعلم عددها باريها عز وجل، إلا أنه متناه محصور كما قدمنا "[25]

 ماہر علوم جغرافیہ ایم ایس راؤ لکھتے ہیں:

“The physical environment includes all phenomena apart from Man and the things created by him, while the non-human environment includes everything not in a social system, either made by him or not.”[26]

 ایک انگریز مصنف لکھتاہے:

“The environment does not belong to man alone nor to the particular group of species he favors most; the environment is far all living things, and all are interconnected like a massive, intricate web.”[27]

مذکرہ بالا حقائق و شواہد ظاہر کرتے ہیں، انسان اورارد گرد پائے جانے والے جانداروں یا دوسری بے جان اشیا سے بہت زیادہ تعلق پایا جاتا ہے۔ ماحول میں پائی جانے والی سب اشیا کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے اور یہی ایکو سسٹم یعنی ماحولیاتی نظام کہلاتا ہے۔ کرہ ارض پر کئی اقسام کے ماحولیاتی نظام پائے جاتے ہیں۔ جنگلی حیات، آبی حیات وغیرہ عام مثالیں ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی اور جدید دور

 جدید دور میں ماحولیاتی آلودگی سے کرہ ارض پر رہنے والی تمام مخلوقات کی حیات و بقا کے لیے سخت خطرہ لاحق ہو چکا ہے مگر زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ قومیں اپنا راستہ نکال رہی ہیں جبکہ ماحولیاتی آلودگی کا سارے کا سارا ملبہ غریب اور نادار قوموں پر ڈالا جارہا ہے۔

ایک انگریز لکھتا ہے:

“Pollution means the spoiling of a healthy and balanced environment by adding substances to it. These substances (pollutants) may be completely be new to the environment, or they may be present naturally.”[28]

معروف سکالر حسین نصر لکھتے ہیں:

“Of course, the environmental crisis is not only Western but global. And although the Muslims for most part endanger themselves in their heedless attitude towards the environment while the highly industrialized countries threaten the ecology of the whole globe, it is absolute essential for the Isᾱmic world to face this issue.”[29]

انسائیکلوپیڈیک سائنس آکسفورڈ ڈکشنری کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“The contamination of any natural environment resource on which life or the quality of life depends, by any substance or form of energy, at a rate resulting in abnormal concentrations of what is then termed the pollutant.”[30]

روس نے ماحولیاتی اداروں کے احتجاج کے باوجود دنیا کا پہلا تیرتا ہوا نیوکلئیر ری ایکٹرسمندر میں (آرکٹک سی) کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کے سفر پر روانہ کردیا ہے۔ جبکہ ماہرین ماحولیات نے اس برف زار علاقے میں چرنوبل جیسے ایک اور ممکنہ ہولناک ایٹمی حادثہ کے خطرے کی نشاندہی کی ہے۔ چرنوبل کے مقام پر لگائے گئے ایٹمی ری ایکٹر سے تابکاری کا مواد نکلنے کے نتیجے میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ یہ تیرتا ہوا یٹمی ری ایکٹر ایٹمی فیول سے بھرا ہوا ہے، یہ پانچ ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرے گا، اس کا وزن اکیس ہزار ٹن اور اس پر دو ایٹمی ری ایکٹر لگے ہوئے ہیں۔ [31]

ماحولیاتی آلودگی کی اقسام Types of Environmental Pollution)

 فضائی آلودگی (Air Pollution)

زہریلے دھویں، گردوغبار، آلودہ پانی کی آمیزش سے فضا میں تحلیل ہونے والی آلودگی کو فضائی آلودگی کہا جا تا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی سے متاثرہ 184 ممالک میں پاکستان کا چوتھے نمبر پر ہے۔ عالمی معیار کے مطابق ٖفضا ء میں آلودگی کی شرح 80 مائیکرو گرام فی کیو بک میڑ ست زیادہ نہیں ہونی چاہیے لیکن لاہور کے بیشتر علاقوں میں آلودگی کی شرح 120 مائیکرو گرام فی کیوبک میڑ تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ فضاء میں شامل کاربن مونو آکسائیڈاور صنعتی یونٹس سے پیدا ہونے والا دھواں دھند سے مل ایک ایسے آمیزے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جوآنکھوں، ناک، گلے اور پھیپھڑوں پر جم جاتا ہے۔

ورلڈ بنک کی رپورٹ (کلیننگ پاکستانی ائیر، پالیسی آپشنز ٹو ایڈریس دی کوسٹ آف آؤٹ ڈور پلیوشن) کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے، جہاں شہر تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ آلودگی کی وجہ بننے والے پارٹیکل میڑ (پی ایم) خطے کے دیگر ممالک کے شہروں سے زیادہ ہیں۔ 2007ء تا 2011ء فضائی آلودگی کے ذرات (پی ایم) میں سلفر ڈائی آکسائیڈ اور سیسہ سرِ فہرست ہیں۔ [32]ہوائی جہازوں اور جنگی جہازوں کی پروازوں سمیت ذرائع آمدورفت سے بھی فضائی آلودگی پھیلتی ہے۔ "پاکستان سوسائٹی آف نیورولو جی "کے مطابق پوری دنیامیں فضائی آلودگی سے سالانہ 9 ملین افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جبکہ پاکستان میں فضائی آلودگی سے سالانہ 135000 افراد لقمہ اجل بن جاتےہیں۔ [33]

فضل کریم خان فضائی آلودگی کے بارے میں رقمطراز ہیں:

“Air pollution is caused by vehicles and stationary sources.The vehicles like automobliles, trucks, rickshaws, aircraft and others run by internal combustion engines are responsible for carbon monoxide, hydrocarbons, nitrogen oxides, and lead pollution.Staionary sources of pollution are industrial plants, power-generating stations, construction projects and solid wastes.”[34]

جرمن لنگز فاؤنڈیشن (German Lungs Foundation)کے چئیرمین ڈاکٹر ہیرالڈ مور کا کہنا ہے کہ الرجی کی بڑی وجہ گرد وغبار کے باریک ذرات ہیں۔ الرجی فاؤنڈیشن سے وابستہ ڈاکٹر آنیہ کا کہنا ہے کہ جرمنی کی تقریباً 10 فیصد آبادی گرد و غبار کے باعث الرجی کا شکار ہے۔ [35]

سموگ (Smog)

سموگ فضائی آلودگی کی ہی اہم قسم ہے۔ سموگ انگریزی کے دو الفاظ سموک (دھواں) اور فوگ (دھند) سے مل کر بنتا ہے۔ فضا میں موجود آلودگی کے ساتھ مل کر سموگ بن جاتا ہے۔ اس میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے زہریلے مواد شامل ہوتے ہیں۔

صاحب "ڈکشنری آف انوائرنمنٹ" تحریر فرماتے ہیں:

“Smoke. An aerosol of minute solid or liquid particles (most less than 1 micron in diameter) formed by the incomplete combustion of a fuel. In air pollution it is mainly associated with the burning of coal.”[36]

بھارت کے ایم ایس راؤ لکھتے ہیں:

 “Smog. Means a Fog that is heavily laden with smoke or similar atmospheric pollutant is thus quite common in industrial and densely-populated urban areas. The term was coined from the two words ‘smoke’ and ‘fog’.”[37]

سموگ نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پودوں اور فظرت کی ہر چیز کو نقصان پہنچاتی ہے۔ سموگ آکسیجن پر اثر انداز ہو کر سانس لینے میں شدید دشواری کا باعث بنتی ہے۔ جس سے بعض حالات میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی 2016ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پشاور دنیا کا دوسرا، راولپنڈی تیسرا اورکراچی دنیا کا چودھواں آلودہ ترین شہر ہے۔ آلودگی کے لحاظ سے چین پہلے نمبر پر اور بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں تیسرا آلودہ ترین ملک ہے۔ [38]

زمینی آلودگی (Land Pollution)

زمینی آلودگی ماحولیاتی آلودگی کی اہم قسم ہے۔ "پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی "کے ایک سروے کے مطابق اس وقت ملک میں 55 ارب پلاسٹک کے تھیلے استعمال ہو رہے ہیں، اور ہر سال اس میں 15 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کل رقبے کا 76 فیصد حصہ زمینی کٹاؤ کا شکار ہو جاتا ہے، 40 فیصد کٹاؤ ہوا کی وجہ سے ہوتا ہے اور 36 فیصد کٹاؤ پانی کی وجہ سے ہوتا ہے، سیم کی وجہ سے سالانہ قریباً 2 ملین ہیکٹر رقبہ تباہ ہو رہا ہے اور تھور کی وجہ سے سالانہ قریباً 4ملین ہیکٹر رقبہ تباہ ہو جاتا ہے۔ [39]یونیسکو کی 1996ءکی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ تقریباً 48 ہزار ٹن کوڑا کرکٹ اور کچرا اکٹھا ہوتا ہے۔

ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں صرف ۳ فیصد ہی ایسے کارخانے ہیں۔ جن کے ذریعے زہریلے مواد کوٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ .یورپی کچرا مافیا ایشائی ممالک میں ماحولیاتی آلودگی پھیلانے میں مصروف ہے۔ یورپی کچرا مافیا منظم سازش کے تحت ایشیائی ممالک کو ایک مضر صحت کچرا بھیج کر آلودہ کر رہی ہے۔ کچرے کی آڑ میں کیمیائی فضلہ سری لنکا میں ڈمپ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ استعمال شدہ کپڑوں اور اسکریپ کی آڑ میں ایٹمی پلانٹس، اسپتالوں اور دیگر صنعتوں کا کیمیائی فضلہ کنٹینرز میں بھر کر ایشیائی ممالک کو بھیج دیا جاتا ہے۔ کمبوڈیا، ملائشیا، انڈونیشیا، فلپائن اور سری لنکا متاثرہ ممالک ہیں۔[40]پاکستان میں صنعتی ترقی تقریباً ۱۹۶۰ کی دہائی سے شروع ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہلکی اور بھاری صنعتوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ ترقی یا فتہ ممالک کے برعکس وطنِ عزیز میں بنیادی سہولیات مہیا کیے بغیر ہی چھوٹی بڑی صنعتیں قائم کی جاتی ہیں۔ ان صنعتوں سے نکلنے والے استعمال شدہ مواد کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں کیا جاتا۔

آبی آلودگی (Water Pollution)

آبی آلودگی ماحولیاتی آلودگی کی اہم قسم ہے۔ دورِ جدید میں خطرناک اور زہریلے مادوں کے ذریعے پانی مسلسل آلودہ ہو رہا ہے۔ صنعتی اور کیمیائی فضلات اور دیگر آلودگی پیدا کرنے والی چیزوں کے ذریعے ندی، تالاب اور دریا کو آلودہ کیا جا رہا ہے، آبی جانوروں اور انسانی زندگی ایک بڑی مصیبت اور ایک زبردست خطرے سے دوچار ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق دنیا کے تمام سمندروں میں ہر سال 808 ملین ٹن پلاسٹک پر مشتمل کچرا پھینکا جاتا ہے۔ اور اس میں 60 فیصد آلودگی کا باعث بھارت ہے۔ ہر سال ایک لاکھ سے زائد سمندری جاندار اس کو کھانے سے مر جاتے ہیں۔ کیونکہ سمندر میں جانے والا پلاسٹک سمندری حیات اور سمندری نمک کے ذریعے انسانی خوراک میں شامل ہو جاتا ہے۔ 2017 ء کی ایک ریسرچ کے مطابق انڈونیشیا اور کیلی فورنیا کی مارکیٹوں میں دستیا ب مچھلیوں کا ٹیسٹ کیا گیا تو 25 فیصد مچھلیوں کے پیٹ میں پلاسٹک کے مصنوعی ذرات موجود تھے۔ ایک تحقیق کے مطابق امریکہ، یورپ اور چین کے سمندری نمک میں مائیکرو پلاسٹک پایا گیا ہے۔ [41] آبی آلودگی کا پتہ چلانے والی ٹیکنالوجی نیشنل سنٹر فار کمپوزیشنل کریکٹر ائزیشن آف میٹریلز (این سی سی سی ایم) نے پانی میں فلورائیڈ، کرومیم اور لوہے کا پتہ لگانے کے لیے ایک ویژول (مرئی) کٹ تیار کی ہے۔ ان کٹوں کے اندر ریجنٹس رکھے جا تے ہیں جن کو پانی کے نمونوں میں ملا کر 2 منٹ چھوڑ دیا جا تاہے۔ [42]

پی سی ایس آئی آر نے بوتلوں میں فروخت ہونے والے پانی کا کیمیائی تجزیہ کیا تو کئی کمپنیوں کا پانی مضرِ صحت تھا۔ بوتلوں میں فروخت ہونے والا پانی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں مضرِصحت ہوتا ہے کیونکہ اس پانی کو پلاسٹک کی بوتلوں میں ڈالنے کے بعد جراثیم سے محفوظ رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، خریدا ہوا پانی بھی بیماریوں سے پاک نہیں ہوتا۔ [43]واٹر ریسرچ کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے 23 بڑے شہروں میں پینے کے پانی میں بیکٹریا، آرسینک، مٹی اور فضلے کی آمیزش پائی گئی ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کےمطابق ملک میں 90 فیصد بیماریوں کی وجہ گندا پانی ہے۔ [44]

 پلاسٹک آلودگی (Plastic Pollution)

 ماحولیاتی آلودگی کی ایک اہم قسم پلاسٹک کی آلودگی ہے۔ پلاسٹک ایسی چیز ہے جو پانی میں حل ہوتی ہے اور نہ مٹی میں جذب ہوتی ہے۔ جس کی بناپر یہ میٹریل ماحولیات میں منفی کردار ادا کرتا ہےآسٹریلوی یونیورسٹی کی تازہ تحقیق ہمارامعدہ سات دن میں اوسطاً پلاسٹک 2000 ہضم کرتا ہے یہ ذرات کچھ کمپنیوں کے ٹوتھ پیسٹ، کپڑوں میں استعمال ہونے پلاسٹک اورفضا سے ہماری خوراک میں شامل ہوتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر استعمال ہونے والے کولڈ ڈرنکس، الکوحل اور سمندری نمک میں بھی پلاسٹک کے باریک

ذرات شامل ہوتے ہیں۔ [45]

تازہ ترین تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اوسطاً انسان بھی ایک ہفتے میں "ایک کریڈٹ کارڈ" کے برابر کا پلاسٹک کسی نہ کسی حوالے سے نگل جاتا ہے[46]ہوا میں موجود مائیکرو پلاسٹک کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ ایک اوسط آدمی ہر ہفتے پانچ گرام تک پلاسٹک نگل رہا ہے جو ایک کریڈٹ کارڈ کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔ تحقیق کرنے والوں نے قرار دیا ہے کہ عوام ایک لاکھ زیادہ پلاسٹک کے بہت چھوٹے چھوٹے ذرے سالانہ نگل رہے ہیں جن کا سا ل بھر کا وزن 250 گرام تک کا ہو سکتا ہے۔ یہ مواد نوے فیصد سے زائد پانی کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتاہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کراچی کے ساحلی علاقوں میں پچاس فیصد تک پلاسٹک کی آلودگی ساحل پر تفریح کے باعث پھیلنے والے کوڑا کرکٹ کی وجہ سے ہے۔ پولیتھین بیگز ما حولیاتی آلودگی اور نکاسی آب کے مسائل پیدا کرنے کے علاوہ انسانی صحت کے لیے بھی بے حد خطرناک ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی کےاسباب

سائنسی ترقی نے دنیا کو بے شمار مسائل سے دوچار کیا ہے۔ ماحول کی آلودگی اور نیوکلیائی ہتھیاروں کی دوڑ نے جہاں نئے مسائل جنم دئیے ہیں، یہ تمام خرابیاں سائنس کے غلط استعمال سے ہو تیں ہیں۔ جدید انسان نے اپنی راحت اور زینت کےلیے سامان تیار کرنے کے لیےفیکٹریا ں اور کارخانے لگائے۔ مگر دھوئیں کی چمنیوں پر ٹریٹمنٹ فلٹر نہیں لگائے۔ ترقی یافتہ ممالک نے آبی، شمسی اور ایٹمی بجلی حاصل کر لی اور پاکستان کو کوئلے سے چلنے والے پلانٹ بیچ دیئے ہیں۔ ظاہر بات یہ ہے ایسے ماحول دشمن پاور پلانٹ جہاں بھی لگیں گے وہاں مہلک امراض کا دوردرہ ہی ہوگا۔ دورِ حاضر میں انسان اپنے ہی ہاتھوں اپنا گلا گھونٹنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس نے اپنی مفسدانہ حرکتوں سے کائناتuniverse) (کی اشیاء کے توازن کو بگاڑ دیا ہے اور کسی چیز کو اپنی اصلی اور طبعی حالت پر باقی نہیں رہی۔ جس کے نتیجہ میں اسکا اپنا وجود خطرے میں ہے۔ اس کے کرتوتوں کی وجہ سے چرند، پرند، نباتات و جمادات ہر ایک جاندار کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ قدرتی وسائل وذرائع کی تباہی کا سبب انسانوں کے کرتوت اور اس کی غلط حرکتیں ہیں۔  ماحولیاتی بحران کا بڑا محرک دین ِ اسلام کے شرعی اصولوں سے دوری اور تعلیمات ِ اسلامی پر عمل سے گریز ہے۔  

معروف مسلم مفکر حسین نصر لکھتے ہیں:

“The environmental crisis may in fact be said to have been accused by man’s refusal to see God as the real environment which surrounds him and nourishes his life”[47]

ماحولیاتی بحران کے پہلو کو کئی آیات ِ قرآنی سے صراحتاً عیاں ہے۔ اور صاف طور پر ماحولیاتی بحران کی وجہ انسان کی منفی سرگرمیاں ہیں۔

پروردگار نے فرمایا ہے:

"ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ"[48]

" خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔ "

امام ابن قیم ؒ لکھتے ہیں:

" قال مجاهد: إذا ولي الظالم أساء بالظلم والفساد، فيحبس بذلك القطر، ويهلك الحرث والنسل. والله لا يحب الفساد. ثم قرأ ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِما كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ"[49]

 اس تناظر میں ڈاکٹر قبلہ ایاز لکھتے ہیں:

“Many living things live in the universe. They all eat and drink from the environment surrounding them and also use it for other things. But it is man alone who has been made responsible for causing disorder/imbalance/mischief/injustice/wrong in the universe.”[50]

دنیا میں مختلف اقسام کے جاندار ہیں اور قدرتی وسائل و ذرائع سے مستفید و مستفیض ہوتے ہیں۔ لیکن قدرتی وسائل کے انتظام و انصرام کا ذمہ دار اکیلا انسان ہے۔ کائنات میں بگاڑ و فساد اور اس کے توازن میں خلل کا ذمہ دار انسان ہے۔

انسان اللہ  کی ہدایات سے بے نیاز ہو کر اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کا مجاز و مختار نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی اور نت نئی مشینوں کی بدولت ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ درپیش ہے۔ نئے کیمیکلز کے استعمال سے سبزیاں اور پھل قبل از وقت تیار کر لیے جاتے ہیں۔ تازہ ترین تحقیق کے مطابق گیارہ سال کا ہر تین میں سے ایک بچہ اضافی وزن کا شکار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صحت منداانہ سرگرمیوں کی کمی ماحولیا تی آلودگی ہے۔ ماحولیات پر جاندراروں کی منفی سرگرمیاں اثر انداز ہوتی ہیں۔ "ڈکشنری آف انوائرنمنٹ "میں ہے:

“Biotic Factors. Influences on the environment which are the result of the activities of living organisms.”[51]

ایک محتاط اندازے کے مطابق اسوقت ملک بھر میں 17 ہزار کے قریب تعدادچھوٹی بڑی انڈسٹری کی ہے جس میں 14 ہزار کے قریب انڈسٹری گندا پانی اور دھواں خارج کررہی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا اہم سبب درختوں کی بے دریغ کٹائی ہے۔ پاکستان سالانہ 42000 ہیکٹر جنگلات سے محروم ہو رہا ہے۔ اقوام ِ متحدہ کی تنظیم برائے فوڈ اینڈ ایگریکلچر کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 16 لاکھ 17 ہزار ہیکٹر رقبے پر محیط ہیں۔ جو کل رقبے کا 2∙2 فیصد ہیں۔ جبکہ ہر ملک کے کم از کم 25فیصد سے 40 فیصد رقبے پر جنگلات ہونا لازمی ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی کے اثرات

ماحولیاتی آلودگی کے انسانی صحت پر تباہ کن اثرات ہیں۔ صنعتی انقلاب، ماحولیاتی عدم توازن اور غذائی اجناس میں اضافہ کے لیے نئےنئے تجربات کی وجہ سے بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور امراض پچیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔ عصر ِ حاضر میں دنیا میں ایک ملین کیمیائی اشیا ء تیار ہو رہی ہیں۔ جن میں 50 فیصد اشیا ء صحت و حیات کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان کیمیائی اشیاء میں سالانہ 2000 اشیاکا اضافہ ہو رہا ہے۔ صنعتوں سے تقریباً 20000 ملین ٹن فضلہ خارج ہوتاہے۔ 10 فیصد حصہ خطرناک مادے پر مشتمل ہے۔ [52]بڑے چھوٹے شہر تو درکنار دنیا بھر میں سالانہ 8 اعشاریہ 1 بلین ڈالرز کی مہلک زہروں کے فصلوں پر اندھا دھند سپرے سے دیہی علاقوں کی فضا بھی بری طرح آلودہ ہو رہی ہے۔ مہلک زہروں کے بڑھتے ہوئے استعمال سےسانس کی بیماریوں میں دمہ، ٹی بی، سینے میں درد، نزلہ، زکام، بلڈ پریشر، ہیپاٹائٹس، جلدی امراض، امراضِ چشم، الرجی اور کینسرجیسے مہلک امراض میں انسان ہی کو مبتلا کرنے کا سبب نہیں رہے بلکہ حیوانوں میں بھی کئی خطرناک امراض کو جنم دے رہے ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی اور عالمی برادری

ہرسال 5 جون کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ماحولیات کاعالمی دن"یوم ِ ماحولیات" منایا جاتا ہے اور دنیا بھر کے لوگوں میں ماحول کے تحفظ کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے سمینارز، واک، ریلیاں اور دیگر تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ عالمی ماحولیاتی تحریکوں نے اپنے زیادہ تر وسائل ایک عرصے تک مغربی ملکوں میں ماحول کے تحفظ کیلئے خرچ کیے ہیں لیکن اب ایشیائی اور عرب ممالک میں بھی اس حوالے سے توجہ دی جارہی ہے۔ ماحولیات کے عالمی دن پر دنیا کے تمام ممالک میں درخت لگانے اور واک کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پودوں کی بوائی ہوتی ہے، صفائی و آگاہی مہم کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ شہریوں کی طرف سے صاف ماحول کے عہد، معلوماتی و آگاہی کیمپ لگائے جاتے ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد ماحول کے تحفظ اور اسکی اہمیت سے شہریوں کو آگاہ کرنا ہے۔

ماحولیاتی کانفرنس (1972)

اقوام متحدہ نے 1972 ءمیں ماحولیات کی کانفرنس میں ماحولیات کی دیکھ بھال اور تحفظ کے لیے ایک پروگرام پیش کیا، جسے "یونائیٹڈ نیشنز انوائرنمنٹ پروگرام " کہا جاتا ہے۔

اس پروگرام کی تفصیل راج گردیپ بیان کرتا ہے:

“UN agency charged with the coordination of inter-governmental measures for environmental monitoring and protection. Formed after the 1972 UN Human Environment Conference.UNEP`s first Executive Director was Mr Maurice Strong, who had been Secretary General of the 1972 conference. He was succeeded, in 1975, by Dr. Mostafaa K. Tolba. UNEP operates the Earth watch prgramme and funds Earth scan. Its headquarters are in Nairobi, Kenya.”[53]

IFEES

Isᾱmic Foundation For Ecology and Environmental Sciences

EPD

Environment Protection Department

EPA

Environment Protection Agency

GEF

Global Environment Facility

EPAS

Sindh Environmental Protection Agency

BEPA

Environmental Protection Agency,Blochistan

UNEP

United Nations Environment Programme

ماحولیاتی کانفرنس (1992)

ماحولیاتی مسائل کا مسئلہ عالمی اور اہم ترین مسئلہ ہے۔ ماحولیاتی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے اقوام متحدہ نے 1992ء میں برازیل میں کانفرنس کا انعقاد کیا۔

اے آر آگوان مذکورہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے بارےمیں لکھتا ہے:

“The United Nations Conference on Environment and Development (UNCED) , held in Rio de Janeiro, Brazil, during 13-14 June 1992, was the latest and so far the largest assembly of world leaders convened for the specific purpose of discussing environmental issues. This conference , also called the Earth Summit ,brought to light once again the differing perceptions of developed and developing nations on the genesis, state , and management of the ecological crisis.[54]

حکومت پاکستان ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے لیے عالمی بنک کے تعاون سے مختلف پراجیکٹ لانے کا منصوبے بناتی رہتی ہے۔ مختلف منصوبوں کے تحت عالمی بنک آلودگی ختم کرانے کے لیے مختلف سٹدیز کراتا ہے اور احتیاطی تدابیر وضع کرتا ہے جن پر عمل درآمد آلودگی کم کرنےمیں مدد ملتی ہے۔

 ماہرِ ماحولیات گردیپ راج رقمطراز ہے:

Atmospheric Dispersion. The mechanism of dilution of gaseous or smoke pollution whereby the concentration is progressively decreased. The dilution rate has been very variable and pollution incidents occur when the atmospheric dispersion is insufficiently effective. Atmospheric dispersion is a most important world –wide mechanism for the distribution of salts by rain and is relied upon for the removal the products of combustion.[55]

مغربی ملکوں میں پیدا ہونے والے مسلمان بچوں میں ماحولیاتی تحفظ کا شعور اپنے والدین کی نسل کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہے۔ دینی تعلیم یا سماجی تربیت کے دوران جب ایسے بچوں کو صفائی اور ماحول کو آلودگی سے بچانے کے بارے میں کچھ بتایا جاتا ہے تو وہ اسے اچھی طر‌ح ذہن نشین کرلیتے ہیں اور اس پرپورا اترنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یہ بچے فرش پر نہ تو کوڑا پھینکتے ہیں اور نہ ہی وہ زمین پر تھوکتے ہوئے نظر آئیں گے۔

ناروے ایسی کاروں کو فروغ دے رہا ہے، جو موحولیاتی آلودگی کا باعث نہ ہوں۔ ناروے حکومت نے منصوبہ بندی کی ہے کہ 2025ء تما م کاروں کو فوسل فیول کی بجائے الیکٹرک توانائی سے تبدیل کیا جائے گا۔ [56]ماحولیاتی ٹیکس لگانےسےماحولیاتی آلودگی میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔ برطانیہ میں سیسے کی آمیزش والے پٹرول پر ٹیکس بڑھایا گیا تو اس کی آمیزش سے پاک پٹرول کی فروخت میں اضافہ ہوا۔ 1989ء کے آخر میں امریکی کانگریس نے کلوروفلورو کاربنز پر ٹیکس عائد کردیا۔ جس کا مقصد کلورو فلوروکاربنز کا خاتمہ کرکے ماحولیاتی آلودگی کا تدارک تھا۔ [57]عالمی ماحولیاتی معاہدے پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے برلن حکومت کو کوئلے اور جوہری توانائی پر بتدریج انحصار ختم کر کے متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنا ہے۔ اشٹنٹ گارٹ یونیورسٹی کے اندازوں کے مطابق جرمنی میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی انتہائی باریک راکھ کے باعث جرمنی اور اس کے ہمسایہ ممالک میں ہر سال تین ہزار ایک سو انسان قبل از وقت موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ [58] جرمنی میں اس وقت کوئلے کی مدد سے پیدا کی جانے والی بجلی مجموعی پیداوار کا چالیس فیصد بنتی ہے۔

ماحولیاتی کانفرنس (2015)

2015ء میں طے پانے والے تحفظِ ماحول کے لیے جرمنی کے شہر بون میں ایک عالمی ماحولیاتی کانفرنس (کوپ -15)دو ہفتے تک جاری رہی۔ اس کانفرنس میں ۲۵ ہزار مندوبین شریک ہوئے۔ ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے پر زور دیا گیا۔ عالمی درجہ حرارت کے اضافہ ۲ ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود کرنے کی تجویز دی گئی۔

ماحولیاتی کانفرنس (2021)

عالمی ماحولیاتی کانفرنس کو پ- 26(31 اکتوبر تا 12 نومبر 2021ء) اقوام متحدہ کے "فریم ورک کنوینشن آن کلائمیٹ چینج" کے زیرِ اہتما م سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں منعقد کی گئی۔اس ماحولیاتی کانفرنس کے مقاصد میں کلائمیٹ چینج فنڈ 100 بلین ڈالر مقرر شامل کرنا تھا۔اس کانفرنس میں تحفظ ِ ماحول کے لئے سخت اقدامات کرنے پر معاہدہ ہوا جس پر 120 ممالک کے نمائندگان نے دستخط کئے ۔ دنیا بھر سے ہزاروں ماحولیاتی کارکنان،ماحولیاتی تنظیموں کے نمائندگان،سائنس دان اور عالمی ماحولیاتی ماہرین نے اس ماحول دوست کانفرنس میں شرکت کی۔ اس ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان کی طرف سے بھی تحفظ ماحول کے لئے اقدامات اٹھانے کا وعدہ کیا گیا۔

ماحولیاتی کانفرنس (2022)

نومبر 2022 منعقد ہونے والی حالیہ عالمی موسمیاتی کانفرنس کوپ 27کا موضوع”عمل درامد“ Implementationرکھا گیا۔ موسمیات کی وفاقی وزیرشیری رحمان کا اعزاز ہے کہ وہ کوپ۔27 کا ایجنڈہ تیار کرنے والے 9عالمی ماہرین کی ٹیممیں شامل تھیں۔ عالمی موسمیاتی سربراہی کانفرنس(کوپ۔27)6تا 18نومبر 2022کو مصر کے شہر الشرم الشیخ میں منعقد ہوئی جس میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور موسمیاتی تبدیلی کی وفاقی وزیر شیری رحمان نے بھی وفد کے ہمراہ شرکت کی۔کوپ۔27میں دنیا بھر سے عالمی ماحولیاتی ماہرین کی بڑی تعداد شریک ہوئی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔موسمیاتی سربراہی کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہونے والے ترقی پذیر ملکوں کو امداد یا معاوضہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ مصر کے شہر شرم الشیخ میں نومبر 2022میں منعقد ہونے والی کوپ۔27پاکستان کے لیے خاص طور پر اہم رہی۔موسمیاتی سربراہی اجلاس میں پاکستان کی طرف سے عالمی موسمیاتی تبدیلی کے مہلک اثرات بہترین انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیے گئے۔ اس کانفرنس میں ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک کی نشاندہی بھی کرنا چاہیے تھی۔ تاہم موسمیاتی تبدیلی کی وفاقی وزیر شیری رحمان نے کوپ۔27میں پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے مرتب ہونے والے مہلک اثرات کے حوالے سے پاکستان کا موقف پوری تیاری کے ساتھ پیش کیا۔[59]

ماحولیاتی کانفرنس (2023)

عالمی ماحولیاتی کانفرس کوپ -28 دوبئی میں رواں سال 2023ء میں منعقد ہوگی ۔پاکستان کی وزارت ِ موسمیاتی تبدیلی کو عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر منفی اثرات کا مقدمہ پوری تیاری کے ساتھ اس کانفرنس میں پیش کرنا چاہئے اور ان اثرات کو کنٹرول کرنے کے لئے عالمی برادری کی لاجسٹک سپورٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

ماحولیاتی تحفظ اور اسلام

تعلیمات ِ اسلامی سے ہمیں ماحولیات کے مختلف پہلوؤں پر رہنمائی ملتی ہے۔ بالخصوص قدرتی وسائل کا استعمال اور ان کا تحفظ، وسائل کا مناسب استعمال، ان میں اسراف سے پرہیز وغیرہ۔ انھی تعلیمات کے بدولت اسلامی تہذیب وتمدّن میں آلودگی سے پاک ماحول کو پروان چڑھایا گیا ہے۔

جس طرح پاکیزگی نفس ایک نعمت ہے، اسی طرح پاکیزگی جسم بھی ایک نعمت ہے۔ انسان پر اللہ کی نعمت اسی وقت مکمل ہو سکتی ہے جبکہ نفس و جسم دونوں کی طہارت و پاکیزگی کےلیے پوری ہدایت اسے مل جائے۔ [60]مذکورہ بحث سےجسمانی طہارت و نظافت کی اہمیت و افادیت اور ماحولیاتی آلودگی کا تداراک کی ہدایت واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ وسائل کے استعمال اور انسانوں کی ماحولیاتی ذمہ داریوں کے لحاظ سے اسلام فطرت کی پیدا کردہ ہر شے کے استعمال میں احتیاط پسندی کا درس دیتا ہے۔

خالقِ کائنات کا فرمان ہے:

"وَلَا تُسْرِفُوْا ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ"[61]

"اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ "

اسلام نے ماحول کی حفاظت کرنیکی تلقین و تاکید کی ہے، اسلام نے اس مسئلے کی اہمیت اسوقت سمجھا دی تھی جب دنیا ماحولیاتی آلودگی کے نام سے بھی ناواقف تھی۔ قرآن مجید نے انسانی نسل کی بقاء کیلئے بہت سے چیزوں کی نشاندہی کی۔ خالق کائنات نے قرآن کریم کے ذریعے انسان کو آگاہ کیا کہ وہ زمین کو برباد کرکے اس کے فوائد سے محروم نہ ہو۔ تندرستی و زندگی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑا عطیہ ہے اور حتیٰ المقدور حفاظتِ جان انسان کا فریضہ اور اس کی ذمہ داری بھی ہے۔ آبادیوں میں زہریلا پانی اور دھواں چھوڑنے والے کارخانوں کے مالکان کے لئے قرآن مجید میں صراحت سے وارننگ ہے۔

کتاب اللہ میں ارشاد ہوتا ہے:

" أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا "[62]

" جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانون کو قتل کردیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ "

امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:

" وَمَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ سَبَبٍ مِنْ قِصَاصٍ، أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ، وَاسْتَحَلَّ قَتْلَهَا بِلَا سَبَبٍ وَلَا جِنَايَةَ، فَكَأَنَّمَا قَتْلَ النَّاسَ جَمِيعًا؛ لِأَنَّهُ لَا فَرْقَ عِنْدَهُ بَيْنَ نَفْسٍ وَنَفْسٍ، {وَمَنْ أَحْيَاهَا} أَيْ: حَرَّمَ قَتَلَهَا وَاعْتَقَدَ ذَلِكَ، فَقَدْ سَلِمَ النَّاسُ كُلُّهُمْ مِنْهُ بِهَذَا الِاعْتِبَارِ"[63]

پوری دنیا میں کارخانوں کا جال بچھا ہوا ہے جو زہریلے دھویں اور زہریلے پانی کے ٹریٹمنٹ کے بغیر اخراج کی بدولت عام لوگوں کو جان لیوا بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں یعنی مبینہ طور پر ان کے قتل کا سبب بن رہے ہیں۔ مذکورہ بالا آیت ِ قرآنی میں فیکٹری مالکان کے لئے لائحہ عمل اور درسِ عمل موجود ہے۔ محبوب ِ خداﷺ کی ذات رحمتہ للعالمینﷺ ہیں جو خونخوار لڑائیوں کو بند کرتے ہیں حکمرانی کی آرزو یا توسیع ملک کی تمنا، غلبہ قوت کے اظہار یا جوشِ انتقام کے اصول پر لڑائی کرنے کو قطعاً ممنوع ٹھہراتے ہیں۔ [64]

دنیا میں نوع انسانی کی زندگی کی بقا منحصر ہے اس پر کہ ہر انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کی جان کا احترام موجود ہو اور ہرایک دوسرے کی زندگی کے بقاء و تحفظ میں مددگار بننے کا جذبہ رکھتا ہواسلام میں ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے لئے مردوں کو دفن کرنے کا تصور ہے۔ مردےدفنانے کا طریقہ کار ذاتِ الہی نے اپنے کلام میںسمجھایا ہے۔ مردوں کو دفنانے میں انسانی تکریم کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کا فلسفہ بھی پایا جاتاہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا يَّبْحَثُ فِي الْاَرْضِ لِيُرِيَهٗ كَيْفَ يُوَارِيْ سَوْءَةَ اَخِيْهِ ۭ "[65]

" پھر اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔ "

تعلیمات نبوی ؐ میں اپنے گھروں اور ماحول کو صاف رکھنے کی ترغیب ہے۔

سردار الانبیاء ﷺکا فرمان ہے:

"فَنَظِّفُوا أَفْنَاءَكُمْ وَسَاحَاتِكُمْ"[66]

اسلام ماحولیاتی تحفظ کے لئے مکمل رہنمائی مہیا کرتا ہے۔ ماحولیات سے متعلقہ اسلامی ہدایات پر عمل کر کے ماحولیاتی آلودگی جیسے پریشان کن مسئلے سےنمٹا جا سکتا ہے۔

 

[1]المعجم الوسیط، مجمع اللغة العربية بالقاهرة، (إبراهيم مصطفى / أحمد الزيات / حامد عبد القادر / محمد النجار) ، دار الدعوة، 1/75

[2]ابو عبدالرحمٰن احمد بن خلیل، کتاب العین ، دار ومكتبة الهلال، 8/411

[3]ابو نصر الفارابی، الصحاح تاج اللغة وصحاح العربية ، دار العلم للملايين – بيروت، 1987م، 1/37

[4]احمد بن فارس الرازی، معجم مقاييس اللغة، ، دارلفکر، 1979م، 3/312

[5]ابن الاثیر، النهاية في غريب الحديث والأثر، المكتبة العلمية - بيروت، 1399هـ، 1/159

[6]النحل، 41: 16

[7]محمد بن جریر طبری، جا مع البیان فی تاویل القرآن ، مؤسسة الرسالة، 1420ھ، 17/206

[8]مجمع البحوث الإسلامية بالأزهر، التفسیر الوسیط للقرآن الکریم، الهيئة العامة لشئون المطابع الأميرية، 1983م، 8/12

[9]الاعراف، 74: 7

[10]محمد رشید بن علی رضا، تفیسر المنار ، لهيئة المصرية العامة للكتاب، 1990م، 8/448

[11]الحج، 26: 22

[12]التفسیر الوسیط للقرآن الکریم، 6/1206

[13]Reetᾱ Rᾱnī, Dictionay of Biology,Anmol Publications, N ew Delhi,p.172

[14] Eng. Akthtar K. Bhattī, Dr. Gul-e-Jannat,The Holy Quran On Environment, Royal Book Company, Karachi,1995, p.20

[15] The New Encyclopedia of Britannica,Volume-3,p.512

[16] Rᾱj, Gardeep, Dictionary of Environment, p.70

[17] M. S. Rᾱo, Dictionary of Geography, p.137

[18] Haroon Yahya (Adnan Oktar) ,The Creation Of The Universe,p.86

[19] Rᾱj, Gardeep, Dictionary of Environment, p.67

[20] The New Encyclopedia Britannica ,Vol-4,p.354

[21] Rᾱj, Gardeep, Dictionary of Environment, p.67

[22]The New Encyclopedia Britannica Vol- 4 1978,p.359

[23]الانعام، 38: 6

[24]محمد رشيد بن علي رضا،تفسير المنار، الهيئة المصرية العامة للكتاب، 1990 م، 8/257

[25]علي بن أحمد بن سعيد بن حزم، رسائل ابن حزم، المؤسسة العربية للدراسات والنشر، بناية برج الكارلتون ساقية الجنزير بيروت، 1983، 4/126

[26] M. S. Rᾱo, Dictionary of Geography, p.137

[27]David L. Bender and Bruno Leone, Animal Rights, Greenhaven Press, Inc.,U.S.A.,1989, P.164

[28] Alan Collinson, Repairing The Damage Pollution, New discovery books New York,1992,p.4

[29] Nasr, Hossein Seyyed, Isᾱm and the Environment ,institute of Objective studies N. Dehlī) ,1997,p.31

[30] The Encyclopedic Dictionary of Science, Facts on File publications New York,1988, P. 190

[31]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 25 اگست 2019ء

[32]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 30 جنوری 2018ء

[33]روزنامہ جنگ لاہور، 22 جولائی 2018ء

[34] Fazle Karīm Khᾱn, “A Geography of Pakistan: Environment, People and Economy,Oxford University Press,Oxford,1991,p.69

[35]روزنامہ دنیا گوجرانوالہ، 4 نومبر 2016ء

[36]Rᾱj, Gurdeep, Dictionary of Environment, p.195

[37] M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography, Anmol publications Pvt.Ltd., New Delhi-110 002 (Indiᾱ) ,1998,p.325

[38]روزنامہ جنگ لاہور، 21 مئی 2017ء

[39] ممتاز حسین اور مسز سیدہ سائرہ حمید، مطالعہ ماحول، ص۔ 6

[40]روزنامہ امت کراچی، 25 جولائی 2019ء

[41]روزنامہ جنگ لاہور، 23 جولائی 2018ء

[42]اصلاحی، ک-ص، اخبار، ماہنامہ معارف ، دار لمصنفین اکیڈمی اعظم گڑھ (یو پی) انڈیا ستمبر 2018ء، ص۔ 218

[43]روزنامہ جنگ لاہور، 4 اکتوبر 2018ء

[44]روزنامہ نوائے وقت لاہور، 27 اکتوبر 2018ء

[45]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 17 جون 2019ء

[46]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 14 جون 2019ء

[47]Nasr, Seyyed Hossein,The Need for a Sacred Science,p.134

[48]الروم، 30: 41

[49]ابن قيم الجوزية، تفسير القرآن الكريم، دار ومكتبة الهلال بيروت، 1410 هـ، 1/432

[50]Kibla Ayᾱz,Dr.,Conservation and Isᾱm,p.24

[51]Rᾱj, Gurdeep,Dictiionary of Environment ,p.29

[52]ممتاز حسین اور مسز سیدہ سائرہ حمید، مطالعہ ماحول، آزاد بک ڈپو اردو بازار لاہور ص۔ 53

[53] Rᾱj, Gurdeep, Dictionary of Environment, p.223

[54]A. R. Agwᾱn,Isᾱm and the Environment, P.11-12

[55]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment ,p.19

[56]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 4 جنوری 2019ء

[57]لیسٹر براؤن، کرہ ارض کا تحفظ، ص۔ 124

[58]روزنامہ خبریں لاہور، 20 فروری 2019ء

[59] ڈاکٹر عبدالمنان چیمہ،فروزاں -ماحولیات کاترجمان ،(کراچی:28 مئی 2023)

ٖhttps://farozaan.com.pk/climate-change-and-international-community/

[60]مودودی، سید، تفہیم القرآن (جلد اول) ، ادارہ ترجمان القرآن اردو بازار لاہور، دسمبر 2013ء، ص۔ 449

[61]الانعام، 141: 6

[62]المائدہ، 32: 5

[63]أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير، تفسير القرآن العظيم، دار طيبة للنشر والتوزيع، 1420هـ، 3/92

[64]منصورپوری، محمد سلیمان سلمان، قاضی، رحمتہ للعالمین، 2/554

[65]المائدہ، 31: 5

[66]أبو يعلى أحمد بن علي بن المثُنى بن يحيى بن عيسى بن هلال التميمي، الموصلي، مسند أبي يعلى، مُسْنَدُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، رقم الحدیث، 791

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...