Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں |
Asian Research Index
قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں

باب سوم: آبی وسائل کا مطالعہ
ARI Id

1686875689131_56115819

Access

Open/Free Access

Pages

100

پانی کی اہمیت و افادیت

تعارف(Introduction)

عربی میں پانی "ماء"کہلاتاہے۔ پانی زندگی کے بنیادی مادہ کی حیثیت رکھتا ہےتما م مشروبات کا سردار ہے، کائنات کا اصلی اور حقیقی عنصر ہے۔ آسمان پانی کے بخارت سے بنائے گئے ہیں جبکہ زمین اس کی جھاگ سے پیدا گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پانی کے ذریعے زندہ رکھا ہے۔

کائنات چار ارکان کا مرکب ہے جن میں ایک پانی ہے۔ جیساکہ علامہ الجاحظ ؒ لکھتے ہیں:

"الأركان الأربعة، التي هي الماء والأرض والهواء والنار"[1]

امام ابن قیم ؒ رقمطراز ہیں:

"مَاءٌ: مَادَّةُ الْحَيَاةِ، وَسَيِّدُ الشَّرَابِ، وَأَحَدُ أَرْكَانِ الْعَالَمِ، بَلْ رُكْنُهُ الْأَصْلِيُّ، فَإِنَّ السَّمَاوَاتِ خُلِقَتْ مِنْ بُخَارِهِ، وَالْأَرْضَ مِنْ زَبَدِهِ، وَقَدْ جَعَلَ اللَّهُ مِنْهُ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ"[2]

مذکورہ عبارت سے صراحت ہوتی ہے، پانی مادہ حیات ہے جو آسمان، زمین اور ہر زندہ چیز کی تخلیق میں بنیادی حیثیت کا حامل قدرتی وسیلہ ہے۔

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا میں ہے:

“Water, a substance composed of the chemical elements hydrogen and oxygen and existing in gaseous, liquid, and solid states. Water is one of the most plentiful and essential of compounds .”[3]

انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن کا مقا لہ نگار لکھتا ہے:

“Water is essential for man’s life ;it ensures his nourishment by fertilizing the land. It is more than nourishment ,since it is the source of nourishment.”[4]

آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے مطابق پانی (water) :         

“The liquid of which seas, lakes, and rivers are composed ,and which as rains and issues from springs. When pure , it is transparent ,colorless (except as seen in large quantity ,when it has a blue tint) ,tasteless, and inodorous.”[5]

معروف سکالر ہارون یحییٰ لکھتے ہیں:

“The bulk of the bodies of all living things is water. Without water it seems , life is impossible . Water is a substance that was specially created so as to be the basis of life.”[6]

تما م جانداروں کی بنیادی اکائی پانی ہے۔ پانی کے بغیر حیات کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پانی کے کیمیائی اور طبعی خواص دوسرے مائعات کے برعکس منفرد حیثیت رکھتے ہیں اور امورِ حیات کی بجاآوری کے لیے پانی ناگزیر ہے۔

علم آب (Hydrology)

پانی کی خصوصیات، استعمال اور انتظام کے وغیرہ کا مطالعہ علم آب کہلاتا ہے۔ علم آب کو انگریزی میں "ہائیڈرولوجی" اور ہندی میں "جل دیا" کہا جاتا ہے۔ علم آب (Hydrology) میں جھیلوں، تالابوں، دریاؤں، کنوؤں، سمندروں وغیرہ کے پانی اور اس کا انتظام و انصرام، استعمال، تحفظ علم آب کے زمرے میں آتا ہے۔

ایم۔ ایس راؤ لکھتے ہیں:

“The science dealing with water, especially to its occurrence in streams, lakes, wells, etc, and including its discovery , uses , control and conservation.”[7]

قدرت نے زیرِ زمین پانی کے دریا اور نہریں بہا رکھی ہیں جنہیں زمین کے اندرونی علم کی اصطلاح میں ہائیڈرو جیالوجی کہا جاتا ہے۔ ہائیڈرولوجی ایک وسیع سائنس ہے۔

کرہ آب (Hydrosphere)

سطح زمین پر کل پانی کی مقدار کو کرہ آب کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں کرہ آب کو "ہائیڈرو سفیئر"کہا جاتا ہے۔ ہائیڈرو سفیئر میں سمندر، جھیلیں، گلیشئر، دریاؤں وغیرہ کا پانی شامل ہے۔ اس میں وہ پانی بھی شامل ہے جو فضا میں موجود رہتا ہے۔ سطح زمین کا تین چوتھا ئی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔

بھارت کے معروف جغرافیہ دان لکھتےہیں:

“Hydrosphere: Refers to all the water of the earth, as distinct from the Atmosphere and the Lithosphere .It includes both the comparatively shallow layer of water (in liquid and solid form) that covers nearly three-quarters of the earth`s surface, forming the oceans, seas, lakes, ice-sheets, etc, and also the water that is present in the atmosphere.”[8]

ماحولیاتی امو کا ایک ماہر بیان کرتا ہے:

“Liquid water covers about 79 percent of the surface of the globe. The largest portion is in the oceans, less than 1 percent is fresh water, and an even smaller amount is found in saline lakes. Other forms of water are ice, snow, and water vapor."[9]

مذکورہ عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ زمین کا بڑا حصہ پانی پر مشتمل ہے جو سمندروں، دریاؤں، جھیلوں، برف اور بخارات کی صورت میں پایا جاتا ہے۔

پانی کا تجزیہ ( Analysis of Water)

H2O ,D2O

Formula

Dihydrogen oxide

Chemical Name

997kg/m3

Density

Covalent

Chemical Bond

0oC

Freezing point

100oC

Bioling point

liquid, gas,solid

Forms of Water

18.015g/mol

Molecular mass

پانی بنیادی طور پر ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے۔ یہ صفر سنٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر جم کر برف بن جاتا ہے۔ ۱۰۰ ڈگری سنٹی گریڈ پر ابلنے لگتا ہے۔ اسکا درجہ حرارت کبھی اس سے تجاوز نہیں کرتا۔ البتہ یہ بھاپ بن جاتا ہے جس سے توانائی حاصل ہوتی ہے۔ پانی میں مختلف قسم کی معدنیات اور دھاتیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً سیسہ، تانبا، جست، میگنیشیم، سلفیٹ، نمک، کاربونیٹ، آیوڈین اور فلورائیڈ وغیرہبارش کے پانی میں فضائی آلودگی اور کیمیائی عناصر شامل ہوتے ہیں۔

زندہ چیزوں کے بنیادی کیمیائی اجزاء میں ہائیڈروجن کا پل سا ہوتا ہے۔ جس سے ایک ایک عضویے کی زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ جسےہائیڈروجن بانڈ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ہائیڈروجن اکثر تبدیل ہوکر نئے بندھن بناتا ہے اور اس طرح زندگی کی قوت کو تبدیل کر تا رہتا ہے، یہ ہائیڈروجن کے متبادل صرف پانی کے بہاؤ یا روانیت سے پیدا شدہ ہائیڈروجن سے ممکن ہو سکتا ہے۔ اس لیے پانی زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔ [10]

مقالہ نگار محمد رفیق لکھتے ہیں:

“Water is found in three states___ water vapors , fluid , and ice. Water in the atmospheric region is different from the water in the terrestrial region (e.g. Ocean) as far as the density is concerned.”[11]

کھانا پکانے، پینے، فصلوں کو سیراب کرنے اور صفائی کے کاموں پانی استعمال ہوتا ہے۔ پانی ایک ایسا مادہ ہے جو تینوں حالتوں ٹھوس (برف) ، مائع (پانی) اور گیس (بخارات) کی شکل میں پایا جاتا ہے۔

پانی بہت سے انتہائی اہم کیمیائی تجربات کے لیے لازمی اور ناگزیرہوتا ہے۔ بعض کیمیائی تجربات کا وقوع پذیر ہونا پانی کے بغیر ناممکن ہوتا ہے۔ کیمسٹری اور پانی کا چولی دامن ساتھ ہے۔ کیمیائی عوامل کے لیے پانی کی موجودگی ضروری ہے۔ تجربات سے معلوم ہوتا ہےکہ اکثر و بیشتر تجربات پانی نہ ہونے پر وقوع پذیر نہیں ہو سکتے۔ پانی کے کیمیائی عناصر کا پتہ چلنے کے باوجود اسے مصنوعی طور پر بنا نا ممکن نہیں۔ [12]

کیمیائی تعاملات کے لئے"انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا "کا مقالہ نگار بیان کرتا ہے:

“Two isotopic forms, deuterium and tritium, in which the atomic nuclei also contain one and two neutrons,respectively,are found to a small degree in water. Deuterium oxide (D2O) ,called heavy water, is important in chemical research and is also used as a neutron moderator in some nuclear reactors”[13]

مذکورہ شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ کیمیائی تجربات اور ضروری کیمیائی تعاملات کے لئے پانی لازمی ہوتا ہے۔

پانی کی اقسام

1۔ آب زمزم (Zamzam Water)

آب زمزم دوسرے پانیوں سے افضل اور تما م پانیوں کا سردار ہے۔ یہ پانی کی ایسی قسم ہے جو مقدس اور قابل احترام ہے۔ اس پانی کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا کنواں حضرت جبرائیل ؑ نے خود کھودا تھا۔ یہ وہی پانی ہے جس سے ابو العرب حضرت اسماعیل ؑ نے پیاس بجھائی تھی۔

امام طبرانی ؒ بیان کرتےہیں:

" عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ زَمْزَمَ فَقَالَ: إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ , إِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ وَشِفَاءُ سُقْمٍ"[14]

روایت بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ آب زمزم کھانے والوں کے لئے کھانا ہے اور امراض سے شفا دیتا ہے۔

امام ابن قیم ؒ آب زمزم کے بارے میں لکھتے ہیں:

" ماء زمزم: سَيِّدُ الْمِيَاهِ وَأَشْرَفُهَا وَأَجَلُّهَا قَدْرًا، وَأَحَبُّهَا إِلَى النفوس وأغلاها تمنا وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ النَّاسِ"[15]

 زمزم کا پانی دوسرے تما م پانیوں کا سردار، قابل ِ احترام، پسندیدہ اور قیمتی ہے۔

معین الدین ناصر اپنے سفر نامے میں آب زمزم کے کنویں کا محل وقوع بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

" بِئْر زَمْزَم شَرْقي الْكَعْبَة حذاء ركن الْحجر الْأسود وَبَين زَمْزَم والكعبة سِتّ وَأَرْبَعُونَ ذِرَاعا وسعة الْبِئْر ثَلَاث أَذْرع وَنصف فِي مثلهَا وماؤها ملح وَلكنه يستساغ وَقد بنوا عِنْد فوهتها خرزة من الرخام الْأَبْيَض ارتفاعه ذراعان وَفِي جَوَانِب حجرَة زَمْزَم الْأَرْبَعَة أحواض يصب فِيهَا المَاء وَيتَوَضَّأ النَّاس بِهِ وأرضها من الْخشب المشبك ليسيل المَاء الَّذِي يراق بهَا وبابها نَاحيَة الْمشرق وأمام الْبِئْر نَاحيَة الْمشرق بِنَاء آخر مربع عَلَيْهِ قبَّة يُسمى سِقَايَة الْحَاج وضع بِهِ أزيار يشرب مِنْهَا الْحجَّاج "[16]

زم زم کا پانی برکت والا ہے اورپیٹ بھرنے والا ہے۔ مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام میں خانہ کعبہ سے ۱۵ میٹر کے فاصلے پر جنوب مشرق میں حجرِ اسود کی سیدھ میں ایک کنواں واقع ہے جس کے پانی کو زم زم کہا جاتا ہے۔ زم زم کے کنواں کی گہرائی ۲۰۷ فٹ ہے۔ زم زم سب سے اعلیٰ پانی ہے۔ آبِ زم زم پینے کے لیے ہر طرح سے محفوظ پانی ہے۔ زم زم کے مسلسل استعمال سے خون کی کمی دور ہو جاتی ہے۔ دماغ تیز ہو جاتا ہے، حافظہ بہتر ہوتا ہے۔ پیٹ کی گہرائی ختم ہو جاتی ہے۔ تیزابیت دور کرتا ہے۔ بھوک لگاتا ہے اور مریضوں کو شفاہوتی ہے۔ آب زم زم میں کیلشیم کاربونیٹ، میگنیشم، فولاد، جست وغیرہ جیسے معدنی اجزاء پائے جاتے ہیں۔

 Zamzam Well

2۔ سخت پانی (Hard Water)

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کا مقالہ نگارسخت پانی کے بارے میں یوں لکھتا ہے:

“Hard water contains soluble salts of calcium and magnesium, principally as bicarbonates, chlorides and sulphates. Ferrous iron may also be present.”[17]

مذکورہ عبارت ثابت کرتی ہے کہ سخت پانی، پانی کی وہ قسم ہے جس میں مختف دھاتیں حل شدہ ہوتی ہیں۔ کیلشیم، نمکیات، بائی کاربو نیٹس وغٰیرہ جیسے کیمیائی اجزاء سخت پانی میں عام طور پر پائے جاتے ہیں۔

3۔ ہلکا پانی (Soft Water)

جو پانی گرم ہونے میں دیر لگائے اور نہ ہی ٹھنڈا ہونے میں زیادہ وقت لگائے لطیف یعنی ہلکاپانی کہلاتا ہے۔

مشہور حکیم بقراط لطیف پانی کے بارے میں لکھتے ہیں:

" الْمَاءُ الَّذِي يَسْخُنُ سَرِيعًا، وَيَبْرُدُ سَرِيعًا أَخَفُّ الْمِيَاهِ."[18]

 مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ ہلکا یا لطیف پانی وہ ہوتا ہے جو جلدی ٹھنڈا ہو جائے اور جلدی گرم ہوجائے۔

4۔ معدنی پانی (Mineral Water)

پانی کے اندر بعض ضروری نمکیات کا موجود ہونا بھی لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قابل ِ نوش پانی منرل واٹر ہی تجویز کیا جاتا ہے۔ دریاؤں، ندیوں، چشموں اور زیر زمین پانی میں انسانی ضرورت کے لئے ضروری نمکیات شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے اسے منرل واٹر ہی کہا جاسکتا ہے تاہم اسے پینے کے لئے استعمال کرنے سے پہلے لیبارٹری سے اس کا کیمیائی تجزیہ کروا لینا ضروری ہے۔ امام ابن قیم ؒ کے مطابق معدنی پانی:

"وَالْمَاءُ الَّذِي يَنْبُعُ مِنَ الْمَعَادِنِ يَكُونُ عَلَى طَبِيعَةِ ذَلِكَ الْمَعْدِنِ، وَيُؤَثِّرُ فِي الْبَدَنِ تَأْثِيرَهُ"[19]

کسی کان سے پھوٹنے والے پانی کی تاثیر اس میں پائی جانے والی معدنیات کی نوعیت پر ہو گا۔ بدن وجسم پر ویسا ہی اثر ہوگا جیسی معدنیات پانی میں شامل ہوں گی۔

 اس ضمن میں انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا میں ہے:            

“The use of mineral water as a beverage has increased greatly since the mid-1970s.Large quantities of bottled water from mineral springs in France and other European countries are exported each year.”[20]

مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں معدنی پانی کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں قدرتی چشموںسے حاصل کردہ معدنی پانی کو برآمد کیا جاتا ہے۔

5۔ بھاری پانی (Heavy Water)

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا میں بھاری پانی کے بارے میں بیان کیا گیا ہے:

“Ordinary water as obtained from fresh water lakes contains isotopes of hydrogen in the ratio of 1 atom deuterium, D or H2.”[21]

نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکاکا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Deuterium oxide (D2O) ,called heavy water, is important in chemical research and is also used as a neutron moderator in some nuclear reactors”[22]

مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا کہبھاری پانی تجربہ گاہوں میں کیمیائی تعاملات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

6۔ میٹھا پانی (Sweet Water)

میٹھا پانی قابل نوش پانی ہوتا ہے۔ میٹھا پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑا تحفہ ہے۔ میٹھا پانی قابل نوش پانی ہوتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَّجَعَلْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ شٰمِخٰتٍ وَّاَسْقَيْنٰكُمْ مَّاۗءً فُرَاتًا"[23]

"اور اس میں بلند وبالا پہاڑ جمائے، اور تمہیں میٹھا پانی پلایا۔ "

کل پانی کا صرف تقریباً اڑھائی فیصد میٹھا پانی ہے۔ دنیا کا سب سے بڑے میٹھے پانی کا سرچشمہ کوہِ ہمالیہ پاکستان میں موجود ہے۔ پاکستان کو پانی کے بہترین دو آبوں کی وجہ سے زرعی و خوردنی اجناس پیدا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

اما م ابن قیم ؒ لکھتے ہیں:

"وَالْمَاءُ الْعَذْبُ نَافِعٌ لِلْمَرْضَى وَالْأَصِحَّاءِ، وَالْبَارِدُ مِنْهُ أَنْفَعُ وَأَلَذُّ"[24]

مذکورہ بالا عبارت سے میٹھا اور ٹھنڈا پانی کا استعمال صحت وتندرستی کے لئے مفید ثابت ہو رہا ہے۔ میٹھا اور ٹھنڈا پانی لذیذ اور مزیدار بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا پینے کے لئے ایسا پانی استعمال کرنا چاہئے جو ٹھنڈا اور میٹھا ہو۔ اللہ تعالیٰ نےوطن ِ عزیز پاکستان کو میٹھے پانی کے وسیع وسائل سے نوازا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور بارشیں وقت پر ہو جاتی ہیں۔ لیکن حیرت و استعجاب کا مقا م یہ ہے کہ تمام میٹھا پانی حکمرانوں کی نااہلی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے سمندر میں گر جاتاہے۔ راستے میں لا تعداد دیہاتوں میں تباہی پھیلاتا جاتا ہے۔ پاکستان میں میٹھے پانی کی بے قدری کی جاتی ہےجبکہ سنگا پور اور کئی دوسرے ممالک کو دوسرے ممالک سےمیٹھے پینے کا پانی امپورٹ کرنا پڑتا ہے۔

7۔ کھاری پانی (Bitter Water)

دنیا بھر میں صرف 3 فیصد پانی پینے کے قابل ہے جبکہ 97 فیصد پانی کھارا ہے۔ متعدد جگہوں پر قدرتی طورپر نمک کے پہاڑ وں کے قدرتی سلسلوں کی وجہ سے وہاں زیرِ زمین پانی نمکین ہے۔ بعض جگہوں میں زیرِ زمین پانی صاف اور تازہ ہےجبکہ بعض علاقوں میں نمکین اور کھارا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا"[25]

" اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے۔ ایک لذیذ و شیریں، دوسرا تلخ و شور۔ اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈ مڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ "

دنیا کا 97 فیصد نمکین سمندری پانی کی صورت میں ہے۔ یہ پانی شور اور نمکین ہونے کی وجہ سے قابلِ نوش نہیں لیکن سمندری حیوانات اس میں پلتے اور زندہ رہتے ہیں۔ [26]

8۔ خالص پانی (Pure Water)

ورلڈ بک ڈکشنری کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Pure water is a transparent, colorless, tasteless, odorless compound of hydrogen and oxygen”[27]

خالص پانی بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ قدرتی وسیلہ ہے۔ یہ ہائیڈروجن اور آکسیجن پر مشتمل مرکب ہوتا ہے۔

پانی کا چکر ((Water Cycle

زمین پر موجود پانی چکر میں رہتا ہے جسے پانی کا چکر کہا جاتا ہے۔ پانی کے چکر کے تحت سطح زمین سے پانی بخارات میں تبدیل ہو کر فضا میں شامل ہو جاتا ہے۔ ایک خاص اونچائی پر پانی کے یہ بخارات بادل یا برف میں بدل جاتے ہیں۔ پھر بارش یا برف باری کے ذریعہ دوبارہ زمین پر واپس ؎آجاتےہیں۔ پانی کا یہ چکر انسانی حیات و بقا کے لئے انتہائی اہم ہے کیونکہ کرہ ارض پر تازہ پانی کی دستیابی اسی پانی کے چکر کی بدولت ہے۔ [28]خشکی اور سطح سمندر سے پانی آبی بخارات کی شکل میں فضا میں جاکر دوبارہ بارش/برفباری وغیرہ کی شکل میں کرہ ارض پر واپس آجاتا ہے۔ دریاؤں، آبی زمینوں، جھیلوں، تالابوں، چشموں وغیرہ کی شکل میں جمع ہو جاتا ہے۔ بارش کا کچھ پانی زیر زمین چلا جاتا ہے اور بھر کنوؤں یا جدید مشینی ٹیوب ویلز کے ذریعے ضرورت کے مطابق نکال کر استعمال میں لایا جاتا ہے۔ یہ پھر آبی بخارات کی شکل میں تبدیل ہو کر بادلوں کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور بارش کی صورت میں زمین پر دوبارہ آ جاتا ہے اور یونہی یہ پانی کا چکر جاری و ساری رہتا ہے۔ قرآن مجید نے 14 سال قبل ہی پانی کے چکر کے متعلق حقائق سے پردہ اٹھا دیا تھا۔جب دنیا پانی کے چکر کے نام سے بھی ناواقف تھی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِي الْاَرْضِ ڰ وَاِنَّا عَلٰي ذَهَابٍۢ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ"[29]

" اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا، ہم اسے جسطرح چاہیں غائب کرسکتے ہیں۔ "

بھارتکے مصنف" ایم ایس راؤ" پانی کے چکر کا مفہوم واضح کرتے ہیں:

“Water Cycle or Hydrologic: Refers to the circulation of water from the oceans to the atmosphere, back to the land , and so back to the oceans. Evaporation occurs from the oceans (also from lakes, rivers. etc.) ; Condensation of the water vapour in the atmosphere leads to the formation of clouds and therefore to precipitation as rain or snow, most of the water that has fallen on the land then returns to the oceans-thus completing the cycle.”[30]

جدید تحقیق کے مطابق زمین سے ایک سیکنڈ میں تقریباً ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ٹن پانی بخارات بن کر اوپر چلا جاتا ہے۔ اسطرح ایک سال میں دنیا بھر سے 513 ٹریلین پانی بخارات بنتا ہے۔ اتنی ہی مقدار میں بارش کی صورت میں واپس زمین پر آجاتی ہے۔ دنیا پر زندگی اسی پانی کی گردش پر منحصر ہے۔ [31]

پانی اور قرآن ( Water and Quran)

قرآن مجید میں جا بجا پانی کا ذکر کیاگیا ہے جس سے پانی کی اہمیت و افادیت ثابت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں پانی کے ہر پہلو یعنی زمین، حیوانات، نباتات اور انسان کے لئے اس کا استعمال کھل کر بتایا گیا ہے۔

ناصر آئی فاروقی رقمطراز ہیں:

"اسلام میں پانی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت تصور کیا جاتا ہے۔ جو حیات آفرین بھی ہے اور حیات پرور بھی۔ یہ بنی نوع انسان اور کرہ ارض کی تطہیر کرتا ہے۔ پانی کے لیے عربی لفظ "ماء"ہے جو قرآن مجید میں تریسٹھ بار آیا ہے۔ عرش الہی کو پانی کے اوپر ہونا بتایا گیا"[32]

وقار احمد حسینی پانی کی اہمیت کے بارے میں رقمطراز ہیں:

“Neary 900 verses in the Quran , Out of the total 6226 , deal with various aspects of water resources and engeering, including water law and management.They are all charactersized by tawhidic hydrotechnology that is ,God is final cause of all aspects of water resources, and ever present Noursher, Sustainer and Manager (rab) of their secondary and and teritiary causation.”[33]

مذکورہ بالا عبارت سے پانی کی افادیت آشکار ہوتی ہے۔ پانی جیسے اہم وسیلے کی تخلیق سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و توحید کا نظریہ پختہ ہوتا ہے۔ پانی کے انتظام و انصرام کے بارے میں قرآن مجید کی ہدایات پوری انسانیت کے لئے مینارہ نور ہیں۔

تہذیبوں کا جنم (Appearance of Civilizations)

تاریخ ِ انسانی گواہ ہے کہ پانی کی بدولت مختلف تہذیبوں نے جنم لیا اور بڑے بڑے تاریخی شہر شاد و آباد ہوئے۔ دریائے سندھ، دریائے دجلہ، دریائے فرات، دریائے نیل، دریائے گنگا اور جمنا کے کناروں پر عظیم الشان تہذیبوں نے جنم لیا۔ کراچی ، سنگا پور ہ ہانگ کانگ، ٹوکیو اور شنگھائی وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔

 معروف محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ پانی کی اہمیت بیا ن کرتے ہیں:

"اس زمانے میں تجارتی قافلوں اور کاروانوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ غذا، پانی اور ٹھہرنے کی جگہ کا بندوبست کریں۔ مکہ میں جو زمزم کا چشمہ یا کنواں تھا وہ ایسی چیز تھی کہ اسے کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لہٰذا تما م قافلے وہاں سے گزرا کرتے تھے۔ "[34]

پانی کرہ ارض پر زندگی کا سب سے اہم جزو ہے۔ اگر تاریخ کے اوراق پر نظردوڑائی جائے تو یہ حقیقت آشکا ر ہوگی کہ قدیم قومیں اور تہذیبیں دریاؤں پر آباد تھیں، جس کی بنیادی وجہ آبی وسائل سے استفادہ کرنا تھی۔

 وزارتِ پانی اور عرب Ministry of Water and Arab) )

ظہورِ اسلام سے قبل پانی کی وزارت اور اس کا انتظام و انصرام آپﷺ کے خاندان کے سپرد تھا۔

اس ضمن میں ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ نے لکھا ہے:

"ایک وزارت اس خاندان کے بھی سپرد تھی، وہ وزارت زمزم کے کنویں کے انتظام کے متعلق تھی۔ اس میں منعفت بھی تھی۔ یہ قدیم کنواں چونکہ بڑی مدت غائب رہنے کے بعد عبدالمطلب نے دریافت کیا تھا، اس لیے انہی کی نگرانی میں رہا اورغالباً ان کی خاطر شہری مملکت کے نظام میں ایک نئی وزارت کا اضافہ کر دیا گیا۔ عبد المطلب کی وفات کے بعد یہ انتظام ان کے بیٹے ابو طالب نے سنبھالا۔ "[35]

دورِ نبوی ؐ میں پانی کے انتظام و انصرام کا پورا خیال رکھا گیا۔ حضرت زید بن ارقم اور حضرت علاء بن عقبہ رضی اللہ عنہمادونوں حضرات قبائل اور ان کے پانی کے بارے میں لکھا کرتے تھے۔ [36]

اس روایت سے استدلال و استنباط ہوتا ہے کہ حکومت و ریاست کے لئے آبی وسائل کی منصفانہ تقسیم کی خاطر ان کا حساب و کتاب رکھنا جائز ہے۔

تخلیق ِ کائنات (Creation of Universe)

پانی واحد قدرتی وسیلہ ہے جو تخلیق کائنات سے پہلے بھی پایا جاتا تھا۔ قرآن مجید میں پانی کا تذکرہ جا بجا آیا ہے۔ اللہ تعالی ٰ کے کلام میں اس امر کی صراحت ہے کہ زمین پر زندگی کا آغاز پانی سے ہوا ہے بلکہ پانی تخلیق کائنات سے پہلے بھی وجود تھا۔ تخلیقِ کائنات سے قبل عرشِ الہی پانی پر تھا۔

 مالک ِ کائنات کا ارشادِ گرامی ہے:

"وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاۗءِ"[37]

" اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیاجبکہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا۔ "

صاحب "التفسیر الوسیط للقرآن الکریم" بیا ن کرتے ہیں:

" وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ: دلت هذه الجملة على أن عرشه تعالى كان على الماءِ قبل خلق السموات والأرض،ما جاءَ في كتاب بدء الخلق بصحيح البخاري من حديث عمران بن حصين عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كان الله ولم يكن شيء غيره، وكان عرشه على الماء وكتب في الذكر كل شيءٍ وخلق السموات والأرض"[38]

 کائنات کے وجود میں آنےسے قبل اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ پانی تھا اور اس عنصرکے علاوہ کوئی چیز وجود نہیں رکھتی تھی۔

 سکالر محمد رفیق اپنے آرٹیکل میں بیان کرتےہیں:

“The creation of material Universe started from water and passed from that state till the Earth assumed a shape and developed properties which could sustain human life.”[39]

پانی مادہ حیات ہے۔ انسانی، حیواناتی اور نباتاتی وسائل کی بقا ئے حیات کے لئے پانی بنیادی رکن ہے۔

امام ابن قیمؒ کے الفاظ میں:

" وَلِأَنَّ الْمَاءَ مَادَّةُ حَيَاةِ الْحَيَوَانِ وَالنَّبَاتِ"[40]

 مذکورہ عبارت سے ثابت ہو جاتا ہے کہ حیواناتی اور نباتاتی وسائل کا مادہ حیات پانی ہے۔ حیوانات، نباتات و جمادات کے ارتقاو بقا کا انحصار پانی پر ہے۔

اللہ تعالی کے آخری کلام میں فرمایا گیا ہے:

"وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ”[41]

" اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ "

قرآنی آیات کا ایک ایک لفظ انتہائی اہم رازو نیاز کا حامل ہوتا ہے۔ آیت قرآنی میں جو لفظ استعمال ہو اہے وہ زندہ ہونا جو قوت حیات کے مترادف ہے۔ قرآنی آیت کے اس ایک بیان سے قوت حیات کے نظریہ کو اتنی وسعت مل جاتی ہےکہ یہ وائرس اور ڈی این اے، مالیکیول وغیرہ کا مکمل احاطہ کرلیتی ہے۔ اس طرح ایک سائنسی حقیقت کو چودہ صدیاں پہلے ہی انسانیت کو بطور پیشگی بتا دیا گیا۔ قوتِ حیات پانی ہی سے نکلتی ہے اورپانی ہی سے قوت حاصل کرتی ہے۔ صرف تیس سال قبل ہی جدید سائنس نے قوت حیات کے لیے پانی کے ناگزیر ہونے کی حقیقت کو ثابت کیا ہے۔ [42]انسان، حیوان، پودوں، درخت وغیرہ سب چیزوں کی بنیاد پانی ہے۔ فرشتوں اور جنوں کی اصل بھی پانی ہے۔ تاہم اگر "كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ"ہر زندہ چیز کا وجود پانی سے ہے جس میں انسان کے ساتھ جن اور فرشتے بھی شامل ہیں، جب مٹی سے بننے والے انسان کا اصل پانی ہے توآگ اورنور سے بننے والے جنوں اور فرشتوں کا اصل بھی پانی ہو سکتا ہے۔[43]کائنات میں پائی جانے والی ہر چیز میں پانی کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ انسان، حیوانات، نباتات، پتھر اور معدنیات وغیرہ میں بالواسطہ یا بلاواسطہ پانی کا ہی کرشمہ پایا جاتا ہے۔

سلطان اسماعیل کے الفاظ :

“Water is the most important molecule in the life of an organism that the life originated in water is a well known fact. Nearly 80 to 85% of protoplasm is water.”[44]    

زندہ چیزوں کے بنیادی کیمیائی اجزاء ہائیڈروجن کا پل سا ہوتا ہے۔ جس سے ایک عضویے کی زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ جس ہائیڈروجن بانڈ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ہائیڈروجن اکثر تبدیل ہوکر نئے بندھن بناتا ہے اور اس طرح زندگی کی قوت کو تبدیل کر تا رہتا ہے، یہ ہائیڈروجن کے متبادل صرف پانی کے بہاؤ یا روانیت سے پیدا شدہ ہائیڈروجن سے ممکن ہو سکتا ہے۔ اس لیے پانی زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔ [45]

 اس ضمن میں انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا میں پانی کی افادیت :

“Water is a necessary constituent in the cells of all animal and vegetable tissues and in the crystals of many minerals.”[46]

ارشادِ نبویؐ ہے:        

" عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ شَيْءٍ خُلِقَ مِنَ الْمَاءِ"[47]

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں پائے جانے والی ہر چیز (حیوانات، نباتات، معدنیات وغیرہ) پانی سے تخلیق کا ثبوت و دلیل ہے۔

دنیا میں مرکب (مرکب سے مراد وہ اشیاء ہیں جو مادوں کے ملاپ سے تشکیل پاتے ہیں) پانی ہے۔ اس کا مالیکیول ہائیڈروجن کے دو اور آکسیجن کے ایک مالیکیول سے تشکیل پاتا ہے۔ ہائیڈروجن دنیا بھر میں سب سے عام ایٹم ہے جبکہ آکسیجن تیسرا ایٹم ہے جو عام پایا جاتا ہے اس لئےپانی نمبر ایک مرکب ہے۔ [48]پانی ہر ایک کی خلقت، نشوونما اور عروج و ارتقاء میں پانی کا بڑا حصہ ہے، انسانی زندگی میں ہر کام اور ہر لحظہ اس کی تلاش و جستجو ہے، ہر ایک کی زندگی کا بقابھی پانی پر منحصر ہے، کوئی بھی مخلوق خواہ حیوانات کی قبیل سے ہو یا نباتات و جمادات کی قبیل سے پانی کی ضرورت سے بے نیاز نہیں۔ پانی انسان کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ نعمت چونکہ بڑی فراوانی کے ساتھ عطا کی ہے اس لئے اس کی قدروقیمت محسوس نہیں کی جاتی جس شخص کے حلق میں پیا س سے کانٹے پڑ رہے ہوں اس کےلئے اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ بر وقت اسے دو گھونٹ پانی مل جائے۔

پانی ہر ایک کی خلقت، نشوونما اور عروج و ارتقاء میں پانی کا بڑا حصہ ہے، انسانی زندگی میں ہر کام اور ہر لحظہ اس کی تلاش و جستجو ہے، ہر ایک کی زندگی کا بقابھی پانی پر منحصر ہے، کوئی بھی مخلوق خواہ حیوانات کی قبیل سے ہو یا نباتات و جمادات کی قبیل سے پانی کی ضرورت سے بے نیاز نہیں۔ [49]زمین کے اوپر زندگی جس کسی شکل میں بھی ہے ‘ چاہے وہ نباتاتی حیات ہو یا حیوانی ‘ ہر جاندار چیز کا مادۂ تخلیق مٹی اور مبدأ حیات پانی ہے۔ مٹی (تُراب) اور پانی مل کر گارا (طِین) بنا۔ پھر یہ طینٍ لَّازب میں تبدیل ہوا۔ پھر اس نے حماأ مسنون کی شکل اختیار کی۔ اس کے بعد صلصالٍ مّنْ حَمَاأ مسنون کا مرحلہ آیا۔ پھر صلصا لٍ کا لفخّار بنا۔ مٹی سے ہر جاندار چیز کی تخلیق ہوئی اور ان سب کی زندگی کا دارومدار پانی پر رکھا گیا۔ چناچہ ہر جاندار کے لیے مبدأ حیات پانی ہے۔ [50]

ہارون یحییٰ زندگی کے لیے پانی کو اہمیت واضح کرتے ہیں:

“Although liquid water ,a fundamental requirement for life ,is found nowhere else in the solar system, three-fourths of Earth`s surface is covered with it.”[51]

زمین کے دوتہائی حصہ کو پانی نے ڈھانپ رکھا ہے، اور اشرف المخلوقات انسان کی تخلیق بھی اس طرح کی ہےکہ اس کے بدن کا چوتھا ئی حصہ پانی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر زندگی کا دارو مدار پانی پر رکھا ہے۔ [52] معروف یونانی فلاسفر ارسطو کے مطابق کائنات کی ہرچیز چار بنیادی قدرتی عناصر پانی، ہوا، مٹی اور آگ سے وجود میں آئی ہے۔ اس نے پانی کو دوسرے تین عناصر کی نسبت بھاری اوررطوبت و نمی والا قرار دیا۔ [53]

انسانی وجود کے لئے امام ابن قیمؒ پانی کی افادیت بیا ن کرتے ہیں:

"لَمَّا كَانَ فِي الْإِنْسَانِ جُزْءٌ أَرْضِيٌّ، وَجُزْءٌ هَوَائِيٌّ، وَجُزْءٌ مَائِيٌّ"[54]

 مذکورہ عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ پانی انسانی بدن کاتیسرا لازمی بنیادی جزو ہے۔

ڈاکٹر احسان الرحمٰن غوری کرہ ارض پر زندگی کے لئے پانی اور دوسرے عناصر کی اہمیت کے سلسلے میں رقمطراز ہیں:

“The environment of our earth consist on four types of layers; the Atmosphere (Air) , the Hydrosphere (water) ,the Lithosphere (soil and rock) , and the biosphere (life) .The first three comprises the abiotic or nonliving component of the ecosystem, whereas the biosphere is its biotic component of living component.”[55]

یہ حقیقت واضح ہے کرہ ارض پر زندگی کا وجود تین بنیادی عناصر کی بدولت برقرار ہے۔ پانی بقائے حیات کے لئے ضروری عناصر میں سےایک ہے۔ زندگی اور اس کے ضروری عناصر کو درج ذیل چارٹ سے واضح کیا جا سکتا ہے:

نمبر شمار

اردو

انگریزی

عربی

سائنسی

کیفیت

1

زندگی

Life

الحیات

Biospher

Living

2

ہوا

Air

الھوا

Atmosphere

Non-Living

3

پانی

Water

الماء

Hydrosphere

Non-Living

4

مٹی

Soil

الارض

Lithosphere

Non-Living

ہارون یحییٰ کرہ ارض پر زندگی کے بقا کے لئے پانی کی اہمیت یوں بیان کرتے ہیں:

“All the physical and chemical properties of water show us that it is created especially for life. The Earth, purposefully created for mankind to live in ,was brought to life with this water that was specially created to form the basis of human life.”[56]

مذکورہ بالا دلائل و براھین اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہر جاندار کی ابتداء اور اس کی پیدائش پانی سے ہوتی ہے اور اس کی بقاء بھی پانی پر منحصر ہے۔ قادر مطلق اللہ تعالیٰ نے ایک ہی پانی سے طرح طرح کی ان سب چیزوں کو وجود بخشا ہے۔ انسان، حیوانات، نباتات اور جمادات غرض ہر زندہ چیز کی بنیاد پانی ہے۔ ہر زندہ چیز پانی سے بنائی گئی ہے، پانی کرہ ارض پر زندگی کی بقا میں کلیدی کردار اد ا کرتا ہے۔

درجہ حرارت ( Temperature)

پانی انتہائی اہم وسیلہ ء حیات ہے کیونکہ پانی جسم اور کر ہ ارض کے درجہ حرارت کو معتدل رکھتا ہے۔

امام ابن قیم ؒ رقمطراز ہیں:

"وَالْمَاءُ الْبَارِدُ رَطْبٌ يَقْمَعُ الْحَرَارَةَ، وَيَحْفَظُ على البدن رطوباته الأصلية، ويرد عليه ما تحلل منها، ويرفّق الْغِذَاءَ وَيُنْفِذُهُ فِي الْعُرُوقِ."[57]

ٹھنڈا اور تازہ پانی جسم کے زیادہ درجہ حرارت کو کم کرتا ہے۔ اور جسم کی اصل رطوبتوں کی حفاظت کرتا ہے اور جو خوراک تحلیل ہو جاتی ہے، اس کی جگہ اور لاتا ہے۔ غذا کو نرم کرتا ہے اور اسے رگوں تک پہنچاتا ہے۔

ہارون یحییٰ انسانی جسم کے لیے پا نی کی نافعیت کو بیان کرتے ہیں:

“The thermal properties of water enable us to discharge excessive heat from our body through sweating.”[58]

پانی کسی بھی ذ ی روح کا درجہ حرارت مناسب و موزوں رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

ایک انگریز ماہر ماحولیات لکھتا ہے:

“It makes possible very effective regulation of the temperature of the living organism.”[59]

پانی کی بدولت زمین، فضا اوردوسری اشیاء یعنی حیوانات و نباتات کا درجہ حرارت معتدل رہتا ہے۔ پانی درجہ حرارت نارمل رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

ہارون یحیٰ لکھتے ہیں:

“Because of these unique thermal properties of water , the temperature differences between summer and winter or between night and day remain constantly within limits such that human beings and other living beings.”[60]

پانی کی منفرد خصوصیات کی وجہ سے ماحول کا درجہ حرارت مخلتف موسموں میں متعدل رہتا ہے۔

ایم ایس راؤ کے مطابق:

“Within the troposphere the air temperature generally falls with increasing height unlike the stratosphere, it is a turbulent, dusty zone, containing much water vapour and clouds.”[61]

مذکورہ عبارت حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ فضا کادرجہ حرارت پانی کی بخارات کی موجودگی کی وجہ سے مناسب اور معتدل رہتا ہے۔

صفائی (Cleanliness)

پانی طہارت و نظافت اور صفائی و پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔ پانی طہارت و نظافت کے لئے ضروری ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لِّيُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطٰنِ "[62]

" اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے "

آسمان سے پانی کا اتارنا اللہ تعالیٰ کی شانداررحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر آسمان سے پانی اتار ہے تا کہ ان کو ہر چھوٹی بڑی آلودگی سے پاک کردے۔ ہر قسم کی گندگی و آلودگی دور کرنے کے لئے پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔

 اس ضمن میں علامہ طنطاویؒ لکھتے ہیں:

" إنزال الماء من السماء نعمة عظمى تحمل في طياتها نعما وسننا. أولها: يتجلى في هذه الجملة الكريمة، أنه- سبحانه- أنزل على المؤمنين المطر من السماء ليطهرهم به من الحدثين: الأصغر والأكبر"[63]

پانی سے زندگی شروع ہوتی ہے اور وہی اس کا غالب جزوہے اور اسی پر مدارِ حیات ہے۔ ایک عام انسان کو اپنی صفائی، کھانا پکانے اور پینے کے لیے روزانہ تیس گیلن پانی ضرورت ہے اس کو وقتی طور پر تو کم کیاجاسکتا ہے لیکن مستقل طور پر ایسا کرنے سے تندرستی متاثر ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ یورپ میں جسمانی اورذاتی صفائی کا رواج نہیں۔ رفع حاجت کے بعد مصفا پانی سے جسم کو دھونا اسلام کی ایجادہے۔ اور پتھروں، مٹی کے ڈھیلوں یا کاغذوں سے غلاظت ہر گز دور نہیں ہوتی۔ غلاظت جسم سے چپکی رہ جاتی ہے۔ بالوں میں پھنس جاتی ہے اور بعد میں جلد کی بیماریوں کا باعث ہوتی ہے۔ رفع حاجت کے بعد جسم کو پانی سے دھونے اور باقاعدہ نہانے والے کو جلد کی اکثر بیماریاں نہیں ہوتیں۔ [64]

معاشی ضرورتEconomic Need))

پانی کسی بھی معاشرے یا ملک کی معیشت کے بہتری و ترقی کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل قدرتی وسیلہ ہے۔ پانی توانائی کے حصول انتہائی سستا اور ماحول دوست ذریعہ ہے۔

ڈاکٹر فرحت نسیم علوی رقمطراز ہیں:              

“It is used as local application as well as oral administration. It is also used in laboratories, factories and industries for producing different medicines, detergents, chemicals.”[65]

پانی تمام جاندار مخلوقات کے لئے انتہائی قیمتی نعمت ِ خداوندی ہے۔ پانی میں اکثر اشیا آسانی سے حل ہو جاتی ہیں۔ دنیا کی معیشت میں پانی کا اہم رول ہے۔ کارخانوں میں پانی کا استعمال کولنگ کے لئے وسیع پیمانے پر ہوتا ہے۔ تازہ پانی ستر فیصد زراعت میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں پانی کے معاشی پہلو:

"پانی ایک بیش بہا نعمت نعمت ہے، لیکن اس کی افراط اور تفریط سے بڑے کٹھن مسائل پیدا ہوتے ہیں، جس ملک کی معاشیات پر برا اثر پڑتا ہے۔ پاکستان میں بھی ان مسائل نے ہماری زراعت کو بہت متاثر کیا ہے۔ "[66]

توانائی کا یک اہم منبع جو دنیا کے تقریباً تین چوتھائی پر محیط ہے۔ یہ عظیم ذخیرہ لہروں کی توانائی کی صورت میں موجود ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کے کل سمندروں میں موجوں کی توانائی کا ذخیرہ تقریباً پچیس کھرب واٹ ہے۔ پانی کو بجلی پید ا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پن بجلی توانائی کے حصول کا سستا اور ماحول دوست ذریعہ ہے۔

بھارت کے جغرافیہ دان ایم ایس راؤ پن بجلی کے بارے میں لکھتے ہیں:

 “Water Power: Refers to energy obtained from natural or artificial waterfalls, and used either directly by turning a water wheel or a turbine, or indirectly by the generation of electricity in dynamos driven by turbines.”[67]

پانی سے توانائی حاصل کرنے کے لئے ڈیم تعمیر کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم اور دوسرے ڈیموں سے بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر کے مطابق دنیا بھر میں31 لاکھ لوگ سمندری کھانا کھاتے ہیں۔ یونیسکو کے مطابق سمندر بذریعہ ماہی گیری 54 لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق 94 فیصد حیات کا تعلق سمندر سے ہے۔ [68]کرہ ارض پر انسانوں، پودوں اور حیوانات سمیت ہر قسم کی زندگی کے لیے پانی ناگزیر ہے۔ قادر مطلق اللہ تعالیٰ نے ایک ہی پانی سے طرح طرح کی ان سب چیزوں کو وجود بخشا ہے۔

فرمانِ الہی ہے:

" وَاللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ "[69]

" اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا"

زمین پر اگنے والے ہر قسم کی گھاس، پودوں، سبزہ زاروں اور جڑی بوٹیوں کی بقا کا انحصار پانی ہے۔

 اس ضمن میں معروف سکار ابراھیم عبدالمتین لکھتے ہیں:

“Everything is made out of water and it is very vital for the survival of all living organisms such as animals, plants and human beings.”[70]

سید طنطاوی رقمطراز ہیں:

"خلقه الأنهار فيها لمنفعة الإنسان والحيوان والنبات" [71]

سید طنطاویؒ کی بیان کردہ مذکورہ عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ پانی کے ذرائع یعنی نہریں انسان، حیوانات اور نباتات کے فائدہ و نفع کے لئے بنائے گئے ہیں۔

انسان، حیوانات اور نباتات و جمادات کی حیات و بقا پانی کی بدولت ہے۔ پانی کے بغیر کسی بھی زندہ شے میں ہضم ہونے کا عمل مکمل نہیں ہوتا۔ حل ہونے والی اشیا ء پانی کے اندر حل ہو کر جسم و بدن میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ پانی کا پی ایچ لیول 7 ہوتا ہے اور جسم کا پی ایچ لیول بھی 365∙7 ہے۔ نباتا ت میں ضیائی تالیف کا کیمیائی عمل پانی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ ضیائی تالیف کے ذریعےہی پودے فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی گیس کا انجذاب کرتے ہیں اور آکسیجن گیس کا اخراج کرتے ہیں۔ [72]

امام ابن قیم ؒرقمطرازہیں:

"وَبَيْنَ الْحَيَوَانِ وَالنَّبَاتِ قَدْرٌ مُشْتَرَكٌ مِنْ وُجُوهٍ عَدِيدَةٍ مِنْهَا: النُّمُوُّ وَالِاغْتِذَاءُ وَالِاعْتِدَالُ، وَفِي النَّبَاتِ قُوَّةُ حِسٍّ تُنَاسِبُهُ، وَلِهَذَا كَانَ غِذَاءُ النَّبَاتِ بِالْمَاءِ، فَمَا يُنْكَرُ أَنْ يَكُونَ لِلْحَيَوَانِ بِهِ نَوْعُ غِذَاءٍ، وَأَنْ يَكُونَ جُزْءًا مِنْ غِذَائِهِ التام.."[73]

حیوانات اور نباتات میں بہت سی اشیاء مشترک ہیں۔ ان میں نشوونما پانا، غذا کا استعمال، بدن کو اعتدال پر رکھنا مشترک ہیں۔ نباتات میں احساس اور حرکت کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لئے نباتات اپنی غذا پانی سے حاصل کرتے ہیں۔ اور کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ حیوانات کے لئے غذا ہیں اور پانی ان کی غذاکا حصہ ہے۔ جن علاقوں میں بارش زیادہ ہوتی ہے وہاں جنگلات و نباتات کثیر تعداد میں پھلتے پھولتے ہیں۔

گردیپ راج لکھتا ہے:

“Rain forest is evergreen forest growing in regions of high rainfall where the dry season is short or absent. Epiphytes and climbers are abundant.”[74]

مذکورہ عبارت سے واضح ہوتا ہے جنگلات و نباتات کی بقا کے لئے بارش کا پانی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پانی نہ صرف زندگی کے لیےاہم ہے بلکہ ملک میں روزگار کا اہم ذریعہ بھی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان زراعت پر مبنی معیشت رکھتا ہے۔ دراصل آبی قلت زرعی اور معاشی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 90 فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔ ملک کی 60 فیصد آبادی زراعت اور لائیو سٹا ک کے پیشے سے وابستہ ہے۔ 80 فیصد برآمدات ٹیکسٹائل کی مصنوعات میں ٹیکسٹائل کی صنعت کا دارومدار زراعت پر ہے۔ [75]پانی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ اور اس کی رحمت کا سرچشمہ ہے، اس سےانسان، کیڑے مکوڑے، چرند پرند اپنے حسب ِضرورت مستفید و مستفیض ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پانی سے نباتات، انگوریاں اور فصلیں پیدا کرتا ہے جس سے دوسری مخلوقات کے ساتھ ساتھ انسان اپنی روزی اور دوسرے معاشی فوائد حاصل کرتا ہے۔ پانی کے معاشی فوائد ذکر کرنے کے ساتھ یہ بتانا مقصود ہے کہ پانی کی وجہ سے زمین سے زرعی فصلوں اور زر کا حصول ممکن الحصول ہوتا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَسُوْقُ الْمَاۗءَ اِلَى الْاَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا تَاْكُلُ مِنْهُ اَنْعَامُهُمْ وَاَنْفُسُهُمْ ۭ اَفَلَا يُبْصِرُوْنَ"[76]

" اور کیا ان لوگوں نے یہ منظر کبھی نہیں دیکھا کہ ہم ایک بےآب گیاہ زمین کی طرف پانی بہا لاتے ہیں، پھر اسی زمین سے وہ فصل اگاتے ہیں جس سے ان کے جانوروں کو بھی چارہ ملتا ہے اور یہ خود بھی کھاتے ہیں ؟ تو کیا انہیں کچھ نہیں سوجھتا ؟"

 کرہ ارض پر زرعی فصلوں کے وجود اور نشوونما کا انحصار پانی پر ہونا مذکورہ بالا آیت سے ثابت ہوتا ہے۔

سماجی ضرورت ( Social Need)

اسلام میں پانی کے انتظامی پہلو بیان کئے گئے ہیں۔ چونکہ پانی ہر فرد کی بنیادی ضرورت ہے اس لئے اسلام دوسروں کو پانی پلانا تحسین کی نگاہ سے دیکھتاہے۔ پانی مشترکہ معاشرتی پراپرٹی ہے۔ پانی معاشرہ میں رہائش پذیر ہر فرد کی بنیادی ضرورت ہےیہی وجہ ہے کہ قیامت کے روز ضرورت سے زائد پانی موجود ہونے کے باوجود منع کرنے والے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کلام نہیں کریں گے۔

نبی اکرم ؐفرماتے ہیں:

" ثَلَاثٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ عَلَى فَضْلِ مَاءٍ بِالْفَلَاةِ يَمْنَعُهُ مِنَ ابْنِ السَّبِيلِ "[77]

 مذکورہ بالا روایت سےثابت ہوتا ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظر رحمت کریں گے اور نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کریں گے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے، ایک تو وہ آدمی جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو پھر اس کے باوجود کسی مسافر کوپانی نہ دے۔

علا ؤ الدین الکسانی ؒ تحریر فرماتے ہیں:

"الْمَاءُ الَّذِي يَكُونُ فِي الْحِيَاضِ وَالْآبَارِ وَالْعُيُونِ فَلَيْسَ بِمَمْلُوكٍ لِصَاحِبٍ بَلْ هُوَ مُبَاحٌ فِي نَفْسِهِ، سَوَاءٌ كَانَ فِي أَرْضٍ مُبَاحَةٍ أَوْ مَمْلُوكَةٍ لَكِنْ لَهُ حَقٌّ خَاصٌّ فِيهِ لِأَنَّ الْمَاءَ فِي الْأَصْلِ خُلِقَ مُبَاحًا"[78]

ایک انگریز مصنف لکھتا ہے:

“It is public necessity and of public utility to conserve , preserve and increase water resources ; standard regulations governing water resources in order to ensure their rational , efficient , economic and multiple use ; and promote, finance and carry out investigations , research and other studies needed to achieve these ends.”[79]

مذکورہ بالا دلائل و شواہد سےنمایاں پہلو سامنے آتا ہےکہ پانی معاشرہ کی ضرورت ہے۔ اور اس کا تحفظ کرنا ہر فرد اور ہر ریاست کا فریضہ ہے۔ پانی کی انسانی حیات و بقا کے لئے ناگزیر ہے۔ پانی کی قدرو قیمت کا اندازہ وہی شخص لگا سکتا ہے جسے پانی میسر نہ ہو اور وہ پیاسا ہو۔ اسی لئے اسلام میں پیاسے شخص کی پیاس بجھانا باعثِ اجر ہے۔

ارشاد نبویؐ ہے:

" عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَيُّمَا مُسْلِمٍ كَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا عَلَى عُرْيٍ، كَسَاهُ اللَّهُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّةِ، وَأَيُّمَا مُسْلِمٍ أَطْعَمَ مُسْلِمًا عَلَى جُوعٍ، أَطْعَمَهُ اللَّهُ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، وَأَيُّمَا مُسْلِمٍ سَقَى مُسْلِمًا عَلَى ظَمَإٍ، سَقَاهُ اللَّهُ مِنَ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ"[80]

پانی اللہ تعالیٰ کی بیش قیمت نعمت ہے۔ جب کوئی پانی پلائے تو اسے دعا دینا اخلاقی فریضہ ہے۔ آپﷺنے پانی پیش کرنے کی وجہ سے ایک یہودی کو دعا دی۔ ایک مرتبہ سید الرسلﷺ نے پانی طلب کرنے پرایک یہودی نے پانی پیش کیا آپﷺ نے دعا دی کہ ربِ کریم تجھ کو جمیل بنا دیں۔ چنانچہ موت تک اس پر بڑھاپے کا اثر نہیں دیکھا گیا۔ [81]

 آبی حیات (Water Life)

پانی ایک منفرد مائع ہے جو دوسرے مائعات سے جداگانہ اور انفرادی خصوصیات رکھتا ہے۔

ہارورن یحییٰ لکھتے ہیں:

“Other liquids from the bottom up; water freezes from the top down. This is the first unusual property of water mentioned above and it is crucial for the existence of water on the surface of the Earth… if this did not float , much of our planet`s water would be locked up in ice and life would be impossible in its seas, lakes , ponds and rivers.”[82]

ایک انگریز ماہر ماحولیات پانی کی خصوصیات بیان کرتا ہے:

“The peculiar properties of water are very important for the maintenance of life, especially in aquatic systems. Unlike most substances, solid water (ice) floats to the surface…Furthermore, a layer of ice, being poor conductor of heat, acts as an insulator, or blanket, and retards the cooling of the water beneath it.”[83]

ایک تحقیق کے مطابق انٹارکٹیکا آبادی سے خالی برفیلا خطہ نہیں بلکہ پہلا سمندری حیاتیات سے تعلق رکھنے والے انوکھے جاندار موجود ہیں۔ تما م تشریحات و توضیحات بالا سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہےکہ پانی کے تما م طبعی خواص و کیمیائی خواص آبی حیات کے وجود اور بقا کے لیے ناگزیر ہیں۔

پانی کے ذرائع

بارش، سمندر، دریا، گلیئشیر، چشمے، ، پہاڑ ی ندی نالے، آبی ذخائر، کنویں اورزیر زمین پانی کے قدرتی ذرائع ہیں۔ ہر سال شمالی اور وسطی علاقوں میں 750 ملی میٹر بارشیں ہوتی ہیں۔ پنجاب میں متعدد جگہوں پر قدرتی طورپر نمک کے پہاڑ وں کے قدرتی سلسلوں کی وجہ سے وہاں زیرِ زمین پانی نمکین ہے۔ [84]پنجاب کے 79 فیصد رقبے میں زیرِ زمین پانی صاف اور تازہ ہےجبکہ بعض علاقوں میں نمکین اور کھارا ہے۔ سندھ کے 28 فیصد رقبے کا زیرِ زمین پانی صاف اور تازہ ہے۔ بعض جگہوں پر زیرِ زمین پانی بلند سطح پر ہے، جس کی وجہ سے زمینیں سیم اورتھور کا شکار ہو رہی ہیں۔ بعض جگہوں پر پانی اتنا گہرا ہے کہ اس کا نکالنا مشکل ہوتا ہے۔

 ورلڈ بک ڈکشنری میں ہے:

“The liquid that fills the oceans ,rivers, lakes, and ponds ,and falls from the sky as rain. We use water for drinking and washing.”[85]

 سمندر (Sea)

سمندر موسمی حالات کو متوازن کرنے کے لیے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ آکسیجن جس سے ہم سانس لیتے ہیں، اس کا 60 فیصد حصہ سمندری پودوں کی پیداوار ہے۔ اسی تناسب سے کاربن ڈائی اکسائیڈ بھی یہ نمکین پانی کا ذخیرہ اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ ناسا کی تحقیق کے مطابق دنیا کی 86 فیصد عملِ تبخیر سمندروں سے ہوتی ہے۔ سمندروں کے فائدےکا اندازہ االلہ تعالیٰ کے آخری کلام قرآن مجید میں سمندر کا تذکرہ کئی مرتبہ دہرانے سے بخوبی ہوتا ہے۔

سمندر کے متعلق ایک آیت ِ قرآنی میں ہے:

" وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَــٰٔتُ فِي الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ"[86]

" اور یہ جہاز اسی کے ہیں جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح اونچے اٹھے ہوئے ہیں۔ "

امام ابن قیم ؒ رقمطراز ہیں:

" مَاءُ الْبَحْرِ: ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ فِي الْبَحْرِ: هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ. وَقَدْ جَعَلَهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ مِلْحًا أُجَاجًا مُرًّا زُعَاقًا لِتَمَامِ مَصَالِحِ مَنْ هُوَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ."[87]

سمندر وں کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے ہر سال 8 جون کو سمندروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ سمندر موسمی حالات کو متوازن کرنے کے لیے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ آکسیجن جس سے ہم سانس لیتے ہیں، اس کا 60 فیصد حصہ سمندری پودوں کی پیداوار ہے۔ اسی تناسب سے کاربن ڈائی اکسائیڈ بھی یہ نمکین پانی کا ذخیرہ اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ ناسا کی تحقیق کے مطابق دنیا کی 86 فیصد عملِ تبخیر سمندروں سے ہوتی ہے۔ دنیا کا 78 فیصد عملِ ترسیب بھی سمندروں کے اوپر ہی ہوتا ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر کے مطابق دنیا بھر میں31 لاکھ لوگ سمندری کھانا کھاتے ہیں۔ یونیسکو کے مطابق سمندر بذریعہ ماہی گیری 54 لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق 94 فیصد حیات کا تعلق سمندر سے ہے۔

ابن سینا رقمطراز ہیں:

"مَاء الْبَحْر ينفع من الشقاق الْعَارِض من الْبرد قبل أَن يتقرج وَيقتل الْقمل ويحلل الدَّم المنعقد تَحت الْجلد"[88]

ایک انگریز مصنف سمندروں کے بارے میں اظہار خیال کرتا ہے:

“The greatest bodies of water are found in the oceans. These large bodies of water are constantly in motion both near the surface through wave action and more deeply though currents..”[89]

سمندر کا پانی پاک ہے، اس سے وضو کرنا یا کسی دوسرے استعمال میں لانا جائز ہے۔ سمندر کے پانی میں نہانے سے خارش ہوجاتی ہے کیونکہ اس کا پانی نمکین اور کھارا ہوتا ہے۔ سمندر کے پانی کو صاف و شفاف کرکے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

 حضرت جابرؓ سے روایت ہے:

" عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ مَاءِ الْبَحْرِ، فَقَالَ: هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ، الْحِلُّ مَيْتَتُهُ"[90]

 نبی کریم ﷺ سے سمندر کے پانی کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: اس کا پانی حلال ہے اور مردار حلال ہے۔

انڈیا کے ماہرِ علوم جغرافیہ سمندر کی خصوصیات بیا ن کرتے ہیں:

“Sea: Refers to one of the smaller divisions of the oceans, particularly if partly enclosed by land e.g., Mediterranean Sea, North Sea, a large expanse of inland salt water, even if completely landlocked, e.g., Caspian Sea.”[91]

سمندر کا پانی سمندری حیات کے لیے منفرد خصوصیت رکھتا ہے۔

ہارون یحییٰ لکھتے ہیں:

“Although it blocks all other forms of radiation, water allows visible light to penetrate into its depth for many meters. Because of this, sea plants are able to perform photosynthesis. If water did not have this property, the ecological balance necessary for life on our planet could not have come into being.”[92]

مشرقِ وسطیٰ میں بحیرہ مردار، دنیا کے بقایا پانی میں سے دو فیصد قطبین، سائبیریا اور دوسرے برفانی علاقوں میں منجمد برف کی صورت میں ہے اور صرف ایک فیصد دریاؤں، جھیلوں، ندی نالوں اور تالابوں کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ سمندروں میں نمک کی مقدار انسانی جسم میں پائے جانے والے نمکیات سے براہِ راست تناسب میں ہے۔ سمندر کا نمکین اور کڑوا ہونے میں انسانوں اورحیوانات کے لئے خیر و بھلائی پوشیدہ ہے۔

کڑوا پانی ہر قسم کی بدبو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر سمندر کا پانی نمکین اور کڑوا نہ ہوتا تو سمندر میں مرنے والے جانوروں کی وجہ سےپانی بدبودار ہوتا جس سے ماحولیاتی آلودگی پھیلتی اور اسطرح موذی امراض پھیلنے کا اندیشہ تھا۔[93] ساری دینا کے مردار بھی سمندر میں ڈال دیے جائیں تو سمندر کا نمکین پانی اسے جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سمندروں کے نمکین پانی میں حکمت ومصلحت رکھی ہے۔

بارش (Rain)

بارش پانی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ بارش سے ہوا صاف اور خوشگوار ہو جاتی ہے۔ فضا میں مٹی کے اجزا ختم ہو جاتے ہیں۔ نباتات اور حیوانات تازگی محسوس کرتے ہیں۔ زمین میں نباتات کی نشوو نما کے لئے زرخیزی اور نرمی پیدا ہو جاتی ہے۔ پانی انسانی زندگی کے لیے نہایت اہم غذائی چیز ہے۔ کرہ ارض پر ہر جاندار حتیٰ کہ حیوانات، نباتات اور جمادات کی زندگی کے لیے بھی پانی انتہائی ضروری ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں بارش کی اہمیت و افادیت پر شاہد ہیں۔

ایک مقام پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:

"وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ"[94]

" بار آور ہواؤں کو ہم ہی بھیجتے ہیں، پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں، اور اس پانی سے تمہیں سیراب کرتے ہیں۔ اس دولت کے خزانہ دار تم نہیں ہو۔ "

مذکورہ آیت قرآنی کا تجزیہ ومطالعہ بتاتا ہے کہ بارش انسان کے لئے خزانہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

کائنات کے مالک نے فرمایا ہے:

"وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا "[95]

"اور ہم نے آسمان سے برکتوں والا پانی نازل کیا"

 مذکورہ بالا آیت ِ قرآنی سے بارش کا پانی بابرکت ہوناثابت ہوتا ہے۔ اسی لئے عموماًبارش کو بارانِ رحمت کہا جاتا ہے۔

 ممتاز محقق سید مودودیؒ بارش کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں:

"بارش کی برکت یہ ہے کہ اس زمین سیراب ہوتی ہے، فصلیں خوب تیار ہوتی ہیں، خوشحالی بڑھتی ہے۔”[96]     

"التفسیر الوسیط للقرآن الکریم" میں ہے:

" ونزلنا من السحاب ماء مباركا كثير الخيرات - أنزلناه - في جميع الأقاليم في أوقات مناسبة لمصالح العباد"[97]

ہارون یحییٰ بادلوں کے خواص بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:           

“Every cloud contains thousands –sometimes millions-of tons of water in the form of the vapor.”[98]

مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بادل میں بعض اوقات بخارات کی شکل میں لاکھوں ٹن پانی پایا جاتا ہے۔

ڈکشنری آف انوائرنمنٹ میں ہے:

“A layer of almost texture less cloud which spreads characteristically across the sky ahead of the warm front of an advancing cyclone. It is caused by the slow ascent of air over area, and halos are often seen around the cloud in it.”[99]

مذکورہ عبارت واضح کرتی ہے کہ بعض اوقات بادلوں میں سورج کا حلقہ نور انتہائی پرکشش، دلکش اور دلفریب ہوتا ہے۔

امام ابن قیم ؒ لکھتے ہیں:

"وَمَاؤُهُ أَفْضَلُ الْمِيَاهِ، وَأَلْطَفُهَا وَأَنْفَعُهَا وَأَعْظَمُهَا بَرَكَةً، وَلَا سِيَّمَا إِذَا كَانَ مِنْ سَحَابٍ رَاعِدٍ، وَاجْتَمَعَ

فِي مُسْتَنْقَعَاتِ الْجِبَالِ، وَهُوَ أَرْطَبُ مِنْ سَائِرِ الْمِيَاهِ، لِأَنَّهُ لَمْ تَطُلْ مُدَّتُهُ عَلَى الْأَرْضِ، فَيَكْتَسِبُ مِنْ يُبُوسَتِهَا"[100]

"بارش کا پانی سب پانیوں سے زیادہ لطیف ہوتا ہے اور ساتھ ہی سب سے زیادہ نافع اور بابرکت ہوتا ہے۔ ایسی بارش جس میں بجلی کی کڑک ہو اور اس کے بخارات پہاڑوں جمع ہوئے ہوں۔ یہ دوسرے پانی سے زیادہ مرطوب ہے کیونکہ یہ قلیل مد ت زمین پر رہتا ہے لہٰذا یہ پانی خشک مزاج سے بچا رہتا ہےاور اس میں خشکی والا جوہر شامل نہیں ہوتا۔ ہر جاندار کی ابتداء اور اس کی پیدائش پانی سے ہوتی ہے اور اس کی بقاء بھی پانی پر ہے۔ بارش مردہ زمین میں زندگی ڈالتی ہے۔

ترکی کے ڈاکٹر ہلوک نور باقی بارش کے بارے میں سائنسی تجزیہ کرتے ہیں:

" پانی کے قطرے جب وہ بہت چھوٹے اور خالص ہوں تو منفی چالیس ڈگری تک نہیں جمتے۔ اگر پانی نا خالص اور بڑی مقدار میں ہو تو وہ صفر ڈگری سینٹی گریڈ پر جم جاتاہے۔ بادل ایک خاص مادی ساخت ہے جو بھاپ سے بنتا ہےلیکن جو فوراًہی پانی کے باریک قطروں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس لیے عام پانی سے مختلف ہوتا ہے۔ "[101]

جو جمادات ہیں وہ پانی سے مستغنی نہیں، چاہے زمین ہو یا پتھر سب کو پانی کی ضرورت ہے، اسی لیے اللہ نے فرمایا ہے جب زمین مردہ ہو جاتی ہے۔ تو آسمان سے بارش آب حیات بن کر زمین سے ہم آغوش ہوتی ہےاور اس طرح اس کے لیے زندگی کا نیا سروسامان پید اکرتی ہے۔ [102]

پانی زمین کے اندر سے نکلتا ہے یا بارش سے گرتا ہے لیکن یہاں تو بڑی شان سے بتایا گیا ہے ہم نے اوپرسےپانی نازل اتارا۔ ہمارا مشاہدہ تصدیق نہیں کرتا لیکن بیسویں صدی میں ہونے والی سائنسی دریافتیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ واقعی پانی آسمان ہی سے نازل ہوتا ہے۔ ناسا نے 1980ءکی دہائی میں یہ مشاہدہ کیا کہ آسمانوں کی طرف سے بہت بڑے بڑے برفانی تودے زمین کی طرف گرتے رہتے ہیں لیکن اس کی فضائی چھت کی رگڑ کی وجہ سے اوپر ہی بخارات میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ یہ پانی زمین کی طرف پہنچتا ہے۔ [103]بارش غیر معمولی خواص کی حامل ہوتی ہے۔ بارش کے قطرے آہستہ آہستہ زمین پر گرتے ہیں۔ بارش کے قطرے پیراشوٹ کی مانند مناسب رفتا ر سے زمین پر آتے ہیں۔ بارش کے سائنسی پہلوپر رابرٹ بائرز کی تصنیف"ایلی منٹ آف کلاؤڈ فزکس " ایک لائق ِ مطالعہ کتاب ہے۔

بادل ایک خاص مادی ساخت ہے، جو بھاپ سے بنتا ہے، فوراً پانی کے باریک قطروں کی شکل اختیار کر لیتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق پانی کے قطرے جب بہت چھوٹے اور خالص ہوں تو منفی 40 ڈگری سنٹی گریڈ تک جمتے ہیں، اگر پانی ناخالص ہو تو صفر ڈگری سنٹی گریڈ پر جم جاتا ہے، ایک مکعب سنٹی میڑ بادل میں ایک باریک قطرے ہوتے ہیں، بارش کے قطرے بادل میں 50 سے 500 فی مکعب سنٹی میڑ ہوتے ہیں، حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جوں جوں زمین کے قریب بارش کے قطرے آتے ہیں تو ان کی سطح میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے، ہوا کی رگڑ کی وجہ سے زمین پر آتے آتے پیراشوٹ کی طرح ان کی رفتار کم ہوتی جاتی ہے۔ [104]

گلیشیرز (Glaciers)

گلیشئرز آبی وسائل کا ایک اہم قدرتی ذریعہ ہے۔ پہاڑوں پر کثرت سے ہونے والی برف باری کی بدولت بڑے بڑے گلیشئرز جنم لیتے ہیں۔ ان کے پگھلنے کی بدولت دریا اور ندی نالے سارا سال رواں دواں رہتے ہیں۔ انسانوں، حیوانوں، نباتات وحیوانات، شجر و حجر اور صنعت و زراعت کو ان دریاؤں سے پانی میسر ہوتا ہے۔ پاکستان میں چند بڑے گلیشئر ز کے نام سیاچن، بولتورو، بیافو، ہسپر، ریمو اور بتورا ہیں۔

پاکستان میں دنیا کے سب سے بڑے گلیئشیر (برفانی تودے) موجود ہیں۔ ہندو کش، ہمالیہ اور قراقرم کے عظیم پہاڑی سلسلوں میں دنیا کے کئی بڑے گلیشیرز موجود ہیں، انہیں واٹر ٹاورز آف ایشیا کہنا بالکل بجاہے۔ اور یہ ہزاروں سالوں سے خطے کو تازہ پانی فراہم کررہے ہیں۔ ان سے افغانستان، پاکستان، چین، بھارت، نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش اور برما منسلک ہیں، سوا ارب انسانوں کی زندگیوں کا دارومدار انہی پر ہے۔ [105]

Dictionary of Environment میں گلیشئر کی تعریف :                        

“A body of ice originating on land by the compaction and recrystatallisation of snow, and showing evidence of present or past movement. Glaciers occur where winter snowfall exceeds summer melting. Altogether they occupy about 10 % of the Earth` s land surface and contain about 98 % of the planet`s fresh water.”[106]

برفانی تودے برف کا وسیع سلسلہ ہوتےہیں۔ برف کا مزاج گرم اور دھویں والا ہے۔ نبی کریم ﷺ دعا میں برف کےالفاظ استعمال کرتے تھے: اے اللہ: میرے اللہ گناہوں کو برف اور سرد پانی سے دھو دے۔

امام ابن قیم ؒ لکھتے ہیں:

" الثَّلْجُ لَهُ فِي نَفْسِهِ كَيْفِيَّةٌ حَادَّةٌ دُخَّانِيَّةٌ، فَمَاؤُهُ كَذَلِكَ، وَقَدْ تَقَدَّمَ وَجْهُ الْحِكْمَةِ فِي طَلَبِ الْغَسْلِ مِنَ الْخَطَايَا بِمَائِهِ لِمَا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ الْقَلْبُ مِنَ التَّبْرِيدِ وَالتَّصْلِيبِ وَالتَّقْوِيَةِ، وَيُسْتَفَادُ مِنْ هَذَا أَصْلُ طِبِّ الْأَبْدَانِ وَالْقُلُوبِ"[107]

مذکورہ عبارت سے عیاں ہوتا ہے کہ برف کا پانی گرم اور دھوئیں والا مزاج رکھتا ہے۔ آپ ﷺ گناہوں کو برف کے پانی دھونے کی دعا کرتے تھے کیونکہ گناہوں کا تاثیر گرم ہوتا ہے اور دل کو تقویت اور ٹھنڈک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی حدیث سے اصول کرتے ہوئے طبی ماہرین مزاج کے الٹ بیمار یوں کا علاج کرتے ہیں یعنی گرم مزاج والی بیماریوں کا سرد مزاج والے قدرتی وسائی سے علاج ہوتا ہے۔

انڈیا کے ماہرِ ماحولیات 'گردیپ راج'گلیشیرز کے بارے میں لکھتے ہیں:

“Piedmont glaciers: intermediate between valley glaciers and ice sheets , and comparatively rare ,are valley glaciers that spread out across lowland at the foot of a mountain range.”[108]

دنیا بھر میں صرف تقریباً اڑھائی فیصد میٹھا پانی ہے۔ جس کا ۸۷ فیصدبرف کی صورت میں جما ہواہے جوزیادہ تر گلیشیرز کی شکل میں ہے۔ سردیوں میں ان کے حجم میں اضافہ ہو جاتا ہے اور موسمِ گرما میں پگھل کر ان کا پانی دریاوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ گویا گلیشیرز پانی کے اہم ذریعے ہیں۔ گلیشیرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ [109] پاکستان میں دریاؤں کے بہاؤ کا دارومدار 41 فیصد گلیئشیرز کے پگھلنے 22، فیصد برف پگھلنے اور 27 فیصد بارشوں پر ہے۔ پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش کے علاقوں میں گلیشئرز کی تعداد 7200 سے زیادہ ہے، ان گلیشئرز کی بدولت وطن عزیز کے دریاؤں کا نظام جسے ارسا کہا جاتا ہے۔ اکثر گلیشئرز مسلسل پگھل رہے ہیں اس کا بڑا سبب درجہ حرارت میں اضافہ ہے، جب گلیشئیرزپگھلتے ہیں تو اطراف میں جھیلیں بن جاتی ہیں، جو پانی اور برف سے بھری ہوتی ہیں۔ [110]

پاکستان میں اوسط درجہ حرارت بڑھنے سے شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور چترال کے علاقوں میں واقع گلیشئرز کے پگھلاؤ میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے 10 سے 12 سالوں کے درمیان ہمارے 40 سے 60 میڑ گلیشئرز پگھل چکے ہیں۔ 2001ء سے 2013ء تک ہمالیہ اور قراقرم میں 600 سے زائد نئی گلیشائی جھیلیں بن چکی ہیں، جن میں سے 36 جھیلوں کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ [111] بھارت کی جانب سے سیاچین پر پیش قدمی کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ دنیا کا سب سے اونچا محاذِ جنگ یہی جگہ ہے، ۱۳۰۰۰ سے ۲۲۰۰۰ فٹ اونچائی پر ہے۔ گاڑیوں کے دھویں سے کاربن سمیت مختلف گیسیں خارج ہوتی ہیں، جس سے گرمی بڑھ رہی ہے۔ کاربن جب برف پر جمتا ہے، تو سورج کی گرمی کو تیزی سے جذب کرتا ہے اور پگھلنے کی رفتار کو تیز کرتا ہے۔

دریا (River)

دریا پانی کا قدرتی ا ور اہم وسیلہ و ذریعہ ہے۔ پانی کے دریاؤں کی اہمیت و افادیت انتہائی زیادہ ہے۔ قرآن کریم میں پانی کے دریا ؤں کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَهُوَ الَّذِيْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ وَاَنْهٰرًا "[112]

" اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیے ہیں۔ "

اللہ تعالیٰ نے دریا ؤں کو انسانوں، حیوانات اور نباتات کی منعفت کےلئے بنایا ہے۔ نبی مکرم ﷺنے دریائے جیحان، دریائے سیحون، دریائے نیل اور دریائے فرات کو جنت کے دریا قرار دیا ہے۔ ان چار دریاؤں کاپانی کئی لحاظ سے خاص ہے۔

ارشادِ نبوی ؐہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَيْحَانُ وَجَيْحَانُ، وَالْفُرَاتُ وَالنِّيلُ كُلٌّ مِنْ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ"[113]

 روایت بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ دریائے سیحون، دریائے جیحون، دریائے فرات اور دریائے نیل جنت کے دریا ہیں۔ نبی آخرالزماں ﷺکے دور میں بھی دریاؤں کی خاصی اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ دریاؤں کا پانی حیوانات و نباتات اور آبی حیات کے وجود اور بقا کے لئے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

مذکورہ دلائل و براھین سے ثابت ہوتا ہے کہ دریا آبی وسائل کا اہم ذریعہ ہیں۔ دریا جدید اور اسلامی علوم و فنون میں خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

زیر ِ زمین پانی (Underground Water)

زیرِ زمین پانی آبی وسائل کا قدرتی ذریعہ ہے۔ پنجاب میں متعدد جگہوں پر قدرتی طورپر نمک کے پہاڑ وں کے قدرتی سلسلوں کی وجہ سے وہاں زیرِ زمین پانی نمکین ہے۔ پنجاب کے 79 فیصد رقبے میں زیرِ زمین پانی صاف اور تازہ ہےجبکہ بعض علاقوں میں نمکین اور کھارا ہے۔

بھارت کے ماہرِ ماحولیات"گردیپ راج" لکھتے ہیں:

“Water that occupies pores and crevices in rock and soil, below the surface and above a layer of impermeable material, as opposed to surface water, which remains at or close to the land surface.”[114]

پانی کے زیرِ زمین ذخائر کے تیزی کم ہورہے ہیں اسی لئے ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ عالمی جنگ پانی کی خاطر لڑی جائے گی۔

ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

"قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَاۗؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَّاْتِيْكُمْ بِمَاۗءٍ مَّعِيْنٍ"[115]

"ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر تمہارے کنوؤں کا پانی زمین میں اتر جائے تو کون ہے جو اس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمہیں نکال کر لادے۔ "

مذکورہ بالا دلائل و براھین ثابت کرتے ہیں کہ زیرِ زمین آبی وسائل کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ قرآن پاک میں زیرزمین پانی کا تذکرہ کیا گیا ہے جس سے زیر زمین پانی کی افادیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

کنواں (Well)

کنواں پانی کا اہم ذریعہ ہے۔ شروع شروع میں قابل ِ نوش پانی کے حصول کا ذریعہ کنواں ہی تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی حاصل کرنے کے لئے دوسرے جدید ذرائع بھی متعارف ہوتے گئے۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے ہاں قیام کے دوران پیارے آقاﷺ کنویں کا میٹھا پانی استعمال کیا کرتے تھے۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے پاس جب رسول اللہ ﷺ کا قیا م ہوتا تھا تو مالک بن نصرؓ کے کنویں کا میٹھا پانی لایا جاتا تھا۔ [116]

ایم ایس راؤ لکھتاہے:

 “Well: Refers to an underground source of water that has been rendered accessible by the drilling or digging of a hole from ground level to Water-Table, the water may then be raised or pumped to the surface.”[117]

صحراؤں میں 'واٹر ہول 'پائے جاتے ہیں۔ بھارت کے ایم ایس راؤ اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

“Waterhole: Refers to a hole having water, found in the hot deserts or savanna lands, sometimes in the bed of an intermittent stream, used by animals and men.”[118]

جب آقا دوجہاں ﷺمکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے یثرب تشریف لائے بئر رومہ کے علاوہ عام لوگوں کے لئے کوئی میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا۔

علامہ الشوکانیؒ حضرت عثمان (رض) کی روایت نقل کرتے ہیں:

" وَعَنْ عُثْمَانَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِئْرِ رُومَةَ، فَقَالَ: مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ فَيَجْعَلَ فِيهَا دَلْوَهُ مَعَ دِلَاءِ الْمُسْلِمِينَ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ؟ فَاشْتَرَيْتُهَا

مِنْ صُلْبِ مَالِي"[119]

بئر الہشیم مدینہ منورہ میں پانی کا بہترین ذریعہ تھا۔ آپﷺ کے لیے اس کنویں سے پانی لایا جاتا تھا۔ مدینہ منورہ میں بہترین کنواں بئر الہشیم بن انھان تھا۔ حضرت ھشیم بن نصر رضی اللہ عنہ وہاں سے آپ ﷺ کےلیے پانی لایا کرتے تھے۔ [120]

کنواں دور رسالت میں آبی وسائل کا اہم ذریعہ تھا۔ موجودہ دور میں بھی بعض علاقوں میں کنواں پانی کی ضروریات پورا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔

چشمے (Springs)

چشمہ پانی کا اہم قدرتی ذریعہ ہے۔ پہاڑی علاقوں میں تازہ پانی کی جھیلیں جنم لیتی ہیں، جن سے مقامی آبادی کی پانی کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ ان جھیلوں سے نکلنے والا تازہ پانی چشموں کی صورت میں پہاڑوں سے باہر نکلتا ہے۔ پانی ایک قدرتی و قیمتی نعمت ہے۔ جتنے بھی قدیم شہر کرہ ارض پر موجود ہیں، وہ دریاؤں اور چشموں کے کنارے آباد ہوئے تھے۔ قرآن مجید میں چشموں کے پانی کا تذکرہ ہے۔

رب کریم نے فرمایا ہے:

"وَّفَجَّــرْنَا فِيْهَا مِنَ الْعُيُوْنِ"[121]

" اور اس کے اندر چشمے پھوڑ نکالے۔ "

نبی کریمﷺ کو چشمے کا پانی پسند تھا۔ آپ ﷺ مدینہ منورہ کےقریب "سقیا" نامی چشمے کا پانی استعمال کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اور گھروالوں کے لئے ایک چشمہ” سقیا " وہاں سے پانی لایا جاتا تھا۔ وہ چشمہ مدینہ سے دو دن کی دوری پر تھا۔ [122]

ارشاد نبویؐ ہے:

"عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْتَقِي لَهُ الْمَاءَ الْعَذْبَ مِنَ السُّقْيَا"[123]

پانی انسانی زندگی کے لیے نہایت اہم غذائی چیز ہے۔ زمین پر زندگی کا دارومدار پانی پر ہے۔ کرہ ارض پر ہر جاندار حتیٰ کہ پودوں اور درختوں کی زندگی کے لیے بھی پانی انتہائی ضروری ہے۔ فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں قدرتی چشموںسے حاصل کردہ معدنی پانی وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:               

“Large quantities of bottled water from mineral springs in France and other European countries are exported each year.”[124]

مذکورہ دلائل و براھین سے ثابت ہوتا ہے کہ چشمے پانی کا قدرتی ذریعہ ہیں اور اسلام میں چشموں کے پانی کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ دورحاضر میں بھی ترقی یافتہ ممالک میں چشموں کے پانی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

آبی بحران اور اس کے اسباب و اثرات

آبی بحران (Water Crisis)

بین الاقوامی ادارے "ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ "کی رپورٹ کے مطابق 2040ء تک پاکستان کا شمار اس خطے میں پانی کے شدید ترین مسائل سے دوچار ان ممالک میں ہوگا جہاں کوئی شخص اس سے محفوظ نہیں ہو گا، خواہ وہ شمال میں رہتا ہو جہاں پانچ ہزار گلیشئر ہیں یا جنوب کے وسیع وعریض میدانی علاقوں میں رہائش پذیرہو۔

ورلڈریسورسز کی رپورٹ :

“ Pakistan is on track to become the most water-stressed country in the region, and 23rd in the world, by the year 2040. No person in Pakistan, whether from the north with its more than 5,000 glaciers, or from the south with its ‘hyper deserts’, will be immune to this.”[125]  

 ڈاکٹر فضل کریم خان لکھتے ہیں:

“Safe and clean drinking water is a basic necessity. In many areas drinking water is no available in adequate quantity. Sometimes the water has to be fetched from long distances .Dry conditions prevail over a large part of Pakistan.”[126]

مذکورہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا بڑا حصہ آبی بحران سے دوچار ہے۔ بعض علاقوں میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی لانے کے لئے دور دراز علاقوں سے بہت مشقت اٹھانا پڑتی ہے۔ پاکستان میں پانی کی مقدار 1990ء میں ہی واٹر سٹریس لائن سے نیچے جا چکی تھی۔ 2005ء تک کم ترین سطح سے بھی پانی نیچے چلا گیا۔ اندیشہ یہ ہے کہ 2025ء تک پاکستان کو شدید آبی قلت کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔

واپڈا کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان آبی وسائل کی قلت کے شکار پندرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جبکہ پانی کے استعمال کے حوالے سے پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔ پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت انتہائی کم ہے۔ ہر گزرتا سال آبی وسائل کی قلت کے مسئلے کو سنگین کر رہا ہے۔ کالا باغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے ہر سال 35 ملین ایکڑ فٹ پانی کا ضیاع ہوجاتا ہے۔ آبی ذخائر کی کمیابی کی وجہ سے برسات کا پانی انسانوں اور فصلوں کو ڈبوتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے۔ ہر سال 25 چھوٹے بڑے آبی ذخائر تعمیر کرنا ضروری ہے تاکہ آنے دنوں میں آبی وسائل کی قلت جیسے مسائل پر قابو پایا جا سکے۔ [127]

عالمی رپورٹس (World Reports)

عالمی مالیاتی فنڈ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پانی سنگین قلت کے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔

عالمی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ :

“According to a recent report by the International Monetary Fund (IMF) , Pakistan ranks third in the world among countries facing acute water shortage.”[128]

 پنجاب میں کم وبیش 12 لاکھ زرعی ٹیوب ویلز شہری، زرعی اور صنعتی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ زیرِ زمین پانی میں بہت کم پانی ڈالا جارہاہے۔ پاکستان کو سالانہ تین سے چار (ایم اے ایف) کے خسارے کا سامنا ہے۔ زیر زمین پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے رین واٹر اور ٹریٹ شدہ پانی کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے۔

ایشین ترقیاتی بنک کی ایک تحقیقی رپورٹ :

“Pakistan has reached withdrawal limits of its surface and groundwater sources. The per capita availability of water has decreased from 5300 m3 per person in 1951 to less than 1100 m3 per person per year in 2007.”[129]

مذکورہ با لا رپورٹ سے ثابت ہوتا ہےکہ پاکستان میں وقت گزرنے کے ساتھ پانی کا بحران شدت اختیار کررہا ہے۔ اس وقت لگ بھگ ساڑھے چھ کروڑ عرب شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں جبکہ کل بائیس میں سترہ ممالک پانی کی قلت میں انتہائی حد سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔ عالمی معیار کے مطابق فی کس سالانہ چھ ہزار کیوبک میٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ تاہم عرب شہریوں کو اوسطاً فی کس پانچ سو کیو بک میٹر سے بھی کم پانی مل رہا ہے۔ دنیا میں پانی کے ذخائر کا تناسب صرف 60 فیصد رہ گیا ہے۔ اگر سنجیدگی سے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو اگلے ۱۵ سالوں میں عالمی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ :

“According to the report of the United Nations, water scarcity has become an increasingly pressing issue of our state. About 1.8 billion residents of Pakistan will not have access to water by the end of 2025.”[130]

اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں کی جانب سے تیار کی جانے رپورٹس میں اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ 2025ء تک پاکستان میں پانی کا بحران خطرناک صورت اختیار کر جائے گا اور دستیاب پانی ۵۰۰ کیوبک میٹر فی کس تک رہ جائے گا۔ "پاکستان اکانومی واچ "کے مطابق پانی کی قلت سے ملک ریگستان بن رہا ہے۔ دریائے سندھ میں سالانہ تقریباً 134 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے جس میں سے 60 ارب ڈالر مالیت کا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ پانی کی رسد میں اضافہ نہیں ہو رہا لیکن پانی کی طلب بڑھتی ہی جارہی ہے۔ [131]پانی کی قلت سے زیرِ زمین پانی ری چارجنگ کا پراسیس رک چکا ہے۔ جس کی وجہ سےزیرِ زمین پانی کڑوا اور زہریلا ہو چکا ہے۔ آبی بحران کی وجہ سے بلوچستان کا کونہ کونہ شدید متاثر ہورہا ہے۔ بلوچستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین ہوتا جارہا ہے۔

انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کا مقالہ نگار بلوچستان کے دریاؤ ں کے بارے میں لکھتا ہے:

“The rivers of Baluchistan are small and unimportant.”[132]

صوبہ بلوچستان میں ۵۰۰۰ چشمے اور کاریز خشک ہو گئے ہیں۔ کوئٹہ میں زیر ِ زمین پانی کی سطح ۱۵۰۰ فٹ سے گہرائی میں چلی گئی ہے۔ آبی بحران کے خاتمے کے لیے نئے آبی ذخائر اور ڈ یم تعمیر کرنا زندگی کی روانی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کوئٹہ میں شہر کےساتھ ہٹہ اور اوڑک جھیلیں تقریباً خشک ہوچکی ہیں وہاں تو پانی ایکوافر کےنیچے سے پانی نکالا جارہا ہے یعنی زمین کے اس حصے سے جہاں پانی دوبارہ نہیں پیدا کیا جا سکتا۔ [133]سابق چیئرمین واپڈا ظفر محمود کے مطابق کوئٹہ کا پانی اتنا نیچے جا چکا ہے کہ بحالی میں 200 سال لگیں گے[134]گوادر میں پانی کا ٹینک 45000 روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ پانی کا انفراسٹرکچر پرانا اور فرسودہ ہونے کی وجہ سے بہت سا پانی بہہ جاتا ہے۔

ایک انگریز "اینا ٹول لیون " اپنی تالیف "پاکستان: ایک ہارڈ کنٹری" میں لکھتا ہے:

“Human beings can survive for centuries without democracy, and even without much security.They cannot live for more than three days without water.”[135]

مذکورہ عبارت سے عیاں ہوتا ہے کہ آبی بحران دہشت گردی سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ اس لئے ریاست کا فریضہ ہے کہ آبی بحران کو دہشت گردی کے مسئلے سے زیادہ اہمیت دے۔

آبی بحران کے اسباب

پاکستان میں آبی بحران کی بڑی وجہ ٹھوس اور پائیدار آبی منصوبہ بندی کی عدم موجودگی ہے۔ کئی دہا ئیوں سے آبی وسائل کے تحفظ کے لیے کوئی ڈیم نہیں بنا یا گیا۔ پاکستان میں سالانہ 145 ملین ایکڑ فٹ پانی کی گنجائش ہےلیکن صرف 14 ملین کیوسک فٹ تک پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان زرعی و دیگر قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ پانی جیسے انمول خزانے سے بھی مالا مال ہے۔ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے وطن عزیز پانی کے شدید بحران سے دوچار ہے۔

اس ضمن میں ورلڈ واٹر کونسل کی رپورٹ :

"There is a water crisis today. But the crisis is not about having too little water to satisfy our needs. It is a crisis of managing water so badly that billions of people and the environment suffer badly."[136]

مذکورہ با لا رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی بے حسی و لاپروائی اور پانی کی عدم منصوبہ بندی کے باعث پانی کا مسئلہ دن بدن سنگین سے سنگین ہوتا جارہا ہے۔

آ بی بحران کی بڑی وجہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہے۔ آبادی میں اضافہ کی شرح کے اعتبار سےپاکستان ایشیا میں سرِ فہرست ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق آبادی میں اضافہ کی وجہ سے قدرتی وسائل پر دباؤ بڑھ جائے گا، بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے پانی کی فراہمی میں مشکل پیش آسکتی ہے۔

ایک انگریز مصنف لکھتا ہے:

“At an average of 240 mm of rainfall per year, Pakistan is one of the most naturally arid of the world`s heavily populated states”[137]

پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کی مملکت ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی پوری دنیا کے لیے چیلنج بن رہی ہے۔پانی کے موجودہ وسائل پاکستان کی آبادی کے لیے ناکافی ہو چکے ہیں۔ 1900ء میں پوری دنیا کی آبادی تقریباً ایک ارب تھی اور اب پونے آٹھ ارب تک پہنچ رہی ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق 2050ء تک 10 ارب تک پہنچ جائے گی۔ [138]کرہ ارض پر حیات کے سارے لمحات کا دارومدار پانی اور ہوا کے گرد گھومتا ہے۔ پاکستان کونسل برائے تحقیق آبی ذخائر کے مطابق ۱۹۹۰ میں پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا تھا جہاں آبادی کے مقابلے میں آ بی ذخائر کم ہو گئے تھے۔

دنیا م میں قریب ایک ارب لوگوں کو آبی قلت کا سامنا ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2030ء تک دنیا میں تازہ پانی کی طلب 40 فیصد تک بڑھ جائے گی، جس کا سبب ماحولیاتی تبدیلی، آبادی میں اضافہ اور انسانی رویوں میں تبدیلی ہے۔ دنیا کے 6 بڑے شہر بنگلور، بیجنگ، قاہرہ، ماسکو، استنبول اور لندن پانی کی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ [139]

کیپ ٹاؤن کے بارے میں ایک چشم کشا رپورٹ :

“Cape Town has always depended on dams and reservoirs to ensure a steady supply of water, but in recent decade’s infrastructure projects failed to keep up with population growth. In just over 20 years, Cape Town’s population grewby around 80 percent, from 2.4 million in 1995 to 4.3 million in 2018. During the same time period dam storage increased by only 15 per cent. Combined with the population boom, erratic weather and a persistent drought have created a severe crisis.”[140]

 مذکورہ رپورٹ سے ثابت ہوا کہ افریقہ کے کیپ ٹاؤن میں پانی کی قلت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لوگوں کو قطاروں میں کھڑا ہو کر پینے کا پانی لینا پڑ رہا ہے۔ کیپ ٹاؤن میں آبی بحران کی بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے لئے امریکہ اور چین کی طرح پانی کے انتظام کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ پاکستان میں لگ بھگ 150 ڈیم موجود ہیں جو قدرتی ماحول کی بقا اور بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے ناکافی ہیں۔ جن علاقوں میں پانی وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے وہاں باشندے عموماً پانی کو مفت سمجھ کر اس کا بے بہا استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ پانی کی سطح وہاں آہستہ آہستہ گرنا شروع ہوجاتی ہے اور پھر سارا علاقہ پانی کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے۔

دنیاکے ٪85 آبی وسائل صرف 12 فیصد اعلیٰ طبقہ کے استعمال میں ہیں۔ امریکہ میں چھ سو لیٹر فی کس استعمال کر رہا ہے۔ برطانیہ میں اوسطاً 50 لیڑ پانی روزانہ باتھ روم کے فلش میں استعمال ہو جا تا ہے۔ دنیا بھر میں ایک ارب اسی کروڑ آبادی کو اوسطاً 20 لیڑ پانی یومیہ بھی دستیاب نہیں۔ دنیا بھر کے شراب خانوں، پانچ ستارہ ہوٹلوں اور طبقہ امراء کے سوئمنگ پولوں میں روزانہ استعمال ہونے والے تازہ پانی کی مقدار پورے بر اعظم افریقہ کی پیاس بجھانے کے لیے کافی ہے کنویں خشک ہو رہے ہیں، جھیلیں سوکھ رہی ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ پانی کی ٹونٹی کھول کر کپڑے، برتن یا گاڑی دھوتے ہیں تو پانی نل مسلسل کھلا رہتا ہے اور بند کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی اور پانی بہے چلے جاتا ہے۔

پاکستان میں آبی بحران کی ایک وجہ آبپاشی کا ناقص نظام ہے۔ حکومتی بد انتظامی، آ بپاشی کے ناقص نظام اور پانی کے وافر مقدار میں بے دریغ ضیاع کے سبب آبی قلت کے خدشات ہیں۔ پاکستان میں بیشتر پانی آبپاشی کے ناقص نظام کی وجہ ضائع ہو جاتا ہے۔ آبپاشی کا سب سے بڑا ذریعہ دریائے سندھ اور اس سے نکلنے والی نہریں ہیں۔ انڈس واٹر سسٹم ۳ بڑےذرائع، ۱۹ بیراجوں، ۱۲ رابطہ نہروں، ۴۵ بڑی نہروں اور ایک لاکھ سات ہزار کھالوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں زراعت کے لیے روایتی پانی لگانے کے طریقہ کار اور بے دریغ ٹیوب ویلز کے استعمال کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ جان بریسکو نے اپنی کتاب "پاکستان واٹر اکانومی رننگ ڈرائی "میں لکھا ہے کہ دنیا کا سب سے غیر موثر نطام آبپاشی پاکستان کا ہے۔ ستم کی بات یہ ہے کہ ۷۰ فیصد پانی دورانِ آبپاشی ضائع ہو جاتا ہے۔ [141]

آبی بحران کے اثرات

پانی کی دستیابی دراصل انسانی مسئلہ ہے جو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو درپیش ہیں۔ عالمی ماہرین کے مطابق مستقبل کی جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت واضح ہوتی جا رہی ہے کہ آبی وسائل کی قلت اقوامِ عالم کے درمیان کشیدگی و تناؤ کا باعث بنتی جارہی ہے۔ عالمی و ملکی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آبی وسائل پر توجہ نہ دی گئی تو ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں تمام ترقی کے باوجود پانی کی عدم دستیابی وطن کے لیے تباہ کن صورتحال پیدا کر سکتی ہے۔

پاکستان میں پانی کی مقدار 1000 مکعب میڑفی کس سے کم ہے۔ فالکن مارک کے مطابق جس ملک میں پانی کی مقدار 1000 مکعب میٹر فی کس ہو تو وہ ملک پانی کےکی قلت والے ممالک میں شمار ہوتا ہے، وہاں صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں، بیماریاں پھیلتی ہیں۔ [142]پانی کے ذخیرے سے نوعِ انسانی اور چرند پرند کے لیے اشیائے ضروریہ کی پیداوار ممکن ہوتی ہے۔ پانی کی فراہمی سے ماحولیات میں جو مثبت تبدیلی آتی ہے، اس سے ازخود کئی بیماریوں کا تدارک ہو جاتا ہے۔ پانی کی کمی وجہ سے اب ان وادیوں میں جلدی بیماریوں کی نسبت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ آبی بحران کے باعث انسان و حیوانات کی حیات و بقا خطر ے میں پڑ جاتی ہے۔ 2001ء سے لیکر 31 دسمبر 2008ء چولستان کے علاقے میں پینے کی پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے 4696 افراد اور لاکھوں جانورلقمہ اجل بن گئے تھے۔ [143] جنوبی ایشیا میں دنیا کا بڑا واٹر سیکٹر تباہی کے دہانے پر ہے، جس سے کروڑوں انسانوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ درپیش ہے۔ پانی کے اس بحران کی وجہ سے تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ آبی بحران کی کی وجہ سے حیوانات کےلئے چارہ کی شدید کمی ہو جاتی ہے۔ آج بھی ایسے پسماندہ علاقے موجود ہیں جہاں انسان اور جانور ایک گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ لاہور میں ہر سال زیرِ زمین پانی کی سطح اڑھائی فٹ گہری ہو جاتی ہے۔

آبی بحران اور اسلام

قرآن مجید میں آبی قلت کا ذکر کیا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے؛

"قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَاۗؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَّاْتِيْكُمْ بِمَاۗءٍ مَّعِيْنٍ"[144]

"ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر تمہارے کنوؤں کا پانی زمین میں اتر جائے تو کون ہے جو اس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمہیں نکال کر لادے۔ "

 مذکورہ بالا قرآنی آیت میں آبی بحران کا جائزہ لینے کی دعوت د ی گئی ہے۔ اور بتایا گیا ہےکہ آبی بحران کودور کرنے کی طاقت دوجہانوں کے خالق کے پاس ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور پانی جیسی بیش بہا نعمت کا شکر بجا لانا بہت ضروری امر ہے۔

نبی رحمت ؐ کا ارشاد ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ "[145]

جب انسان وفات پا جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، تین صورتیں ایسی ہیں جن سے اسے مسلسل اجروثواب ملتا رہتا ہے۔ موت کے بعد بھی جن اعمال کااجرو ثواب جاری رہتا ہے، ان میں سے ایک عوام کے نفع و فائدہ کے لیےپانی کی نہر جاری کرنا بھی ہے۔

ارشاد ِ نبویؐ ہے:

" عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ، وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَكَهُ، وَمُصْحَفًا وَرَّثَهُ، أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ، أَوْ بَيْتًا لِابْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ، أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ، أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَّتِهِ وَحَيَاتِهِ، يَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ"[146]

مومن کے مرنے کے بعد بھی جن اعمال اور نیکیوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہااگرعوام الناس کے پانی کی نہر جاری کروا دے تو اس کا اجر اسے مرنے کے بعد ملتا رہے گا۔

ارشاد ِ نبویؐ ہے:

"عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ، فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟، قَالَ: الْمَاءُ، قَالَ: فَحَفَرَ بِئْرًا"[147]

نہر کھدوانا پانی کی فراہمی کی ایک شکل ہے، جو قدیم زمانے سے رائج ہے۔ موجودہ دور میں ٹیو ب ویل اور نل لگائے جاتے ہیں۔ حوض اور ٹینک میں پانی جمع کرکے تقسیم کرنا بھی اس کی ایک صورت ہے۔ اس طرح عوام الناس کو پانی مہیا کرنے کی تمام سکیمیں اس میں آ سکتی ہیں اور سب اجر و ثواب کی مستحق ہیں۔[148]دورِ فاروقی میں بصرہ میں پانی کی قلت تھی، حضرت عمر فاروق کے حکم سے حضرت ابو موسیٰ اشعری نے دجلہ سے 9 میل لمبی نہر کھدوائی۔ اس نہر کو نہر ابو موسیٰ کے نام سےمعروف ہوئی۔ ایک نہر حضرت معقل کے زیرِ نگرانی نکالی گئی جو نہر معقل کے نام سے مشہور ہوئی۔ ایک نہر حضرت سعد بن ابی وقاص نے کھدوائی جو بعد میں حجاج بن یوسف کے زمانے میں پوری ہوئی جسے نہر سعد کے نام سے جانا جا تا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۹۹ میل لمبی نہر کھدوا کر دریائے نیل کو بحر قلزم سے ملادیا، جویہ نہر امیرالمومنین کے نام سے مشہور ہوئی۔ نہروں کی صفائی کا کام بیت المال سے انجام دیا جاتا تھا۔ دورِ فاروقی میں مکہ سے مدینہ تک ہرہر منزل پر پانی کے حوض تعمیر کیے گئے۔ [149]

آبی وسائل کا تحفظ

کسی بھی ملک کی خوشحالی کے لیے آبی ذخائر بہت ضروری ہوتے ہیں۔ آبی وسائل کے تحفظ کے لئے تمام ممالک خاص طور پر زرعی ممالک کو آبی ذخائر اور ڈیمز کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ آبی ذخائر کی سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاتے ہیں، پن بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ بعض ترقی یا فتہ ممالک میں ایک سے دو سال کے لیے بھی پانی کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں صرف ۱۰ فیصد پانی ہی ذخیرہ کیا جارہا ہے۔ آبی وسائل کے تحفظ کے لئے آبی ذخائر کی تعمیر ضروری ہے۔ پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے پوٹھوہار میں 5 چھوٹے آبی ذخائر بنا کر بارش کا پانی ذخیرہ کیا ہے۔ روالپنڈی کی بارانی زرعی یونیورسٹی نے بارش کے پانی کے تالاب کا کامیاب تجربہ کیا ہے، ایچ ای سی کے تعاون سے 2200 کنال رقبہ میں پانچ تالاب تعمیر کئے گئے ہیں جو قابلِ ستائش اور قابل تحسین اقدام ہے۔ پاکستان انجنیرنگ کونسل پانی کے تحفظ کے طریقہ کار میں جدت لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

پانی کے تحفظ کے ادارے

INWRDAM

Inter-Isᾱmic Network on Water Resources Demand and Management

WWC

World Water Commision

IWRA

International Water Resources Association

KWSB

Karachi Water and Sewerage Board

WEF

Water Environment Federation

ڈیم مآرب ( Dam Maarb)

آج سے کئی ہزار سال قبل یمن کے ماہر انجنئیروں نےپانی کے تحفظ کے لئے وہ تاریخی کارنامہ سر انجام دیا جسے دیکھ کر آج کے ترقی یافتہ دور کے انجنئیر بھی انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں اس ڈیم کی برکت سے سال بھر زراعت کے لیے پانی فراوانی سے دستیاب ہونے لگا۔ ساری زمین میں سر سبزوشاداب کھیت لہلہانے لگے۔ [150]یمن میں بند مآرب ایک ایسا آبی ذخیرہ ہے جس کے آثار آج بھی باقی ہیں۔ ان آثار سے پتہ چلتا ہے کہ اس عظیم آبی ذخیرے کو انتہائی مہارت اور فن ہندسہ میں حد درجہ کمال سے تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ایک مشہور ڈیم تھا جسے مملکت سبا کے ماہرین نے یمن کی سرزمین کو سیراب کرنے کے لیے تعمیر کیا تھا۔

قرآن مجید میں بند مآرب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے

" لَقَدْ كَانَ لِسَـبَاٍ فِيْ مَسْكَنِهِمْ اٰيَةٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنْ يَّمِيْنٍ وَّ شِمَالٍ "[151]

" سبا کے لیے ان کی اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی، دو باغ دائیں اور بائیں۔ "

یمن میں کوئی دریا نہیں بہتا۔ سبا کے زمانہ میں برسات کے موسم میں فصلیں بارشوں کے پانی سے سیراب ہو جاتیں جبکہ باقی پانی وادیوں اور گھاٹیوں میں بہتے ہوئے سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا۔ سال کا بقیہ حصہ وہاں کے کھیت اور باغات پانی کی ایک ایک بوند ترس جاتے۔ ملکہ بلقیس نے یمن کے پہاڑی سلسلہ میں ملک کی آبی ضروریات پوری کرنے کے لیے بند مآرب نامی ڈیم تعمیر کیا۔ یمن کے پہاڑی سلسلہ میں ایک ایسی وادی منتخب کی گئی جس کا پتھر گرینیٹ قسم کا تھا۔ اس کے سامنے گرینیٹ کے پتھروں کا بہت بڑا بند تعمیر کیا گیا اور اس میں پانی نکلنے کے اوپر نیچے تین راستے بنائے گئے اس کے بالکل بہت بڑا وسیع و عریض تالاب تعمیر کیا گیا جب بارشیں اور وادیوں میں پہاڑوں کی ڈھلوانوں سے پانی بہہ کر اس ڈیم جمع ہوجاتا اور وہ ڈیم بھر جاتا تو سب سے اوپر پانی نکلنے کے جو راستے تھے ان کو کھول دیا جاتا۔ وہاں سے پانی گر کر حوض میں جمع ہوجاتا۔ اس حوض سے بارہ نہریں نکالی گئیں تھیں جو یمن کے وسیع و عریض علاقوں کو سیراب کرتی تھیں۔ [152]

آبی زمینیں ( Wetlands)

آبی وسائل کے تحفظ کے لئے آبی زمینوں یعنی ویٹ لینڈز کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ویٹ لینڈز دراصل ایسی آبی زمینیں ہیں جن کی سطح گیلی اور سفنج کی طرح ہو۔ جس کی گہرائی ۶ میٹر تک ہو۔ آبی زمینیں رواں پانی، عارضی طور پر سیلابی پانی اور فالتو پانی کو ذخیرہ کرتی ہیں۔ یہ زیرِزمین پانی کی سظح کو بلند کر تی ہیں۔ ہر سال 2 فروری کو دنیا بھر میں ورلڈ ویٹ لینڈ ڈے منایا جاتا ہے۔ ویٹ لینڈز دراصل ایسی آبی زمینیں ہیں جن کی سطح گیلی اور سفنج کی طرح ہو۔ جس کی گہرائی ۶ میٹر تک ہو۔ آبی زمینیں رواں پانی، عارضی طور پر سیلابی پانی اور فالتو پانی کو ذخیرہ کرتی ہیں۔ یہ زیرِزمین پانی کی سظح کو بلند کر تی ہیں۔ حیاتیا تی اقسام کی نسل بڑھانے، انہیں رہائش فراہم کرنے اور ان کی پرورش میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ [153]

صاحب "ڈکشنری آف انوائرنمنٹ" ویٹ لینڈز کی وضاحت کرتے ہیں:

“Wetland. An area covered permanently , occasionally , or periodically by fresh or salt water up to a depth of 6m (e.g., flooded pasture land , marshland, lakes , rivers and their estuaries, intertidal mud flats) .”[154]

پاکستان میں درج ذیل پانچ اقسام کے ویٹ لینڈز پائے جاتے ہیں۔

1۔ ان لینڈز واٹر ز 2۔ دلدلی جھیلیں 3۔ آبی ذخائر 4۔ مچھلی فارمز 5۔ تالاب

پاکستان کے کل رقبہ کا 10 فیصد ویٹ لینڈز پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں قدرتی اور مصنوعی کم وبیش 225 آب گاہیں ہیں۔ دنیا بھر میں ویٹ لینڈز شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے جہاں خوبصورت قدرتی جھیلیں موجود ہیں۔ ان کینجھر، ہالجی، اوچھالی، شندور، برت، زنگی ٹاور، دراگ، سیف ا لملوک اور سراندے قابل ذکر ہیں۔ مصنوعی جھیل کی مثال چھانگا مانگا کی جھیل ہے۔ [155] پانی محفوظ کر نا وطن عزیز کی ترقی کے لئے سراپا رحمت ہوگا۔

آبی ذخائر ( Dams)

آبی وسائل کے تحفظ کے لئے ڈیمز کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ کسی ملک میں ڈیمز کی تعداد جس قدر زیادہ ہو گی اسی قدر اس ملک آبی وسائل کے تحفظ کی استعداد زیادہ ہوگی۔

ماہرِ ماحولیات گردیپ راج آبی ذخیرے کے بارے میں لکھتا ہے:

“ Natural or artificial lake for the storage of water for industrial and domestic purposes and for regulation of inland water way levels.Service reservoirs store water for domestic supply purposes under cover and regulate diurnal fluctuations in demand..”[156]

مذکورہ بالا اقتباس آبی ذخائر پانی کے تحفظ کے لئے انتہائی ضرورت کو بیان کرتا ہے۔ اس لئے ملک بھر میں آبی ذخائر کا جال بچھانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔

ایم ایس راؤ کے مطابق "ڈیم ":

“A man made structure built across a river so as to control the flow of water. Mostly a dam is constricted to provide a supply of water, for irrigation, and to manufacture electricity cheaply, flood control is also ensured.”[157]

کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے ڈیمز بہت ہوتے ہیں۔ خاص طور پر زرعی ملکوں کو ڈیمز کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ورلڈ کمیشن آن ڈیم 2000ء کے مطابق دنیا بھر میں 22104 اونچی قامت کے ڈیمز ہیں۔ جن کا 20 فیصد صرف چین میں پایا جاتا ہے۔ چین میں چن پنگ دنیا بھر میں اونچا ترین ڈیم ہے۔ 49 فٹ ڈیم کی اونچائی سے چین پہلے نمبر پر ہے۔ [158]ہمسایہ برادر ملک ایران 2010ء تک ڈیموں کی تعداد 588 تک ہوچکی تھی۔ چین میں 22000 ڈیمز ہیں۔ ترکی میں 300 سے زائد ڈیمز ہیں، جبکہ مزید ڈیمز پر کام جاری ہے۔ [159]آبی ذخائر کی عدم تعمیر کی وجہ سے ماحول اور انسانی و حیواناتی حیات پر خطرناک اثرات مرتب ہو رہےہیں۔ قدرتی ماحول کے تحفظ کے لئے آبی ذخائر کی تعمیر ضروری ہے۔

اگر پاکستان نے پانی کے ذخائر کے لیے ضروری اقدامات نہ کیے تو 2025ء تک پاکستان پانی کے شدید بحران کا شکار ہو جائے گا جو ملک میں دہشت گردی سے بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ڈیمز کی عدم تعمیر کی وجہ سے پاکستان کا جنوبی ایشیا کا ریگستان بن سکتا ہے۔ [160]پاکستان میں کل چھوٹے بڑے 155 ڈیمز ہیں، بھارت میں چھوٹے بڑے کل 3200 ڈیمز ہیں۔ پاکستان کے مجموعی ڈیموں میں صرف 14 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جا سکتاہے۔

تحفظِ آب اور ترقی یافتہ ممالک

پاکستان میں دستیاب آبی وسائل کا 7 فیصدپانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے جبکہ دنیا میں یہ معیار 40 فیصد ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کی کم گنجائش کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ 35 ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 400 دن ہے، جبکہ وطن عزیز کے پاس صرف 30 دن تک پانی محفوظ رکھنے کی صلاحیت ہے۔ [161]قدرتی ذرائع سے جو پانی دستیاب ہوتا ہے۔ اسکی صرف 10 فیصد ذخیرہ اندوزی ہمارے لیے چیلنج ہے۔ مصر 1000 دن، امریکہ 900 دن، آسٹریلیا 600 دن، جنوبی افریقہ 500 دن، بھارت 220 دن اور پاکستان صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ [162]

نمبر شمار

ملک کا نام

ملک کا نام

دن

بین الاقوامی معیار

1

پاکستان

Pakistan

30

120

2

بھارت

India

220

-

3

جنوبی افریقہ

South Africa

500

-

4

آسٹریلیا

Australia

600

-

5

امریکہ

America

900

-

6

مصر

Egypt

1000

-

مذکورہ جدول سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے پاس پانی محفوظ کرنے کی استعداد و صلاحیت سب سے کم ہے جبکہ بین الاقوامی معیار بھی کم ہے۔ اس کے برعکس امریکہ اور مصر کے پاس پانی محفوظ کرنے کی صلاحیت دوسرے ممالک سے زیادہ ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں کم از کم 120 دنوں کا پانی ذخیرہ ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کے پاس صرف 30دنوں کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ بعض ترقی یا فتہ ممالک میں ایک سے دو سال کے لیے بھی پانی کیا جارہا ہے۔

نمبر شمار

 ملک کا نام

پانی ذخیرہ کرنے کی مقدار

1

پاکستان

150 کیوبک میٹر فی کس

2

چین

2200 کیوبک میٹر فی کس

3

آسڑیلیا

5000 کیوبک میٹر فی کس

4

امریکہ

5000 کیوبک میٹر فی کس[163]

برازیل نے چار دہائیوں میں اپنے آبی ذخائر کی صلاحیت کو دوگنا کر لیا ہے۔ پانی کے بے دریغ استعمال میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔ مائیکل کیوگل مین کی ایک رپورٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق آبی ذخائر کی غیر موجودگی میں لوگ زیر ِ زمین پانی نکال کر پانی کمی دور کر رہے ہیں، جو چند برسوں میں زیرِ زمین آبی ذخائر کو تقریباً ختم کر دیگا۔ [164]اسپین میں 1950 ء اور 2000ء کے درمیان ہر سال 20 ڈیم تعمیر کیے گئے، جس سے اسپین میں زیرِ زمین پانی کی سطح دوگنی ہوگئی۔

یورپ میں ہر شخص پانی کو تین بار استعمال کر تا ہے۔ صاف پانی استعمال کے بعد فلش ٹینک میں چلا جاتا ہے، یہ وہاں سے فلٹر ہوکر ندی اور نالوں میں چلا جاتا ہے۔ ہر محلے میں بارشی پانی کے لیے جھیلیں ہوتی ہیں۔ گھروں میں ٹینکوں میں پانی ذخیرہ کرتے ہیں۔ یہ پانی فلش سسٹم، فرش اور گاڑیاں دھونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

معروف محقق فضل کریم خان لکھتے ہیں:

“In recent years , remote sensing data collectd via various satellites by SUPARCO (Space and Upper Atmosphere Research Commision) has helped in environmental studies relating to geomorphic analysis and mapping of tidal land froms, changes in river courses, and flood inundation studies; natural vegetation mapping and classification of water logging and salinity; indentification of land surface features, changes in soil cover and geological analysis; population surverying potential , urban landuse studies and transportion nerworks. Atmospheric pollution studies are also carried out.”[165]

مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ مغربی ترقی یافتہ ممالک آبی وسائل اور دوسرے قدرتی وسائل کے انتظام و انصرام اور تحفظ کے لئے جدید ٹیکنالوجی کی ایجاد میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔

مغربی و یورپی اور دیگر ممالک میں پانی کی ایک ایک بوند کی حفاظت کی جاتی ہے۔ بیرون ممالک میں پانی کے تحفظ کے اصول و قوانین پر بلاامتیاز سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ بیرون ملک کرکٹ ٹیم کے کپتان کو گاڑی دھونے کے دوران پانی ضائع کرنے پر جرمانہ ہو جاتاہے۔ [166]مانچسٹر انگلستان میں تمام عمارات میں بارش کے پانی کو ٍ100 فیصد محفوظ کرنے کا انتظام بنیادی ڈیزائن کا حصہ ہوتا ہے۔ باورچی خانہ میں کھلی ٹونٹی کے نیچے برتن دھوئے جاتے ہیں اور یہ پانی پودوں کو لگایا جاتا ہے۔ پاکستان میں جرمن سفیر نے صرف ایک بالٹی پانی سے کار دھو کر عملاً پانی کے محتاط استعمال کا پیغام پاکستانی قوم کو دیا۔

کئی مہذب ممالک میں بارش کا پانی محفوظ کرنے کے لئے قوانین موجود ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل میں ایسے قوانین بنائے گئے ہیں کہ وہاں لوگوں نے گھروں میں بارش کا پانی محفوظ کا انتظام کیا ہوا ہے جسے باغبانی، گاڑیاں، فرش دھونے میں استعمال کرکے سرکاری پانی کی بچت کی جاتی ہے۔ آسڑیلیا دنیا کا خشک ترین براعظم کہلاتا ہے۔ وہاں پر ایک سال میں 274 بلین لٹر بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے، گھروں میں چھتوں سے بارش کا پانی سیدھا کینٹنر میں منتقل ہو جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں 100 میں سے 26 مکانات ایسے ہیں جہاں بارش کا پانی محفوظ بنانے کی خاطر پانی کے ٹینکوں کا انتظام و اہتمام ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں میٹھے پانی کا 30 سے 45 فیصد باغبانی اور گاڑیاں دھونے میں ضائع ہو جاتا ہے اور 20 فیصد فلش سسٹم کی نذر ہو جاتا ہے۔

مسلم سکالر ابو بکر احمد پانی کی اہمیت بیان کرتے ہیں:

“Owing to the importance of water as the basis of life, God has made its use the common right of all living beings and all human beings .All are entitled to use it without monopoly, usurpation, despoilment, wastage or abuse.”[167]

ترقی یافتہ ممالک میں پانی کے تحفظ کے لئے نت نئے طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ پانی کے تین بار استعمال کیا جاتا ہے۔

ایک انگریز مصنف لکھتا ہے:

“Another example of water recycling is seen in a project established by Michigan State University for the city of Lansing, Michigan. Here, they have set up three large ponds. Into the first , effluent activated sewage sludge is delivered . The water from this pond is used to fertilize field crops. The water from this first pond then drains into a second pond. This second pond is used to grow plants and fish that can be harvested for livestock feed, after processing. Water in the second pond gets greatly purified through sediments settling , natural percolation of water through soil , and plants absorbing nutrients from the water. This water then flows a third pond , which is fit to be used for recreation such as boating and swimming.”[168]

زراعت میں سب سے پہلے گندے پانی استعمال آسٹریلیا، فرانس، جرمنی نے کیا۔ انیسویں صدی میں برطانیہ اور امریکہ نے اس کا استعمال شروع کر دیا۔ اکثر ممالک میں آلودہ پانی کی تطہیر کر کے اس کا دوبارہ استعمال نمایاں طور پر وسیع ہو گیا ہے جن میں اسرائیل، اردن، پیرو اور سعودی عرب بھی شامل ہیں جہاں خاص طور پر کھیتوں کی آبپاشی کے لئے یہ پانی دوبارہ استعمال کرنا حکومتی پالیسی ہے۔ پانی کے ذخائر زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لئے گندے پانی کی تطہیر کرنے کے بعد اس کا دوبارہ استعمال جاذب نظر اور پانی کی کمی دور کرنے کے لئے مفیدو معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ [169]

پانی کا تحفظ اور سعودی عرب (Water Conservation and Saudi Arabia)

سعودی عرب میں استعمال شدہ پانی دوبارہ استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ 1995ء میں مملکتِ سعودیہ نے اپنے صاف شدہ گندے پانی کے 15 فیصد کو کھجور اور چارے مثلاً الفلفا کی آب پاشی کے لیے دوبارہ استعمال کیا۔ مزید براں مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں وضو کے لیے استعمال کیے گئے پانی کو گندگی بہانے کے لیے استنجا خانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح نمک سے پاک کیا ہوا قیمتی سمندری پانی بچا لیا جاتا ہے۔ کویت میں 17 سو ہیکٹر رقبے پر لگی ہوئی الفلفا کی آب پاشی (عالمی ادارہ صحت کے مطابق) صاف شدہ گندے پانی سے ہوتی ہے۔ 1998ء میں اردن سات کروڑ مکعب میٹر گھروں کا پانی صاف کرکے دوبارہ قابلِ استعمال بنایا گیا۔ [170]سعودی عرب کے ساحلی علاقوں میں سمندر کے پانی کو بھی کام میں لایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ساحلی شہروں میں کھارے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کے کارخانے جتنی بڑی مقدار سعودی عرب میں ہیں دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہیں۔ دنیا میں کھاری پانی سے جس قدر میٹھا پانی بنایا جاتاہے۔ اس کی نصف مقدار صرف سعودی عرب کے کارخانے ہیں۔ بعض کارخانوں میں کئی کئی کروڑ گیلن پانی میٹھے پانی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ [171]

پانی کا تحفظ اور پاکستان

زراعت میں آبپاشی کی جدید ٹیکلنالوجی اختیار کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے تاکہ کم سے کم پانی سے زیادہ سے زیادہ پیدوار حاصل کی جاسکے۔ پاکستان میں آبپاشی نظام 200 سال پرانا ہے۔ پانی پاکستان کی زراعت کی بقا کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان نہر ی پانی کے ذریعے زیرِ کاشت رقبے کے لحاظ سے ساڑھے انیس (ایم ایچ اے) کی اوسط سے دنیا میں چوتھے نمبر پر کھڑا ہے۔ بھارت تقریباً اکسٹھ (ایم ایچ اے) کے حساب سے دنیا میں ٹاپ پر ہے۔ ستم کی بات یہ ہے کہ تقسیم برصغیر کے موقع پر جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 53 فیصد تھا جو کم ہوکر کم و بیش 24 فیصد رہ گیا ہے۔ دریائے سندھ کے بیسن کا 47 فیصد پاکستان میں، 39 فیصد بھارت میں، 8 فیصد چین میں اور 6 فیصد افغانستان میں ہے۔ دریائے سندھ 58450 کلومیٹر کینال سسٹم، 12 لنک کینالز اور 19 بیراجوں اور ہیڈورکس پر مشتمل ہے۔ سندھ بیسن میں رہنے والے لوگوں کی تعداد 300 ملین سے زائد ہے۔ پاکستان موجود صاف پانی کے ذخائر 176ملین ایکڑ فٹ ہیں، جو موجدہ آبادی کے 1000 مکعب میٹر فی کس ہیں۔ [172]ملک میں 137 ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہے۔ 93 ملین ایکڑ فٹ پانی نہروں میں چھوڑا جاتا ہے۔ 22 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں جاتا ہے۔

ایک انگریز "اینا ٹول لیون " اپنی تالیف "پاکستان: ایک ہارڈ کنٹری" میں لکھتا ہے:

“Only 24 percent of Pakistan`s land is cultivated is cultivated –the great majority though man-made irrigation systems. The rest is pastoralland, or uninhabited: desert, semi-desert, and mountain.”[173]

پاکستان کی زراعت کا زیادہ تر انحصار نہر ی پانی پر ہے۔ پاکستان کی صر ف چوبیس فیصد زمین کاشت کی جاتی ہے۔ تازہ ترین تحقیق کے مطابق پاکستان کا 70 ارب ڈالر کا پانی سمندر برد ہو جاتا ہے۔ سمندر میں ضرورت سے زیادہ تین گنا زیادہ جا رہا ہےجو ضائع ہو جاتا ہے۔ ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش میں واٹر پالیسیا ں ہر دس سال بعد یہ واٹر پالیسیاں ریوائز بھی ہوتی ہیں۔ زیرِ زمین پانی کی سطح نیچے چلی جانے کے باعث پانی میں مختلف دھاتوں کی آمیزش بڑھ گئی ہے۔ برسات کا 100 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ سیلاب کا پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے، جس کی وجہ سے کروڑں کیوسک پانی ہر سال ضائع ہو جاتا ہے۔ [174]نوائے وقت کے مطابق پاکستان میں سیلابوں سے پاکستان کو مجموعی طورپر 60 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ ان سیلابوں سے اب تک 8000 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اربوں روپے کی مالیت کے مویشیوں کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ [175]کسی بھی حکومت نے شہروں یا دیہاتوں میں بارش کا پانی محفوظ کا طریقہ کار متعارف نہیں کروایا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پہلے سے موجود تالاب اور پانی کے ذخائر خشک اور ختم ہوتے جارہے ہیں۔ بلوچستان کے لق و دق صحرامیں زمین میں زندگی کی رمق ڈالنے کے لئے پانی کا قطرہ نہیں۔ ان حالات و واقعات میں بارش کے پانی کی ایک ایک بوند قیمتی ہے جسے محفوظ کرنے کی بجائے ہمارے ہاں لوگ گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پہلے برصغیر میں ہر بڑے شہر میں پانی کو محفوظ کرنے کے لئے ایک بڑا تالاب ہوا کرتا تھا، پورے شہر سے بارش کا پانی اس تالاب میں ذخیرہ ہو جاتا تھا۔

کالا باغ ڈیم (Kalabagh Dam)

کالا باغ ڈیم کی تعمیر اہم قومی مسئلہ ہے۔ آبی ماہرین اس میگا پراجیکٹ کو پاکستان کی سلامتی سے مشروط کرتے ہیں۔ در حقیقت یہ ایک قومی اور لائف لائن منصوبہ ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ مقام پانی ذخیرہ کرنے اور سستی بجلی پیدا کرنے کی موزوں ترین جگہ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 1948ء کالا باغ ہی کے مقام پر عالمی معیار کا ڈیم تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔ [176]امریکہ کے عالمی آبی ماہر ڈاکٹر کینڈی نے 1987ء میں ایک رپورٹ میں کالا باغ ڈیم کے بارے میں واضح کیا تھا کہ نوشہرہ کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کالا باغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے پاکستان ہر سال 70 بلین ڈالر کی مالیت کا پانی سمندر میں ڈال کر ضائع کر دیتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کا ایسا ایشو ہے جو ہر پاکستانی کا ہے چاہے وہ ملک کے کسی بھی صوبے کا ہو۔ یہ ڈیم کسی ایک صوبے کانہیں پاکستان کی بقا کا ہے۔ آبی ذخائر کی سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاتے ہیں، سستی اور ماحول دوست توانائی پیدا کی جاسکتی ہے۔

جغرافیائی اعتبار سے یہ مقام پانی ذخیرہ کرنے اور سستی بجلی پیدا کرنے کی موزوں ترین جگہ ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین کالا باغ سائٹ کو ڈیم بنانے کےلیے موزوں ترین جگہ قرار دیتے ہیں۔ ایک لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد رقبہ کی بارشوں سے جمع ہونے والا پانی انتہا ئی سیلاب کا باعث بنتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کا لا باغ ہی واحد مقام ہے جو اس سیلابی پانی کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی ایک کمپنی کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق تربیلا ڈیم دریائے میں آنے والے سیلاب و طوفان کو 16 فیصد تک ریگولیٹ کر تا ہے۔ جبکہ کالا باغ ڈیم اور بھاشا ڈیم کی تعمیر سے دریائے سندھ میں سیلاب و طوفان کو 60 فیصد تک کنٹرول کیا جا سکے گا۔ [177] کالا باغ ڈیم قدرتی طورپر بنا بنایا ڈیم ہے، اس کے درمیان سے دریائے سندھ گزرتا ہے۔ صرف دریا کے آگے دیوار لگا کر ڈیم کی تعمیر ممکن ہے۔ کالا باغ کا ڈیم بننے سے بلوچستان کو 15 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکتا ہے، جس سے مشرقی بلوچستان کا 7 لاکھ ایکڑ فٹ اضافی رقبہ سیراب ہو گا۔ اس ڈیم سے سندھ کو 40 لاکھ ایکڑ فٹ، پنجاب کو 22 لاکھ ایکڑ فٹ اور خیبر پختونخواہ کو 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملے گا ۔ کالا باغ ڈیم سے ملک کے پاس تقریباً چھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہو گی۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں مزید تاخیر وطن عزیز کو صحرا بنا سکتی ہے۔

تحفظِ آب کے جدیدسائنسی طریقے

ڈرپ اریگیشن (Drip Irrigation)

ڈرپ نظام آبپاشی کے تحت تمام پودوں کو ایک ہی وقت میں پانی کھاد مل جاتے ہیں۔ روایتی طریقہ آبپاشی میں پانی کے ضیاع کے ساتھ ساتھ مناسب وقت پر فصل کو پانی دستیاب نہیں ہوتا جبکہ جبکہ اس سسٹم سے پانی کی درست فراہمی ایک ہی وقت میں ہو جاتی ہے۔ یہ ایک صاف ستھرا اور آسان نظام آبپاشی ہے، جس میں کھالے بنانے کی فکر نہیں ہوتی۔ کھاد، وقت، مزدوری اور پانی کی 50 فیصد بچت ہو جاتی ہے۔ کھاد اور دیگر جڑی مداخلات برابر مقدار میں پودوں کی جڑوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔

قطریاتی آبپاشی (Diameteric Irrigation)

 قطر یاتی آبپاشی ٹیکنالوجی کی ابتداء 1959ء میں ہوئی۔ جس کی مدد سے بہت کم پانی سے فصلوں، پودوں اور درختوں کا اگانا ممکن ہوسکتا ہے۔ قطریاتی آبپاشی میں ربڑ یا پلاسٹک کے چند ملی میٹر قطر کے پائپ مٹی میں پودوں کی لائنوں کی جڑوں کے قریب بچھا دیئے جاتے ہیں۔ جن میں پودوں کے فاصلوں کے حساب سے اتنے باریک سوراخ ہوتے ہیں کہ ان پانی پودوں کی جڑوں میں قطروں کی شکل میں نکلتا ہےاور یہ ساری پائپ لائن پانی کی ٹینکی سے جڑی ہوتی ہے۔ کھاد یا پودوں کی دوسری ضروریات کو اس پانی میں ملا کر پورا کیا جا سکتا ہے۔ ۔ [178]زراعت میں اب کمپیوٹر سافٹ وئیر استعمال کر کے اسے کافی حد تک خود کار نظام میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ترقی یا فتہ ممالک میں زرعی آبپاشی قطریاتی آبپاشی سے ترقی کرکے سائنسی دور میں منتقل ہو چکی ہے۔

اڈاپٹو آئی سافٹ وئیر (Adoptive I. Software)

کراپ ایکس کمپنی کا "اڈاپٹو اریگیشن سافٹ ویئر سسٹم"امریکہ کے کھیتوں میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ ان کے سینسر کھیتوں میں جی پی ایس سسٹم کی مدد سے مناسب فاصلوں پر رکھے جاتے ہیں۔ اسرائیل میں زراعت کے بارے میں ریسرچ کرنے والے ادارے "والکافی انسٹیٹیوٹ " نے پودوں کی جڑوں کی گہرائی میں آبپاشی کا ایک خود کار سسٹم بنایا ہے۔

ایٹماسفیرک ہارویسٹنگ (Almospheric Havesting)

ایٹماسفیرک ہارویسٹنگ واٹر (Atmospheric Harvesting Water) ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو کیلی فورنیا اور دیگر قحط سالی سے متاثرہ خطوں میں آبی قلت کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ اس میں پانی اور نمی کو فضا سے مائیکرو نیٹس /جال جو پانی جمع کرتے ہیں، وہ ایک چیمبر میں جمع ہوجاتا ہے، اس تازہ پانی کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ ایتھوپیا، گوئٹے مالا، نیپال، چلی اور مراکش میں ایک کمپنی فوگ کوئیسٹ جالوں کے ذریعےکامیابی سے فضا سے پانی جمع کر رہی ہے۔ [179]   

پانی کا تحفظ اور اسلام

نوع انسانی کے لیے پانی اہم ترین وسیلوں میں سے ایک ہے۔ پانی صرف بنی نوع انسانی کے لیے ہی نہیں بلکہ جانوروں، پودوں اور دوسری ذی حیات چیزوں کے زندہ رہنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ کرہ ارض پر اس کی کل مقدار معین ہے۔ اسلام سختی کے ساتھ کسی بھی وسیلہ حیات بشمول پانی کو ضائع کرنے سے روکتا ہے۔ پانی کے ضیاع کو خاص طو ر سے روکا گیا ہے۔ [180]پانی کے تحفظ کی منصوبہ بندی اسلام کے آفاقی اصولوں کی روشنی میں کی جاسکتی ہے۔

کلام پاک کے ایک مقام پر ہے:

"وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ"[181]

" اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ "

ابن جریر طبریؒ مذکور ہ آیت کی تفیسر لکھتے ہیں:

" حدثنا محمد بن عبد الأعلى قال، حدثنا محمد بن ثور، عن معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس قال: أحل الله الأكل والشرب، ما لم يكن سَرَفًا أو مَخِيلة"[182]

تعلیماتِ نبویؐ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کو وضو اور غسل کے لیے مناسب و قلیل مقدار میں استعمال کرنا ازحد ضروری ہے۔ پانی کے کےضیاع کو قطعی طور پر منع ہے۔ آپ ﷺ غسل اور وضو میں ضرورت سے زائد پانی استعمال نہیں کرتے تھے۔

محسن ِ کائنات ؐ کا ارشاد گرامی ہے:

"عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ، وَيَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ "[183]

حضرت عائشہ (رض) کی مذکورہ روایت سے ثابت ہوا کہ اسلام میں پانی کے تحفظ کے لئےایک صاع (4 لٹر) پانی سے غسل اور ایک مد (1لٹر) پانی سے وضو کرنے کا شرعی اصول پایا جاتا ہے۔

علامہ بدرالدین عینیؒ اپنی معروف تالیف عمدۃ القاری میں "مد" کی یوں وضاحت کرتے ہیں:

"وَالْمدّ، اخْتلفُوا فِيهِ. فَقيل: الْمَدّ رَطْل وَثلث بالعراقي، وَبِه يَقُول الشَّافِعِي وفقهاء الْحجاز. وَقيل: هُوَ رطلان، وَبِه يَقُول أَبُو حنيفَة وفقهاء الْعرَاق. وَقَالَ بَعضهم: وَخَالف بعض الحنيفة، فَقَالَ: الْمَدّ رطلان"[184]

 علامہ بدرالدین عینیؒ "صاع" کے بارے میں رقمطراز ہیں:

"(بالصاع) قَالَ الْجَوْهَرِي: الصَّاع هُوَ الَّذِي يُكَال بِهِ، وَهُوَ أَرْبَعَة أَمْدَاد”[185]

"صاع" چار 'مدوں'کے برابر ہے۔ لیٹر کے حساب سے ایک "مد" پانی تقریباًایک لیڑ کے برابر ہوتا ہے جبکہ ایک "صاع" پانی تقریباً چار لیٹر کے برابر ہوتا ہے۔ [186]

نبی کریم ؐہدایات کے مطابق وضو میں ایک مرتبہ (ہر عضو کا دھونا) فرض ہے اور آپ نے وضو کیا ہے، دو، دو مرتبہ اور تین تین مرتبہ (بھی اعضاء کو دھویا ہے) اور تین پر زیادہ نہیں کیا اور اہل علم نے (وضو میں) پانی حد سے زیادہ استعمال کرنے اور آپ کے فعل سے بڑھ جانے کو مکروہ سمجھا ہے۔

مذکورہ تشریحات و توضیحات دلالت کرتی ہیں کہ اسلام پانی کے تحفظ کی جامع تعلیمات و ہدایات دیتا ہے۔ دورِ جدید میں دنیا آبی بحران سے دورچار ہے اس لئے پانی کے تحفظ کے بارے میں پائی جانے والی تعلیمات ِ اسلامی میں پانی کے تحفظ کے اداروں اور عوام الناس کے لئے درسِ عمل پایاجاتا ہے۔

آبی آلودگی (Water Pollution)

اس وقت دنیا بھر میں 900 ملین سے زائد ایسے انسان ہیں جنہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ہر سال مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر ہلاک ہو جاتے ہیں جو آلودہ پانی استعمال کرنے سے پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایشیا اور افریقہ میں کئی ایسے علاقے بھی ہیں جہاں خواتین کو کسی بھی معیار کے پانی حاصل کرنے کے لیے چھ کلو میٹر تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔ پانی نہ صرف انسانوں، پودوں، جانوروں، فصلوں اور زمینوں کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پانی زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔ [187] وزارت ماحولیات کے مطابق آلودہ پانی سے لاحق بیماریوں کے علاج سے پاکستانی شہری 112 ارب سالانہ بوجھ برداشت کرتے ہیں۔ 86 ہزار مقاما ت پر دریاؤں میں کیمیائی فضلہ شامل کیا جارہے۔ زیادہ سے زیادہ سے مچھلی پکڑنے کے لیے مخصوص کیمیکل کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ [188]منچھر جھیل پاکستان میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ یہ جھیل موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں سے بھی قدیم ہے۔ مختلف موسموں میں اس کا رقبہ 350 مربع کلومیڑ سے 520 مربع کلومیٹر تک ہوتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان دنوں یہ بدترین آلودگی کا شکا رہے، جس سے اس کی جنگلی اور آبی حیات شدید متاثر ہے۔ منچھر جھیل میں 100سے زائد مچھلی کی اقسام موجود تھیں، جو زہریلے پانی کی وجہ سے 3 درجن تک رہ گئی ہیں۔ منچھر جھیل ایک قدرتی آبی ذخیرہ اور ڈیم ہے، جس کی دیکھ بھال اور آلودگی سے پاک کرنا ازحد ضروری ہے۔

 اسباب (Causes)

دنیا کےاکثرو بیشتر ممالک میں کارخانے فضلہ دریاوں اور ندی نالوں میں پھینک دیتے ہیں۔ کارخانوں کیمیائی اور آلودہ فضلہ آبی آلودگی کا بڑا سبب ہے۔

 ایک انگریز مصنف آبی آلودگی کے بارے میں اظہار ِ خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے:

“In many countries it has been found that many industries and factories use to dump waste material into the rivers and streams. These streams and rivers mostly pass through the areas where people live beside these streams and rivers and hence suffer from injuries ,infections and diseases.[189]

کارخانے تقریباً ۵۰ سال سے پانی کے ذخائر میں کیمیکل شامل کر رہے ہیں۔ فیکٹری مالکان ڈالروں کےلیے گونگے، بہرے اوراندھے ہو چکےہیں۔ تھوڑے سے منافع اور عارضی زندگی کی آسائشوں کے لیے دوسروں کی زندگیا ں برباد کی جارہی ہیں۔ ملک میں صنعتی دہشت گردی جاری و ساری ہے۔

 دورِ جدید میں انسانی سرگرمیاں زمینی ارتعاش یا زلزلے کا باعث بن رہی ہیں۔ زیرِ زمین پانی کو ضرورت سے زیادہ پمپ کرنے کی وجہ سے نیپال میں اپریل 2015ء میں زلزلہ وقوع پذیر ہو گیا تھا۔ بہت وزنی فلک نما تعمیرات اور زیرِ زمین ایٹمی دھماکے زلزلوں کا باعث بنتے ہیں۔ ہائی کوئیک ڈیٹا کی فہرست میں سب سے زیادہ اضافہ تیل و گیس کی ان کمپنیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے جو انجکشن کنوؤں کے ذریعے گندے اور استعمال شدہ پانی پانی کو دوبارہ زیرِ زمین پہنچانے کے لیے اختیار کرتی ہیں۔ [190]

کراچی کو گندگی کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ دریاؤں اور نہروں میں زہریلا پانی ڈا لا جارہا ہے۔ شہریوں کو گندا پانی مہیا کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں جو پانی بوتلوں میں فروخت کیا جا رہا ہے، وہ صاف نہیں۔ بھینسوں کا فضلہ نہروں میں پھینکا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ہیپا ٹائٹس سی کا اضافہ ہو رہا ہے۔ [191]ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ۸۰ فیصد عوام آلودہ پانی پینے پر مجبورہیں سندھ میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ پر پانی پینے پر مجبور ہیں۔ بھارت اپنے صنعتی علاقوں کا گندا اور کیمیکل زدہ زہریلا پانی پاکستان میں چھوڑ دیتا ہے۔ اس زہریلے پانی کی وجہ سے لوگ جگر، گردہ اور کینسر جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

ایک انگریز مصنف آبی آلودگی کے اسباب کے بارے میں اظہار ِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“In many countries it has been found that many industries and factories use to dump waste material into the rivers and streams.These steams and rivers mostly pass through the areas where people live beside these streams and rivers and hence suffer from injuries ,infections and diseases.[192]

کارخانے خطرناک مواد خارج کرتےہیں اور اس زہریلے مواد کو دریاوں، جھیلوں اور سمندروں میں پھینک دیتے ہیں۔

 ایک انگریز مصنف آبی آلوگی کی وجوہات کے متعلق لکھتا ہے:

“Industry produces pollutants that are extremely harmful to people and the environment. Many industries throw waste into rivers ,lakes and oceans. Pollutants from industrialsourcesinclude Abostose,Lead,Mercury,Nitrates and Sulpher.These all metallic and non metallic substances are harmful for marine life.”[193]

سمندر روزانہ تیل گرنے سے آلودہ ہو رہا ہے۔ سمندر کے پانی کی سظح پر تیل کی تہہ جم جانے سمندری پودوں روشنی نہیں پہنچ پاتی۔ اس لیے ان پودوں میں ضیائی تالیف کا عمل رک جانے سے ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ آبی آلودگی کی بڑی وجہ کاربن اور کاربن سے بنے دوسرے کیمیکلز ہیں۔ ٹیکسٹائل اور چمڑے کی صنعتیں کاربن کے اخراج کی سب سے بڑی ذمہ دار ہیں۔

ایک انگریز مصنف لکھتا ہے:

“Oceans are polluted by oil on daily basis from routine shipping ,oil spills ,runoffs and dumping.The main reason for this type of pollution is that oil does not dissolve in water and instead it forms a thick layer on the water surface,therefore,it usually stops marine plants receiving enough light for photosynthesis.”[194]

کارخانے تقریباً ۵۰ سال سے پانی کے ذخائر میں کیمیکل شامل کر رہے ہیں۔ لوگ کارخانوں کے کیمیکلز کی وجہ سے دل، گردوں اور جگر سے محروم ہو رہے ہیں، فیکٹری مالکان تھوڑے سے منافع اور عارضی زندگی کی آسائشوں کے لیے دوسروں کی زندگیا ں برباد کر رہےہیں۔ ملک میں صنعتی دہشت گردی جاری و ساری ہے۔ آبی آلودگی کے تدارک کا بندوبست کیے بغیر ہی کارخانہ کھول دیا جاتا ہے۔ ویسٹ ڈسپوزل کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا۔

 اثرات (Impact)

دنیا کی ایک ارب سے زیادہ غریب آبادی گندا اور آلودہ پانی پینے اور استعمال کرنے پر مجبور ہے، جس کی وجہ سے نت نئی بیماریاں ان غریب عوام کا مقدر ہیں۔ پاکستان میں ہر سال ۳۰ لاکھ افراد آلودہ پانی کے باعث مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

معروف محقق فضل کریم خان لکھتے ہیں:

“The general practice in Pakistan is to treat the drinking water with chlorine. The ill effects of chlorine on the lungs are now well known. More serious than that are the leaks and cracks in the undergoud water pipes through which dirty water, sewage and germs mix with drinking water and cause intestinal diseases and impair the proper function of the liver. The residents of the old parts of Karchi are the worst suffers”[195]

 سارا پاکستان عمومی طور پر جبکہ کراچی خصوصی طور پر آبی آلودگی سے بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ آبی آلودگی سے نت نئی امراض عوام الناس میں پھیلتی جارہی ہیں۔ آبی آلودگی کا انسانی صحت و تندرستی پر انتہائی خوفناک اثر ہوتا ہے۔

پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل کی سہہ ماہی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منرل واٹر کی بوتلوں میں سنکھیا کی موجودگی کاانکشاف ہوا ہے، جس سے لوگوں میں پھیپھڑوں، مثانے، جلد، گردے، ناک اور جگر کا کینسر پھیلنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ پانی جیسی بنیادی ضرورت کی چیز کا معیاری ہونا بے حد ضروری ہے۔ [196]پینے کے صاف اور محفوظ پانی کے نام پر بعض کاروباری حلقے آلودہ پانی منرل واٹر کی بوتلوں کے ذریعے فروخت کرنے کا دھندہ ہو رہا ہے۔ زیرِ زمین پانی کی سطح کم ہونے اور اس میں سنکھیا (زہریلا مواد) مل جانے سے لوگوں کو موت میں جارہے ہیں۔ پینے کے پانی میں سنکھیا کی موجودگی مہلک امراض کو جنم دیتی ہے۔ آلودہ پانی پینے سے بچے ہیضہ، ڈائریا، ٹائیفائیڈ اور ہیپا ٹائٹس جیسے مہلک امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سے مچھلیوں میں بھی کئی بیماریاں پائی جاتی ہیں۔ اور ایسی بیمار مچھلیوں کے استعمال سے لوگ ہڈیوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

 لاہور جہاں ۷۰ سے ۱۰۰ فٹ کے درمیان پینے کا معیاری پانی آجاتا تھا۔ اب ۱۰۰۰ سے ۱۵۰۰ فٹ تک گہرائی میں پانی کا لیول جا پہنچا ہے۔ اور اس پانی کے بارے میں بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ آرسینک سے پاک ہے یا نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ۴۷ ہزار بچے آلودہ پانی پینے کی وجہ سےموت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اقوام ِ متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40 فیصد اموات آلودہ اور غیر محفوظ پانی پینے کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں گردوں کے ناکارہ ہونے، ہائپر ٹینشن، ہارٹ اٹیک اور جلدی امراض میں تشویشناک ہے۔

ڈکشنری آف بیالوجی میں آبی آلودگی کی کے بارے میں ہے:

 “It therefore finds use as a measure of the of certain types of organic pollutant in water.BOD is found out by keeping a sample of water having a known amount of oxygen for five days at 200 C. The oxygen content is measured again after this time. A high BOD reveals the presence of a large number of microorganisms, which indicates a high level of pollution”[197]

پاکستان میں پانی کے ذخائر نہ صرف انتہائی کم ہیں بلکہ موجود ذخائر آلودہ ہو چکے ہیں۔ دریا، نہریں، جھیلیں اور دیگر ذخائر میں شہروں اور صنعتوں کا گندا پانی اور فضلہ شامل ہو رہا ہے۔ آبی ذخائر کی آلودگی انسانوں، حیوانوں اور زراعت کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ آلودہ پانی سے زرخیز زمین بنجر اور بانجھ ہوتی جارہی ہے۔ زیرِزمین پانی کا ری چارجنگ پراسیس رک چکا ہے، جس سے زیرِ زمین پانی کڑوا اور زہریلا ہوتا جا رہا ہے۔ [198]فیکٹری مالکان کیمیکل ملا پانی گہرے کنویں کھود کر یا غرقی کے ذریعے زیرِ زمین ڈال رہے ہیں۔

آبی آلودگی اور اسلام

اسلام میں ماحولیاتی آلودگی اور آبی آلودگی کے تدارک کے لئے اقدامات اٹھانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ آبی آلودگی سے بچاؤ کے لئے اسلامی تعلیمات میں متعدد اصول و ضوابط پائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم کائنات کے ہر قسم کے علوم کا سر چشمہ ہے، کائنات میں ایسا کوئی علم وجود میں نہیں آیا، جس کی اصل قرآن مجید میں موجود نہ ہو۔ اشرف المخلوقات بنی نوع انسان سے اللہ رب العزت کا آخری کلام حتمی وحی قرآن ِ مجید کی صورت میں قیامت تک کے لیے محفوظ کر دیا گیا۔ چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی آخری وحی ہے اور اس کے بعد سلسلہ وحی ہمیشہ کے لیے منقطع ہوگیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس میں قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے ہر قسم کے حقائق کا علم جمع کر دیا ہے۔ کلامِ الہی کی جامعیت بنی نوع انسان کے لیے روزِ قیامت تک کے لیے رہنمائی کی حتمی دستاویز ہے جو عقلی و نقلی ہر دو قسم کے علوم کو محیط ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو اول سے آخر تک اصلاًتما م حقائق و معارف اور جملہ علوم و فنون کی جامع ہے۔ [199]اسلام کے نظامِ طہارت میں ہر نماز سے قبل وضو اورجنابت و ناپاکی کی صورت میں غسل کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ آپﷺ نے جمعہ کے دن غسل کرنے کی تاکید فرمائی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ مسلمان ہمیشہ صاف ستھرا رہے اور اس کے گندا رہنے کی وجہ سے مسلمانوں کے اجتماع میں کسی دوسرے کو تکلیف و پریشانی نہ ہو۔ [200]حفظانِ صحت کے نقطہ نظر سے اشیائے خوردونوش کو کامل احتیاط سے رکھنا چاہیے اور اگر وہ کھلے برتن میں ہوں تو انہیں ڈھانپ دینا چاہیے تاکہ ان میں ایسے جراثیم داخل نہ ہوسکیں۔ [201]

ارشاد نبویﷺ ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ، فَلَا يَغْمِسْ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ حَتَّى يَغْسِلَهَا ثَلَاثًا، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ"[202]

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آپﷺ نے نےارشادفرمایاجب تم میں سےکوئی اپنی نیندسےبیدارہوتواپنےہاتھ کوبرتن میں مت ڈالےیہاں تک کہ اسکودھولےکیونکہ وہ نہیں جانتاکہ اسکےہاتھ نےرات گزاری ہے۔  

اسلام میں آبی آلودگی سے روک تھام کے لیے واضح احکام پائے جاتے ہیں اسلام میں پانی کے تحفظ اور استعمال کے اصول و آداب پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ پانی کے موجودہ مسائل کا حل تعلیمات ِ اسلامی پر عمل پیرا ہونے میں مضمر ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے:

" عَنْ جَابِرٍ: عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى أَنْ يُبَالَ فِي الْمَاءِ الرَّاكِدِ"[203]

 رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا گناہ ہے۔ ایک حدیث کے مطابق جاری پانی میں بھی پیشاب کرنے سے منع کیاگیا ہے۔ طبی اعتبار سے پانی میں پیشاب کرنے سے "بلہارزیا" نای مرض کے جراثیم سارے پانی میں پھیل جاتے ہیں۔ اور خاص طور سے ٹھہرے ہوئے پانی میں ایسے جراثیم کا پھیلنا یقینی ہوتا ہے۔ پھر وہ جراثیم اپنے تکوینی مراحل طے کرکے دم دار جرثومہ کی شکل میں پانی میں تیرنے لگتے ہیں۔ اور جب اسے کوئی جسم مل جاتا ہے تو اس میں گھس جاتے ہیں اور جگر کی سوزش اور دوسری امراض کا باعث بنتے ہیں۔[204]

مذکورہ بالا دلائل شاہد ہیں کہ اسلام میں پانی کے تحفظ اور آبی آلودگی سے تدارک کے لئے پائی جانے والی ہدایات و تعلیمات جامع اور قابل عمل ہیں۔ پانی کے استعمال سے متعلقہ شرعی احکام پر عمل پیرا ہو کر معاشرہ کو آبی آلودگی جیسے خوفناک مسئلے سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

 

[1]ابو عثمان، الجاحظ، الحیوان، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1424ھ، 1/24

[2] ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، ، دار الهلال – بيروت، 1/395

[3] The New Encyclopaedia Britannica,Vol-12,15th Ed., Encyclopaedia Britannica,Inc.,p.514

[4] The Encyclopedia of Religion,Vol-15,Collier Macmillion Publishers London,p.356

[5]The Oxford English Dictionary, 2nd Ed. ,Vol- XIX, Clarendon Press ,Oxford,1989, P.975

[6] Haroon Yahya (Adnan Oktar) ,The Creation of the Universe,P.132

[7] M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography, p.179

[8]Ibid

[9]James A. Weber, Plants and the Aquatic Environment, (Plants, people & Environment) ,Macmillan Publishing Co., New York, 1979, p.141

[10]نور باقی، ڈاکٹر، ہلوک، (مترجم: سید محمد فیروز گیلانی) ، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، انڈس پبلشنگ کارپوریشن کراچی، 1998ء، ص۔ 44

[11] M. Rafiq and Mohd. Ajmal, Isᾱm and The Present Environmental crisis, (Isᾱm and the Environment,Edited by: A R Agwᾱn) ,p.134

[12]غزنوی، خالد، ڈاکٹر، طب نبویﷺ اور جد ید سائنس، ص۔ 102

[13] The New Encyclopedia Britannica, Volume 12,15 Th Ed.,p.514,515

[14]سليمان بن أحمد، أبو القاسم الطبراني، الروض الداني (المعجم الصغير) ، المكتب الإسلامي , دار عمار - بيروت، 1405ھ، رقم الحدیث، 295

[15]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/298

[16]أبو معين الدين ناصر خسرو، سفر نامه، دار الكتاب الجديد – بيروت، 1983، 1/132-133

[17] Encyclopedia Britannica, Vol-23,Encylopedia Britannica Ltd,Hazen Watson & Viney Limited, 1962,p.404

[18]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/296

[19]المرجع السابق

[20] The New Encyclopedia Britannica (micropedia) ,Vol- 8,15th Ed۔ .,Chicago,1992,p.155

[21] Encyclopedia Britannica, Vol-23,p.405

[22] The New Encyclopedia Britannica, Volume 12,15 Th Edition,p.514,515

[23]المرسلات، 27: 77

[24]ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ) ، الطب النبوي، ص۔ 296

[25]الفرقان، 53: 25

[26]غزنوی، خالد، ڈاکٹر، طب ِنبوی ﷺ اور جدید سائنس، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، لاہور، 2011ء، ص۔ 92

[27]The World Book Dictionary,Vol-2,World Book,Inc. Chicago,1989,p.2362

[28]غلام عباس، سکاڈرن لیڈر (ر) ، پانی، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد، 2019ء، ص۔ 25

[29]المومنون، 18: 23

[30]M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography, p.392

[31]نور باقی، ڈاکٹر، ہلوک، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۔ 82

[32]فاروقی، ناصر آئی، (مترجم: سید سعیداحمد) ، اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس، ص۔ 1

[33]Husaini, Waqᾱr Ahmad, Isᾱmic Thought In the Rise and Supermacy of Isᾱmic Technological Culture: Water Resources and Energy,Goodword Books, New Delhi,2002,p.89

[34]محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، خطباتِ بہاولپور، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اسلام آباد، اشاعت چہارم 1992ء، ص۔ 229

[35]محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، خطباتِ بہاولپور، ص۔ 232

[36]کتانی، عبدالحئی، التراتیب الاداریتہ، اختصار ر ترجمہ (عہد نبویؐ کا اسلامی تمدن) ، 1991ء، ص۔ 141۔ 142

[37]ھود، 7: 11

[38]مجمع البحوث الإسلامية بالأزهر، التفسیر الوسیط للقرآن الکریم، الهيئة العامة لشئون المطابع الأميرية، 1983م، 4/166

[39]M. Rafiq and Mohd. Ajmal, Isᾱm and The Present Environmental Crisis ,p.128

[40]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/168

[41]الانبیاء، 30: 21

[42]ہلوک، نور باقی، ڈاکٹر، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۔ 83

[43]عبدالسلام بن محمد، تفسیر القرآن الکریم، داراندلس پبلشرو ڈسٹری بیوٹر، لاہور، ص۔ 722

[44]Sultan Ismail,Environment: An Isᾱmic Perspective,P.168

[45]ہلوک، نور باقی، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۔ 44

[46]Encyclopedia Britannica, Volume23,Encylopedia Britannica LTD,Hazen Watson & Viney Limited, 1962,p.404

[47]يحيى بن سلام ، تفسير يحيى بن سلام، دار الكتب العلمية، بيروت، 1425 هـ، 1/456

[48]خرم اقبال، دنیا، حیرت اور حقائق (واقعات عالم کا انسائیکلوپیڈیا) ، حق پبلی کیشنز اردو بازار لاہور، ص۔ 128

[49]خرم اقبال، دنیا، حیرت اور حقائق (واقعات عالم کا انسائیکلوپیڈیا) ، حق پبلی کیشنز اردو بازار لاہور، ص۔ 128

[50]اسرار احمد، ڈاکٹر، بیان القرآن، حصہ سوم، مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور، ص۔ 376

[51]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe,p.92

[52]ندوی، محمد شا ہجہاں، آبی وسائل اور ان سے متعلق شرعی احکام، (ایفا پیلیکیشنز، نئی دہلی، 2012ء) ، ص۔ 389

[53]محمد ظفر اقبال، ڈاکٹر، طبعی کیمیا، ادارہ کیمیا پنجاب یونیورسٹی لاہور، ص۔ 9

[54]محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدينابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/ 16

[55]Gouri,Ahsan-ul Rehman, Dr., Eclological issue in the light of Holy Quran,Research Journal Ulu-e-Isᾱmia,Vol.23,2017,Department of Isᾱmic studies, Isᾱmia University Bahawalpur,p.2-3

[56]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe, P.149

[57] ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/167

[58]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe., P.139

[59] Lawrence Henderson, The fitness of the environment, Boston: Beacon Press, 1958 p,105

[60]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe,p.141

[61]M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography ,p.378

[62]الانفال، 11: 8

[63]طنطاوي، محمد سيد، التفسير الوسيط للقرآن الكريم، دار نهضة مصر للطباعة والنشر والتوزيع، الفجالة – القاهرة، 1998ء، 6/50

[64]غزنوی، خالد، ڈاکٹر، طب نبوی ﷺ اور جدید سائنس، جلد دوم، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، لاہور، جولائی 2011ء، ص۔ 93

[65]Alvi ,Farhat Naseem , Afshan Noureen, Understanding Ecology Issues and Finding their Isᾱmic Solution, Al-Adwa 40: 28,Sheikh Zayed Isᾱmic Centre, Punjab University Lahore,p.46

[66]اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، دانش گاہ پنجاب، لاہور، جلد 5، طبع اول، 1971ء، ص۔ 491

[67] M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography, p.393

[68]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 12 جون 2018ء

[69]النور24: 45

[70]Ibrahim Abdul Matin,What Isᾱm teaches about protecting California; Berret-Koheller publishers I-Inc.,2010,p.119

[71]طنطاوي، التفسير الوسيط للقرآن الكريم، 7/444

[72]غلام عباس، سکاڈرن لیڈر (ر) ، پانی، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد، ص۔ 27

[73]محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/167-168

[74]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment,p.83

[75]روزنامہ دنیا لاہور، 5 مئی 2018ء

[76]السجدہ، 27: 32

[77]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم ، دار إحياء التراث العربي – بيروت، رقم الحدیث، 108

[78]الكاساني، علاء الدين، أبو بكر بن مسعود، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الشرب، دار الكتب العلمية، 1406هـ، 6/188

[79] Terence R.Lee, Water Resources Management in Latin America and the Caribbean,Westwiew Press Boulder, San Francisco, & Oxford ,1990 ,p.106

[80]أبو داود سليمان، سنن أبي داود، (المكتبة العصرية، صيدا – بيروت) ، کتاب الزکٰوۃ، بَابٌ فِي فَضْلِ سَقْيِ الْمَاءِ، رقم الحدیث، 1682

[81]کتانی، عبدالحئی، علامہ، التراتیب الاداریتہ، اختصار ر ترجمہ (عہد نبویؐ کا اسلامی تمدن) ، 1991ءص۔ ۔ 66-67

[82]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe, P.135

[83] James A. Weber,Plants and the Aquatic Environment, (plants , People & Environment by Peter B. Kaufman and J.Donald LaCroix) ,P.151

[84]روزنامہ امت راولپنڈی، 20 جولائی 2018ء

[85]Clarence L.Barnhart,Robert K.Barnhart,The World Book Dictionary,Volume two,World Book,Inc. Chicago London Sydney Toronto,1989,p.2362

[86]الرحمٰن، 24: 55

[87]ابن قیم الجوزية، الطب النبوي، 1/299

[88]ابن سینا، القانون فی الطب، 1/558

[89]James A. Weber,Plants and the Aquatic Environment, (plants , People & Environment by Peter B. Kaufman and J.Donald LaCroix) , P.149

[90]محمد بن يزيد ، سنن ابن ماجه، كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا، بَابُ الْوُضُوءِ بِمَاءِ الْبَحْرِ، رقم الحدیث، 388

[91]M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography, Anmol publications Pvt.Ltd., New Delhi,1998,p.313

[92]Yahya, HᾱrūnThe Creation of The Universe,P.128

[93]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/299

[94]الحجر، 22: 15

[95]ق، 9: 50

[96]مودودی، سید، مولانا، الجہاد فی الاسلام، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، (س۔ ن) ، ص۔ 31

[97]التفسیر الوسیط للقرآن الکریم، 9/ 1064

[98]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe, P.132

[99]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment , p.227

[100]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/261

[101]ہلوک نور باقی، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۔ 42

[102]داحودی، آبی وسائل اور ان سے متعلق شرعی احکام، ص۔ 132

[103]بشیر الدین محمود، کتابِ زندگی، القرآن الحکیم ریسرچ فاؤنڈیشن، اسلام آباد، 2010ء، ص۔ 69

[104]ہلوک، نور باقی، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۔ 43

[105]وقار احمد، ڈاکٹر، گلیشیرز۔ پانی کی دستیابی کا بڑا ذریعہ، ماہنامہ ھلال، مارچ 2018ء، شمارہ: 3، جلد: 55

[106]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment,p.90

[107]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/297

[108]Rᾱj, Gurdeep, Dictionary of Environment,p.90

[109]وقار احمد، ڈاکٹر، گلیشیرز۔ پانی کی دستیابی کا بڑا ذریعہ، ، مارچ 2018، شمارہ: 30، جلد: 55

[110]روزنامہ دنیا لاہور، 7 اگست 2018ء

[111]روز نامہ ایکسپریس لاہور، 3 اگست 2018ء

[112]الرعد، 3: 13

[113]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كتاب الآداب، بَابُ مَا فِي الدُّنْيَا مِنْ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ رقم الحدیث، 2839

[114]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment,p.93

[115]الملک، 30: 67

[116]کتانی، عبدالحئی، علامہ، التراتیب الاداریتہ، (عہد نبویؐ کا اسلامی تمدن) ، مرتب: مولانا رضی الدین فخری، ادارۃ القرآن والعلوم کراچی، جنوری 1991ء، ص۔ 65

[117] M. S. Rᾱo, Dictionary of Geography, p.396

[118] Ibid, p.392

[119]محمد بن علي الشوكاني، نيل الأوطار، دار الحديث، مصر، 1413ھ، 6/28

[120]کتانی، عبدالحئی، علامہ، التراتیب الاداریتہ، اختصار ر ترجمہ (عہد نبویؐ کا اسلامی تمدن) ، ، ص۔ 65-66

[121]یٰسین، 34: 36

[122]کتانی، عبدالحئی، علامہ، التراتیب الاداریتہ، ص۔ 65

[123]، أبو بكر البيهقي، الآداب للبيهقي، مؤسسة الكتب الثقافية، بيروت لبنان، 1408 ه، بَابٌ فِي اسْتِعْذَابِ الْمَاء رقم الحدیث 447

 

[124]The New Encyclopedia Britannica (micropedia) ,Vol- 8,15th Ed.,p.155

[125] World Resources Institute,https: //www.un.org.pk/water-insecurity/, accessed on on 05 january 2020

[126]Fazle Karīm Khᾱn, “A Geography of Pakistan: Environment, People and Economy,Oxford University Press, Oxford,1991,p.70

[127]روزنامہ نوائے وقت لاہور، 27 نومبر 2017ء

[128]https://www.dw.com/en/water-crisis-why-is-pakistan-running-dry/a-44110280 accessed on 10 December ,2022

[129]Isᾱmic Republic of Pakstan ,Country Environment, Environment Analysis, Asian Development Bank,2008,p.6

[130]Water Scarcity in Pakistan, The Nation Lahore,14 July, 2019

[131]روزنامہ دنیا لاہور، 3 ستمبر 2018ء

[132]H. A. R. Gibb,J. H. Cramers, E. Levi-Provencal, J. Schacht,The Encyclopaedia of Isᾱm,Vol.1,Leiden, E. J. Brill,Netherlands,1986, P.1005

[133]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 23 اپریل 2018ء

[134]روزنامہ خبریں لاہور، 10 جون 2018ء

[135]Anatol Lieven,Pakistan: A Hard Country, BBS public Affairs, Newyork,P.52

[136]World Water Council,https: //www.worldwatercouncil.org/en/water-crisis, accessed on 18 january,2020

[137] Anatol Lieven,Pakistan: A Hard Country, BBS public Affairs, Newyork,P.50

[138]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 9 جنوری 2019ء

[139]ماہنامہ معارف انڈیا، مارچ 2018ء، ص۔ 218

[140]https://www.unenvironment.org/news-and-stories/story/crisis-cape-town-3-months-until-taps-run-dry accessed on 20 January, 2022

[141]روزنامہ دنیا لاہور، 23 مارچ 2018ء،

[142]روزنامہ خبریں لاہور، 31 مئی 2018ء

[143]روزنامہ خبریں لاہور، 23 جون 2018ء،

[144]الملک، 30: 67

[145]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كِتَابُ الْوَصِيَّة، بَابُ مَا يَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِهِ، رقم الحدیث 1631

[146]محمد بن يزيد القزوي، سنن ابن ماجه، افتتاح الكتاب في الإيمان وفضائل الصحابة والعلم بَابُ ثَوَابِ مُعَلِّمِ النَّاسَ الْخَيْرَ، رقم الحدیث، 242

[147]أبو داود سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود،، كِتَاب الزَّكَاةِ، بَابٌ فِي فَضْلِ سَقْيِ الْمَاءِ، رقم الحدیث، 1681

[148] جلال الدین، سید، اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور، اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی، دسمبر 2005ء، ص۔ 121

[149]ندوی، شاہ معین الدین، مولانا، تاریخ اسلام، ایچ۔ ایم اسلام سعید کمپنی کراچی، 1983ءجلد 1، ص۔ 180-181

[150]پیر کرم شاہ، ضیا ءالنبیؐ (جلد اول) ، ضیا ء القرآن پبلی کیشنز لاہور، پاکستان، ربیع الاول 1420ھ، ص۔ 269

[151]سبا، 15: 34

[152]پیر کرم شاہ، ضیاء النبی ﷺ، ضیا ء القرآن پبلی کیشنز لاہور پاکستان، جلد اول، ربیع الاول 1420ھ، ص، 268

[153]روزنامہ دنیا لاہور، 10فروری 2018ء

[154]Gurdeep Rai , Dictionary of Environment,p.234

[155]ممتاز حسین اور مسز سیدہ سائرہ حمید، مطالعہ ماحول، آزاد بک ڈپو اردو بازار لاہور، ص۔ 69

[156]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment,p.180-181            

[157]M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography, p.97

[158]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 11 جولائی 2018ء

[159]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 21 جون 2018ء

[160]روزنامہ جنگ لاہور، 16 جون 2018ء

[161]روزنامہ جنگ لاہور، 9 اگست 2018ء

[162]روزنامہ نوائے وقت لاہور، 20 اگست 2018ء

[163]روزنامہ جنگ، لاہور، 16 جون 2018ء

[164]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 23 اپریل 2018ء

[165]Fazle Karīm Khᾱn,A Geography of Pakistan: Environment, People and Economy,Oxford University Press, Oxford,1991,p.71

[166]روزنامہ دنیا لاہور، 11 جون 2019ء

[167]Abūbakar Ahmad Bakadar,Isᾱmic Principals For The Conservation Of The Natural Environment,p.78

[168]Peter B. Kaufman and J. Donald LaCroix, Plants, People & Environment, P.414

[169]ثنا نازاور ڈاکڑ جنید اکبر، ، آلودہ پانی کی مروجہ تحلیل و تطہیر کا سائنسی و شرعی جائزہ، مجلہ علوم اسلامیہ و دینیہ، (شش ماہی) ، 2: 3، شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ ہری پور، جولائی –دسمبر، 2018ء، ص۔ 89

[170]فاروقی، ناصر آئی، مترجم: سید سعیداحمد، اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس، ص۔ 10

[171]ثروت صولت، ملتِ اسلامیہ کی مختصر تاریخ، حصہ چہارم، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، جولائی 1988ء، ص۔ 29

[172]روزنامہ خبریں لاہور، 31 مئی 2018ء

[173] Anatol Lieven,Pakistan: A Hard Country, BBS public Affairs, Newyork,P.51

[174]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 10 مئی 2018ء

[175]روزنامہ نوائے وقت لاہور، 10 مئی 2018ء

[176]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 19 جولائی 2018ء

[177]روزنامہ نوائے وقت لاہور، 10 مئی 2018ء

[178]روزنامہ نوائے وقت لاہور، 16 ستمبر، 2019ء

[179]روزنامہ جنگ لاہور، 6 اگست 2018ء

[180]فاروقی، ناصر آئی، مترجم: سید سعیداحمد، اسلام میں پانی کا انتظام، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، ٹوکیو، نیویارک، پیرس، 2006ء، ص۔ 77

[181]الاعراف31: 7

[182]محمد بن جرير أبو جعفر الطبري، جامع البيان في تأويل القرآن، مؤسسة الرسالة، 1420 هـ، 12/394

[183]أبو داود سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، كِتَاب الطَّهَارَةِ، بَابُ مَا يُجْزِئُ مِنَ الْمَاءِ فِي الْوُضُوءِ، رقم الحدیث، 92

[184]بدر الدين العينى، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، بابُ الوُضُوءِ بالمُدِّ (دار إحياء التراث العربي بيروت) ، 3/94

[185]المرجع السابق

[186]داحودی، آبی وسائل اور ان سے متعلق شرعی احکام، ص۔ 135، 136

[187]روزنامہ امت راولپنڈی، 20جولائی 2018ء

[188]ماہنامہ غازی کراچی، دسمبر 2018ء، شمارہ 21، جلد 13، ص۔ 42

[189]Bernstein,Winkler,Ziead F Warshah,Environmental Science,Ecology and Human Impact (U.S.A,Wesleypublishing company 1996) ,p.33

[190]روزنامہ جنگ لاہور، 5 دسمبر 2017ء

[191]روزنامہ خبریں لاہور، 24 دسمبر 2017ء

[192] Bernstein,Winkler,Ziead F Warshah,Environmental Science,Ecology and Human Impact ,p.33

[193] Oliver.S,Owen and Danial D Chiras,Natural resources Conservation,An Ecological Approach,5th Ed.,USA Machmillion Data,1990,p.183

[194]Marie-Louse Lasson,Legal definitions of the environment ,Stockholm institute for seandianvian,Law,2009,p.1

[195]Fazle Karīm Khᾱn, A Geography of Pakistan: Environment, People and Economy,p.70

[196]روز نامہ خبریں لاہور9فروری 2018ء

[197]Rᾱnī, Reetᾱ, Dictionary of Biology, p.47

[198]روزنامہ خبریں لاہور، 4 مئی 2018ء

[199]محمد طاہر القادری، ڈاکٹر، اسلام اور جدید سائنس، منہاج القرآن پبلیکیشنز لاہور، اگست 2007ء، ص۔ 201

[200]سعیدالرحمٰن، ڈاکٹر، عہدِ حاضر میں تہذیب و شائستگی کے تصورات اور اسوہ نبیؐ، سیرت سٹڈیز، 2016ء، جلد1، شمارہ1، ص۔ 87

[201]محمد طاہر القادری، شیخ الاسلام، ڈاکٹر، اسلام اور جدید سائنس، ص۔ 582

[202]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، بَابُ كَرَاهَةِ غَمْسِ الْمُتَوَضِّئِ وَغَيْرِهِ يَدَهُ الْمَشْكُوكَ فِي نَجَاسَتِهَا فِي الْإِنَاءِ قَبْلَ غَسْلِهَا ثَلَاثًا، رقم الحدیث، 278

[203]المرجع السابق، صیح مسلم، كِتَابِ الطَّهَارَةِ، بَابُ النَّهْيِ عَنِ البوْلِ فِي المَاءِ الرَّاكدِ، رقم الحدیث، 281

[204]ڈاکٹر ابو الحسن محمد شاہ، قرآنی تعلیمات اور ماحولیات، ضیائے حرم (ماہنامہ) اسلام آباد، جنوری 2017ء، ص۔ 28

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...