Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں |
Asian Research Index
قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں

باب چہارم: معدنی وسائل کا مطالعہ
ARI Id

1686875689131_56115874

Access

Open/Free Access

Pages

178

معدنیات کی اہمیت و افادیت

تعارف(Introduction)

معدنی کا لفظ معدن سے ماخوذ ہے۔ فیروز اللغات میں معدن کے لغوی معنی درج ذیل ہیں:

"کان-کھان- وہ جگہ زمین کھود کر دھاتیں۔ کوئلہ وغیرہ نکالیں۔ (جمع) معادن۔ "[1]

معدنیات کے لغوی معنی "وہ چیزیں جو کان سے نکلیں۔ دھات۔ فلّزات۔ "[2] ہیں۔

معدنیات کو اہم قدرتی وسیلہ کہا جاتا ہے۔ پاکستان معدنیا ت سے مالا مال ملک ہے اس لئے وطن عزیز میں معدنیا ت کے امور طے کرنے کے لئے معدنیات کی وزارت قائم کی گئی ہے۔ معدنیات میں سونا، چاندی، لوہا، تانبا اور نمک وغیرہ شامل ہیں۔ معدنیات کے ذخائر کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں انتہائی مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ مسلم ممالک میں معدنی ذخائر کی بھرمار ہے لیکن ملت اسلامیہ کا المیہ یہ ہے کہ یہ ممالک جدید سائنس و ٹیکنالوجی میں مغربی ممالک کے ہم پلہ نہ ہونے کےباعث اپنے معدنی ذخائر کے اخراج کے لئے ان کے زیر تسلط ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہونا ملت اسلامیہ کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔

علم معدنیات (Mineralogy)

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا میں علم معدنیات کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:

“Mineralogy: scientific discipline that is concerned with all aspects of minerals , including their physical properties , chemical composition, internal crystal structure , occurrence and distribution in nature , and their origins in terms of the physicochemical conditions of formation.”[3]

علم معدنیات سے مراد ایسا سائنسی علم ہے جس میں معدنیات کے بارے میں تمام پہلوؤں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں معدنیات کےطبعی خواص، کیمیائی ساخت، اندرونی کرسٹل ڈھانچہ کی تشکیل وغیرہ کا احاطہ کیا جاتا ہے۔

انسائیکلوپیڈیڈک ڈکشنری آف سائنس میں معدنیات کی کان کنی کے بارے میں ہے:

 “The means for extracting economically important minerals and ores from the Earth. Where the desired minerals lie near the surface, the most economic form of mine is the open pit. This usually consists of a series of terraces, which are worked back in parallel so that the mineral is always within convenient reach of the excavating machines.”[4]

زمین سے معاشی طور پر اہم معدنیات اور کچ دھاتیں نکالنے کے ذرائع جہاں مطلوبہ معدنیات سطح کے قریب واقع ہوتی ہیں، وہاں سب سے اہم اقتصادی و معاشی شکل کھلی گڑہی ہے جو عام طور پر چھتوں کے ایک سلسلے پر مشتمل ہوتا ہے، جو متوازی طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ معدنیات کی کھدائی کرنے والی مشینوں کی مطوبہ جگہ تک رسائی آسانی سے ہو۔ کان کنی میں استعمال ہونے والی کھدائی کرنے والی اکثر مشینیں بڑی ہوتی ہیں۔ قدرتی گیس، پیٹرولیم اور کوئلہ جیسی اہم معدنیات کان کنی کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں۔

اس ضمن میں انسائیکلوپیڈیک ڈکشنری آف سائنس کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Naturally occurring substances that can be obtained by mining, including Coal, Petroleum and Natural gas.”[5]

کیمیائی ترکیب (Composition)

معدنیات قدرتی طور پر ایک قطعی کیمیائی ساخت اور ترکیب رکھتے ہیں۔ ان کا ایک مخصوص اور منفرد داخلی کرسٹل ڈھانچہ ہوتا ہے۔

نیو انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا میں ہے:

“Mineral, any naturally occurring homogenous substance of inorganic origin that has a definite chemical composition or restricted range of compositions and distinctive internal crystal structure.”[6]

مذکورہ عبارت سے ثابت ہوا کہ قدرتی طور پر موجود غیر نامیاتی معدنیات میں خاص کیمیائی ترکیب پائی جاتی ہے۔ معدنیا ت کی تعداد کے بارے میں انسائیکلوپیدیا سائنس ڈکشنری آکسفورڈ کا مؤلف لکھتا ہے:

“Of the 3000 minerals known, fewer than 100 are common. They may be identified by their color (though this can often vary because of impurities) hardness, luster, specific gravity, crystal forms and cleavage; or by chemical analysis and X-ray diffraction.”[7]

تقریباً 3000 معدنیات معلوم ہیں جن میں سے 100 سے بھی کم عام اور معروف معدنیات ہیں۔ معدنیات کی شناخت ان کے رنگ، سختی، چمک، مخصوص کشش ثقل، کرسٹل فارم، کیمیائی تجزیہ اور ایکس رے پھیلاؤ کے ذریعہ کی جا سکتی ہے۔

چٹانیں اور معدنیات

چٹانیں معدنیات کا مجموعہ اور ذخیرہ ہوتی ہیں۔

اس ضمن میں نیو انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Most rocks are aggregates of minerals, although a relatively small number have been known as monomineralic.[8]

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" يٰبُنَيَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِيْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ يَاْتِ بِهَا اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ "[9]

" (اور لقمان نے کہا تھا کہ) بیٹا، کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹانمیں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو، اللہ اسے نکال لائے گا۔ وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔ "

صاحب "جامع البیان فی تاویل القرآن" مذکورہ بالا آیت میں لفظ چٹان کی وضاحت بیا ن کرتے ہیں:

" فخلق الأرض على حوت، والحوتُ هو النون الذي ذكره الله في القرآن: ن والقلم، والحوت في الماء، والماء على ظهر صفاة، والصفاةُ على ظهر ملَك، والملك على صخرة، والصخرة في الريح - وهي الصخرة التي ذكر لقمان"[10]

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کے مطابق :

“A mineral is a naturally occurring homogeneous solid with a definite chemical composition and highly ordered atomic arrangements; it is usually formed mineral species, but only about 100 of them constitute called rock-forming materials.[11]

معدنیات ایک قدرتی طور پر پیدا ہونے والا یکساں ٹھوس مواد ہوتا ہے جس میں خاص کیمیائی ترکیب ہوتی ہے اور جوہری انتظام بھی ہوتا ہے۔ اس سے عام طور پر معدنیات سے متعلق نوع کی تشکیل ہوتی ہے، لیکن ان میں سے صرف 100 ایسی معدنیات ہیں جن کو چٹان بنانے والے مواد کہا جاتا ہے۔ زیادہ تر پتھر معدنیات کامجموعہ ہوتے ہیں، حالانکہ یہ کم تعداد میں ہوتے ہیں۔

ایم ایس راؤ لکھتا ہے:

“A rock desert is one wherein the rock has been exposed due to the strong erosive action of the wind, with only slight deposition. In a stony desert , the rock surface has been broken up by temperature variation, and the ground covered by a layer of fragments from where the smaller particles have been carried away by the wind. A sandy desert generally has an undulating surface of Dunes having intervening hollows.”[12]

کلاسیفکیشن (Classification)

 معدنیات کے مطالعہ میں پچیدگی پائی جاتی ہے اس لئے معدنیات کے مطالعہ میں آسانی پیدا کرنے کے لئےان کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ عناصر، سلفائڈز، آکسائڈز، ہالیڈز، کاربونیٹس، نائٹریٹ، سلفیٹس، فاسفیٹس اور سلیکیٹس اہم درجہ بندیاں ہیں۔ دوسروں کے ساتھ ان کا مقابلہ و موازنہ کیا جاتا ہے جو وہ کیمیائی اور ساختی مشابہت و مماثلت رکھتے ہیں۔ ایک نیا اور جدیدنظام جس میں معدنیات کو ان کی ٹاپولوجیکل ساخت کے مطابق درجہ بندی کی جاتی ہے۔

اس ضمن میں انسائیکلوپیڈک ڈکشنری آف سائنس کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Minerals are generally classified by their anions in to order of increasing complexity; elements, sulfides, oxides, halides, carbonates, nitrates, sulfates, phosphates and silicates. Others are classed with those they resemble chemically and structurally, of arsenates with phosphates. A newer system classifies minerals by their topological structures.”[13]

مذکورہ عبارت سے معدنیات کی درج ذیل بڑ ی آٹھ اقسام ہیں:

1۔ ایلمنٹس2۔ سلفائڈز 3۔ آکسائیڈ ز 4۔ ہیلائڈز 5۔ نائٹرائٹس 6۔ سلفیٹس7۔ فاسفیٹس 8۔ سلیکیٹس

Examples

English

Urdu

No.

Gold ,Iron

Elements

ایلیمنٹس

1

Pyrite,Sphalerite

Sulphides

سلفائڈز

2

Corrundum,Hematite

Oxides

آکسائیڈز

3

Flourite, Rock Salt

Halides

ہیلائڈز

4

Nitratite,Soda nitre

Nitrates

نائٹریٹس

5

Baryte,Gypsum

Sulphates

سلفیٹس

6

Apatite,Monazite

Phosphates

فاسفیٹس

7

Clay Minerals

Silicates

سلیکیٹس

8

ایلیمنٹس (Elements)

 معدنیات کی سب سے اہم قسم ایلی منٹس ہے۔ اکثر و بیشر ایلیمنٹس زمین سے نکالے جاتے ہیں اور اس لئے زیادہ تر ایلیمنٹس معدنیات میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک ہی قسم کے ایٹموں پر مشتمل مادہ ایلیمنٹ کہلاتا ہے۔ تانبا، لوہا، ایلومینیم اور زنک وغیرہ ایلیمنٹس کی مثالیں ہیں۔ 92 ایلیمنٹس قدرتی طو ر پر پائے جاتے ہیں۔ ایلیمنٹس مادہ کی تینوں حالتوں میں پائے جاتے ہیں۔

 اس ضمن میں ہارون یحییٰ لکھتے ہیں:

“All the elements whose existence serves some function in human life. Not of them is either superfluous or purposeless. This situation is further evidence that the universe was created by Allah for mankind.”[14]

عرب سکالر محمد سمییح عافیۃ معدنیات کی تقسیم کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:

"المعادن أقسامًا ثلاثة: فمنها ما ينطبع كالذهب والفضة والحديد والرصاص، ومنها ما لا ينطبع كالياقوت والفيروز والزبرجد، ومنها معادن الأرض كالنفط والكبريت"[15]

مذکورہ عبارت کے مطابق معدنیات کی تین بنیادی اقسام ہیں۔ سب اہم قسم دھاتی معدنیات کی ہے جو سونا، چاندی اور لوہا وغیرہ پر مشتمل ہے۔

معدنیات کی اقسام ( Types of Minerals)

1۔ دھاتی معدنیات 2۔ ۔ غیر دھاتی معدنیات

1۔ دھاتیںMetals))

دھاتی معدنیات میں کیمیائی ترکیب پائی جاتی ہے۔ دھاتی معدنیات بجلی اور حرارت کی اہم موصل ہوتی ہیں۔ اکثر و بیشتر ایلیمنٹس دھاتیں ہیں۔ دھاتی معدنیات ٹھوس اور چمکدار ہوتی ہیں۔ دھاتی معدنیات کو حرارت دے پگھلایا جاتا ہے اور ان سے مخصوص کار آمد اشیاء تیار کی جاتی ہیں۔ دھاتی معدنیات کے نقطہ پگھلاؤ اور کھولاؤ زیادہ ہوتے ہیں۔ دھاتی معدنیات کی اہم خاصیت یہ ہے کہ مختلف دھاتی معدنیات کو ملا کر انتہائی کار آمد بھرت (الائے) بنا ئے جاتے ہیں۔ لوہا، سیسہ، چاندی، سونا اور تانبا دھاتی معدنیات کی عام مثالیں ہیں۔

2۔ غیر دھاتیںNon Metals))

 غیر دھاتی معدنیات میں کیمیائی ترکیب نہیں ہوتی۔ اکثر و بیشتر غیر دھاتی معدنیات بجلی اورحرارت کی غیر موصل ہوتی ہیں۔ دھاتوں کو پگھلا کر مختلف شکلوں میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ غیر دھاتیں مادہ کی تینوں حالتوں (ٹھوس، مائع اور گیس) میں پائی جاتی ہیں۔ کوئلہ (کاربن) ، جپسم، لائم سٹون وغیرہ غیر دھاتی معدنیات کی مثالیں ہیں۔

ممالک کی ترقی (Development of Countries)

دنیا بھر میں معدنیات ممالک کی ترقی و خوشحالی میں اہم کردار کے حامل ہیں۔ معدنیات کے بغیر معیشت و خوشحالی کا تصور بھی محال ہے، اللہ تعالیٰ نے تمام معدنی وسائل کو انسان کےتابع کیا ہےتاکہ وہ ان معدنیات کو اپنے نفع کے لیے استعمال میں لا سکے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا "[16]

" وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔ "

 اکثر و بیشتر معدنیات غیر نامیاتی مادوں پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن بعض نامیاتی مادے بھی معدنیات میں شمار ہوتے ہیں۔ کوئلہ، گریفائٹ، سلفر، تیل اور قدرتی گیس وغیرہ۔ تما م معدنی وسائل کو زمین سے نکالا جاتا ہے اور معدنیات کی معاشی اہمیت کافی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ معدنیات انسانی کی مادی آسائش و خوشحالی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

نیوانسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“The term, mineral is also applied to certain organic substances, such as coal, graphite,sulpher,oil, and natural gas, that are obtained from the Earth for commercial use.”[17]

معدنیات کی اصطلاح بعض نامیاتی ماودوں مثلاً کوئلہ، گریفائٹ، سلفر، تیل اور قدرتی گیس کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے یعنی ایسے یہ معدنیات تجارتی و معاشی مقاصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔

انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کا مقالہ نگار معدنی وسائل کی معاشی اہمیت درج ذیل الفاظ میں بیان کرتا ہے:

“Other minerals such mercury, salt and alum, as well as pearls and precious stone, were necessary for everyday life. The empire was richly endowed with the various mineral resources; the mining industry was an extensive one and the metals, whether precious or not, were the object of a certain amount of international trade.”[18]

ڈکشنری آف انوائرنمنٹ" میں ہے:

"Minerals and fossil fuels are described as stock, resource, or reserve. The stock of a substance is the total amount of that substance contained in the environment, much of which will be inaccessible or unprocessible or unprocessable by present –day technology.[19]

معدنیات اور ایندھن سے مراد وسائل اور محفوظ ذخائر ہیں۔ ماحول میں پائے جانے والی مادے کی کل مقدار کو کسی مادے کا ذخیرہ کہا جاتاہے، جس کی زیادہ تر مقدار موجودہ دور کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی ناقابل رسائی یا ناقابل عمل ہوتی ہے۔

معدنی پانی(Mineral Water)

پانی زندگی کے بنیادی عناصر میں سے ایک ہے۔ پانی ایک ایسا قدرتی وسیلہ ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ معدنیا ت پانی کے اند ر پائی جاتی ہیں ورپانی کا ذائقہ اور مزاج اس میں پائی جانے والی معدنیا ت کی مقدار و نوعیت پر ہوتا ہے۔ 1970 کی دہائی کے وسط سے ترقی یافتہ ممالک میں معدنی پانی کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں قدرتی چشموںسے حاصل کردہ معدنی پانی کو برآمد کیا جاتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا میں ہے:

“The use of mineral water as a beverage has increased greatly since the mid-1970s.Large quantities of bottled water from mineral springs in France and other European countries are exported each year.”[20]

امام ابن قیمؒ رقمطراز ہیں:

"وَالْمَاءُ الَّذِي يَنْبُعُ مِنَ الْمَعَادِنِ يَكُونُ عَلَى طَبِيعَةِ ذَلِكَ الْمَعْدِنِ، وَيُؤَثِّرُ فِي الْبَدَنِ تَأْثِيرَهُ"[21]

ایسا پانی جو کان سے پھوٹ کر نکلتاہےتو اس کا مزاج کان کی معدنیا ت کے مطابق ہو گااور جسم ویسا ہی اثر کرے گا۔ پانی کی بوتلوں پر منرل واٹر لکھا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس پانی میں نمکیات یعنی معدنیات پائے جاتے ہیں۔ جو پانی زیرِ زمین ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے، اس میں ضروری معدنیات قدرتی طور پر موجود ہوتے ہیں اور قدرتی طور پر ہی منرل واٹر ہوتا ہے۔

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا میں معدنی پانی کے خواص بیان کئے گئے ہیں:

“Water that contains a large quantity of dissolved minerals and gases. Mineral water from natural springs commonly has a high content of calcium carbonate, magnesium sulphate, potassium, and sodium sulfate.It may also be impregnated with such gases as carbon dioxide or hydrogen sulphyde.”[22]

معدنی پانی جس میں معدنیات اور گیسیں بڑی مقدار میں تحلیل ہوتی ہیں۔ قدرتی چشموں سے آنے والے معدنی پانی میں عام طور پر کیلشیم کاربونیٹ، میگنیشیم سلفیٹ، پوٹاشیم اور سوڈیم سلفیٹ جیسی معدنیات پائی جاتی ہیں۔ اس پانی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ یا ہائیڈروجن سلفیڈ جیسی گیسیں بھی موجود ہو سکتی ہیں۔

 مٹی کی ساخت (Structure of Soil)

مٹی میں معدنیات، نامیاتی مواد، پانی اورہوا جیسے اہم عناصر پائے جاتے ہیں۔ یہ عناصر مٹی کی ساخت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مٹی ان چاروں عناصر سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔ [23]مٹی میں نباتات آسانی سے اگ سکتے ہیں۔ پودوں کو نشوونما کے لئے معدنیات کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ جڑوں کے ذریعے مٹی سے حاصل کرتے ہیں۔ زمینی مٹی کا زیادہ تر حصہ معدنیات پر مشتمل ہوتا ہے۔

مٹی میں پائے جانے والے معدنیا ت کو درج ذیل جدول سے گراف سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔

بھارت کے "ایم ایس راؤ" مٹی میں معدنی مواد کے بارے میں لکھتے ہیں:

“Over 90 percent of the dry substance of the average soil is inorganic mineral matter, formed from the original rock material by Weathering , and it also contains Humus. In the pore spaces are liquid and gaseous components, mostly water and air Soils may be classified into Zonal, Intrazonal and Azonal Soils.”[24]

مذکورہ عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ خشک مٹی کا 90 فیصد سے زائد مواد مختلف غیر نامیاتی معدنیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ مٹی کا زیادہ حصہ معدنیات سے مل کر بنتا ہے۔ اسطرح معدنیات کی اہمیت واضح ہوکر سامنے آ جاتی ہے۔

انسائیکلوپیڈیک ڈکشنری آف سائنس کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“More specifically, in geology, substances of natural inorganic origin, of more or less definite chemical composition , crystal structure and properties, of which the rocks of the Earth`s crust are composed.”[25]

 معدنیات مین قدرتی غیر نامیاتی اصل مادہ پایا جاتا ہے۔ معدنیات کم و بیش مخصوص کیمیائی ساخت رکھتےہیں۔ معدنیات میں کرسٹل ڈھانچہ پایا جاتا ہے۔ زمین کی پرت کے پتھر معدنیا ت میں شامل ہیں۔

ایک انگریز مصنف مٹی میں پائے جانے والے معدنیات کی افادیت بیان کرتا ہے:

“Mineral nutrients, such as nitrate and phosphate, are needed for the proper functioning of all plants. There are some groups of plants that have special requirements as well. One example is the silicate requirement of diatoms which build their outer wall covering from this material. Most aquatic plants absorb these nutrients from the water; however , aquatic vascular plants which root in the substrate may take up 50 percent or more of their nutrients from the soil.”[26]

معدنیات سے متعلق غذائی اجزاء (نائٹریٹ اور فاسفیٹ) تمام پودوں اور درختوں کی مناسب نشوونما کے لئے ضروری ہیں۔ پودوں کے کچھ گروہ ایسے ہیں جنہیں معدنیات کی خصوصی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ڈائٹومس (عصیوی کائی) کو معدن سلیکیٹ کی خصوصی ضرورت ہوتی ہے جو اس معدن سے اپنی بیرونی دیوار خاص حصہ ہوتی ہے۔ زیادہ تر آبی پودے پانی سے ان معدنی غذائی اجزاء کو جذب کرتے ہیں۔ تاہم پانی کے وہ پودےجو زیریں طبق میں جڑ رکھتے ہیں وہ مٹی سے اپنے غذائیت کا 50 فیصد یا اس سے زیادہ حاصل کر سکتے ہیں۔

انسانی جسم (Human Body)

معدنیات ایسے غیر نامیاتی عناصر ہیں جو زمین کے اندر بنتےہیں اور جو جسم میں تیار نہیں ہوسکتے جبکہ یہ بدن وجسم کے کئی امور کی انجام دہی میں حصہ لیتے ہیں اور بدن کی صحت و تندرستی کے لئے ناگزیرہیں۔ انسانی جسم میں معدنیا ت پودوں یا حیوانات پر مشتمل غذاسے منتقل ہوتے ہیں۔ معدنیات انسانی بدن میں بہت سے افعال مثلاً ہڈیوں، دانتوں اور خون کے خلیات کی تشکیل و بناوٹ میں اہم ترین حصہ ڈالتےہیں اور جسمانی اعضاء کی نشوونما میں بھرپور حصہ لیتی ہیں۔ کیلسیم، آئرن، آیوڈین، فلورین، فاسفورس، پوٹاشیم، زنک، سوڈیم وغیرہ معدنیات کی مثالیں ہیں۔ معدنیات سبزیوں، پھلوں، دودھ، انڈوں وغیرہ میں بھی پائی جاتی ہیں۔ زنک انسولین کےکام میں مدد کرتا ہے۔ بدن کی نشوونما اور تولید کے امور میں کردار ادا کرتا ہے۔ فلورائیڈ کاکام ہڈیوں میں معدنیا ت کی مقدار کو متوازن رکھنا ہے دانتوں اینیمل کو مضبوط کرنا ہے۔ آئیوڈین تھائرائیڈ گلینڈ کے نارمل فعل کے لئے ضروری کردار ادا کرتا ہے۔ سوڈیم اہم معدنی وسیلہ ہے جو انسانی جسم میں پٹھوں کے سکڑنے، عصبی، دل کے افعال اور بلڈ پریشر کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ پوٹاشیم جسم میں فلوئڈز کا توازن قائم کرتا ہے۔ دل کے افعال اور بلڈ پریشر کے لئے اس کی مناسب مقدار میں موجودگی ضروری ہے۔ کیلسیم ہڈیوںاور دانتوں کی نشوونما و بقا میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ خون جمنے کے لئے کیلسیم ضروری ہے۔ مناسب مقدار میں کیلسیم کا استعمال گردے کی پتھری سے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ میگنیشم کی مدد سے دانت، ہڈیاں نشوونما پاتی ہیں۔ فاسفورس ہڈیوں کی تشکیل و بناوٹ حصہ لیتا ہے۔

سائنسی انسائیکلوپیڈیا کا مقالہ نگار انسانی جسم کے لئے آئرن کی افادیت بیان کرتا ہے:

“In the human body, iron is a constituent of Hemoglobin and Cytochromes. Iron deficiency causes Anemia.”[27]

آئرن انسانی جسم و بدن میں خون کی ترسیل کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ جسم میں آئرن کی کمی سے خون کی کمی یعنی اینیمیا خطرناک مرض لاحق ہو سکتا ہے۔

نباتات کی نشوونما (Growth of Plants)

پودوں، درختوں، فصلوں اور نباتات کی نشوونما کے لئے معدنیات ناگزیر ہوتے ہیں۔ معدنیات نباتات کے لئے اسقدر اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ان کے بغیر یہ پودے پھل پھول نہیں سکتے۔

ایک انگریز نباتات کے حوالے سے معدنیات کی اہمیت اسطرح بیان کرتا ہے:

Studies of mineral nutrition contributed to the development of the green revolution crops by providing plant breeders with an understanding of plant foods. Another spin-off from studies on mineral nutrition in plants is hydroponics. This method is used commercially to grow vegetation.”[28]

معدنی غذائیت کے مطالعے نے پودوں کی دنیا میں سبز انقلاب برپا کر دیا ہے۔ معدنی غذاؤں نے زرعی فصلوں کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیاہے۔ پودوں میں معدنی غذائیت کے استعمال ایک جدید طریقہ ہائڈروپونک ہے۔ پودوں کو اگانے کا یہ طریقہ تجارتی مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

Peter B. Kaufman معدنیا ت کی اہمیت و ضرورت بیان کرتا ہے:

The vegetative growth of plants is dependent not only upon photosynthesis but also on water and on water and on mineral nutrients in the soil and water systems.”[29]

مذکورہ بالا عبارت سے ثابت ہوتا ہےکہ نباتات کی نشوونما نہ صرف ضیائی تالیف پر منحصر ہے بلکہ پانی اور مٹی کے نظام میں معدنی غذاؤں پر بھی ہوتا ہے۔

قدرتی گیس (Natural Gas)

صنعتوں کو رواں رکھنے کے لیے قدرتی گیس مطلوب ہوتی ہے۔ یہ گاڑیوں اور گھروں میں امورِ خانہ داری کے لیے بھی اہم ضرورت ہے۔ قدرتی گیس کا استعمال بہت عا م ہو گیا ہے کیونکہ یہ پیٹرول کے مقابلے میں سستی ہوتی ہے۔ پاکستان قدرتی گیس سے مالا مال ملک ہے۔ نومبر 2015ء میں شائع شدہ یو ایس ایڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دس ہزار ٹریلین مکعب فٹ سے زائد شیل گیس اور 2323 بلین بیرل شیل آئل کے ذخائر موجود ہیں۔

ماہر ماحولیات گردیپ راج لکھتا ہے:

“A mixture of gases , both hydrocarbons and non-hydrocarbons found in nature, and often associated with deposits of petroleum. The principal component of natural gas is usually methane (CH4) and the term is often restricted to such a gas, although natural gases composed predominantly of such a gas , although hydrogen sulphide are known. Under subsurface reserved conditions , some natural gases are liquids.”[30]

قدرتی گیس مختلف گیسوں کا مرکب ہوتا ہے۔ دونوں ہائیڈرو کاربن اور نان ہائیڈرو کاربن قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں اور اکثر پٹرولیم کے ذخائر سے وابستہ ہوتے ہیں۔ قدرتی گیس کا بنیادی جزو عام طور پر میتھین پر مشتمل ہوتا ہے یہ اصطلاح اکثر ایسی گیس تک ہی محدود رہتی ہے، اگرچہ قدرتی گیسیں اس طرح کی گیس پر مشتمل ہوتی ہیں حالانکہ اسے ہائیڈروجن سلفائیڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ زیر زمین محفوظ حالات کے تحت کچھ قدرتی گیسیں مائع ہیں۔ قدرتی گیس یا تو پائپ لائن کے ذریعہ یا ریفریجریٹڈ، ایل این جی کیریئرز میں مائع حالت میں (مائع قدرتی گیس، ایل این جی) دوسرے مقامات کی طرف منتقل کی جاتی ہے۔

پاکستان کی توانائی ضروریات کا 35 فیصد حصہ قدرتی گیس سےپورا ہو تا ہے۔ وطن عزیز میں قدرتی گیس سب سے پہلے 1952ء میں بلوچستان میں سوئی کے مقام پر ڈیرہ بگٹی کے قریب دریافت ہوئی تھی۔ اس کے بعد قدرتی گیس سندھ اور پوٹھو ہار سمیت 13 مقامات پر دریافت ہوئی۔ قدرتی گیس بلوچستان میں سوئی، اچ اور سندھ میں خیر پور، مزرانی، سیری، ہنڈکی اور کندھ کوٹ اور پنجاب میں ڈھوڈک، پیر کوہ، ڈھلیان اور میال شامل ہیں۔ قدرتی گیس پائپ لائنوں کے ذریعے وطن عزیز کے مختلف علاقوں میں پہنچائی گئی ہے۔ [31]وطن عزیز میں گیس کے تحقیق شدہ ذخائر قریباً 31 ٹریلین مکعب فٹ ہیں۔ جبکہ محفوظ ذخائر 140-190 ٹریلین مکعب فٹ ہیں۔ یہ ایک قیمتی قدرتی وسیلہ ہیں۔ قدرتی گیس ملکی توانائی قریباً 73 فیصد حصہ مہیا کرتی ہے۔ بعض بڑے کارخانوں نے اپنی توانائی کی ضرورت کے لیے قدرتی گیس سے چلنے والے بجلی گھر بنا رکھے ہیں۔ ایک انتہائی مربوط نظام کے ذریعے قدرتی گیس کو پائپ لائنوں کے ذریعے صارفین تک سپلائی کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے دو کمپنیاں قائم ہیں۔ سوئی نادرن گیس اور سوئی سدرن گیس۔ [32]خیبر پختونخواہ میں گیس کے کل ذخائر 600 ملین بیرل ہیں۔ اس وقت پاکستان کی تیل پیدا کرنے کی صلاحیت 93 ہزار بیرل یومیہ ہیں۔ [33]

گیسوں کا آمیزہ جو زمین سے نکلتا اور ایندھن کے طور پر بکثرت استعمال ہو تا ہے، ترکیب اجزاء تغیر پذیر ہے لیکن اس میں زیادہ تر میتھین ہو تی ہے، قدرتی گیس با لعموم پٹرولیم کے ساتھ وابستہ ہے، تاہم تیل کے میدانوں سے بہت دور بھی پائی جاتی ہے۔ نلوں کے سلسلے جن میں بعض 1000 میل سے بھی زیادہ لمبے ہیں۔ گیس کو صنعتی مراکز تک پہنچاتے ہیں، امریکہ میں بیشتر قدرتی گیس اوکلاہوما، کیلیفورنیا، لوئیزر یانا، اورمغربی ورجینیا سے دستیاب ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی بمقام سوئی کے علاوہ متعدد مقامات پر اس

کے ذخائر موجود ہیں۔ [34]

 پٹرولیم(Petroleum)

ایک صاف اور بے رنگ مائع جو پٹرولیم سے حاصل کیا جاتا ہے۔ معدنی تیل کو دوائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اس تناظر میں نیو انسائیکلو پیڈیا کا مقالہ نگار رقمطراز ہے:

“A clear, colorless, oily liquid that is a by product of the distillation of petroleum. Mineral oil is used in medicine as a laxative and as an emollient.”[35]

 بعض اوقات معدنی تیل میں سانس لینے سے پھیپھڑوں میں کیمیائی نمونیا ہو سکتا ہے، اسطرح جلاب کی حیثیت سے اس کی افادیت کو مزید محدود ہو جاتی ہے۔ جلد پر معدنی تیل کا اطلاق ہوتا ہے جس سے جلد میں نمی برقرار رکھتا ہے اور اسے نرم اور زیادہ لچکدار ہوتا ہے۔ معدنی تیلکے متعدد صنعتی استعمال بھی ہوتے ہیں، جن میں پرفیوم اور سالوینٹ، چکنا کرنے اور موصلیت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔

اس ضمن میں انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

Mineral oil is applied to the skin makes the latter softer and more pliable by retaining moisture within the epidermis. Mineral oil also has a variety of minor industrial uses , including use in hair sprays and as a solvent, lubricator, and insulator.”[36]

مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ معدنی تیل ایک کارآمد چیز ہے۔ اوریہ کئی مقاصد کے لئےاستعمال ہوتا ہے۔ اس کی ایک قسم صنعتوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔

پٹرولیم اہم معدنی وسیلہ ہے۔ پٹرولیم زمین کے اندر قدرتی طور پر پایا جانے وال معدنی مادہ ہے۔ یہ ایک ایسا معدنی مادہ ہے جو بنیادی طور پر ہائیڈرو کاربن پر مشتمل ٹھوس، مائع یا گیس یا مرکبات اور ذخائر کی صورتمیں پایا جاتا ہے۔ پٹرولیم کو قدرتی گیس، گاڑھا ہوا، خام تیل اور باقیا ت میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

بھارت کے ماہرِ ماحولیات "گردیپ راج" لکھتے ہیں:

“Petroleum: A naturally occurring material composed predominantly of hydrocarbons, in a solid, liquid or gaseous stateor a compounds and reservoir conditions. Petroleum can be subdivided into natural gas, condensate, crude oil and bitumen”[37]

پاکستان کا شمار پٹرول کی سب سے زیادہ کھپت والے ممالک میں ہوتا ہے۔ صارفین سالانہ کروڑوں پٹرول استعمال کرتےہیں۔ کوالٹی کے لحاظ سے دنیا بھر کے سب سے کم ترین معیار کا پٹرول ہمارے ملک میں کیا جا رہا ہے، جو فضائی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ اوگرا اور ہائیڈرو کاربن انسٹیٹیوٹ کی جانب سے پٹرول کے نمونہ جات کے لیبارٹری ٹیسٹ کروائے گئے، جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ریفائنریز پٹرول میں آکٹین کا لیول بڑھانے کے لیے خطرناک کیمیکلز کا استعمال کر رہی ہیں جو کہ انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ پاکستان میں 70 فیصد آلودگی کا سبب ٹرانسپورٹ کا دھواں ہے۔ اس آلودگی کے باعٹ دمہ، گلے کے کینسر اور پھیپھڑوں و آنتوں کی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور سالانہ ہزاروں لوگوں کی اموات ہو رہی ہیں۔ ان سب بیماریوں کے پیچھے کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسیں، لیڈ اور والٹائل آرگینک جیسے مرکبات شامل ہیں، جس کا اخراج انجن کے دھواں سے ہوتا ہےجس کی وجہ سے عوام کا سانس لینا بھی اجیرن ہو جاتا ہے۔ [38]

ڈاکٹر فضل کریم خان لکھتے ہیں:

“Pakistan is deficient in petroleum. Up to 1983-84, domestic production met 11 percent of the local demand. A breakthrough was achieved in 1984-85 when 19 percent of the home requirement was met by local supplies.”[39]

 پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی بہت مقدار پائی جاتی ہے کہ لیکن اس کے باوجود پاکستان اپنی پٹرولیم مصنوعات کی ضروریات کا بڑا حصہ مقامی پٹرولیم ذخائر سے پورا کیا جا سکتا ہے۔

کوئلہ (Coal)

کوئلہ کالی یا بھوری جلنے کےقابل تہہ دار معدنی وسیلہ ہے، جو اکثر چٹانوں کے درمیان رگوں یا تہوں کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ کوئلہ نباتی مادہ سے بنتا ہے اس لئے یہ بنیادی طور پر یہ کاربن پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں گندھک، ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن جیسے عناصر بھی متغیر مقداروں میں پائے جاتے ہیں۔ کوئلے کے سب سے زیادہ ذخائر روس میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں تھر کے علاقے میں کافی مقدار کوئلہ کے ذخائر موجود ہیں۔ امریکہ، چین، ہندوستان، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، یوکرائن اور قازقستان میں بھی کوئلہ کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔

کوئلہ کیسے وجود میں آیا؟

کوئلہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ نباتی مادہ گل سڑ کر ختم ہونے کی بجائے پانی اور کیچڑ میں دفن ہو جائے، تاکہ اس کے اجزاء منتشر نہ سکیں۔ دلدلی علاقوں میں لاکھوں سالوں تک درختوں اور پودوں کا نامیاتی مادہ دفن ہوتا رہا اوردباؤ اور زمینی حرارت سے اس کی تہیں بنتی گئیں۔ جوں جوں کوئلے پر دباؤ بڑھتا ہے اور زیادہ وقت گزرتا ہے یہ سخت ہوتا جاتا ہے۔ چونکہ اس میں آکسیجن زیادہ ہوتی ہے اس لئے یہ آسانی کے ساتھ جلتا ہے۔ کوئلہ نباتی مادے یعنی پودوں اور درختوں کےلاکھوں سال کیمیائی عمل سے گزر کر وجود میں آیا ہے اور یہ پھر جلانے کے کام آتا ہے۔ قرآن اس حقیقت سے پردہ اٹھاتاہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اَفَرَءَيْتُمُ النَّارَ الَّتِيْ تُوْرُوْنَ۔ ءَاَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَهَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِــُٔوْنَ۔ نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَ "[40]

" کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جو تم سلگاتے ہو، اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں ؟ہم نے اس کو یاد دہانی کا ذریعہ اور حاجت مندوں کے لئے سامان زیست بنایا ہے۔ "

امام ابن قیم ؒ رقمطراز ہیں:

" وَالْمَشْوِيُّ عَلَى الْجَمْرِ خَيْرٌ مِنَ الْمَشْوِيِّ بِاللَّهَبِ، وَهُوَ الْحَنِيذُ"[41]

کوئلہ پر بھنا ہوا گوشت جلتی ہوئی آگ کےشعلے پر بھنا ہوا گوشت زیادہ مفید و نافع ہوتا ہے۔

کوئلے کے ذخائر

دنیا میں کوئلے کے کل ذخائر 929 ارب ٹن ہیں جن سے 40 فیصد بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ پاکستان میں دنیا کے تیسرے بڑے یعنی 185 ارب ٹن کے ذخائر موجود ہیں جو تیل کے کم از کم 400 ارب بیر ل کے برابر ہیں یعنی پاکستان کے کوئلے کے ذخائر سعودی عرب اور ایران کے مجموعی تیل کے برابر ہیں۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہمارے کوئلے کے ذخائر کی مالیت 30 ٹریلین ڈالر ہے جو پاکستان کے موجودہ جی ڈی پی کے 187 فیصد سے زیادہ ہے۔ کوئلہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں موجود ہے تاہم تھر کے کوئلے کا شمار دنیا کے سب سےبڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔ پاکستان کوئلے سے صرف 200 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے جو کل ملکی توانائی کا 7 فیصد ہے جبکہ ہماری توانائی کی پیداوار میں کوئلے سے پیدا کی جانے والی توانائی کا حصہ 25 فیصد ہونا چاہیے۔ [42]

معروف محقق فضل کریم رقمطراز ہیں:

“Coal produced in Pakistan is of inferior quality (lignite and subbtuminous) . It sis of low beating value. The bulk is used in brick kilns. It cannot be claimed that all the coal reserves have been explored. In 1981 a large new field was discovered (Sonda-Thatta coal field) .”[43]

امریکہ 23 فیصد توانائی کوئلہ سے حاصل کرتا ہے۔ پاکستان میں کوئلے کے ذخائر قریباً 87 بلین ڈالر ہیں۔ وطن عزیز میں توانائی کا 6 فیصد حصہ کوئلے سے پورا کیا جاتا ہے۔ [44]کوئلہ کے جلنے سے فضائی آلودگی پھیلتی ہے۔ کوئلہ کے جلنے سے ایسا دھواں پھیلتا ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔

اس تناظر میں صاحب "ڈکشنری آف انوائرنمنٹ" تحریر فرماتے ہیں:

“Smoke. An aerosol of minute solid or liquid particles (most less than 1 micron in diameter) formed by the incomplete combustion of a fuel. In air pollution it is mainly associated with the burning of coal.”[45]

حیرت و استعجاب کا مقام یہ ہے کہ پن بجلی کی بجائے کوئلے سے بجلی کے پلانٹ لگا دیئے گئے۔ ترقی یا فتہ ممالک نے آبی، شمسی اور ایٹمی بجلی حاصل کر لی جبکہ پاکستان کو کوئلے کے پلانٹ دے دئیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے پلانٹ جہاں بھی لگیں گے تو فضائی آلودگی سے پوری زمین کے لوگوں کے لیے متاثر ہوں گے۔

نمک (Salt)

نمک ایک ایسا معدنی وسیلہ ہے جسے دوسرے سالنوں پر فوقیت حاصل ہے۔ نمک کا سائنسی نام سوڈیم کلورائیڈ ہے۔ حضرت انسؓ کی روایت سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نمک کو تمام سالنوں کا سردار قرار دیا ہے۔

ارشاد نبوی ﷺ ہے:

"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَيِّدُ إِدَامِكُمُ الْمِلْحُ[46]

حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نمک تمام سالنوں کا سردار ہے۔ کسی بھی شے کا سردار وہی ہوتا ہے جو اس کے لئے بہتر ہو اور تمام سالن نمک کی بدولت لذیذ اور مزیدار ہو جاتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے خبر دی:

"إِنَّ اللَّه تَعَالَى أَنْزَلَ أَرْبَعَ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ: أَنْزَلَ الْحَدِيدَ وَالنَّارَ وَالْمَاءَ وَالْمِلْحَ"[47]

نمک سے بدن کے تما م اعضاء کی اصلاح ہوتی ہے۔ نمک میں ایسی تاثیر ہوتی ہے جو سونے اور چاندی کی چمک میں اضافہ کرتی ہے۔ اس کا استعمال جسم میں فاسد و غلیظ مادوں کو ختم کرتا ہے۔ اس سے دانت اور مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں۔ نمک گرم خشک مزاج رکھتا ہے۔ نمک کا اعتدال سے استعمال کیا جائے تو اس سے رنگت میں خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔ نمک دست آور بھی ہے اور قے بھی بھڑکاتا ہے، شہوت کوزیادہ کرتا ہے۔ نمک کا اعتدال سےزیادہ استعمال جسم میں خارش اورالرجی کا باعث بنتا ہے۔ نمک گوشت میں بدبو پیدا ہونے سے روکتا ہے۔ یہ سونے اور چاندی کا بھی مصلح ہے۔ [48] زیادہ نمک استعمال کرنے سے خون جل جاتا ہے۔ سرد مزاج رکھنے والی دواؤں میں اس کے استعمال سے ان کی اصلا ح ہوجاتی ہے۔ لوہے کے اوزاروں کو زنگ آلود ہونے سے بچانے کے لئے لیموں کے رس میں نمک ملا کر دھوپ میں رکھنے سے زنگ دور ہوجاتا ہے۔ سیاہ نمک کے استعمال سے دل کو فائدہ ہوتا ہے اور منی میں اضافہ ہوتا ہے۔ بھوک زیادہ ہوتی ہے اور قبض سے نجات ملتی ہے۔ سیاہ نمک دست آور اور ہاضم ہے۔ [49]پاکستان دنیا بھر میں معدنی نمک کے ذخائر رکھنے والا دوسرا ملک ہے۔ پاکستانی کھیوڑہ میں پایا جانے والا قیمتی پہاڑی نمک کیمیائی اور طبی خواص رکھتا ہے۔ ماہرین کی تحقیقی کے مطابق گلابی نمک میں 84 نمکیات اورمنرلز پائے جاتے ہیں جو انسانی صحت اور نفسیات کےلیے فوائد سے بھرپور ہیں۔ ان 84 منرلز میں آرسینک، مرکری، یورینیم اور پلاٹنیم جیسی قیمتی دھاتیں بھی نمک کا خاصہ ہیں۔ پاکستانی کان سے نکلنے والا معدنی و کیمیائی خواص والا پانی ہے جسے "برازن سلوشن" کہا جاتا ہے۔ [50]

 Khewra Salt Mines[51]

 

مسلم دنیا (Muslim World)

اللہ تعالیٰ نے مسلم ممالک کو بے پناہ معدنیات کی دولت عطا کی ہے۔ اقوامِ متحدہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ایک لاکھ ٹن سونا پایا جاتا ہے، تانبے کے ذخائر بھی موجود ہیں، لوہے کے 10 ارب ٹن سے زائد مالیت کے ذخائر موجود ہیں۔ دنیا میں زیادہ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے 9 مسلم ممالک ہیں۔ سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، عراق، کویت، الجزائر، لیبیا، نائجیریا اور سوڈان۔ الجزائر لوہے، تیل، گیس اور زنک وغیرہ جیسے قدرتی وسائل بھرے پڑے ہیں۔ کسی بھی اسلامی ملک کی اپنی ملٹی کمپنی کی عدم موجودگی سے اسلامی ممالک کے قدرتی وسائل پر غیر مسلم ممالک کا راج ہے۔ [52]

انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“In the vast Isᾱmic empire, minerals played an important part. There was a great need for gold, silver and copper for the minting of coins and other uses.”[53]

وسیع اسلامی سلطنت میں، معدنیات نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ سکوں اور دوسری کارآمد اشیاء کی تیاری کے لئے سونے، چاندی اور تانبے کا بہت زیادہ استعمال ہوا۔

پختونخواہ میں گیس کے کل ذخائر 600 ملین بیرل ہیں۔ اس وقت پاکستان کی تیل پیدا کرنے کی صلاحیت 93 ہزار بیرل یومیہ ہیں۔ "او جی ڈی ایس" کے مطابق اس ادارے نے پختونخواہ میں گذشتہ 17 سالوں میں 523 ارب روپے کا تیل اور گیس نکالا ہے۔ پاکستان میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت تقریباً 6444 میگا واٹ ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک کے مطابق وزیرستان میں سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ [54]

معروف مصنف فضل کریم خان لکھتے ہیں:

“Pakistan is deficient in mineral resources, particularly metallic minerals which in general are located in inaccessible and thinly populated areas. Their exploitation poses technological and economic problems. Pakistan is not well equipped to solve either of them.”[55]

پاکستان میں تیل سے توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان تیل سے 32 فیصد توانائی حاصل کر رہا ہے۔ پاکستان کے تیل کے ذخائر 15 فیصد توانائی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ جبکہ توانائی کی ضروریات کا 85 فیصد تیل درآمد کیا جاتا ہے۔ [56]وطن ِ عزیز پاکستان میں تانبا، کوئلہ اور قدرتی گیس کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ نیلم، یاقوت، زمرد، سنگِ مرمر، نمک، چونا، تانبا، چاندی، سونا، قدرتی گیس پاکستان میں پائے جاتے ہیں، پاکستان کوئلے کے ذخائر رکھنے والا دوسرا بڑا ملک ہے، کوئلہ کو سیاہ سونا کہا جاتا ہے۔ نمک کا دوسرا بڑا ذخیرہ پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ تانبے کے لحاظ سے پاکستان پانچویں نمبر پر ہے، تانبے کے ذخائر کے لحاظ سے پاکستان کا نمبرساتواں ہے، قدرتی گیس کے لحاظ سے پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔ [57]

پاکستان میں قدرتی وسائل کثرت سے موجود ہیں۔ کوئلہ شاہرگ، ہرنائی، بولان، سوررینج، لاکھڑا وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ سینڈ ک (بلوچستان) میں 412 ملین ٹن تانبے کے ذخائر کا اندازہ ہے۔ کرومائیٹ، مسلم باغ اور جپسم سبی میں پائے جاتے ہیں۔ خام لوہے کے ذخائر کالا باغ اور یورینیم کے ذخائر ڈیرہ غازی خاں میں موجو د ہیں۔ تیل کے ذخائر میال، توت، بالکسر، جویامیر، ڈھولیاں، ڈوڈک وغیرہ ہیں۔ [58]

پاکستان میں تانبا، کوئلہ اور قدرتی گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ دریا، صحرا، بلندوبالا پہاڑ اور وسیع ورعریض سمندر پاکستان کے قدرتی حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔ نیلم، یاقوت، زمرد، سنگ مرمر، نمک، چونا، تانبا، چاندی، سونا اور قدرتی گیس پاکستان میں وسیع پیمانے پر پائے جاتے ہیں۔ کوئلہ کو سیاہ سونا کہا جاتا ہے۔ کوئلہ کے ذخائر رکھنے والا پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ نمک کا دوسرا بڑا ذخیرہ پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ تانبے کے ذخائر کے لحاظ سے پاکستان کا ساتواں نمبر ہے۔ قدرتی گیس کے لحاظ سے پاکستان کا چھٹا نمبر ہے، سونے کے ذخائر کے لحاظ سے پاکستان کا 5 واں نمبر ہے۔ [59]وطنِ عزیز پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو معدنی وسائل اور توانائی کے وسائل و ذرائع سےمالا مال ہیں، اللہ تعالیٰ نے بھرپور معدنی وسائل کی دولت سے نوازا ہے۔ یہ معدنی وسائل تیز رفتار اقتصادی ترقی کے فروغ میں کردار نبھا سکتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں پاکستانی سر زمین سے 250 کلو میٹر کے فاصلے پر مگر پاکستان کی سمندری حدود میں تیل و گیس کے ذخائر موجود ہیں جس کا اندازہ کویت کے تیل کے ذخائر کے برابر ہے، جبکہ اس سے بھی زیادہ تیل سمندر کے اندر موجود ہے، ان ذخائر کو امریکہ کی تیل کمپنی ایکسن اور اٹلی کی کمپنی ای این آئی نے مل کر دریافت کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریکو ڈک میں 1400 بلین ڈالر کا سونا ہے۔

معدنیات کا تحفظ

معدنی وسائل کا تحفظ انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ ناقابل تجدید قدرتی وسائل ہوتے ہیں۔ فوسل فیولز کی بجائے توانائی کے متبادل اور قابل تجدید ذرائع کا استعمال کرکے معدنی وسائل پٹرولیم، قدرتی گیس وغیرہ کی بچت ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ معدنی وسائل کا تحفظ اشرف المخلوقات اور زمین پر اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کی حیثیت سے نسل ِ انسانی پر عائد ہوتا ہے۔ کرہ ارض پر خلیفہ انسان ہے۔

قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے اصطلاح انگریزی زبان میں ' کنزرویشن' استعمال کی جاتی ہے۔

 بھارت کے ماہر ماحولیات گردیپ راج' اپنی تصنیف میں اظہار خیال کرتے ہیں:

“Conservation. The planning and management of resources so as to secure their wise use and continuity of supply while maintaining and enhancing their quality , value and diversity , . Resources may be natural or manmade.”[60]

اللہ تعالیٰ نے تمام معدنی وسائل انسانی فوائد کے لئے بنائے ہیں معدنی وسائل کو استعمال کرنا اور ان کا تحفظ کرنا انسان کی ذمہ داری ہے۔

  1. R. Agwᾱn لکھتا ہے:

“In Isᾱm , humanity is the wise inheritor (Khalifah) of the planetary ecosystem as well as the one for whom all things in the earth and in the heavens are made complaisant (musakkhar) so that human life may fully benefit from the bounties of nature.”[61]

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً "[62]

" میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں"

معروف سکالر عبد الحمید "خلیفہ" کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں:

“The Arabic word Khalifah has been variously translated into English as a successor, deputy , vicegerent, inheritor and trustee. Its verbal root Khalaf means ‘he came after’ followed, succeeded to, and holds with, despite, be at variance with ,and offend against, violate or break a rule, command or promise- a significant connotation in the light of the angels ‘prediction.”[63]

A.R Agwᾱn لکھتا ہے:

“To modern humanity, human beings represent a global market of vast numbers of human consumers of the gold mine called nature. The resulting marketing spree has motivated powerful nations to compete for control of consumers want to exploit nature`s resources. So far, the outcome has been war, enslavement, and chaos.”[64]

نیو انسایئکلو پیڈیا بریٹانیکا میں معدنی وسائل کےبارے میں بیان کیا گیا ہے:

“Minerals are also Nonrenewable, but,some,such as ,iron , are plentiful, and others ,such as ,aluminum can be recycled on economical basis.”[65]

 زمین کے خلیفہ (انسان) کے لئے معدنی وسائل کا تحفظ اور اس کا دانشمندانہ استعمال کرنا اسلام کا ایک اہم اصول ہے۔ جو انسان زمین میں پائے جانے وسائل کا ضیاع کرتا ہے، دراصل وہ فرائض سے غفلت کا ارتکاب کررہا ہے۔

اس تناظر میں مسلم محقق عبدالحمید لکھتے ہیں:

“Among contemporary Muslim commentators it is often held that, according to Isᾱmic principles, a man who does not work to tap the resources of the earth and the universe is a disobedient servant of Allah who does not work for the purpose for which he has been created.”[66]

ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ"[67]

"میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ "

مذکورہ آیت ِ قرآنی سے صاف واضح ہورہا ہے، انسانی حیات و زیست کا اصول ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی و فرمانبرداری کرے۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو خلیفہ بناکر زمین میں پائے جانے والے معدنی وسائل اور دیگر قدرتی وسائل کے تحفظ کی ذمہ داری عنایت کی ہے۔

قرآن میں مذکورہ معدنیات

سونا (Gold)

79

Atomic No.

الْذھب

Arabic Name

11

Group

Gold

English Name

6

Period

Aurum

Scientific Name

10650C

Melting Point

Au

Chemical Symbol

کائنا ت کا رب فرماتا ہے:

" ۭ وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ"[68]

" دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ "

سونا ایک اہم ترین معدنی وسیلہ ہے جس کا متعدد قرآنی آیات میں تذکرہ ہے.۔سونا ایک ایک کیمیائی دھات ہے جس کی علامت Au، ایٹمی نمبر 79، رنگ گہرا زرد، نرم اور انتہائی کثیف دھات ہے۔ سونا بھاری اور غیر عامل دھاتوں میں شمار ہوتا ہے۔ کاپر، چاندی اور سونا دوری جدول کے ایک ہی گروپ میں پائے جاتے ہیں۔ سونے کا قیام پذیر ہمجا صرف 197 کمیتی عدد کا حامل ہے۔ اس کے 24 کے قریب تابکار ہمجا دریافت ہو چکے ہیں۔ ان کا کمیت نمبر 177 سے 204 تک ہے۔ سونے کا لاطینی نام آرم ہے جس کا مطلب ہوتا ہے دہکتی ہوئی صبح۔ سونا دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر لیکن عموماً کم مقدار میں پایا جاتا ہے کیونکہ یہ کافی کیمیاب عنصر ہے۔ سمندری پانی میں سونے کی تھوڑی سی مقدار یعنی 10 مائیکروگرام فی ٹن پائی جاتی ہے۔ سونے کی کثافت 20ڈگری سنٹی گریڈ پر پانی سے 3∙19 گنا ہوتی ہے۔ ایک مکعب فٹ سونے کا وزن 1200 پاؤنڈ ہوتا ہے۔ سونا حرارت اور برق کا عمدہ موصل ہے۔ پلاٹنیم اور سونے کے آمیز ے کو الگ کرنے کے لئے کافی دیر تک گرم کرتے ہیں، جس سے سونا اڑ جاتا ہے۔ سونا کیمیائی طور پر کم ترین عامل دھاتوں میں ایک ہے، یہ ہوا میں نہیں جلتا۔ [69]

ابن سینا اپنی کتاب "القانون فی الطب" بیان کرتے ہیں:

"ذهب: الطَّبْع: لطيف معتدل. الْخَواص: سحالته تدخل فِي أدوية السَّوْدَاء وَأفضل الكيّ وأسرعه برءاً مَا كَانَ بمكوى من ذهب. الزِّينَة: إِمْسَاكه فِي الْفَم يزِيل البخر تدخل سحالته فِي أدوية دَاء الثَّعْلَب والحية طلاء وَفِي مشروباته. أَعْضَاء الْعين: يُقَوي الْعين كحلاً. أَعْضَاء الصَّدْر: ينفع من أوجاع الْقلب وَمن الخفقان وَحَدِيث النَّفس نفعا بليغاً"[70]

امام ابن قیم ؒ رقمطراز ہیں:

" الذَّهَبُ: زِينَةُ الدُّنْيَا، وَطِلَّسْمُ الْوُجُودِ، وَمُفْرِحُ النُّفُوسِ، وَمُقَوِّي الظُّهُورِ، وَسِرُّ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ، وَمِزَاجُهُ فِي سَائِرِ الْكَيْفِيَّاتِ، وَفِيهِ حَرَارَةٌ لَطِيفَةٌ تَدْخُلُ فِي سَائِرِ الْمَعْجُونَاتِ اللَّطِيفَةِ وَالْمُفْرِحَاتِ، وَهُوَ أَعْدَلُ الْمَعَادِنِ عَلَى الْإِطْلَاقِ وَأَشْرَفُهَا. وَمِنْ خَوَاصَّهِ أَنَّهُ إِذَا دُفِنَ فِي الْأَرْضِ، لَمْ يَضُرَّهُ التُّرَابُ، وَلَمْ يَنْقُصْهُ شَيْئًا"[71]

سونا دنیا کی زینت ہے، اس وجود سحر سے کچھ کم نہیں۔ لوگوں اس سے مسرت محسوس ہوتی ہے، یہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا راز ہے، اس کا مزاج لطیف حرارت والاہے، یہی وجہ ہے اسے ہر قسم کی دواؤں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے تما م معدنی وسائل میں اعتدال اور عزت وشرف حاصل ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ جب اسے زمین میں دفن کیا جائے تو اسے نقصان پہنچانے سے قاصر ہے۔ سونا انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہے۔ انسان سونے کو بہت ہی زیادہ چاہتا ہے تو اس کے حصول کے لئے شدید خواہش رکھتا ہے۔

ارشادِ نبوی ؐہے:

"لَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ أُعْطِيَ وَادِيًا مَلْئًا مِنْ ذَهَبٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ ثَانِيًا، وَلَوْ أُعْطِيَ ثَانِيًا أَحَبَّ إِلَيْهِ ثَالِثًا، وَلاَ يَسُدُّ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ"[72]

اگر انسان سونے کی پوری وادی کا مالک بھی بن جائے تو وہ دوسری وادی کی خواہش کرے گا، اگراسے دوسری وادی حاصل ہوجائے تو وہ تیسری وادی کا خواہشمند ہوگا، انسان کا پیٹ مٹی کے سوا کوئی چیز نہین بھر سکتی سوائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔

انسائیکلو پیڈیا آف سائنس کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Gold has been known and valued from earliest times and used for jewelry , ornaments and coinage. It occurs as the metal and as tellurides, usually in veins of Quartz and Pyrite; the chief producing countries are South Africa, The USSR, Canada, and the US. The metal is extracted cyanide or by – forming an amalgam, and is refined by electrolysis. The main use of gold is as a currency reserve, a store of value.”[73]

انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا میں ہے:

“Gold, a good conductor of heat and electricity , is soft and is the most malleable and ductile of metals.An ounce (28 grams) can be beaten out to 300 square feet (about 30 square meters) ; in thin sheets, called leaf, it transmits green light.Because this rare metal is found in relatively pure form in nature, isvisually pleasing and workable, and does not tarnish or corrode, it was one of the first metals to attract man`s attention.”[74]

مذکورہ بالا شواہد و دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ سونا ایک اہم اور کاآمد معدنی دھات ہے۔ سونے کو کسی ملک کی معیشت میں بنیادی حیثیت حا صل ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک کے مطابق وزیرستان میں سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ [75]

لوہا (Iron)

.

26

Atomic No.

Iron

English Name

8

Group

الحدید

Arabic Name

4

Period

Feris,Feric

Scientific Name

15380C

Melting Point

Fe

Chemical Symbol

ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

"وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ"[76]

" اور لوہا اتار اجس میں بڑا زور ہے اور لوگ کے لئے منافع ہیں۔ "

علامہ السمرقندیؒ لکھتے ہیں:

"وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ يعني: وجعلنا الحديد فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ يعني: فيه قوة شديدة في الحرب. وعن عكرمة أنه قال: وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ يعني: أنزل الله تعالى الحديد لآدم عليه السلام، العلاة، والمطرقة، والكلبتين فيه بأس شديد. ثم قال عز وجل: وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ يعني: في الحديد مَنافِعُ لِلنَّاسِ مثل السكين، والفأس، والإبرة. يعني: من معايشهم"[77]

لوہا ایک اہم معدنی دھات ہے جس کا ذکرکئی آیات میں آیا ہے۔ ایک سورت کا نام "الحدید" یعنی لوہا ہے۔ سور ۃ الحدید میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ لوہا ایک ایسا معدنی وسیلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے زمین پر نازل فرمایا ہے۔ لوہا ہتھیاروں، اسٹیل اور مختلف اوزار وں کی تیاری کے لئے ناگزیر ہوتا ہے۔

انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کا مقالہ نگار رقمطراز ہے:

“Iron was indispensable for the manufacture of iron and steel for arms and implements.”[78]

متواتر جدول کے گروپ لوہا ایک دھاتی منتقلی عنصرہے۔ دھاتی لوہا زمین کی تہہ "کور"کا بنیادی جز وہے جبکہ زمین کی تہہ "کرسٹ" میں لوہا نایاب ہوتا ہے۔ لوہا ہیماٹائٹ، میگنیٹائٹ، لیمونائٹ، سیڈیراٹ، گوٹھائٹ، ٹیکونائٹ، کرومائٹ اور پیراائٹ کی صورتوں میں پایا جاتا ہے۔ لوہا تیار کرنے کے لئے دھماکے والی بھٹی میں پگھلایا جاتا ہے، اسطرح آئرن کی تیاری کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، یا ایک طریقہ کار اور خاص عمل کے ذریعے لوہا اسٹیل میں تبدیل کیا جاتا ہے۔

 اس تناظر میں سائنسی انسائیکلو پیڈیا کا مقالہ نگار رقمطراز ہے:

“Silver gray, soft , ferromagnetic metal in Group VIII of the periodic table; a transition element. Metallic iron is the main constituent of the Earth`s core, but is rare in the crust; it is found in meteorites. Combined iron is found as Hematite, Magnetite, Limonite, Siderite, Goethite, Taconite, Chromite and Pyrite. It is extracted by smelting oxide ores in a blast furnace to produce pig iron, which may be refined to produce cast iron and wrought iron, or converted to steel in the open-hearth process.”[79]

زمین پر لوہا ایک ایسا عنصر ہے جس کے ایک ذرے کی تخلیق کے لئے درکار توانائی روئے زمین پر نہیں۔ اپنی اس کم مائیگی اور عاجزی کا اظہار معدنی وسائل کے ماہرین بھی کر چکے ہیں۔ ایک ذرہ لوہا بنانے کے لئے پورے شمسی نظام کی مجموعی طاقت بھی ناکافی ہے۔ امریکہ کے ادارے ناسا کے سائنسدان پروفیسر آرم سٹرانگ اقرا ر و اعتراف کرتے ہیں کہ لوہا زمین پر پیدا ہونے ولا عنصر نہیں ہے بلکہ یہ عنصر اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے جو باہر سے وارد ہوئی ہے۔ [80]

ارشاد نبویؐ ہے:

" عن النبي صلى الله عليه وسلم أنزلَ الله بركات من السماء الحديدَ والنار والماءَ والملحَ"[81]

مذکورہ بالا حدیث سے عیاں ہوتا ہےکہ لوہا ایک بابرکت معدنی وسیلہ ہے۔ لوہا اپنی سختی، مضبوطی کی وجہ انتہائی کارآمد معدنی وسیلہ ہے۔

ترمذی کی ایک حدیث مبارکہ کے مطابق لوہا پہاڑوں سے بھی مضبوط اور طاقتور ہے۔

ارشاد نبوی ہے:

"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الأَرْضَ جَعَلَتْ تَمِيدُ، فَخَلَقَ الجِبَالَ، فَقَالَ بِهَا عَلَيْهَا فَاسْتَقَرَّتْ، فَعَجِبَتِ الْمَلاَئِكَةُ مِنْ شِدَّةِ الجِبَالِ. قَالُوا: يَا رَبِّ هَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الجِبَالِ؟ قَالَ: نَعَمُ الحَدِيدُ"[82]

حضرت انس بن مالک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو وہ حرکت کرنے لگی چنانچہ پہاڑ بنائے اور انہیں حکم دیا کہ زمین کو تھامے رہو۔ فرشتوں کو پہاڑوںکی مضبوطی پر تعجب ہوا۔ تو انہوں نے عرض کیا اے رب کیا آپ کی مخلوقات میں پہاڑوں سے زیادہ بھی کوئی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں لوہا۔

زمین کے اندر لوہا اور دوسری معدنیات کثیر مقدار میں پائی جاتی ہیں جن میں نکل بھی شامل ہے۔ زمین لوہے، کثیف چٹانوں، گرینائٹ، گاؤ آمیز چٹانوں اور سمندر پر مشتمل ہے۔ زمین میں لوہے کی مقدار دوسرے نمبرپر ہے لیکن وہ زمین کے بیرونی حصے پر بہت کم ہے۔ اس کا بیشتر حصہ زمین کے اندر ہے جو پگھلا ہواہے۔ [83]

آن لائن انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کا مقالہ نگار لوہے کی افادیت بیان کرتا ہے:

“ According to the Sūrat al-Ḥadīd (LVII, 25) God sent iron down to earth for the detriment and advantage of man, for weapons and tools are alike made from it. According to the belief of the Ṣābians, it is allotted to Mars. It is the hardest and strongest of metals and the most capable of resisting the effects of fire, but it is the quickest to rust. It is corroded by acids; for example, with the fresh rind of a pomegranate it forms a black fluid, with vinegar a red fluid and with salt a yellow. Collyrium (al-kuḥl) burns it and arsenic makes it smooth and white.”[84]

لوہے میں زبر دست قوت و طاقت پائی جاتی ہے۔ لوہے ایسا معدنی وسیلہ ہے جس سے جنگی سازوسامان تیا ر کیا جاتا ہے۔ جنگی طیارے، ٹینک، توپیں، رائفلیں وغیرہ لوہے سے بنائے جاتے ہیں۔ فلک بوس عمارتوں اور پلازوں کی تعمیر لوہے کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ دریاؤ ں اور نہروں پر پلوں کی تعمیر میں لوہا بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ذرائع آمدورفت کے لئے بھی لوہے کا استعمال بہت بڑی حقیقت ہے۔ لوہے کی جدید مشینوں کی ایجاد نے انسانی زندگی کو پر آسائش بنا دیا ہے۔

تانبا (Copper)

29

Atomic No.

Copper

English Name

11

Group

الْقطر

Arabic Name

4

Period

Copper

Scientific Name

10850C

Melting Point

Cu

Chemical Symbol

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اٰتُوْنِيْ زُبَرَ الْحَدِيْدِ ۭ حَتّٰى اِذَا سَاوٰى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوْا ۭ حَتّٰى اِذَا جَعَلَهٗ نَارًا ۙ قَالَ اٰتُوْنِيْٓ اُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا"[85]

" مجھے لوہے کی چادریں لا کردو۔ آخر جب دونوں پہاڑوں کے درمیان خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا کہ اب آگ دہکاؤ۔ حتیٰ کہ جب ﴿یہ آہنی دیوار﴾ بالکل آگ کی طرح سرخ ہوگئی تو اس نے کہا " لاؤ، اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا۔ "

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَاَسَلْنَا لَهٗ عَيْنَ الْقِطْرِ ۭ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَّعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖ ۭ "[86]

" ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیااور ایسے جن اس کے تابع کردیے جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے۔ "

کاپر ایک کیمیائی عنصر جس کی علامت Cu، ایٹمی نمبر 29 ہوتا ہےیہ غیر آہنی دھاتوں میں سے اہم ترین ہے۔ اس کی افادیت اس کی کیمیائی خواص، طبعی، برقی اور میکانی خصوصیات اور کافی زیادہ مقدار کا حصول ہے۔ کاپر ان دھاتوں میں سے ایک ہے جو سب سے پہلے انسانی استعمال میں آئیں۔ کاپر نسبتاً بھاری دھات ہے۔ 20 ڈگری سنٹی گریڈ پر خالص ٹھوس کی کثافت 96∙8 گرام فی مکعب سم ہوتی ہے۔ کاپر غیر مقناطیسی دھات ہے۔ کاپر کا سب سے زیادہ استعمال برقی صنعت میں ہوتا ہے اس لئے اعلیٰ برقی موصلیت اس کی اہم ترین خصوصیت ہے۔ کاپر مضبوط ترین خالص دھات ہے۔ کا پر ان چند دھاتوں میں سے ہے جو کہ بھرت کی بجائے خالص حالت میں زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔ لیکن مختلف قسم کے بھرت بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے، کانسی اور پیتل اس کی مفید ترین اور قدیم ترین بھرتیں ہیں۔ [87]سائنس انسائیکلوپیڈیا ڈکشنری کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Soft, red metal in Group IB of the periodic table; a transition element. Copper has been used since 6500 BC. It occurs naturally as the metal and as the ores cuprite, chalcopyrite, antlerite, chalcocite, bornite, azurite and malachite. The metal is produced by roasting the concentrated ores and smelting, and is then refined by electrolysis. Copper is strong, tough, and malleable and ductile. It is an excellent conductor of heat and electricity, and most copper produced is used in the electrical industry.”[88]

 کاپر کو متواتر جدول کے گروپ آئی –بی میں رکھا گیا ہے۔ کاپر ایک متقلی عنصر، نرم اور سرخ دھاتی معدن ہے۔ کاپر کا استعمال6500 قبل مسیح سے شروع ہوا ہے۔ یہ دھاتی معدن قدرتی طور پر دھات کے طور پر پائی جاتی ہے۔ کاپر عام طور پر کپرائٹ، چالکوپی رائٹ، اینٹلرائٹ، چالکوسائٹ، بورنائٹ، آزورائٹ اور مالاچائٹ کی حیثیت سے پایا جاتا ہے۔ یہ دھات بھٹیوں میں پگھلا کر تیار کی جاتی ہے اور پھر برقی تجزیہ سے بہتر ہوجاتی ہے۔ کاپر مضبوط، سخت اور پیچیدہ دھاتی معدن ہے۔ یہ گرمی اور بجلی کا ایک بہترین موصل ہے اور زیادہ تر تانبا بجلی کی صنعت میں استعمال ہوتا ہے۔

چاندی (Silver)

11

Group

Silver

English Name

5

Period

الْفِضَّةِ

Arabic Name

47

Atomic No.

Argentums

Scientific Name

21620C

Melting point

Ag

Chemical Symbol

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ بِاٰنِيَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّاَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَا۩رِيْرَا۟"[89]

" ان کے آگے چاندی کے برتن اور شیشے کے پیالے گردش کرائے جارہے ہوں گے۔ "

رحمت دو عالم ﷺ کی انگوٹھی نگینہ چاندی سے بنا ہوا تھا اورتلوار کے دستے پر چاندی لگی ہوئی تھی۔

امام ابن قیم ؒ چاندی کی خصوصیات یوں بیان کرتے ہیں:

"وَالْفِضَّةُ سِرٌّ مِنْ أَسْرَارِ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ، وَطَلْسَمُ الْحَاجَاتِ، وَإِحْسَانُ أَهْلِ الدُّنْيَا بَيْنَهُمْ، وَصَاحِبُهَا مَرْمُوقٌ بِالْعُيُونِ بَيْنَهُمْ، مُعَظَّمٌ فِي النفوس، مصدّر فيالْمَجَالِسِ، لَا تُغْلَقُ دُونَهُ الْأَبْوَابُ، وَلَا تُمَلُّ مُجَالَسَتُهُ، وَلَا مُعَاشَرَتُهُ، وَلَا يُسْتَثْقَلُ مَكَانُهُ، تُشِيرُ الْأَصَابِعُ إِلَيْهِ، ."[90]

چاندی اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ یہ ضروریا تِ زندگی پورا کرنے کے لئے سحر کا کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا والے اس کے ذریعے ایک دوسرے پر احسان کرتے ہیں۔ چاندی ایک ایسا معدنی وسیلہ ہے جو بہت سی دوائیوں میں استعمال کیا جاتاہے۔ اس میں ایسے خواص پائے جاتے ہیں جو قلب میں پیدا ہونے والے آلودہ مواد کو جذب کرلیتےہیں۔ شہد اور زعفران کے ساتھ استعمال کیا جائے تو یہ دل کے لئے نہایت مفید و نافع ہے۔ انسائیکلوپیڈیا سائنس ڈکشنری میں ہے:

“Silver has been known and valued from earliest times and used for jewelry, ornaments and coinage since the 4th millennium BC.”[91]

جو شخص کھانے یا پینے کے لئے سونے یا چاندی جیسے قیمتی وسائل کو استعمال میں لائے گا، اس کے لئے جہنم کی آگ کی وارننگ ہے۔

سید البشرحضرت محمد ﷺ فرماتے ہیں:

" الَّذِي يَشْرَبُ فِي إِنَاءِ الفِضَّةِ إِنَّمَا يُجَرْجِرُ فِي بَطْنِهِ نَارَ جَهَنَّمَ"[92]

صیح بخاری کی روایت ہے:

" لاَ تَشْرَبُوا فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ"[93]

سونے اور چاندی کے برتنوں کے استعمال کو حرام دینے کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ یہ معدنی وسائل نہایت قیمتی ہیں اور لوگوں کے درمیان نقد کیش کے طور پر استعمال ہوتی تھیں۔ اسطرح اگر ان کو برتنوں میں استعمال کیا جائے گا تو نقدی کے لئے ان مقدار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ سونا دنیا کا ہر ملک کرنسی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس کے حرام ہونے کی حکمت یہ بھی ہو سکتی ہےکہ سونے اور چاندی کے برتنوں کے استعمال سے انسان میں تکبر اور غرور کا غلبہ ہوسکتاہے۔

[1]فیروز الدین، مولوی، فیروز اللغات اردو جامع، فیروز سنز لمیٹڈ لاہور، 1965ء، ص۔ 1133

[2]المرجع السابق، ص۔ 1133

[3] The New Encyclopedia Britannica (micropedia) ,Vol- 8,15th Ed.,Encyclopedia Britannica, Inc., Chicago,1992,p.155

[4] The Encyclopedic Dictionary of Science, Facts on File Publications, Oxford, 1988,p.164

[5] The Encyclopedic Dictionary of Science,p.164

[6]The New Encyclopedia Britannica (micropedia) ,Vol- 8,15th Ed.,p.154

[7] The Encyclopedic Dictionary of Science,p.164

[8] The New Encyclopedia Britannica (Micropedia) ,,Volume 24,15th Ed,. p.1

[9]لقمان، 16: 31

[10]ابو جعفر ابن جریر الطبری، جامع البيان في تأويل القرآن، مؤسسة الرسالة، 1420 هـ، 1/435

[11] The New Encyclopedia Britannica (Micropedia),,p.1

[12] M. S, Rᾱo, Dictionary of Geography, p.103

[13]Ibid

[14]Yahya,Hᾱrūn,The Creation of the Universe, P.168

[15]محمد سميح عافية، القرآن وعلوم الأرض، الزهراء للإعلام العربي، 1414 ه، 1/15

[16]البقرہ، 29: 2

[17] The New Encyclopedia Britannica (micropedia) ,Volume 8,15th Edition,Encyclopedia Britannica, Inc, Chicago,1992,p.154

[18] The Encyclopaedia of Isᾱm, Vlume V, Leiden E. J. Brill Neitherlands, 1986,p.963.964

[19]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment,p.181

[20] The New Encyclopedia Britannica (micropedia) ,Volume 8,15th Ed.,p.155

[21]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/296

[22] The New Encyclopedia Britannica (micropedia) ,Volume 8,15th Ed۔ .,p.155

[23] Ray R. Weil and Nyle C. Brady,The Nature and Properties of Soils,15th Ed. , Pearson New York,2017,p.33

[24] M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography, Anmol publications Pvt.Ltd., New Delhi,1998,p.327

[25] The Encyclopedic Dictionary of Science, Facts on File Publications, Oxford, 1988,p.164

[26] Peter B. Kaufman and J. Donald L.,Plants, People and Environment, P.155

[27]The Encyclopedic Dictionary of Science,p.137

[28] Peter B. Kaufman and J.Donald LaCroix, Plants, People & Environment, MacMillan Publishing Co.,Inc.,New York,p.46

[29] Peter B. Kaufman and J.Donald LaCroix, Plants, People & Environment, ,p.45

[30]Rᾱj,Gurdeep,Dictionary of Environment,p.137

[31]روزنامہ جنگ لاہور، 21 جولائی 2018ء

[32]ممتاز حسین اور مسز سیدہ سائرہ حمید، مطالعہ ماحول، آزاد بک ڈپو اردو بازار لاہور، ص۔ 86

[33]روزنامہ جنگ لاہور، 17 فروری 2019

[34]اردو جامع انسائیکلو پیڈیا، شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور، 1988ء، ص۔ 1132

[35] The New Encyclopedia Britannica (micropedia) ,Volume 8.,p.155

[36]Ibid

[37]Rᾱj,Gurdeep,Dictionary of Environment ,p.157

[38]روزنامہ دنیا لاہور، 11 اپریل 2018ء

[39]Fazle Karīm Khᾱn, “A Geography of Pakistan: Environment, People and Economy,Oxford University Press, Oxford,1991,p.67

[40]الواقعہ، 71: 56-73

[41]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/249

[42]روزنامہ جنگ لاہور، 21 جولائی 2018ء

[43]Fazle Karīm Khᾱn, A Geography of Pakistan: Environment, People and Economy,p.67

[44] ممتاز حسین، مطالعہ ماحول، ص۔ 85

[45]Rᾱj, Gurdeep, Dictionary of Environment, p.195

[46]سنن ابن ماجه، كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ، بَابُ الْمِلْحِ، رقم الحدیث، 3315, محمد بن يزيد القزويني

[47]الرازي، فخر الدين، مفاتيح الغيب، دار إحياء التراث العربي – بيروت، 1420 هـ، 29/471

[48]ذھبی، علامہ، طب نبویﷺ، مترجم: محمد اقبال قریشی، مکتب الجسن اردو بازار لاہور، س۔ ن، ص۔ 141

[49]قریشی، احتشام الحق، قدرتی غذاؤں سے علاج، الخیام پبلشرز، اردو بازار لاہور، نومبر 2015ء، ص۔ 440

[50]روزنامہ امت کراچی، 10 جون 2019ء

[51]http://www.pmdc.gov.pk/?p=Gallery accessed on 12 May 2023

[52]روزنامہ پاکستان لاہور، 19 نومبر 2017ء

[53]The Encyclopaedia of Isᾱm, Vlume V, Leiden E. J. Brill Neitherlands, 1986,p.963.964

[54]روزنامہ جنگ لاہور، 17 فروری 2019

[55] Fazle e Karīm Khᾱn, A Geography of Pakistan: Environment , People and Economy,P.67

[56]روزنامہ خبریں لاہور، ص۔ 10

[57]روزنامہ پاکستان لاہور، 19 نومبر 2017ء

[58]شیبانی، فیص احمد، مسلم دنیا، ادارہ معارف اسلامی منصورہ لاہور، 1990ء، ص۔ 126

[59]روزنامہ پاکستان لاہور، 19 نومبر 2017ء

[60] Rᾱj, Gardeep, Dictionary of Environment, p.47

[61] A. R. Agwᾱn, Isᾱm and the Environment, P.5

[62]البقرہ، 30: 2

[63] Abdul –al-Ḥamīd,Exploring the Isᾱmic Environmental Ethics”,Isᾱm ant the Environment ,p.41

[64] A. R. Agwᾱn, Isᾱm and the Environment, P.6

[65] The New encyclopedia Briatannica,Vlol- 3 ,p.553-554

[66] Abdul –al-Ḥamīd,Exploring the Isᾱmic Environmental Ethics,p.39

[67]الذاریات، 56: 51

[68]التوبہ، 34: 9

[69]پروفیسر حافظ عبد الاحد، انسائیکلوپیڈیا برائے کیمیا (جلد 1) ، اردو سائنس بورڈ لاہور، 2003ص۔ 491

[70]الحسين بن عبد الله بن سينا (المتوفى: 428هـ) ، المحقق: وضع حواشيه محمد أمين الضناوي، 1/719

[71]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، دار الهلال – بيروت، 1/232

[72]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ الرِّقَاقِ، بَابُ مَا يُتَّقَى مِنْ فِتْنَةِ المَالِ، رقم الحدیث، 6438

[73] The Encyclopedic Dictionary of Science,p.109

[74] The New Encyclopedia Britannica (micropedia) ,Vol-5,P.336

[75]روزنامہ جنگ لاہور، 17 فروری 2019

[76]الحدید، 25: 57

[77]أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي ، بحر العلوم، 3/410

[78] The Encyclopaedia of Isᾱm, Vlume V, Leiden E. J. Brill Neitherlands, 1986,p.963.964

[79] The Encyclopedic Dictionary of Science,p.137

[80]اکبر علی خان، مولانا، قرآن اور جدید سائنس مکتبہ خلیل اردو بازار لاہور، 2014ء، ص۔ 115

[81]أبو القاسم برهان الدين الكرماني، ، غرائب التفسير وعجائب التأويل، دار القبلة للثقافة الإسلامية - جدة، 2/1189

[82]محمد بن عيسى، سنن الترمذي، ، دار الغرب الإسلامي بيروت، 1998 م، أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رقم الحدیث، 3369

[83]راٹھور، افتخار الدین طارق، اسلام اور سائنس، علمی کتب خانہ لاہور، 1985ء، ص۔ 420-25

[84]https://referenceworks.brillonline.com/search?s.f.s2_parent=s.f.book.encyclopaedia-of-Isᾱm-2&search-go=&s.q=Iron accessed on 25 January, 2020

[85]الکہف، 96: 18

[86]سبا، 12: 34

[87]پروفیسر حافظ عبد الاحد، انسائیکلوپیڈیا برائے کیمیا (جلد 1) ، اردو سائنس بورڈ لاہور، 2003ص۔ 275-279

[88]The Encyclopedic Dictionary of Science,p.69

[89]الانسان، 15: 76

[90]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/264-265

[91]The Encyclopedic Dictionary of Science,p.215

[92]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ الأَشْرِبَةِ، بَابُ آنِيَةِ الفِضَّةِ، رقم الحدیث، 5634

[93]المرجع السابق، كِتَابُ الأَشْرِبَةِ، بَابُ آنِيَةِ الفِضَّةِ، رقم الحدیث، 5633

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...