Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں |
Asian Research Index
قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں

باب پنجم: پہاڑ وں کا مطالعہ
ARI Id

1686875689131_56115899

Access

Open/Free Access

Pages

217

پتھریلی اور اونچی جگہ کے لئے پہاڑ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ پہاڑ دراصل سنسکرت زبان کا لفظ ہے، اردو میں اس کے متبادل "کوہ، پربت اور جبل " مستعمل ہیں۔ پہاڑ دنیا میں زمین کی خشک سطح کا پانچواں حصہ ہیں۔ پہاڑ دنیا کی آبادی کے دسویں حصے کو گھر مہیا کرنے کا وسیلہ ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دنیا میں 80 فیصد پینے کا پانی انہی پہاڑوں میں سے نکلتا ہے۔

11 دسمبر کو پہاڑوں کا عالمی دن منا یا جاتا ہے۔ یہ عالمی دن منانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ دنیا کو ماحولیاتی خطرات سے بچانا، قدرتی ماحول کو برقرار رکھنا، ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ اور پہاڑوں کے قدرتی حسن کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کا شعور اجاگر کرنا ہے۔ پہاڑ عام طور پر پہاڑی سے بلند اور دشوار گزار ہوتا ہے، پہاڑوں کے مطالعہ کے علم کو "اوروگرافی" کہا جا تا ہے۔ دنیا کی دوسری بلندترین چوٹی 'کے۔ ٹو'پاکستان میں واقع ہے، جس کی بلندی 8611 میٹر ہے۔ دنیا کی 8000میٹر سے بلند چوٹیوں میں سے پانچ چوٹیاں پاکستان میں ہیں۔ دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت ہے، جس کی بلندی 8126 میٹر ہے۔

زمین کا توازن (Balance of Earth)

قرآن مجید میں بیشتر مقامات پر فرمایا گیا ہے کہ پہاڑ زمین کی مضبوطی کے لیے زمین میں میخوں کی طرح گاڑے گئے ہیں۔

قرآن پاک میں ہے:

"وَجَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ "[1]    

" اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔ "

زمین پر پہاڑوں کو نصب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ زمین ڈھلکنے اور جھتکے لگنے سے محفوظ و مامون رہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اَ لَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًا -وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا "[2]

ٖ"کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایااور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔ ”

تازہ ترین تحقیق کے مطابق پہاڑ قشرِ زمین بنانے عظیم پلیٹوں کی حرکت اور ان کی باہمی رگڑ یا ایک دوسرے سے ٹکرانے کی صورت میں تشکیل پاتے ہیں۔ جب دو پلیٹیں آپس میں ٹکراتیں ہیں تو ان دونوں میں مضبوط پلیٹ دوسری پلیٹ کے نیچے گھس جاتی ہے اور اوپر والی خم کھا کر بلندی اختیار کر لیتی ہے، اس طرح پہاڑ وجود میں آ جاتا ہے۔ پہاڑ زمین کے مختلف حصوں کو اسی طرح

جوڑتے ہیں جیسے میخیں لکڑی کے ٹکڑوں کو آپس میں جوڑتی ہیں۔ [3]

ابو احمد ابو بکر پہاڑوں کی اہمیت بیان کرتےہیں:

“He has made the mountains to catch and store the rain and to perform a role in stabilizing the crust of the earth.”[4]

تازہ ترین تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ اگر پہاڑ ایک میل اونچا ہو تو اس کی جڑ کئی میل تک گہری ہوتی ہے۔ مذکورہ دلائل و براھین کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں جن واقعات و حقائق کو ۱۴۰۰ سال پہلے بیا ن کیا گیا ہے، جدید سائنس ان حقائق و واقعات کو معلوم کرنے میں اب کامیا ب ہوئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے ذریعے زمین کو سکون و سکوت عطا کیا ہے۔ پہاڑوں کے بغیر زمین کی ہموار سطح تیز آ ندھیوں اور طوفان کی زد میں رہتی اور اس حالت میں اس کے لیے سکون میسر نہ ہو تا۔ پہاڑوں سے نیچے کی جانب زمین میں جڑ کے پوری قوت سے جما ہوا ہوتا ہے۔ سمندری پہاڑوں کے معاملے میں بھی ہلکا مواد پہاڑوں کے نیچے زمین میں جڑ کے طور پر قوت پکڑتا ہے۔ امریکہ کے ماہر ارضیات ڈاکٹر فرینک پریس اپنی مایہ ناز کتاب (ارتھ) میں لکھتے ہیں کہ پہاڑ مثلث نما ہوتے ہیں، زمین کے اندر گہرائی تک ان کی جڑیں ہوتی ہیں اور یہ کہ پہاڑ زمین کو استحکام فراہم کرتے ہیں۔

پہاڑ زلزلوں کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے وجود سے انسان زمین پر سکون سے رہ سکتا ہے۔ تحقیقات کے مطابق زمین فضا میں تیزی سے تیر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر متناسب اور متوازن پہاڑ ٹھونک کراس کی ڈگمگاہٹ کو بند کر دیا، انہی پہاڑوں سے دریاوں کو رواں کر دیا۔ قرآن مجید نے درج بالا انکشافات اس وقت دی تھیں جب جدید ٹیکنالوجی کا وجود تک بھی نہ تھا۔ پہاڑ بہت کارآمد اورمفید قدرتی وسیلہ ہے۔ زمین کی مضبوطی اور استحکام کے لیے پہاڑوں کا تحفظ بہت ضروری ہے۔

براعظمی پہاڑ بنیادی طور پر رسوب سے بنے ہوئے ہیں جبکہ سمندری پہاڑ آ تش فشانی چٹانوں سے وجود میں آتے ہیں۔ پہاڑ زمین کے ماتھے کے جھومر ہیں۔ پہاڑ نہ صرف قدرتی حسن فراہم کرتے ہیں بلکہ ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان پہاڑوں میں جنگلات، معدنیات کے خزانے اور رہائش کے لیے قدرتی جگہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں میں قدرتی راستے بنا دیے تا کہ لوگ رہنمائی حاصل کریں۔ صاف پانی کے قدرتی چشمے رواں دواں ہیں۔ جبل کا تذکرہ قرآن کریم کی متعد د آیات میں آیا ہے۔ پہاڑ زمین کو متوازن رکھنے کے لیے میخوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اَ لَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًا وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا " [5]

" کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا، اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔ "

"التفسیر الوسیط " میں ہے:

" أَي: هي للأَرض كالأوتاد التي تُشَد بها البيوت من الشعر ونحوه، صيانة لها من أَن تتقاذفها الرياح، أَو تتلاعب بها العواطف، وعلى ذلك فالجبال لتثبيت الأَرض واستقرارها، حتى لا تميد بكم أَو يختل توازنها في دورانها فلا تصلح لسكناكم، مع ما في الجبال من المنافع الجمة التي لم تخلق الأَرض لمثلها، وشبهت بالأوتاد لبروزها، أَو لأَنها تحفظ الأَرض من الْمَيَدَانِ والاضطراب."[6]

ایک کتاب جس کا نام (EARTH) ہے دنیا کی بہت سی یونیورسٹیوں میں ایک بنیاد ی حوالہ مانی جاتی ہے۔ اس کتاب کے دو مصنفوں میں سے ایک کا نام پروفیسر" فرانک پریس "ہے۔ پروفیسر فرانک پریس امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے مشیر رہے ہیں۔ ان کی کتاب (EARTH) کے مطابق پہاڑوں کے نیچے تہیں (Underlying Roots) بچھی ہوتی ہیں۔ یہ تہیں گہرائی میں مضبوطی کے ساتھ زمین جمی ہوتی ہیں۔ اس پہاڑ کھونٹے کی طرح نظر آتے ہیں۔ [7] جدید زمینی ماہرین کی تحقیق و جستجوکے مطابق پہاڑ زمین کے نیچے گہری تہیں رکھتے ہیں۔ اور یہ تہیں بعض اوقات سطح زمین سے بلند بھی ہو جاتی ہیں۔ جدید علم الارضیات کی تحقیق سے آیاتِ قرآنی کی سچائی واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے۔

فرشتوں کا حیرت و استعجاب (Angles` Surprise)

زمین کی حرکت روکنے کے لئے پہاڑوں کو پیدا کیا گیا ہے۔ پہاڑوں کی مضبوبی اور پائیداری پر ملائکہ نے بھی حیرت و استعجاب کا مظاہر ہ کیا۔

ارشاد نبوی ہے:

"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الأَرْضَ جَعَلَتْ تَمِيدُ، فَخَلَقَ الجِبَالَ، فَقَالَ بِهَا عَلَيْهَا فَاسْتَقَرَّتْ، فَعَجِبَتِ الْمَلاَئِكَةُ مِنْ شِدَّةِ الجِبَالِ"[8]

حضرت انس بن مالک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو وہ حرکت کرنے لگی چناچہ پہاڑ بنائے اور انہیں حکم دیا کہ زمین کو تھامے رہو۔ فرشتے کو پہاڑوںکی مضبوطی پر تعجب ہوا۔

پہاڑوں کی اقسام ( Types of Mountains)

1۔ براعظمی پہاڑ 2۔ سمندری پہاڑ

براعظمی اور سمندری پہاڑوں میں بنیادی فرق ان کے بناوٹ کا ہے۔ براعظمی پہاڑ بنیادی طور پر رسوب سے بنتے ہیں جبکہ سمندری پہاڑ آتش فشاں چٹانوں سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ براعظمی پہاڑ انضباطی دباؤ کے تحت معرض ِ وجود میں آتے ہیں، سمندری پہاڑ توسیع دباؤ کے بناء پر بننا شروع ہوتےہیں۔ لیکن دونوں اقسام کے پہاڑوں میں مشترک یہ ہے کہ دونوں کی جڑیں ہوتی ہیں جو کہ پہاڑوں کو سہارا دئیے رکھتی ہیں۔ ان جڑوں کا پہاڑوں کو سہارا دینے کاکام ارشمیدس کے قانون کی روسے بالکل درست ہے۔ [9]

 رنگ برنگے پہاڑ (Colourful Mountains)

دنیا کے بعض حصو ں میں مختلف رنگ کے پہاڑ پائے جاتے ہیں جو دلفریب منظر کشی کرتے ہیں۔ایسے پہاڑوں کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی پایا جاتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" اَلْوَانُهَا ۭوَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ "[10]

" پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ "

پہاڑوں کے اندر مختلف رنگوں کی دھاریوں اور چٹانوں کو پاکستان کے شہر کاغان کے علاقےمیں کئی مقامات پر دیکھا جا سکتا ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں پہاڑوں میں رنگ برنگ کے پتھر، چٹانیں اور دھاریاں پائی جاتی ہیں۔ کئی مقامات پرخشک کالے مٹیالے اور سیاہ پہاڑ پائے جاتے ہیں۔ کئی خطوں میں پہاڑوں پر بلند وبالا نباتات اور سبزہ نہایت خوشما منظر پیش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کئی علاقوں میں نمک کا پہاڑ واقع ہیں اور کہیں سنگ مرمر کا پہاڑ وں کے سلسلے ہیں۔ ایک ہی پہاڑ میں سیاہ دھاریاں دور تک چلی گئی ہیں اور کہیں سفید دھاریاں اور کہیں سرخ دھاریاں پائی جاتی ہیں۔ ان پہاڑوں کی ساخت و ترکیب کے اجزاء و عناصر یکساں ہی ہوتے ہیں لیکن ہر پہاڑی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اتنے لاتعداد نئے سے نئے ڈیزائن تیار کردیئے ہیں جنہیں دیکھ کر حیرت گم ہوکر رہ جاتی ہے۔ پہاڑوں کے ان رنگوں کا حسین امتزاج اور ان میں توازن و تناسب انسان کے لئے خوشنمائی اور دلفریبی کا سامان پایا جاتا ہے۔

MIRKO VITALI / EYEEM/GETTY IMAGES[11]

پہاڑ وں کی تسبیح و تقدیس (Tasbeeh of Mountains)

پہاڑ قدرتی وسائل میں سے ہیں اور ان کا تسبیح کرنا بظاہر عجیب سا معلوم و محسوس ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ سارے موجودات وعجائبات کا موجد ہے اس نے حضرت داؤد ؑ کے ہاتھ میں یہ معجزہ صادر کردیا کہ ان کے ساتھ تسبیح و تقدیس کی صدائیں پہاڑ بھی بلند کرنے لگے اور اس کی حمد و ثنا کی گیت پرندے بھی گیت گانے لگے۔ قرآنی آیات تو بار بار یہ حقیقت بیان کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ اس کی تسبیح وتحمید میں لگا تار محو و مصروف ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۭ وَكُنَّا فٰعِلِيْنَ "[12]

" داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا تھا جو تسبیح کرتے تھے، اس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے۔ "

حضرت داؤدؑ کی آواز انتہائی دلکش تھی۔ اسی لیے لحن داؤدی کا تذکرہ موجودہ دور میں بھی ضرب المثل کے انداز میں کیا جاتا ہے۔ جب حضرت داؤدؑ اپنی دلفریب آواز میں زبور کی تلاوت کرتے تو پہاڑ بھی وجد ان میں آکر آپ ؑکی آواز میں آواز ملاکر اللہ تعالی ٰ کی تسبیح کرتےتھے اور اڑتے ہوئے پرندے بھی ایسے مواقع پر ان کےساتھ شامل ہوجایا کرتے تھے۔



[1]الانبیا، 31: 21

[2]النباء، 7، 6: 78

[3]ہارون یحیٰ، قرآن رہنمائے سائنس، ص۔ 221

[4]Abūbakar Ahmad Bakadar,Isᾱmic Principles for the Conservation of the Natural Environment ,p.80

[5]النباء 7: 78

[6]مجمع البحوث الإسلامية بالأزهر، التفسير الوسيط للقرآن الكريم، الهيئة العامة لشئون المطابع الأميرية، ، 10/1736

[7]قادری، حافظ حقانی میاں، مولانا، ڈاکٹر، سانئسی انکشافات قرآن و حدیث کی روشنی میں، دارالاشاعت کراچی، نومبر 2000ء، ص۔ 107

[8]محمد بن عيسى سنن الترمذي، أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رقم الحدیث، 3369

 

[9]قادری، حافظ حقانی میاں، مولانا، ڈاکٹر، سانئسی انکشافات قرآن و حدیث کی روشنی میں، دارالاشاعت کراچی، نومبر 2000ء، ص۔ 114

[10]فاطر، 27: 35

 

[11] Michele Herrmann, The World’s Most Colorful Mountains, Febuary 9 2023

https://www.rd.com/list/colorful-mountains/ accessed on 20 May 2023

[12]الانبیاء، 79: 21

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...