Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں |
Asian Research Index
قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں

باب ششم: قابل تجدید وسائل کا مطالعہ
ARI Id

1686875689131_56115902

Access

Open/Free Access

Pages

224

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے تحاشا قابلِ تجدید ذرائع سے نوازا ہے، ان ذرائع میں پانی سے بجلی، شمسی توانائی، ہوا ئی توانائی ہیں۔ ان ذرائع میں پانی سے بجلی، شمسی توانائی، ہوا سے بجلی وغیرہ ہیں، قابلِ تجدید وسائل کا سب سے زیادہ افادیت یہ ہے کہ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بہت کم مقدار خارج کرتے ہیں، 1 کلو واٹ فی گھنٹہ میں شمسی توانائی سے 87 گرام، جیو تھرمل سے 41گرام، ہوائی توانائی سے 31 گرام، جوہری توانائی سے 52 گرام کاربن بن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ 1 کلو واٹ فی گھنٹہ میں پن بجلی سے صرف کم از کم ایک گرام سے 1500 گرام تک کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ جرمنی میں 30 فیصد، چین میں 29 فیصد اور جاپان میں 24 فیصد بجلی شمسی توانائی سے پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان میں پن بجلی کی صلاحیت ایک لاکھ میگا واٹ ہے، ہوائی توانائی کی 50 ہزارمیگا واٹ ہے، بائیو ماس سے بھی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی ہزاروں میگا واٹ میں ہے، پاکستان میں ایک مربع کلو میڑ پر ایک کلو واٹ توانائی پڑتی ہے جس سے ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ [1]

 مسلم سکالر'عبدالحمید' لکھتا ہے:

“It is the use of non-renewable resources, those minerals and fossil hydrocarbons whose natural cycles are on a geologic time-scale and are thus practically finite in human terms that are ecologically unsound. It is the rampant exploitation of such non-renewable resources over the past 20 years that has led to the industrial and technological way of life that dominates the planet.”[2]

 واپڈا حکام کے مطابق قابل تجدید وسائل سے آئندہ 20 برسوں میں ستانوے سو میگا واٹ پیدا کی جائے گی۔ نیپرا کی سالانہ رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں 2015ء تک 1350 میگا واٹ اور 2020ء تک 3500 میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ 2025ء تک قابل تجدید وسائل سے 6050میگا واٹ اور 2030 ء تک 9700 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ توانائی کا ضیاع شعبہ توانائی کے دائمی مسائل میں سے ایک ہے۔ [3]

شمسی توانائی (Solar Energy)

شمسی توانائی، توانائی حاصل کرنے کا بنیادی اور ماحول دوست ذریعہ ہے، جس سے سورج کی شعاعوں کو بجلی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ شمسی توانائی معدنی ایندھن کے باعث ماحولیاتی مسائل و مشکلات کے انسداد و تدارک کے لیے موزوں اور ساز گار ہے۔ مستقبل کا یہ معاشرہ شمسی توانائی کی قوت پر استوار ہوگا۔ ایسی مطلوبہ ٹیکنالوجی پہلے ہی موجود ہےجس کے ذریعے توانائی کے نظام کی عالمی سطح پر ابتداء ممکن ہے۔ شمسی توانائی چیزوں کو پانی کے نکتہ جوش کے برابر یا اس سے کم درجہ حرارت پر کرمی مہیا کرتی ہے۔ اور یہی وہ درجہ حرارت ہے جس پر کھانا پکائے یا گرم کئے جاتے ہیں۔

اسرائیل اور اردن میں شمسی حرارت کو جمع کرنے والے ایسے آلات چھتوں پر لگائے گئے ہیں جو گھریلو ضرورت کا 25 سے 65 فیصد تک گرم پانی مہیا کرتے ہیں۔ امریکہ میں ایک ملین سے زائد ایسے گھر ہیں جن کا درجہ حرار ت قدرتی ہوا کے گرم جھونکوں سے ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ [4]

Peter B Kaufman لکھتا ہے:

“As the crisis in worldwide energy production caused by petroleum shortages came closer during the late 1960s and early 1970s, several groups of people proposed development work leading towards large scale conversion of solar to electrical power.”[5]

شمسی توانائی، توانائی حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے جس سے سورج کی شعاعوں کو بجلی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ کرہ ارض پر توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ سورج ہے۔ ایک مربع کلو میٹر رقبہ پر ایک سیکنڈ میں 1 کلو واٹ سورج کی توانائی زمین پر آتی ہے۔ شمسی توانائی کا با لکل معمولی حصہ ضیائی تالیف میں استعمال ہوتا ہے، یہ توانائی پائیدار، لا محدود، قابلِ تجدید اور ماحول دوست ہے۔ شمسی سیل کے ذریعے شمسی توانائی کو بجلی میں تبدیل کر لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں موسمِ گرما طویل ہونے کی وجہ سے شمسی توانائی کے لیے بہت موزوں مقا م ہے۔ [6] شمسی توانائی قدرت کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں سورج سے حاصل ہونے والی توانائی سے سولر پینل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کاکام لیاجا رہا ہے۔ وطنِ عزیز کا شمار دنیا کے ان خوش نصیب مما لک میں ہوتا ہے جہاں سورج گھنٹوں روشنی بکھیرتا رہتا ہے۔ دیگر ذرائع سے حاصل کی جانے والی توانائی کے مقابلہ میں سورج کی کرنوں سے 36 گنا زیادہ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ماہریں کے مطابق ایک سولر پینل 20 سے 25 سال برس تک کارآمد رہتا ہے۔ [7]وطن عزیز میں شمسی توانائی کے ذریعے توانائی کی ضروریات کو آسانی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ شمسی توانائی بجلی پیدا کرنے کا اہم اور سستا ذریعہ ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق سورج سے ایک گھنٹے میں حاصل ہونے والی توانائی پوری دنیا کی کل سالانہ پیداکردہ مجموعی توانائی سے زیادہ ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا کے صحراؤں کا صرف آدھا فیصد بھی شمسی توانائی کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے تو اس سے دنیا میں توانائی کی طلب پوری کی جاسکتی ہے۔ وطن عزیز میں شمسی توانائی کا کافی پوٹینشل موجود ہے۔ وطن عزیز میں سالانہ فی مربع میڑ 19 میگا واٹ بجلی میسر ہے۔ 50 ہزار دیہاتوں میں رہنے والی 90 فیصد آبادی کو شمسی توانائی سے بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔ [8]

شمسی توانائی ماحول دوست اور طویل المدت ہونے کی وجہ سے عوام میں تیزی سے مقبول ہور ہی ہے۔ پاکستان میں قریباً 300 دن سورج اپنی آب و تاب دکھاتا ہے۔ سولر پینل مختلف چھوٹے چھوٹے سولر سیلز کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ایک سولر سیل 2/1 وولٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ ایک اچھے سولر پینل سے تقریباً 26 وولٹ حاصل ہوں گے۔ [9]سولر سسٹم سے ایک قدم آگے سائنسدان سولر ٹائلز کی دنیا میں قدم رکھ چکے ہیں، سولر ٹائلز بھی سولر پینل کی طرح بجلی پیدا کرنے والا سسٹم ہے۔ امریکی کمپنی ٹیسلا کے سی-ای-او ایلون مسک نے چھتوں پر لگنے والی ایسی ٹائلز متعارف کروائی ہیں، جن میں شمسی توانائی کے پینل لگے ہوئے ہیں، شیشے کی بنی یہ ٹائلز شمسی توانائی حاصل کرنے کا خوبصورت انداز ہے۔ [10]جاپان میں ایک نجی کار کمپنی نے سولر پاور کار کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ سولر پینلز سے آراستہ یہ کار سورج کی روشنی سے براہِ راست گاڑی کی بیٹری کو چارج کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتی ہے۔ سورج کی روشنی کی موجودگی میں کار شمسی توانائی کا استعمال کرتے ہوئے 35 میل کا سفر طے کرسکتی ہے۔

ہوائی توانائی (Wind Energy)

ہوائی خطوں میں اونچے میناروں پر ایسی ساخت کی ٹربائینں نصب کی جاتی ہیں جو میکانکی ذریعے سے ہوا کے زور پر چلتی ہیں اور اس طرح ان سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

ارشاد نبوی ہے:

"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الأَرْضَ جَعَلَتْ تَمِيدُ، فَخَلَقَ الجِبَالَ، فَقَالَ بِهَا عَلَيْهَا فَاسْتَقَرَّتْ، فَعَجِبَتِ الْمَلاَئِكَةُ مِنْ شِدَّةِ الجِبَالِ. قَالُوا: يَا رَبِّ هَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الجِبَالِ؟ قَالَ: نَعَمُ الحَدِيدُ، قَالُوا: يَا رَبِّ فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الحَدِيدِ؟ قَالَ: نَعَمُ النَّارُ. فَقَالُوا: يَا رَبِّ فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: نَعَمُ الْمَاءُ. قَالُوا: يَا رَبِّ فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْمَاءِ؟ قَالَ: نَعَمُ الرِّيحُ."[11]

حضرت انس بن مالک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو وہ حرکت کرنے لگی چناچہ پہاڑ بنائے اور انہیں حکم دیا کہ زمین کو تھامے رہو۔ فرشتے کو پہاڑوںکی مضبوطی پر تعجب ہوا۔ تو انہوں نے عرض کیا اے رب کیا آپ کی مخلوقات میں پہاڑوں سے زیادہ بھی کوئی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں لوہا، عرض کیا عرض کیا لوہے سے زیادہ سخت بھی کوئی چیز ہے۔ فرمایا ہاں آگ۔ عرض کیا اس سے سخت ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا پانی۔ فرشتوں نے عرض کیا اس سے سخت۔ فرمایا ہوا۔

Dale M. Grimesلکھتا ہے:

“Experimental work on large-scale power conversion from wind to electrical power began in France in the 1920s with the construction of a 20-m-diameter two-bladed propeller. Work next developed in Russia, Mongolia, and throughout the Europe”[12]

کیلی فورنیا میں پندرہ ہزار مشینیں کام کر رہی ہیں جو ہوا سے چلتی ہیں اور ان سے سالانہ اڑھائی بلین کلو واٹ گھنٹہ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں ڈنمارک دوسرا ملک ہے جہاں ہوا کے ذریعے سب سے زیادہ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ [13]ہوائی توانائی ایک سستا وسیلہ ہے، ہوائی چکیاں قدیم انسانی تہذیب سے انسان استعمال کر رہا ہے، اجناس کو پیسنے، پانی کو پمپ کرنے اور توانائی حاصل کرنے کے لیے دنیا کے مختلف علاقو ں میں رائج ہیں۔ 1970ء کے عشرے میں تیل کے بحران کی وجہ سے ہوائی توانائی پر تحقیق کا کام شروع ہوا، اٹلی، ہالینڈ، برطانیہ جرمنی اور ڈنمارک میں ہوائی توانائی اہم وسیلے کا درجہ اختیار کر گئی ہے۔ [14]وطن عزیز کے بیشتر علاقے ہوائی چکیوں سے بجلی پیدا کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہوا کی کم ازکم 13 کلومیڑ فی گھنٹہ کی رفتار کو ہوائی توانائی کے موزوں سمجھا جاتا ہے۔ کراچی، ٹھٹھہ، کوئٹہ، جیوانی، حیدر آباد، بلوچستان کی ساحلی پٹی صوبہ سرحد کی چند شمالی وادیوں اور آزاد کشمیر کے علاقوں میں تقریباً 3 ہزار میگا واٹ ہوائی توانائی سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ہوائی توانائی میں ماحولیا تی آلودگی پیدا نہیں ہوتی۔ جرمنی 18000 میگا واٹ، اسپین 8000 میگا واٹ اور امریکہ 7000 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ [15]پاکستان میں ہوا سے زیادہ سے زیادہ بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ جھمپیر میں پاکستان کا پہلا ونڈ پاور پلانٹ 2002ء سے کام کر رہا ہے۔ 1100 کلو میڑ طویل ساحلی پٹی پر ہوا سے زیادہ سے زیادہ توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ [16]

ٹائڈل توانائی (Tidal Energy)

ٹائڈل توانائی قابل تجدید ذریعہ توانائی ہے۔ یہ ایک مکینیکل توانائی ہے جو سمندری لہروں کے عروج اور زوال کے سبب پیدا ہونےتوانائی سے حاصل کی جاتی ہے۔ سمندری لہروں کے استعمال کے امکانات و رجحانات کا بہت عرصےسے مطالعہ کیا جارہا ہے۔ ہائیڈرولک ٹربائن سے پانی گزار کر یہ توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا ٹائڈل انرجی کا منصوبہ فرانس کے شہر میں 1960ء میں تیار ہوا۔ جس سے سالانہ 544 کلو واٹ آور بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

ٹائڈل پاور کے بارے میں بھارت کے ماہر ماحولیات 'گردیپ راج 'یوں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:

“Tidal Power: Mechanical power, which may be converted to electrical power generated by the rise and fall of ocean tides. The possibilities of utilizing tidal power have been studied for many generations, but the only feasible schemes devised so far are based on the use of one or more tidal basins, separated from the sea by dams or barrages , and of hydraulic turbines through which water passes on its way between the basins and the sea. The world`s largest tidal power plan is located on the estuary of the River Rance, in Brittany, France, completed in the 1960s, which generates 544KWH per year.”[17]

Dale M. Grimes لکھتا ہے:      

“Although there are a large number of likely locations for tidal generators around the shorelines of the world, the total available power generating capability is small. Therefore, although tidal power could become an important source in scattered localities, tidal power is not destined to play an important role in total world energy economy.”[18]

دنیا کے ساحل سمندر میں ٹائڈل توانائی کے لئے ایک بڑی تعداد میں ممکنہ مقامات پائے جاتے ہیں۔ ٹائڈل انرجی ساحل سمندرپر بکھرے ہوئے علاقوں میں بجلی کے حصول کا ایک اہم وسیلہ بن سکتی ہے، ٹائڈل توانائی سےپوری دنیا کی توانائی کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔

پن بجلی (Hydropower)

دنیا بھر میں بجلی کی کل پیداوار کا پانچواں حصہ پن بجلی سے حاصل ہوتا ہے۔ چھوٹے منصوبے زیادہ فائدہ مند ہوتے ہیں کیونکہ چھوٹے ڈیموں اور پانی کے ذخیروں سے سماجی اور ماحولیاتی انتشار اتنا زیادہ نہیں ہوتا جتنا بڑے ڈیموں سے ہوتا ہے۔ پن بجلی کی اہمیت تھرمل بجلی سے 3 گنا زیادہ ہے۔ پن بجلی کے ذریعے نہ صرف بجلی پیدا کی جاتی ہے بلکہ ماحولیات پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔ پاکستان میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت تقریباً 6444 میگا واٹ ہے۔ [19]

ارشاد نبوی ہے:

"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الأَرْضَ جَعَلَتْ تَمِيدُ، فَخَلَقَ الجِبَالَ، فَقَالَ بِهَا عَلَيْهَا فَاسْتَقَرَّتْ، فَعَجِبَتِ الْمَلاَئِكَةُ مِنْ شِدَّةِ الجِبَالِ. قَالُوا: يَا رَبِّ هَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الجِبَالِ؟ قَالَ: نَعَمُ الحَدِيدُ، قَالُوا: يَا رَبِّ فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الحَدِيدِ؟ قَالَ: نَعَمُ النَّارُ. فَقَالُوا: يَا رَبِّ فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: نَعَمُ الْمَاءُ"[20]

حضرت انس بن مالک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو وہ حرکت کرنے لگی چناچہ پہاڑ بنائے اور انہیں حکم دیا کہ زمین کو تھامے رہو۔ فرشتے کو پہاڑوںکی مضبوطی پر تعجب ہوا۔ تو انہوں نے عرض کیا اے رب کیا آپ کی مخلوقات میں پہاڑوں سے زیادہ بھی کوئی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں لوہا، عرض کیا عرض کیا لوہے سے زیادہ سخت بھی کوئی چیز ہے۔ فرمایا ہاں آگ۔ عرض کیا اس سے سخت ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا پانی۔

Dale M. Grimes لکھتا ہے:

“Hydropower is a steady and predictable source of power. In contrast with burning fossil fuels, it adds no aerosols to the atmosphere, which block ultraviolet radiation, and later fall as acidic rains. It contributes nothing to atmospheric dust loads that alter local climates.”[21]

پن بجلی ایک قابلِ تجدید اور پائیدار توانائی کا قدرتی وسیلہ ہے۔ پن بجلی ایک ماحول دوست توانائی کا ذریعہ ہے۔ پانی سے بننے والی بجلی سب سے زیاد ہ سستی ہے۔ پن بجلی کا سب سے بڑا بجلی گھر تربیلا ڈیم ہے۔ پانی کی کمی کے باعث تربیلا بجلی گھر کے 11 پیداواری یونٹ بند ہو چکے ہیں اور اس وقت صر ف 3 پیداواری یونٹ بجلی پید ا کر رہے ہیں۔ [22] وطن عزیز میں ہائیڈرو جنریشن سے مکمل استفادہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ وطن عزیز کی توانائی کی طلب 21000 میگا واٹ ہے جبکہ رسد 15000 میگا واٹ ہے۔ توانائی کی طلب اور رسد میں توازن لوڈ شیڈنگ کے کے ذریعے قائم کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق آئندہ سات برسوں میں توانائی کی طلب 49000 میگا واٹ ہو جائے گی۔ بہت سے دریاؤں پر ہائیڈرو پاور جنریشن پلانٹ کام کر رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 29 فیصد بجلی پانی سے پیدا کی جا رہی ہے۔ [23]انٹرنیشنل ہائیڈرو پاور ایسوسی ایشن کی مذکورہ رپورٹ "2019"ہائیڈروپاور سٹیٹس رپورٹ۔ "سیکٹر ٹرینڈز اینڈ انسائٹس" کے عنوان سے جاری کی گئی ہے۔ 2018ء میں پاکستان نے مختلف منصوبوں کی تکمیل سے اپنےنظام میں 2487میگا واٹ پن بجلی کا اضافہ کیا۔ چین 8540 میگا واٹ اضافے کے ساتھ پہلے جبکہ برازیل 3866 میگاواٹ پن بجلی کے اضافہ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔ [24]گذشتہ سال کی عالمی رپورٹ میں پاکستان پن بجلی کی پیداوار کے لحاظ سے اٹھارویں نمبر پر تھا، موجودہ سال یعنی 2019ء میں عالمی سطح پر تیسرے نمبر پر آنا بہت بڑی حوصلہ افزاء پیش رفت ہے۔ پانی، ہوا اور سورج ایسے قدرتی عطیات ہیں جن سے ماحولیاتی تغیر و آلودگی کے بغیر کم لاگت میں زیادہ سے زیادہ توانائی کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

ارضی حرارتی توانائی (Geo Thermal Power)

قابل تجدید ذرائع میں توانائی کا اہم ذریعہ ارضی حرارت ہے۔ یہ وہ حرارت ہے جو زمین میں پوشیدہ ہے۔ بجلی کی موجودہ کل پیداوار کا نوے فیصد ارضی حرارت سے چلنے والے بجلی گھروں سے حاصل ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر میں ارضی حرارت سے چلنے والے بجلی گھروں سے حاصل ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں ارضی حرارت سے چلنے والے کارخانوں سے 5600 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ ایل سلوا ڈور میں بجلی و توانائی کی پیداوار کا چالیس فیصد حصہ قدرتی ارضی حرارت سے حاصل ہوتا ہے۔ نکارا گوا کی اٹھائیس فیصد اور کینیا کی گیارہ فیصد ضرورتیں قدرتی ارضی حرارت سے پوری ہوتی ہیں۔ جاپان کا کا فی حصہ ایسے خطے میں واقع ہے جہاں ارضی حرارت کا بہت ذخیرہ ہے۔ [25]

Dale M.Grimes جیو تھرمل انرجی کے بارے میں لکھتا ہے:

“The potential availability of geothermal energy is vast. However, at the present time, techniques have been developed only for energy utilization in areas that provide natural steam. From them, it appears that a worldwide total of only a few tens of giga watts of continuous power can be drawn.”[26]

زمین کے اندر موجود توانائی کو جیو تھرمل انرجی کہا جاتا ہے۔ جیوتھرمل انرجی کی دستیابی وسیع مقدار میں ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ زمین کے اند ر قدرتی طور پر توانائی کی مقدار پائی جاتی ہے۔ جیو تھرمل انرجی کے ذریعے توانائی کے بحران کے مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے۔

نباتاتی توانائی (Bio Mass Energy)

 کچرے اور حیواناتی فضلے سے حاصل ہونے والی توانائی کو نباتاتی توانائی کہا جاتا ہے، نباتاتی توانائی تین طریقوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ پہلے طریقے میں نباتاتی مادوں کو جلا کر توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ دوسرے طریقے میں نباتاتی گیس سے توانائی تیار کی جاتی ہے، جبکہ تیسرے طریقے میں نباتاتی مادوں سے الکوحل تیار کی جاتی ہے۔ نباتاتی توانائی ایک قابلِ تجدید توانائی کا وسیلہ ہے، اوریہ ایک ماحول دوست ٹیکنالوجی ہے۔ نباتاتی گیس سے بچا ہوا فضلہ مرغیوں اور مچھلیوں کے لیے عمدہ خوراک ہے۔ گیس کے کنوؤں سے نکلی ہوئی بد بو ارد گرد آبادی کے لیے ناگوار ہوتی ہے، ہمسایہ ممالک چین اور بھارت نباتاتی گیس کا استعمال کا فی زیادہ ہے۔ [27]بائیو ماس نباتات یا حیوانات کا فضلہ ہوتا ہے جسے ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بائیو ماس کو متبادل ذریعہ توانائی کے طور پر قابلِ استعمال ہے۔ حیوانات کے گوبر کے گلنے سڑنے سے میتھین او ر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا آمیزہ خارج ہوتا ہے جس سے توانائی حاصل کی جاتی ہے۔



[1]روزنامہ مشرق، پشاور، 11 جون 2018ء

[2]Abdul –al-Ḥamīd,”Exploring the Isᾱmic Environmental Ethics”,p.50

[3]روزنامہ جنگ لاہور، 21جولائی 2018ء

[4]لیسٹر براؤن، کرہ ارض کا تحفظ، ص۔ 4

[5]Peter B. Kaufman and J. Donald L.,Plants, People and Environment, P.429

[6]ممتاز حسین اور مسز سیدہ سائرہ حمید، مطالعہ ماحول، ص۔ 83

[7]روزنامہ نوائے وقت لاہور، 21 جولائی 2018ء، ص۔ 15

[8]روزنامہ جنگ لاہور، 21جولائی 2018ء

[9]روزنامہ جنگ لاہور، 8 اگست 2018ء

 

[10]روزنامہ جنگ لاہور، 8 اگست 2018ء

[11]محمد بن عيسى، سنن الترمذي، أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رقم الحدیث، 3369

[12] Dale M. Grimes,Tapping Our Resources: Alternative Energy Resources, (Peter B. Kaufman and J. Donald LaCroix,Plants, People and Environment) , P.435

 

[13]لیسٹر براؤن، کرہ ارض کا تحفظ، ص۔ 44

[14]ممتاز حسین اور مسز سیدہ سائرہ حمید، مطالعہ ماحول، ، ص۔ 83

[15]روزنامہ جنگ لاہور، 21 جولائی 2018ء

[16]روزنامہ خبریں لاہور، 23 جولائی 2018ء

[17] Rᾱj, Gurdeep, Dictionary of Environment, p.215     

[18] Dale M. Grimes,Tapping Our Resources: Alternative Energy Resources, P.424

[19]روزنامہ جنگ لاہور، 17 فروری 2019

[20]محمد بن عيسى سنن الترمذي، أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رقم الحدیث، 3369

[21]Dale M. Grimes,Tapping Our Resources: Alternative Energy Resources, P.420

[22]روزنامہ جنگ لاہور، 21 جولائی 2018ء

[23]روزنامہ خبریں لاہور، 23 جولائی 2018ء

[24]روزنامہ جنگ لاہور، 15 مئی 2019ء

[25]لیسٹر براؤن، کرہ ارض کا تحفظ، ص۔ 47

[26]Dale M. Grimes,Tapping Our Resources: Alternative Energy Resources, P.437

[27]ممتاز حسین اور مسز سیدہ سائرہ حمید، مطالعہ ماحول، ص۔ 84

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...