Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں |
Asian Research Index
قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں

باب ہفتم: نباتاتی وسائل کا مطالعہ
ARI Id

1686875689131_56115909

Access

Open/Free Access

Pages

235

نباتات کا تعارف

نباتات سے مراد ہر وہ چیز ہے جو زمین میں اگتی ہے۔ انسان و حیوانات کے کھانوں اور رہائشوں میں نباتات کام میں آتے ہیں۔ جب حقائق پر گہرائی سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نباتاتی وسائل فارمیسی کی بنیاد ہیں۔ نباتات کا لفظ نبات سے اخذ کیا گیا ہے۔ فیروزاللغات میں نبات کی لغوی معنی بیان کیاگیا ہے:

"روئیدگی۔ سبزہ۔ بوٹی۔ سبزی۔ ترکاری۔ "[1]

 زمین سے اگنے والی ہر چیز (پودا، گھاس، فصل) نبات کہلاتی ہے۔ "المنجد عربی اردو " میں نبات کے معنی درج ذیل ہیں:

"زمین سے جو کچھ اگے (پودایا بیل یا گھاس) "[2]

نبات کی جمع نباتا ت ہے۔ نباتات سے مراد پودے، درخت، سبزیاں، ترکاریاں ہیں۔

مولوی فیروز الدین کے الفاظ میں:

"نبات کی جمع پودے۔ سبزیاں۔ ترکاریاں۔ "[3]

امام راغب اصفہانی ؒ نباتات کے بارے میں رقمطراز ہیں:

"النَّبْتُ والنَّبَاتُ: ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء كان له ساق كالشجر، أو لم يكن له ساق كالنَّجْم، لكن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساقَ له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحيوان"[4]

الموسوعۃ القرآنیۃ میں نباتات کی تعریف ہے:

" ما يخرج من الأرض من الناميات "[5]

پودوں سے مراد ایسی اشیاء ہیں جو زمین سے نکلتی ہیں یعنی زمین میں اگتی ہیں۔ ان پودوں کو عوام الناس میں خصوصی اہمیت حاصل ہے جن کو انسان و حیوانات خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

صاحب "لسان العرب" رقمطراز ہیں:

" كلُّ مَا أَنْبَتَ اللَّهُ فِي الأَرض، فَهُوَ نَبْتٌ؛ والنَّباتُ فِعْلُه، ويَجري مُجْرى اسمِه. يُقَالُ: أَنْبَتَ اللهُ النَّبات إِنْباتاً؛ وَنَحْوَ ذَلِكَ قَالَ الفرَّاءُ: إِنَّ النَّبات اسْمٌ يَقُومُ مقامَ المَصْدَر. قال اللهُ تعالى: وَأَنْبَتَها نَباتاً حَسَناً"[6]

اللہ تعالیٰ نے زمین میں جو چیزیں زمین میں اگائی ہیں وہ پودوں اور درختوں میں شمار ہوتی ہیں۔ نبات کا لفظ بطور ِ مصدر بھی استعمال ہوا ہے۔

انسائیکلوپیڈیا آف سائنس کا مقالہ نگار کی رائے میں :

“A member of the kingdom plantae. All plants carry out photosynthesis, with the exception of a few parasitic species that have lost this ability.”[7]

تما م پودے کنگڈم پلانٹی کا ایک ممبر ہوتے ہیں۔ تمام پودے سوائے چند پودوں کی انواع کے ضیائی تالیف کا عمل سرانجام دیتے ہیں۔ چونکہ ف ضیائی تالیف کا عمل سبز رنگ اور کلوروفل پر انحصار کرتاہے۔ زیادہ تر پودے جانوروں کے برعکس پودے غیر متحرک ہوتے ہیں۔ تاہم پودوں میں نشوونما ہوتی رہتی ہے۔

علم نباتات (Botarny)

نباتاتی وسائل کا مطالعہ علم نباتات کہلاتا ہے جو سائنسی زبان میں باٹنی کے نام سے معروف ہے۔ علم نباتات بیالوجی کی دوسری بڑی شاخ ہے۔

باٹنی کے بارے میں انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے:

“The branch of biology that deals with plants.It envolves the study of the structure , properties , and biochemical processes of all forms of plant life, including trees.Also included within the scope are plant classification , plant diseases , and the intractions of plants with their physical environment.”[8]

باٹنی حیاتیات کی وہ شاخ ہے جو پودوں سے متعلق بحث کرتی ہے۔ اس میں پودوں کی تمام اقسام، خصوصیات اور جیو کیمیکل کا مطالعہ کیا جاتاہے۔ اس کے دائرہ کار میں پودوں کی درجہ بندی، پودوں کی بیماریوں اور ان کا طبعی ماحول بھی شامل ہے۔

ڈکشنری آف بیالوجی میں علم نباتات کی تعریف اسطرح ہے:

“The scientific study of plants that include their anatomy morphology, physiology, biochemistry, taxonomy, cytology, genetics, ecology, evolution, and geographical distribution.”[9]

علم نباتا ت میں پودوں کا سائنسی مطالعہ کیا جاتا ہے، جس میں اناٹومی، مورفولوجی، فزیولوجی، بائیو کیمسٹری، ٹیکسانومی، سائٹولوجی، جینیات، ماحولیات، ارتقاء، اور جغرافیائی تقسیم شامل ہیں۔

 

نباتیات کی شاخیں (Branches of Botany)

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا میں علم نباتات کی بڑی شاخوں کے بارے میں بیان کیاگیا ہے:

“Today the principal branches of botanical study are morphology, physiology, ecology, and systematic the identification and the ranking of all plants.”[10]

جدید سائنسی دور میں نباتیات کے مطالعے کی اصل شاخیں مارفولوجی، فزیالوجی، ماحولیات اور اس میں تمام پودوں کی شناخت اور منظم درجہ بندی بھی شامل و داخل ہے۔

مارفولوجی (Morphology)

ماہر ِ ماحولیات گردیپ راج مارفولوجی کے بارے میں لکھتے ہیں:

“ The study of the form of organisms or of the Earth`s physical features.”[11]

مذکورہ عبارت کی رو سے مارفولوجی سے مراد کرہ ارض پر پائے جانے والے جانداروں (نباتات و حیوانات) کی بیرونی یعنی طبعی شکل وصورت اور اجزاء کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ مارفولوجی میں کرہ ارض پر پائے جانے والے جانداروں کے بیرونی حصوں کامطالعہ کیا جاتا ہے۔ پودوں کے بیرونی حصوں زیادہ اہم پھول , پھل، تنااور پتے ہیں۔

فزیولوجی (Physiology)

فزیالوجی سائنس کی وہ شاخ ہے جس میں کرہ ارض پر پائے جانے والے جانداروں (نباتات وحیوانات) کے اجزاء اور خلیات کے افعال کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

آن لائن انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Physiology of the functioning of living organisms, animal or plant, and of the functioning of their constituent tussues or cells.”[12]

فلوروجی (Florogy)

نباتات کی طرزِ حیات اور اس سے متعلقہ پہلوؤں کا مطالعہ فلوروجی کہلاتا ہے۔

ماہر ماحولیات گردیپ راج لکھتاہے:

“The study of the genesis, life and development of vegetation fomentations.”[13]

فلورا ( (Flora

 ایک خاص علاقہ یا ملک میں پائے جانے نباتات کے مطالعہ کے لئے ایک اہم اور معروف اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، جسے"فلورا" کہا جاتا ہے۔ ڈکشنری آف بیالوجی میں"فلورا " کی تعریف:

 “The plant life of an area or locality or of a geological era or period.Plants taken collectively as distinguished from animals.”[14]

فلورا میں کسی علاقے یا خطے میں پائے جانے والے پودوں کی طرزِ زندگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اور مجموعی طور پر نباتیات کو حیونیات سے الگ مطالعہ ہے۔

ہارٹی کلچر (Horticulture)

زراعت کا وہ شعبہ جس میں آرائش، پھولوں، پودوں، درختوں، تمام سبزیوں، پھلوں، کھمبی، لینڈ اسکیپ انجیرنگ، ٹشو کلچر (ٹیسٹ ٹیو ب بےبی کی طرح ٹیسٹ ٹیوب پودے پیدا کرنا) ہر شعبے کے لیے الگ اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔

کراپ فزیالوجی (Crop Physiology)

یہ پودوں کا جدید علم ہے اس میں پودوں کے مختلف حصوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ بھی تحقیق کی جاتی ہے کہ کونسا کریکٹر کس کروموسوم پر عمل کرتا ہے۔ اصلاح اراضی، زراعت، جنگلات، زمینی جائزہ، تحفظ نباتات، زرعی سائنس پر جدید تحقیق جاری ہے۔

ویجی ٹیشن سٹڈی (Vegetation Study)

ماحولیات کی اصطلاح میں پودوں کے علم کو 'ویجی ٹیشن سٹڈی' کہا جاتا ہے۔ اسے مزید دوحصوں میں تقسیم کی جاتا ہے۔

ڈکشنری آف انوائرنمنٹ میں علم النباتات:

“Vegetation Study. (a) Qualitative. Study of the species and characteristics of the plants that make up a community; (b) Quantitative. study of distribution of particular plants.”[15]

چراگاہوں اور جنگلات کے امور اورجنگلات کی دیکھ بھال وغیرہ بھی اسی میں شامل ہیں۔ ایگرونومی، اینٹامولوجی، پلانٹ پیتھالوجی، سوائل سائنس، پلانٹ بریڈنگ اینڈ جینیٹکس، ایگریکلچر اکنامکس، ایگری ایکسٹینشن، ایگریکلچرل انجئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، شعبہ آب پاشی و نکاسی اور فائبر ٹیکنالوجی بھی ویجی ٹیشن سٹڈی میں شامل ہیں۔

درجہ بندی (Botanical Classification )

ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پھولدار پودوں کی اقسام دو لاکھ سے زیادہ ہیں۔ جن میں آئے روز مشاہدات و تحقیقات کی بدولت اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پودوں کی درجہ بندی کا مقصد یہ ہے کہ پودے ایک منظم طریقہ سے اس طرح فطری طور پر مرتب ہوں کہ ان کے باہمی تعلقات ظاہر ہوں مختلف ارتقائی منازل اور ان کی مشترکہ موروثی خصوصیات واضح ہوجائیں۔ [16]عام نباتاتی ماہرین کسی پودے کی نوع، جنس اور خاندان یا فصیلے تک محددو رہتے ہیں۔

 (Encyclopedia of Herbs and Their Uses) میں پودوں کی گروہ بندی کی اہمیت :

“All plants are classified according to their relationships, much as we have a family tree to trace our origins. Relationships are established by shared characteristics, especially of reproductive parts.”[17]

Peter B. Kaufman پودوں کی گروہ بندی یعنی کلاسیفکیشن:

“Classification, the process that is the complement of nomenclature, is also an integral concept in our ordering of nature. It is by classification that we can begin to understand the evolutionary categories which have established ecological interrelations through time.[18]

ماہرِحیاتیات 'ریتارانی' لکھتی ہے:

“In plants , a major taxon which is made up of classes , comparable to a phylum in animals”[19]

پودوں کی درجہ بندی میں استعمال ہونے والی معروف اصطلاحات:

1-کنگڈم (Kingdom)

کنگڈم سائنسدانوں کو کسی پودے کی شناخت میں بہت مدد فراہم کرتی ہے۔

انسائیکلوپیڈیا آف گارڈن پلانٹس میں کنگڈم کے بارے میں یوں بیان کیا گیا ہے:

“Plants constitute one of the five kingdoms that are used to classify all living organisms. The plant kingdom,plantae,is divided into progressively smaller groups according to shared botanical characteristics, usually represented as a family tree. The first, most basic division is between vascular and non-vascular plants. It is the vascular that are of interest to gardeners.”[20]

Peter B Kaufman پودوں کی کنگڈم کے بارے میں لکھتا ہے:

“The Kingdom Plantae includes the true algae (excluding the blue-green algae and certain protists) and the land plants. The land plants consist of the mosses and liverworts (Bryophytes) and the vascular plants (Tracheophyta) .”[21]

پودوں کے انسائیکلوپیڈیا میں عالم ِ نباتات کی چھ اقسام ہیں:

“Traditionally, the plant kingdom consists of six divisions, given below, though more recent systems classify fungi as a kingdom separate from plants and animals. Further subdivisions separate the groups into classes and orders ,and then into families ,genera, and species.”[22]

2۔ نوع Species) )

پودوں کے ایسے گروہ جو ایک دوسرے سے نباتی اورتولیدی طریقہ کار میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہوں۔ ان کے قد اور پھل کی بناوٹ میں معمولی فرق ہو سکتا ہے لیکن ان کے پھول اور بیج ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ایسے پودے ایک ہی گروہ میں مطالعہ کئے جاتے ہیں اور پودوں کی یہ درجہ بندی "نوع" کہلاتی ہے۔

“Species may be defined as a population or populations of animals that are a like in the details of their structure within close but variable limits, and that breed together , or can do.”[23]

ایک انگریز ماہرِ نباتات پودوں کی انواع پر تبصرہ کرتے ہیں:

“Species of plants with similar or complementary adaption occur together in communities. Assemblages of communities constitute physiognomic formations. Those formations that occur in temperate regions tend to have the greatest pressure of exploitation by various activities of people.”[24]

3۔ جنس (Genus)

بہت سی انواع جو تولیدی طریقہ کار میں مشابہت رکھتی ہوں۔ انہیں "جنس" کہا جاتا ہے۔ مثال کےطور پرپیپل، برگد اور انجیر کا تعلق مختلف انواع سے ہے یعنی ان کے قد، عادات، جسامت میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ان کے تولیدی عضو پھول، بیج وغیرہ مشابہ ہوتے ہیں اس لئے ایسا گروپ "جنس " کہلاتا ہے۔

4۔ خاندان (Family)

خاندان کی درجہ بندی میں نو ع اور جنس کی نسبت زیادہ وسعت پائی جاتی ہے۔ جن انواع کے پودوں کی بیضہ دانی، زردانوں اور پتوں کی ترتیب میں مشابہت پائی جاتی ہو، ان کا مجموعی طور مطالعہ ایک ہی خاندان کے تحت کیا جاتا ہے۔ایک خاندان صرف ایک جنس پر مشتمل ہو سکتا ہے جبکہ ایک خاندان میں سینکڑوں جنسیں بھی ہو سکتی ہیں۔

 نباتاتی نام (Botanical Names)

پودوں کو نباتاتی نام دینے کے موجودہ جدید طریقہ نے قدیم زمانے سے آہستہ آہستہ ترقی کی ہے۔ پودوں کی دریافت و تحقیق میں اضافہ کی بدولت پودوں کے نباتاتی نام رکھنے کی سخت ضرورت محسوس ہوئی۔ کارل لیئنس (Carl Linneaus) نے 1753ء میں پودوں کی انواع (Species Plantarum) نے کتا ب لکھ کر پودوں کو نباتاتی نام دینے کا باقاعدہ اور باضابطہ آغاز کیا۔ [25]

ماہرین نباتات پودوں کے لاطینی نباتاتی نام دیتے ہیں کیونکہ عام نام میں پودوں کی شناخت اور سائنسی مطالعہ میں مشکل پیدا ہوتی ہے۔ مقامی یا عام نام عالمی سطح پر جان پہچان نہیں رکھتے بلکہ ایک علاقے یا زبان تک محدود ہوتے ہیں۔ سائنسی یا نباتاتی نام پوری دنیا میں ایک ہی پہچان رکھتے ہیں۔ کسی بھی پودے کا سائنسی یا نباتاتی نام پوری دنیا میں ایک ہی ہوگا۔ کسی پودے کی جنس اور اس کا خاص نام مل کر نباتاتی نام تشکیل دیا جاتاہے۔

نباتات کی اقسام (Types of Plants)

"انسائیکلو پیڈیا آف ہربز"میں پودوں کی درج ذیل چھ اقسام بیا ن کی گئی ہیں:

“1. Flowering plants (angiosperms) 2. Naked-seeded plants (gymnosperms) 3. Ferns , clubmoses and horsetails (pteridophytes) 4. Mosses and liverworts (bryophytes) 5. Funji and lichens.6. Algae (including sea weeds) ”[26]

اینجیوسپرم، جمنو سپرم، فرنز، موسز، فنجائی اور الجی پودوں کی چھ اہم اور بڑی اقسام ہیں، جن کا جائزہ و تجزیہ نیچے کیا گیا ہے۔

1۔ پھولدار پودے (Flowering Plants)

جن پودوں پر پھول لگتے ہیں، وہ پھول دار پودے کہلاتےہیں۔ پھول ایسے پودوں کے تولید ی اعضا ء کا کام کرتے ہیں۔ ان پودوں کے بیج پھل کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔ پھولدار پودوں کی دو اقسام ہیں۔

1۔ ڈائی کاٹس 2۔ مونوکاٹس

ڈائی کا ٹ پودوں کی اجناس تقریباً دس ہزار اور ان کی انواع دو لاکھ ہیں جبکہ مونو کاٹ پودوں کی اجناس تین ہزار اور انواع پچاس ہزار پائی جاتی ہیں۔ [27] پھولدار پودوں کی اقسام، اجناس اور انواع کو درج ذیل جدول سے واضح کیا جا سکتا ہے:

Nutritional habit

No. Of species

No. of Genera

English Name

Scientific Name

Autotrophic

200,000

9500

Dicots

1 (Dicotyledoneae)

Autotrophic

50,000

3000

Monocots

2 (Monocotyledoneae)

Peter B. Kaufman لکھتا ہے:

“There are two major groups of flowering plants-dicots (Dicotyledoeae) , having two seed leaves, and monocots (Monocotyledoneae) , having one seed leave.”[28]

پھول دار پودوں کی دو اہم اقسام ڈائی کاٹ اور مونو کاٹ پودے ہیں۔ پھول اہم حصہ ہے، جن کے ذریعے یہ پودے تولید کا فعل سر انجام دیتے ہیں۔ اس لئے ان پودوں میں پھول تولید کا عضویہ کہلاتا ہے۔

ڈکشنری آف بیالوجی میں پھول کی تعریف کی گئی ہے:

 “A specialized reproductive structure in higher plants consisting of a stem or branch bearing modified leaves.”[29]

بھارت کی "ریتا رانی " پھول کے مختلف حصے بیان کرتی ہیں:

“A typical flower bears the following parts: petals, stamens, and pistil, all borne on a receptacle.”[30]

2۔ الجی ((Algae

الجی کنگڈم پلانٹی کی ایک اہم قسم ہے۔ الجی کی اقسام، اجناس و انواع کو درج ذیل جدول:

Nutritional Habit

No. of Species

No. Of Genera

Common Name

Scientific Name

Autotrophic

2500

1400

Red Algae

1 (Rhodophyta)

Autotrophic

1000

190

Brown Algae

2 (Phaeophyta)

Autotrophic

6900

400

Green Algae

3 (Chlorophyta)

Autotrophic

250

6

Stoneworts

4 (Charophyta)

ڈکشنری آف بیالوجی میں الجی کے خواص بیان کئے گئے ہیں:

“A large mixed group of simple plants that are largely found in marine or freshwater habitats, although some algae are terrestrial.”[31]

الجی کے بارے میں انگریز ماہرِ نباتات اظہارِ خیال کرتے ہیں:

“The algae form the largest subdivision of aquatic plants in terms of number and total bio mass.”[32]

جھیل، جوہڑ، سمندر وغیرہ الجی کا مسکن یا ایکوسسٹم کہلاتا ہے۔ ان میں کلوروفل ہونے کی وجہ سے یہ ضیائی تالیف کے ذریعے اپنی غذا خود تیار کرتے ہیں۔ کلے میڈو موناس، سپائروجائرہ اوروالو واکس اس کی عام مثالیں ہیں۔

3۔ فنجائی (Fungi)

فنجائی پودوں کی اہم قسم ہے۔ یہ دھاگہ نما شکل میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ بعض فنجائی ایسے بھی ہیں جن میں کلوروفل نہیں ہوتا اور وہ اپنی خوراک خود تیار کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہ اپنی ضرورت کی غذا اپنے اردگرد پائے جانے والے ماحول سے حاصل کر لیتے ہیں۔ خمیر، رائی زوپس اور کھمبیاں فنجائی کی اقسام ہیں۔ رائی زو پس گیلی روٹی یا پھلو ں پر اگ جاتی ہیں جبکہ چھتری نما کھمبی گوبر اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں پر پائی جاتی ہیں۔ فنجائی کی اقسام، انواع و اقسام کو درج ذیل جدول سے ظاہر کیا جاسکتا ہے:

Nutritional Habit

No. Of Species

No. of Genera

Common Name

Scientific Name

Hetrotrophic

450

63

Slime molds

1 (Myxomycota)

Hetrotrophic

-

-

Algal-like Funji

2 (Phycomycota)

Hetrotrophic

40.000

3385

Sac Funji

3 (Ascomycota)

Hetrotrophic

-

-

Club Funji

4 (Basidiomycota)

Hetrotrophic

15000

-

Lichens

5

4۔ برا ئفائٹس (آشنی پودے) (Bryophytes)

ان پودوں کے پتوں میں کلوروفل ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ پودے اپنی خوراک خود تیار کر سکتے ہیں اس لئے ان کو آٹو ٹرافک پلانٹس کہا جاتا ہے۔ آشنی پودے خشکی اورپانی میں پائے جاتے ہیں۔ لیور ورٹس، موسز اس کی اہم اقسام ہیں۔ یہ غیر پھولدار پودوں کی اقسام ہیں۔ ان میں سادہ تنا اور چھوٹے سائز کا تنا ہوتا ہے۔ ان کا تولید ی عمل سپورز کے ذریعے انجام پاتا ہے جن کا وجود کیپسولز کے اند ر پایا جاتا ہے۔

ایک انگریز ماہرِ نباتات لکھتا ہے:

“Liverworts (Hepaticae) , hornworts (Anthrocerotae) , and mosses (Musci) are collectively called bryophytes. They are sometimes referred to as the “amphibian” of the Plantae. This is because they do occupy an intermediate position between the aquatic algae and the dominant land plants, the Tracheophyta (vascular plants) .”[33]

ان کو پودوں کا ایمفیبیا کہا جاتا ہے۔ ان کا وجود خشکی اور پانی دونوں میں پایا جاتا ہے۔ موسز، لیور ورٹس وغیرہ ان کی مثالیں ہیں۔

یہ پودوں کی ایک قسم ہے جس کی تین ذیلی اقسام ہیں۔ اس کی اقسام، اجناس و انواع درج ذیل جدول سے واضح کیا جاسکتا ہے:

Nutritional Habit

No. of Species

No.of Genera

English Name

Scientific Name

Autotrophic

8500

175

Liverworts

1.Hepaticae

Autotrophic

320

5

Hornworts

2.Anthocerotae

Autotrophic

14000

66o

Mosses

3.Musci

5۔ نیکڈ سیڈ پلانٹس (Gymnosperms)

تخم عریاں پودوں کی ایک قسم کونی فرز (Conifers) ہے۔ سرو، چیڑھ، دیودار وغیرہ کونی فیر کی عام مثالیں ہیں۔ ان کے بیج کونز کی شکل میں ہوتے ہیں۔ ان کا تولید عمل انہی کونزیعنی بیجوں کی ذریعے وقوع پذیر ہوتا ہے۔

Peter B. Kaufman نیکڈ سیڈ پلانٹس (عریاں تخم پودے) کے متعلق لکھتا ہے:

“There are four groups of gymnosperms living today: the cycads (Cycadophyta) , the conifers (Coniferophyta) , the ginkgo (Ginkgophyta) , and the gnetes (Gnetophyta) .The cycads are a small tropical group of palm like plants..”[34]

تخم عریاں کے چار گروپس (Four groups of Gymnosperms)

Nutritional Habit

No. Of Species

No. Of Genera

English Name

Scientific Name

Autotrophic

100

9

Cycads

1.Cycadophyta

Autotrophic

550

50

Conifers

2.Coniferophyta

Autotrophic

1

1

Ginkgo

3.Gynkgophyta

Autotrophic

71

3

Gnetes

4.Gnetophyta

6۔ ٖفرنز (Ferns)

فرنز غیر پھولدار پودوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کے پتے چھوٹی چھوٹی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کی تولید کا ذریعہ سپورز ہیں۔ جو ان کے پتوں کے نیچے پیدا ہوتے ہیں۔

Peter B Kaufman فرنز کے بارے میں لکھتا ہے:

The ferns (Pteropsida) are a large assemblage of plants occurring as herbs, epiphytes, or small trees (in the tropics) . A few species are aquatic..[35]

Nutritional Habit

No. of Species

No. Of Genera

English Name

Scientific Name

Autotrophic

9280

260

Ferns

Pteropsida

 بارآوری (Pollination )

قرآن مجید میں نباتات اور پودوں کے زمین سے اگنے کے عمل، نرو مادہ جوڑوں، ان کے بڑھنے، بڑا ہونے، پھول اور پھل نکالنے، ان کی ایک دوسرے سے مشابہت، اختلاف، ذائقہ، پھل کے پکنے، حتیٰ کہ بعض اہم پھلوں (کجھور، زیتون، انجیر، انگور وغیرہ) کی انسان کے لیے اہمیت واضح اور نمایاں ہے۔

قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

"وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ "[36]

"اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا پھر زمین میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگائے۔ "

سید طنطاوی رقمطراز ہیں:

"خلقه زوجين اثنين من كل نوع من أنواع الثمار"[37]

مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انواع کےپھلوں اور پودوں اور پھلوں کےجوڑے بنائے ہیں۔

مسلم دنیا کے معروف سکالر ابو بکر لکھتے ہیں:

“The air also has other functions which may be less apparent to man but which God has created for definite purposes , as we have been aware of by Glorious Qur`an—such as the vital role of the winds in pollination.”[38]

پودوں کی باآوری کا عمل دوذرائع سے پورا ہوتا ہے۔ 1۔ حیوانات کی ذریعے 2۔ ہوا ؤں کے ذریعے

پودوں کی بارآوری کا تذکرہ قرآن پاک میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

"وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ "[39]

"بار آور ہواؤں کو ہم ہی بھیجتے ہیں۔ "

ہوائیں پودوں کے عمل بارآوری کا باعث ہیں۔ بارآوری کے لئے ہوائیں کلیدی کردار اد ا کرتی ہیں۔ پودوں میں بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ جدید تحقیقات کے مطابق پودوں کے نر میں زرد رنگ کے ذرات ہوتے ہیں جسے پولن کہا جاتا ہے۔ ۔ اگر یہ ذرات یعنی پولن پودے کے مادہ تک نہ پہنچیں تو پودے پر بیج اور پھل نہیں لگ سکتے۔ بععض نر اور مادہ پھول قریب قریب ہوتے ہیں۔ جب ہوا یا کسی اور ذریعے سے شاخیں ہلتی ہیں تو پولن مادہ پھول پر گرتا ہے۔ اگر نر اور مادہ دور دور ہوں تو یہ کام ہوائیں کرتی ہیں۔ اسی لئے مذکورہ آیتِ قرآنی میں ہوا کو بارآور کہا گیا ہے۔ [40]

حیات ِ انسانی میں نباتات کا کردار

نباتاتی وسائل نسل ِانسانی کی بقا کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ پودے اور درخت انسان کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں لیکن انسان پودوں اور درختوں کے بغیر کرہ ارض پر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا ہے۔ دنیا میں صرف پودے ہی اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی نافع شے ہے جو سورج سے آنے والی شعاؤں میں موجود توانائی کو ایسی قسم میں تبدیل کرتے ہیں جس کو بعد میں دنیا کی ہر مخلوق بشمول پودے خود استعمال کر سکتے ہیں۔

مسلم سکالر ابو بکر احمد اپنے ایک تحقیقی مقالے میں نباتاتی وسائل کی اہمیت بیان کرتے ہیں:

“There is no denying the importance of plants and animals as living resources of enormous benefit, without which neither man nor other species could survive..”[41]

مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ نباتات و حیوانات کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔پودوں کے بغیر نہ تو انسان اور نہ ہی کرہ ارض پر پائی جانے والی دوسری انواع کی حیات وبقا برقرار رہ سکتی ہے۔

باغات ( Gardens)

باغ اس قطعہ زمین کو کہتے ہیں جسے جمالیاتی ذوق کے مطابق انسانی ہاتھوں سے درخت یا پھول یا آرائشی پودے یا سبزہ اگا کر آراستہ اور مزیں کیا گیا ہو۔ باغ شجری جس میں صرف درخت اگائیں جائیں۔ پھول باغ وہ باغ ہے جس میں صر ف پھولوں کے پودے ہوں۔ باغ سبزی کاری یا باغ نباتات ترکاری کے باغ کو کہتے ہیں۔ باغ کی تصغیر باغچہ اور باغیچہ ہے۔ باغ کے لیے اردو، عربی اور فارسی میں بہت سے مترادفات ہیں، جوبا غ کے پورے تصور یا اس کے کسی جز کی ترجمانی کرتےہیں۔ مثلاً چمن، چمن زار، گل زار، مرغزار، پھلواڑی، گلستان، بوستان، روضہ، جنت، فرعوس اور حدیقہ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ "[42]

"اور آسمان سے ہم نے برکت والا پانی نازل کیا، پھر اس سے باغ اور فصل کے غلے۔ "

"التفسیر الوسیط للقرآن لکریم" میں نباتاتی وسائل کی وضاحت :

ومعنى الآية: ونزلنا من السحاب ماء مباركا كثير الخيرات أنزلناه في جميع الأقاليم في أوقات مناسبة لمصالح العباد، فأنبتنا بهذا الماء المبارك بساتين كثيرة مشتملة على أطيب أنواع الثمار والفاكهة، وأنبتنا به حب الزرع الذي يحصد ويقطع ليستخرج منه حبه كالبر والشعير والذرة وغيرها[43]

چمن باغ کے اعلیٰ اور مرکزی حصے کوکہتے ہیں۔ جہاں بیٹھنے کا انتظام ہو، مسندیں لگائی جائیں اور ماحول میں روشیں قائم کر کے پھول اور آرائش پودے لگائے جائیں۔ چمن میں دراصل عمارت کا تصور بھی شامل ہے۔ [44] جنت کا مادہ ج۔ ن۔ ن ہے۔ جس کے معنی ڈھانپنے کے ہیں اور جنت اس باغ کو کہتے ہیں، جس کے درختوں نے اس کی زمین کو ڈھانپ رکھا ہو اور ان گنجان درختوں کو بھی جنت کہا جاتا ہے جو زمین کو چھپائے ہوئے ہیں۔ فردوس عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ہیں باغ، بستان، سرسبز وادی۔ الزجاج کے مطابق فردوس وہ جگہ ہے جہاں وہ تمام چیزیں جمع ہوں جو بستانوں میں ہوتی ہیں، خاص انگوروں کے باغ کو بھی فردوس کہا جاتا ہے۔ حدیقہ میوہ دار درختوں کی جگہ ہے بعض کے نزدیک حدیقہ وہ باغ شجر دار ہے، جس کے اردگر دیوار ہو خصوصاً انگور اور کجھور کے باغ کو حدیقہ کہتے ہیں، حدیقہ کے معنی کھیت کے بھی کیے گئے ہیں۔ [45]

باغ زمانہ قدیم سے چلے آتے ہیں اور تہذیب انسانی میں انہیں ہمیشہ سے اہمیت حاصل رہی ہے۔ ظہورِ آدم کے ساتھ ہی باغ کا ذکر ملتاہے۔ قدیم ترین باغوں کا ثبوت مصر و چین میں ملتا ہے۔ قدیم مصری باغوں کا ثبوت مصر کے قدیم آثار کے درودیوار کے نقوش میں موجود ہے۔ مشہور سیاح مارکوپولو 13 ویں صدی عیسوی میں چین کے دارلحکومت بیجنگ گیا تھا۔ وہاں اس نے قبلائی خان کی تفریح گاہیں بھی دیکھی تھیں۔ چین میں عام طور پر باغ قدرتی پیداوار ہیں۔ ان کا نقشہ چینی مصوری کے غوغوں میں ملتا ہے۔ یونان میں سکندر اعظم کے زمانے بھی باغوں کی خاصی ترقی نظر آتی ہے۔ اھل ِ روما نے بھی یونانی باغوں کے نقشے پر باغوں کو ترقی دی۔ [46]

ماحول) Environment)

غذا، صحت اور تندرستی کے نقطہ نظر سے درختوں کی اہمیت بہت واضح ہے۔ اشجار کی موجودگی سے ماحول کو تازہ اور صاف ستھری ہوا ملتی ہے، وہ ٹھنڈا اور فرحت بخش سایہ فراہم کرتے ہیں۔ [47]جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ نباتات ماحول کی کثافت کو بھی کسی حد تک اپنے اندر جذب کر کے انسانوں کے لئے ہوا اور صاف کرنے اور تروتازہ کرنے میں نافع و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ درختوں اور پودوں کی جڑیں آس پاس کی مٹی کو کافی مضبوطی سے جکڑ کر رکھتی ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آندھی اور طوفان کے تھپیڑے زرخیز مٹی کی سطح کو اڑا کر نہیں لے جاتے اور مٹی کی زرخیزی برقرار رہتی ہے۔ درخت اور پودے موسم معتدل رکھنے میں معاون و مفید ثابت ہوتے ہیں۔ [48]درختوں، پودوں اور سبزے میں وقت گزارنے کے ان گنت فوائد ہیں۔ تازہ ترین تحقیق کے مطابق صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان سے غیر صحت مندانہ عادتوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔ جو اپنا وقت سبزے میں گزارتےہیں وہ دوسروں کے مقابلےمیں دماغی، ذہنی اور نفسیاتی امراض کے کم شکار ہوتے ہیں۔ [49]سرسبز درختوں والے مقامات میں چہل قدمی سے نہ صرف دماغی صلاحیت بہتر ہوتی ہے بلکہ مزاج بھی اچھا رہتا ہے۔ ماہرین کی تحقیق کے مطابق زیادہ وقت سر سبز مقامات پر گزارنے سے دماغی صلاحیت پر اور مزاج پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

سر سبز کھیت دیکھنے سے انسان کی نظر پر مثبت اثر ہوتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ سرسبز پودوں کی طرف دیکھنے سے نظر تیز ہوتی ہے اور انسانی صحت پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ آیات میں سبزہ اور نباتات کا تذکرہ ایک ساتھ آیا ہے۔

ارشاد ِ الہی ہے:

"وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا"[50]

" اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اگائی، پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیے۔ "

 امام شافعی ؒ کاقول :

" وَأَرْبَعَةٌ تُقَوِّي الْبَصَرَ: الْجُلُوسُ حِيَالَ الْكَعْبَةِ، وَالْكُحْلُ عند النوم، والنظر الى الحقزة، وَتَنْظِيفُ الْمَجْلِسِ"[51]

 سبزہ(Greenry) کی طرف دیکھنا بصارت کےلئے فائدہ مند ہے۔ جدید تحقیقات میں سبزے کی یہ فائدہ ثابت ہو چکاہے۔

ماحولیاتی نظام (Ecosystem)

نباتا ت و جنگلات مختلف قسم کے جانوروں کے لئے ماحولیاتی نظام تشکیل دینے کا بہت بڑا قدرتی ذریعہ ہیں۔

انسائیکلو پیڈیا آف سائنس کا مقالہ نگار بیان کرتا ہے:

“Plants are extremely important in Ecosystem as they are Autotrophs, upon which other organisms (Heterotrophs) all ultimately depend for food. Their role in the carbon cycle is crucial, and the present destruction of much of the world`s remaining forests could have catastrophic long-term consequences.”[52]

ایک انگریز مصنف نباتات کی افادیت اسطرح بیان کرتا ہے:

“Over 50 percent of the energy fixed by photosynthesis is fixed by aquatic plants. They provide food either directly or indirectly for fish and shellfish that we use as food. Also, a number of species are used directly as food or for other products.”[53]

مذکورہ عبارت کے تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ نباتات مختلف قسم کے جانوروں کے لئے رہائش اور ماحولیاتی نظام کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ انسان کا ماحولیاتی نظام پودوں کی موجودگی کے بغیر تشکیل نہیں پا سکتا کیونکہ انسان مختلف طریقوں سے پودوں سے فائدہ و نفع اٹھاتا ہے۔

آرائش و زیبائش (Decoration)

نباتات کا ایک مقصد زمین کی آرائش و زیبائش بھی ہے۔ درخت، پھول، کلیاں، پھل، پودے، سبزہ زمین کا زیور اور حسن ہیں۔ پودوں کی افادیت کے پیش نظر قرآن مجید میں جان بجا پودوں کا تذکرہ موجود ہے۔ متعد د آیاتِ قرآنی میں نباتاتی وسائل کی اہمیت و افادیت کا بیان ہے۔

کتاب اللہ میں ہے:

" اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا يَاْكُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ ۭحَتّٰٓي اِذَآ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ”[54]

" آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہوگئی پھر عین اس وقت جب کہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں۔ "

نباتات کی سرسبز چادر سے زمین کا حسن و جمال دو بالا ہو جاتا ہے۔

مقاتل بن سلیمان بلخی ؒ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر و توضیح بیان کرتے ہیں:

" يقول أنزل الماء من السماء فأنبت به ألوان الثمار لبني آدم وألوان النبات للبهائم حَتَّى إِذا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَها يعني حسنها وزينتها وَازَّيَّنَتْ بالنبات وحسنت”[55]

مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوتا ہے رنگ برنگے پھلوں کے پودے اور رنگ برنگے نباتات زمین میں اگنےسے زمین پر ہر طرف سبزہ ہی سبزہ دکھائی دیتا ہے۔ زمین پر سبزہ اگنے کی وجہ سے زمین کی خوبصورتی، حسن، دلکشی اور دلفریبی میں اضافہ ہو جاتاہے۔ گھاس کے میدان "پمپاس" اور "پریری" کہلاتے ہیں۔

اس ضمن میں راج گردیپ لکھتا ہے:

“Extensive grasslands in other parts of the world are the steppes of Asia and Europe , the savannas of Africa, the prairies of North America, and the pampas of South America.”[56]

جنوبی ایشیا، یورپ، جنوبی امریکہ اور شمالی امریکہ کے وسیع گھاس کے میدان معروف و مشہور ہیں۔ گھاس کے وسیع و عریض میدان ان خطوں کی زینت کو دو بالا کر دیتی ہیں۔ امریکہ میں قبرستان بھی قابل دید ہیں، باغٖ کا گمان ہوتا ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی میں ہریالی اور سبزہ کی اہمیت اسقدر زیادہ ہے کہ زندگی تو درکنار بعد از احیات بھی سبزہ کی اہمیت ہے۔ صیح مسلم کی ایک حدیث میں آتا ہےکہ نبی کریمﷺ ایک قبر کے پاس سے گزرے جس پر عذاب ہو رہا تھا، آپﷺ نے ایک ہر ی شاخ اس قبر پر رکھ دی اور فرمایا کہ جب تک ان ٹہنیوں میں ہریالی رہے گی تب تک ان کا عذاب روک دیا جائے گا۔ لہٰذا واضح ہوا کہ کہ ہریالی اور سبزہ بعد از موت بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔

ایندھن Fuel))

نباتات آگ جلانے اور خوراک کے حصول کا بڑا ذریعہ ہے۔ درختوں اور پودوں کی سوکھی لکڑی عمارات کی تعمیرات میں کام آتی ہے، ایندھن میں استعمال ہوتی ہے اور اس سے بہت سے فائدے اس سے اٹھائے جاتے ہیں۔ [57]آگ کائنات کے چار بنیادی عناصر میں سے ایک ہے۔ آگ کے حصول کا بنیادی ذریعہ بھی نباتاتی وسائل ہیں۔ مادہ کا آکسیجن کے ساتھ مل حرارت، روشنی اور شعلہ پیدا کرنے کی صلاحیت کی دریافت آج سے چودہ صدیاں قبل معرضِ وجود میں نہیں آئی تھی۔ جدید سائنس یہ دریافت کر چکی ہے کہ جلنے کا عمل مواد میں آکسیجن اور کاربن کے امتزاج سے واقع ہوتا ہے۔ جبکہ جدید سائنس آکسیجن سبز درختوں اور پودوں سے وجود میں آتی ہے۔ [58]

ارشاد نبوی ہے:

"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الأَرْضَ جَعَلَتْ تَمِيدُ، فَخَلَقَ الجِبَالَ، فَقَالَ بِهَا عَلَيْهَا فَاسْتَقَرَّتْ، فَعَجِبَتِ الْمَلاَئِكَةُ مِنْ شِدَّةِ الجِبَالِ. قَالُوا: يَا رَبِّ هَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الجِبَالِ؟ قَالَ: نَعَمُ الحَدِيدُ، قَالُوا: يَا رَبِّ فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الحَدِيدِ؟ قَالَ: نَعَمُ النَّارُ"[59]

حضرت انس بن مالک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو وہ حرکت کرنے لگی چنانچہ پہاڑ بنائے اور انہیں حکم دیا کہ زمین کو تھامے رہو۔ فرشتے کو پہاڑوںکی مضبوطی پر تعجب ہوا۔ تو انہوں نے عرض کیا اے رب کیا آپ کی مخلوقات میں پہاڑوں سے زیادہ بھی کوئی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں لوہا، عرض کیا عرض کیا لوہے سے زیادہ سخت بھی کوئی چیز ہے۔ فرمایا ہاں آگ۔ آگ اسطرح طاقت ور ہے کہ یہ لوہے کو پگھلا دیتی ہے۔

پودے آکسیجن کی فراہمی کا باعث بنتے ہیں۔ کرہ ارض پر آکسیجن کی وجہ سے جانوروں اور انسانوں کی زندگی رواں دواں ہے۔ پودے ضیائی تالیف کے عمل کے ذریعے آکسیجن پیدا کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں، پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ضیائی تالیف کے ذریعے آکسیجن میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ [60]آج سے چودہ صدیا ں قبل پودوں، آکسیجن اور جلنے کے عمل کے تعلق کو قرآن کریم نہایت لطیف انداز میں واضح کرچکا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَآ اَنْتُمْ مِّنْهُ تُوْقِدُوْنَ "[61]

" وہی جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کردی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو۔ "

ابو اللیث السمرقندیؒ لکھتے ہیں:

"كل شجرة يقدح منها النار إلا شجرة العناب"[62]

 مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر پودے اور درخت کی لکڑی سے آگ بھڑکتی ہے۔ صرف انگور کو اس آفاقی و قدرتی اصول سے استثنیٰ حاصل ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اَفَرَءَيْتُمُ النَّارَ الَّتِيْ تُوْرُوْنَ۔ ءَاَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَهَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِــُٔوْنَ۔ نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً وَّمَتَاعًا

لِّلْمُقْوِيْنَ "[63]

" کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جو تم سلگاتے ہو، اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں ؟ہم نے اس کو یاد دہانی کا ذریعہ اور حاجت مندوں کے لئے سامان زیست بنایا ہے۔ "

فوسل فیولز (Fossil Fuels)

فوسل فیولز (پٹرولیم مصنوعات، قدرتی گیس، تیل، کوئلہ) کا ذریعہ بھی نباتات ہیں۔ جدید سائنس اس امر کی تصدیق کر چکی ہے جبکہ قرآن کریم نے فوسل فیولز (تیل، کوئلہ وغیرہ) کے بارے چودہ سو سال قبل پیش گوئی کر دی تھی۔ کرہ ارض کا اکثر و بیشتر حصہ ابتداء میں نباتات وجمادات اور جنگلات سے ڈھکا ہوا تھا۔ یہ عظیم الشان نباتات کرہ ارض پر زندگی کا استعارہ تھے۔ یہ جنگلات و نباتات زیرِ زمین جاکر مخصوص کیمیائی عمل کے نتیجے میں فوسل فیولز کی صورت اختیار کر گئے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَالَّذِيْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى۽فَجَعَلَهٗ غُثَاۗءً اَحْوٰى "[64]

" جس نے نباتات اگائیں، پھر ان کو سیاہ کوڑا کرکٹ بنادیا۔ "

معروف تفسیر "فی ظلال القرآن " میں مذکورہ آیت کی وضاحت :

"والمرعى كل نبات. وما من نبات إلا وهو صالح لخلق من خلق الله. فهو هنا أشمل مما نعهده من مرعى أنعامنا. فالله خلق هذه الأرض وقدر فيها أقواتها لكل حي يدب فوق ظهرها أو يختبئ في جوفها، أو يطير في جوها. والمرعى يخرج في أول أمره خضرا، ثم يذوي فإذا هو غثاء، أميل إلى السواد فهو أحوى، وقد يصلح أن يكون طعاما وهو أخضر، ويصلح أن يكون طعاما وهو غثاء أحوى"[65]

مذکورہ بالا آیات کا عرق ریزی سے مطالعہ و تجزیہ پر ارضیات کا ماہر مجھ جائے گا کہ یہ فقرہ پٹرولیم کو بیان کر رہا ہے۔ یقیناً اہم بات یہ ہے کہ یہ علم قرآن مجید میں چودہ صدیاں قبل بیا ن کردیا گیا تھا۔ کرہ ارض ابتداء میں نباتات، دیوہیکل درختوں، اونچے گھاس کے میدانوں اور جنگلوں پر مشتمل تھی۔ طویل پودے کرہ ارض پر زندگی کی نشانیوں میں سے تھے۔ بعد میں مخصوص کیمیائی عمل کی وجہ

سے پٹرولیم کی صورت اختیار کر گئے۔ [66]

ڈکشنری آف انوائرنمنٹ میں فوسل فیولز :

“Fossil (a) Remains or traces of an organism that have been preserved in the Earth`s crust by natural processes .Fossils may be formed in a number of ways.”[67]

مذکورہ بالا حقائق و شواہد ثابت کرتے ہیں کہ فوسل فیولز (پٹرولیم، کوئلہ وغیرہ) صدیوں نباتا ت پر قدرتی عمل کے ذریعے وجود میں آئے۔

کاغذ و ربڑ کی صنعت (Paper and Rubber Industry)

کاغذ دورِ جدید کی اہم مصنوعات میں سے ایک ہے۔ کاغذ مصنوعات کا انحصار بھی نباتاتی وسائل پر ہوتا ہے۔ کاغذ کی پیدا وار کا سب سے پہلا کارخانہ چین میں 105 عیسوی میں لگایا گیا۔

 لکھتا ہے: Peter B. Kaufman

“Paper manufacture had its inception in China in about A. D. 105.Since those earliest times , the uses of wood have increased astronomically. Wood technology has become a major industrial field, as witnessed by the extremely diverse uses made of wood today.”[68]

مذکورہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کاغذو قرطاس جیسی اہم صنعت بھی پودوں کی دم قدم سے قائم ہے۔

دور جدید میں ربڑ ایک اہم نباتاتی وسیلہ ہے۔ ربڑ کے پودے ملائشیا اور انڈونیشیا میں کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

ایک انگریز مصنف ربڑ جیسے اہم نباتاتی وسیلہ کے بارے میں لکھتا ہے:

“Rubber has been one of the most important materials derived from plants since the middle of the nineteenth century in 1839, the American, Charbs Goodyear, invented vulcanization , a process in which raw rubber is blended with sulfur to make it both strong and pliable over a range of temperatures.[69]

موجودہ ترقی یافتہ دور میں ٹرانسپورٹ کی تیز رفتاری کا سہرا ربڑ کے ٹائر و ٹیوب کے سر جاتا ہے۔ ربڑ کی مصنوعات کا خام مال نباتات سے ممکن الحصول ہوتا ہے۔

غذا ئیت (Nutrition)

بہت سے درختوں کے پھولوں اور پتوں میں انسانوں اور جانوروں کی غذا اور علاج ہے۔ ان میں وہ درخت بھی ہیں جو عمدہ اور نفیس پھل پیدا کرتے ہیں جو بہترین غذائیت کے حامل ہیں اور جن کا بدل انسان کے پاس نہیں ہے۔

Peter B. Kaufman نے کرہ ارض پر نباتاتی وسائل کی افادیت یوں بیان کرتا ہے:

“Their role in aquatic food chains is the foundation for all life on earth. They are primary producers, utilizing solar energy to make sugar. The life of land organisms is also dependent on algae. The oxygen balance in the atmosphere is largely maintained by these organisms as they grow.”[70]

 ابن قیم ؒرقمطرازہیں:

" وَفِي النَّبَاتِ قُوَّةُ حِسٍّ تُنَاسِبُهُ، وَلِهَذَا كَانَ غِذَاءُ النَّبَاتِ بِالْمَاءِ، فَمَا يُنْكَرُ أَنْ يَكُونَ لِلْحَيَوَانِ بِهِ نَوْعُ غِذَاءٍ"[71]

نباتات میں احساس اور حرکت کی اہلیت و صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لئے نباتات اپنی غذا پانی سے حاصل کرتے ہیں۔ اور کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ حیوانات کے لئے غذا ہیں۔

انگریز ماہر ین نباتات "نباتاتی وسائل" کی افادیت بیان کرتے ہیں:

“The plant kingdom has provided people with food as cultivated and wild plants; drugs and medicines; wood for fuel, ships, railways and houses; plants for flowers and landscaping; fibers for rope and cloth; dyes for wool and fiber; feed for farm animals; substrate for beverages; fossil coal and gas; and a host of substances (such as latex, pectin, gums, resins, oils, and waxes) that make our lives comfortable and spicy.”[72]

مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ نباتات انسان اور حیوانات کی خوراک و پوشاک کا اہم ذریعہ ہیں۔

وٹامنز (Vitamins)

انسانی جسم کے نشوونما کے لئے درکار وٹامنز کی ضرورت مختلف قسم کے پھلو ں سے پوری ہوتی ہے۔پودے مختلف انواع و اقسام کے پھلوں کا قدرتی ذریعہ ہیں۔ پھل انسان اور دیگر مخلوقات کی خوراک کا اہم ترین ذریعہ اور حصہ ہے کئی آیات و احادیث میں پھلوں کی فائدہ مندی کا ذکرہے۔

ارشاد ہوتا ہے:

"وَهُوَ الَّذِيْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ وَاَنْهٰرًا ۭ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِيْهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ "[73]

" اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیے ہیں۔ اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں۔ "

پھل پودوں کا اہم حصہ ہے کیونکہ اسی کے ذریعے پودوں کی بقا کا سلسہ جاری رہتا ہے۔ پھل کو انگلش میں فروٹ (Fruit) ہے۔

ڈاکٹر عبدالرحیم پھل کی تعریف لکھتے ہیں:

“The ripened ovary; The seed bearing organ of plant”[74]

 پھل کی درج ذیل دو اقسام ہیں:

 “Fruits are divided into two main groups depending on whether the ovary wall remains dry or becomes fleshy (succulent) .Succulent fruits are generally dispersed by animals and dry fruits by wind, water, by some mechanical means.”[75]

پھل اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت ہے۔ کچے پھلوں کا استعمال مضر صحت ہوسکتا ہے۔ حکیم حارث کا کہنا ہے:

" وَلَا تَأْكُلِ الْفَاكِهَةَ إِلَّا فِي نُضْجِهَا"[76]

مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ پھل اچھی طرح پک جانے کے بعد ہی استعمال کرنا چاہئے۔

بھارت کی ماہرحیاتیات پھل کی افادیت بیان کرتی ہیں:

 “A structure consisting of one or more ripened ovaries, with or without seeds, and sometimes with accessory structures derived from other parts of the flowers, as an apple , bean pod, nut , berry , melon , grain. The fruit may retain the seeds and be dispersed whole (an indehiscent fruit) ,or it may (dehisce) to release the seeds (adehiscent fruit) .”[77]

مذکورہ بالا دلائل و براھین سے انسانی حیات کے لئے پھلوں کی افادیت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔

حدیث لٹریچر میں نباتات کا تذکرہ

گندم (Wheat)

 گندم اہم نباتا تی وسیلہ ہے۔ عربی زبان میں اسے "حنطۃ "کہا جاتا ہے۔ انگریزی زبان میں اسے (Wheat) کہا جاتا ہے۔ گندم کے آٹےسے بیکری کی بہت سی اشیا بنا ئی جاتی ہیں۔ گندم کی آٹے کی روٹی بھرپور غذائیت رکھتی ہے۔ گندم کی روٹی میں جو کی روٹی سے زیادہ توانائی و غذائیت ہوتی ہے۔ گندم کا مزاج گرم مرطوب خشک ہے۔ گندم کی روٹی ہضم ہونے میں دیر لگاتی ہے۔ گندم کے دانے پیسنے کے بعد آٹا چند دنوں کے بعد گوندھنا زیادہ مفید ہوتا ہے۔

ایک انگریز ماہرنباتات گندم کی افادیت بیان کرتا ہے:

“Wheat, from which is made our “staff of life” bread, has long been of great importance and value in the nutrition of mankind.”[78]

ابتداء میں گندم کا دانہ موجودہ دانے سے کئی گنا بڑا تھا۔ جیسا کہ ایک روایت میں بیان کیا جاتا ہے:

" عَنْ أَبِي قَحْذَمٍ؛ قَالَ: لَمَّا كَانَ زَمَنُ زِيَادٍ أَوِ ابْنِ زِيَادٍ، أُصِيبَ فِي بَعْضِ بُيُوتِ آلِ كِسْرَى صُرَّةٌ فِيهَا حِنْطَةٌ أَمْثَالُ النَّوَى، عَلَيْهَا مَكْتُوبٌ: هَذَا نَبْتُ زَمَانٍ كَانَ يُعْمَلُ فِيهِ بِطَاعَةِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ"[79]

مذکورہ بالا روایت کا لب لباب یہ ہے کہ کسریٰ کے خزانوں میں گندم کی ایک تھیلی پائی گئی جس میں گندم کے دانے کجھور کی گٹھلی کے برابر تھے اور اس گٹھلی کے اوپر لکھا تھا کہ یہ گندم اس وقت پیدا ہوتی تھی جب ہر طرف عدل و انصاف کا دور دورہ تھا۔ دورِ حاضر میں بد اعمالیوں کی بدولت نباتاتی و حیواناتی وسائل میں پہلے جیسی برکت نہیں رہی۔ نبی کریم ﷺ گندم کی روٹی پسند کرتے تھے۔

سنن ابی داؤد کی روایت میں آتا ہے:

"عن ابن عمر، قال: قال رسولُ الله - صلَّى الله عليه وسلم: ودِدْتُ أنَّ عندي خُبزةً بيضاءَ من بُرَّة سَمْراءَ مُلَبَّقةً بسَمْن ولَبن"[80]

مذکورہ روایت کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو گندم کی روٹی پسند تھی۔

امام ابن قیم ؒ گندم کی روٹی کی اہمیت بیان کرتے ہیں:

"وَمِزَاجُ الْخُبْزِ مِنَ الْبُرِّ حَارٌّ فِي وَسَطِ الدَّرَجَةِ الثَّانِيَةِ، وَقَرِيبٌ مِنَ الِاعْتِدَالِ فِي الرُّطُوبَةِ وَالْيُبُوسَةِ، وَالْيُبْسُ يَغْلِبُ عَلَى مَا جَفَّفَتْهُ النَّارُ مِنْهُ، وَالرُّطُوبَةُ على مده"[81]

مذکورہ عبارت سے نمایاںہوتا ہے کہ گندم کی روٹی کا مزاج دوسرے درجے میں گرم ہوتا ہے جبکہ یہ مرطوب اور خشک مزاج رکھتی ہے، خشکی والا مزاج غالب ہوتا ہے کیونکہ آگ اس کی رطوبت کو خشک کردیتی ہے۔

 پیلو (Tooth Brush Tree)

پیلو ایک اہم درخت ہے۔ پیلو کے پھل کو عربی زبان میں کباث کہا جاتا ہے۔ پیلو کا درخت سعودی عرب میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ پیلو کے درخت سے مسواک بنائے جاتے ہیں۔ پیلو کا مسواک کرنے سے معدے کی کئی قسم کی بیماریاں ختم ہوتی ہیں۔ پیلو کا پھل معدےکو طاقت دیتاہے اور ہاضمے کے لئے مفید ہے۔ کمردرد، بلغم اور دوسری کئی بیماریوں کے لئے فائدہ مند ہے۔ پیلو کے پھل کی اہمیت اسقدر زیادہ ہے کہ اس کا تذکرہ حدیث مبارکہ میں آیاہے۔

حضرت جابربن عبداللہ (رض) سے روایت ہے:

"كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَرِّ الظَّهْرَانِ نَجْنِي الكَبَاثَ، فَقَالَ: عَلَيْكُمْ بِالأَسْوَدِ مِنْهُ فَإِنَّهُ أَيْطَبُ فَقَالَ: أَكُنْتَ تَرْعَى الغَنَمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَهَلْ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا رَعَاهَا"[82]

مذکورہ بالا روایت کا لب لباب یہ ہے کہ ایک سفر میں رسول کریم ﷺ نے پیلو کا سیاہ رنگ کا پھل اکٹھے کرنے کی ترغیب دی کیونکہ وہ زیادہ لذیذ اور مزید ار ہوتا ہے۔ اطباء نے پیلو کے پھل کے طبی اثرات کا اپنی کتب میں تذکرہ کیا ہے۔

حکیم ابن رضوان نے پیلو کے پھل کی اہمیت بیان کی ہے:

" يُقَوِّي الْمَعِدَةَ، وَيُمْسِكُ الطَّبِيعَةَ"[83]

پیلو کا پھل معدہ کو مضبوط و طاقتور بناتاہے اور اسے استعمال کرنے طبیعیت و مزاج پر خوشگوار اثر ہوتا ہے۔ پیلو کے درخت سے مسواک بنایا جاتا ہے۔ سب سے عمدہ مسواک وہ ہے جو پیلو کے درخت سے تیار کیا جاتا ہے۔ پیلو کا مسواک کرنے سے دانت چمک اٹھتے ہیں اور منہ کی خوشبو پاکیزہ ہوجاتی ہے۔ معدہ کی کئی بیماریاں ختم ہوتی ہیں اور بھوک لگتی ہے۔

لیموں (Lemon)

اترج لیموں کی ایک قسم کو کہا جاتا ہے، اسے کھٹا بھی کہا جاتا ہے۔ لیموں عربیک میں اترج معروف ہے۔ اس کے استعمال کے فائد ے ان گنت ہیں۔ اس پر نظر ڈالنے سے جسم کو فرحت محسوس ہوتی ہے۔ اس کی خوشبو عمدہ ہوتی ہے۔ اس کا گودا پھل کی حیثیت کہا جاتا ہے۔ اس کے بیج ہر قسم کے زہر کے تریاق کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسے منہ میں رکھا جائے تو منہ سے بدبو کا خاتمہ ہو جاتاہے۔ تازہ لیموں ماحول کو خوشگوار خوشبو سے بھر دیتاہے۔ لیموں (اترج) کا تذکرہ حدیث مبارکہ میں بھی آتا ہے۔ رسول ؐ کا فرمان ہے:

"عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَثَلُ المُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ القُرْآنَ كَمَثَلِ الأُتْرُجَّةِ، رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ"[84]

مذکورہ بالا حدیث سے لیموں کی اہمیت و افادیت واضح ہوتی ہے۔ نباتاتی وسیلہ لیموں کی خوشبو فرحت بخش ہوتی ہے اور اس ذائقہ پاکیزہ و طیب ہوتا ہے۔ ابن سینا "القانون فی الطب" میں بیان کرتا ہے:

" وعصارة قشره ينفع من نهش الأفاعي شرباً وقشره ضماداً"[85]

ابن سینا کی مذکورہ بالا عبارت سے لیموں کی طبی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ یہ زہر کے لئے تریاق ہے۔ سانپ کے ڈسنےپر اس کے چھلکے کا رس فائدہ مند ہے۔ اس کے رس کو ڈسنے والی جگہ باندھا جائے تو افاقہ ہوتا ہے۔ لیموں کے استعما ل سے معدہ قوت پکڑتا ہے اور جگر کی گرمی ختم ہوتی ہے۔ کپڑوں پر سیاہی گر جائے تو اس کے لگانے سے سیاہی کے داغ ختم ہوجاتے ہیں۔

چاول (Rice)

چاول کو عربی زبان میں "ارز" کہا جاتا ہے۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں چاول کو بطور خوراک گندم کے بعد لوگوں میں مقبولیت حاصل ہے۔ اس کا مزاج خشک اور گرم ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چاول میں بھرپور غذائیت پائی جاتی ہے اور رنگ کو گورا کرتا ہے۔ بھارت اور پاکستان میں یہ فصل وسیع پیمانے پر اگائی جاتی ہے اور اسے دوسرے ممالک میں برآمد کیا جاتاہے۔

امام ابن قیمؒ بیان کرتے ہیں:

" وَهُوَ أَغْذَى الْحُبُوبِ بَعْدَ الْحِنْطَةِ، وَأَحْمَدُهَا خَلْطًا، يَشُدُّ الْبَطْنَ شَدًّا يَسِيرًا، وَيُقَوِّي الْمَعِدَةَ، وَيُدَبِّغُهَا، وَيَمْكُثُ فِيهَا"[86]

مذکورہ عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ چاول کا مزاج گرم اور خشک ہوتا ہے۔ اس سے پیٹ قبض پیدا ہوتی ہے، تاہم معدے میں زیادہ دیر ٹھہرنے سے معدے کو تقویت دیتا ہے۔ صاحب"القانون فی الطب" چاول کی اہمیت کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:

" الأرزّ يغذو غذَاء صَالحا إِلَى اليبس مَا هُوَ فَإِذا طبخ بِاللَّبنِ ودهن اللوز غذى غذَاء أَكثر وأجود وَيسْقط تجفيفه وعقله وخصوصاً إِذا نقع لَيْلَة فِي مَاء النخالة وَهُوَ مِمَّا يبرد ببطء وَفِيه جلاء"[87]

مذکورہ عبارت سے چاول کی افادیت ثابت ہوتی ہے۔ چاول کو دودھ کے ساتھ ملا کر پکایا جائے تو یہ مزید ار اور لذیذ کھیر تیار ہوتی ہے جو خوش ذائقہ ہوتی ہے۔

تربوز (Watermelon)

تربوز اہم نباتاتی وسیلہ ہے جسے عربی زبان میں بطیخ کہا جاتا ہے۔ تربوز کا مزاج سرد مرطوب ہوتا ہے۔ یہ جلدی ہضم ہو جاتا ہے۔ اسے استعمال کرنے سے بدن میں چمک پیدا ہوتی ہے۔ تربوز کا ذکر حدیث مبارکہ میں بھی آتا ہے۔

صیح ابن حبان کی ایک روایت میں ہے:

"عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ الْبِطِّيخَ بِالرُّطَبِ"[88]

مذکورہ روایت سے تربوز کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے تر بوز کو کجھور کے ساتھ استعمال کیا ہے کیونکہ تربوز کا مزاج سرد مرطوب اور کجھور کا مزاج گرم مرطوب ہوتا ہے۔ تربوز کو کھانا کھانے کے بعد استعمال کرنا مضر صحت ہوتا ہے اس لئے اسے کھانے کے بعداستعمال کرنے احتراز کرنا مناسب ہے۔

امام الرازی اپنی تالیف "الحاوی فی الطب " میں تربوز کی افادیت کا تذکرہ کرتے ہیں :

يان نفع من الورم الْحَار فِيهِ عِنَب الثَّعْلَب يدق مَعَ دهن ويضمد بِهِ اليافوخ فيرتفع الورم الْحَار فِي الدِّمَاغ وَكَذَلِكَ القرع والطحلب وَالْخيَار"[89]

مذکورہ عبارت سے گرم مزاج رکھنے والے افراد کے لئے تربوز کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

امام ابن قیم ؒ طب نبوی میں تربوز کا درست استعمال بتاتے ہیں:

" إِنَّهُ قَبْلَ الطَّعَامِ يَغْسِلُ البطن غسلا، ويذهب بالداء أصلا"[90]

مذکورہ بالا عبارت کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تربوز کھانے سے پہلے کھایا جائے تو کئی امراض کے خاتمہ سبب بن سکتا ہے۔ اس لئے تربوز ہمیشہ کھانے سے پہلے ہی استعمال کرنا دانش مندی اور طبی اصولوں کے مطابق ہے۔

ڈاکٹر عبدالرحیم تربوز کی افادیت و استعمال بیان کرتے ہیں:

“The seeds are diuretic and are used as cooling medicine. The seed oil is used for cooking. Fruit is cooling, aphrodisiac, astringent and cures jaundice.”[91]

تربوز (بطیخ) مین پروٹین، سٹرولین، وٹامن اے، وٹامن بی، وٹامن سی، فولاد، شوگر پایا جاتا ہے۔ تربوز کا استعمال مثانہ گردہ کی پتھری خارج کرتاہے۔ پیٹ صاف کرتا ہے۔ نظام دوران خون کے لئے نافع ہے۔ اس کے استعمال سے بلڈ پریشر کم ہوتا ہے۔ [92]

سفرجل (Quince)

سفر جل (بہی) سیب سے ملتا جلتا ایک نباتاتی وسیلہ ہے جس کا مربع بنایا جاتا ہے۔ سفرجل کا مزاج خشک سرد ہے اور اس کے ذائقے مختلف ہیں۔ سفرجل کا استعمال مثانہ کے لئے نافع ومفید ہے اسے استعمال کرنے پیشاب کھل کرآتا ہے۔ یہ دل، جگر اور معدے کے لئے مفید و نافع ہے۔ اس کے پتوں اور ٹہنیوں سے سرمہ تیا ر کیا جاتا ہے۔ سفر جل کے استعمال سے سانس خوشبو دار اور سینہ سے بھوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔

احادیث مبارکہ میں بھی سفرجل کا ذکر ملتا ہے۔ ابن ماجہ کی روایت میں یوں بیان کیا جا تا ہے:

"عَنْ طَلْحَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَبِيَدِهِ سَفَرْجَلَةٌ فَقَالَ: دُونَكَهَا، يَا طَلْحَةُ، فَإِنَّهَا تُجِمُّ الْفُؤَادَ"[93]

یہ پھل دل کو کھولتا ہے اور اسے مضبوط کرتاہے۔ ثابت ہوا کہ سفرجل دل کے مریضوں کے لئے انتہائی مفید و نافع ہے۔ سفرجل انتہائی مفید و نافع نباتاتی وسائل میں سے ہے۔

امام ابن قیم ؒ اس کے بیجوں کی اہمیت و افادیت یوں بیان کرتے ہیں:

" وَحَبُّهُ يَنْفَعُ مِنْ خُشُونَةِ الْحَلْقِ، وَقَصَبَةِ الرِّئَةِ، وَكَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرَاضِ، وَدُهْنُهُ يَمْنَعُ الْعَرَقَ، وَيُقَوِّي الْمَعِدَةَ، وَالْمُرَبَّى مِنْهُ يُقَوِّي الْمَعِدَةَ وَالْكَبِدَ، وَيَشُدُّ الْقَلْبَ، وَيُطَيِّبُ النَّفَسَ"[94]

سفرجل کے بیج گلے کی خشکی اور سختی کو دور کرتے ہیں اور پھیپھڑوں کی نالیاں کھلتی ہیں۔ اس کا استعمال بہت سی دوسری بیماریوں سے انسان کا دفاع کرتا ہے۔ اس کا تیل پسینہ روکتا ہے، دل کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کامربہ معدے اور جگر کے لئے مفید ہے۔ دل کو قوت دیتا ہے اور نفس کو پاکیزہ وطیب بناتا ہے۔ اطباء اسے جلدی امراض، سر درد، زکام، گردوں کی بیماری، بلڈ پریشر اور موٹاپا سے بچاؤ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

جو (Barley)

"جو" اہم نباتاتی وسیلہ ہے۔ اسے عربی میں "شعیر " کہلاتاہے۔ یہ نشاستہ، چکنائی، گلوٹین اور پانی کا مرکب ہے۔ گرم گرم دلیا مریض کو بار بار دینے سے قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو کا دلیا دودھ میں پکا یا جاتا ہے۔ یہ جسمانی کمزوری، کھانسی، حلق کی سوزش اور معدہ کی اصلاح کے لیے مفید ہے۔ جو کے دلیے کا ثبوت احادیث نبویہ ؐسے بھی ملتا ہے۔ دل کے لئے انتہائی مفید و نافع ہے۔ بیماری اور کمزوری میں جو کا استعمال فائدہ مند ہے۔ دل کے غم و فکر سے نجات ملتی ہے اور دل کا بوجھ اتر جاتا ہے۔

ابن سینا لکھتے ہیں:

"وَاعْلَم أَن مَاء الشّعير بِالتَّمْرِ الْهِنْدِيّ نَافِع من غثيانات الْأَمْرَاض"[95]

مسند احمد کی روایت ہے:

" عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ أَهْلَهُ الْوَعْكُ، أَمَرَ بِالْحَسَاءِ، فَصُنِعَ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ، فَحَسَوْا مِنْهُ، ثُمَّ يَقُولُ: إِنَّهُ، يَعْنِي:، لَيَرْتُو فُؤَادَ الْحَزِينِ، وَيَسْرُو عَنْ فُؤَادِ السَّقِيمِ، كَمَا تَسْرُو إِحْدَاكُنَّ الْوَسَخَ بِالْمَاءِ عَنْ وَجْهِهَا "[96]

بالا روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب آپ کے خاندان کا کوئی شخص بخار کی وجہ سے کمزور ہو جاتا تو آپﷺ اس کے لئے جو (شعیر) کا دلیا بنانے کا حکم دیتے۔ یہ غمگین دلوں کو مضبوط کرتا ہے اور مریض دل کو ایسے صاف کرتا

ہے جیسے پانی سے چہرہ صاف ہوتا ہے۔

چقندر (Beetroot)

چقندر اہم نباتاتی وسیلہ ہے۔ چقندر کا قولنج اور دوسری کئی بیماریوںکی میں مفید ہے۔

ابن ماجہ کی ایک روایت میں چقندر کا تذکرہ :

"عَنْ أُمِّ الْمُنْذِرِ بِنْتِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيَّةِ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَعَلِيٌّ نَاقِهٌ مِنْ مَرَضٍ، وَلَنَا دَوَالِي مُعَلَّقَةٌ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مِنْهَا، فَتَنَاوَلَ عَلِيٌّ لِيَأْكُلَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَهْ يَا عَلِيُّ، إِنَّكَ نَاقِهٌ" قَالَتْ فَصَنَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - سِلْقًا وَشَعِيرًا، فَقَالَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لعَلِيمِنْ هَذَا فَأَصِبْ، فَإِنَّهُ أَنْفَعُ لَكَ"[97]

مذکورہ بالا روایت کا مفہوم یہ ہے کہ ام منذر بنت قیس الانصاریہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ ان کے گھر تشریف لائے اور ان کے ساتھ حضرت علی المرتضی (رض) بھی تھے۔ ان کے گھر میں کجھوروں کے خوشے لٹک رہے تھے، آپ ﷺ نے کھانے شروع کر دئیے تو حضرت علی (رض) نے بھی آپﷺ کا ساتھ دینا شروع کر دیا، آپﷺ نے انہیں زیادہ کھانے منع کر دیا اور تم میں بیماری کی وجہ سے کمزوری ہے۔ حضرت ام منذر (رض) کا کہنا ہے کہ میں ان کے لئے چقندروں اور جو کا بنا ہوا کھانا لے کر آئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: یہ کھاؤ، یہ تمہارے لئے زیادہ مفید ہے۔ چقندر کا استعمال اعتدال و میانہ روی سے کرنا چاہئے کیونکہ چقندر کا ضرورت سے زیادہ استعمال نقصان دہ اور مضر صحت ہے۔ اس کا زیادہ استعمال معدے میں قبض پیدا کرتا ہے اور اس پیٹ پھول جاتا ہے۔

صاحب "الحاوی فی الطب" چقندر کی افادیت کا تذکرہ یوں کرتے ہیں:

" وَيجب أَن يسلق سلقاً جيدا قبل ذَلِك وَإِلَّا حرك الْبَطن"[98]

مذکورہ بالا عبارت ثابت کرتی ہے کہ چقندر کے استعمال سے پیٹ میں حرارت اور گرمی پیدا ہوتی ہے۔

ابن سینا لکھتا ہے:

" وَمَعَ السلق المسمّى بالأسود لشدَّة خضرته أَو مَعَ ورد أَو شَيْء من القوابض بعد أَن يسلق سلقاً جيدا قبل ذَلِك وَإِلَّا حرك الْبَطن"[99]

مذکورہ بالا عبارت سے چقندر کی اہمیت و افادیت عیاں ہوتی ہے۔ چقندر کا استعما ل پیٹ میں قبض کرتا ہے۔ کالے رنگ کا چقندر مضر صحت ہوتا ہے۔ لہٰذا سیاہ رنگ کے چقندر کے استعمال سے اجتناب و احتراز ہی کرنا مناسب ہے۔

مہندی (Henna)

مہندی ایک اہم نباتاتی وسیلہ ہے۔ مہندی کو عربی زبان میں حناء کہا جاتا ہے۔ انگریز ی زبان میں اسے (Henna) کہتے ہیں۔

 مہندی ہاتھ اور بال رنگنے میں استعمال ہوتی ہے۔ اس کے استعمال سے بال سرخ اور حسین ہو جاتے ہیں۔ چیچک اور پھوڑوں میں اس کا استعمال مفید و نافع ہے۔ آگ سے جلے پر اور ہر زخم پر مہندی کا لیپ کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ اسے لگانے سے اعصاب کی تحریک ملتی ہے۔ چیچک کے مریض کے پیروں پر مسلسل مہندی لگانے سے بینائی ٹھیک رہتی ہے۔

 محبوب ِ خدا ﷺکا فرمان ہے:

" عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَلْمَى أُمُّ رَافِعٍ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُصِيبُهُ قَرْحَةٌ، وَلَا شَوْكَةٌ إِلَّا وَضَعَ عَلَيْهَا حِنَّاءَ"[100]

مہندی کے پھول کو عربی زبان میں فاغیہ کہا جاتا ہے۔ مہندی کا پھول پاکیزہ خوشبو دیتا ہے۔ مہندی کے پھول فالج جیسی جان لیوا بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، اس کا تیل پٹھوں کی سختی دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

امام ابن قیم ؒ مہندی کے پھول کے خواص بیان کرتے ہیں:

"وَهِيَ مُعْتَدِلَةٌ فِي الْحَرِّ وَالْيُبْسِ، فِيهَا بَعْضُ الْقَبْضِ، وَإِذَا وُضِعَتْ بَيْنَ طَيِّ ثِيَابِ الصُّوفِ حَفِظَتْهَا مِنَ السُّوسِ، وَتَدْخُلُ فِي مَرَاهِمِ الْفَالِجِ وَالتَّمَدُّدِ، وَدُهْنُهَا يُحَلِّلُ الْأَعْضَاءَ، وَيُلَيِّنُ الْعَصَبَ"[101]

درج بالا عبارت کے مطابق مہندی کے پھول کا مزاج گرم اور خشک ہے لیکن معتدل ہے، اس کا استعمال قبض پیدا کرتا ہے، اونی کپڑوں میں رکھنے سے انہیں کیڑا نہیں لگتا۔ جبکہ اس کا تیل بدن کے اعضا ء کو کھولتا ہے اور پٹھوں کو نرم کرتا ہے۔

اجوائن (Celery)

اجوائن اہم نباتاتی وسیلہ ہے۔ اجوائن کا مزاج گرم اور خشک ہے۔ اسے عربی زبان میں کرفس کہا جاتا ہے۔ یہ تلی اور جگر کے لئے مفیدہے۔ اس کا سبز پتے جگر اور معدہ کے لئے نافع ہیں۔ اس کے استعمال سے پیشاب اور حیض کھل کر آتا ہے، جسم سے پتھریاں ٹوٹ کر خارج ہوتی ہیں۔

اجوائن کے بارے میں درج ذیل روایت بیان کی جاتی ہے:

" ومنْ أَكَلَ الْكَرَفْسَ باتَ ونَكْهَتُهُ طَيِّبَةٌ وَبَاتَ آمِنًا مِنْ وَجَعِ اْلأضْرَاِس وَاْلأَسْنَانِ"[102]

مذکورہ روایت سے خلاصہ یہ ہے کہ اجوائن کھانے سے منہ کی بو پاکیزہ ہو جاتی ہے اور دانتوں اور داڑھوں کا درد نہیں ہوتا۔

 سائنسدان محمد بن ذکریا الرازی لکھتے ہیں:

"وَهِي بزر كرفس مر زنجبيل أفيون من كل وَاحِد دِرْهَمَانِ بزر الشبث دِرْهَم أفسنتين أَرْبَعَة دَار صيني سِتَّة يقرص مِثْقَال ويسقى بِمَاء بَارِد فِي الهيضة والقيء"[103]

ڈاکٹر عبدالرحیم لکھتے ہیں:

“ The seeds are useful for indigestion, flatulence, colic, cholera, diarrhea and hysteria. The water distilled from the seeds checks vomiting and is an excellent carminative and cures spasmodic disorders, colic and flatulent dysentery.”[104]

مذکورہ بالا عبارت سے اجوائن کی طبی افادیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ اجوائن مختلف بیماریوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔

کستوری (Musk)

کستوری عریبک میں الِمسک کہلاتی ہے۔ یہ پاکیزہ ترین خوشبو ہے۔ اسے سونگھنے سے سرد مزاج لوگوں کو نفع ہوتا ہے۔ یہ انسان کے لئے سب سے زیادہ فرحت افزا ء خوشبو ہے۔ اسے استعمال کرنے انسان کی روح تازہ اور پر مسرت ہوجاتی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے کستور ی کی خوشبو کو پسندکرتے تھے۔

صیح مسلم کی رویت میں ہے:

"عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، حَشَتْ خَاتَمَهَا مِسْكًا، وَالْمِسْكُ أَطْيَبُ الطِّيبِ"[105]

مذکورہ روایت کی تفہیم سے کستوری کی خوشبو سب سے پاکیزہ خوشبو ثابت ہو تی ہے۔

صیح بخاری کی روایت میں ہے:

" عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ أُطَيِّبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَطْيَبِ مَا يَجِدُ، حَتَّى أَجِدَ وَبِيصَ الطِّيبِ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ"[106]

حضرت عائشہ (رض) احرام باندھنے سے پہلے عید الاضحیٰ کے دن اورخانہ کعبہ کا طواف کرنے سے پہلے سردار الانبیاء ؑ کو خوشبو لگاتی تھیں جس میں کستوری بھی تھی۔

میتھی (Fenugreek)

میتھی ایک معروف نباتا تی وسیلہ ہے۔ عربی میں حلبۃ اورانگریزی میں اسے (Fenugreek) کہا جاتا ہے۔ اس کے تازہ نرم پتوں کی ترکاری کھانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس کے پتے اور بیج دوا کے طورپر استعما ل ہوتے ہیں۔ اس کا مزاج گرم خشک ہوتا ہے۔ یہ پسینہ اور پیشاب کو بدبو کو دور کرتی ہے۔ یہ قولنج کی بیماری میں مفید و نافع ہے۔

میتھی کے متعلق امام ابو نعیم اصفہانیؒ کی روایت ہے:

" عَن معاذ بن جبل، قال: قال رسول الله صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم: لو تعلم أمتي ما لها في الحلبة لاشتروها ولو بوزنها ذهبا."[107]

میتھی (حلبۃ) کی افادیت و نافعیت اسقدر زیادہ ہے کہ سونے جیسی قیمتی دھات سے تشبیہ دی گئی ہے۔

کاسنی (Endive)

کاسنی ایک اہم نباتاتی وسیلہ ہے۔ عربی زبان میں اسے ھندباء کہا جاتا ہے۔ کاسنی طبی فوائد سے مالا مال نباتاتی وسیلہ ہے۔ کاسنی کے پتوں کا بچھو کے کاٹنے کی جگہ پر لگایا جائے تو درد جاتا رہے گا۔ کاسنی مزاج درست کرتی ہے اور گرمی میں ٹھنڈک پہنچاتی ہے اور آنتوں کی جلن دور کرتی ہے۔ اس کا استعمال معدہ کے لئے نافع ہے۔ [108]

امام طبرانی ؒ کاسنی کے بارے میں ایک حدیث بیان کرتے ہیں:

" مَا مِنْ وَرَقَةٍ مِنْ وَرَقِ الْهِنْدِبَاءِ إِلَّا وَعَلَيْهَا قَطْرَةٌ مِنْ مَاءِ الْجَنَّةِ"[109]

 روایت بالا کا مفہوم یہ ہےکہ کاسنی کے پودے کے ہر پتے پر جنت سے قطرے گرتے ہیں۔

امام ابو نعیم اصفہانی ؒ کاسنی کی اہمیت میں درج ذیل روایت نقل کرتے ہیں:

" عَن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم: كلوا من الهندباء ولا تنفضوه فإنه ليس يوم من الأيام إلا وقطرات من الجنة تقطر عليه."[110]

مذکورہ بالا حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ کاسنی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ حدیث مبارکہ کے مطابق کاسنی کو استعمال کرنا چاہئے کیونکہ کوئی ایسا دن نہیں ہوتا کہ اس پر جنت سے قطرے نہ گرتے ہوں۔

" ومَنْ أَكَلَ اْلِهنْدِبَاءَ بَاتَ وَلَمْ يُحِكْ فِيهِ سمٌّ وَلا سِحْرٌ، وَلَمْ يَقْرَبْهُ شَيْءٌ مِنَ الدَّوَابِ حَيَّةٍ وَلاَ عَقْرَبٍ"[111]

مذکورہ روایت کامفہوم یہ ہے کہ کاسنی کھا کر سونے سے زہر اور جادو کا اثر نہیں ہوتا۔ کاسنی سر د مرطوب مزاج رکھتی ہے۔ معدے، تلی، جگر کے لئے انتہائی مفید ہے۔ یرقان اور آنکھوں کی سوزش اور دوسری کئی امراض میں اس کا استعمال فائدہ مندہے۔

کتم (Indiho Leaves)

کتم (بال سیاہ رنگنے والا پودا) وادیوں میں اگنے والا اہم پودا ہے۔ اس کے پتے زیتون کے پتوں سے ملتے جلتے ہیں جو ایک دوسرے پرچڑھے ہوتے ہیں۔ اس کا پھل کالی مرچ کے مساوی ہوتا ہے۔ کتم بالوں کو سیاہ رنگنے والا پودا ہے۔ کتم کا ذکر احادیث میں بھی آتا ہے۔

سنن ابوداؤد میں حدیث مبارکہ ہے:

" عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَحْسَنَ مَا غُيِّرَ بِهِ هَذَا الشَّيْبُ الْحِنَّاءُ، وَالْكَتَمُ"[112]

 مذکورہ بالا حدیث کے مطابق کتم اور مہندی بڑھاپے کو بدلنے والی سب سے اچھی چیزیں ہیں۔

 کتم کے بارے میں صیح مسلم کی روایت ہے:

" عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ هَلْ خَضَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَإِنَّهُ لَمْ يَكُنْ رَأَى مِنَ الشَّيْبِ إِلَّاقَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ كَأَنَّهُ يُقَلِّلُهُ وَقَدْ خَضَبَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ "[113]

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کتم اور مہندی سے اپنے بالوں کو رنگا کرتے تھے۔

لبان (Benzoan)

لبان صنوبر کے درخت کے گوند کو کہا جاتا ہے۔ لبان گرم اور خشک مزاج رکھتا ہے۔ معدے کی درد، زبان کی لکنت، نظر کی کمزوری، بلغم، پھنسیوں اور پھوڑوں کے خاتمے میں لبان کا استعمال مفید و نافع ہے۔ کئی احادیث مبارکہ میں لبان کا ذکر آیا ہے۔

امام نعیم اصفہانی ؒ لبان کے بارے میں درج ذیل حدیث نقل کرتے ہیں:

" عَن أنس بن مالك أن رسول الله صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم قال: بخروا بيوتكم باللبان والصعتر"[114]

امام ابو نعیم اصفہانیؒ کی بیان کردہ مذکورہ بالا روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے گھروں میں لبان اور پودینے سے دھونی دینی چاہیے۔

محمد بن احمد بن مروان المالکیؒ لبان کی اہمیت و افادیت میں درج روایت لاتے ہیں:

" عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: خُذْ مِثْقَالَ لُبَانٍ وَمِثْقَالا مِنْ سُكَّرٍ فَاشْرَبْهُمَا عَلَى الرِّيقِ؛ فَإِنَّهُمَا جَيِّدَانِ لِلْبَوْلِ وَالنِّسْيَانِ"[115]

حضرت ابن عباس (رض) کی بیان کردہ روایت کا مفہوم یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے مطابق صبح سویرے ناشتے میں شکر کے ساتھ لبان کا استعمال کرنے سے پیشاب کی بیماری اور نسیان یعنی بھولنے کی بیماری میں افادہ ہوتا ہے۔

کلونجی (Black Cumin)

کلونجی انتہائی مفید نباتاتی وسیلہ ہے۔ اسے عربی زبان میں الحَبَّةِ السَّوْدَاءِ کہا جاتا ہے۔ کلونجی کی افادیت کے حوالےسے عبداللہ بن عمر باموسیٰ کی "الحبتہ السودا ء فی الحدیث النبوی و الطب الحدیث" ایک لائق مطالعہ تالیف ہے، جو 1425ھ میں مدینہ منورہ سے شائع ہوئی۔

رسول کریم ﷺ نے کلونجی کی افادیت کے پیش نظر صحابہ کرام (رض) کو اسے استعمال کرنے کی ترغیب دی ہے۔

صیح بخاری کی روایت ہے:

" فِي الحَبَّةِ السَّوْدَاءِ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ، إِلَّا السَّامَ"[116]

 بے شک کلونجی میں موت کے سوا ہر مرض کا علاج ہے۔ کلونجی خشک اور گرم مزاج رکھتی ہے۔ بلغمی مزاج والے افراد کے لئے انتہائی مفید ہے۔ کلونجی شہد کے ساتھ ملا کرگرم پانی کے ساتھ استعمال کرنے سے گردے اور مثانے کی پتھریوں کو توڑ دیتی ہے۔

عرب سکالر عبداللہ بن عمر باموسیٰ کلونجی کی طبی افادیت بیان کرتے ہیں:

"قدرة هذا النبات على التأثير في أجهزة مختلفة في الجسم الطبيعي وحمايته من الأضرار والأمراض وفي الوقت نفسه يظهر جلياً القدرة العالية للحبة السوداء على علاج عدد كبير ومتنوع من الأمراض"[117]

ڈاکٹر عبدالرحیم لکھتے ہیں:،

“The annual erect herb bears black triangular seeds which contain yellowish volatile oil, fixed oil, essential oil, albumen, sugar, mucilage, metabrin, toxic glucoside and Arabic acid..”[118]

مذکورہ بالا حقائق و شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ کلونجی طبی اعتبار سے ایک اہم نباتاتی وسیلہ ہے جو اہم اجزاء کا قدرتی مرکب ہے۔

عود ہندی (Eagle Wood)

عود ہندی ایک اہم قدرتی نباتاتی وسیلہ ہے۔ عربی زبان میں اسے العود الھندی کہا جاتا ہے۔ عود ہندی کی دو اقسام ہیں۔ ایک دوائیوںمیں استعمال کی جاتی ہے جسے قسط کہا جاتا ہے جبکہ دوسری قسم کا تعلق خوشبو سے ہے جو "اگر" کہلاتی ہے۔ اسی لکڑی سے اگر بتیاں بنائی جاتی ہیں۔ عود ہندی میں سب سے عمدہ لکڑی سیاہ یا نیلے رنگ کی ہوتی ہے۔ عود کی لکڑی کو اگر کی لکڑی بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے عمدہ عود ہندوستان میں پائے جانے والے "اگر درخت " سے حاصل کیا جاتا ہے۔

صیح مسلم کی روایت میں آتا ہے:

" عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا اسْتَجْمَرَ اسْتَجْمَرَ بِالْأَلُوَّةِ، غَيْرَ مُطَرَّاةٍ وَبِكَافُورٍ، يَطْرَحُهُ مَعَ

الْأَلُوَّةِ ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا كَانَ يَسْتَجْمِرُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"[119]

روایت بالا سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ عود یعنی اگر بتی کی دھونی دیا کرتے تھے اور اس کے ساتھ کافور بھی شامل کرلیا کرتے تھے۔

امام ابن قیمؒ عود ہندی کی اہمیت بیان کرتے ہیں:

"وَهُوَ حَارٌّ يَابِسٌ فِي الثَّالِثَةِ، يَفْتَحُ السُّدَدَ، وَيَكْسِرُ الرِّيَاحَ، وَيَذْهَبُ بِفَضْلِ الرُّطُوبَةِ، وَيُقَوِّي الْأَحْشَاءَ وَالْقَلْبَ وَيُفْرِحُهُ، وَيَنْفَعُ الدِّمَاغَ، وَيُقَوِّي الْحَوَاسَّ، وَيَحْبِسُ الْبَطْنَ، وَيَنْفَعُ مِنْ سَلَسِ الْبَوْلِ الْحَادِثِ عَنْ بَرْدِ الْمَثَانَةِ""[120]

مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ عود ہندی کا مزاج تیسرے درجے میں گرم اور خشک ہے۔ یہ انتڑیوں، دل، دماغ، حواس، پیٹ، مثانے اور پیشاب کی تکلیف میں مفید و نافع ہے۔

ہلدی (Flamirgia Grahammana)

 ہلدی ایک نباتاتی پوداہے جو اکثر و بیشتر عرب اور یمن کی سرزمین میں پایا جاتا ہے۔ ہلدی کو عربی زبان میں ورس کہا جاتا ہے۔ ورس کی اہمیت کا اندازہ اس با ت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا ذکر کئی احادیث مبارکہ میں آیا ہے۔

مستدرک حاکم کی روایت ہے:

" عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْعَتُ الزَّيْتَ وَالْوَرْسَ مِنْ ذَاتِ الْجَنْبِ قَالَ قَتَادَةُ: يُلَدُّ مِنْ جَانِبِهِ الَّذِي يَشْتَكِيهِ"[121]

مذکورہ بالا روایت سے واضح ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ ذات الجنب یعنی پہلو والے پھوڑے کے علاج کے لئے زیتون کے تیل اور ہلدی کے استعمال کی تعریف کیاکرتے تھے۔ خواتین اپنے چہروں پر سرخ دھبے دور کرنے کے لئے ہلدی لگاتی ہیں۔ ہلدی کو چہرے کے دھبوں، خارش، پھنسیوں پر لگایا جائےتو یہ ان کے تدارک کے لئے مفید و نافع ہے۔ ہلدی گرم اور خشک مزاج رکھتی ہے۔ ہلدی اور عود ہندی کے طبی فوائد تقریباً یکساں و مساوی ہیں۔

 قرآن میں نباتات کا تذکرہ

1-کھجور (Date Palm)

Magnololiophyta

4-Division

Phoenix dactylifera

1-Botanical Name

Magnoliopsida

5-Class

Date Palm

2-English Name

Arecaceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَجَعَلْنَا فِيْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّــرْنَا فِيْهَا مِنَ الْعُيُوْنِ"[122]

" ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور اس کے اندر چشمے پھوڑ نکالے۔ "

کجھور کے درخت کی عمر150 سال ہوتی ہے۔ محکمہ زراعت کے مطابق کجھور کی کاشت کا رقبہ 90 ہزار ہیکٹر ہو گیا ہے۔ پنجاب میں کجھور کی کاشت سے 570 سے 630 ہزار ٹن تک سالانہ پیداوار حاصل کی جاتی ہے، جبکہ اس کی اوسط پیداوار فی پودا اڑھائی سے تین من تک ہوتی ہے، کجھور کے درختوں میں سیم و تھور برداشت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جھورمعدہ اور جگر کو قوت دیتی ہے۔ سرد مزاج لوگوں کے لئے بے حد مفید ہے۔ دودھ کے ساتھ استعما ل کرنے سے بدن میں طاقت پیدا ہوتی ہے۔ جریان کی روک تھام میں کردار ادا کرتی ہے۔ اسے کھانے سے قوت باہ میں اضافہ ہوتا ہے۔

امام ابن قیم ؒ کھجور کے طبی فوائد بیان کرتے ہیں:

"وَهُوَ مُقَوٍّ لِلْكَبِدِ، مُلَيِّنٌ لِلطَّبْعِ، يَزِيدُ فِي الْبَاهِ۔ ۔ ۔ وَهُوَ مِنْ أَكْثَرِ الثِّمَارِ تَغْذِيَةً لِلْبَدَنِ۔ ۔ ۔ وَهُوَ فَاكِهَةٌ وَغِذَاءٌ، وَدَوَاءٌ وَشَرَابٌ وحلوى"[123]

 مذکورہ عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ جگر کو قوت دیتی ہے، طبیعت میں نرمی پیدا کرتی ہے، مردانہ قوت میں اضافہ کرتی ہے۔ بدن کے لئے دوسرے پھلوں سے زیادہ غذائیت سے بھرپور پھل ہے۔ کھجور پھل بھی ہے، غذا بھی ہے، دوا بھی ہے، میٹھا مشروب ہے، میٹھی خوراک بھی ہے۔

صیح بخاری کی روایت ہے:

"إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً، تَكُونُ مِثْلَ المُسْلِمِ، وَهِيَ النَّخْلَةُ"[124]

بے شک درختوں میں ایک درخت ہے جو مسلمان شخص کی مانند ہوتا ہے اور یہ کجھور کا درخت ہے۔ کجھور استعمال کرنے سے سحر یعنی جادو اور زہر کا اثر نہیں ہوتا۔

حدیث مبارکہ میں ہے:

"مَنْ تَصَبَّحَ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعَ تَمَرَاتٍ عَجْوَةً، لَمْ يَضُرَّهُ فِي ذَلِكَ اليَوْمِ سُمٌّ وَلاَ سِحْرٌ"[125]

 ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص صبح کے وقت سات عجوہ کجھوریں کھا لے اس دن بھر زہراور جادو کا اثر نہیں ہو گا۔

جس گھر میں کجھوریں نہ ہوں وہاں بھوک و افلاس ڈیرے ڈال لیتی ہے۔

ارشادِ نبوی ؐہے:

"عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَيْتٌ لَا تَمْرَ فِيهِ، جِيَاعٌ أَهْلُهُ"[126]

جس گھر میں کجھوریں موجود نہیں ہیں تو اس میں رہنے والے بھوک و افلاس سے دوچار ہیں۔

امام ابن قیم ؒ کجھور کے شگوفے کے فوائد کا تذکرہ کرتے ہیں:

"طَلْعُ النَّخْلِ يَنْفَعُ مِنَ الْبَاهِ، وَيَزِيدُ فِي الْمُبَاضَعَةِ،۔ ۔ ۔ ، وَهُوَ فِي الْبُرُودَةِ وَالْيُبُوسَةِ فِي الدَّرَجَةِ الثَّانِيَةِ، يُقَوِّي الْمَعِدَةَ وَيُجَفِّفُهَا، وَيُسَكِّنُ ثَائِرَةَ الدَّمِ مَعَ غِلْظَةٍ وَبُطْءِ هَضْمٍ."[127]

 مذکورہ عبارت کا لب لبا ب یہ ہے کہ کجھور کے شگوفے سے مرد انہ قوت میں اضافہ کے لئے کاآمد نباتا تی وسیلہ ہے۔ یہ معدہ کو مضبوط کرتا ہے، بلڈ پریشر پرسکون کرتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالرحیم کجھور کے طبی فوائد بیان کرتے ہیں:

“It is useful for urinogenital disorders. The fruit is a tonic and aphrodisiac. It is also good for sore throat, cough, asthma, chest complaints, fevers, gonorrhea, dysentery and liver complaints.”[128]

کجھور غذائیت سے بھرپور پھل ہوتا ہے۔ کاربو ہائیڈریٹ اور فائبر کی مقدار تازہ کجھور میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ جبکہ چکنائی سب سے کم مقدار میں پائی جاتی ہے۔

2-پیاز (Onion)

Magnololiophyta

4-Division

Allium cepa Linn

1-Botanical Name

Lilopsida

5-Class

Onion

2-English Name

Liliaceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

فرمان ِ الہی ہے:

"وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰي طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَقِثَّاۗىِٕهَا وَفُوْمِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا "[129]

" یاد کرو، جب تم نے کہا تھا کہ " اے موسیٰ علیہ السلام، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے۔ اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کریں۔ "

پیاز کو عربی زبان میں "البصل " کہا جاتا ہے۔ پیاز ایک خوش ذائقہ اور مفید غذا ہے۔ پیاز ایک مقبول عام سبزی ہے۔ موٹاپا دور کرنے اور بدن کا ڈھیلا پن نرمی اور پھلاوٹ زائل کرنے کی یہ سستی غذا بھی ہے اور دوا بھی۔ مزاج اس کا گرم ہے اور اپنے اندر شامل ایک لطیف اڑنے والے جوہر کی وجہ سے یہ جس جگہ بھی لگا دیا جائے وہاں کچھ دیر کے بعد ہلکی سی خراش اورخون میں سے پانی جدا کرکے جلن اور خراش بھی پیدا کرتا ہے۔ معدہ اسے دوگھنٹوں میں ہضم کر لیتا ہے۔ قدرت الہی نے اس مفید سبزی میں پانی، نشاستہ، لحمیات، معدنی نمک، فولاد، فاسفورس، سوڈیم جیسے اہم اجزاء شامل کر دئیے ہیں۔ [130]

مسند احمد کی روایت ہے:

" إِنَّ آخِرَ طَعَامٍ أَكَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، طَعَامٌ فِيهِ بَصَلٌ "[131]

آپ ؐکے آخری کھانے کا ایک حصہ پیاز پر مشتمل تھا۔ پیاز سے مسام کھلتے ہیں اور بھوک بڑھتی ہے۔ اس کارس کتے اور سانپ کے زہر کے اثر کو زائل کرتا ہے۔ اس کے استعمال سے مثانہ کی پتھری خارج ہوتی ہے۔ پیاز مقوی معدہ ہے۔ پیاز کے بہت سے طبی فوائد بیان کئے جاتے ہیں۔

ابن سینا "القانون فی الطب" میں لکھتے ہیں:

"مَاء البصل مَعَ الْعَسَل ينفع من الخناق"[132]

مذکورہ عبارت کا حاصل یہ ہے کہ پیاز کئی بیماریوں میں مفید و نافع ہے جبکہ خناق کی بیماری میں پیاز کے پانی کا استعمال فائدہ دیتا ہے۔

امام ابن قیم ؒ نے طب نبوی ﷺ میں پیاز کے بہت سے فوائد کا تذکرہ کیا ہے، جن میں سے بعض فوائددرج ذیل ہیں:

"وَالْبَصَلُ: حَارٌّ فِي الثَّالِثَةِ، وَفِيهِ رُطُوبَةٌ فَضْلِيَّةٌ يَنْفَعُ مِنْ تَغَيُّرِ الْمِيَاهِ، وَيَدْفَعُ رِيحَ السُّمُومِ، وَيُفَتِّقُ الشَّهْوَةَ، وَيُقَوِّي الْمَعِدَةَ، وَيُهَيِّجُ الْبَاهَ، وَيَزِيدُ فِي الْمَنِيِّ، وَيُحَسِّنُ اللَّوْنَ، ويقطع البلغم، ويجلوا الْمَعِدَةَ، وَبَزْرُهُ يُذْهِبُ الْبَهَقَ، وَيُدَلَّكُ بِهِ حَوْلَ دَاءِ الثَّعْلَبِ، فَيَنْفَعُ جِدًّا"[133]

 مذکورہ بالا سے عبارت عیاں ہوتا ہے کہ پیاز ایک اہم نباتاتی وسیلہ ہے جو تیسرے درجے میں گرم ہوتا ہے۔ اس میں رطوبتیں کافی زیادہ ہوتی ہیں۔ پانی کی تبدیلی میں یہ مفید ہے۔ زہریلی ہوا کو جسم سے خارج کرنے کا موجب بنتا ہے، شہوت کو تیز کرتا ہے، معدے کو طاقت دیتا ہے، مرد کے مادہ منویہ میں اضافہ کرتا ہے، اس کے استعمال سے رنگ گورا ہوتا ہے، بلغم ختم اور معدے میں چمک پیدا ہوتی ہے، اس کے بیج کوڑھ کے مرض کو ختم کرتے ہیں۔ بال گرنے کے مرض میں اس کے بیج پیس کر بالوں کو لگائیں جائیں تو ان بڑا فائدہ ہوتا ہے۔

صاحب "القانون فی الطب" لکھتے ہیں:

"والبصل الْمَأْكُول يدْفع ضَرَر ريح السمُوم. قَالَ بَعضهم: لِأَنَّهُ يُولد فِي الْمعدة خلطاً رطبا كثيرا يكسر عَادِية السمُوم وَهُوَ بليغ فِي ذَلِك جدا."[134]

پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحیم لکھتے ہیں:

“An essential oil and sulphides are present in the leaves and bulbs. The onion juice is a stimulant and diuretic. It is useful in dysentery and piles. It is also useful for insect bites and skin disease.”[135]

مذکورہ عبارت سے پیاز کی طبی اہمیت و افادیت واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے۔

3-لہسن (Garlic)

Magnololiophyta

4-Division

Allium cepa Linn

1-Botanical Name

Lilopsida

5-Class

Garlic

2-English Name

Liliaceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰي طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَقِثَّاۗىِٕهَا وَفُوْمِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا "[136]

" یاد کرو، جب تم نے کہا تھا کہ " اے موسیٰ علیہ السلام، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے۔ اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کریں۔ "

لہسن ایک اہم نباتاتی وسیلہ ہے۔ تھوم کو عربی زبان میں "الثوم " کہا جاتا ہے۔ مذکورہ قرآنی آیت میں "فوم " کے متعلق مفسرین کا اختلاف ہے۔ بعض لفظ "فوم " کے لفظ کا معنی گند م کر تے ہیں جبکہ بعض اس کا معنی تھوم (لہسن) کرتے ہیں۔

علامہ زمخشری لفظ "فوم" کی تشریح کرتے ہیں:

"والفوم: الحنطة. ومنه فوّموا لنا، أى: اخبزوا. وقيل الثوم. ويدل عليه قراءة ابن مسعود: وثومها"[137]

اما م قرطبی ؒ لکھتے ہیں:

"قَوْلُهُ تَعَالَى: (وَفُومِها) اخْتُلِفَ فِي الْفُومِ فَقِيلَ هُوَ الثُّومُ لِأَنَّهُ الْمُشَاكِلُ لِلْبَصَلِ. رَوَاهُ جُوَيْبِرٌ عَنِ الضَّحَّاكِ. وَالثَّاءُ تُبْدَلُ مِنَ الْفَاءِ كَمَا قَالُوا مَغَافِيرُ وَمَغَاثِيرُ وَجَدَثَ وَجَدَفَ لِلْقَبْرِ. وَقَرَأَ ابْنُ مَسْعُودٍ" ثُومِهَا" بِالثَّاءِ الْمُثَلَّثَةِ"[138]

معذکورہ عبارت کا حاصل یہ ہے کہ معروف صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) "فومھا" کو بدل کر "ثومھا" پڑھتے تھے۔ پس ثابت ہو ا کہ "فوم" سے "ثوم" یعنی لہسن مراد لیا جا سکتا ہے۔ علامہ امین احسن اصلاحی نے بھی مختلف دلائل و براھین سے "فوم " کو "ثوم" ثابت کیا ہے۔ لہسن کا استعمال خون کو گاڑھا نہیں ہونے دیتا۔ موٹاپا، دمہ، فالج، لقوہ، رعشہ اور مرگی کو مفید و نافع ہے۔ قوت باہ کو بڑھاتا ہے۔ سر د مزاج والوں کے لئے اس کا استعمال انتہائی مفید ہے۔ بلغم کو خارج اور ریاح کو تحلیل کرتا ہے۔ بھوک کو بڑھاتا ہے۔ اس سے ہڈیاں مضبوط ہوتی ہے۔ لہسن کے طبی فوائد بہت زیادہ ہیں۔

امام ابن قیم ؒ رقمطراز ہیں:

" وَبَعْدُ فَهُوَ حَارٌّ يَابِسٌ فِي الرَّابِعَةِ، يُسَخِّنُ تَسْخِينًا قَوِيًّا، وَيُجَفِّفُ تَجْفِيفًا بَالِغًا، نَافِعٌ لِلْمَبْرُودِينَ، وَلِمَنْ مِزَاجُهُ بَلْغَمِيٌّ، وَلِمَنْ أَشْرَفَ عَلَى الْوُقُوعِ فِي الْفَالِجِ، وَهُوَ مُجَفِّفٌ لِلْمَنِيِّ، مُفَتِّحٌ لِلسُّدَدِ، محلل للرياح الغليظة، هاضم للطعام، قاطع لِلْعَطَشِ، مُطْلِقٌ لِلْبَطْنِ، مُدِرٌّ لِلْبَوْلِ، يَقُومُ فِي لَسْعِ الْهَوَامِّ وَجَمِيعِ الْأَوْرَامِ الْبَارِدَةِ مَقَامَ التِّرْيَاقِ، وَإِذَا دُقَّ وَعُمِلَ مِنْهُ ضِمَادٌ عَلَى نَهْشِ الْحَيَّاتِ، أَوْ عَلَى لَسْعِ الْعَقَارِبِ، نَفَعَهَا وَجَذَبَ السُّمُومَ مِنْهَا، وَيُسَخِّنُ الْبَدَنَ، وَيَزِيدُ فِي حَرَارَتِهِ، وَيَقْطَعُ الْبَلْغَمَ، وَيُحَلِّلُ النَّفْخَ وَيُصَفِّي الْحَلْقَ، وَيَحْفَظُ صِحَّةَ أَكْثَرِ الْأَبْدَانِ"[139]

لہسن کا مزاج چوتھے درجے میں گرم اور خشک ہے، بدن میں حرارت پیدا کرتا ہے، جسم کی رطوبتیں خشک کرکے انہیں نفع دیتا ہے، جن کا مزاج بلغمی اور سرد ہو ان کے لئے نہایت نافع ہے۔ فالج والے مریض کے لئے مفید ہے، بدن میں منی خشک کرتا ہے اور سدوں کو کھولتا ہے، آلودہ ہوا خارج کرتا ہے۔ کھانا ہضم کرتا ہے، پیاس ختم کرتا ہے، پیٹ کی صفائی کرتا ہے، پیشاب کھل کر آتا ہے، زہریلے کیڑوں کے لئے تریاق ہے۔ اسے کوٹ کر سانپ اور بچھو کے کاٹنے والی جگہ پر باندھا جائے تو یہ ان کے زہر کو جذب کر لیتا ہے، جسم میں حرارت پیدا کرتا ہے، بلغم ختم کرتا ہے، بدن سے ہوا خارج کرتا ہے، گلے کی صفائی کرتا ہے، اور اکثر و بیشر بیماریوں سے جسم کا تحفظ کرتا ہے۔ صیح مسلم کی روایت میں ہے کہ پیاز اور لہسن کو پکا کر استعمال کیا جائے۔ارشاد نبویؐ ہے:

" فَمَنْ أَكَلَهُمَا فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا"[140]

ڈاکٹر عبدالرحیم لہسن کے بارے میں لکھتے ہیں:

“The leaf bases are flattened and bear in their axils bulbils or cloves. The reduced stem together with scales and bulbils from the bulb…. Flowers are white.”[141]

سرد ممالک میں لہسن کا استعمال بہت ہی فائدہ مند ہے۔ لہسن کھانسی، بخار اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مفید ہے۔

4-مشک بور (Camphor)

Magnoliopsida

4-Division

Cinnamomum camphora N

1-Botanical Name

Magnoliojidae

5-Class

Kamphor

2-English Name

Lauraceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشاد باری تعالی ہے:

"اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا"[142]

"نیک لوگ ﴿جنت میں ﴾ شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آب کافور کی آمیزش ہوگی۔ "

کافور کا درخت ایک بڑا اور سدا بہار، 35 تا 40 میٹر بلند درخت ہے، جو شیشم کے درخت کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ اس کے پتوں سے کافور کی خوشبو آتی ہے۔ بعض ماہرین نباتات اسے جھاڑی قرار دیتے ہیں۔ پہلے پہل سارے درخت کو کاٹ کر کافور حاصل کیا جاتا تھا، لیکن اب اسے باقاعدہ کاشت کیا جاتا ہے اور جب یہ 2 میٹر تک بلند ہو جاتا ہے تو اس کی شاخ تراشی جاتی ہے بعض علاقوں میں دو سے تین مرتبہ نئے پتے اور شاخیں اتار کر ان سے کافور حاصل کیا جاتا ہے۔

چین، جاپان، جزائر بورینو اور فارموسا میں اس کے خود رو جنگلات پائے جاتے ہیں۔ امریکہ، سری لنکا اور بھارت میں اسے کاشت کیا جاتا ہے۔ لاہور اور اسلام آباد میں بھی اس کے درخت پائے جاتے ہیں۔ کافور جگر، گردہ اورپیشاب کی نالی کی سوزش کے لئے نافع ہے۔ اسے سونگھنے سے گرم مزاج والوں کے حواس میں قوت آتی ہے۔ یہ گرم زہروں کا تریاق ہے۔ اس کا استعمال پھوڑے پھنسیوں کو روکتا ہے۔ [143]

4-ترکاری (Cocumber)

Magnololiophyta

4-Division

Cucumis sativus L

1-Botanical Name

Cucurbitaceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰي طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَقِثَّاۗىِٕهَا وَفُوْمِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا "[144]

" یاد کرو، جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ علیہ السلام، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے۔ اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا

کریں۔ "

ترکاری ایک اہم نباتاتی وسیلہ ہے۔ عربی زبان میں اسے "قثاء" کہا جاتا ہے۔ ترکاری میں کھیرا، خربوزہ، تر اور اس سے ملتی جلتی سبزیاں داخل و شامل ہیں۔ قرآن مجید میں ترکاری کے لئے "وَقِثَّاۗىِٕهَا " کا لفظ استعمال ہو اہے۔ بعض اہل علم ترکاری سے خربوزہ مراد لیتے ہیں جبکہ بعض اہل علم نے اسے کھیرااور تر قرار دیا ہے۔ یہ سب ایک دوسرے سے ملتی جلتی سبزیاں ہیں۔ بقل کا لفظ سبزیوں اور ترکاریوں کی تمام اقسام کے لیے عام استعمال ہوتا ہے۔ مولانا احسن اصلاحی نے " قثاء "سے مراد ککڑی اور کھیرا مردا لیا ہے۔ جبکہ "بقل " سے ہر قسم کی سبزیاں مراد لی ہیں۔

علامہ راغب اصفہانیؒ لکھتے ہیں:

"البَقْلُ: ما لا ينبت أصله وفرعه في الشتاء"[145]

امام راغب کے مطابق ہر وہ نبات جو سردیوں میں زمین میں اگتی ہو، "البقل" یعنی ککڑی کہلاتی ہے۔

امام زمخشری ؒ ررقمطراز ہیں:

"والبقل ما أنبتته الأرض من الخضر"[146]

امام زمخشری ؒ فرماتے ہیں کہ "بقل" ہر وہ سبزی یا نباتات ہے جو زمین میں اگتی ہے۔ ترکاری کا مزاج دوسرے درجے میں سرد اور مرطوب ہے جبکہ ترکاری معدے کی حرارت کو اعتدال پر لاتی ہے اور اس میں معدے کے لئے منفی اثرات نہیں پائے جاتے۔ درحقیقت یہ معدہ کے لئے مفید نباتا تی وسیلہ ہے۔

5-انجیر (Fig)

Magnololiophyta

4-Division

Ficus Carica Linn

1-Botanical Name

Magnoliopsida

5-Class

Fig

2-English Name

Moraceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

" وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ"[147]

" قسم ہے انجیر اور زیتون کی۔ "

انجیر کے درخت کی چھال، پتے اور دودھ ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔ جدیدعلم نباتات کی رو سے انجیر کا جس تخلیقی خاندان سے تعلق ہے اسی کنبہ سے بڑ، پیپل اور گوہلر بھی اسی نباتاتی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، ان میں سے ہر ایک میڈیکل سائنس کی دنیا میں خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ عام طور پر اس کی دو معروف اقسا م ہیں۔ بستانی انجیر جس کی لوگ کاشت کاری کرتے ہیں جبکہ دوسری قسم کو خود رو جنگلی انجیر کہا جاتا ہے۔ جنگلی انجیر اتنی زیادہ لذیذ اور مزیدار نہیں ہوتی۔ کاشتکاروں نے تجربہ و تحقیق سے لذیذ، مزیدار اور ذائقہ دار بستانی انجیرکی کئی انواع و اقسام پیدا کر لی ہیں۔ انجیر ایسا درخت ہےجو پھلتا ہے لیکن پھولتا نہیں۔ بہتر انجیر وہ ہوتا ہے جس کا چھلکا سفید ہو تا ہے۔ بلغم، کھانسی، تلی کی سوزش، سینے کے درد، مرگی، فالج، دمہ اور کئی دوسری امرا ض میں اس کا استعمال نافع و مفید ہے۔

ارشاد نبویﷺہے:

"عَن أَبِي ذر قال: أهدي إلى رسول الله صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم طبق من تين فقال لأصحابه كلوا فلو قلت: إن فاكهة الجنة بلا عجم وقال النبي صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم إنه يذهب بالبواسير وينفع من النقرس"[148]

پاکستان میں بلوچستان میں اس کے درخت پائے جاتے ہیں۔ انجیر میں ادویاتی تاثیر کے علاوہ غذائیت بھی پائی جاتی ہے۔ پختہ اور خشک انجیر بطور میوہ تمام دنیا میں مستعمل ہے۔ انجیر کے استعمال اور فوائد کافی زیادہ ہیں۔ [149]انجیر سخت گرم پھل ہے۔ اس کے خشک اور مرطوب ہونے کے بارے میں اطباء مختلف رائے رکھتے ہیں۔ یہ گردے اور مثانے کی پتھری کو ختم کر دیتی ہے اور انسان کو زہر کے اثرات سے محفوظ کرتی ہے۔ یہ تمام پھلوں میں سے اچھی غذا ہے۔ سینے اور گلے کی خشکی کو رفع کرتی ہےَ۔

امام ابن قیم انجیر کے خواص یوں بیان کرتے ہیں:

"وَهُوَ حَارٌّ، وَفِي رُطُوبَتِهِ وَيُبُوسَتِهِ قَوْلَانِ، وَأَجْوَدُهُ: الْأَبْيَضُ النَّاضِجُ الْقِشْرِ، يَجْلُو رَمْلَ الْكُلَى وَالْمَثَانَةِ، ويؤمن من السموم، وهو أغذى من جيمع الْفَوَاكِهِ وَيَنْفَعُ خُشُونَةَ الْحَلْقِ وَالصَّدْرِ"[150]

انجیر میں پروٹین، نشاستہ، سوڈیم، کیلشیم، منگنیشم، فولاد، تانبا، فاسفورس، گندھک اور کلورین پائی جاتی ہے۔ یہ بہت سے امراض میں مفید و نافع ہے۔ قبض، چیچک، دمہ، جوڑوں کے درد، کھانسی میں مفید ہے۔ بلڈ پریشر، بواسیر، خون کی کمی، پھیپھڑوں کی سوزش، گردےکی پتھری اور گردے کی تکلیف میں فائد ہ اس استعمال نفع دیتا ہے۔ [151]

6-کدو (Bottle Gourd)

Magnololiophyta

4-Division

Lagenaria Siceraria

1-Botanical Name

Magnoliopsida

5-Class

Bottle Gourd

2-English Name

Cocurbitaceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَاَنْۢبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّنْ يَّقْطِيْنٍ"[152]

" اور (ان کی حفاظت کے لیے) ہم نے اگا دی ان پر کدّو کی بیل۔ " (ضیاء القرآن)

کدو عربی میں یقطین اور دباء کہلاتاہے۔ احادیث میں کدو کا ذکر آیا ہے۔ آپ ﷺ کدو کھانا پسند کرتے تھے۔

امام الانبیا ء کا فرمان:

"قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَائِشَةُ، إِذَا طَبَخْتُمْ قِدْرًا، فَأَكْثِرُوا فِيهَا مِنَ الدُّبَّاءِ، فَإِنَّهُ يَشُدُّ قَلْبَ الْحَزِينِ"[153]

کدو غمگین دلوں کے لئے انتہائی مفید و نافع ہے۔ ہانڈی میں اکثر و بیشتر استعمال کرنا روحانی و قلبی تسکین کا باعث ہے۔

 ڈاکٹرعبدالرحیم رقمطراز ہیں:

“An annual cultivated pubescent herb with stout 5 angled stem and bifid tendrils.”[154]

امام ابن قیم ؒ رقم طراز ہیں:

"وَهُوَ لَطِيفٌ مَائِيٌّ يَغْذُو غِذَاءً رَطْبًا بَلْغَمِيًّا، وَيَنْفَعُ الْمَحْرُورِينَ، وَلَا يُلَائِمُ الْمَبْرُودِينَ، وَمَنِ الْغَالِبُ عَلَيْهِمُ الْبَلْغَمُ، وَمَاؤُهُ يَقْطَعُ الْعَطَشَ، وَيُذْهِبُ الصُّدَاعَ الْحَارَّ إِذَا شُرِبَ أَوْ غُسِلَ بِهِ الرَّأْسُ"[155]

مذکورہ عبارت کا حاصل یہ ہے کہ کدو میں لطیف پانی پایا جاتا ہے، اس سے بلغمی غذا مہیا ہوتی ہے۔ گرم مزاج لوگوں کے لئے نافع و مفید ہےجبکہ سرد اور بلغمی مزاج لوگوں کے لئے اس کا استعمال مناسب نہیں ہے۔ سرد رد کے لئے اس کا پانی نافع ہے۔ گرم مزاج لوگوں کے لئے کدو کا استعمال تحفہ سے کم نہیں۔

7-مسور (Lentil)

Magnololiophyta

4-Division

Lens Culinaris M.

1-Botanical Name

Fabales

5-Class

Lentil

2-English Name

Fabaceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَقِثَّاۗىِٕهَا وَفُوْمِهَا وَعَدَسِهَا "[156]

" آپ دعا کیجئے ہمارے لئے اپنے پروردگار سے کہنکالے ہمارے لئے وہ جن کو زمین اگاتی ہے (مثلاً) ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور۔ "

امام ابن قیم ؒ لکھتے ہیں:

"وَهُوَ قَرِينُ الثُّومِ وَالْبَصَلِ فِي الذِّكْرِ. وَطَبْعُهُ طَبْعُ الْمُؤَنَّثِ، بَارِدٌ يابس، وفيه قوتان متضادتان. إحداهما: يعقلالطَّبِيعَةَ. وَالْأُخْرَى: يُطْلِقُهَا، وَقِشْرُهُ حَارٌّ يَابِسٌ فِي الثَّالِثَةِ، حِرِّيفٌ مُطْلِقٌ لِلْبَطْنِ، وَتِرْيَاقُهُ فِي قِشْرِهِ، وَلِهَذَا كَانَ صِحَاحُهُ أَنْفَعَ مِنْ مَطْحُونِهِ، وَأَخَفَّ عَلَى الْمَعِدَةِ، وَأَقَلَّ ضَرَرًا، فَإِنَّ لُبَّهُ بَطِيءُ الْهَضْمِ لِبُرُودَتِهِ وَيُبُوسَتِهِ"[157]

مذکورہ بالا عبارت کا حاصل یہ ہے کہ مسورکی دال لہسن اور پیاز وں کی ساتھی ہے۔ اس کا مزاج سرد اور خشک ہے اور اس میں دو متضاد قوتیں ہیں۔ ایک یہ کہ یہ طبیعت کو بند کرتی ہے اور دوسری یہ اسے کھولتی بھی ہے۔ اس کا چھلکا گرم اور خشک ہوتا ہے۔ اور یہ دال کے نقصانات کو دور کرتا ہے۔

اس لئے ثابت مسور، مسور کی دال سے زیادہ مفید و نافع ہوتے ہیں اور معدے میں بوجھ پیدانہیں کرتے اورکم نقصان دہ ہیں جبکہ چھلکے کے بغیر دال دیر سے ہضم ہوتی ہے کیونکہ اس کا مزاج سرد اور خشک ہوتا ہے۔

8-کیلا (Banana)

Magnololiophyta

4-Division

Musa paradisiace

1-Botanical Name

Lilopsida

5-Class

Banana

2-English Name

Musaceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ"[158]

" اور تہ بہ تہ چڑھے ہوئے کیلوں "

امام ابن قیم ؒکیلے کے خواص بیان کرتے ہیں:

"وَهُوَ حَارٌّ رَطْبٌ، أَجْوَدُهُ النَّضِيجُ الْحُلْوُ، يَنْفَعُ مِنْ خُشُونَةِ الصَّدْرِ وَالرِّئَةِ وَالسُّعَالِ، وَقُرُوحِ الْكُلْيَتَيْنِ، وَالْمَثَانَةِ، وَيُدِرُّ الْبَوْلَ، وَيَزِيدُ فِي الْمَنِيِّ، وَيُحَرِّكُ الشَّهْوَةَ لِلْجِمَاعِ، وَيُلَيِّنُ الْبَطْنَ"[159]

امام ابن قیم ؒ کی مذکورہ بالا عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ کیلے کا مزاج گرم اور مرطوب ہے۔ پکا ہوا اور میٹھا بہت عمدہ پھل ہوتا ہے۔ یہ سینے اور پھیپھڑے کی سختی کو ختم کرتا ہے۔ یہ کھانسی، گردوں اور مثانہ کے زخموں کے لئے مفید و نافع دوا کا کام کرتا ہے۔ پیشاب لاتا ہے اور مردکے مادہ منویہ میں اضافہ کرتا ہے۔ مردانہ شہوت کو ابھارتا ہے اور پیٹ میں نرمی پیدا کرتا ہے۔

9-زیتون (Olive)

Magnololiophyta

4-Division

Olea europea L.

1-Botanical Name

Magnoliopsida

5-Class

Olive

2-English Name

Oleaceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا ۚ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ ۙ وَّجَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّالزَّيْتُوْنَ "[160]

" ان سے تہ بر تہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کے گچھے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں، اور انگور، زیتون۔ "

زیتون کو عربی زبان میں "الزیتون" اور زیتون کے تیل کو "الزیت" کہا جاتا ہے۔ زیتون انتہائی اہمیت کا حامل نباتاتی وسیلہ ہے۔

ارشادِ نبوی ؐہے:

"كُلُوا الزَّيْتَ وَادَّهِنُوا بِهِ، فَإِنَّهُ مُبَارَكٌ"[161]

 ثابت ہوتا ہےکہ زیتون کا تیل کھانا چاہئے اور اپنے سرمیں بھی لگانا چاہئےکیونکہ اس کا درخت بہت با برکت ہے۔

ابن سینا نے القانون فی الطب میں لکھا ہے:

"وَالزَّيْت المغسول يُوَافق أوجاع العصب وعرق النسا وزيت الْعَتِيق ينفع للمنقرسين "[162]

زیتون کی تیل کا مساج کرنے سے اعصاب مضبوط ہوتے ہیں۔ زیتون کئی طبی مسائل میں فائدہ مند ہے۔

امام ابن قیمؒ رقمطراز ہیں:

"الزَّيْتُ حَارٌّ رَطْبٌ فِي الْأُولَىوَمَا اسْتُخْرِجَ مِنْهُ بِالْمَاءِ، فَهُوَ أَقَلُّ حَرَارَةً، وَأَلْطَفُ وَأَبْلَغُ فِي النَّفْعِ، وَجَمِيعُ أَصْنَافِهِ مُلَيِّنَةٌ للبشرة، وتبطىء الشيب. وماء الزيتون المالح يمنع من تنقّط حَرْقِ النَّارِ، وَيَشُدُّ اللِّثَةَ، وَوَرَقُهُ يَنْفَعُ مِنَالْحُمْرَةِ، وَالنَّمْلَةِ، وَالْقُرُوحِ الْوَسِخَةِ، وَالشِّرَى، وَيَمْنَعُ الْعَرَقَ، ومنافعه أضعاف"[163]

زیتون کا تیل پہلے درجے میں گرم مرطو ب ہوتا ہے اور جو تیل پانی کے ذریعے نکالا جائے، اس میں حرارت کم ہو جاتی ہے اور یہ زیادہ لطیف ہوتا ہے، اس لئے یہ بدن کے لئے زیادہ مفید ہے۔ زیتون کے تیل کی تمام قسمیں انسان کی جلد کو نرم کرتی ہیں اور بڑھاپا روکتی ہیں۔ جلی ہوئی جگہ پرزیتون کےپھل کے نمک والا ملاکر لگایا جائے تو متاثرہ جگہ پر آبلے نہیں بننے دیتا۔ یہ مسوڑھوں کو مضبوط کرتا ہے اور اس درخت کے پتے ہر قسم کے پھوڑوں، پھنسیوں کے علاج کے لئے نافع ہیں۔ یہ پسینے کو روکتا ہےاور یہ کافی فوائد کا حامل ہے۔

زیتون کا تیل پانی میں حل نہیں ہوتا۔ زیتون کی لکڑی جلانے سے اس سے تیل خارج ہوتا ہے۔ زیتون کا بالوں کو گرنے سے روکتا ہے۔ زیتون کے تیل کی مالش سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔ فالج اور مرگی میں اس کی مالش مفید ہے۔ گردہ اور پتہ کی سوزش و پتھری کے لئے مفید ہے۔ جاپانی ماہرین کے مطابق زیتون کا تیل پینے سے آنتوں اور معدہ کے سرطان ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ سانس کی ہر بیماری مثلاً زکام، دمہ، نمونیہ وغیرہ میں فائدہ دیتا ہے۔ [164]

10-انار (Pomegrenate)

Magnololiophyta

4-Division

Punica granatum

1-Botanical Name

Magnoliopsida

5-Class

Pomegrenate

2-English Name

Punicaceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"فِيْهِمَا فَاكِهَةٌ وَّنَخْلٌ وَّرُمَّانٌ"[165]

" ان میں بکثرت پھل اور کھجوریں اور انار۔ "

انار ایک جھاڑی نما چھوٹا درخت ہے۔ جس کی بلندی 6 تا 10 میٹر ہوتی ہے۔ درخت کی چھال ملائم اور گہرے خاکستری رنگ کی ہوتی۔ ۔ عموماً اس پر کانٹے نہیں ہوتے لیکن کبھی کبھار شاخیں کسی حد تک کانٹے دار ہوتی ہیں۔ انار کا پھل گو ل ہوتا ہے، جس کا قطر 5 تا 10 سینٹی میٹر ہوتا ہے۔ پھول میں بہت ہی نرم و نازک پنکھڑیاں ہوتی ہیں، جن کا رنگ شوخ سرخ ہوتا ہے۔ یہی پھول گلنار کے نام سے ادویات میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ انار کے بیج پر سرخ یاقوتی رنگ کا گودا چڑھا ہوتا ہے۔ ذائقے کے لحاظ سے انار کی تین اقسام ہیں، ترش، میخوش اور شیریں۔ دنیا بھر میں انارکی دو انواع اور ہر نوع کی بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں۔ ان میں ایک قسم ایسی بھی ہے جسے پھل نہیں لگتا اور اسی کے کثیر پنکھڑیوں والے شوخ سرخ رنگ کے پھول گلنار کے نام سے طب میں مستعمل ہیں۔

ابو نعیم اصفہانی ؒ اپنی تالیف "طب نبویﷺ" میں روایت نقل کرتے ہیں:

" ما من رمانة من رمانكم هذا إلا وهي تلقح بحبة من رمان الجنة."[166]

حضرت ابن عباسؓ کی مذکورہ روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں انار کے پھل کا بیج جنت سے لایا گیا۔انار کا استعمال دل اور جگر کو تقویت دیتا ہے۔ یرقان، تلی، سینہ درد اور کھانسی کے لئے مفید ہے۔ صالح خون پیدا کرتا ہے۔ اس کا تازہ رس ٹھنڈا اور تسکین دیتا ہے۔ اس سے بھوک زیادہ لگتی ہے۔

ابن سینا انار کی افادیت بیان کرتے ہیں:

" حب الرُّمَّان فِي مَاء الْمَطَر نفع من نفث الدَّم وينفع جَمِيعه من الخففان ويجلو الْفُؤَاد"[167]

ارشاد نبویﷺہے:

" كُلُوا الرُّمَّانَ بِشَحْمِهِ فَإِنَّهُ دِبَاغُ الْمَعِدَةِ "[168]

انار کا پھل اس کے گودے سے کھاؤ کیونکہ یہ معدے کو صاف کرتا ہے۔

امام ابن قیم لکھتے ہیں:

"حُلْوُ الرُّمَّانِ حَارٌّ رَطْبٌ، جَيِّدٌ لِلْمَعِدَةِ، مُقَوٍّ لَهَا بِمَا فِيهِ مِنْ قَبْضٍ لَطِيفٍ، نَافِعٌ لِلْحَلْقِ والصدر والرئة، جيد للسعال، وماؤه ملين للبطن، يغذي الْبَدَنَ غِذَاءً فَاضِلًا يَسِيرًا"[169]

 مذکورہ بالا عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ میٹھے انار کا مزاج گرم مرطوب ہوتا ہے۔ یہ معدے کے لئے نہایت عمدہ خوراک ہے۔ اسے استعمال کرنے معمولی قبض پیدا ہوتی ہے۔ گلے، سینے اور پھیپھڑوں کے لئے نافع پھل ہے۔ کھانسی کے لئے نہایت عمدہ ہے۔ اس کا پانی پیٹ نرم کر دیتا ہے، یہ جسم کو آسانی سے توانائی مہیا کرتا ہے۔

انار کے خوراکی حصہ میں نمی، لحمیات، چکنائی، ریشے، نشاستے اور معدنی اجزاء پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں مختلف قسم کے حیاتین اور ترشے بھی پائے جاتے ہیں۔ وٹامن سی پختہ پھل میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ معدنیات میں سے کیلسیم، میگنیشم، فاسفورس، فولاد گندھک اور کلورین کے اجزاء اس میں پائے جاتے ہیں۔ [170]پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان انار ایک اہم فصل ہے۔ جبکہ ہمالیہ کی ترائیوں میں جنگلی انار کےدرخت خود رو ہیں۔

ڈاکٹر عبدالرحیم انار کے فوائد بیان کرتے ہیں:

“The decoction of the fruit rind is useful for relaxed gums, uterus, mucous discharge and leucorrhoea. The infusion of bark and rind of fruit is useful for inflammations of throat” [171]

مذکورہ عبارت سے انار کی طبی افادیت و فافعیت ثابت ہوتی ہے۔ کئی امراض میں انار کے پھل سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

11-انگور (Grapes)

Magnololiophyta

4-Division

Vitis vinifera Dunal.

1-Botanical Name

Magnoliopsida

5-Class

Grapes

2-English Name

Punicaceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشادباری تعالیٰ ہے:

"وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ"[172]

"اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خِطّے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں۔ انگور کے باغ

ہیں۔ "

انگور کھانا اللہ تعالیٰ کے بنی ؐ کو بہت پسند تھا۔ قرآن مجید میں انگور کا تذکرہ چھ مرتبہ کیا گیا ہے۔ انگور، تازہ کھجور اور انجیر ان پھلوں میں سے ہیں جو پھلوں کے بادشاہ کہلاتے ہیں۔

ابو نعیم اصفہانی ؒ نے اپنی تالیف میں حدیث نقل کی ہے:

" أن النبي صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم كان يحب من الفاكهة العنب والبطيخ"[173]

انگور کی بہت سی اقسام دنیا بھر میں اگائی جاتی ہیں۔ جن میں زیادہ تر سبزی مائل زرد، سرخ اور سیاہ اقسام ہیں۔ انگو ر کا پھل دانہ دار، بے دانہ، گول یا لمبوترہ ہوتا ہے۔ انگور ایک بیل کا پھل ہے، بیل کی پھولداری گچھا نما ہوتی ہے۔ انگوروں کو مختلف مقاصد کے لئے مختلف حالتوں میں توڑ لیا جاتا ہے۔ مثلاً سرکہ بنانے کےلئے نیم پختہ، شراب کشید کرنے کے لئے پختہ اور کشمش بنانے کے لئے بیل پر ہی خشک کئے جاتے ہیں۔ [174]انگور میں شوگر زیادہ اور حیاتین کم مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ حیاتین میں بی اور سی زیادہ ہوتے ہیں۔ انگوروں میں نباتی تیزاب مختلف ترشوں کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔ جن میں سے 90 فیصد ٹارٹرک ایسڈ اور میلک ایسڈ ہوتے ہیں۔ ان میں لحمیات، خوشبو دار مادے، معدنیات میں سے کیلسیم، فاسفورس، فولاد پائے جاتے ہیں۔

Peter B. Kaufmanلکھتے ہیں:

“The cultivation of grapes for wine making began in Armenia about 3000 years ago. The wonders of this beverage soon spread. The Greeks showed their admiration for wine by creating a god, Dionysus, in its honor. The Romans later spread their wine-making knowledge throughout their conquered European lands.”[175]

امام ابن قیم ؒ رقمطراز ہیں:

"جُمْلَةِ نِعَمِهِ الَّتِي أَنْعَمَ بِهَا عَلَى عِبَادِهِ فِي هَذِهِ الدَّارِ وَفِي الْجَنَّةِ، وَهُوَ مِنْ أَفْضَلِ الْفَوَاكِهِ وَأَكْثَرِهَا مَنَافِعَ، وَهُوَ يُؤْكَلُ رَطْبًا وَيَابِسًا، وَأَخْضَرَ وَيَانِعًا، وَهُوَ فَاكِهَةٌ مَعَ الْفَوَاكِهِ، وَقُوتٌ مَعَ الْأَقْوَاتِ، وَأُدْمٌ مَعَ الْإِدَامِ، وَدَوَاءٌ مَعَ الْأَدْوِيَةِ، وَشَرَابٌ مَعَ الْأَشْرِبَةِ، وَطَبْعُهُ طَبْعُ الْحَبَّاتِ الْحَرَارَةُ وَالرُّطُوبَةُ"[176]

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اور جنت میں اپنے بندوں جو نعمتیں عطا کی ہیں ان میں یہ اٖفضل ترین پھل ہے۔ اور دوسرے پھلوں سے زیادہ نافع ہے۔ پکا ہوا انگور کھایا جاتا ہے جبکہ اسے خشک کرکے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ انگور جب پکنے والا ہو اور سبز ہو تب بھی مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ پھل کا پھل ہے اور قوت کا خزانہ ہے۔ یہ سالن، دوائی اور شربت ہے۔ اس کا مزاج گرم مرطوب ہے۔

12-بیری (Jujub)

Magnololiophyta

4-Division

Zizyphus Muaritiana L

1-Botanical Name

Magnoliopsida

5-Class

Jujub

2-English Name

Ziziphus Mill

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَبَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَىْ اُكُلٍ خَمْطٍ وَّاَثْلٍ وَّشَيْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِيْلٍ "[177]

"اور ان کے پچھلے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ انہیں دیے جن میں کڑوے کسیلے پھل اور جھاؤ کے درخت تھے اور کچھ تھوڑی سی بیریاں۔ "

امام نعیم اصفہانی ؒ رقمطراز ہیں:

" عَن ابن عباس قال: لما أهبط آدم عليه السلام إلى الأرض كان أول شيء أكل من ثمارها النبق"[178]

 حضرت آدم ؑ کرہ ارض پر اتارے گئے تو انہوں نے سب سے پہلے بیری کا پھل کھایا۔

صیح بخاری میں ہے:

" ثُمَّ ذَهَبَ بِي إِلَى السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَإِذَا وَرَقُهَا كَآذَانِ الْفِيَلَةِ، وَإِذَا ثَمَرُهَا كَالْقِلَالِ"[179]

 معراج والی آپﷺ نے عرش الہی کے قریب سدرۃ المنتہیٰ کو دیکھا، اس کا پھل یعنی بیر مٹکوں کے برابر تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی مانند تھے۔ تازہ بیر سر د مرطوب مزاج رکھتے ہیں جبکہ خشک بیر سرد اور خشک مزاج والے ہوتے ہیں۔ بیری کے پھل کااستعمال جسم کو غذا مہیا کرتا ہے اور معدے کی صفائی کرتا ہے۔

13-ادرک (Ginger)

Magnololiophyta

4-Division

Zingibar Officenal R

1-Botanical Name

Lilliopsida

5-Class

Ginger

2-English Name

Zingiberaceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَيُسْقَوْنَ فِيْهَا كَاْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيْلًا"[180]

" اور انہیں پلائے جائیں گے وہاں (ایسی شراب کے) جام جس میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی۔ "

ادرک نباتی پودے کا زیر زمین گانٹھ دار پھولا ہوا تنا ہے۔ پودے کا زیر زمین پھولا ہوا تنا پھولوں کے خشک ہو جانے اور پتوں کے مرجھا جانے پر کھود کر نکالا جاتا ہے، یہی ادرک ہے۔ سالن میں زیادہ تر تازہ ادرک اور ادویات میں خشک کردہ مستعمل ہے، جو زنجبیل کہلاتی ہیں۔

دنیا بھر میں استوائی اور نیم استوائی علاقوں میں ادرک کاشت کی جاتی ہے، وافر پانی اور زرخیز زمین اس کی فصل کے لئے ضروری ہیں۔ پاکستان میں ادرک کی کاشت زیادہ تر صوبہ سندھ اور پنجاب میں کی جاتی ہے۔ یہ ہندوستان کے تقریباً تمام علاقوں میں کاشت کی جاتی ہے۔ ادرک حافظہ کو تیز کرتی اورہاضمہ اور معدہ کو قوت دیتی ہے اور بلغم کو چھانٹ دیتی ہے۔ گردہ کی پتھری کے اخراج کے لئے مفید ہے۔ ادرک میں پروٹین، چکنائی، ریشے، نشاستے اور معدنیات پائی جاتی ہیں۔ معدنیات میں سے کیلسیم، فاسفورس، لوہا اور ادرک پائی جاتی ہے۔ حیاتین کی بھی کچھ مقدار ادرک میں پائی جاتی ہے۔ [181]

ابو سعید خدریؓ کی روایت ہے:

"أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: أَهْدَى مَلِكُ الرُّومِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدَايَا، وَكَانَ فِيمَا أَهْدَى إِلَيْهِ جَرَّةٌ فِيهَا زَنْجَبِيلٌ، فَأَطْعَمَ كُلَّ إِنْسَانٍ قِطْعَةً، وَأَطْعَمَنِي قِطْعَةً"[182]

نبی پاک ﷺکی خدمت اقدس میں روم کے بادشاہ نے تحائف بھیجے جن میں سے ادرک بھی تھا تو آپ ﷺ نے محفل میں موجود تمام ساتھیوں کو اس کا ایک ایک حصہ کھلایا اورمجھے بھی ایک ٹکڑا کھلایا۔

امام ابن قیم ؒادرک کے خواص بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"الزَّنْجَبِيلُ حَارٌّ فِي الثَّانِيَةِ، رَطْبٌ فِي الْأُولَى، مُسْخِنٌ مُعِينٌ عَلَى هَضْمِ الطَّعَامِ، مُلَيِّنٌ لِلْبَطْنِ تَلْيِينًا مُعْتَدِلًا، نَافِعٌ مِنْ سُدَدِ الْكَبِدِ الْعَارِضَةِ عَنِ الْبَرْدِ وَالرُّطُوبَةِ، وَمِنْ ظُلْمَةِ الْبَصَرِ الْحَادِثَةِ عَنِ الرُّطُوبَةِ أَكْلًا وَاكْتِحَالًا، مُعِينٌ عَلَى الْجِمَاعِ، وَهُوَ مُحَلِّلٌ لِلرِّيَاحِ الْغَلِيظَةِ الْحَادِثَةِ فِي الْأَمْعَاءِ وَالْمَعِدَةِ"[183]

ادرک کا مزاج دوسرے درجےمیں گرم اور پہلے درجے میں مرطوب ہوتا ہے۔ بدن کو گرم اور خوراک ہضم کرنے میں معاون ہوتا ہے، پیٹ کو میانہ روی سے نرم کرتا ہے۔ رطوبتوں کی وجہ سے ہونے والی نظر کی کمزوری میں فائدہ مند ہے، چاہے اسےکھانے کے طور پر استعمال کیا جائےیا سرمے کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یہ مردانہ قوت میں اضافہ کرتا ہے۔ معدے اور انتڑیوں میں پیدا ہونے آلودہ گیس کو بدن سے خارج کرتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالرحیم ادرک کے طبی فوائد بیان کرتے ہیں:

“It is useful in digestive system, piles, rheumatism and checks nausea and griping. Ginger boiled with tea checks cold and influenza. It promotes appetite and is good for flatulence, colic and indigestion, externally, the ginger made into paste is applied in headache and toothache.”[184]

 مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ ادرک طبی اعتبار سےبہت نافع ہے۔ یہ نظام انہضام کے لئے مفید و معاون ہے۔ ادرک سر درد اور دانت کے درد کے لئے مفید ٹانک ہے۔ یہ سردی اور انفلوئنزہ کی مرض میں مفید ہے۔ اس کے استعمال سے بھوک بڑھتی ہے۔

14-(ریحان) Basil

Magnoliophyta

4-Division

Ocimum basilicum L.

1-Botanical Name

Magnoliopsida

5-Class

Basil

2-English Name

Lamiaceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ"[185]

"اور اناج بھی بھوسہ والا اورخوشبو دار پھول۔ " (ضیاء القرآن)

عربی زبان میں ریحان خوشبو اور خوشبو دار پودوں (دونوں) کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ریحان کا تعلق خوشبو دار پودوں کی جنس سے ہے۔ برصغیر میں اس کی بہت سی اقسام و انواع پائی جاتی ہیں۔ ریحان 30 تا 90 سینٹی میٹر بلند کھڑا نباتاتی پودا ہے۔ جس کے پتے نرم، ملائم اور عدسہ نما نوکیلے ہوتے ہیں۔ پورے پاکستان میں گھروں اور قبرستانوں میں عام لگایا جاتا ہے۔ [186]

امام ابن قیم ؒ رقمطراز ہیں:

"الرَّيْحَانُ كُلُّ نَبْتٍ طَيِّبِ الرِّيحِ، فَكُلُّ أَهْلِ بَلَدٍ يَخُصُّونَهُ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ، فَأَهْلُ الْغَرْبِ يَخُصُّونَهُ بِالْآسِ، وَهُوَ الَّذِي يَعْرِفُهُ الْعَرَبُ مِنَ الرَّيْحَانِ، وَأَهْلُ الْعِرَاقِ وَالشَّامِ يخصّونه بالحبق"[187]

ریحان ہر اس پودے کو کہا جاتا ہے جس کی خوشبو پاکیزہ ہو۔ اس لئے ہر علاقے میں مختلف پودے ریحان کہلاتے ہیں۔عرب اس کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہیں۔ اہل مغرب "آس" کے پودے کو ریحان کا نام دیتے ہیں۔ اہل عراق اور اہل شام "حبق" نامی پودے کو ریحان کا نام سے پکارتے ہیں۔

ارشاد ِ نبویﷺ ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ عُرِضَ عَلَيْهِ رَيْحَانٌ فَلَا يَرُدُّهُ، فَإِنَّهُ خَفِيفُ الْمَحْمِلِ طَيِّبُ الرِّيحِ"[188]

 جس شخص کو ریحان کا تحفہ پیش کیا جائے، وہ اس کا انکار نہ کرے کیونکہ یہ پکڑنے میں ہلکا ہے اور اس کی خوشبو طیب و پاکیزہ ہے۔

ڈاکٹر عبدالرحیم بیان کرتے ہیں:

“The flowers are carminative, diuretic and stimulant. The seeds are mucilaginous and are given to cure gonorrhea, dysentery and chronic diarrhea.”[189]

مذکورہ بالا عبارت سے ریحان کی میڈیکل اعتبار سے اہمیت و افادیت واضح ہوتی ہے۔

15-کھنبی (Manna)

Magnoliophyta

4-Division

Eucealyptus viminalis

1-Botanical Name

Magnoliopsida

5-Class

Manna

2-English Name

Myrtaceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشاد ِ باری تعالی ٰ ہے:

"وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى"[190]

" ہم نے تم پر اکابر کا سایہ کیا، من وسلویٰ کی غذا تمہارے لیے فراہم کی۔ "

ارشاد نبویؐ ہے:

" عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الكَمْأَةُ مِنَ المَنِّ، وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ"[191]

من کے لفظی معنی احسان کے ہیں۔ من کے حصول کے لئے بنی اسرائیل کو محنت نہیں کرنا پڑتی تھی۔ کھنبی صحرائے سینا میں کثیر مقدار میں پیدا ہوئی جو یہودیوں کے لئے روٹی کاکام دیتی تھی۔ من کئی نباتات پر مشتمل تھی جو کھیتی باڑی کے بغیر کھیتوں کے پیدا ہوتی ہے، کھنبی بھی ان خود رو نباتا ت میں سے ایک تھی۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ من ایک کھانا تھا جو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بنی اسرائیل کے لئے نازل کیاتھا جو کھنبی کے مشابہ تھا۔ اسے اگانے کے لئے کوئی مشقت درکار نہ تھی۔

ابو نعیم اصفہانی ؒ اپنی معرو ف تالیف " طب نبوی ؐ " میں روایت نقل کرتےہیں:

" عَن أَبِي هُرَيرة، قال: قال رسول الله صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم: الكمأة من المن وماؤها شفاء للعين والعجوة من الجنة وهي شفاء من السم"[192]

امام ابن قیم ؒ لکھتے ہیں:

" أَنَّ الْمَنَّ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ لَمْ يَكُنْ هَذَا الْحُلْوَ فَقَطْ، بَلْ أَشْيَاءَ كَثِيرَةً مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ بِهَا مِنَ النَّبَاتِ الَّذِي يُوجَدُ عَفْوًا مِنْ غَيْرِ صَنْعَةٍ وَلَا عِلَاجٍ وَلَا حَرْثٍوَالْقَوْلُ الثَّانِي: أَنَّهُ شَبَّهَ الْكَمْأَةَ بِالْمَنِّ الْمُنَزَّلِ مِنَ السَّمَاءِ، لِأَنَّهُ يُجْمَعُ مِنْ غَيْرِ تَعَبٍ وَلَا كُلْفَةٍ وَلَا زَرْعِ بِزْرٍ وَلَا سَقْيٍ"[193]

من(Manna) مختلف نباتا ت کا مجموعہ تھا، جن میں سےایک کھنبی بھی تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نباتات آسمان سے اتارا گیا کھاناتھا جو کھنبی کے مشابہ تھا جسے کھیتوں میں اگانے کے لئے کسی کاشت یا پانی وغیرہ کی ضرورت نہ تھی۔ کھنبی بہت شان و عظمت رکھنے والی نباتات میں سے ایک ہے۔ سوال پیداہوتا ہے کہ دورِ حاضر میں کھنبی معد ہ کے لئے نقصان دہ کیوں ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کھنبی یا دوسری نباتات کی اصل حالت لوگوں کے گناہوں کے باعث مسخ ہوگئی ہے۔

16-تھوہر (Euphorbia)

Magnoliophyta

4-Division

Euphorbia resinifera

1-Botanical Name

Magnoliopsida

5-Class

Euphorbia

2-English Name

Euphorbiaceae

6-Family

Plantae

3-Kingdom

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" اَذٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ"[194]

" بولو، یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کا درخت ؟ "

زقوم ایک درخت ہے جو جزیرہ عرب کے علاقہ تہامہ میں پایا جاتا ہے۔ یہ بعض دوسرے بنجر اور صحرائی خطوں میں بھی ہوتا ہے۔ ہندوستان میں اسے ناگ پھن کے نام سے مشہور ہے۔ اور بعض اہل علم نے اسی کو زقوم کہا ہے جبکہ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ دوزخ کا زقوم بالکل الگ درخت ہے اس کا کرہ ارض کے زقوم کے درخت سے کوئیواسطہ نہیں کیونکہ دوزخ کا زقوم اس قدر کڑوا اور بدمزہ ہے کہ اہل جہنم کے گلے میں اٹک کر رہ جائے گا۔ قرآن پاک کی آیت میں زقوم کو شجر ملعونہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے:

"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء: 60] قَالَ: هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ، أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ المَقْدِسِ، قَالَ: {وَالشَّجَرَةَ المَلْعُونَةَ فِي القُرْآنِ} [الإسراء: 60]، قَالَ: هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ"[195]

حضر ت عبداللہ بن عباسؓ کی مذکورہ روایت کے مطابق قرآن میں شجر ملعونہ سے مراد تھوہر یعنی زقوم کا درخت ہے۔

 نباتات کا تحفظ

نباتاتی وسائل کا تحفظ انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ انسانی و حیوانی حیات کی حیات و بقا کا انحصار نباتاتی وسائل کی بقا پر ہے۔ کرہ ارض پر پائی جانے والی تما م اشیاء کی بقا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ سبز پتوں والے پودے اور درخت توانائی حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہیں۔ ایک کیمیائی عمل سے نباتات سورج کی روشنی کو ایسے حیاتیاتی مادوں میں تبدیل کر دیتے ہیں جو لکڑی کے کوئلے، زرعی فضلے یا جانوروں کے گوبر کی صورت میں جلانے کے کام آتا ہے۔ توانائی کا یہ ابتدائی ذریعہ دنیا بھر کی نصف آبادی یعنی ترقی پذیر ملکوں کے 25 بلین لوگ استعمال کرتے ہیں۔ [196] اقوام ِ متحدہ کے جائزے کے مطابق ہر سال تقریباً 13000 ملین ہیکٹر رقبے پر پھیلے جنگلات کا صفایا ہو رہاہے۔ سائنسدانوں کے مطابق دورِ حاضر کا سب سے بڑا خطرہ تیزی سے جنگلات کا خاتمہ ہے۔

حکومتی اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا رقبہ پانچ فیصد ہے۔ اقوام ِ متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن و دیگر غیر ملکی ادارے ان اعدادو شمار کی مکمل نفی کرتے ہوئے اس کو محض تین فیصد قرار دیتے ہیں۔ ان اداروں کے مطابق جنگلات کی کٹائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ورلڈ بنک ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے دو فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں۔ عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کے 25 فیصد حصے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔ نباتات کو انگریزی میں باٹنی کہا جاتا ہے۔ خاص طور پر پودوں کے ماہرین کو ماہرین ِ نباتات کہا جاتا ہے۔ نباتاتی علم کا مقصد پودوں کی فلاح و بہبود اور بقا ہے۔ پاکستان بوٹانیکل سوسائٹی پورے پاکستان کے ماہرینِ نباتات کی نمائندگی کرتی ہے۔ ایکو سسٹم میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے روزانہ (24 گھنٹوں میں) پودوں، جانوروں، پرندوں اور دوسری جاندار اشیا ء کی 150 تا 200 انواع صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ [197]روئے زمین پر سب سے زیادہ آلودگی نام نہاد ترقی یا فتہ ممالک پھیلا رہے ہیں، افسوسناک ان کی پرآسائش زندگی کی قیمت پوری انسانیت ادا کررہی ہے۔

 ماحولیاتی توازن (Ecological Balance)

قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو مقررہ مقدار میں پیدا کیا ہے۔ کرہ ارض پر نباتات کا قدرتی توازن پایا جاتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَاَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ"[198]

" ہم نے زمین کو پھیلایا، اس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی۔ "

مسلم سکالر عبدالحمید لکھتے ہیں:

“The proportion, measure and balance of the natural world is set forth time and again in the Quran, revealing the elegant interdependence and connections between all things , proportion , measure and balance express the quantitative and qualitative relationships of the parts to the whole. Thus all natural elements have a value to each other and to the total global system.”[199]

انسائیکلوپیڈک ڈکشنری آف سائنس کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Conservation involves actively halting the natural process of succession, which would otherwise replace the present vegetation with another type.”[200]

ہارون یحیی ٰلکھتےہیں:

“There is a single creator, the ruler of strarlight and of the molecules of plants who has created all these things in harmony with one other.”[201]

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Committees of the I.U.C.N. deal among other matters, with ecology, the protection of vanishing species of animals and preservation of fauna.”[202]

انسائیکلوپیڈک ڈکشنری آف سائنس میں ہے:

“Preventing the hunting of endangered animals and the gathering of endangered plants.”[203]

مذکورہ عبارات سے قدرتی وسائل اور نباتات کے تحفظ کی اسلامی اور عالمی تناظر میں افادیت واضح ہوتی ہے۔ کرہ ارض پر حیاتاتی توازن کے لئے نباتات کے قدرتی توازن کا تحفظ ضروری ہے۔

کسی بھی خطے میں خوشگوار اور قدرتی ماحول برقرار رکھنے کے لئے اس علاقے میں پائے جانے والے نباتات کا تحفظ ضروری ہے۔ پودے، درخت اور سر سبزو شاداب نباتات و باغات ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے کلید ی کردار ادا کرتے ہیں۔ پودے علاقے کے حساب سے ایک کمیونٹی رکھتے ہیں۔ جسے انگریز ی اصطلاح میں 'ویجی ٹیشن 'کہا جاتا ہے۔

'ویجی ٹیشن' کا زمینی فضا خوشگوار برقرار رکھنے کے لیے انتہائی اہم کردار ہے:

 “The plant of an area considered in general, or as communities , but not taxonomically . The total plant cover in a particular area , or on the earth as a whole. The vegetation is a significant source of moisture in the earth as a whole .”[204]

ویجی ٹیشن کے تصور کو قرآن مجید میں بھی اشارے و کنایے سے بیان کیا گیا ہے۔ بارش کا پانی مردہ زمین سے مردہ زمین سے ویجی ٹیشن کا سبب بنتا ہے۔ جنگلا ت فضا کو تازہ اور صاف رکھتے ہیں اس لئے جنگلات کی حفاظت کرنا جدید انسان کا اخلاقی و معاشرتی فرض ہےجنگلات درجہ حرارت کو اعتدال و توازن بخشتے ہیں، فضائی جراثیم کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں، انسانوں اور حیوانات کی غذائی ضروریات فراہم کرتے ہیں، چرند و پرند اور متعدد حیوانات کا مسکن بھی درخت ہیں، ادویات کا مخزن ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق جنگلات کی بے رحمی سے کٹائی ہمیں 2058ء تک سدا بہار درختوں سے محروم کر دے گی۔ [205] 

جنگلات کا تحفظ کرنا دراصل کرہ ارض کے پھیپھڑے کی حفاظت و نگہداشت ہے کیونکہ جنگلات و نباتات کو کرہ ارض کا پھیپھڑا تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ پودے ہی انسانوں کو صاف وشفاف ہوا مہیا کرتے ہیں اور ہوا میں موجود گندگی اور زہریلی گیسوں کو صاف کرتے ہیں۔ پودے ہر خاص و عام کے لیے یکساں و مساوی فائد ہ مند ہیں۔

"ڈکشنری آف انوائرنمنٹ "میں ہے:

 “An extensive area of woodland either unmanaged or maintained for the production of timbers, etc. Coppice forest consists of trees derived from coppice shoots (produced from trees cut near the ground) and root suckers. High forest is mature woodland usually composed of tall trees derived from seeds, their tops forming a closed canopy.”[206]

پودے اور درخت ماحولیاتی صفائی کا اہم ذریعہ ہیں۔ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتےہیں۔

 آکسیجن ( Oxygen)

جنگلات اور نباتات قدرتی و حیاتیاتی خزانے ہیں۔ نباتات کا تحفظ کرنا انسانی و حیوانی حیات کے لئے ناگزیر ہے کیونکہ پودے اور درخت نسل ِ انسانی کی سانسوں کو رواں دواں رکھنے کے لئے آکسیجن پیدا کرنے کے قدرتی کارخانے ہیں۔ کرہ ارض پر آکسیجن انسانی و حیوانی زندگی کے تسلسل و بقا کے لیے لازمی ہے۔

ہارون یحییٰ لکھتے ہیں:

“Instead ,the oxygen in the atmosphere is constantly being replenished by plants. Without photosynthesis, plant life could not exist; and without plant life, there would be no animal or human life.”[207]

انسانی و حیواناتی زندگی کی بقا کے لئے نباتاتی وسائل کا تحفظ ضروری ہے۔

انسائیکلو پیڈیا آف سائنس کا مقالہ نگار آکسیجن کی افادیت بیا ن کرتا ہے:

“All life on Earth depends on oxygen. Animals , plants, fungi and bacteria use up oxygen from the air in the respiration. Atmospheric oxygen is also is also used up when fossil fuels are burned. We depend on plant photosynthesis replace this lost oxygen.”[208]

 فضا میں بلندی پر جاتے ہوئے انسان کو آکسیجن کی کمی کا سامنا کرنا ہوتاہے، تب سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے۔ ہوائی جہازوں میں مصنوعی آکسیجن کے ذریعے مسافروں کے لئے آکسیجن کی کمی کو دور کیا جاتا ہے۔ قرآن پاک کے نزول کے وقت آکسیجن کے نام سے کوئی واقف بھی نہیں تھا۔ چودہ صدیاں قبل قرآن کے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے بلندی پر آکسیجن کی کمی کا انکشاف کر دیا تھا۔ [209]

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَهٗ يَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ ۚ وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّهٗ يَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ ۭ كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ"[210]

"جس شخص کو اللہ ہدایت دینا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہے اس کے سینہ میں اتنی گھٹن پیدا کردیتا ہے، جیسے وہ بڑی دقت سے بلندی کی طرف چڑھ [رہا ہو۔ جو لوگ ایمان نہیں لاتے، اللہ تعالیٰ اسی طرح ان پر (حق سے فرار اور نفرت کی) ناپاکی مسلط کردیتا ہے۔

قرآن کی مذکورہ آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ بلندی پر چڑھنا آکسیجن کی کمی سے وجہ سے مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے، اسی طرح جو شخص ازلی بد بخت اور بد نصیب ہوتا ہے اسے حق کی دعوت پر لبیک کہنا کم آکسیجن والے علاقے میں اوپر چڑھنے کی طرح ہوتا ہے۔

زمین پر حیاتیاتی عمل کا دارومدار ضیائی تالیف کے عمل سے ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے پودے شمسی توانائی کی موجودگی میں پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کیمیائی عمل سے کاربوہائیڈریٹس بناتے ہیں۔ اصل میں زمین پر تمام جاندار مخلوق کا وجود اسی عمل سے برقرار ہے۔ اس عمل کے دوران حرارتی توانائی، حیاتیاتی توانائی میں تبدیل ہوتی ہے۔ یہ عمل تقریباً 41 فیصد سمندروں میں ہوتا ہے جبکہ باقی 59 فیصد حصہ خشکی پر ہوتا ہے۔

جنگلات کرہ ارض پر استعمال ہونے والی بیس فیصد سے زائد آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں بڑے بڑے جنگلات پائے جاتے ہیں۔ اس لئے یہ جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار کو اپنے اندر ذخیرہ کیے رکھتے ہیں۔ جس سے گلوبل وارمنگ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ آکسیجن ایک ایسا قدرتی وسیلہ ہے، جس سے زندہ ہر لمحہ فیض یاب ہوتی ہیں۔ کرہ ارض پر سب سے قیمتی وسیلہ آکسیجن ہے۔ دماغ کو چند سیکنڈ آکسیجن نہ ملے تو اس پر فالج گر جاتا ہے یا مر ہی جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آکسیجن جس قدر قیمتی ہے اتنی ہی فراوانی سے کرہ ارض پر موجود ہے۔ خلامیں جانا ہوتو آکسیجن کے سلنڈر بھر کر ساتھ لے جانا پڑتے ہیں۔ آبی حیات کا مشاہدہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں پانی سے بآسانی آکیجن ملتی رہتی ہے۔

ہارون یحییٰ لکھتے ہیں:

“If plants did not release oxygen in the atmosphere, the oxygen breathers would eventually use up all the free oxygen in the atmosphere and that would be the end of them.”[211]

 تازہ ترین رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ملکوں میں بھارت اور پاکستان کو پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان سب سے کم صلاحیت والا ملک ہے۔ [212]جنگلات کے بے تحاشا کٹاؤ سے منرل واٹر کی بوتلوں کی طرح آکسیجن کے سلنڈر بھی خریدنے اور اٹھانے پڑ سکتے ہیں۔

ایمیزون جنگل 500 کلومیٹر (فٹ بال کے ستر ہزار میدانوں کے برابر) رقبے پر محیط صیح وسالم جنگل ہے۔ گرین پیس (GREEN PEACE کے مطابق دورِ حاضرمیں خالص جنگلات پونے بارہ ملین مربع کلومیٹر رقبےکا چوتھائی ہے۔ 2000ء سے اب تک جنگلات کا 7 فیصد حصہ ضائع ہو چکا ہے۔ خالص جنگل زمین کی کاربن کا چالیس فیصد قابو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خالص جنگلا ت ایمیزون ممالک کی کاربن کے مجموعی اخراج جذب کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ایمازون کے جنگلات میں ہر تین سیکنڈ میں ۱۰۰ درخت ختم ہوجا تے ہیں۔ برازیل کا برساتی جنگل تعمیرات اور ڈیم بنانے کے لیے ختم کیا جا رہا ہے۔ جنگلات کے خاتمے کا مطلب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ ہے۔ [213]

 کاربن کا انجذاب (Absorption of CO2)

کاربن ڈائی آکسائیڈ کے انجذاب اور فضا کی صفائی کے لئے نباتات کا تحفظ انتہائی لازمی ہے۔ کارخانوں اور ملوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں اور مضر صحت مادے یہ سب مل کر قدرتی ماحول کو آلودہ کر رہے ہیں۔ پانی کی قلت کی وجہ سے درخت سوکھ رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی سے عورتیں اور بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ہر قسم کی آلودگی کو کنٹرول کرنے زیادہ سے زیادہ درخت لگانا نہایت ضروری ہے۔ [214] زمین کا نصف سے زیادہ چہرہ جنگلات سے ڈھکا ہوا تھا، لیکن اب یہ کل رقبے کا ایک تہا ئی سے بھی کم رہ گیا ہے۔ کرہ ارض کےجنگلا ت کا کل رقبہ تقریباً 3400 ملین ہیکٹر ہے۔ گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی وجہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے، کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والے جنگلات کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کم اور پیدا زیادہ مقدار میں ہو رہی ہے۔ فضا کی صفائی کے لئے نباتات کا تحفظ بہت ضروری ہے کیونکہ فضا میں آلودگی ختم کرنے میں نباتات کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ کرہ ارض کے ارد گرد ہوا کا غلاف فضا کہلاتا ہے۔

اس ضمن میں ایم ایس راؤ لکھتے ہیں:

 “The envelope of Gas, vapor and Aerosol particles surrounding the Earth, retained by gravity and forming a major constituent in the environment of most forms of terrestrial life, protecting it from the impact of meteors, cosmic ray particles and harmful solar radiation.”[215]

کرہ ارض کے ارد گرد فضا کی کئی تہیں پائی جاتی ہے۔ سب سے نچلی تہہ کو "ٹروپو سفیئر" کہا جاتا ہے۔

فضا کی سب سے نچلی تہہ "ٹروپو سفئیر" کے بارے میں ایم ایس راؤ رقمطراز ہیں:

 “Refers to the lower layers of the Atmosphere, i.e., those below the Stratosphere, from that it is separated by the Tropopause, extending from a height of about 11 km to earth`s surface in the temperate zone.[216]

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ "[217]

" ہواؤں کی گردش میں، اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بیشمار نشانیاں ہیں۔ "

ابو بکر احمد لکھتے ہیں:

“Since the atmosphere performs all these biological and social functions ,its conservation ,pure and unpolluted , is an essential aspect of the conservation of life itself which is one of the fundamental objectives of Isᾱmic law.”[218]

ماحول اور انسانی زندگی ایک دوسرے سے منسلک ہیں، معیار زندگی کی بہتری کے لئے قدرتی ماحول پر اثرانداز ہونے والے عوامل پر قابو پانا ہوگا۔ دنیا میں ترقی کے تیز عمل نے قدرتی ماحول کو شدید متاثر کیا ہے، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتی ترقی کرۂ ارض کے ماحول پربری طرح اثرانداز ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہا ں پر درختوں کی اندھا دھند کٹائی اور نئی شجرکاری میں توازن بہت بری طرح بگڑ رہا ہے ۔ ملک میں قدرتی جنگلات کے رقبہ میں سالانہ 27 ہزار ایکڑ کی کمی ہوئی ہے۔

جنگلات کا کٹاؤ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ جنگلات کی جگہ بڑی تعمیرات، رہائشی کالونیاں، کارخانوں اور سڑکوں کا تعمیر کا کام زور شور سے جاری و ساری ہے۔ جنگلات کے کٹاؤ کے لیے ماہرین ماحولیات ' ڈی فاریسٹیشن' کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

ڈکشنری آف انوائرنمنٹ میں ہے:

“Refers to the permanent removal of forest and undergrowth.”[219]

جنگلات کے کٹاؤ سے جنگلات کا رقبہ کم ہوتا جارہا ہے اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بعض ملکوں میں جنگلات کی کٹائی ایسی بے تحاشا کی گئی ہے کہ اب وہاں درخت خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ اس وقت تک ایک تہائی جنگلات کا صفایا ہو چکا ہے اور 17 ملین ہیکٹر سالانہ کے حساب سے ان میں کمی آرہی ہے۔ [220]اقوام ِ متحدہ کے جائزے کے مطابق ہر سال تقریباً 13000 ملین ہیکٹر رقبے پر پھیلے جنگلات کا صفایا ہو رہاہے۔ سائنسدانوں کے مطابق دورِ حاضر کا سب سے بڑا خطرہ تیزی سے جنگلات کا خاتمہ ہے۔ [221]دریائے ایمزون کا وہ حصہ جو برازیل کی حدود میں واقع ہے اور جہاں جنگلات کی کٹائی کی گئی ہے وہ رقبے کے لحاظ سے 41 ملین ہیکٹر سے زیادہ ہے (یعنی جاپان کے رقبے سے بھی زیادہ ہے) ۔ [222] ایمزون کا جنگل برازیل کے دسویں حصے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ جنگل بے دردی سے کاٹا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے پانی کی قلت کی طرح آکسیجن کی قلت کا مسئلہ سر اٹھا سکتا ہے۔

عالمی یومِ ارض ہر سال 22 اپریل کو منایا جاتا ہے، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ زمین اور اس کا ماحولیاتی نظام ہمارا گھرہے۔ ہم اپنی زمین کے ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کسی زمانے میں زمین کا آدھے سے زیادہ چہرہ جنگلات سے ڈھکا ہوا تھا۔ لیکن اب یہ کل رقبے کا ایک تہائی سے بھی کم رہ گیا ہے۔ جنگلات کا کل رقبہ تقریباً 34 سو ملین ہیکٹر ہے، ہر ہفتے تین لاکھ ہیکٹر رقبے پر جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔ آدھے سے زیادہ برطانوی جزائر گھاس کے بڑے بڑے میدانوں پر مشتمل ہیں۔ پہاڑوں پر درخت کی حد سے اوپر کی گھاس پائی جاتی ہے۔ لیکن ان گھاس کے میدانوں کا زیادہ تر حصہ گذشتہ 2000 سالوں میں تیار کیا گیا ہے۔

ماہر ماحولیات گردیپ راج لکھتا ہے:

 “ Grassland above the tree limit on mountains or subject to winds and spray on coastlines is natural in origin, but most of it has been created over the last 2000 years.”[223]

خالص جنگلات عالمی آب و ہوا کو برقرار رکھنے کے علاوہ موسم کو مقامی اور خطے کی سطح پر برقرار رکھتے ہیں۔عظیم خالص جنگلات کا ماحولیاتی نظام سب سے متنوع ہے اور ان میں شکاری جانور، دوسرے علاقوں سے آنے والے مختلف جانور اور نو دریافت شدہ انواع موجود ہیں۔ یہ خالص جنگلات ارتقاء کی ورکشاپیں ہیں۔ جنگلات کا 81 فیصد نقصان سڑکوں کی تعمیر کے لیے جنگلات کو بتدریج چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنے سے ہوا ہے۔ معروف جریدے نیچر (NATURE) 2014ء کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ضروری سڑکوں کی تعمیر جنگلات کی کٹائی کے بغیر بھی کی جاسکتی ہے۔ [224]سائنسدانوں کے مطابق موجودہ دور میں دنیا کو سب سے بڑا خطرہ جنگلات کے ختم ہونے اور پرندوں و چرندوں کے کم ہونے سے لاحق ہے۔

نباتات کے عدم تحفظ کی وجہ سے صحراؤ ں کے رقبہ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ صحرائے صحارا دنیا کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ امریکہ کی میری لینڈ یونیورسٹی سے منسلک سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق گذشتہ صدی کے دوران اس کا رقبہ دس فیصد بڑھ گیا ہے۔ جن علاقوں میں 100 ملی میٹر سے کم بارش ہوتی ہے، ان کا شمار صحرا میں ہو تا ہے۔ اطرافِ صحارا کے بیشتر خطوں میں بارش کا تناسب اس حد سے نیچے چلا گیا ہے اور یہ تمام علاقہ صحارا میں شامل ہو گیا۔

بھارت کا جغرافیہ دان ایم ایس راؤ لکھتا ہے:

 “Desert: Refers to an almost barren attract of land wherein the precipitation is so scanty or so spasmodic that it will not adequately support vegetation. A desert wherein absolutely noting grows, however, is uncommon; it may be extremely poor grassland or extremely poor scrub.”[225]

ایک تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی موسمی تبدیلی کے سبب صحرا وسیع ہو رہے ہیں۔ اس کرہ ارض پر حیاتیا تی اور انسانی بقا مشکل ہوتی جارہی ہے۔[226]سائنس کی ایجادات و ترقیات نے جہاں زندگی کو سہولت و آسائش سے ہمکنار کیا اور پر تعیش و آرام بنایا وہیں انسانی طمع و حرص نے اطراف واکناف کے ماحول کو شدیدمتاثر کیا اور رفتہ رفتہ ماحولیاتی آلودگی کا یہ مسئلہ بڑھتا گیا۔ زمینی آلودگی، ہواکی آلودگی، پانی کی آلودگی اور آواز سے پیدا ہونے والی آلودگی نے انسانی صحت و زندگی پر انتہائی مضر اورمنفی اثرات مرتب کیےہیں۔ ماہرینِ ارضیات اور سائنس دانوں کو اب چل کر احساس ہوا کہ ماحولیاتی آلودگی کا یہ مسئلہ انسانی گرفت سے کہیں دور نکلتا جا رہا ہے۔

 گلوبل وارمنگ (Global Warming)

گلوبل وارمنگ عالمی مسئلہ ہے۔ گلوبل وارمنگ جیسے اہم مسئلے کا حل نباتات کے تحفظ میں مضمر ہے۔

Hazel S. Kaufmanگلوبل وارمنگ کے بارے میں لکھتا ہے:

The warming trend since 1880 parallels the great increase in the use of fossil fuels, which was accompanied by an increase in CO2.This, suggests that the warmer global were caused by the greenhouse effect of CO2.[227]

گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی وجہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والے جنگلات کا رقبہ کم ہو تا جا رہا ہے۔ جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے اور آبادی بڑھنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کم اور پیدا زیادہ ہورہی ہے۔

ماہر جغرافیہ لکھتے ہیں:

“A gas composed one of carbon and two parts of oxygen, normally occupying 0.03 percent of the atmosphere.”[228]

ماہرین ماحولیات کے مطابق دنیا میں بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ سے کرہ ارض پر انسان اورحیوانی حیات کے خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ فضائی آلودگی کے باعث موسمیاتی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔ 2017ء میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان کو ساتویں درجے پر رکھا گیا ہے۔[229]بعض ممالک میں جنگلات کی کٹائی زور و شور سے جاری و ساری ہے۔ بعض ملکوں میں جنگلات کی کٹائی ایسی بے تحاشا کی گئی ہے کہ اب وہاں درخت خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ اس وقت تک ایک تہائی جنگلات کا صفایا ہو چکا ہے اور 17 ملین ہیکٹر سالانہ کے حساب سے ان میں کمی آرہی ہے۔ [230]ایک رپورٹ کے مطابق فوسل فیولز کے جلنے سے ہر سال سوا اکیس بلین ٹن کاربن آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔ اس میں سے محض نصف ہی جذب ہوتی ہے، جو زمین کی فضا میں موجود رہتی ہے۔ عالمی ماہرین کے مطابق گلوبل وارمنگ موجودہ دور کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ گلوبل وارمنگ کی بڑی وجہ کوئلے اور تیل سے بجلی پیدا کرنا، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، کارخانوں کا دھواں ہے۔

موسمیاتی تبدیلی (Climate Change)

موسمیاتی تبدیلی کا حل کرہ ارض پر پائے جانے والے نباتات کا تحفظ ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں ایک عالمی مسئلہ ہیں۔ دورِ جدید موسمیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے۔ اس ضمن میں ایک مغربی سکالر لکھتا ہے:

“The air pollution has been blamed for recent climate change.”[231]

ماہر علوم جغرافیہ "ایم ایس راؤ" موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں لکھتے ہیں:

 “Biocliamtology: The study of climate with respect to life and health, its objects being to determine the climatic conditions that are most favorable to human habitation, particularly for invalids, and to specify the areas where such climates exist.”[232]

جرمنی کی تھنک ٹینک نے جریدے "جرمن واچ "میں شائع کردہ اپنی 2016ء کی انڈکس برائے گلوبل رسک میں موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر دس ممالک میں پاکستان کا پانچواں نمبرہے۔ "گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈیز سنٹر" کے مطابق آنے والی دہائیوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو گا اور موسمِ گرما میں اضافہ ہو گا۔ اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے 2017ء کی جاری کردہ عالمی رپورٹ کے مطابق کراچی دنیا کے 60 غیر محفوظ ترین خطوں میں شامل ہے۔ [233]"انٹرنیشنل پینل برائے کلائی میٹ چینج "کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیاں نہ صرف گرمی کی لہر پیدا کررہی ہیں۔ بلکہ اس کے نتیجے میں دریاؤں میں پانی بھی کم ہو رہا ہے۔ یورپ کے بعض ممالک میں شدید گرمی کی وجہ سے آگ لگ رہی ہے۔ اور سینکڑوں رقبہ پر محیط جنگلات راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ پاکستان کو سالانہ 907 بلین ڈالر کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہے۔ "انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر” کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے قدرتی آفات کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ [234]شجر کاری موسمی حدت کو حد سے بڑھنے سے روکنےاورفضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے نہایت اہم کردار اداکرتی ہے۔ پاکستان سمیت ایشیا اور افریقہ کے52 ممالک میں ہونے والی تحقیق کے مطابق موسمی حدت بڑھنے کی وجہ سے اگلی ایک دہائی میں غریب اور بنیادی سہولتوں سے محروم لاکھوں افرادکی زندگیاں گرمی کی شدت سے خطرے میں پڑ جائیں گی۔

نباتات کا تحفظ اور اسلام

ڈی فارسٹیشن (Deforestation)

اسلام میں نباتات کا نقصان کرنے یعنی ڈی فارسٹیشن (Deforestation) کرنے سے خلاف ِ شریعت ہے۔ قرآن مجید میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کھیتی یعنی نباتاتی وسائل کو تباہ کرنے والا دراصل کرہ ارض پر فساد پھیلانے والا ہے۔

ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

" وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ "[235]

" جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے، تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ اللہ ﴿جسے وہ گواہ بنا رہا تھا﴾ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ "

امام بغویؒ رقمطراز ہیں:

" قَالَ مُجَاهِدٌ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ قَالَ: إِذَا ولي يعمل بالعدوان والظلم، فأمسك اللَّهُ الْمَطَرَ وَأَهْلَكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ، وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسادَ، أَيْ: لا يرضى"[236]

مذکورہ دلائل و شواہد دلالت کرتے ہیں کہ ڈی فارسٹیشن یعنی کھیتوں کی تباہی کو عدوان، ظلم اور فساد قرار دیا گیا ہے۔ پہلے خلیفہ راشد نے لشکر ِ اسامہ کو ڈی فاریسٹیشن یعنی درختوں کے کٹاؤ سے منع کر دیا۔

علامہ محمد رضا ؒ لکھتے ہیں:

" ولا تعقروا نحلاً ولا تحرقوه، ولا تقطعوا شجرة مثمرة "[237]

اسراف (Extravagance)

نباتات کے تحفظ کی خاطر قرآن مجید میں نباتاتی وسائل کے استعمال میں اسراف ناجائز ہے۔

قرآن میں اسطرح ہے:

" ۭ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ وَلَا تُسْرِفُوْا ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ " [238]

""کھاؤ ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں، اور اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو، اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ "

نباتاتی وسائل کو استعمال کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرو، ایسا نہ ہو کل کو تم ضرورت مند ہو نا پڑ جائے۔ کھانے میں اسراف سے منع کیا گیا ہے کیونکہ بسیار خوری عقل اور جسم کے لئے نقصان دہ ہے۔ کئی دوسرے مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے میں اسراف و ضیاع سے منع فرمایا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ نباتاتی وسائل میں باعتدال بہت ضروری ہے اور اس سے تجاوز اللہ تعالیٰ کے احکام کی صریح نافرمانی ہے۔ ہر چیز کے استعمال میں اعتدال اور میانہ روی مطلوب اور محبوب ہے اور اسے نباتاتی وسائل سے فائدہ اٹھانے میں اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں نباتات کے ضیاع و اسراف کی ممانعت ہے۔ نباتات کے ضیاع کی روک تھام سے نباتات کے تحفظ کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

 گرین بیلٹ (Greenbelt)

اسلام نے گرین بیلٹ کی توسیع کے لئے جا بجا شجر کاری اور زمین کی آباد کاری کی ترغیب دلائی ہے۔ اسلام میں نباتات کے تحفظ ونگہداشت کو صدقہ جاریہ قرار دیا گیا ہے۔ درخت لگانا اور اس کی نگہداشت کرنا مسلمان کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔ اگر کسی مسلمان نے درخت لگایا جس کا پھل کسی انسان یا جانور نے کھایا تو لگانے والے کے لیے یہ صدقہ ہو گا۔ تعلیمات اسلامی میں بنجر زمین کی آباد کاری اور نباتاتی وسائل کی کاشت کاری پر زور دیا گیا ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ بنجر زمین پر نباتات اگانے اور کھیتی باڑی کرنے کے لئے کئی احادیث مبارکہ میں حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

ارشادِ نبوی ؐ ہے:

"مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ"[239]

مسلمان کا پودا لگانا یا کھتی باڑی کرنا اس کی طرف سے صدقہ ہو جاتا ہے۔

ارشادِ نبویؐ ہے:

 " مَنْ بَنَى بُنْيَانًا مِنْ غَيْرِ ظُلْمٍ، وَلَا اعْتِدَاءٍ، أَوْ غَرَسَ غَرْسًا فِي غَيْرِ ظُلْمٍ، وَلَا اعْتِدَاءٍ، كَانَ لَهُ أَجْرٌ جَارٍ مَا انْتُفِعَ بِهِ مِنْ خَلْقِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى "[240]

 مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ جس شخص نے کسی پر ظلم و زیادتی کے بغیر عمارت بنائی یا ظلم و زیادتی سے بچتے ہوئے کوئی درخت لگایا تو اس کے لئے جاری رہنے والا اجر ہے جب تک اللہ تعالیٰ کی مخلوق اس سے فائدہ اٹھائے۔ اسلام میں جا بجا بنجر زمین پرنباتات لگانے کی ترغیب دی گئی ہے۔

ارشادِ نبویؐ ہے:

" مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَزْرَعَهَا، أَوْ عَجَزَ عَنْهَا، فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، وَلَا يُؤَاجِرْهَا "[241]

ارشادِ نبویؐ ہے:

" مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ وَلَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ"[242]

جوشخص مردہ زمین (بنجر زمین) زندہ کرے یعنی بنجر وویران زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ہے اور ظالم کی رگ کا کوئی استحقاق نہیں ہے۔

 اسلام میں نباتات کے تحفظ کے لئے واضح ہدایات و احکامات پائے جاتے ہیں۔ ان احکامات پر عمل کر کے دنیا گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی آلودگی، موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل سے نجات پا سکتی ہے۔ اسلام نباتات، جنگلات، درختوں، پودوں کے تحفظ اور ان کی نگہداشت کی جامع تعلیمات دیتا ہے۔

[1]مولوی، فیروز الدین، فیروزاللغات اردو جامع ء، ص۔ 1205

[2]لویس معلوف، (مترجم: مولانا ابو الفضل ) ، المنجد عربی اردو، خزینہ علم وادب اردو بازار لاہور، س۔ ن، ص۔ 871

[3]فیروز الدین، مولوی، فیروزاللغات اردو جامع، ص۔ 1205

[4]أبو القاسم، راغب الأصفهانى، المفردات في غريب القرآن، دار القلم،بيروت، 1412 هـ، 1/787

[5]إبراهيم بن إسماعيل الأبياري ، الموسوعة القرآنية، مؤسسة سجل العرب، 1405 هـ، 8/543

[6]جمال الدين ابن منظور الأنصاري، لسان العرب، دار صادر – بيروت، 1414 هـ، 2/95

[7] The Encyclopedic Dictionary of Science, Facts on File Publications, Oxford, 1988,p.187

[8] The New Encyclopedia Britannica (micropedia) ,Vol- 8,15th Ed.,p.409

[9] Rᾱnī,Reetᾱ,Dictionary of Biology,Anmol Publications New Dehlī (Indiᾱ) , p.70

[10] The New Encyclopedia Britannica (micropedia) ,Vol- 8,15th Ed.,p.409

[11]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment, p.134

[12]https: //www.britannica.com/science/physiology accessed on 15 Jan, 2020

[13]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment, p.79

[14] Rᾱnī, Reetᾱ, Dictionary of Biology, p.153

[15]Rᾱj, Gurdeep, Dictionary of Environment,p.227

[16]قریشی، منیر احمد، کتاب الادویہ، مکتبہ دانیال لاہور، 1/370

[17]Deni Brown,Encyclopedia of Herbs & There Uses, Dorling Kindersley Book ,London ,1995, p.10

[18] Peter B. Kaufman and J.Donald LaCroix, Plants, People & Environment, MacMillan Publishing Co.,Inc.,New York,p.30

[19] Rᾱnī, Reetᾱ, Dictionary of Biology, p.122

[20] Christopher Brichell, Encyclopedia of Garden Plants,A Dorling Kindersley Book ,London,1996,P.10

[21] Peter B. Kaufman and J.Donald LaCroix, Plants, People & Environment,p.18

[22] Encylopedia of Herbs & Their Usese, p.10

[23] Encyclopedia of Britannica, Vol-23,Hazen Watson & Viney Limited, 1962,p.978

[24] James R. Wells, The Ecology of plant Communities in Temperate Regions: Plants, people and Environment by Peter B. Kaufman,Macmillan Publishing Co., Inc. New York,1979,p.100

[25]قریشی، منیر احمد، کتاب الادویہ، 1/372

[26] Deni Brown,Encylopedia of Herbs& Their Uses, p.10

[27]Peter B, Kaufman and J. Donald Lacroix, Plants, Peaple & Environment,P.10

[28] Ibid,p.28

[29] Rᾱnī, Reetᾱ, Dictionary of Biology, p.154

[30] Ibid, p.154

[31] Rᾱnī,Reetᾱ,Dictionary of Biology, p.12

[32] James A. Weber,Plants and the Aquatic Environment,P.145

[33] Peter B. Kaufman and J.Donald L., Plants, People & Environment,p.19-20

[34] Ibid,p.25-26

[35] Peter B. Kaufman and J.Donald L., Plants, People & Environment,p.23-24

[36]لقمان، 31: 10

[37]طنطاوي، التفسير الوسيط للقرآن الكريم، 7/444

[38] Abūbakar Ahmad,Isᾱmic Principles for the Conservation of the Natural Environment,,p.79

[39]الحجر، 22: 15

[40]اکبر علی خان، مولانا، قرآن اور جدید سائنس، ص، 59

[41] Abūbakar Ahmad Bakadar ,Isᾱmic Principles for the conservation of the natural environment ,p.80

[42]ق، 9: 50

[43]التفسیر الوسیط للقرآن الکریم، الهيئة العامة لشئون المطابع الأميرية1983، 9/1064

[44]اردو دائرہ معارف اسلامیہ، دانش گاہ پنجاب لاہور، جلد سوم طبع اول، ص۔ 949-950

[45] المر جع السابق، ص۔ 950

[46]المرجع السابق، ص950-951

[47]عمری، جلال الدین، اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور، اسلامک ریسرچ اکیڈ می کراچی، د سمبر 2005ء، ص۔ 125

[48]پروفیسر عبدالعلی، ڈاکٹر ظفر الاسلام، قرآن اور سائنس، مشتاق بک کارنر اردو بازار لاہور، 2003ء، ص۔ 3

[49]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 23 جولائی2019ء

[50]الانعام، 99: 6

[51]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/312

[52] The Encyclopedic Dictionary of Science,p.188

[53] Peter B. Kaufman,Plants, People and Environment, P.158

[54]یونس 24: 10

[55]أبو الحسن مقاتل بن سليمان، تفسير مقاتل بن سليمان، دار إحياء التراث بيروت،1423 هـ، 2/235

[56]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment,p.92

[57]عمری، جلال الدین، اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور، اسلامک ریسرچ اکیڈ می کراچی، د سمبر 2005ء، ص۔ 125

[58] ہلوک، نور باقی، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۔ 98

[59]محمد بن عيسى، سنن الترمذي، أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رقم الحدیث، 3369

[60]نعمان طارق، تعلیمی انسائیکلو پیڈیا، نشریات اردو بازار لاہور، 2009ءص۔ 28

[61]، یسین، 80: 36

[62]أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي، بحر العلوم، 3/133

[63]الواقعہ، 71: 56-73

[64]الاعلیٰ، 4: 87-5

[65]سيد قطب إبراهيم حسين الشاربي، في ظلال القرآن، دار الشروق - بيروت- القاهرة، 1412 هـ، 6/3888

[66]ہلوک، نور باقی، ڈاکٹر، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۔ 36

[67]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment ,p.83

[68]Peter B. Kaufman, Plants, People & Environment,p.65

[69] The Plant world, Vol- V, World book, Inc. a Scott Fetzer company, Chicago, 1989, p.130

[70] Peter B. Kaufman and J.Donald LaCroix, Plants, People & Environment,p.18

[71]محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، دار الهلال – بيروت، 1/167-168

[72]Peter B. Kaufman, Economic Aplications of Plants,Plants, People & Environment,p.53

[73]الرعد، 3: 13

[74]Abdur Rahim, Dr., Our Useful Plants,p.476

[75] Rᾱnī,Reetᾱ, Dictionary of Biology ,p.156

[76]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/311

[77]Reetᾱ ,Rᾱnī,Dictionary of Biology, p.156

[78]Peter B. Kaufman , “Economic Applications of Plants”,p.197

[79]ا أحمد بن مروان الدينوري، المجالسة وجواهر العلم، دار ابن حزم -بيروت، 1419هـ، رقم الحدیث، 92

[80]أبو داود سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، كِتَاب الْأَطْعِمَة، بَابٌ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ لَوْنَيْنِ مِنَ الطَّعَامِ، رقم الحدیث، 3818

[81]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/229

[82]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ الأَطْعِمَةِ، بَابُ الكَبَاثِ، وَهُوَ ثَمَرُ الأَرَاكِ رقم الحدیث، 5453

[83]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/277

[84]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ الأَطْعِمَةِ، بَابُ ذِكْرِ الطَّعَامِ، رقم الحدیث، 5427

[85]الحسين بن عبد الله بن سينا، أبو علي، شرف الملك، القانون في الطب، المحقق: وضع حواشيه محمد أمين الضناوي، 1/368

[86]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/214

[87]ابن سينا، أبو علي، شرف الملك، القانون في الطب، المحقق: وضع حواشيه محمد أمين الضناوي، 1/380

[88]محمد بن حبان بن أحمد بن حبان البُستي، صحيح ابن حبان، مؤسسة الرسالة – بيروت، 1414ھ، 12/52، رقم الحدیث، 5247

[89]أبو بكر، محمد بن زكريا الرازي، الحاوي في الطب، دار احياء التراث العربي لبنان/ بيروت، 1422هـ، 1/138

[90]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/215

[91]Abdur Rahim, Dr., Our Useful Plants,p.105

[92]درانی، عائشہ، ڈاکٹر، زیتون کی ڈالی، خزینہ علم و ادب اردو بازار لاہور، ص۔ 30

[93]محمد بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجه، کتَابُ الأَطْعِمَةِ، بَابُ أَكْلِ الثِّمَارِ، رقم الحد یث، 3369

[94]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/242

[95]ابن سینا، القانون فی الطب، 2/471

[96]أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل، المسند، مؤسسة الرسالة، 1421 ه، رقم الحدیث، 24025

[97]محمد بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجه، كِتَابُ الطِّبِّ، بَابُ الْحِمْيَةِ، رقم الحد یث، 3442

[98]أبو بكر، محمد بن زكريا الرازي، الحاوي في الطب، دار احياء التراث العربي - بيروت، 1422هـ، 6/270

[99]الحسين بن عبد الله بن سينا، أبو علي، شرف الملك، القانون في الطب، المحقق: وضع حواشيه محمد أمين الضناوي، 1/619

[100]سليمان بن أحمد، أبو القاسم الطبراني، المعجم الكبير، مكتبة ابن تيمية – القاهرة، 1415 ه، رقم الحدیث، 756

[101]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/264

[102]أبو الحسين المبارك الطيوري، الطيوريات، مكتبة أضواء السلف، الرياض، 1425 هـ، 3/1226

[103]أبو بكر، محمد بن زكريا الرازي، الحاوي في الطب، 2/252

[104]Abdur Rahim, Dr., Our Useful Plants,p.309

[105]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كتاب الْأَلْفَاظِ مِنَ الْأَدَبِ وَغَيْرِهَا، بابُ اسْتِعْمَالِ الْمِسْكِ وَأَنَّهُ أَطْيَبُ الطِّيبِ وَكَرَاهَةِ رَدِّ الرَّيْحَانِ وَالطِّيبِ، رقم الحدیث، 2252

[106]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ اللِّبَاسِ، بابُ الطِّيبِ فِي الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِرقم الحدیث، 5923

[107]أبو نعيم الأصبهاني، الطب النبوي، رقم الحدیث، 650

[108] درانی، عائشہ، ڈاکٹر، زیتون کی ڈالی، خزینہ علم و ادب لاہور اردو بازار لاہور، ص۔ 42

[109]سليمان بن أحمد، أبو القاسم الطبراني، المعجم الكبير، مكتبة ابن تيمية – القاهرة، رقم الحدیث، 2892

[110]أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني، الطب النبوي، ، رقم الحدیث، 676

[111]أبو الحسين المبارك بن عبد الجبار الصيرفي الطيوري، الطيوريات، مكتبة أضواء السلف، الرياض، 1425 هـ، رقم الحدیث، 1150

[112]أبو داود سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، کتَاب التَّرَجُّلِ، ابٌ فِي الْخِضَابِ، رقم الحدیث، 4205

[113]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كتاب الْفَضَائِلِ، بَابُ شَيْبِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رقم الحدیث، 2341

[114]أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني، الطب النبوي، رقم الحدیث، 626

[115]أبو بكر أحمد بن مروان الدينوري، المجالسة وجواهر العلم، دار ابن حزم ،بيروت ، 1419هـ، رقم الحدیث، 2236

[116]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، کِتَابُ الطِّبِّ، بَابُ الحَبَّةِ السَّوْدَاء، رقم الحدیث، 5688

[117]عبد الله بن عمر با موسى، الحبة السوداء في الحديث النبوي والطب الحديث، مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف بالمدينة المنورة، 1425هـ، 1/24

[118]Abdur Rahim, Dr., Our Useful Plants,p.227

[119]اماممسلم، صیح مسلم، كتاب الْأَلْفَاظِ مِنَ الْأَدَبِ وَغَيْرِهَا، بَابُ اسْتِعْمَالِ الْمِسْكِ وَأَنَّهُ أَطْيَبُ الطِّيبِ وَكَرَاهَةِ رَدِّ الرَّيْحَانِ وَالطِّيبِ، رقم الحدیث، 2254

[120]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/260

[121]أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله، المستدرك على الصحيحين، دار الكتب العلمية – بيروت، 1411ھ، كِتَابُ الطِّبِّ، رقم الحدیث، 8240

[122]یٰسن، 34: 36

[123]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/218

[124]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ الأَطْعِمَةِ، بَابُ بَرَكَةِ النَّخْلِ، رقم الحدیث، 5448

[125]المرجع السابق، كِتَابُ الأَطْعِمَةِ، بَابُ العَجْوَة، رقم الحدیث، 5445

[126]أبو داود سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، كِتَاب الْأَطْعِمَةِ، بَابٌ فِي التَّمْرِ، رقم الحدیث، 3831

[127]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/256

[128]Abdur Rahim, Dr., Our Useful Plants ,p.245

[129]البقرہ، 61: 2

[130]حکیم محمد ادریس لدھیانوی، قدرتی غذاؤں سے علاج، دارالشعور مزنگ روڈ لاہور، ص۔ 53

[131]أحمد بن محمد بن حنبل، المسند،رقم الحدیث، 24585

[132]ابن سینا، القانون فی الطب، 1/391

[133]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/217

[134]الحسين بن عبد الله بن سينا، أبو علي، القانون في الطب، 1/391

[135]Abdur Rahim, Dr., Our Useful Plants,p.32

[136]البقرہ، 61: 2

[137]علامہ الزمخشری، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، دار الکتاب العربی، بیروت، 1407ھ، 1/145

[138]علامہ القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، دارلکتب المصریہ القاھرہ، 1384ھ، 1/425

[139]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/221

[140]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ، بَابُ نَهْيِ مَنْ أَكَلِ ثُومًا أَوْ بَصَلًا أَوْ كُرَّاثًا أَوْ نَحْوَهَا، رقم الحدیث، 568

[141]Abdur Rahim, Dr., Our Useful Plants,p.32

[142]الانسان، 5: 76

[143]قریشی، منیر احمد، کتاب الادویہ، مکتبہ دانیال لاہور، 2/108

[144]البقرہ، 61: 2

[145]علامہ راغب اصفہانیؒ، المفردات فی غریب القرآن، 1/138

[146]علامہ الزمخشری، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، دار الکتاب العربی، بیروت، 1407ھ، 1/145

[147]التین، 1: 95

[148]أبو نعيم الأصبهاني، الطب النبوي، رقم الحدیث، 904

[149]قریشی، منیر احمد، کتاب الادویہ، مکتبہ دانیال لاہور، 1/193

[150]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/219

[151]درانی، عائشہ، ڈاکٹر، زیتون کی ڈالی، خزینہ علم و ادب اردو بازار لاہور، ص۔ 29

[152]الصافات، 146: 37

[153]أبو بكر محمد بن عبد الله البغدادي، كتاب الفوائد (الغيلانيات) ، دار ابن الجوزي - السعودية / الرياض، 1417هـ، رقم الحدیث، 957

[154]Abdur Rahim, Dr., Our Useful Plants,p.193

[155]ابن قيم الجوزية الطب النبوي، 1/308

[156]البقرہ، 61: 2

[157]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي 1/۔ 260-261

[158]الواقعہ، 29: 56

[159]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/255

[160]الانعام، 99: 6

[161]محمد بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجه، كِتَابُ الأَطْعِمَةِ، بَابُ الزَّيْتِ، رقم الحدیث، 3320

[162]ابن سینا، القانون فی الطب، 1/470

[163]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/239

[164]درانی، عائشہ، ڈاکٹر، زیتون کی ڈالی، خزینہ علم و ادب اردو بازار لاہور، ص۔ 35

[165]الرحمٰن، 68: 55

[166]أبو نعيم الأصبهاني، الطب النبوي، رقم الحدیث، 364

[167]ابن سینا، القانون فی الطب، 1/667

[168] أحمد بن محمد بن حنبل، مسند، مؤسسة الرسالة، 1421 هـ، رقم الحدیث، 23237

[169]ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ) ، الطب النبوي 1/237

[170]قریشی، منیر احمد، کتاب الادویہ، 1/181

[171]Abdur Rahim, Dr., Our Useful Plants,p.263

[172]الرعد، 4: 13

[173]أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني، الطب النبوي، رقم الحدیث، 808

[174]قریشی، منیر احمد، کتاب الادویہ، مکتبہ دانیال لاہور، 1/195

[175]Peter B. Kaufman and J. Donald LaCroix,Plants, People and Environment, P.57

[176]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/257

[177]سبا، 16: 34

[178]أبو نعيم الأصبهاني، الطب النبوي، رقم الحدیث، 805

[179]مسلم بن الحجاج النيسابوري، صیح مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانَ، بَابُ الْإِسْرَاءِ، رقم الحدیث، 1/162

[180]الانسان، 76: 17

[181]قریشی، منیر احمد، کتاب الادویہ، 2/23-22

[182]أبو القاسم الطبراني، المعجم الأوسط، دار الحرمين – القاهرة، بابُ الْأَلِفِ، رقم الحدیث، 2416

[183]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي 1/240

[184]Abdur rahim, Dr., Our useful plants, p.331

[185]الرحمٰن، 12: 55

[186]قریشی، منیر احمد، کتاب الادویہ، مکتبہ دانیال لاہور، 1/355

[187]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/235

[188]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كتاب الْأَلْفَاظِ مِنَ الْأَدَبِ وَغَيْرِهَا، بَابُ اسْتِعْمَالِ الْمِسْكِ وَأَنَّهُ أَطْيَبُ الطِّيبِ وَكَرَاهَةِ رَدِّ الرَّيْحَانِ وَالطِّيبِ، رقم الحدیث، 2253

[189]Abdur Rahim, Dr., Our useful plants, p.230

[190]البقرہ، 57: 2

[191]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ، بابٌ: وَقَوْلُهُ تَعَالَى: وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الغَمَامَ، رقم الحدیث، 4478

[192]أبو نعيم أحمد الأصبهاني، الطب النبوي، رقم الحدیث، 657

[193]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/274

[194]الصافات، 62: 37

[195]محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري، صحيح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، بَابُ المِعْرَاجِ، رقم الحدیث، 3888

[196]لیسٹر براؤن، کرہ ارض کا تحفظ، ص۔ 45

[197]روزنامہ دنیا لاہور، 22 اپریل 2018ء

[198]الحجر، 19: 15

[199] ‘Abd-al-Ḥamīd, Exploring The Isᾱmic Environmental Ethics,p.45

[200] The Encyclopedic Dictionary of Science,p.68

[201]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe,P.120

[202] Encyclopedia Britannica, Vol-23,p.606

[203] The Encyclopedic Dictionary of Science,p.68

[204]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment,p.227

[205]سلفی، سراج کریم، شجر کاری اور اسلامی تعلیمات، ماہنامہ، عالمی ترجمان القرآن لاہور، اگست 2018ء، ص۔ 52

[206]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment,p.83

[207]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe,P.117

[208] The Encyclopedic Dictionary of Science,p.44

[209]اکبر علی خان، مولانا، قرآن اور جدید سائنس، مکتبہ خلیل اردوبازار لاہور، 2014ء، ص۔ 48

[210]الانعام، 125: 6

[211]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe,P.117

[212]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 24 اپریل 2018ء، ص۔ 12

[213]روزنامہ دنیا لاہور، 3 دسمبر 2017ء

[214]روزنامہ دنیا لاہور، 5 دسمبر 2017ء

[215] M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography,p.31

[216] M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography,p.378

[217]البقرہ، 164: 2

[218] Abūbakar Ahmad Bakadar,Isᾱmic Principles for the Conservation of the Natural Environment ,p.79

[219]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment,p.55

[220]لیسٹر براؤن، کرہ ارض کا تحفظ، ص۔ 59

[221]سراج کریم، "شجر کاری اور اسلامی تعلیمات"، عالمی ترجمان القرآن (ماہنامہ) ، لاہور، اگست 2018ء، ص۔ 52

[222]لیسٹر براؤن، کرہ ارض کا تحفظ، ص۔ 114

[223]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment,p.92

[224]روزنامہ دنیا لاہور، 22 اپریل 2018ء، ص۔ 13

[225]M. S, Rᾱo, Dictionary of Geography, p.103

[226]اصلاحی، ک-ص، ماہنامہ معارف مئی 2018ء، درارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ انڈیا، ص۔ 378

[227] Hazel S. Kaufman,Atmospheric Ecology and Our Polluted Atmosphere ,Plants, People & Environment,p.169

[228] M.S. Rᾱo, Dictionary of Geography,p.63

[229]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 7 جنوری 2018ء

[230]لیسٹر براؤن، کرہ ارض کا تحفظ، ص۔ 59

[231] Hazel S. Kaufman ,Atmospheric Ecology and Our Polluted Atmosphere,p.169

[232] M. S. Rᾱo, Dictionary of Geography, p.42

[233]روزنامہ ایکسپریس لاہور، 27 مئی 2018ء

[234]روزنامہ نوائے وقت لاہور، 8 اپریل 2019ء،

[235]البقرہ، 205: 2

[236]البغوي، معالم التنزيل في تفسير القرآن، دار إحياء التراث العربي –بيروت، 1420ھ، 1/263

[237]محمد رضا، أبو بكر الصديق أول الخلفاء الراشدين، دار احیاء الکتب العربیہ، 1369ھ، 1/38

[238]الانعام، 141: 6

[239]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَاب المُزَارَعَة، ، فَضْلِ الزَّرْعِ وَالغَرْسِ إِذَا أُكِلَ مِنْهُ، رقم الحدیث، 2320

[240]المرجع السابق، رقم الحدیث، 15616

[241]أحمد بن محمد بن حنبل، مسند احمد، م، رقم الحدیث، 14269

[242]أبو داود سليمان بن الأشعث، سنن ابوداؤد، كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ، بَابٌ فِي إِحْيَاءِ الْمَوَاتِ، رقم الحدیث، 3073

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...