Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں |
Asian Research Index
قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں

باب ہشتم: حیواناتی وسائل کا مطالعہ
ARI Id

1686875689131_56115974

Access

Open/Free Access

Pages

328

حیوانات کا تعارف

معنی و مفہوم"حیوان "کا لغوی معنی ہے:

"جاندار۔ ذی روح (۲) مویشی۔ چوپایہ (۳) نادان۔ بیوقوف۔ وحشی۔ جمع:۔ حیوانات"[1]

علامہ زمخشری ؒ حیوان کا لغوی مفہوم یوں بیا ن کرتے ہیں:

"والحيوان: مصدر حي، وقياسه حييان، فقلبت الياء الثانية واوا، كما قالوا: حيوة، في اسم رجل، وبه سمى ما فيه حياة: حيوانا"[2]

حیوان حَیَّ کا مصدر ہے اس کی اصل "حییان" ہے لیکن یا ء ثانی کو واؤ سے بدل دیا گیا ہے۔ جیساکہ عرب میں بعض لوگوں کا نام "حیوۃ" تھا۔ انہی معنی کے اعتبار سے ہر اس چیز کو جس میں حیات ہو حیوان کہتے ہیں۔

علامہ الجاحظ ؒ رقمطراز ہیں:

"أحيا من الحيوان؛ إذ كان الحيوان إنّما يحيا بإحيائها له"[3]

قرآن مجید میں حیوان کا لفظ زندگی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ قدیم عرب کے کئی قبیلوں کے نام حیوانات کے نام پر تھے جیسے اسد (شیر) ، قریش (آدم خور مچھلی) وغیرہ۔ مرنے والوں روحوں کو پرندے کی شکل میں پیش کیاجاتا تھ جو عرصے تک قبر کے ارد گرد اڑتا رہتا تھا۔ بعض حیوانات کو خاص دیوتاؤں سے منسوب کرکے ان کے گلوں میں قلاوہ ڈال کر ان کو حرام قرار دے دیا جاتا تھا۔ قرآن مجید ان قدیم باطل عقائد کی مذمت کی گئی ہے۔ [4]

اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں حیوان کےمعانی بیا ن کیے گئے ہیں:

"لفظ حیوان کے سب سے زیادہ عام معنے، خواہ اسے صیغہ واحد میں استعمال کیا جائے یا صیغہء جمع میں، با لعموم ایک یا ایک سے زیادہ جانور ہیں بشمول انسان، جسے صیح تر الفاظ میں الحیوان الناطق کہا جاتا ہے"[5]

صاحب ِ "الموسوعۃ القرآنیۃ" حیواناتی وسائل کے بارے میں رقمطراز ہیں:

" القوة النامية الموجودة فى الإنسان والحيوانات والنبات"[6]

"المنجد عربی اردو" میں حیوان کے لغوی معنی"جاندار" [7] ہیں۔

انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کا مقالہ نگار بیان کرتا ہے:

“Hayawan “the animal kingdom” , Arabic word derived from a Semitic root implying a notion of life. It is attested only once in the Kuran (xxix. 64) where it means “the true life” and is used of the other world; the dictionaries state that a spring of paradise is also called by this name, but the most usual meaning of hayawan , used as a singular or a collective , is an animal or animals in general, including man, who is more precisely called al-hayawan al-natik.”[8]

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا میں ہے:

“Animal (kingdom Animalia) ,any of a group of multicellular organisms that are thought to have evolved independently from the unicellular eukaryotes.Animals differ from the member of the two other multicellular kingdoms,the plants (plantea) and the funji (Mycota) ,,in fundamental variations in morphology and physiology.”[9]

آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں ہے:

“A living being; a member of the higher of the two series of organized beings, of which the typical forms are endowed with life,sensation, and voluntary motion, but of which the lowest forms are hardly distinguishable from the lowest vegetable forms by any more certain marks than their evident relationship to other animal forms, and thus to the animal series as a whole rather than to the vegetable series.”[10]

بھارت کی ماہر حیاتیات"ریتا رانی " لکھتی ہیں:

“An organism that is able to feed on other organisms or on organic matter, is often motile, and reacts to stimuli quickly. Animal cells are covered with cell membranes. They lack chlorophyll and their growth is usually limited.”[11]

انسائیکلوپیڈیا سائنس آکسفورڈ کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Members of the animal kingdom. All are multicellular (Eukaryotic) organisms which lack chloroplasts for photosynthesis and therefore rely on other living organisms for their food (they are hetrotrophs) .They are diploid (having two sets of chromosomes) and produce two different types of gametes, known as eggs and sperms.”[12]

کرہ ارض پر پائے جانے والے حیوانات اور نباتات کا مطالعہ کے لئے سائنسی اصطلاح "بائیو جیوگرافی" استعمال ہوتی ہے۔

بھارت کی ماہر حیاتیات بیان کرتی ہے:

“Refers to the study of the study of the geographical distribution of plants and animals over the globe, being usually limited to the land surface; it is further divided into phytogeography and zoogeography.”[13]

مذکورہ تعریفات و توضیحات کا حاصل یہ ہے کہ کرہ ارض پر جانداروں کے دو بڑے گروہ پائے جاتے ہیں۔ نباتات اور حیوانات۔ نباتات ضیائی تالیف کے ذریعے اپنی خوراک خود تیار کرسکتے ہیں جبکہ حیوانات اپنی خوارک کے لیے نباتات یا دوسرے حیوانات پر انحصار رکھتے ہیں۔ غذائی زنجیر کے ذریعے حیوانات کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے۔

کمال الدین الدمیریؒ اپنی معروف کتاب "حیات الحیوان" میں بیان کرتے ہیں:

"جنس الحي والحيوان: الحياة والحيوان ماء في الجنة قاله ابن سيده. والحيوان نهر في السماء الرابعة يدخله ملك كل يوم، فيغمس فيه ثم يخرج، فينتفض انتفاضة، يخرج منه سبعون ألف قطرة، يخلق الله تعالى من كل قطرة ملكا يؤمرون أن يطوفوا بالبيت المعمور، فيطوفون به ثم لا يعودون إليه أبدا، ثم يقفون بين السماء والأرض يسبحون الله تعالى إلى يوم القيامة."[14]

 مذکور ہ بیان کردہ عبارت کا حاصل یہ ہے کہ جس شے میں زندگی اور حرکت پائی جاتی ہے۔ حیوان جنت کے ایک پانی کا نام بھی ہے جیسا کہ ابن سیدہ بیان کرتا ہے اور حیوان نامی چوتھے آسمان پر ایک نہر بھی ہے اور ہر روز اس نہر میں ایک فرشتہ غوطہ لگاتا ہے اور پھر نکل کر اپنے پروں کو جھاڑتا ہے۔ جس سے ستر ہزار پانی کے قطرے گرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر قطرے سے ایک فرشتہ پیدا فرماتے ہیں۔ اس طرح ستر ہزار فرشتے روزانہ وجود میں آتے ہیں۔ پھر ان کو حکم ہوتا ہے کہ بیت المعمور کا طواف کریں۔ چنانچہ جب وہ ایک مرتبہ طواف کر لیتے ہیں تو پھر ان کی باری نہیں آتی۔ پھر یہ آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر کر قیامت تک اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔

حیوانات کی پیدائش

 زمین پر حیوانات کے پھیلاؤ کے لئے رب کائنات نے جمعرات کا منتخب کیا۔

صیح مسلم کی روایت ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي فَقَالَ: خَلَقَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ، وَخَلَقَ فِيهَا الْجِبَالَ يَوْمَ الْأَحَدِ، وَخَلَقَ الشَّجَرَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، وَبَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَخَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فِي آخِرِ الْخَلْقِ، فِي آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ، فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ"[15]

 زمین پر حیوانات کو خاص اہمیت و افادیت حاصل ہے اور ان کی پید ائش کے لئے جمعرات کا دن (یوم الخمیس) مختص کیا گیا۔ مختلف اشیا ء کی پیدائش کے حوالے سے درج ذیل جدول ترتیب دیا جا سکتا ہے۔

شے کانام (انگریزی)

شے کانام (اردو)

دن (انگریزی)

دن (اردو/عربی)

نمبر شمار

Soil

مٹی

Saturday

ہفتہ (يَوْمَ السَّبْتِ)

1

Mountains

پہاڑ

Sunday

اتوار (يَوْمَ الْأَحَدِ)

2

Plants

پودے

Monday

سوموار (يَوْمَ الِاثْنَيْنِ)

3

Evil things

شر (برائی)

Tuesday

منگل (يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ)

4

Light

روشنی

Wednesday

بدھ (يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ)

5

Animals

حیوانات

Thursday

جمعرات (يَوْمَ الْخَمِيسِ)

6

Adam (A.S)

حضرت آدم ؑ

Friday

جمعہ (يَوْمَ الْجُمُعَةِ)

7

حیواناتی وسائل سے مراد جانوروں کی دنیا ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ آیا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَهْوٌ وَّلَعِبٌ ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ"[16]

" اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا۔ اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔ "

قرآن مجید میں کوئی بارہ مختلف انواع کے حیوانات کا ذکر آیا ہے۔ قرآن حکیم میں پانچ سورتوں کے نام جانوروں کے ناموں پر ہیں: 1۔ البقرہ (گائے) 2۔ النمل (چیونٹی) 3۔ العنکبوت (مکڑی) 4۔ الفیل (ہاتھی) 5۔ الانعام (چوپائے) حیوانات کی کئی انواع کو زمانہ جاہلیت کی عربی شاعری میں نمایاں مقا م حاصل تھا۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ فواد البستانی نے (المجانی الحدیثتہ بیروت 1945ء، جلد 1) میں مختلف ناموں کے تحت اسی (80) حیوانات کا ذکر کیا ہے۔ جن میں اونٹ، گھوڑے، شیر کا تذکرہ کثرت سے ملتا ہے۔ [17]

حیوانات کی اقسام ( Types of Animals)

1۔ حیوان مطلق2۔ حیوان ناطق

1۔ حیوان مطلق

فیروز اللغات میں حیوان مطلق میں یوں بیا ن کیاگیا ہے:

"جانور۔ بے سلیقہ۔ بد تمیز۔ بالکل گنوار"[18]

2۔ حیوان ناطق

حیوان ناطق سے مراد انسان ہے۔

مولوی فیروز الدین حیوان ناطق کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:

"بولنے والا جانور۔ یعنی انسان"[19]

 عربی لغت کے ایک ماہر یوں لکھتے ہیں:

"الإنسان ليس له عقل لأنه حيوان اجتماعي أو "سياسي" كما يقول أرسطو، بل إنه حيوان اجتماعي لأن له عقلا"[20]

انسان حیوان ناطق ہے لیکن عقل و دانش کی صلاحیت اور جسمانی ساخت و وجاہت کی بدولت تمام مخلوقات سے افضل و برترہے۔

قرآن میں یوں ارشاد ہوتا ہے:

"لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ"[21]

"ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا"

انسان (Human being)

4-Order

Primates

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Human being

1-Scientific Name

Homo sapiens

8-Genus

Homo

7-Family

Hominidae

6-Class

Mammalia

5-Phylum

Chordata

علم حیوانات (Zoology)

حیوانات کے علم کو حیوانیات کہا جاتا ہے جس میں حیوانات کی اقسام، ساخت اور ان سے متعلق مختلف امور کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

مولوی فیروز الدین لکھتے ہیں:

"جانوروں کی تاریخ۔ جسم کی ساخت اور عادات و اطوار کا علم۔ "[22]۔

علم حیوانات کو انگریزی میں "زوالوجی " کہا جاتا ہے۔ آکسفورڈ سائنسی انسائیکلوپیڈیا میں ہے:

“The scientific study of animal life, including comparative Anatomy and Physiology, and Evolution, Genetics, Embryology, Biochemistry, Animal Behavior, Ecology and Taxonomy.”[23]

انگلش آکسفورڈ ڈکشنری میں ہے:

“The science which treats of animals, constituting one of the two branches (zoology and botany) of Natural History or biology, and comprising many sub ordinates branches, as ornithology, ichthyology, entomology, etc.”[24]

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کا مقالہ نگار علم حیوانا ت کی تعریف کرتا ہے:

“Zoology, the study of animals. The science of zoology embraces all conceivable modes of study, not only of individual animals but of entire faunas and of relations of animals with one another, with plants, and with the nonliving environment.”[25]

علم حیوانات پر علامہ الجاحظ کی کتاب "الحیوان" علمی اورادبی لحاظ سے معلومات کا خزانہ ہے۔ جس میں حیوانات کی عادات، نفسیات، خصوصیات، متعلقہ حکایات اور اشعار کا بیش بہا ذخیرہ ہے۔ الجاحظ کا سادہ اور فصیح اسلوب بیان سب پر مستزادہے۔ کتاب "الحیوان "کا محققانہ ایڈیشن عبدالسلام ہارون نے سات جلدوں میں قاہرہ (1938ء-1945ء) سے شائع کیا ہے۔ [26]علم حیوانات پر علامہ الدمیری (م 808ھ) کی حیات الحیوان قابل ذکر اور لائق مطالعہ کتاب ہے۔ یہ زیادہ تر کتاب الحیوان پر مبنی ہے۔ یہ ابجدی اعتبار سے لسانی اشارات، مختلف روایات، متعلقہ جانوروں کی فقہی حیثیت، ضرب الامثال، جانوروں کے مختلف اعضاء کے ساحرانہ یا طبی خواص اور خوابوں کی ان تعبیرات کو جن میں حیوانات کا ذکر ہے، کو جمع کردیا گیاہے۔ خواص الحیوان علم حیوانات پرایک اہم کتاب ہے۔ ایران کے مصنف حزین نے اس کتاب کو بارھویں صدی عیسوی میں مرتب کیا۔ [27]عبدالماجد دریا بادیؒ کی علم حیوانات پر "قرآنی حیوانات " کے نام سے قابل قدر کتاب تالیف کی ہے جو لائق مطالعہ کتاب ہے

علامہ الجاحظ ؒ حیوانا ت کی اقسام کے ضمن میں رقمطراز ہیں:

" أنّ جميع الحيوان على أربعة أقسام. شيء يطير، وشيء يمشي، وشيء يعوم، وشيء ينساح"[28]

علامہ الجاحظؒ کی مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ حیوانات کی چار اقسام ہیں۔ 1۔ زمین پر چلنے والے جانور 2۔ اڑنے والے جانور یعنی پرندے 3۔ تیرنے والے جانور یعنی مچھلیاں اور دوسری آبی حیات 4۔ رینگنے والے جانور یعنی حشرات الارض وغیرہ

زوالوجیکل کلاسیفکیشن (Zoologifical Classification)

کرہ ارض پر حیوانات کی مختلف اقسام کا بڑا مجموعہ پایا جاتا ہے۔ زمین پر 15 لاکھ سے زائد اقسام کے حیوانات ہیں۔ حیوانات میں سے کچھ پانی میں اور دوسرےخشکی پر رہتے ہیں۔ ان تمام انواع کے حیوانات کا الگ الگ طرزِ حیات ہے۔ مختلف اقسام کا حیوانات کا مطالعہ میں آسانی کے لئے ماہرینِ حیاتیات ان کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

سب سے پہلے یونانی فلاسفر ارسطو نے حیوانات و نباتات کی گروہ بندی کا تصور پیش کیا۔ اس نے جانداروں کو دو بڑے گروہوں پودوں اور جانوروں میں تقسیم کیا۔ 700ء میں ابو عثمان عمر الجاحظ ؒنے اپنی تالیف میں حیوانات کی 350 انواع کی خصوصیات تحریر کی ہیں۔ کارلس لینیس (1778ءم) نے قدرتی وسائل کو تین گروہوں معدنیات، نباتات اور حیوانات میں تقسیم کیا۔ لینیس نے انواع کا سائنسی نام رکھنے کے لئے جو طریقہ استعمال کیا، وہ دورِ جدید میں بھی رائج ہے۔ وارثتی مادے کو انگریزی میں "ڈی-این –اے"کہا جاتا ہے۔ وراثتی مادہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

یحیٰ ہارون لکھتےہیں:

The DNA molecule , which is located in the nucleus of a cell and which stores genetic information, is a magnificient data bank. If the information coded in DNA were written down ,it would make a giant library consisting of an estimated 900 volumes of encyclopedias consisting of 500 pages each. [29]

 زوالوجی کی جدید شاخ جینیٹکس کے ذریعے دو جانوروں میں پائے جانے والے ڈی-این-اے" میں مماثلت و مخالفت کی بنیاد جانوروں کی گروہ بندی آسان ہو جاتی ہے۔ ڈی –این – اے کے بارے حاصل کردہ معلومات کے ذریعے مشابہت و اختلاف کا تعین کیا جا تا ہے۔ تحقیق کے دوران جانداروں کے عام اور علاقائی ناموں سے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے سویڈن کے کارلس لینیس نے دو ناموں پر مشتمل سانئسی نام متعارف کروایا۔ دور جدید میں تما م جانداروں کو پانچ کنگڈمز ہیں۔ حیوانات کی کنگڈم کو اینمیلیا کہا جاتا ہے۔ کنگڈم گروہ بندی کا سب سے بڑا گروپ ہے۔ ہر کنگڈم کو چھوٹے گروہوں میں منقسم ہے۔ ایک سپی شیز میں بالکل ایک جیسی خصوصیات واے جاندار رکھے جاتے ہیں۔ گروہ بندی کی بنیادی اکائی سپی شیز ہے۔ ایک سپی شیز سے تعلق رکھنے والے جاندار جنسی تولید کے لحاظ سے دوسرے سپی شیز کے جانداروں سے الگ ہوتے ہیں۔ ٹیکسانومی کا سب سے چھوٹا ٹیکسون سپی شیز ہے۔ قرآن مجید میں جانوروں کی گروہ بندی کا اشارہ ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ "[30]

"زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں۔ "

حیوانات کی اقسام ( Types of Animals)

1۔ ورٹیبریٹس 2۔ ان ورٹیبریٹس

ورٹیبریٹس (Vertebrates)

فقاریہ جانوروں کو ورٹیبریٹس کہا جاتا ہے۔ ورٹیبریٹس میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہےاور فقاریہ کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کا مقالہ نگار "ورٹیبریٹس " کے بارے میں بیان کرتاہے:

“Vertebrate is the name given to the group of animals having vertebral columns or backbones. The vertebrates, which include the fishes, amphibians, reptiles, birds and mammals, are the predominant members of the chordate (q.v.) phylum”[31]

انسائیکلوپیڈیا آف سائنس کے مطابق ر ورٹیبریٹس:

“Members of the subphylum vertebrata, a division of the phylum chordata. It includes the mammals, birds, reptiles, amphibians and fish. All have a vertebral column or spine, within which the spinal cord … is enclosed”[32]

جن جانوروں میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، وہ ورٹیبریٹس (فقاریہ) کہلاتے ہیں۔ روئے زمین پر ایک تحقیق کے مطابق اورورٹیبریٹس کی تقریبا ً 47000 انواع و اقسام کا وجود پایا جاتاہے۔ ماہرینِ حیوانیات نے مطالعہ حیوانات کی آسانی کے لئے ان کو پانچ بڑے گروہوں ممالیہ، پروندوں، رینگنے والے جانوروں (ریپٹائلز) ، ایمفیبین اور مچھلیوں میں تقسیم کیا ہے۔

ورٹیبریٹس کی اقسام (Types of Vertebrates)

1-مچھلیاں (Fishes)

دنیا میں کم و بیش پچیس ہزار سے زائد اقسام کی مچھلیاں ہیں۔ مچھلیوں کا مسکن پانی ہے۔ ان کا بدن دونوں اطراف سے پتلا جبکہ درمیان میں موٹا ہوتا ہے۔ مچھلیوں کی ساخت پانی میں تیرنے کے لئے انتہائی موزوں بنائی گئی ہے۔ ان میں دم اور فنزہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ پانی کے اند ر آسانی سے تیر سکتی ہیں۔ یہ گلپھڑوں کے سانس کا عمل جاری رکھتی ہیں اور ان کی نسل انڈوں کے ذریعہ بڑھتی ہے۔

انسائیکلوپیڈیا ڈکشنری آف سائنس میں ہے:

“A general name of four distinct groups of aquatic vertebrates”[33]

مچھلیاں حیوانات کا اہم ترین گروپ ہے جو آبی ماحول میں اپنی زندگی بسر کرتی ہیں۔ مچھلی انسانی خوراک کا بہترین ذریعہ ہے۔

2-ممالیہ (Mammals)

دودھ دینے والے جانور ممالیہ کہلاتے ہیں۔ موسمی حالات کے پیش ِ نظر ان کا جسم بالوں یا فرسے مزین ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر ممالیہ جانوروں کے بچے ان کے پیٹ سے جنم لیتےہیں اور ان کی پرورش کا انحصار ماں کے دودھ پر ہوتا ہے۔ انسان، گائے، بکری، بھیڑ وغیرہ کا تعلق ممالیہ سے ہی ہے۔ مچھلیوں میں سے وہیل اور ڈولفن کا شمار ممالیہ جانورں میں کیا جاتا ہے۔

انسائیکلوپیڈک ڈکشنری آف سائنس کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“A class of vertebrates distinguished from all other animals by their ability to suckle their young with milk produced by the mammary glands, and by their possession of hair.”[34]

ممالیہ جانوروں کے جسم پر بال ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں۔ ان خصوصیات کی بنا ء پر انہیں دوسرے جانوروں سے علیحدہ کیا جاتا ہے۔

پرندے (Birds)

پرندے ایسے فقاریہ جانور ہیں جو پروں کے مدد سے ہوا میں اڑ سکتے ہیں۔ ان کی ایک چونچ ہوتی ہے، ان کی ہڈیاں اند ر سے کھوکھلی ہوتی ہیں اور ان میں ہوا کی تھیلیاں قدرتی طور پر پائی جاتی ہیں، جس کی بدولت ان کا وزن زیادہ نہیں ہوتا۔ پرندے انڈوں کے ذریعے عمل ِ تلید سرانجام دیتے ہیں۔

یونانی فلاسفر ارسطو کہتا ہے:

“The feathered tribe of animals is called birds.”[35]

علامہ الدمیری کے مطابق اڑنے والے پرندوں کی اقسام چار ہیں۔ 1۔ گوشت خور پرندے۔ 2۔ زمین پر چلنے والے پرندے 3۔ ادنیٰ پرندے 4۔ حشرات الارض

علامہ الدمیریؒ پرندوں کی اقسام کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہیں:

" والطير كله سبع وبهيمة وهمج. والخشاش ما لطف جرمه وصغر جسمه، وكان عديم السلاح. والهمج ليس من الطيور، ولكنه يطير وهو فيما يطير كالحشرات فيما يمشي. والسبع من الطير ما أكل اللحم خالصا، والبهيمة ما أكل الحب خالصا والمشترك كالعصفور، فإنه ليس بذي مخلب ولا منسر، وهو يلتقط الحب، ومع ذلك يصيد النمل، ويصيد الجراد، ويأكل اللحم. ولا يزق فراخه كما يزق الحمام، فهو مشترك الطبيعة، وأشباه العصافير من المشترك كثيرة، وليس كل ما طار بجناحين من الطير. فقد يطير الجعلان والذباب والزنابير والجراد والنمل والفراش والبعوض والأرضة والنحل وغير ذلك، ولا تسمى طيورا"[36]

گوشت خور پرندوں میں شکاری پرندے یعنی باز، شاہین، چیل، کوا، گدھ وغیرہ شامل و داخل ہیں۔

گوشت کھانے والے جانوروں کو گوشت خور کہا جاتا ہے۔

ڈکشنری آف بیالوجی میں ہے:

“A flesh- eating animal .It is especially a mammal of the order Carnivore (e.g. cats ,wolves ,seals, etc.) .Carnivores generally possess powerful jaws, teeth modified for tearing flesh and cracking bones and well developed claws.”[37]

فاختہ اور کبوتر جیسے پرندے دوسری قسم میں داخل ہیں۔ تیسری قسم میں بھڑیں، شہد کی مکھیاں، مکھیاں، تتلیاں اور ٹڈیاں وغیرہ شامل ہیں۔ چوتھی قسم میں دیمک اور چیونٹیاں وغیرہ شامل ہیں۔ تیسری اور چوتھی قسم کے جانور اڑنے والے ہیں لیکن انہیں پرندوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا میں ہے:

“Birds are warm-blooded vertebrates whose covering of feathers is the one major characteristic that distinguishes them from all other animals. Birds have limbs modified into wings (shared with bats) ,a calcareous shelled egg, and keen vision, the major sense relied upon by birds for information about their environment.”[38]

پرندے جانوروں کی ایک معروف قسم ہے۔ پرندوں کی اپنے پروں کی بدولت دوسرے جانوروں سے علیحدہ شناخت ہے۔ اکثر و بیشتر پرندے اڑ سکتے ہیں، بعض پرندے ایسے بھی ہیں جو اپنے پروں سے پرواز کرنے کی صلاحیت و سکت نہیں رکھتے۔

4-ایمفیبین (Amphibian)

مینڈک، سیلا مینڈر اور ٹوڈ وغیرہ ایمفبین جانور کہلاتے ہیں۔ یہ چار ٹانگیں رکھتے ہیں، ان کی خاص بات یہ ہے کہ خشکی اور پانی دونوں میں رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جلد اور پھیپھڑے ان کی سانس کے ذرائع ہیں۔ بالغ زندگی خشکی پر بسر کرتے ہیں جبکہ انڈے دینے کے لئے آبی ماحول کا رخ کر لیتے ہیں۔

بھارت کی ماہر حیوانات ریتا رانی لکھتی ہے:

 “The class of vertebrates including the frogs, toads, newts, and salamanders. Amphibians evolved in the Devonian period (about 370 million years ago) as the first vertebrates to occupy the land, and many of their characteristics are adaptation to terrestrial life.”[39]

مینڈک، ٹوڈ اور سلامینڈر ایمفیبین کی اہم مثالیں ہیں۔ یہ وہ ورٹیبریٹس ہیں جو سب سے پہلے خشکی پر 370 ملین سال قبل آباد ہوئے۔

سردی سے بچاؤ کے لئے کیچڑ میں دفن ہو کر لمبے عرصے تک سونے کی خاصیت رکھتے ہیں۔ یہ بہت سی منفرد خاصیتوں کے حامل جانور ہیں۔

5-ریپٹائلز (Reptiles)

رینگنے والے جانور ریپٹائلز کہلاتےہیں۔ یہ موٹی، کھردری اور خشک جلد رکھتےہیں، جو ان کے بدن کی حفاظت کرتی ہے۔ انڈوں کے ارد گرد چمڑے کی مانند سخت خول ہوتا ہے جو انہیں خشک ہونے محفوظ کرتا ہے۔ ان کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں لیکن سانپ ٹانگوں کے بغیر ہوتا ہے۔

انسائیکلوپیڈک ڈکشنری آف سائنس کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

 “A class of the vertebrates that includes the crocodiles, alligators, snakes, amphisbaenids, lizards, turtles and tortoises as well as a number of extinct groups … Living reptiles have scaly skin and typically lay large eggs, yolky eggs.”[40]

ریپٹائلز فقاریہ جانوروں کی اہم قسم ہے جس میں سانپ، چھپکلی اور کچھوا، گھڑیال، مگر مچھ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ انڈوں کے ذریعے تولید کا عمل کرتے ہیں۔

حیوانات کی اہمیت و افادیت

 حیوانات کی تخلیق انسانی منعفت و سہولت کے لئے ہے۔ انسان اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے حیوانات سے کئی قسم کے فوائد اٹھاتا ہے۔

سید طنطاویؒ حیوانات کی افادیت بیان کرتے ہیں:

" أنه خلق جميع ما في الأرض من نحو الحيوان والنبات والمعادن والجبال من أجلكم، فهو المنعم عليكم لتنتفعوا بها في دنياكم، وتستعينوا بها على طاعته. وقد أخذ العلماء من هذه الآية شاهدا على أن الأشياء التي فيها منافع مأذون فيها حتى يقوم دليل على حرمتها"[41]

ابوبکر احمد لکھتے ہیں:

There is no denying the importance of plants and animals as living resources of enormous benefit, without which neither man nor other species could survive.”[42]

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وفِيْ خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِنْ دَاۗبَّةٍ اٰيٰتٌ لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ "[43]

"اور تمہاری اپنی پیدائش میں، اور ان حیوانات میں جن کو اللہ (زمین میں) پھیلا رہا ہے، بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو یقین لانے والے ہیں۔ "

ساتویں صدی ہجری میں القزوینی (م 682) نے عجائب المخلوقات میں جانوروں کو سب سے بلند مقام دیا۔ [44]

علامہ احمد عبید الکبیسی رقمطراز ہیں:

"ينظر الإسلام إلى عالم الحيوان إجمالا ًنظرة واقعية ترتكز على أهميته في الحياة ونفعه للإنسان، وتعاونه معه في عمارة الكون واستمرار الحياة، ومن هنا كان الحيوان ملء السمع والبصر في كثير من مجالات الفكر والتشريع الإسلامي، ولا أدل على ذلك من أن عدة سور في القرآن الكريم وضع الله لها العناوين من أسماء الحيوان مثل سورة البقرة، والأنعام، والنحل، والنمل، والعنكبوت، والفيل"[45]

حیوانات کرہ ارض کے قدرتی ماحولیاتی نظام کا نہایت اہم حصہ ہیں۔

ایک انگریز مصنف لکھتاہے:

“The environment does not belong to man alone nor to the particular group of species he favors most; the environment is far all living things, and all are interconnected like a massive, intricate web. The maintenance of an environment that can serve the most complex web of life is not just an ethical imperative, it is vital to the everybody business of ruffed grouse and mule deer and woodcocks –and maybe ourselves.”[46]

ایکو سسٹم میں ہونے والی تبدیلیوںکی وجہ سے روزانہ (24 گھنٹوںمیں) پودوں، جانوروں، پرندوں، دوسرے آرگنزمز اور ممالیا کی 150 تا 200 انواع صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ روئے زمین پر سب سے زیادہ آلودگی ترقی یا فتہ ممالک پھیلا رہے ہیں، ان کی لگثری زندگی کی قیمت پوری دنیا کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ [47]

 اے- آر –آگوان لکھتے ہیں:

“By the close of the twentieth century, many large- scale human activities (i.e., industrialization, agriculture, urbanization, and transportation) had shown a tendency to alter the natural balance of biotic and abiotic components in rather stable ecosystem.”[48]

مذکورہ بالا عبارت سے ثابت ہوتا ہے۔ انسان کی منفی سرگرمیوں سے قدرتی ماحولیاتی نظام کو مسلسل اور ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

معاشی کردار Economic Role))

حیواناتی وسائل سے خوراک، چمڑا اور مختلف معاشی پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ حیواناتی وسائل کے معاشی نکتہ نظر سے مطالعہ کو سائنسی اصطلاح میں "اکنامک زوالوجی" کہا جاتا ہے۔

ڈکشنری آف بیالوجی میں حیوانات کے معاشی پہلو کو یوں بیان کیا گیا ہے:

“Refers to study of animals of importance to man, especially animals as sources of food , clothing , and various commercial products.”[49]

انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا میں حیوانات کی معاشی اہمیت :

“The breeding of domestic animals is a great industry that has been extraordinarily successful in producing breeds of ship, cattle, horses, dogs, poultry, fitted for all conditions and uses.”[50]

بھارت کے جغرافیائی امور کے ماہر "ایم ایس راؤ" حیوانات کے معاشی پہلو کا یوں تجزیہ کرتے ہیں:

“The rearing of cattle for milk, and the production of liquid milk (sale) , butter, cheese, and condensed, evaporated or dried milk. Pigs and poultry generally associated as sidelines.”[51]

مذکورہ بالا حقائق و شواہد سے حیوانات کے معاشی پہلو کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔

ایک انگریز مصنف لکھتا ہے:

“We eat, ride, shoot , fish, wear, trap, hunt, farm and experiment upon billions of animals world-wide-every year.”[52]

جدید سائنسی تحقیق(Modern Scientific Research)

قرآن مجید میں حیوانات پر سائنسی تعلیم و تحقیق کا پہلو:

" اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ"[53]

" ﴿یہ لوگ نہیں مانتے﴾ تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے ؟"

امام بیضاوی لکھتے ہیں:

"أَفَلا يَنْظُرُونَ نظر اعتبار. إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ خلقاً دالاً على كمال قدرته وحسن تدبيره حيث خلقها لجر الأثقال إلى البلاد النائية، فجعلها عظيمة باركة للحمل ناهضة بالحمل منقادة لمن اقتادها طوال الأعناق لينوء بالأوقار، ترعى كل نابت وتحتمل العطش إلى عشر فصاعداً ليتأتى لها قطع البوادي والمفاوز، مع مالها من منافع أخرى ولذلك خصت بالذكر لبيان الآيات المنبثة في الحيوانات التي هي أشرف المركبات وأكثرها صنعاً، ولأنها أعجب ما عند العرب من هذا النوع. وقيل المراد بها السحاب على الاستعارة"[54]

حیوانات خاص طور پر اونٹ کی پیدائش میں نسل انسانی کے لئے اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت کا پیغام پایا جاتا ہے۔ مذکورہ دلائل سےعلم حیوانات پر تعلیم و تحقیق اور ان پر غوروفکر کرنا کا حکم ثابت ہوتا ہے۔

ایک انگریز فلسفی رچرڈ اپنے تحقیقی مقالہ میں میڈیکل سائنس کے پہلو سے حیواناتی وسائل کی اہمیت یوں بیان کرتا ہے:

“It is a simple fact that many, if not most, of today`s modern medical miracles would not exist if experimental animals had not been available to medical scientists”[55]

ایک انگریز مصنف لکھتاہے:

“Scientists frequently make statements such as,Animal experimentations research , a critical part of efforts to prevent, cure, and treat a vast range of ailments.”[56]

مذکورہ دلائل و براھین سے ثابت ہوتا ہے کہ میڈیکل سائنس اور تجرباتی سائنس میں حیواناتی وسائل کا استعمال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

کھالیں (Skins)

کھالوں لئے عربی زبان میں "جلود" کہا جاتا ہے، جلود کی واحد جلد ہے۔ قرآن مجید میں مویشیوں اور چوپاؤں کھالوں (جلود) کا خاص مصرف بتایا گیا ہے۔

کلام الہی میں کھالوں کا مصرف یوں بتایا گیا ہے:

"وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُيُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ اِقَامَتِكُمْ ۙ وَمِنْ اَصْوَافِهَا وَاَوْبَارِهَا وَاَشْعَارِهَآ اَثَاثًا وَّمَتَاعًا اِلٰى حِيْنٍ "[57]

" اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لیے ایسے مکان پیدا کیے جنہیں تم سفر اور قیام، دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو۔ اس نے جانوروں کے صوف اور اون اور بالوں سے تمہارے لیے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کردیں جو زندگی کی مدت مقررہ تک تمہارے کام آتی ہیں۔ "

دورِ حاضر میں کھالوں کی قدروقیمت اس امر لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور دوسرے ممالک میں کھالوں سے تیار کردہ پوشاکوں، جیکٹوں اور دوسرے ممالک کو برآمد کر کے کثیر مقدار میں زرِ مبادلہ کمایا جاتا ہے۔ دنیا میں کھالوں یعنی چمڑے کا وسیع استعمال قدم قدم پر اس کی گواہی دے رہا ہے۔ خیموں سے بنے ہوئے گھروں کی وقعت بہت زیادہ ہے۔ دنیا کی آبادی کا بہت بڑا حصہ زمانہ قدیم میں خیموں سے تیار کردہ ڈیروں ہی میں بسر کرتا تھا اور اب بھی آبادی کا ایک بڑا حصہ خیموں میں بدوی زندگی بسر کررہا ہے۔ خانہ بدوشوں کی بڑی تعداد خیموں میں ہی زندگی بسر کررہی ہے۔ شکاریوں کو شکار اور سیاحوں کو سیاحت کے دوران خیموں سے ضرورت ہوتی ہے۔ یورپ میں کئی ادارے کیمپنگ کلب اور یوتھ کیمپنگ ایسوسی ایشن وغیرہ کے نام سے کام کررہے ہیں۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف کیمپنگ کلبس کے نام سے ایک عالمی ادارہ پایا جاتا ہے۔ اونٹ اور بھیڑ کے چمڑے سے ایسے خیمے بنائے جاتے ہیں جو اٹھانے میں ہلکے، گاڑنے میں سہل، انتہائی مضبوط، آرام دہ، دھوپ اور بارش سے پناہ دیتے ہیں۔ بعض خیمے خاص اہتمام سے تیار کئے جاتے ہیں، ان میں ایک ہی وقت میں پچاس آدمی رہائش اختیار کرسکتے ہیں۔ عہد نامہ عتیق میں متعدد مرتبہ خیموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ [58]

حیوانات کی اون نے دور ِ جدید میں چمڑے کی صنعت کاری کی ترقی میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ قالین بانی ایک اہم معاشی صنعت ہے۔ قالین بانی کے لئے خا م مال بھیڑ، بکری اور اونٹ کی اون سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اون کی کوالٹی جتنی بہتر ہوگی قالین اتنا ہی پائیدار اور معیاری ہو گا۔ حیواناتی اون کے ریشوں کو مختلف کیمیائی رنگوں میں رنگ کر قالین تیار کئے جاتے ہیں۔ جدید ترین تحقیقات کے مطابق قالین بانی کا آغاز 15 قبل مسیح میں ہوا۔ قالین بانی کا زیادہ تر کام مسلمانوں نے سر انجام دیا۔ پاکستان کے کراچی اور لاہور قالین بانی کا بزنس عروج پر ہے۔ پاکستان میں بنائے جانے والے قالین دوسرے ممالک کو برآمد کئے جاتے ہیں۔ ایران اور افغانستان کے بنے ہوئے قالین اپنی نفاست، خوبصورتی اور حسن میں اپنی مثال آپ ہیں۔[59]

غذائیت (Nutrition)

گوشت (Meat)

گوشت ایک اہم غذا ہے جو انسانوں اور حیوانات کے لئے عام ہے۔ اس لئے تما م ادیان و مذاہب میں حیوانات کا شکار اور انہیں ذبح کرکے ان کا گوشت کی اجاز ت ہے۔ دنیا کا کوئی عقیدہ ایسا نہیں ہے جس کی عبادت میں قربانی کافلسفہ نہ ہو۔ صرف ہندوستان کے بعض مذاہب میں بعض حیوانات کو ایذا پہنچانا حرام و ناجائز ہے۔ اس بارے میں اسلام کا نظریہ قربانی معتدل اور میانہ روی پر مشتمل ہے۔ اسلام نے اپنی رحمت سے حیوانات کو بھی محروم نہیں کیا۔ اسلام میں صرف غذاکی ضرورت کی حد تک حیوانات کے شکار اور ان کو ذبح کرکے گوشت استعمال کرنے کی اجاز ت دی گئی ہے۔ [60]گوشت کھانے سے مختلف قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ گوشت کھانے سے نظر تیز ہوتی ہے، انسان کی رنگت صاف ہوتی ہے، پیٹ کی سوجن میں کمی آتی ہے، گوشت نہ کھانے سے انسان کے اخلاق پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ امام ابن قیم ؒ نے حیوانات کے گوشت کی اہمیت و افادیت کے بارے میں مختلف مفکرین کے اقوال نقل کرتے ہیں:

"وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: أَكْلُ اللَّحْمِ يَزِيدُ سَبْعِينَ قُوَّةً. وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ وَاسِعٍ: اللَّحْمُ يَزِيدُ فِي الْبَصَرِ، وَيُرْوَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عنه: كُلُوا اللَّحْمَ فَإِنَّهُ يُصَفِّي اللَّوْنَ وَيُخْمِصُ الْبَطْنَ، وَيُحَسِّنُ الْخُلُقَ وَقَالَ نافع: كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا كَانَ رَمَضَانُ لَمْ يَفُتْهُ اللَّحْمُ، وَإِذَا سَافَرَ لَمْ يَفُتْهُ اللَّحْمُ. وَيُذْكَرُ عَنْ علي مَنْ تَرَكَهُ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً سَاءَ خُلُقُهُ"[61]

مذکورہ بالا مفکرین کی آراء سے یہ حقیقت بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ گوشت چونکہ حیواناتی وسائل سے ممکن الحصول ہوتا ہے اس لئے حیواناتی وسائل کا وجود انسانی صحت و تندرستی کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

ابن قیم ؒ رقمطراز ہیں:

" أَنْفَعُ الشِّوَاءِ شِوَاءُ الضَّأْنِ الْحَوْلِيِّ، ثُمَّ الْعِجْلِ اللَّطِيفِ السَّمِينِ، وَهُوَ حَارٌّ رَطْبٌ إِلَى الْيُبُوسَةِ، كَثِيرُ التَّوْلِيدِ لِلسَّوْدَاءِ، وَهُوَ مِنْ أَغْذِيَةِ الْأَقْوِيَاءِ وَالْأَصِحَّاءِ وَالْمُرْتَاضِينَ، وَالْمَطْبُوخُ أَنْفَعُ وَأَخَفُّ عَلَى الْمَعِدَةِ، وَأَرْطَبُ مِنْهُ، وَمِنَ الْمُطَجَّنِ"[62]

 سب سے عمدہ بھنا ہوا گوشت ایک سال کے بکرے کا ہوتا ہے۔ پھر نرم بچھڑے کا جو صحت مند ہو۔ اس مزاج گرم مرطوب ہوتا ہے جبکہ یہ خشکی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ بدن میں مادہ تولید پیدا کرتا کرتا ہے۔ درحقیقت یہ صاحب قوت اور صحت مند لوگوں کی خوراک ہے۔ پکا ہوا گوشت معدے کے لئے ہلکا اور زیادہ نافع ہوتاہے۔ یہ بھنے ہوئےاور کڑھائی گوشت سے زیادہ مرطوب ہوتا ہے۔

ایک انگریز سکالر زیادہ گوشت خوری نقصانات یوں بیان کرتا ہے:

“A vegetarian diet not only spares animals suffering and death, but is far healthier than a diet high in animal flesh. The cholesterol and saturated fat found in meat, coupled with countless dugs, pesticides, and other chemical substances fed to farm animals, pose a serious threat to human health.”[63]

بعض حضرات گوشت کو خوراک میں شامل کرنا درست خیال نہیں کرتے۔ گوشت خوری انسان کی غلطی ہے اور نہ محض تفریحی مشغلہ، بلکہ گوشت کے متعلق دنیا کی تمام طبوں کی تحقیق اور ریسرچ یہ ہے کہ یہ ایک بہترین غذا ہے۔ آیورویدک اطبا کا نظریہ بھی اس مسئلہ میں کسی سے مختلف نہیں۔ انسانی فطرت بھی اسے عزیز رکھتی ہے۔ دنیا بھر کی تمام ماہرین طب نے گوشت خوری کی یکساں اہمیت و افادیت کا اعتراف و اقرار کیا ہے اور اسے انسان کی سب سے بڑی غذا مانا ہے۔ اسلام میں بعض حیوانات کا گوشت کھانا حلا ل و جائز ہے جبکہ بعض حیوانات کا گوشت حرام و ناجائز ہے۔ تما م گوشت خور جانوروں کا گوشت حرام ہے جن کے دانت تیز ہوں اور پنجوں والے پرندوں کاگوشت حرام ہے۔ بعض حیوانات کے گوشت کے حلا ل و حرام ہونے پر فقہاء کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

سارے حلال و جائز جانوروں کے گوشت لذیذ و مفید ہوتے ہیں۔ بکری، دنبے، بچھڑے، ہرن، جنگلی بکرے، تیتر، بٹیر، مرغ وغیرہ کا گوشت ذائقہ اور طبی فائدہ کے لحاظ سے قوت بخش ہوتا ہے۔ محققین کے مطابق دنیا کے تمام کھانوں سے بڑھ کر مچھلی کے گوشت میں لذت ہوتی ہے۔ توریت و انجیل دونوں میں گوشت کا ذکر کثرت سے پایا جاتا ہے۔ گوشت کے حلال و حرام کی تمیز و تفریق قرآن مجید کی طرح توریت میں بھی پائی جاتی ہے۔ بعض مشرکانہ مذاہب میں گوشت خوری اور حیوانات کے ذبح کو یکسر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ قدیم و جدید مشرقی، طبی تجربات و تحقیقات کی اکثریت گوشت کی غذائی حیثیت تسلیم کرتی ہے جبکہ مقدار میں اعتدال وتوازن ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ گوشت کو خشک کر کے رکھنا اور اسے چلاتے رہنے کا طریقہ وحشی اقوام سے چلا آ رہا ہے اور اب مختلف مسالوں سے تیار کیا ہوا خشک گوشت ڈبوں میں بند کرکے یورپ، ایشیا، امریکہ، افریقہ، آسٹریلیا تمام براعظموں میں بڑی کثرت سے بکتا اور بڑی رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ [64]گوشت دنیا اور جنت کے تمام کھانوں کا چیف ہے۔ گوشت کے سالن کو بہترین سالن قرار دیا جاتا ہے۔

ارشاد نبوی ؐہے:

"عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "سَيِّدُ طَعَامِ أَهْلِ الدُّنْيَا وَأَهْلِ الْجَنَّةِ اللَّحْمُ"[65]

مذکورہ بالا رایت سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں لوگوں کے لئے کھانوں کا سردار گوشت ہے۔

"عن عائشة قالت: قال رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلم: لا تَقطَعُوا اللحْم بالسِّكِّين، فإنّه مِن صَنيعِ الأعاجمِ، وانهَسُوه فإنه أهناُ وأمرأُ"[66]

مذکورہ بالا روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺنے چھری کے ساتھ کھانے سے منع فرما دیا تھا یہ عجمیوں کا طریقہ تھا، اور فرمایا دانتوں سے کاٹ کر کھاؤ کیونکہ اسطرح گوشت زیادہ مزیدار محسوس ہوتا ہے۔ تاہم امام البانی ؒنے اس حدیث کو ضعیف قراردیا ہے۔

حلا ل پرندوں کی تعداد بے شمار ہے۔ جانوروں کا گوشت پرندوں کا گوشت جلدی ہضم ہو جاتا ہے۔ حلال پرندوں میں سب سے اہم مرغی کا گوشت ہے۔ مرغی کے گوشت کے بارے صیح بخاری میں حدیث مبارکہ موجود ہے جبکہ امام بخاری ؒ نے مرغی کے گوشت کے نام سے باب باندھا ہے۔

حدیث میں آتا ہے:

" عَنْ أَبِي مُوسَى يَعْنِي الأَشْعَرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ دَجَاجًا"

حضرت موسیٰ اشعری (رض) کی بیان کردہ مذکورہ روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مرغی کا گوشت کھایا ہے۔ چڑیا گوشت گرم اور خشک مزاج ہوتا ہے۔ اس کا شوربہ جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔

ارشاد نبوی ﷺ ہے:

" مَا مِنْ إِنْسَانٍ يَقْتُلُ عُصْفُورًا فَمَا فَوْقَهَا بِغَيْرِ حَقِّهَا إِلَّا سَأَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا حَقُّهَا؟ قَالَ: حَقُّهَا أَنْ يَذْبَحَهَا فَيَأْكُلَهَا وَلَا يَقْطَعَ رَأْسَهَا فَيَرْمِيَ بِهِ"[67]

حدیث بالا کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص بھی چڑیا کو حق کے بغیر قتل کرے گا تو قیامت کے روز اسے اس گناہ کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ لوگوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! اس کا حق کیا ہے؟آپﷺنے فرمایا: اس کا حق یہ ہے کہ اسے ذبح کر کے کھایا جائے۔ ٹڈی کا گوشت خشک اور گرم مزاج ہوتا ہے۔ اس میں غذائیت انتہائی کم ہوتی ہے۔ ٹڈی کا گوشت زیادہ عرصے تک مسلسل استعمال انسان کےصحت کے لئے مفید نہیں۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں:

" قَرَّبَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَنْبًا مَشْوِيًّا، فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، وَلَمْ يَتَوَضَّأْ "[68]

حضرت ام سلمہ (رض) نے آپﷺکے سامنے بکرے کے ایک پہلو کا بھنا ہوا گوشت رکھا تو آپﷺ نے اس سے گوشت کھایا اور وضو کئے بغیر نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔ پتہ چلا کہ بکرے کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ بکرے کے گوشت کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے اس گوشت میں سے کھایا ہے۔ مختلف حیوانات کے گوشت کا فائدہ اور غذائیت اس کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ وحشی حیوانا ت کے گوشت میں سے ہرن کا گوشت سب سے عمدہ اور لذیذ ہے۔

ابن سینا اپنی معروف تالیف "القانون فی الطب" میں لکھتے ہیں:

"وَخير لُحُوم الْوَحْش لحم الظباء مَعَ ميله إِلَى السوداوية"[69]

مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ وحشی جانوروں میں سے ہرن کا گوشت کا گوشت سب سے عمدہ ہوتا ہے۔ ہرن کا گوشت کھانے سے بدن میں سوادی مادے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مرطوب مزاج لوگوں کے لئے بہترین غذا ہے کیونکہ یہ پہلے درجے میں گرم اور خشک ہوتا ہے۔

خرگوش کا گوشت ایک اہم حیواناتی وسیلہ ہے۔ خرگوش کا گوشت معتدل گرم مزاج اور خشک ہوتا ہے۔ خرگوش کاگوشت استعمال کرنے سے جسم سے پتھریاں خارج ہوجاتی ہیں اور پیشاب کھل کرآ تا ہے۔ رعشہ کی بیماری میں اس کا گوشت فائدہ دیتا ہے۔ احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے خرگوش کا گوشت استعمال کیا ہے۔

بخاری شریف کی حدیث ہے:

" عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَنْفَجْنَا أَرْنَبًا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ، فَسَعَى القَوْمُ، فَلَغَبُوا، فَأَدْرَكْتُهَا، فَأَخَذْتُهَا، فَأَتَيْتُ بِهَا أَبَا طَلْحَةَ، فَذَبَحَهَا وَبَعَثَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَرِكِهَا أَوْ فَخِذَيْهَا قَالَ: فَخِذَيْهَا لاَ شَكَّ فِيهِ فَقَبِلَهُ "، قُلْتُ: وَأَكَلَ مِنْهُ؟ قَالَ: وَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ بَعْدُ: قَبِلَهُ[70]

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے خرگوش کا گوشت قبول فرمایا اور کھایا۔

چربی (Fat)

چربی (شحم) ایک اہم حیواناتی وسیلہ ہے جو قدرتی طور پر کاربن، ہائیڈروجن اور آکسیجن کا معروف کیمیائی مرکب ہے، چربی عموماً پانی میں حل نہیں ہوتی جبکہ بنزول، کلوروفارم، ایتھر وغیرہ میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ بعض لوگ گھی یا تیل کی بجائے حیوانی چربی میں کھانا پکاتے ہیں، جس کا صحت پر اچھا اثر نہیں ہوتا، بعض جانوروں کی چربی کھانے میں خصوصی طور پر لذیذ اور مزیدار ہوتی ہے۔ عہد نامہ جدید اور عہد نامہ قدیم میں چربی کا تذکرہ کثرت سے آیا ہے۔ [71]

" عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: دُلِّيَ جِرَابٌ مِنْ شَحْمٍ يَوْمَ خَيْبَرَ قَالَ: فَأَتَيْتُهُ فَالْتَزَمْتُهُ قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ: لَا أُعْطِي مِنْ هَذَا أَحَدًا الْيَوْمَ شَيْئًا. قَالَ: فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَسَّمُ إِلَيَّ"[72]

حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت ہے: مجھے غزوہ خیبر کے موقع پر چربی سے بھرا ہوا مٹکا کہیں سے مل گیا تو میں نے کہا کہ میں اس میں سے کسی کو کچھ کو نہیں دوں گا۔ سر اٹھا کر دیکھا کہ رسو ل اللہ ﷺ مسکر ا رہے تھے۔

امام ابن قیم ؒ رقمطراز ہیں:

" أَجْوَدُ الشَّحْمِ مَا كَانَ مِنْ حَيَوَانٍ مُكْتَمِلٍ، وَهُوَ حَارٌّ رَطْبٌ، وَهُوَ أَقَلُّ رُطُوبَةً مِنَ السَّمْنِ، وَلِهَذَا لَوْ أُذِيبَ الشَّحْمُ وَالسَّمْنُ كَانَ الشَّحْمُ أَسْرَعَ جُمُودًا، وَهُوَ يَنْفَعُ مِنْ خُشُونَةِ الْحَلْقِ، ويرخي ويعفن، ويدفع ضرره بالليمون المملوح، وَالزَّنْجَبِيلِ"[73]

سب سے عمدہ چربی جوان جانور سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کا مزاج گرم اور مرطوب ہوتا ہے اوراس میں گھی سے کم رطوبت ہوتی ہے۔ یہ گھی سے جلدی پگھل جاتی ہے۔ یہ گلے کی سختی دور کرنے کےلئے نافع ہے اور گلے کو نرم کر دیتی ہے۔

دودھ (Milk)

دودھ ایک اہم حیواناتی وسیلہ ہے۔ دودھ کو مکمل غذا کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں دودھ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ارشاد نبوی ؐہے:

" وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ"[74]

" اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے۔ "

 دودھ کی اہمیت و افادیت صرف دنیا تک محدودنہیں بلکہ جنت میں بھی دودھ مہیا کیا جائے گا۔ قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں دودھ کے ایسے دریا ہوں گے جن ذائقہ تبدیل نہیں ہوگا۔

امام ابن قیم ؒ لکھتے ہیں:

"اللَّبَنُ: وَإِنْ كَانَ بَسِيطًا فِي الْحِسِّ، إِلَّا أَنَّهُ مُرَكَّبٌ فِي أَصْلِ الْخِلْقَةِ تَرْكِيبًا طَبِيعِيًّا مِنْ جَوَاهِرَ ثَلَاثَةٍ: الْجُبْنِيَّةُ، وَالسَّمْنِيَّةُ، وَالْمَائِيَّةُ، فَالْجُبْنِيَّةُ: بَارِدَةٌ رَطْبَةٌ، مُغَذِّيَةٌ لِلْبَدَنِ، وَالسَّمْنِيَّةُ: مُعْتَدِلَةُ الْحَرَارَةِ وَالرُّطُوبَةِ مُلَائِمَةٌ لِلْبَدَنِ الْإِنْسَانِيِّ الصَّحِيحِ، كَثِيرَةُ الْمَنَافِعِ، وَالْمَائِيَّةُ: حَارَّةٌ رَطْبَةٌ، مُطْلِقَةٌ لِلطَّبِيعَةِ، مُرَطِّبَةٌ لِلْبَدَنِ، وَاللَّبَنُ عَلَى الْإِطْلَاقِ أَبْرَدُ وَأَرْطَبُ مِنَ الْمُعْتَدِلِ. وَقِيلَ: قُوَّتُهُ عِنْدَ حَلْبِهِ الْحَرَارَةُ وَالرُّطُوبَةُ وَقِيلَ: مُعْتَدِلٌ فِي الْحَرَارَةِ وَالْبُرُودَةِ"[75]

دودھ پنیر، گھی اور پانی کا مرکب ہے۔ پنیر والا مادہ بدن کو غذائیت فراہم کرتا ہے، گھی والا مادہ بہت فوائد کا حامل ہوتا ہے اور جسم کی ملائم کرتا ہےجبکہ پانی والا مادہ بدن میں رطوبت پیدا کرتا ہے۔ تازہ دودھ گرم مرطوب ہوتا ہے۔ گائے کے دودھ کا استعمال پوری دنیا میں مفید و نافع سمجھا جاتا ہے۔ گائے کا دودھ حاصل کرنے کے لئے بڑے بڑے ڈیری فارم بنائے جاتے ہیں جبکہ دودھ ایک صنعت کا درجہ اختیار کر گئی ہے۔

اس ضمن میں ایک انگریز مصنف لکھتا ہے:

“Dairy cows are milked in stalls, usually twice a day. This is so farmers can use modern milking equipment, and to protect the cow and the farmer. Placing the cows in these stalls during milking also facilitates medical treatment of an animal weighing more than 1200 lbs.”[76]

حدیث مبارکہ میں گائے کا دودھ استعمال کرنے کی ہدایت ہے کیونکہ اس کے دودھ میں مختلف قسم کی بیماریوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے شفا رکھی ہے۔

ارشادِ نبوی ﷺ ہے:

" عَن عَبد الله بن مسعود، قال قال رسول الله صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم: تداووا بألبان البقر فإني أرجو أن يجعل الله فيه شفاء، أَو بركة فإنها تأكل من كل شجرة"[77]

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت سے ثابت ہوا کہ گائے کا دودھ میں اللہ تعالیٰ نے اس شفا اور برکت رکھی ہے، یہ نباتات چرتی ہے۔ گائے کا دودھ غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے اور جسم کے لئے مفید ہوتا ہے۔

مکھن (Butter)

مکھن اہم حیواناتی وسیلہ ہے۔ مکھن کو عربی زبان میں زبد کہتے ہیں۔ مکھن دودھ کو ایک مخصوص عمل سے گزار کر حاصل کیا جا تا ہے۔ دیہاتی زندگی میں ناشتے میں مکھن کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ رسول کریم ﷺ مکھن کھانا پسند کرتے تھے کیونکہ مکھن طبی فوائد کی حامل غذا ہے۔

حدیث مبارکہ میں آتا ہے:

" حدَّثنا الوليدُ بنُ مَزْيَد، سمعتُ ابنَ جابر، حَدَّثني سُلَيمُ بنُ عَامرٍ عن ابني بُسْرٍ السُّلميَّين، قالا:

دَخَلَ علينا رسولُ الله - صلَّى الله عليه وسلم - فقَدَّمْنا زُبْداً وتمراً، وكان يُحِبُّ الزُّبْدَ والتَّمَر"[78]

 مکھن اور کجھور آپﷺ کی پسندیدہ چیزیں تھی۔ مکھن گرم اور مرطوب مزاج رکھتا ہے۔ مکھن پٹھوں کو نرم کرنے، جسم کی خشکی دور کرنے اور جسم کے مختلف اعضا ء کی سوجن دور کرنےکے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ حیوانات کے دودھ سے حاصل کیے جانے والے گھی کو عربی زبان میں سمن کہا جاتا ہے۔ گھی مکھن سے زیادہ مؤثر و مفید ہوتا ہے۔

شہد (Honey)

شہد بہترین دوا اور غذاہے۔ شہد کو عربی زبان میں "العسل"کہا جاتا ہے۔ شہد ایک بہترین ٹانک اور دوا ہے۔ شہد کے استعمال سے جسمانی قوتیں بحال، معدہ طاقتور اور بھوک بڑھاتا ہے۔ صبح نہار منہ پینے سے پیٹ، گردوں اور جگر کی صفائی ہو جاتی ہے۔ پانی میں حل کر کے استعمال کرنے سے گردہ اورمثانہ کی پتھری توڑتا ہے۔ کمزوری، بلغم اور جوڑوں کے درد میں انتہائی مفید ہے۔ [79]

انڈہ (Egg)

انڈہ ایک اہم حیواناتی وسیلہ ہے۔ انڈے کو عربی زبان میں "بیض " کہا جاتا ہے۔ انڈے مزاج معتدل ہے جبکہ انڈے کی زردی گرم مرطوب ہوتی ہے۔ مرغی کا انڈہ سب سے اچھا ہوتا ہے۔ انڈہ بدن کی کمزوری دور کرتا ہے۔ انڈہ دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر انسانی خوراک کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ انڈہ دینے والی مرغیوں کے لئے پولٹری فارم بنائے جاتے ہیں۔ پولٹری فارمنگ ایک صنعت کا درجہ اختیار کی چکی ہے۔

 ایک انگریز مصنف لکھتا ہے:

“Laying hens are kept in cages to ensure adequate feed and water reaches every bird every day ant to facilitate egg collection. It allows the farmer to care for more birds efficiently and produce the millions of eggs consumers’ value each year.”[80]

ابو نعیم اصفہانی ؒ روایت نقل کرتے ہیں:

"أن رجلا شكى إلى النبي صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم قلة الولد فأمره النبي صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم بأكل البيض[81]

درج بالا روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺسے اولاد کی قلت کی شکایت کی تو آپﷺ نے اسے انڈہ کھانے کی تلقین و تاکید کی۔

صاحب"القانون فی الطب" رقمطراز ہیں:

" أفضله الطري من بيض الدَّجَاج وَأفضل مَا فِيهِ محّه وَأفضل صَنعته أَن لَا يعْقد بالشي وَبعد بيض الدَّجَاج بيض الطير الَّذِي يجْرِي مجْرَاه كالتدرج والدّرّاج والقبج والطيهوج فَأَما بيض البط وَنَحْوه فَهُوَ رَدِيء الْخط"[82]

مذکورہ بالا عبارت سے انڈے کی افادیت و منعفت ثابت ہوتی ہے۔ افضل انڈہ مرغی کا ہوتا ہےجبکہ انڈے میں بہترین چیز انڈے کی زردی ہے۔

محمد بن ذکریا الرازی اپنی تالیف "الحاوی فی الطب" میں انڈے کی افادیت بیان کرتے ہیں:

" إِذا خلط الأفيون بصفرة بيض مشوي وزعفران كَانَ صَالحا لأورام الْعين الحارة"[83]

مذکورہ عبارت سے عیاں ہوتا ہے کہ انڈے کا استعمال آنکھوں کے امراض کے لئے مفید و نافع ہے۔

حیوانات کا تحفظ

حیاتیاتی تنوع (Biodiversity)

دنیا میں موجود پودے، جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے، پہاڑ، دریا، سمندروغیرہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اوران سب میں ایک توازن ہے۔ پودے انسان کے ضروری ہیں، ایسے ہی پودوں کے لیے انسان اورباقی تمام نباتات ضروری ہیں۔ ان سب نے مل کر ایک سرکل بنا یا ہوا ہے۔ ان کی تعداد و مقدار میں ایک توازن ہے۔ اسی توازن سے زندگی پہیہ رواں دواں ہے۔ ان میں جب کوئی قسم کم یا ناپید ہو جائے تو پوری انواع کو نقصان پہنچتا ہے۔ توازن کا بگڑنا حیاتیاتی تنوع کہلاتا ہے۔ اسے روکنا یا توازن سے بگڑنے سے بچانے کے اقدامات کرنا انسان کی ذمہ داری ہے۔ اگر اسے نہ روکا گیا تو یہ دنیا انسان کے رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔ انسان اپنے ذاتی اور عارضی مفاد کی خاطر اس توازن کو بگاڑنے میں مصروف ہے۔ حیاتیاتی تنوع عالمی مسئلہ ہے۔ دنیا بھر میں انسان کی منفی سرگرمیوں کی وجہ سے پرند و چرند کی بہت سی اقسام ناپید ہو رہی ہیں۔ انسائیکلوپیڈک ڈکشنری آف سائنس میں ہے کہ:

“pollution that threatens living organisms or alters the environment; controlling activities that lead to soil erosion, or to irreversible changes in the global environment, such as the removal of tropical rainforest ; preventing the hunting of endangered animals.[84]

معروف محقق ابو بکر احمد اظہار خیال کرتے ہیں:

“The absolute destruction of any species of animal or plant by man can in no way be justified; nor should any be harvested at a rate in excess of its natural regeneration. This applies to hunting and fishing, forestry and woodcutting for timber and fuel...”[85]

انگریز مصنف ڈیوڈ ایل لکھتے ہیں:

“Singer argues that because animals have nervous systems and can suffer just as humans can, it is wrong for humans to use animals for research, food, or clothing.”[86]

ایکو سسٹم میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے روزانہ (24 گھنٹوں میں) پودوں، جانوروں، پرندوں اور دوسری جاندار اشیا ء کی 150 تا 200 انواع صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ روئے زمین پر سب سے زیادہ آلودگی نام نہاد ترقی یا فتہ ممالک پھیلا رہے ہیں، افسوسناک امر یہ ہے کہ ان نام نہاد ممالک کی پرآسائش زندگی کی قیمت پوری انسانیت ادا کررہی ہے۔ [87]انسائیکلوپیڈک ڈکشنری آف سائنس میں حیوانات کے تحفظ کے بارے میں بیان کیاگیا ہے:

“In severely damaged environments conservationists now aim to preserve islands of virgin habitat linked by “corridors” of relatively undisturbed vegetation along which migration can take place, so that large animals have an adequate home range and smaller ones can recolonize areas where they have died out after a period of local adverse conditions.”[88]

مسلم دنیا کے ممتاز سکالر ہارون یحییٰ لکھتے ہیں:

“There are a number of auto- control systems that help keep the atmospheric temperature in balance. For example when a region heats up ,the rate of which its water vaporizes increases ,causing clouds to form these clouds reflect more light back into space, preventing both the air and surface below from getting warmer.”[89]

 ڈاکٹر قبلہ ایاز لکھتے ہیں:

“Uncontrolled hunting of wild animals and such other greedy steps have resulted in creating disorder in the biodiversity.”[90]

ایک انگریز مصنف حیوانات کے تحفظ کے بارے میں اپنے رائے کا اظہار اسطرح کرتا ہے:

“Through the intelligent use of the resource, we approach a maximum sustained yield without damage to any species of animal. Without the management tool, the resource is simply wasted.”[91]

مغربی دنیا اور حیوانات کا تحفظ

چند صدیاں قبل مغرب میں حیوانات کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار ہوا ہے۔ کئی ادارے حیوانات کے حقوق و تحفظ کے لئے کام کررہے ہیں اور تحفظ حیوانات کے قوانین منظور کروا رہے ہیں۔ سب سے پہلے امریکہ میں حقوقِ حیوانات کا قانون 1641ء میں منظور ہوا۔ 1822ء میں Richard Martin نے سکاٹ لینڈ میں گھریلو اور پالتو جانوروں کے تحفظ کا قانون پاس کروایا جو مارٹن ایکٹ کے نام سے معروف ہوا۔ انگلینڈمیں Animal Welfare Society دنیا کی سب سے پہلی تحفظ ِحیوانات کی سوسائٹی قائم ہوئی۔ 1845ء میں فرانس میں General Jacues Society for the Protection of Animals کے نام حیوانات کے تحفظ کے لئے ادارہ قائم کیا گیا۔ 1850ء میں Law Grammont کے نام سے انگلینڈ میں تحفظ ِ حیوانات کا قانون منظور ہوا۔ نیدرلینڈ، آسٹریا، بلجیم، جرمنی میں حیوانات کے تحفظ اور حقوق کی پاسداری کے لئے قوانین منظور ہوئے اور مختلف اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ امریکہ کی تحفظ ِ حیوانات کے حوالے سے پہلی سوسائٹی کا نام The American Society For The Prevention of Cruelty to Animals ہے جو 1866ء میں قائم ہوئی۔ 20 ویں صدی عیسوی کے آخر میں دنیابھر کے تقریباً تمام ممالک میں حیوانات کے تحفظ کے لئے تنظیمیں قائم ہوئیں اور قوانین کی منظوری عمل میں آئی۔

تحفظ ِ حیوانات کے ادارے

AAVS

The American Anti-Vivisection Society[92]

1

AALAS

American Association for Laboratory Animal Science[93]

2

AAZK

American Association of Zoo Keepers[94]

3

FACT

Food Animals Concerns Trust[95]

4

HSUS

The Human Society of the United States[96]

5

IPPL

Internatinal Primate protection League[97]

6

ISAR

Internatioanal Society for Animal Rights[98]

7

WWF

World Wildlife Fund[99]

8

IBP

International Biological Programme[100]

9

حیوانات کا تحفظ اورقدیم اقوام

قدیم مذاہب اور معاشروں میں حیوانات کے تحفظ کے بارے میں نقطہ نظر افراط و تفریط شکار تھا۔ بعض اقوام حیوان پرستی کی طرف مائل تھیں جبکہ بعض اقوام و مذاہب حیوانات کو بے روح مخلوق گردانتے تھے۔ کئی مذاہب میں حیوانات کو دیوتاؤں اور دیویوں کا درجہ حاصل تھا۔ دیوی دیوتاؤں کو ظاہر کرنے کے لئے مختلف جانوروں کے مجسمے بنائے جاتے تھے۔ بعض حیوانات اور ان کی مورتیوں کو تقدس کا درجہ حاصل تھا اور ان کی پوجا بھی کی جاتی تھی۔ [101] قدیم مصر میں گائے کو مقدس جانور کا درجہ حاصل تھا۔ اسی طرح ہندوستان میں ہندو مذہب میں گائے کو مقدس جانور سمجھا جاتا ہے اور اس کا ہرطرح سے تحفظ کیا جاتا ہے۔ بعض فلسفی حیوانات کے بغیر روح کے مخلوق قرار دیتے تھے۔ فرانس کا فلسفی Rene Descarles کا نظریہ ہے کہ حیوانات میں روح نہیں پائی جاتی۔ وہ حیوانات کو چلتی ہوئی مشینیں قرار دیتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ ان کو درد اور تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔ انگریز قانون دانJeremy Bentham بھی جانوروں کے بے روح ہونے کے فلسفے کا قائل تھا۔ [102]سلطنت روما میں حیوانات کو آپس لڑانے کے لئے بڑے بڑے میدان تشکیل دیئے تھے۔ لوگ جانوروں کے اس وحشیانہ اور خونی کھیل کو دیکھنے کے لئے دور دراز سے تشریف لاتے تھے۔ حیوانات کے حقوق کا ذرا بھر خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ قدیم اقوام و مذاہب میں حیوانات کے حقوق و تحفظ کے بارے میں معتدل رویہ کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اسلام ہی وہ واحد دین ِفطرت ہے جس نے حیوانات کے تحفظ کے سلسلے میں اعتدال پر مبنی اصول و آداب متعارف کروائے۔ تحفظ ِ حیوانات کے سادہ اسلامی اصولوں کے نفاذ سے ناپید ہوتی ہوئی حیوانات کی انواع پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

حیوانات کا تحفظ اور اسلام

دنیا میں انسان کے وجود کے ساتھ ہی حیوانات کا بھی وجود پایا جاتا ہے۔ ان حیوانات سے انسان مختلف طریقوں سے نفع اٹھاتا ہے۔ حیوانات کے تحفظ کے حوالے سے گذشتہ صدی سے ملکی اور عالمی سطح پر بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اپنی خدمات دے رہے ہیں۔ ان اداروں نے حیوانات کے تحفظ کے لئے بعض قوانین بھی منظور کروائے۔ چونکہ اسلام گوشت خوری کے جواز کا قائل ہے اس لئے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اسلام میں حیوانات کو جینے کا حق نہیں دیا جاتا اورنہ ہی اسلام ٰحیوانات کے تحفظ کا ضامن ہے۔

اسلام حیوانات کے تحفظ کے بارے انتہائی معتدل اور فطری رویہ اپنانے کےاحکام پیش کرتا ہے۔اسلام نہ تو نسلِ انسانی کو حیوانات کی پرستش کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور نہ ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات انسان جیسی اشرف المخلوقات کو حیوانات کے سامنے اپنی جبینِ نیاز خم کرنے سے روکتا ہے اور حیوانات کی حقوق و تحفظ کے جامع اور قابلِ عمل اصول متعارف کرواتا ہے۔ اسلام میں حیوانات کے تحفظ کا ہمہ جہت نظریہ پایا جاتا ہے۔ متعدد اسلامی تعلیمات حیوانات کے تحفظ پر دلیل ہیں۔

 ارشاد باری تعا لیٰ ہے:

"حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ ۭ وَمَآ اٰمَنَ مَعَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلٌ"[103]

"یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا " ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی۔ سوائے ان اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ "

مذکورہ بالا آیت قرآنی سے حیوانات کے تحفظ کا حکم ثابت ہوتا ہے۔

کلامِ الہی فرماتا ہے:

"وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ"[104]

"اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔ "

امام الانبیاء ﷺسارے جہانوں اور اس میں پائے جانے والی تمام مخلوقات جن وانس اور حیوانات کے لئے رحمت ہیں۔ آپﷺکی سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کا تحفظ بھی کیا۔

تشددکی ممانعت (Prohibtion of Cruelty)

اہل اسلام پر جانوروں کے تحفظ کے کے لئےان سے اچھا سلوک کرنا واجب و ضروری قرار دیا گیا ہے کیونکہ آخرت کی زندگی میں جانوروں پر ظلم و ستم کی پاز پرس کی جائےگی۔ انسانوں کی طرح حیوانات کی طرح دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور دنیاوی زندگی میں انسانوں کی طرف سے کئے گئے ظلم کا بدلہ چکا یا جائے گا۔ [105]قرآن مجید باور کراتا ہے کہ حیوانات بھی قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور اٹھائے جائیں گے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ"[106]

"زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں، ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں۔ "

سنن نسائی کی روایت میں ہے:

 " مَنْ قَتَلَ عُصْفُورًا عَبَثًا عَجَّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ: يَا رَبِّ، إِنَّ فُلَانًا قَتَلَنِي عَبَثًا، وَلَمْ يَقْتُلْنِي لِمَنْفَعَةٍ "[107]

درج بالا روایت کے مطابق جو کسی چڑیا کو بلاوجہ قتل کرے گا تو چڑیا اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے شکایت کرے گی کہ اے میرے اللہ اس شخص نے مجھے بیکار میں قتل کر دیا جبکہ مجھ سے کوئی نفع نہیں اٹھا یا۔ مذکورہ روایت سے حیواناتی وسائل کے تحفظ کا اسلامی اصول ثابت ہوتا ہے۔

نشانہ بازی (Shooting Practice)

ظہورِ اسلام سے قبل حیوانات کو نشانہ بازی کی مشق کے لئے استعمال کیاجاتا تھاجبکہ اس کے برعکس اسلام حیوانات پر نشانہ بازی سے سختی سے منع کرتا ہے۔ اسلام میں حیوانات کے تحفظ کے لئے درس دیا گیا ہے کہ حیوانات کو دکھ اور اذیت دینے والا دینے والا شخص لعنت و پھٹکار کا مستحق قرار پاتا ہے۔

صیح مسلم کی روایت ہے:

" عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: مَرَّ ابْنُ عُمَرَ بِفِتْيَانٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدْ نَصَبُوا طَيْرًا، وَهُمْ يَرْمُونَهُ، وَقَدْ جَعَلُوا لِصَاحِبِ الطَّيْرِ كُلَّ خَاطِئَةٍ مِنْ نَبْلِهِمْ، فَلَمَّا رَأَوْا ابْنَ عُمَرَ تَفَرَّقُوا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَنْ فَعَلَ هَذَا لَعَنِ اللهُ، مَنْ فَعَلَ هَذَا؟ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ مَنِ اتَّخَذَ شَيْئًا فِيهِ الرُّوحُ غَرَضًا"[108]

 کسی بھی حیوان کو نشانہ بنانے والا شخص اللہ تعالیٰ کی لعنت و پھٹکار کا مستحق ہوتا ہے۔ اسلام سے قبل عرب میں جانوروں کو باندھ کر ان پر تیر اندای کی مشق کی جاتی تھی۔ اسلام حیوانات کے لئے بھی رحمت ہے اس لئے کسی بھی جانور نشانہ بازی کے لئے تیر وں سے نشانہ منع کر دیا گیا ہے۔

صیح بخاری کی روایت ہے:

" عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَنَسٍ، عَلَى الحَكَمِ بْنِ أَيُّوبَ، فَرَأَى غِلْمَانًا، أَوْ فِتْيَانًا، نَصَبُوا دَجَاجَةً يَرْمُونَهَا، فَقَالَ أَنَسٌ: نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُصْبَرَ البَهَائِمُ"[109]

 مذکورہ روایت سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی جانور کو باندھ کر تیروں سے نشانہ بنا نا منع کیا گیا ہے۔ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور جانوروں کے حقوق و تحفظ کا ضامن و نگہبان ہے۔

چہرے پر مارنا(Beating on Face)

اسلام میں حیوانات کے چہرے پر مارنے کی ممانعت کی گئ ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حیوانات بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں۔

کتاب ِ الہی میں ہے:

" اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ "[110]

"کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سر بسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں ؟ سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان"

ارشاد نبوی ؐہے:

"عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَضْرِبُوا وُجُوهَ الدَّوَابِّ فَإِنَّ كُلَّ شَيْءٍ يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ"[111]

نبی کریم ﷺ کا حکم ہے کہ چو پاؤں کے چہروں پر نہ مارا جائے کیونکہ ہر جانوراللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرتاہے۔ اس سے حیوانات کے تحفظ پر ثابت ہے۔

اچھا برتاؤ ( Kindness to Animals)

اسلام میں حیوانات سے اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید و تلقین پائی جاتی ہےاور حیوانات کے حقوق سے غفلت برتنے پر جہنم کی سزا کی وارننگ دی گئی ہے۔

ارشاد نبویﷺ ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ، لَمْ تُطْعِمْهَا، وَلَمْ تَسْقِهَا، وَلَمْ تَتْرُكْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ"[112]

حضرت ابو ھریرہ (رض) کی روایت واضح کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق ایک عورت ایک بلی کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوگئی کیونکہ اس نے نہ بلی کو کھلایا، نہ پانی پلایا اور نہ ہی اس کو چھوڑا کہ وہ حشرات الارض میں کچھ کھا لے۔

حدیث میں ہے:

"عَن أبي هُرَيرة؛ أَنَّ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قَالَ: أكرموا المعزى وامسحوا رعامها فإنها من دواب الْجَنَّةَ."[113]

حضرت ابو ھریرہ ؓ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق بکروں سے عمدہ سلوک کرنا چاہیے اور ان کی تکالیف و مصائب کو دور کرنا چاہئے کیونکہ یہ جنت کے حیوانات میں سے ہیں۔

علامہ محمد رضا لکھتے ہیں:

" ولا تذبحوا شاة ولا بقرة ولا بعيراً إلا لمأكلة"[114]

خلیفہ اول حضرت ابو بکر نے مسلم فوج کے کمانڈر کو حکم دیا کہ بھیڑیا گائے کے علاوہ کھانے کی ضرورت کے بغیر کوئی جانور قتل نہ کیا جائے۔ ذبح کرنے سے منع کرکے جنگ جیسے خوفناک حالات میں حیواناتی وسائل کے تحفظ کا تاریخی درس دیا۔

حیوانات کے حقو ق و تحفظ پر تما م مسلم اکابرین متفق ہیں۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے گھر میں اس کی بلی کو اپنی مطلوبہ خوراک اورضروریات نہ ملیں اور جس کے گھر میں پنجرے میں بند پرندوں کی پوری طرح خبر گیری نہ ہو وہ کتنی ہی عبادت کیوں نہ کرے اس کا شمار محسنین میں نہیں ہو گا۔ تما م مخلوقات کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور خیرو بھلائی کے سے پیش آنا احسان کے مفہوم میں شامل ہے۔ حیوانات کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا مومن کی شان ہے

امام غزالیؒ اپنی تالیف "احیاءعلوم الدین" میں حیوانات کی اہمیت و افادیت اور قدروقیمت کے بارے میں کئی واقعات نقل کرتے ہیں۔ جیساکہ ریسرچ سکالر "یوسف یوسل"اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں:

“In his book Ihya Ulum ad-Din (The Revival of Religious Sciences) Al-Ghazali (1058-1111) mentions many stories about the kind treatment towards animals by the prophet, his companions and great scholars.”[115]

سید نورسی ؒ حیواناتی وسائل کو کائنات کا ضروری حصہ قرار دیتے تھے اورانہیں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

ریسرچ سکالر یوسف لکھتے ہیں:

“Nursi saw animals as a necessary part of the universe, cooperating just like the organs in body cooperate with each other. Just as nothing in the human body is purposeless or created in vain, he extended that purposefulness to all animals as well.”[116]

معروف صوفی بزرگ بہاءالدین نقشبندی ؒ حیوانات کے کرام و احترام میں کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔

ایک ریسرچ سکالر لکھتے ہیں:

“The Renowned Sufi leader Baha-ud-Din Naqshbandi (1318-1389) would stand up in respect when cows and horses passed him by in the streets.”

انسانی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ حیوانات کی کئی انواع و اقسام کرہ ارض سے تباہی کے دہانے پر ہیں۔

ایک انگریز مصنف اس ضمن میں رقمطراز ہے:

“As the human population increases, more and more animal species are threatened by reduced land availability , pollution , and poachers. These and other factors have pushed many species of animals to the brink of extinction.”[117]

قرآن میں حیوانات کا تذکرہ

1-ممالیہ (Mammals)

مویشی (Cattle)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Cattle

1-Scientific Name

Bos Taurus

8-Genus

Bos

7-Family

Bovidae

6-Order

Artiodactyla

5-Class

Mammalia

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَالْاَنْعَامَ خَلَقَهَا ۚ لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ "[118]

" اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی، اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی۔ "

قرآن مجید میں مویشی کا ذکر 28 مواقع پر مختلف حیثتوں سے آیا ہے۔ الانعام کا مفہوم وسیع ہے۔ بھیڑ، بکری، گائے، بیل، بھینس، اونٹ سب کے لئے یہی استعمال ہوتا ہے۔ قدیم صحائف میں امارت و خوشحالی کے سلسلہ میں مویشی کا تذکرہ متعدد بار آیا ہے۔ عہد نامہ جدید اور عہد نامہ قدیم میں بھی مویشی کا ذکر کثرت سے آیا ہے۔ زرعی علاقوں میں مویشی کی اہمیت و افادیت اظہر من الشمس ہے۔ مویشی انسان کے حق میں اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہیں۔ انسانی معیشت و معاشرت کے لئے مویشی لازمی اجزاء کی حیثیت رکھتے ہیں۔ [119]

علامہ الدمیریؒ فرماتے ہیں:

"كل ذات أربع من دواب البر والبحر. قاله ابن سيده. والجمع بهائم"[120]

خشکی یا سمندر میں رہنے والے ہر قسم کے چوپاؤں کو "بھیمہ"کہا جاتا ہے اور اس کی جمع "البھائم" ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيْمَةُ الْاَنْعَامِ"[121]

"تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے"

انعام چند مخصوص چوپاؤں کے لئے مخصوص ہے جبکہ بہیمہ ہر چرنے والے جانور کے عام ہے۔ بہیمہ کا لفظ قرآن مجید میں دو مقامات پر آیا ہے۔ اسلامی شریعت نے جنگلی اوراہلی جانور حلا ل ہی رکھے ہیں۔ اس عام قاعدہ و قانون سے صرف چند مستثنیٰ ہیں۔ شرکیہ مذاہب میں اکثر و بیشتر حیوانات کی تعظیم و تقدیس روا رکھی گئی ہے۔ قران مجید نے حیوانات کو انسان کی خوراک بتا کر حیوان پرستی پر کاری ضرب لگائی ہے۔

علامہ الدمیریؒ "الانعام" کی وضاحت کرتے ہیں:

" فأضاف الجنس إلى ما هو أخص منه، وذلك أن الأنعام هي الثمانية الأزواج وما أضيف إليها من سائر الحيوان. يقال له أنعام مجموعة معها وكأن المفترس كالأسد وكل ذي ناب خارج عن حد الأنعام فبهيمة الأنعام هي الراعي من ذوات الأربع"[122]

الانعام (مویشیوں) کی نسبت کچھ صفات کے باعث "البھیمہ"کے ساتھ کی گئی ہے۔ الانعام (مویشی) آٹھ اقسام و انواع کے ہیں، ان میں سے ہر کوئی "انعام" کہلاتا ہےان مویشیوں کے مجموعے کو انعام کہا جاتا ہے۔ درندے مثلاً شیر اور ہر کچلی والے جانور "انعام" میں شامل و داخل نہیں ہیں۔ چرنے والے مویشی اور چو پائے "انعام " کہلاتے ہیں۔

گائے (Cow)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Cow

1-Scientific Name

Bos Taurus

8-Genus

Bos

7-Family

Bovidae

6-Order

Artiodactyla

5-Class

Mammalia

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً "[123]

" اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ “

بقرہ اسم جنس ہے، گائے اور بیل دونوں کے لئے عام لیکن قرآن مجید میں اس کا استعمال عموماً گائے ہی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ گائے ہندوستان و پاکستان کا معروف و معلوم جانور ہے اور اس کا نر (بیل) بھی کچھ کم مشہور نہیں۔ گائے کا دودھ اپنے طبی فائدوں کے لحاظ سے ایک بہت خاص چیز ہے۔ گائے کا گھی، مکھن، دہی، پنیر وغیرہ بہت اہم غذائیں ہیں۔ ہندو اس کے گوبر کو گھر یا درو دیوار اور فرش کے لیپنے پوتنے میں استعمال کرتے ہیں۔ آیورویدک میں گائے کے پیشاب کے صحت بخش خواص بیان کئے گئے ہیں۔ گائے کا سکھایا ہوا گوشت جسے انگریزی میں "بیف " کہاجا تا ہے، یورپ کےممالک، امریکہ اور آسڑیلیا کے علاقوں میں بڑی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ اس کا کاروربار بڑے پیمانے پر جاری و ساری ہے۔ گائے کا چمڑا بھی انتہائی کار آمد ہوتا ہے، اس سے جوتے، چپلیں اور ہر قسم کا چرمی سامان تیار ہوتا ہے۔ [124]

گائے کا گوشت سرداور خشک مزاج رکھتا ہے۔ یہ سخت محنتی لوگوں کے لئے عمدہ ہوتا ہے۔ کالی مرچ، لہسن، دار چینی اور ادرک سے گائے کے گوشت کو زیادہ مفید و نافع بنایا جاسکتا ہے۔ بچھڑے کا گوشت زیادہ نافع ہوتا ہے

 امام ابن قیم ؒ لکھتے ہیں:

" وَلَحْمُ الْعِجْلِ وَلَا سِيَّمَا السَّمِينُ مِنْ أَعْدَلِ الْأَغْذِيَةِ وَأَطْيَبِهَا وَأَلَذِّهَا وَأَحْمَدِهَا، وَهُوَ حَارٌّ رَطْبٌ، وَإِذَا انْهَضَمَ غَذَّى غِذَاءً قَوِيًّا"[125]

مذکورہ عبارت سے عیاں ہوتا ہے کہ گائےکی نسبت صحت مند اور موٹے تازے بچھڑے کا گوشت زیا دہ معتدل اور غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے، یہ گر م مرطوب ہوتا ہے، یہ جسم کو وافر مقدار میں قوت اور توانائی فراہم کرتا ہے۔

صاحب "حیات الحیوان الکبریٰ" اپنی رائے کا اظہار اسطرح کرتے ہیں:

" والبقر حيوان شديد القوة كثير المنفعة، خلقه الله ذلولا ولم يخلق له سلاحا شديدا كما للسباع، لأنه في رعاية الإنسان، فالإنسان يدفع عنه ضرر عدوه"[126]

مذکورہ بالا عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ گائے ایک قوت والا اور مفید و نافع حیوان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے انسان کے تابع کردیا ہے۔ گائے درندوں کی طرح اپنا دفاع نہیں کرتا اس لئے انسان اس کا مالک ہوتا ہے اور اس کا تحفظ کرتا ہے۔

گائے کی کئی اقسام و انواع ہیں ان میں اہم قسم بھینس (جاموس) ہے۔

الجاحظ اپنی تالیف " الحیوان" میں لکھتے ہیں:

" أنّ الجواميس ضأن البقر. والبقر ضأن أيضا، ولذلك سمّوا بقر الوحش نعاجا"[127]

مذکورہ عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھینس گائے کی اہم اور مفید قسم ہے۔ یہ سب سے زیادہ دودھ دینے والا جانور ہے، اس کا دودھ لذت والا اور مزید ار ہوتا ہے۔

اونٹ (Camel)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Camel

1-Scientific Name

Camelus dromedarius

8-Genus

Camelus

7-Family

Camelidae

6-Order

Artiodactyla

5-Class

Mammalia

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ "[128]

"یہ لوگ نہیں مانتے﴾ تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے ؟"

اونٹ کا وجود اہل عرب کے حق میں مادی نعمتوں میں سب سے بڑھ کر خیال کیا جاتا ہے۔ یہ بیک وقت ان ہمہ وقتی رفیق ہے، ان کی عمدہ غذا ہے، ان کا اعلیٰ سرمایہ ہے، ان کی بہترین سواری ہے۔ عرب کے علاوہ بھی دینا بھر اونٹ ایک مفید ترین جانور ہے۔ جدید ترین تحقیق کے مطابق یہ دراصل شمالی امریکہ کا جانور ہے جو اپنی سکونت منتقل کر کے جنوبی امریکہ، ایشیاء اور یورپ کی سر زمینوں پر پہنچا۔ اونٹ کو ریگستان کا بحری جہاز کہا جاتاہے۔ اونٹ واحد جانور ہے جو دس دن تک پانی پینے کے بغیر گزارا کر سکتا ہے۔ اونٹ کے جسم میں قدرت نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ اسکا بدن بوقت ِ ضرورت پانی بنا سکتا ہے۔ اونٹ کی کنیت ابو ایوب بیان کی جاتی ہے کیونکہ اونٹ میں بہت زیادہ صبرو تحمل پایا جاتا ہے۔

اونٹ کی پشت کے وسط میں ایک بلندی ہوتی ہے، جسے کوہان کہا جاتا ہے۔ اونٹ کی ایک قسم ایسی بھی ہے جس میں ایک کوہان کے بجائے دو کوہان ہوتے ہیں۔ یہ دہرے کوہان والے اونٹ بلخٰی یا باختری کہلاتے ہیں۔ ایک کوہان والے اونٹ عرب نسل کے کہلاتے ہیں۔ اونٹ کے معدے میں ایک تھیلی ہوتی ہے جس میں وہ پانی ذخیرہ کر لیتا ہے، اسطرح ریگستان میں وہ دس دن تک اسی ذخیرہ آب سے سیراب ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح اس کی کوہان میں چربی کا ذخیرہ اسے ریگستانی سفرکئی دنوں تک بے نیاز رکھتا ہے۔ [129]

ارشاد نبویﷺہے:

" عَنْ عُرْوَةَ الْبَارِقِيِّ، يَرْفَعُهُ، قَالَ: "الْإِبِلُ عِزٌّ لِأَهْلِهَا، وَالْغَنَمُ بَرَكَةٌ، وَالْخَيْرُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِي الْخَيْلِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "[130]

اونٹ پالنا اوران کی نگہداشت کرنا باعث عزت و شرف ہے۔

علامہ الدمیریؒ رقمطراز ہیں:

" والإبل من الحيوانات العجيبة وإن كان عجبها سقط من أعين الناس لكثرة رؤيتهم لها، وهو أنها حيوان عظيم الجسم، سريع الانقياد، ينهض بالحمل الثقيل، ويبرك به، وتأخذ زمامه فأرة فتذهب به إلى حيث شاءت، ويتخذ على ظهره بيت يقعد الإنسان فيه، مع مأكوله ومشروبه وملبوسه وظروفه ووسائده، كأنه في بيته ويتخذ للبيت سقف وهو يمشي بكل هذه"[131]

علامہ الدمیری ؒ کے مطابق اونٹ عجیب المخلوق جانور ہے۔ اونٹ اتنا زیادہ فرمانبردار ہے کہ چوہیا بھی اس کی نکیل تھام کر اسے کہیں بھی لے جاسکتی ہے۔ اونٹ کی پشت بھی اتنی دسعت رکھتی ہے کہ اس پر انسان سمیت ہر قسم کے ضروری سازوسامان سفر کر سکتا ہے۔ اس لئے اسے چلتا پھرتا مصنوعی گھر بھی کہا جاسکتا ہے۔

معروف ماہرِ حیوانات عبدالمالک اصمعی سرخ اونٹ کی خصوصیات بیان کرتے ہیں:

" ويقال أجلد الإبل وأصبرها الحمر، فإذا خلط الحمرةقنوء فهو كميت، فإذا خلط الحمرة صفرة قيل أحمر مدمى "[132]

یہودی اونٹ کے گوشت نہیں کھاتے کیونکہ اسے برا خیال کرتے ہیں۔ اسلام نے اونٹ کے گوشت کا حلال و جائز قرار دیا ہے۔ سیر ت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آ پﷺ نے سفر اور حضر میں گوشت کھایا ہے۔ اونٹ کا گوشت مزیدار، لذیذ اور غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔ اونٹ کے گوشت کے عادی لوگوں کے لئے یہ انتہائی مفید و نافع اور دنبے جیسے گوشت کی تاثیر رکھتا ہے۔ اونٹ کے گوشت میں ایک ناپسندیدہ قوت بھی موجود ہوتی ہے اسی لئے آپ ﷺ نے اس گوشت کھانے کے بعد وضو کرنے کی تلقین و تاکید کی ہے۔

ارشاد نبوی ﷺ ہے:

" عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ ؟ قَالَ: إِنْ شِئْتَ فَتَوَضَّأْ، وَإِنْ شِئْتَ فَلاَ تَوَضَّأْ قَالَ أَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِ الإِبِلِ ؟ قَالَ: نَعَمْ فَتَوَضَّأْ مِنْ لُحُومِ الإِبِلِ قَالَ: أُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: أُصَلِّي فِي مَبَارِكِ الإِبِلِ ؟ قَالَ: لاَ"[133]

حضرت جابر بن سمرہ (رض) کی روایت کے تجزیہ سے ثابت ہوتا ہے بکری کا گوشت کھانے سے وضو کرنا ضروری نہیں جبکہ اونٹ کا گوشت کھانے پر وضو کرناضروری ہے۔ بکریوں کے باڑے میں نماز ادا کرنے میں حرج نہیں جبکہ اونٹوں کے بیٹھنے کے مقام میں نماز ادا کرنا ممنوع ہے۔

امام ابن قیم ؒ اونٹ کے گوشت کے بارے میں رقمطراز ہیں:

" لحم الفصيل مه مِنْ أَلَذِّ اللُّحُومِ وَأَطْيَبِهَا وَأَقْوَاهَا غِذَاءً، وَهُوَ لِمَنِ اعْتَادَهُ بِمَنْزِلَةِ لَحْمِ الضَّأْنِ لَا يَضُرُّهُمُ الْبَتَّةَ"[134]

امام ابن قیم ؒ کی مذکور ہ بالا عبارت کا لب لباب یہ ہے کہ اونٹ کے جس بچے کا دودھ چھڑا یا گیا ہو، اس کا گوشت دوسری اقسام کے گوشت سے زیادہ مفید و نافع اور مزیدار ہوتا ہے۔ اونٹ کا گوشت مسلسل استعمال کرنے والے لوگوں کے لئے یہ گوشت صحت پر بالکل منفی اثرات نہیں رکھتا۔ البتہ شہر کے سہل پسند اور آرام پسند لوگوں کے لئے اونٹ کا گوشت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

گھوڑا (Horse)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Horse

1-Scientific Name

Equus caballus

8-Genus

Equus

7-Family

Equidae

6-Order

Perissodactyla

5-Class

Mammalia

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً ۭ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ "[135]

"اس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں۔ وہ اور بہت سی چیزیں﴿تمہارے فائدے کے لیے﴾ پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے۔ "

گھوڑا اہم جانور ہے۔ گھوڑے کو عربی زبان میں "الخیل" کہا جاتا ہے۔ گھوڑا ا حیوانات میں سے انسان کا بہترین رفیق خیال کیا جاتا ہے۔ گھوڑے انسان کا قابل قدر جائداد اور سرمایہ ہے۔ گھوڑے جنگ، کھیل اور سواری کے کام آتے ہیں۔ سائنسی و مشینی دور سے قبل عسکری قوت و تنظیم کا مدار بڑی حد تک گھڑسواروں کی قوت و تنظیم پر منحصر تھا۔ جنگ عظیم اول (1914ء) اور جنگ عظیم دوم (1939ء) اس کے تجربات کا اعادہ کیا گیا۔ جانوروں میں سب سے بڑھ کر کام آنیوالا جانور گھوڑا ہے۔ ماہرین کے مطابق گھوڑے کے جسم کی ساخت ایسی ہے جو اسے تیز دوڑنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ مشینی اور جدید سواریاں کی ایجاد سے قبل گھوڑا انسان کے لئے سب سے تیز سواری تھا۔ توریت میں بھی گھوڑے کا ذکر آیاہے۔ فرعون غرق ہوتے ہوئے گھوڑے پر سوار تھا۔ کئی اقوام گھوڑے کو مقدس خیال کرتی ہیں۔ دیوتا یعوق کی مورتی ایک تیز رفتار گھوڑے کی شکل میں تھی۔ [136]

علامہ الدمیری ؒ رقم طراز ہیں:

" جماعة الأفراس لا واحد له من لفظه كالقوم والرهط والنفر. وقيل: مفرده خائل، قاله أبو عبيدة وهي مؤنثة والجمع خيول وقال السجستاني: تصغيرها خييل. وسميت الخيل خيلا لاختيالها في المشية، فهو على هذا اسم للجمع عند سيبويه، وجمع عند أبي الحسن"[137]

 مذکورہ عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ الخیل سے مراد گھوڑا ہے اس کا واحد کوئی نہیں جیسے قوم اور الرھط کا واحد نہیں ہوتا جبکہ اس کا مفرد خائل ہے۔ ابو عبیدہ کے مطابق "الخیل " مؤنث" ہے اور اس کی جمع "خیول" ہے۔ سجستانی کے مطابق اس کی تصغیر "خییل " ہے۔ لفظ "الخیل " کے لغوی معنی اکڑ کر چلنا ہے۔ گھوڑے کی چال میں اکڑ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے اس گھوڑے کو "الخیل " کا نام دیا گیا ہے۔ سیبویہ نے "الخیل " کو اسم الجمع قرا ر دیا ہے۔ جبکہ ابو الحسن کے مطابق "الخیل" جمع ہے۔

علامہ الجاحظ ؒ لکھتے ہیں:

"وإنما يوصف الفرس العتيق بصفة الإنسان من بين جميع الحيوان يقولون: فرس كريم، وفرس جواد، وفرس رائع"[138]

مذکورہ عبارت کے تجزیے سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام حیوانات میں سے گھوڑے کو عزت و اکرام کا مقام حاصل ہے۔

ارشاد نبویﷺہے:

"عَنْ عُرْوَةَ الْبَارِقِيِّ، يَرْفَعُهُ، قَالَ: الْإِبِلُ عِزٌّ لِأَهْلِهَا، وَالْغَنَمُ بَرَكَةٌ، وَالْخَيْرُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِي الْخَيْلِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "[139]

مذکورہ روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ گھوڑا ایک ایسا حیوان ہے جو قیامت تک کے لئے باعث خیر و برکت ہے۔

صیح بخاری کی روایت ہے:

"عَنْ أَسْمَاءَ، قَالَتْ: نَحَرْنَا فَرَسًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلْنَاهُ"[140]

حضرت اسماء ؓ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ گھوڑے کا گوشت جائز و حلال ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں گھوڑا ذبح کیا گیا اور اس گوشت استعمال کیا گیا ہے۔

صیح مسلم کی روایت ہے:

" عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، وَأَذِنَ فِي لُحُومِ الْخَيْلِ"[141]

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی مذکورہ روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ گدھے کا گوشت حرام اور گھوڑے کا گوشت جائز ہے۔ گھوڑے کا گوشت گرم اور خشک مزاج رکھتا ہے۔ بدن میں آلودہ مواد پیدا کرتا ہے۔ نرم مزاج اور سہل پسند لوگوں کے لئے گھوڑے کا گوشت مفید اثرات نہیں رکھتا۔

ابن قیم ؒ گھوڑے کی گوشت کے خواص کا احاطہ یوں کرتے ہیں:

" فَلَحْمُهَا حَارٌّ يَابِسٌ، غَلِيظٌ سَوْدَاوِيٌّ مُضِرٌّ لَا يَصْلُحُ لِلْأَبْدَانِ اللَّطِيفَةِ."[142]

امام ابن لقیم ؒ کے مطابق گھوڑے کا گوشت گرم اور خشک ہوتا ہے جبکہ جسم میں فاسد اور نقصان دہ مادے پیدا کرتا ہے اور نازک مزاج لوگوں کے لئے انتہائی مضر صحت ہوتا ہے۔

صاحب"روح البیان" گھوڑے کی اہمیت بیان کرتے ہیں:

" واشرف المركوبات الفرس وعليه يقتل الرجال"[143]

 مذکورہ عبارت کے مطابق گھوڑا تما م سواریوں میں سے سب سے عمدہ سواری ہے۔ گھوڑا ایک مفید جانور ہے جو سواری اور جنگ میں لڑائی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

گدھا (Donkey)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Donkey, Ass

1-Scientific Name

Equus asinus

8-Genus

Equus

7-Family

Equidae

6-Order

Perissodactyla

5-Class

Mammalia

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا "[144]

" جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھا یا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ "

گدھا کم قیمت اور بوجھ اٹھانے میں ایک کار آمد جانور ہے۔ گدھے کی کنیت ابو صابر اور ابو زیاد بیان کی جاتی ہے۔ صرف عرب ہی نہیں بلکہ شام، عراق، فلسطین وغیرہ میں بھی گدھے کی سواری معیوب نہیں معزز سمجھی جاتی ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰؑ کا گدھے پر سوار ہونا ثابت ہے۔ گدھا ہندوستان و پاکستان کا مشہور چوپایہ ہے۔ بار برداری اور سواری اس کا امتیازی وصف ہے۔ گرم علاقوں میں یہ بار برداری کے لحاظ سے گھوڑے سے زیادہ مفید ثابت ہوا ہے۔ بعض قومیں سے مقدس سمجھتی ہیں۔ رومی مشرکوں نے اس کی پرستش یہود کی جانب منسوب کی ہے۔ گدھے کے چمڑے سے جوتے بنتے ہیں اور ڈھولکیں منڈھی جاتی ہیں۔ جنگلی گدھا چستی اور بے خوفی میں اپنی نظیر آپ ہوتا ہے۔ توریت و انجیل میں اس ذکر کثرت سے آیا ہے۔ [145]

علامہ الدمیری ؒ گدھے تعریف و توصیف میں خالد بن سفیان اور فضل بن عیسیٰ کے درج ذیل واقعات نقل کرتے ہیں:

" أن خالد بن صفوان والفضل بن عيسى الرقاشي كانا يختاران ركوب الحمير على ركوب البراذين، فأما خالد فلقيه بعض الأشراف بالبصرة على حمار، فقال: ما هذا يا ابن صفوان؟ فقال: عير من نسل الكداد، يحمل الرحلة، ويبلغني العقبة، ويقل داؤه، ويخف دواؤه، ويمنعني من أن أكون جبارا في الأرض، وأن أكون من المفسدين. وأما الفضل فإنه سئل عن ركوبه الحمار؟ فقال: إنه من أقل الدواب مؤنة، وأكثرها معونة، وأخفضها مهوى، وأقربها مرتقى"[146]

درج بالا واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ گدھے پر سواری کوئی عار اور تضحیک کاباعث نہیں کیونکہ گدھے کی سواری فضل بن عیسیٰ اور خالد بن سفیان جیسے اہل علم کرتے تھے۔ حاصل عبارت بالا یہ ہے کہ گدھا سستا ہونے کے باوجود بار برداری کےکام آتا ہے اور دشوار گزار گھاٹیوں سے بھی سامان لے گزر سکتا ہے۔ یہ بہت ہی کم بیمار ہوتا ہے۔ یہ سخت جان اور محنتی جانور ہے۔

علامہ الزمخشریؒ "الکشاف " میں گدھے کا بارے میں عرب لوگوں کا رویہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

" والحمار مثل في الذم البليغ والشتيمة، وكذلك نهاقه. ومن استفحاشهم لذكره مجردا وتفاديهم من اسمه: أنهم يكنون عنه ويرغبون عن التصريح به، فيقولون: الطويل الأذنين، كما يكنى عن الأشياء المستقذرة: وقد عدّ في مساوي الآداب: أن يجرى ذكر الحمار في مجلس قوم من أولى المروءة"[147]

علامہ الزمخشریؒ کی مذکورہ بالا عبارت کا حاصل یہ ہے کہ عرب میں گدھے کو ناپسندیدہ جانور خیال کیاجاتا ہے، جب کسی کی برائی کرنا مقصود ہو تو اسے گدھے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ نفرت کا یہ عالم ہے کہ گدھے کو نام کی بجائے کنیت یا "الظویل الذنین" یعنی دو لمبے کانوں والا کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اہل عرب شرفا ء کی محفل میں گدھے کا نام لینا خلاف ِ ادب خیال کرتے ہیں۔

خچر (Mule)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Mule

1-Scientific Name

Equus mule

8-Genus

Equus

7-Family

Equidae

6-Order

Perissodactyla

5-Class

Mammalia

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً ۭ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ "[148]

"اس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں۔ وہ اور بہت سی چیزیں﴿تمہارے فائدے کے لیے﴾ پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے۔ "

قرآن مجید نے خچر کے دو کاموں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ سواری اورشان و شوکت کا ذریعہ ہے۔ دنیا بھر میں خچر سے یہ دونوں کام ہی لئے جارہے ہیں۔ جرمنی کے ساتھ جنگ میں فرانس و برطانیہ وغیرہ نے توپخانہ کی گاڑیا ں کھینچنے کا کام لیا۔ بیروت و دمشق میں بڑے بڑے حکام و امراء خچر کی سواری کو معزز سمجھتے ہیں۔ بائبل میں بھی خچر کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ حضرت داؤد ؑ نے حضرت سلیمانؑ کی سواری کے لئے گھوڑے کی بجائے شاہی خچر کا ا نتظام کرنے کا حکم دیا۔ جنگ اور امن دونوں میں خچر کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ امریکہ، فرانس، اٹلی، اسپین وغیرہ میں سرکاری سطح پر ان کا پیدائش کا مصنوعی انتظام کیا ہے، اعلیٰ نسل کی گھوڑیوں اور صحت مند و مضبوط گدھوں کے ملاپ کے لئے مستقل محکمے کھولے گئے ہیں۔ [149]خچر ایک معروف اور اہم جانور ہے۔ یہ گدھے اور گھوڑے کے ملاپ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس میں گدھے جیسی سختی ہوتی ہے اور اس کی ہڈیا ں گھوڑے جیسی مضبوط ہوتی ہیں۔ خچر میں گھوڑے جیس قوت و طاقت اور گدھے جیسا صبرو ثبات ہوتا ہے۔ اس میں نہ ہی گھوڑے جیسی ذہانت اور نہ گدھے جیسی حماقت پائی جاتی ہے۔

علامہ الدمیری ؒ اپنی معروف تالیف "حیات الحیوان الکبریٰ " میں خچر کے خواص یوں بیان کرتےہیں:

" يوصف بالهداية في كل طريق يسلكه مرة واحدة، وهو مع ذلك مركب الملوك في أسفارها، وقعيدة الصعاليك في قضاء أوطارها، مع احتماله للأثقال، وصبره على طول الإيغال"[150]

 خچر کا قوت حافظہ تیز ہوتا ہے اور اسے راستہ بھولتا نہیں۔ یہ بادشاہوں اور فقیروں کی سواری ہے۔ یہ بوجھ اٹھا کر طویل سفر کرنے کی ہمت و قوت کا حامل جانور ہے۔

ہاتھی (Elephant)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Elephant

1-Scientific Name

Loxodanta cyclotis

8-Genus

Loxodanta

7-Family

Elephantidae

6-Order

Proboscidae

5-Class

Mammalia

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ"[151]

" تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ؟ "

ہاتھی کی دواقسام ہوتی ہیں۔ ایک ایشیائی جو ہندوستان، سیلون، برما، کوچین، ملایا اور سماترا کے جنگلات میں پائی جاتی ہے۔ دوسری افریقی جس کا وجود جنوبی و مشرقی افریقہ کے بیابانوں میں ملتا ہے۔ افریقی ہاتھی کی نسل قدیم ترین ہے۔ وزن میں یہ ہاتھی 6 ٹن کا ہوتا ہے جبکہ ہتھنی 4 ٹن کی ہوتی ہے۔ ہاتھی بہت ذکی الحس اور ذہین جانور ہوتا ہے۔ ہاتھی کی آنکھیں چھوٹی اور کان بڑے اور پنکھے کی طرح لٹکے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ ناک کی بجائے ایک لمبی لٹکتی ہوئی سونڈ ہوتی ہے جس سے ہاتھی کھانے پینے کا کام لیتا ہے۔ کئی مشرک اقوام میں ہاتھی کو مقدس جانور ما نا گیا ہے۔ ہندو مذہب کی دیو مالامیں علم و حکمت کے دیوتا گنیش جی کا چہرہ ہاتھی کا ہوتا ہے۔ [152]ہاتھی ایک مفید جانور ہے جسے عربی زبان میں "الفیل" کہا جاتا ہے۔ ہاتھی کو غیرت مند اور کینہ رکھنے والا جانور کہا جاتاہے۔ ہاتھی طویل عمر پاتا ہے۔ یہ فہم و فراست اور تفہیم و تعلیم قبول کرنے والا جانور ہے۔ ہاتھی کی طبعی عمر 150 سال ہوتی ہے۔ ہاتھی یورپ اورامریکہ کا نہیں، صرف ایشیااور افریقہ کا جانور ہے۔

علامہ الدمیریؒ ہاتھی کے ہاتھی کے خصائل و شمائل کے بارے میں رقمطرز ہیں:

" وخرطومه من غضروف وهو أنفه ويده التي يوصل بها الطعام والشراب إلى فيه، ويقاتل بها ويصيح، وليس صياحه على مقدار جثته لأنه كصياح الصبي، وله فيه من القوة بحيث يقلع به الشجرة من منابتها، وفيه من الفهم ما يقبل به التأديب ويفعل ما يأمره به سائسه، من السجود للملوك وغير ذلك من الخير والشر، في حالتي السلم والحرب وفيه من الأخلاق أن يقاتل بعضه بعضا، والمقهور منهما يخضع للقاهر، والهند تعظمه لما اشتمل عليه من الخصال المحمودة، من علو سمكه وعظم صورته، وبديع منظره"[153]

مذکورہ عبارت کا حاصل یہ ہے کہ ہاتھی کی سونڈ لچکدار ہڈیوں کا مجموعہ ہے جو اس کی ناک اور ہاتھ کا کام کرتی ہے۔ سونڈ کھانے پینے کا ذریعہ بھی ہے اور ہاتھی دوسروں سے لڑائی کے وقت بھی سونڈ کا استعمال کرتا ہے۔ ہاتھی بہت جلد تعلیم و تلقین قبول کر لیتا ہے۔ ہاتھی کا غصہ شدید ہوتا۔ بعض اوقات یہ دوسرے ہاتھی کو جان سے بھی مار دیتا ہے۔ اہل ہند ہاتھی کے بعض عمدہ خصائل و شمائل کی بدولت اس کا احترام و اکرام کرتے ہیں۔

بندر (Monkey)

4-Phylum

Anthropoda

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Apes,Monkey

1-Scientific Name

Hominoidae

8-No.of Species

Eight

7-Family

Hominoidae

6-Order

Primates

5-Class

Mammalia

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـــِٕيْنَ"[154]

" ہم نے انہیں کہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حالت میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے۔ "

بندر مشہور و معروف حیوانات میں سے ہے جسے عربی زبان میں "القرد" کہا جاتا ہے۔ بندر بہت سے کام تیزی سے سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لئے اسے ایک ذہین جانور کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں بندر کا تذکرہ تین مقامات پر آیا ہے۔ عربوں کے ہاں یہ ایک ذلیل و حقیر جانور خیال کیا جاتا ہے۔ اشیا کو توڑ پھوڑ ڈالنا، نوچ ڈالنا اور برباد کر ڈالنا بند ر کی عام عادت ہے۔ بندر طاقت ور ہونے کے باوجود بزدل ہوتاہے۔ بندر کی بہت سی انواع و اقسام ہیں۔ جنگلوں میں ہر قدو قامت کے بندر پائے جاتے ہیں۔ جنگلی بندروں میں بعض اقسام انسان سے مشابہ ہوتی ہیں۔ بندر بڑا پھرتی والا اور ہوشیار جانور ہے۔ دوسروں کی نقالی میں اسے ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ افریقہ کے بعض قبائل اسے مقدس جانور کا درجہ دیتے ہیں اور ہندو ہنو مان جی کو ایک مستقل دیوتا کی حیثیت دیتے ہیں۔ عہدنامہ جدید میں بندر کا تذکرہ نہیں جبکہ عہد نامہ قدیم میں بندر کا تذکرہ دو مرتبہ آیا ہے۔ [155]

علامہ الدمیریؒ بندر کی خصائص پر یوں رقمطراز ہیں:

"والقردة تلد في البطن الواحد العشرة، والإثني عشر، والذكر ذو غيرة شديدة على الإناث. وهذا الحيوان شبيه بالإنسان في غالب حالته، فإنه يضحك ويطرب ويقعى ويحكي، ويتناول الشيء بيده، وله أصابع مفصلة إلى أنامل وأظافر، ويقبل التلقين والتعليم، ويأنس بالناس، ويمشي على أربع مشيه المعتاد ويمشي على رجليه حينا يسيرا،

ولشفر عينيه الأسفل أهداب"[156]

 بندر ایسا حیوان ہے جو انسان کی عادات و اطوارسے مشابہت رکھتا ہے۔ بندر انسان کی طرح غیرت کھاتا ہے، ہنستا ہے، باتیں کرتا ہے، اشیا ء کی لین دین کے لئے ہاتھوں کا استعمال کرتا ہے، تاکید و تلقین پر عمل کرتا ہے۔ چار پاؤں رکھتا ہے لیکن ضرورت کے وقت دو پاؤں پر بھی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے ناخن بھی انسان کی طرح ہیں۔

بھیڑ (Ewe)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Ewe,Sheep

1-Scientific Name

Ovis aries

8-Genus

Ovis

7-Family

Bovidae

6-Order

Artiodactyla

5-Class

Mammalia

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖ "[157]

"داؤد نے جواب دیا: اس شخص نے اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملا لینے کا مطالبہ کر کے یقینا تجھ پر ظلم کیا "

بھیڑ ایک مفید جانور ہے جسے عربی میں "النعجتہ"کہا جاتا ہے۔

علامہ الدمیریؒ رقمطراز ہیں:

"الأنثى من الضأن والجمع نعاج ونعجات۔ ۔ ۔ وكنيتها أم الأموال وأم فروة، وتطلق على الأنثى من الظباء والبقر الوحشية"[158]

مذکورہ بالا عبارت کا حاصل یہ ہے کہ "النعجتہ" سے مراد مادہ بھیڑ ہے اور "النعجتہ"کی جمع (نعاج) اور (نعاجات) ہے۔ اس کی کنیت ام الاموال اور ام فروہ ہے۔ "النعجتہ " کا اطلاق صرف بھیڑ ہی نہیں بلکہ ہرنی اور نیل گائے پر بھی ہوتا ہے۔

شیر (Lion)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Lion

1-Scientific Name

Panthera Leo

8-Genus

Panthera

7-Family

Felidae

6-Order

Carnivora

5-Class

Mammalia

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ"[159]

" جو شیر سے ڈر کر بھاگ پڑے ہیں۔ "

شیر ہر قوم کے زبان و ادب میں پیکر شجاعت و قوت مانا گیا ہے۔ عہد نامہ عتیق اور عہد نامہ جدیدمیں شیر کے بارے میں کثرت سے تذکرہ آیا ہے۔ شیر کی گردن پر لمبے بال ہوتےہیں، جو اس کی شکل و وجاہت کو با رعب بنا دیتے ہیں۔ شیر کا حملہ غیض و غضب سے بھرپور ہوتا ہے، وہ 30 فٹ کی جست لگا نے کی سکت رکھتا ہے۔ وہ طمانچہ کی ایک ضر ب سے گھوڑے کی ہڈی، پسلی اور بیل کی کھوپڑی توڑ سکتا ہے۔ شیر اکثر و بیشتر رات کے وقت شکار کرتا ہے۔ بلی کی طرح بالکل دبے پاؤں شکار کے قریب پہنچ کر ایک گرج کے اسے دبوچ لیتا ہے۔ بھینسے، گورخر، ہرن، نیل گائے، گائے، بیل اور بکری کاگوشت شیر کی عام و مرغوب غذا ہے۔ [160]خچر ایک معروف اور اہم جانور ہے۔ یہ گدھے اور گھوڑے کے ملاپ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس میں گدھے جیسی سختی ہوتی ہے اور اس کی ہڈیا ں گھوڑے جیسی مضبوط ہوتی ہیں۔ خچر میں گھوڑے جیس قوت و طاقت اور گدھے جیسا صبرو ثبات ہوتا ہے۔ اس میں نہ ہی گھوڑے جیسی ذہانت اور نہ گدھے جیسی حماقت پائی جاتی ہے۔ حضرت سفینہ روم کے سرزمین میں قافلے سے بچھڑ گئے تو شیر سے آمنا سامنا ہوگیا تو شیر نے ان کی حفاظت کی۔

امام البزارؒ روایت کرتے ہیں:

" عَنْ سَفِينَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ فِي الْبَحْرِ فَانْكَسَرَتْ سَفِينَتُنَا فَلَمْ نَعْرِفِ الطَّرِيقَ، فَإِذَا أَنَا بِالْأَسَدِ قَدْ عَرَضَ لَنَا فَتَأَخَّرَ أَصْحَابِي فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقُلْتُ: أَنَا سَفِينَةُ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَضْلَلْنَا الطَّرِيقَ فَمَشَى بَيْنَ يَدَيَّ حَتَّى أَوْقَعَنَا عَلَى الطَّرِيقِ ثُمَّ تَنَحَّى وَدَفَعَنِي كَأَنَّهُ يُرِينِي الطَّرِيقَ، ثُمَّ جَعَلَ يُهِمَّهُمْ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُوَدِّعُنَا "[161]

حضرت سفینہ (رض) کا مذکورہ واقعہ سے شیر کی شان و عظمت ثابت ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی نسبت سے تعارف کروانے پر حضرت سفینہ (رض) کو شیر کا اپنی حفاظت میں محفوظ مقام پر پہنچا دینے سے واضح ہوتا ہے کہ حیوانات بھی رسول کریم ﷺ کی غلامی کرتے ہیں۔

انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کا مستشرق مقالہ نگار لکھتا ہے:

“In Isᾱmic art, the lion is probably the most frequently and diversely represented animal. It rarely has an apotropaic meaning, it sometimes has an astrological or symbolic one, but it is generally merely decorative and without any deeper significance.”[162]

انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

 “The Arabs caught lions in pits, a primitive method which is still found in some parts today…the later caliphs went on lion hunts and in Isᾱm, too, it became a prerogative of the rulers. They kept the lions in zoological gardens, trained them as companions, and organized shows with them in the roman manner.”[163]

علامہ الدمیری ؒ لکھتے ہیں:

" وللأسد من الصبر على الجوع، وقلة الحاجة إلى الماء، ما ليس لغيره من السباع. ومن شرف نفسه: أنه لا يأكل من فريسة غيره، فإذا شبع من فريسته تركها، ولم يعد إليها، وإذا جاع ساءت أخلاقه، وإذا امتلأ من الطعام ارتاض، ولا يشرب من ماء ولغ فيه كلب"[164]

شیر بھوک کی حالت میں صبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسے پانی کی پیاس بہت کم محسوس ہوتی ہے، دوسروں کا کیا ہوا شکار کھانے سے گریز کرتا ہے۔ پیٹ بھرنے پر باقی بچا ہوا شکار وہیں چھوڑ دیتا ہے اور اس پر واپس نہیں لوٹتا۔ کتے کا جوٹھا پانی استعمال نہیں کرتا۔ بھوک لگنے پر بد مزاج ہو جاتا ہے اور اگر اس کا پیٹ بھرہوا ہو تو سستی کا مظاہرہ کرتا ہے

کتا (Dog)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Dog

1-Scientific Name

Canuslupus familiaris

8-Genus

Canis

7-Family

Canidae

6-Order

Carnivora

5-Class

Mammalia

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيْدِ ۭ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا"[165]

" اور ان کا کتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تم کہیں جھانک کر انہیں دیکھتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی۔ "

اکثر مذاہب کتے کی نجاست و پستی کے قائل ہیں لیکن کچھ قدیم اقوام کے ہاں کتا ایک مقدس جانور رہا ہے۔ کتا حیواناتی حیثیت سے گیدڑ، بھیڑئیے اور لومڑی کے خاندان سے تعلق رکھتاہے اور دنیا کے ہر کونے میں پایا جاتا ہے۔ کتے کی سینکڑوں انواع واقسام ہیں۔ کتے کی قوت شامہ انتہائی تیز ہوتی ہے۔ اس کی اوسط عمر 14 سے 20 سال ہوتی ہے۔ عادات و اطوار کے لحاظ سے بھی اس کی نسلیں مختلف ہوتی ہیں، بعض کتے بڑے شکاری، بعض صرف چوکیداری و پاسبانی اور بعض اپنے شوقین مالکوں کی گود میں صرف کھلونا ہوتے ہیں۔ کتوں سے حفاظت و چوکیداری کا کام ہمیشہ سے لیا جاتا ہے۔ چرواہے اور گڑرئیے اپنے ریوڑوں اور گلوں کی حفاظت کے لئے کتوں کو ہمیشہ سے پالتے رہے ہیں۔ خانہ بدوش قبائل کی معاشرت میں کتا لازمی جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔ [166]کتا ایک وفا دار جانور ہے جسے عربی زبان میں "الکلب "کہا جاتا ہے۔ کتا اپنے مالک کا وفادار اور محافظ ہوتا ہے۔ اپنے مالک کے حفاظت کرتا ہے اور رات بھرجاگتا رہتا ہے۔ کتا نیند کی حالت میں بھی گھوڑے سے زیادہ سننے والا اور چوکنا ہوتا ہے۔ مالک کو خوش کرنے کے لئے دم ہلاتا ہے۔ یہ میلے کچیلے کپڑوں والے اشخاص پر خوب بھونکتا ہے جبکہ نفیس افراد کا اکرام کرتا ہے۔

علامہ الدمیریؒ رقمطراز ہیں:

"والكلب حيوان شديد الرياضة كثير الوفاء، وهو لا سبع ولا بهيمة، حتى كأنه من الخلق المركب لأنه لو تم له طباع السبعية ما ألف الناس، ولو تم له طباع البهيمية ما أكل لحم الحيوان"[167]

علامہ الدمیریؒ کی مذکورہ بالا عبارت سے ثابت ہوتا ہےکہ کتا ایک وفا دار جانور ہے۔ یہ ایک ایسا جانور ہے جس کا شمار درندوں اور مویشیوں کے بین بین ہوتا ہے۔ اگر یہ درندہ ہوتا تو انسان سے اسقدر مانوس نہ ہوتا اور اگر مویشیوں میں سے ہوتا تو گوشت خور نہ ہوتا۔

بھیڑیا (Wolf)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Wolf

1-Scientific Name

Canis lupus

8-Genus

Canis

7-Family

Canidae

6-Order

Carnivora

5-Class

Mammalia

ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

"قَالَ اِنِّىْ لَيَحْزُنُنِيْٓ اَنْ تَذْهَبُوْا بِهٖ وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْهُ غٰفِلُوْنَ"[168]

" باپ نے کہا: تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جب کہ تم اس سے غافل ہو۔ "

بھیڑیا ایک معروف جانور ہے جسے عربی زبان میں "الذئب" کہا جاتاہے۔ بھیڑیا جنگلی حیوانات میں سے اپنی خونخواری کے لئے ضرب المثل ہے۔ قدوقامت میں کتے کے مساوی ہوتا ہے اور اسی فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی شکل خوفناک و دہشت ناک ہوتی ہے۔ اسے ہوشیاری و چالاکی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مشرق و مغرب کے اکثر علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ عہدنامہ جدید اور عہد نامہ قدیم میں بھیڑیے کا تذکرہ کثرت سے ملتا ہے۔ بھیڑیا بھیڑوں اور بکریوں کا شکار شوق سے کرتا ہے اور انسانوں پر حملہ کرنے سے بھی نہیں ہچککچاتا۔ [169] اہل علم کا کہنا ہے کہ بھیڑیا شیر سےکم تر اور تنگدست ہے لیکن شیر سے زیادہ دوڑ دھوپ کرنے والا ہے۔ قرآن مجید میں بھیڑیے کا تذکرہ تین مرتبہ آیا ہے۔ بھیڑیا ایک ایسا جانور ہے جس نے بعض صحابہ کرام (رض) سے کلام بھی کیا ہے۔

علامہ الدمیری ؒ بھیڑیے کے خصائص یوں بیان کرتے ہیں:

"ولا يعود إلى فريسة شبع منها أبدا. ومن عجيب امره أنه ينام بإحدى مقلتيه والأخرى يقظى حتى

تكتفي العين النائمة من النوم، فيفتحها وينام بالأخرى ليحترس باليقظى ويستريح بالنائم"[170]

بھیڑیا کسی شکار کو قتل کرکے پیٹ بھر کر کھا لیتا ہے تو پھر دوبارہ وہی گوشت کھانے کے لئے پلٹ کر کبھی نہیں آتا۔ بھیڑیا کی منفرد خاصیت ہے کہ یہ ایک آنکھ سے سوتا ہے جبکہ دوسری آنکھ بیدار رکھتا ہے تاکہ کھلی آنکھ سے اپنے دشمن سے حفاظت کر سکے اور بند آنکھ سے نیند کی تسکین حاصل کرسکے۔

سور (Swine)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Swine,Pig

1-Scientific Name

Susscrofascrofa

8-Genus

Sus

7-Family

Suidae

6-Order

Artiodactyla

5-Class

Mammalia

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ"[171]

" اللہ نے جو کچھ تم پر حرام کیا ہے وہ ہے مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ البتہ بھوک سے مجبور ہو کر اگر کوئی ان چیزوں کو کھالے، بغیر اس کے کہ وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی کا خواہش مند ہو، یا حد ضرورت سے تجاوز کا مرتکب ہو، تو یقینا اللہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ "

سور ایک مشہور و معروف گندا اور آلودہ جانور ہے۔ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ چار مرتبہ حرمت کے سلسلہ میں آیا ہے۔ اسلام، یہودیت اور مسیحیت میں اسے گندگی کہا گیا ہے۔ توریت میں اس کی صراحت و وضاحت پائی جاتی ہے۔ قدیم اقوام سور کو نجس خیال کیا جاتا ہے۔ یہ جانور بد شکل ہوتا ہے یہ نجاستوں اور گندگیوں پر زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کا گوشت مضر صحت اور مورثِ امراض ہوتا ہے۔ [172]

علامہ الدمیریؒ رقمطراز ہیں:

"وكنية الخنزير أبو جهم وأبو زرعة وأبو دلف وأبو عتبة وأبو علية وأبو قادم، وهو يشترك بين البهيمية والسبعية، فالذي فيه من السبع الناب وأكل الجيف، والذي فيه من البهيمية الظلف وأكل العشب والعلف"[173]

مذکورہ عبار ت کا حاصل یہ ہےکہ خنزیر کی کنیت کے لئے ابو جہم، ابو ذرعہ، ابو دلف، ابو عتبہ، ابو علیہ اور ابو قادم استعمال ہوتے ہیں۔ خنزیر ایسا جانور ہے جسے درندہ اور چوپایہ دونوں انواع میں شامل کیا جاتا ہے۔ چوپایہ کی طرح اس کے پاؤں میں کھریاں ہوتی ہیں اور یہ گھاس بھی چرتا ہے۔ اس کے منہ میں درندوں کی طرح دانت ہوتے ہیں جن سے یہ شکار کو چیرتا پھاڑتا ہے۔ اس لئے اسے درندوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

2-مچھلیاں (Fishes)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Fish

1-Scientific Name

Balaenoptera uscles

8-Genus

Balaenoptera

7-Family

Balaenopteradae

6-Order

Cetacia

5-Class

Mammalia

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَهُوَ مُلِـيْمٌ"[174]

"آخرکار مچھلی نے اسے نگل لیا اور وہ ملامت زدہ تھا۔ "

مچھلی مشہور و معروف آبی حیات ہے۔ مچھلی دنیا کے مختلف دریاؤں اور سمندروں میں ہر قامت و جسامت میں پائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق مچھلی قوت سامعہ سے محروم اور قوت لامسہ سے غیر معمولی طور پر مالا مال ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مرتبہ مچھلی کا ذکر آیا ہے جس سے اس کی افادیت ثابت ہوتی ہے۔ اسرائیلی زیادہ تر دریاؤں، ندیوں اور سمندروں کے قریب آباد رہے اس لئے مچھلی ان کی انتہائی مرغوب غذا رہی ہے۔ توریت اور انجیل میں مچھلی کا تذکرہ بکثرت پایا گیا ہے۔ مچھلی کو کئی قوموں میں مقدس جانور کا درجہ حاصل رہا ہے اور متعدد مشرک اقوام نے اس کی پرستش کی ہے۔ عہدنامہ عتیق کے صحیفوں میں تفصیل سے آیا ہے کہ اہل فلسطین دیون کے نام سے مچھلی دیوتا کی پو جا کرتے تھے۔ ہندوستان میں ایک وشنو اوتار مچھلی قالب میں ہوئے ہیں۔ [175]

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أُحِلَّتْ لَنا مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ، فَأَمَّا الْمَيْتَتَانِ: فَالْحُوتُ وَالْجَرَادُ، وَأَمَّا الدَّمَانِ: فَالْكَبِدُ وَالطِّحَالُ"[176]

ہمارے لئے دو مردار اور دو خون حلال کر دئیے گئے ہیں، دو مردار مچھلی اور ٹڈی ہیں جبکہ دو خون جگر اور تلی ہیں۔ دریائی مچھلی کا ذائقہ لذیذ ہوتا ہے۔ سمندری مچھلی بھی عمدہ ہوتی ہے۔ مچھلیوں کا مسکن میٹھا اور صاف پانی ہونا از حد ضروری ہے۔

امام ابن قیم ؒ لکھتے ہیں:

" أَصْنَافُ السَّمَكِ كَثِيرَةٌ، وَأَجْوَدُهُ مَا لَذَّ طَعْمُهُ، وَطَابَ رِيحُهُ، وَتَوَسَّطَ مِقْدَارُهُ، وَكَانَ رَقِيقَ الْقِشْرِ، وَلَمْ يَكُنْ صُلْبَ اللَّحْمِ وَلَا يَابِسَهُ"[177]

مچھلی کی بہت سی اقسام ہیں سب سے عمدہ قسم وہ ہے جو کھانے میں مزیدارہو اور اس کی خوشبو اچھی ہو، اس کی مقدار معتدل ہو، اس کا چھلکا نرم ہو، اس کا گوشت سخت اور خشک نہ ہو۔

علامہ الدمیریؒ اپنی معروف تالیف"حیات الحیوان الکبریٰ" میں رقمطراز ہیں:

"عن سعيد بن جبير أنه قال: لما أهبط الله تعالى آدم إلى الأرض، لم يكن فيها غير النسر في البر"[178]

علامہ الدمیریؒ کی مذکورہ عبارت کے مطابق حضرت آدم ؑ کےکرہ ارض پر اترنے سے پہلے صرف حیوانات تھے۔ سمندر میں مچھلی اور خشکی پر گدھ کے علامہ کرہ ارض پر کوئی حیوان موجود نہیں تھا۔

3-پرندے (Birds)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Bird

1-Scientific Name

Haliaeetus vocifer

8-Genus

Haliaeetus

7-Family

Accipitridae

6-Order

Ciconiiformes

5-Class

Aves

قرآن مجید میں مچھر، کوے، بٹیر، ٹڈی، شہدکی مکھی، چیونٹی، ہدہد، مکھی، فراش (پروانے) ، ابابیل یعنی دس پرندوں کا انکے ناموں سے ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں پرندوں کی تسبیح کا تذکرہ ہے جس سے پرندوں کی قدروقیمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۭ وَكُنَّا فٰعِلِيْنَ"[179]

" داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا تھا جو تسبیح کرتے تھے، اس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے۔ "

ہر پرندے کے دو پر ہوتے ہیں جس سے وہ فضا میں اڑتے ہیں۔ پرندے کو عربی زبان میں "الطیر" کہا جاتا ہے، اس کی جمع طائر، طیور اور اطیار ہے۔ قرآن مجید میں پرندوں کا تذکرہ متعدد مرتبہ آیا ہے۔ قرآن مجید نے پرندوں کی تسبیح و تحمید کا تذکرہ کیا ہے۔ پرندوں کے گوشت کی لذت پر بھی قرآن مجید نے اثبات کیا ہے۔ خشکی کے پرندے دنیا کے ہر خطے میں پائے جاتے ہیں، بعض پرندے پانی سے تعلق رکھتے ہیں جو آبی پرندے کہلاتے ہیں۔ پرندوں کا اصل مسکن باغات اور جنگلات کے درخت ہوتے ہیں۔ بعض پرندے مکانوں اور عمارتوں کے روشن دانوں میں گھونسلا بنا لیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پرندوں کا ارتقائی درجہ و حیثیت حشرات الارض سے اوپر اور ممالیہ جانوروں سے نیچے ہے۔ پرندوں کے خون کا طبعی درجہ حرارت 100 ڈگری فارن ہائیٹ ہوتا ہے جو ممالیہ سے زیادہ ہے۔ [180]

پرندے دنیا کے ہر خطے میں پائے جاتے ہیں۔ انسانی آبادی، جنگلات، باغات، دریاؤں اور سمندروں میں پرندوں کی ہزاروں انواع و اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایک سائنسی تحقیق کے مطابق پرندوں کی 8000 اقسام پائی جاتی ہیں۔ پرندوں کے بدن کی ساخت منفرد ہوتی ہے جو انہیں پرواز کے لئے موزوں ہوتی ہے۔ ہوائی جہاز کو بناتے ہوئے پرندوں کی ساخت کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ بعض پرندوں یعنی الو، کوا وغیرہ کی آواز مشرک اقوام کے ہاں بد شگونی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بعض پرندوں یعنی عقاب، مور وغٰیرہ کو مقدس قرار دیکر مشرک اقوام نے ان کی پرستش کی ہے۔ انجیل اور توریت میں پرندوں کا ذکر پایا جاتا ہے۔ تخلیق ِ کائنات کے پانچویں دن پرندوں کو پیدا کیا گیا ہے۔ کئی احادیث مبارکہ میں پرندوں کا ذکر پایا جاتا ہے۔

صیح مسلم کی روایت ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَقْوَامٌ، أَفْئِدَتُهُمْ مِثْلُ أَفْئِدَةِ الطَّيْرِ"[181]

 جنت میں ایسے لوگ داخل ہوں گے جن کے دل پرندوں کے دلوں کی مانند ہوں گے۔ اہل علم کے مطابق اس تشبیہ سے مراد خوف کی کیفیت ہے کیونکہ حیوانات میں پرندے خوف کھانے والے ہیں۔

سنن ابو داؤد کی روایت ہے:

" عَنْ أُمِّ كُرْزٍ، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَقِرُّوا الطَّيْرَ عَلَى مَكِنَاتِهَا"[182]

پرندوں کو بلاوجہ تنگ نہیں کرنا چاہئے اور انہیں اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا دینا چاہئے۔ اہل عرب میں سے کوئی کسی مقصد کے لئے گھر سے نکلتا تو راستے میں نظر آنیوالے پرندے کو اڑا دیتا۔ اگر پرندہ دائیں جانب اڑتا تو سفر جاری رکھتا، اگر پرندہ بائیں جانب مڑتا تو وہ سفر ترک کرے گھر واپس آجاتا۔ مذکورہ روایت ایسی توہم پرستی اور بد فالی سے منع کیا گیا ہے کہ پرندوں کو ان کی جگہ پر بیٹھا رہنا دو۔ تاہم مذکورہ روایت کے متعلق اہل علم کے متعلق مختلف اور متعدد اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس روایت رات کے وقت پرندوں کے شکار سے منع کیا گیا ہے۔ حلت و حرمت کے اعتبار سے پرندوں کی تین اقسام؛ شکاری پرندے، مردار خور پرندے اور غیر شکاری و غیر مردار خور پرندے ہیں۔ شکاری پرندوں میں پنجوں سے شکار کرنے والے مثلاً باز، شاہین، چیل، عقاب وغیرہ ہیں۔ جمہور فقہاء کے مطابق پنجوں سے شکار کرنے والے سب پرندے حرام یا مکروہ ہیں۔ زیادہ تر مردار خوراک کھانے والے پرندوں کو مردار خور پرندے کہا جاتا ہے جن میں نسر (عقاب سے بڑا پرندہ) ، گدھ وغیرہ شامل ہیں۔ جمہور فقہاء مردار خور پرندوں کو حرام گردا نتے ہیں۔ حنفی فقہاء کے مطابق غیر شکاری اور غیر مردار خور جنگلی اور پالتو پرندے حلال ہیں۔ مثلاً چڑیا، کبوتر وغیرہ۔

ہدہد (Hoopoe)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Hoopoe

1-Scientific Name

Upupa epops L.

8-Genus

Upupa

7-Family

Upopidae

6-Order

Bucerootiforms

5-Class

Aves

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَآ اَرَى الْهُدْهُدَ ڮ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ"[183]

"﴿ایک اور موقع پر﴾ سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کا جائزہ لیا اور کہا کیا بات ہے کہ میں فلاں ہد ہد کو نہیں دیکھ رہا ہوں۔ کیا وہ کہیں غائب ہوگیا ہے "

علامہ الدمیری ؒ رقمطراز ہیں:

" بضم الهاءين وإسكان الدال المهملة بينهما، طائر معروف ذو خطوط وألوان كثيرة، وكنيته أبو الأخبار وأبو ثمامة وأبو الربيع وأبو روح وأبو سجاد وأبو عباد۔ ۔ ۔ ويذكر عنه أنه يرى الماء في باطن الأرض، كما يراه الانسان في باطن الزجاجة، وزعموا أنه كان دليل سليمان على الماء"[184]

ہد ہد کے سر پر تاج نما کلغی کی بدولت اس کا شمار بڑے خوش نما اور خوش رنگ پرندوں میں ہوتا ہے۔ اس کی چونچ بڑی لمبی تیز اور خمدار ہوتی ہے۔ اس کی خوراک کیڑے مکوڑے ہیں۔ جنوبی یورپ میں اس کا شکار کثرت سے ہوتا ہے اور بڑی رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ اس کی قوت پرواز بہت زیادہ ہے۔ انجیل میں اس کا نام نہیں ملتا جبکہ توریت میں دو مقا مات پر حرام پرندوں کی فہرست میں آیا ہے۔ [185]ھد ھد ایک مشہور پرندہ ہے۔ اس کے جسم پر مختلف رنگوں کی دھاریاں ہوتی ہیں۔ اس کنیت ابو الاخیار، ابو ثمامتہ، ابو الربیع، ابو روح، ابو سجاد اور ابو عباد ہے۔ ھد ھد کی خصوصیت ہے کہ یہ زیر زمین پانی ایسے دیکھ لیتا ہے جیسے انسان گلاس کے اندر پانی دیکھ لیتا ہے۔ کہا جاتا ہے ھد ھد پانی کی تلاش میں حضرت سلیمان ؑ کی رہبری کا فریضہ سرانجام دیتا تھا۔

ابابیل (Martin)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Martin ,swallow

1-Scientific Name

Riparia riparia

8-Genus

Riparia

7-Family

Hirundinidae

6-Order

Passeriforms

5-Class

Aves

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ"[186]

"اور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں (فوجیں) بھیجیں۔ "

ابابیل ابرھہ کے ہاتھی والے لشکر کو تباہ کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ یہ زمین پر قدم رکھے بغیر مسلسل دس ماہ پرواز کر سکتا ہے۔

علامہ الدمیریؒ ابابیل کے بارے مختلف اہل علم کا اقوال نقل کرتے ہیں:

"فقال سعيد بن جبير: هي طير تعشش بين السماء والأرض وتفرخ، ولها خراطيم كخراطيم الطير، وأكف كأكف الكلاب وعن عكرمة أنها طيور خضر خرجت من البحر لها رؤوس كرؤوس السباع. وقال ابن عباس رضي الله عنهما بعث الله الطير على أصحاب الفيل كالبلسان وقيل: كانت كالوطاويط. وقال عبادة بن الصامت أظنا الزرازير"[187]

ابابیل اپنا گھونسلا زمین اور آسمان کے درمیان بناتا ہے اور اس کے بچے بھی وہیں پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی چونچ پرندوں کی طرح ہوتی ہے اور اس کے بازو کتے کے بازو کی طرح ہیں۔ ابابیل درندوں کی سر رکھنے والے سبز رنگ کے پرندے تھے جو سمندر سے بھیجے گئے تھے۔

بٹیر (Quail)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Quail

1-Scientific Name

Coturnix C. japonica

8-Genus

Coturnix

7-Family

Phasianidae

6-Order

Galliformes

5-Class

Aves

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ "[188]

"ہم نے تم پر اکابر کا سایہ کیا، من وسلویٰ کی غذا تمہارے لیے فراہم کی اور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں، انھیں کھاوٴ۔ "

سلوی ٰایک خاص قسم کا بٹیر کی شکل کا پرندہ تھا۔ شام کے وقت ان پرندوں کے بڑے بڑے جھنڈ صحرائے سینا میں آتے اور جہاں بنی اسرائیل ڈیرہ ڈالے ہوتے اس کے ارد گرد بیٹھ جاتے تھے۔ رات کی تاریکی میں یہ ان پرندوں کو آسانی سے پکڑ لیتے تھے اور بھون کر کھا یا کرتے تھے۔ اسطرح اس کے گوشت کے استعمال سے ان کی پروٹین کی ضرورت پوری ہو جاتی تھی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مکمل غذا فراہم کردی تھی۔ [189]قرآن مجید میں سلویٰ (بٹیر) کا ذکر تین مرتبہ آیاہے۔ تینوں مرتبہ حضرت موسیٰ ؑ کے عہد میں بنی اسرائیل پر انعامات الٰہی کے سلسے میں ایک دوسری غذا "من"کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ فرعون کے پنجہ سے آزادی کے حصول کے بعد بنی اسرائیل ایک عرصہ تک جزیرہ نمائے سینا کےدشت و میدان میں خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے رہے اور طویل قیام کے دوران ان کی خاص غذا یہی بٹیر (سلویٰ) رہا۔ بٹیر جزیرہ نمائے سینا کا ایک معروف و خاص پرندہ ہے جو وہاں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ یہ پرندہ زیادہ اونچا نہ اڑنے کی وجہ سے آسانی سے شکار ہو جاتا ہے۔ اس کا گوشت چکنا اور چربیلا ہوتا ہے، اسے زیادہ دیر ذخیرہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ جلد خراب ہو جاتا ہے۔ [190]

کوا (Crow)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Crow

1-Scientific Name

Corvus seplendons

8-Genus

Corvus

7-Family

Corvidae

6-Order

Passeriforms

5-Class

Aves

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا يَّبْحَثُ فِي الْاَرْضِ لِيُرِيَهٗ كَيْفَ يُوَارِيْ سَوْءَةَ اَخِيْهِ "[191]

" پھر اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔ "

کوا دنیا کے ہر کونے میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین حیاتیا ت کے مطابق دنیا بھر میں پائے جانے والی پرندوں کی آبادی کا سب سے بڑا حصہ کووں پر مشتمل ہے۔ کوے کی طبعی آبادی 100 سال ہوتی ہے۔ ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ کوا دنیا کا ذہین ترین پرندہ ہے۔ غذا کے لحاظ سے کوا ہمہ خور جانور ہے۔ غلہ، سبزی، پھل، گوشت، مردار، ہڈی، کیڑے مکوڑے وغیرہ اس کی خوراک ہیں۔ یہ سویرے سویرے خوراک کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ آج بھی امریکہ کے شمال مغربی ساحل کے علاقوں میں اسے ایک مقدس جانور کا درجہ حاصل ہے۔ عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید میں بھی کوے کا تذکرہ آیا ہے۔ طوفان ِ نوح تھمنے پر سب سے پہلے اڑنے والے پرندے کانام کوا ہی تھا۔ [192]کو ا مشہور پرندہ ہے جسے عربی زبان میں "الغراب " کہا جاتا ہے۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ گندگی و آلودگی اور کیڑوں مکوڑوں سے اپنی خوراک کا بندوبست کرتا ہے۔ کوے کانام قرآن مجید میں دو مرتبہ آیاہے۔ روئے زمین پر سب سے پہلے قاتل قابیل کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مقتول ہابیل کی لاش کے ساتھ کیا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کی مٹی کھود کر دوسرے کوے کی لاش کو اس میں دفن کررہا تھا۔ اسطرح کوے کو دیکھ کر اس نے بھی بھائی ہابیل کو لاش کو دفن کر دیا۔

علامہ الجاحظ ؒ رقمطراز ہیں:

"الغراب من لئام الطير وليس من كرامها، ومن بغاثها وليس من أحرارها، ومن ذوات البراثن الضعيفة والأظفار الكليلة، وليس من ذوات المخالب المعقّفة والأظفار الجارحة. ومن ذوات المناقير وليس من ذوات المناسر. وهو مع أنّه قويّ النّظر. لا يتعاطى الصّيد. وربّما راوغ العصفور، ولا يصيد الجرادة إلّا أن يلقاها في سدّ من الجراد. وهو فسل إن أصاب جيفة نال منها وإلّا مات هزالا، ويتقمّم كما يتقمم بهائم الطير وضعافها، وليس ببهيمة لمكان أكله الجيف، وليس بسبع لعجزه عن الصّيد"[193]

 علامہ الجاحظ کے مطابق کوے میں کوئی خوبی نہیں پائی جاتی جبکہ یہ منحوس پرندہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ گندگی اور کیڑے مکوڑے کھا کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے۔ فقہاء حنفیہ کے نزدیک حلت و حرمت کےاعتبار سے کوے کی تین اقسام ہیں۔ پہلی قسم مردار خور ہے جسے "غراب الابقع" کہا جاتا ہے، یہ حرام و ناجائز ہے۔ دوسری قسم میں ایسے کوے شامل ہیں جو مردار نہیں کھاتے بلکہ دانا چگتے ہیں، یہ قسم حلا لہے۔ تیسری قسم میں وہ کوے شامل ہیں جو دانا اور مردار دونوں کھاتے ہیں۔ تیسری قسم میں وہ کوے شامل ہیں جو دانا اور مردار دونوں کھاتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ایسے کوے حلال ہیں کیونکہ یہ مرغی کی طرح ہوتےہیں جبکہ امام ابو یوسف کے نزدیک یہ کوے مکروہ ہیں۔ [194]

-4 رینگنے والے جانور (Reptiles)

سانپ (Snake)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Snake

1-Scientific Name

Python reticulatus

8-Genus

Python

7-Family

Pythonidae (15)

6-Order

Squamata

5-Class

Reptelia

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِىَ حَيَّةٌ تَسْعٰي"[195]

"اس نے پھینک دیا اور یکایک وہ ایک سانپ تھی جو دوڑ رہا تھا۔ "

سانپ کو مصر میں مقدس جانور کا درجہ حاصل تھا۔ مصریوں کےہاں اسے مقدس دیوتا کی حیثیت حاصل تھی اور اس کی پرستش کی جاتی تھی۔ توریت کے عقیدہ کے مطابق سانپ ایک ملعون جانور ہے۔ انسان اور سانپ کی دشمنی ابدی ہے۔ جانوروں کی بڑی تعداد ایسی ہے جسے پوجا گیا ہے لیکن سانپ سے زیادہ کسی جانور کی پرستش نہیں کی گئی۔ [196]قرآن مجید میں سانپ کے لئے حیۃ، الجان، الثعبان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ کا عصا دشمنوں کے لئے "حیۃ"یعنی زہریلا سانپ، بڑا ہونے کے اعتبار سے "الثعبان" یعنی اژدھا اور حرکت و رفتار کے لحاظ سے "الجان" یعنی تیز رفتار سانپ تھا۔ سا نپ ایک دہشت ناک جانور ہے۔ سانپ اپنی منفرد عادا ت و خصائل کی بدولت دنیا کے ہر خطے میں خوف و دہشت کی علامت ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق بر صغیر میں خشکی کے سانپ کی 300 کے لگ بھگ اور پانی کے سانپ کی 21 انواع واقسام پائی جاتی ہیں۔ سانپ اکثر مشرک مذاہب میں ایک دیوتا کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ساون کی 5 تاریخ ناگ کی پرستش کا مشہور و معروف تہوار ہے۔ سانپ کی مورتیا ں بناکر جگہ جگہ رکھی جاتی تھیں۔

علامہ الدمیریؒ لکھتے ہیں:

"وزعم أهل الكلام في طبائع الحيوان، أن الحية تعيش ألف سنة، وهي في كل سنة تسلخ جلدها، وتبيض ثلاثين بيضة على عدد أضلاعها، فيجتمع عليها النمل فيفسد غالب بيضها، ولا يصلح

منه إلا القليل، وإن لدغها العقرب ماتت"[197]

علامہ الدمیریؒ کے مطابق سانپ کی عمر عام طورپر ایک ہزار سال تک دراز ہوسکتی ہے۔ سانپ ہر سال اپنی جلد اتار دیتا ہے۔ سانپ سال میں کئی مرتبہ انڈے دیتا ہے اور انڈوں کی تعداد اس کے بدن کی ہڈیوں کی تعدا د کے مساوی ہوتی ہے۔

5-ایمفیبین (Amphibian)

مینڈک (Frog)

4-Phylum

Chordata

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Frog

1-Scientific Name

Rana temporaria

8-Genus

Rana

7-Family

Ranidae

6-Order

Anura

5-Class

Amphibia

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ "[198]

" آخرِکار ہم نے ان پر طوفان بھیجا۔ ٹِڈی دل چھوڑے، سرسریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے، اور خون برسایا"

مینڈک ایک معروف و مشہور آبی جانور ہے۔ اس کی دنیا بھر میں سینکڑوں اقسام و انواع پائی جاتی ہیں۔ اس کی بعض اقسام درختوں پر بھی رہتی ہیں۔ ہندوستان میں برسات کے موسم میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ مینڈک سانپ کا بہترین خوراک ہے۔ میڈیکل سائنس کے ماہرین سب سے زیادہ تجر بات مینڈک پر ہی کرتے ہیں اس لئے لیبارٹری میں یہ جانور انتہائی کارآمد ہے۔ قرآن مجید میں مینڈک کا تذکرہ صرف ایک مرتبہ آیا ہے۔ فرعونیوں پر نازل ہونے والوں میں سے ایک عذاب مینڈکوں کا تھا۔ مینڈکوں کی کثرت کی بدولت مصریوں کا کھانا پانی مشکل ہو گیا تھا کیونکہ مصریوں کے ہاں مینڈک ایک مقدس جانور بھی تھا۔ قدیم مصریوں کی طرح بعض مذاہب میں بھی مینڈ ک کو مقدس جانور کا درجہ حاصل ہے۔ [199]

سنن نسائی کی روایت ہے:

"عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ، أَنَّ طَبِيبًا ذَكَرَ ضِفْدَعًا فِي دَوَاءٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِهِ"[200]

 مذکورہ بالا روا یت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک طبیب نے پیارے آقاﷺکے سامنے دوا کے طور پر مینڈک کے استعمال کا تذکرہ کیا تو آپﷺ نے دوا کے لیے مینڈک کے قتل سے روک دیا۔

ابن سینا نے "القانون"میں مینڈک کے استعمال کے مضر اثرات:

"من أكل دَمه أَو جرمه ورم بدنه وكمد لَونه وَقذف الْمَنِيّ حَتَّى يَمُوت"[201]

جو شخص مینڈک کا خون یا بدن کھائے گا تو اس کا جسم سوج جائے گا۔ اس کی رنگت مرجھا جائے گی، اس کی مردانگی زائل ہو جائے گی اور یہ شخص فوت ہو جائےگا۔ اکثر و بیشتر اطباء نے مینڈ ک کے استعمال کے مضر صحت ہونے کی وجہ سے اس کے استعمال سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ مینڈک کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی قسم پانی والی ہے جو پانی میں رہتی ہے جبکہ دوسری قسم خشکی والی ہے ایسے مینڈکوں کا بسیرا خشکی میں ہوتا ہے۔ خشکی والے مینڈک انتہائی زہریلے ہوتے ہیں۔ اسے کھانے سے انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔

امام ابن قیم ؒ اپنی معروف تالیف "طب نبویﷺ" مینڈک کی اقسام کے ضمن میں لکھتے ہیں:

"تَرَكَ الْأَطِبَّاءُ اسْتِعْمَالَهُ خَوْفًا مِنْ ضَرَرِهِ، وَهِيَ نَوْعَانِ: مَائِيَّةٌ وَتُرَابِيَّةٌ، والترابية يقتل أكلها"[202]

علامہ الدمیریؒ مینڈک کے بارے میں لکھتے ہیں:

"ويقال للضفدع أبو المسيح وأبو هبيرة وأبو معبد وأم هبيرة. والضفادع أنواع كثيرة، وتكون من سفاد وغير سفاد، وتتولد من المياه القائمة الضعيفة الجري، ومن العفونات وعقب الأمطار الغزيرة، حتى يظن أنه يقع من السحاب لكثرة ما يرى منه على الأسطحة، عقب المطر والريح. وليس ذلك عن ذكر وأنثى وإنما الله تعالى يخلقه في تلك الساعة، من طباع تلك البرية"[203]

مذکورہ عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ مینڈک کی کنیت ابو المسیح، ابو ہبیرہ اور ابو معبد مستعمل ہے۔ مینڈک کی بہت سی اقسام ہیں۔ بعض عمل تولید سے اور تولید ی عمل کے بغیر بھی پیدا ہوتے ہیں اور مینڈکوں کی تعداد بارش کے بعد بکثرت نظر آتی ہے۔

6-حشرات (Insects)

شہد کی مکھی (Bee)

4-Phylum

Anthropoda

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Bee

1-Scientific Name

Apis Mellifera

8-Genus

Apis

7-Family

Apidae

6-Order

Hymenoptera

5-Class

Insecta

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"ثُمَّ كُلِيْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُكِيْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۭ يَخْرُجُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِيْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاسِ "[204]

"اور ہر طرح کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے۔ "

شہد کی مکھی کو عربی زبان میں "النحل "کہا جاتا ہے۔ شہد کی مکھی ایک ذہین، کاریگر اور دلیر حیوان ہے۔ یہ بارشوں کے اوقات اور موسمیاتی تبدیلی سے آگہی رکھتی ہے۔ ہر چھتے میں تین طرح شہد کی مکھیا ں ہوتی ہیں۔ ایک مکھی سب مکھیوں کی ملکہ ہوتی ہے اور دوسری تمام مکھیاں اس کے حکم کے تا بع ہوتی ہیں۔ ملکہ جس وقت اپنی پرواز عروسی میں پرواز کرتی ہے، نر بڑی تعداد اس کا پیچھا کرتے ہیں لیکن وہ اونچی سے اونچی ہوتی چلی جاتی ہے، نر تھک کر رہ جاتے ہیں، ان میں کامیاب صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ یہ ملکہ ایک یوم میں تین ہزار انڈے دیتی ہے۔ ایک بڑے چھتے میں 50 ہزار مکھیاں پورے آرام کے ساتھ گزر بسر کر سکتی ہیں۔ [205]

صاحب "حیات الحیوان الکبریٰ " شہد کی مکھی کی خصوصیات بیان کرتے ہیں:

" ومن شأنه في تدبير معاشه أنه إذا أصاب موضعا نقيا بنى فيه بيوتا من الشمع أولا، ثم بنى البيوت التي تأوي فيها الملوك، ثم بيوت الذكور التي لا تعمل شيئا. والذكور أصغر جرما من الإناث"[206]

 مذکورہ عبارت کا حاصل یہ ہے کہ شہد کی مکھی چھتہ کے لئے صاف جگہ کا انتخاب کرتی ہے۔ وہ سب سے قبل چھتہ کا وہ حصہ تیار کرتی ہے جہاں اس نے شہد تیار کرنا ہوتا ہے۔ پھر "رانی مکھی " کے لئے ایک گھر بناتی ہے اور اس کے بعد نر مکھیوں کی جگہ بناتی ہے جو معاش کے لئے کوشش نہیں کرتے۔ مادہ مکھیوں کی نسبت نر مکھیاں چھوٹی ہوتی ہیں۔

معروف تفسیر" روح البیان " میں شہد کے بارے حضرت علیؓ کا درج ذیل قول نقل کیا گیا ہے:

"قال على رضى الله عنه انما لدنيا ستة أشياء مطعوم ومشروب وملبوس ومركوب ومنكوح ومشموم. فاشرف المطعومات العسل وهو مذقة ذباب "[207]

 امام زہری ؒ فرماتے ہیں:

"عَلَيْكَ بِالْعَسَلِ فَإِنَّهُ جَيِّدٌ لِلْحِفْظِ، وَأَجْوَدُهُ أَصْفَاهُ وَأَبْيَضُهُ، وَأَلْيَنُهُ حِدَّةً، وَأَصْدَقُهُ حَلَاوَةً، وَمَا يُؤْخَذُ مِنَ الْجِبَالِ وَالشَّجَرِ لَهُ فَضْلٌ عَلَى مَا يُؤْخَذُ مِنَ الْخَلَايَا، وَهُوَ بِحَسَبِ مرعى نحله"[208]

 مذکور ہ عبارت کے مطابق قوت حافظہ بہتر اور تیز بنانے کے لئے شہد کا استعمال کرنا چاہیے۔ سب سے اچھا شہد وہ ہوتا ہے جو صاف ستھرا اور سفید رنگ کا ہو، میٹھا اورنرم ہو۔ پہاڑوں اور درختوں سے حاصل کیا جانے والا شہد آبادیوں یا گھروں والے شہد سے عمدہ ہوتا ہے عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید میں شہد کا ذکر پایا جاتا ہے۔

پروانہ (Moth)

4-Phylum

Anthropoda

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Moth

1-Scientific Name

Gynnidomorpha alisman

8-No.of Species

9000

7-Family

Formicidae

6-Order

Lepidoptera

5-Class

Insecta

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"يَوْمَ يَكُوْنُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ"[209]

"وہ دن جب لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح"

علامہ الدمیریؒ رقمطراز ہیں:

"دواب مثل البعوض، واحدتها فراشة، وهي التي تطير وتتهافت في السراج لضعف أبصارها، فهي بسبب ذلك تطلب ضوء النهار، فإذا رأت فتيلة السراج بالليل ظنت أنها في بيت مظلم، وأن السراج كوة في البيت المظلم إلى الموضع المضيء، فلا تزال تطلب الضوء وترمي بنفسها إلى النار، فإذا جاوزتها ورأت الظلام ظنت أنها لم تصب الكوة، ولم تقصدها على السداد، فتعود إليها مرة بعد مرة، حتى تحترق"[210]

مذکورہ عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ (الفراش) پروانہ سے مراد مچھر سے مشابہ ایک اڑنے والا چھوٹا سا کیڑا ہے۔ الفراش کا واحد فراشہ ہے۔ یہ کیڑا روشنی کی تلاش میں روشنی کے ارد گرد منڈلاتا رہتا ہے کیونکہ اس کی بصارت کمزور ہوتی ہے۔ جب رات کے وقت اسے چراغ دکھائی دیتا ہے تو یہ اسے اندھیرے گھر سے نکلنے کا سوراخ سمجھتا ہے۔ بار بار چراغ کی طرف لوٹنے کی وجہ سے چراغ کی آگ میں جل کر اپنی جان دے دیتا ہے۔ امام غزالیؒ اپنی معروف تالیف "احیا علوم الدین" میں رقمطراز ہیں:

" فاعلم أن جهل الإنسان أعظم من جهلها بل صورة الآدمي في الإكباب على الشهوات الدنيا صورة الفراش في التهافت على النار إذتلوح للآدمي أنوار الشهوات من حيث ظاهر صورتها ولا يدري أن تحتها السم الناقع القاتل فلا يزال يرمي نفسه عليها إلى أن ينغمس فيها ويتقيد بها ويهلك"[211]

انسان کی جہالت پروانے کی جہالت سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ پروانہ روشنی کے گرد گھومتے ہوئے اپنی زندگی کا کام تمام کر دیتا ہے۔ کاش انسان کی جہالت بھی پروانے کی مانند ہو جائے کیونکہ پروانہ ظاہری روشنی پر جل کر خلاصی پا لیتا ہے جبکہ انسان اندھیرے کے ارد گرد گھومنے یعنی اپنے گناہوں کے باعث آگ میں جلتا رہے گا۔

ٹڈی (Locust)

4-Phylum

Anthropoda

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Locust

1-Scientific Name

Locusta migratoria

8-Genus

Locusta

7-Family

Acrididae

6-Order

Orthroptera

5-Class

Insecta

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"خُشَّعًا اَبْصَارُهُمْ يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ كَاَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ"[212]

"لوگ سہمی ہوئی نگاہوں کے ساتھ اپنی قبروں سے اس طرح نکلیں گے گویا وہ بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں۔"

ٹڈی مشہور و معروف پرندہ ہے۔ اسے عربی زبان میں "الجراد" کہا جاتا ہے۔ ٹڈی کی دو اقسام بحری ٹڈی اور بری ٹڈی ہیں۔ ٹڈیاں زرد، سرخ اور سفید رنگ کی ہوتی ہیں۔ ماہرین حیوانات کے مطابق اس کی 9 اقسام ہیں۔ ٹڈی ایک گھنٹہ میں 20015 میل کا فاصلہ طے کر لیتی ہے۔ یہ ایک نباتاتی دشمنی میں شہرت رکھتی ہے۔ ٹڈیاں آن کی آن میں فصلوں کے کئی کھیت صاف کر دیتی ہے۔ باغبان اور کاشت کار ٹڈیوں کا نام سن کر لرز جاتے ہیں۔ توریت و انجیل میں بھی ٹڈیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ قرآن مجیدمیں کثرتِ تعداد کے ظاہر کرنے ٹڈیوں کی تشبیہ دی گئی ہے۔ [213]

صاحب "حیات الحیوان الکبریٰ" رقمطراز ہیں:

"وللجرادة ست أرجل: يدان في صدرها، وقائمتان في وسطها، ورجلان في مؤخرها، وطرفا رجليها منشاران. وهو من الحيوان الذي ينقاد لرئيسه فيجتمع كالعسكر إذا ظعن أوله تتابع جميعه ظاعنا وإذا نزل أوله نزل جميعه. ولعابه سم ناقع للنبات، لا يقع على شيء إلا أهلكه"[214]

عبارت بالا سے واضح ہوتا ہے کہ ٹڈی کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں دو سینے میں، دو درمیان میں اور دو آخر میں ٹانگیں ہوتی ہیں۔ ٹڈیاں ایک سردار کے ماتحت لشکر کی شکل میں پرواز کرتی ہیں۔ ٹڈی کا لعاب نباتا ت کی تباہی و بربادی کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے ٹڈیاں کسی کھیت پر حملہ آور ہو جائیں تو اسے برباد کر دیتی ہیں۔

چیونٹی (Ant)

4-Phylum

Anthropoda

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Ant

1-Scientific Name

Formicidae

8-No.of Species

12000

7-Family

Formicidae

6-Order

Hymenoptera

5-Class

Insecta

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"حَتّىٰٓ اِذَآ اَتَوْا عَلٰي وَادِ النَّمْلِ ۙ قَالَتْ نَمْــلَةٌ يّـٰٓاَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ ۚ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمٰنُ وَجُنُوْدُهٗ ۙ وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ"[215]

"﴿ایک مرتبہ وہ ان کے ساتھ کوچ کر رہا تھا﴾ یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا ” اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان (علیہ السلام) اور اس کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔ "

حیوانات میں سے چیونٹی اپنی فہم و فراست کے لحاظ سے ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے۔ چیونٹی کی اوسط عمر 7 سال ہوتی ہے۔ چیونٹی کی ہمت اور مشقت مثالی اور معیاری ہوتی ہے۔ زیادہ تر چیونٹیاں مادہ ہوتی ہیں اور ایک ان کی ملکہ ہوتی ہے جس کے حکم کے سب تابع ہوتے ہیں۔ نر تھوڑی سی عمر پا کر مر جاتے ہیں جبکہ ان کی ملکائیں سات سال کی عمر تک جیتی ہیں۔ چیونٹیاں اپنی زندگی بڑی سلیقہ مندی اور باقاعدگی سے بسر کرتی ہیں۔ ان کے بل زمین دوز ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان کے بلوں کے اندر سڑکیں، نالیاں اور پل بنے بنی ہوتے ہیں اور صفائی کا پورا انتظام ہوتا ہے۔ ان کی اقسام 5000 سے زائد دریافت ہو چکی ہیں۔ عہد نامہ عتیق اور یہود کے مذہبی نوشتوں میں چیونٹی کا ذکر کثرت سے آیا ہے۔ [216]

علامہ الدمیریؒ چیونٹی کے خواص اسطرح بیان کرتے ہیں:

"والنمل عظيم الحيلة في طلب الرزق، فإذا وجد شيئا أنذر الباقين ليأتوا إليه، ويقال إنما يفعل ذلك منها رؤساؤها. ومن طبعه أنه يحتكر قوته من زمن الصيف لزمن الشتاء، وله في الاحتكار من الحيل ما أنه إذ احتكر ما يخاف إنباته قسمه نصفين، ما خلا الكسفرة فإنه يقسمها أرباعا، لما ألهم من أن كل نصف منها ينبت، وإذا خاف العفن على الحب أخرجه إلى ظاهر الأرض ونشره، وأكثر ما يفعل ذلك ليلا في ضوء القمر، ويقال إن حياته ليست من قبل ما يأكله ولا قوامه، وذلك لأنه ليس له جوف ينفذ فيه الطعام، ولكنه مقطوع نصفين، وإنما قوته إذا قطع الحب في استنشاق ريحه فقط. وذلك يكفيه"[217]

انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Any member of the approximately 8,000 species of the insect family Formicidae (order Hymenoptera) .Ant occur worldwide but are specially common in hot climates. All ants are social in habitat;i.e.,they live together in organized colonies, and they range in size from 2 to about 25 millimeters (0.08 to 1 inch) .”[218]

مذکورہ شواہدسے واضح ہوتا ہے کہ رزق ذخیرہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے میں اپنی مثا ل آپ ہے۔ چیونٹیوں کی سردار خوراک اکٹھا کرنے کا انتظام کرنے کے لئے دوسری ساتھی چیونٹیوں کو آگاہ کرتی ہے۔ اگر خوراک میں نمی کا خدشہ ہوتو چیونٹی اسے خشک کرنے کے لئے بل سے باہر لا کرچاند کی روشنی میں زمین پر بکھیر دیتی ہے۔

دیمک (Termite)

4-Phylum

Anthropoda

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Termite

1-Scientific Name

Isoptera

8-No.of families

Over 3000

7-Family

Termitidae

6-Order

Isoptera

5-Class

Insecta

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰي مَوْتِهٖٓ اِلَّا دَاۗبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗ ۚ "[219]

" پھر جب سلیمان ؑپر کا فیصلہ نافذ کیا تو جنوں کو اس کی موت کا پتہ دینے والی کوئی چیز اس گھن کو سوا نہ تھی جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ "

دابۃ الارض" سے مرادمفسرین نے دیمک مراد لیا ہے۔ یہ چھوٹا سا کیڑا خاص طور لکڑی کا خصوصی دشمن ہے۔ لکڑی کے اندر کا گودا اس کی اصل خوراک ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس کی 1900 اقسام و انواع دریافت ہو چکی ہیں۔ دیمک کی ایک خا ص طرز حیات اور اعلی ٰ نظامِ زندگی ہے۔ اس جانور کے نظام زندگی کثیر تعداد میں تحقیقی مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں۔ [220]سانپ کو مصر میں مقدس جانور کا درجہ حاصل تھا۔ مصریوں کےہاں اسے مقدس دیوتا کی حیثیت حاصل تھی اور اس کی پرستش کی جاتی تھی۔ توریت کے عقیدہ کے مطابق سانپ ایک ملعون جانور ہے۔ انسان اور سانپ کی دشمنی ابدی ہے۔ جانوروں کی بڑی تعداد ایسی ہے جسے پوجا گیا ہے لیکن سانپ سے زیادہ کسی جانور کی پرستش نہیں کی گئی۔ [221]دیمک مسور کے دانے کے برابر چھوٹا سا جانور ہے جسے عربی میں الارضۃ یا السرفۃ کہاجاتا ہے۔ صاحب "المنجد" کے مطابق "الارضتہ " کو دیمک کہا جاتا ہےجو لکڑی کھانے والے ایک قسم کا کیڑا ہے، اس کی جمع اَرَض ہے۔ [222]

"المعجم الوسیط" میں دیمک کی لغوی توضیح کی گئی ہے:

" الأرضة الْخشب وَنَحْوهَا أَرضًا أَكلته (أرضت) الأَرْض وَالرَّوْضَة أَرضًا كثر نبتها وَحسن مرآها والقرحة فَسدتْ وتقطعت والخشبة وَنَحْوهَا أكلتها الأرضة فَهِيَ أرضة"[223]

 دیمک ایک ایسا کیڑا ہے جو لکڑی اور زمین کھاتا ہے۔ لکڑی کے حسن وجمال کو بگاڑ دیتا ہے اور اسے چاٹ جاتا ہے۔ دیمک اپنی کاروائی زمین پر شروع کرتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں اسے "دَاۗبَّةُ الْاَرْضِ" کہا گیا ہے۔ گندگی و آلودگی کی بدولت اس کو بطور ِ خوراک استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ عرب ایک محاورہ میں بسیار خور شخص کو دیمک سے تشبیہ دیتے ہیں۔ زیادہ کھانے والے شخص کو " أكل من أرضة"[224]یعنی وہ دیمک سے زیادہ کھانے والا ہے۔

ابن ماجہ کی ایک روایت میں دیمک کا تذکرہ کیا گیا ہے:

" فَنَزَلَ النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَمَّا سَمِعَ صَوْتَ الْجِذْعِ، فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ حَتَّى سَكَنَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمِنْبَرِ، وكَانَ إِذَا صَلَّى، صَلَّى إِلَيْهِ، فَلَمَّا هُدِمَ الْمَسْجِدُ وَغُيِّرَ، أَخَذَ ذَلِكَ الْجِذْعَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَكَانَ عِنْدَهُ فِي بَيْتِهِ حَتَّى بَلِيَ، فَأَكَلَتْهُ الْأَرَضَةُ وَعَادَ رُفَاتًا"[225]

کجھور کا تنا ابی بن کعب (رض) کجھور کے تنے کو گھر لے گئے۔ جب یہ کجھور کا تنا بوسید ہ ہوگیا تو اس کو دیمک کھا گیا اسطر ح یہ تنا ریزہ ریزہ ہوگیا۔ مولانا صفی الرحمٰن مباکپوریؒ اپنی تالیف "الرحیق المختوم" میں مقاطعہ قریش کا معاہدہ میں دیمک کا کمال بیان کرتے ہیں:

" قام المطعم إلى الصحيفة ليشقها، فوجد الأرضة قد أكلتها إلا: باسمك اللهم . وما كان فيها من اسم الله فإنها لم تأكله. ثم نقض الصحيفة، وخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ومن معه من الشعب، وقد رأى المشركون آية عظيمة من آيات نبوت"[226]

قریشی سردار مطعم معاہدہ پھاڑنے کے لئے اٹھا تو دیکھا کہ دیمک نے مقاطعہ قریش کے معاہدہ کو دیمک نے ختم کر دیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے نام کو چھوڑ دیا تھا۔ اسطرح شعب ابی طالب کے محصورین کی آزمائش و مشکل ختم ہوگئی۔

علامہ الدمیریؒ اپنی شہرہ آفاق تالیف "حیات الحیوان الکبریٰ" میں دیمک کی خصوصیات بیان کرتے ہیں:

"والنمل عدوّها، وهو أصفر منها فيأتيها من خلفها فيحملها ويمشي بها إلى جحره، وإذا أتاها مستقبلا، لا يغلبها لأنها تقاومه، انتهى. ومن شأنها أنها تبني لنفسها بيتا حسنا، من عيدان تجمعها مثل غزل العنكبوت، متخرطا من أسفله إلى أعلاه وله في إحدى جهاته باب مربع، وبيتها ناووس ومنها تعلم الأوائل بناء النواويس على موتاهم"[227]

دیمک کی سب سے بڑی دشمن چیونٹی ہے۔ اگر چیونٹی سامنے سے حملہ کرے تو دیمک کو قابو کرنا آسان نہیں۔ یہ مکڑی کی طرح لکڑی کا خوبصورت گھر بناتا ہے، اس میں چوکور دروازہ رکھتا ہے۔ دیمک کا مکان تابوت کی طرح ملتا جلتا ہے۔

مکھی (Fly)

4-Phylum

Anthropoda

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Fly

1-Scientific Name

Musca Domestica

8-Genus

Musca

7-Family

Mucidae

6-Order

Deptera

5-Class

Insecta

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ ۭ وَاِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْـــــًٔـا لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ ۭ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ"[228]

" وہ جنہیں اللہ کے سوا تم پوجتے ہو ایک مکھی نہ بناسکیں گے اگرچہ سب اس پر اکٹھے ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین کرلے جائے تو اس سے چھڑا نہ سکیںکتنا کمزور چاہنے والا اور وہ جس کو چاہا۔ "

مکھی ایک معروف حیوان ہے جسے عربی زبان میں "الذباب" کہا جاتا ہے۔ اہل علم و دانش نے مکھی کو سب سے جاہل اورلالچی جانور قرار دیا ہے۔ یہ واحد پرندہ ہے جو اڑتے ہوئے کھانے پینے کی چیزوں میں منہ ڈالتی ہے۔ مکھی اردو، عربی اور دوسری متعدد زبانوں کے محاورہ میں یہ لفظ حقارت کے لئےضرب المثل ہے۔ انگریزی بائبل میں بھی مکھیوں کا تذکرہ چار مرتبہ آیا ہے۔ اہل مشرق مکھی کو غلاظت و گندگی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

علامہ الدمیریؒ اپنی معروف تالیف " حیات الحیوان الکبریٰ " میں مکھی کے خصائص بیان کرتے ہیں:

" أرض مذبوبة، كما يقال أرض موحوشة، أي ذات وحوش. وسمي ذبابا لكثرة حركته واضطرابه، وقيل لأنه كلم ذب آب، وكنيته أبو حفص وأبو حكيم وأبو الحدرس والذباب أجهل الخلق لأنه يلقي نفسه في الهلكة "[229]

مذکورہ عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ مکھیوں کی کثرت والی جگہ کو "ارض مذبۃ" کہا جاتا ہے۔ معرو ف لغوی فراء نے بھی مکھیوں کی کثرت والی جگہ کو "ارض مذبتہ" کہا ہے۔ مکھی کو "ذباب" اس کی مسلسل حرکت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ اس کی کنیت ابو حفص، ابو حکیم اور ابو الحدرس ہے۔ مکھی جاہل ترین مخلوق ہے کیونکہ یہ خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتی ہے۔ علامہ جوہری کے مطابق اڑنے والے جانوروں میں سے سوائے مکھی کے کوئی بھی کھانے پینے کی اشیا ء میں منہ ڈالتا۔

البہیقی کی روایت ہے:

" إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي الطَّعَامِ فَامْقُلُوهُ فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ سُمًّا وَفِي الْآخَرِ شِفَاءً وَإِنَّهُ يُؤَخِّرُ الشِّفَاءَ وَيُقَدِّمُ السُّمَّ "[230]

جب کھانے کی چیز میں مکھی گر جائے تو اس کھانے یا پینے کی چیز میں ڈبو لینا چاہئے کیونکہ مکھی کے ایک پر میں شفا ہوتی ہے اور دوسرے پر میں زہر ہوتا ہے۔ تمام حیوانات میں سے سب سے زیادہ حریص و لالچی مکھی ہے جبکہ مکڑی سب حیوانات میں قانع ہے۔

مچھر (Mosquito)

4-Phylum

Anthropoda

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Mosquito

1-Scientific Name

Culicidae

8-Genus

3500

7-Family

Culicidae

6-Order

Deptera

5-Class

Insecta

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْىٖٓ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَا"[231]

" ہاں، اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے۔ "

مچھر ایک مشہور پرندہ ہے جسے قرآن میں "البعوض" کہا گیا ہے۔

علامہ الدمیریؒ مچھر کے خصائص کے بارے میں علامہ جوہری ؒ کے خیالات نقل کرتے ہیں:

" وهو لغة في القرقس، وهو البعوض الصغار، والبعوض على خلقة الفيل إلا أنه أكثر أعضاء من الفيل فإن للفيل أربع أرجل وخرطوما وذنبا. وله مع هذه الأعضاء رجلان زائدتان، وأربعة أجنحة وخرطوم الفيل مصمت، وخرطومه مجوّف نافذ للجوف، فإذا طعن به جسد الإنسان استقى الدم وقذف به إلى جوفه فهو له كالبلعوم والحلقوم، ولذلك اشتد عضها وقويت على خرق الجلود الغلاظ"[232]

مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ علامہ جوہریؒ کے مطابق"بعوض" چھوٹے مچھر کو کہا جاتا ہے۔ مچھر کے اعضاء ہاتھی کی طرح ہوتے ہیں، ہاتھی کے چار پاؤں، ایک سونڈ اور ایک دم ہوتی ہے جبکہ مچھر ان اعضاء کے علاوہ دو پاؤں زائد اور چار بازوں ہوتے ہیں، ہاتھی کی سونڈپر گوشت ہوتا ہے اور مچھر کی سونڈ کھوکھلی ہوتی ہے جس کا پھیلاؤ پیٹ تک جاتا ہے۔ جب مچھر کاٹتا ہے تو اپنے شکار کا خون چوس کر پیٹ تک لے جاتا ہے۔ مچھر کی سونڈ گلے اور حلق کا کام دیتی ہے۔ مچھر کا کاٹنا اذیت ناک ہوتا ہے کیونکہ یہ متاثرہ شخص کی کھال پر بھی مکمل قابو پا لیتا ہے۔

مکڑی (Spider)

4-Phylum

Anthropoda

3-Kingdom

Animalia

2-English Name

Spider

1-Scientific Name

Salticus scenicus

8-Genus

Salticus

7-Family

Salticidae

6-Order

Araneae

5-Class

Arachnida

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ ښ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ

الْعَنْكَبُوْتِ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ "[233]

"جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔ کاش یہ لوگ علم رکھتے۔ "

مکڑی جالا بننے والا کیڑا ہے اور اسے عربی زبان میں "العنکبوت " کہا جاتا ہے۔ مکڑی برفانی علاقوں کی ماؤنٹ ایورسٹ کی بلند چوٹی سے لے کر زیر زمین تاریک غاروں میں بسیرا کئے ہوئے ہے۔ ماہرین حیوانات کے مطابق اس کی 40 ہزار اقسام و انواع ہیں۔ عام کیرے مکوڑوں کے چھ جبکہ اس کے آٹھ پاؤں ہوتے ہیں۔ ۔ تیز آندھی اور بارش سے اس کا گھر تار تار ہوجاتا ہے، مکڑی نئے سرے سے اسے بننے میں مصروف ہو جاتی ہے، اس کے کمزوری و نازک مثال عہد عتیق میں بیان کی گئی ہے۔ [234]

 علامہ الدمیری ؒ لکھتے ہیں:

"ووزنه فعللوت وهي قصار الأرجل كبار العيون للواحد ثمان أرجل وست عيون "[235]

مکڑی ایک ایسا کیڑا ہے جس کی ٹانگیں چھوٹی ہوتی ہیں اور آنکھیں بڑی ہوتی ہیں۔ اس کی آٹھ ٹانگیں اور چھ آنکھیں ہوتی ہیں۔ مکڑی مکھی کا شکار کرنے کے لئے زمین کے کسی حصے میں بیٹھ کر اپنے جسم کو سکیڑ لیتی ہے اور قریب آنے پر مکھی کو قابو کر لیتی ہے۔

[1]فیروز الدین، مولوی، فیروز اللغات اردو جامع، ص۔ 560

[2]أبو القاسم محمود بن عمرو، الزمخشري، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، دار الكتاب العربي بيروت، 1407 هـ، 3/463

[3]علامہ الجاحظ، ابو عثمان، الحیوان، دا ر الکتب العلمیہ، بیروت، 1424ھ، 1/24

[4]قاسم محمود، سید، اسلامی انسائیکلوپیڈیا، شاہکار بک فاؤنڈیشن کراچی، ص۔ 829

[5]اردو دائرہ معارف اسلامیہ، دانش گاہ پنجاب لاہور، جلد 5، طبع اول 1973ء، 1393ھ، ص۔ 771

[6]إبراهيم بن إسماعيل الأبياري، الموسوعة القرآنية، مؤسسة سجل العرب، 1405 هـ، 8/539

[7]لویس معلوف، المنجد عربی اردو، (مترجم: مولانا ابو الفضل عبدالحفیظ ) ، خزینہ علم و ادب لاہور، س۔ ن۔ ، ص۔ 187

[8]B. Lewis, V. L. Menage, Ch.Pellat and J. Schacht,The Encyclopedia of Isᾱm,Vol-111, Luzac & Co.,London, 1986, P.304

[9] The New Encyclopedia Britannica,Vol- 1,15th Ed.,p.418

[10] The Oxford English Dictionary,2nd Ed.,Vol-1,P.474

[11] Rᾱnī, Reetᾱ , Dictionary of Biology , Anmol Publications، New Delhi ,p.22

[12] The Encyclopedic Dictionary of Science,p.23

[13]M. S. Rᾱo, Dictionary of Geography, p.42

[14]محمد بن موسى بن عيسى بن علي الدميري، أبو البقاء، كمال الدين، حياة الحيوان الكبرى، 1/104

[15]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كتاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ، بَابُ ابْتِدَاءِ الْخَلْقِ وَخَلْقِ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، رقم الحدیث، 2789

[16]العنکبوت، 64: 29

[17]اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد: 8، دانش گاہ پنجاب لاہور، ص۔ 777

[18]فیروز الدین، مولوی، فیروز اللغات اردو جامع، ص۔ 560

[19]المرجع السابق

[20]جوزيف فندريس، اللغة، مكتبة الأنجلو المصرية، 1950 م، ص۔ 17

[21]التین، 4: 95

[22]فیروز الدین، مولوی، فیروز اللغات اردو جامع، ص۔ 560

[23] The Encyclopedic Dictionary of Science,p.256

[24] J. A . Simpson and E.S.C Weiner,The Oxford English Dictionary,Vol- viii ,Clarendon Press,Oxford.1989,p.823

[25] Encyclopedia Britannica, Vol-23,p.976

[26]اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد: 8، ص۔ 781

[27]مرجع السابق، ص۔ 782

[28]عمرو بن بحر بن محبوب الكناني، الحیوان، دار الكتب العلمية – بيروت، 1424 هـ، 4/392

[29] Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Science, P.185

[30]الانعام، 38: 6

[31] Encyclopedia Britannica, Volume23,p.98

[32] The Encyclopedic Dictionary of Science,p.248

[33] Ibid,p.95

[34] The Encyclopedic Dictionary of Science, p.156

[35] Aristotle,Histrory of Animals,Translated by Richard Cresswell,George Bell & Sons,London,1883,P.9

[36]الدميري، كمال الدين، حياة الحيوان الكبرى، دار الكتب العلمية، بيروت، 1424 هـ، 1/104

[37] .Rᾱnī, Reetᾱ, Dictionary of Biology,p.67

[38] The New Encyclopedia Britannica, Volume 15,15th Edition,Encyclopedia Britannica, Inc Chicago. ,1992,p.1

[39] Rᾱnī , Reetᾱ, Dictionary of Biology, p.17

[40] The Encyclopedic Dictionary of Science,p.201

[41]طنطاوي، التفسير الوسيط للقرآن الكريم، 1/89

[42]Abūbakar Ahmad ,Isᾱmic principles for the Conservation of the natural Environment,p.80

[43]الجاثیہ، 4: 45

[44]اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد: 8، ص۔ 782

[45]أحمد عبيد الكبيسي، حقوق الحيوان والرفق به في الشريعة الإسلامية، الجامعة الاسلامية بالمدينة المنورة، ربيع الأول 1396هـ، 1/24

[46]David L. Bender and Bruno Leone, Animal Rights, Greenhaven Press, Inc.,U.S.A.,1989, P.164

[47]روزنامہ دنیا لاہور، 22 اپریل 2018ء

[48] A. R. Agwᾱn, Isᾱm and the Environment, P.6

[49]Rᾱnī, Reetᾱ, Dictionary of Biology,p.129

[50] Encyclopedia Britannica, Volume23,p.986

[51] Rᾱo, M.S., Dictionary of Goography, p.97

[52]David L.,Bender and Bruno Leone, Animal rights, P.33

[53]الغاشیہ 17: 88

[54]ناصر الدين عبد الله بن عمر البيضاوي، أنوار التنزيل وأسرار التأويل، دار إحياء التراث العربي بيروت، 1418 هـ، 5/308

[55]Richard C. Smmonds, Animal Experimentation is Ethical,Animal Rights, P.51

[56] David L.,Bender and Bruno Leone, Animal rights,Greenhaven press,U.S.A.,1989, P.69

[57]النحل، 80: 16

[58]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیوانات قرآنی، ص۔ 61

[59]قاسم محمود، سید، اسلامی انسائیکلو پیڈیا، ص۔ 1221

[60]ندوی، شاہ معین الدین، دینِ رحمت، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد، جنوری 2016ء، ص۔ 266

[61]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/282

[62]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي ، 1/249

[63] John Robbins, The Case for Vegetarianism, Animal Rights opposing view points, Greenhaven Press, Inc. U. S. A., 1989,p.129

[64]دریا آبادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، مجلس نشریات اسلام کراچی، 2006ء، ص۔ 178-179

[65]محمد بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجه، كِتَابُ الأَطْعِمَةِ، بَابُ اللَّحْم، رقم الحدیث، 3305

[66]أبو داود سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، كِتَابُ الأَطْعِمَةِ، بَابٌ فِي أَكْلِ اللَّحْمِ، رقم الحدیث، 3778

[67]أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله، المستدرك على الصحيحين، دار الكتب العلمية ،بيروت، 1411ھ، كِتَابُ الذَّبَائِحِ، رقم الحدیث، 7574

[68]امام أحمد، مسند احمد، رقم الحدیث، 26622

[69]الحسين بن عبد الله بن سينا، أبو علي، القانون في الطب، وضع حواشيه محمد أمين الضناوي، 1/550

[70]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاری، كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا، بَابُ قَبُولِ هَدِيَّةِ الصَّيْدِ، رقم الحدیث، 2572

[71]دریا آبادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 116

[72]أبو داود، سنن أبي داود، كِتَاب الْجِهَادِ، بَابٌ فِي إِبَاحَةِ الطَّعَامِ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ، رقم الحدیث، 2702

[73]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/۔ 249۔ 250

[74]النحل، 66: 16

[75]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/292

[76] David L.,Bender and Bruno Leone, Animal rights, Greenhaven press,U.S.A.,1989, P.109

[77]أبو نعيم الأصبهاني، الطب النبوي، رقم الحدیث، 323

[78]أبو داود سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، کتَابُ الأَطْعِمَةِ، بَابٌ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ لَوْنَيْنِ فِي الْأَكْلِ، رقم الحدیث، 3837

[79]درانی، عائشہ، ڈاکٹر، زیتون کی ڈالی، خزینہ علم و ادب اردو بازار لاہور، ص۔ 39

[80] David L.,Bender and Bruno Leone, Animal rights,Greenhaven press,U.S.A.,1989, P.109

[81]أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني، الطب النبوي، رقم الحدیث، 438

[82]لحسين بن عبد الله بن سينا، القانون في الطب، 1/196

[83]أبو بكر، محمد بن زكريا الرازي، الحاوي في الطب، 1/233

[84] The Encyclopedic Dictionary of Scienc,p.68

[85] Abūbakar Ahmad , Isᾱmic principles for the Conservation of the Natural Environmen, p.82

[86] David L, Bender and Bruno Leone, Animal right,P.17

[87]روزنامہ دنیا لاہور، 22 اپریل 2018ء

[88] The Encyclopedic Dictionary of Scienc,p.68

[89]Yahya, Hᾱrūn,The Creation of the Universe,p.95

[90] Kibla Ayᾱz,Dr., Conservation and Isᾱm,p.32

[91] David L. Bender and Bruno Leone, Animal Rights,P.176

[92]امریکہ کا یہ ادارہ حیوانات کو مختلف تجربات میں استعمال کرنے کے خلاف جدو جہد کرتا ہے۔ یہ اپنی نقطہ نظر پھیلانے کے لئے لٹریچر بھی چھاپتا ہے۔ مختلف سمینار ز اور پروگرام منعقد کرتا ہے اور عوام الناس کے سامنے ثابت کرتا ہےکہ تجربہ گاہوں میں حیوانات کا استعمال حقوقِ حیوانات کی خلاف ورزی ہے۔

[93]امریکہ کا مذکورہ ادارہ تجربہ گاہوں میں حیواناتی وسائل پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ادارہ سمجھتا ہے کہ انسانی فلاح وبہبود اور جان لیوا بیماریوں کاعلاج دریافت کرنے کے لئے جانوروں پر تحقیق ناگزیر ہے۔ یہ ادارہ تحقیقی مجلے، نیوز اور دیگر لٹریچر شائع کرتا ہے۔

[94]امریکہ اور دوسرے اٹھارہ ممالک کے افراد اس ادارہ کو چلاتے ہیں۔ ادارہ چڑیا گھر وں میں جانوروں کے حقوق کا خیال رکھتا ہے اور ان کی فلاح و بہبود کے کے لئےکوشش کرتاہے۔ یہ ادارہ جانوروں کے بارے میں تازہ ترین معلومات سے اپ ڈیٹ رکھنے کے لئے ایک ماہانہ جرنل بھی جاری کرتا ہے

[95]امریکہ کا یہ ادارہ حیوانات کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتا ہے اور اس کے نظریہ کے مطابق حیوانات کے بھی حقوق انسانوں کے حقو ق کی طرح ہیں

[96] یہ حیوانات کے تحفظ کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ یہ جانوروں کی بے حرمتی اور ظالمانہ سلوک کی مذمت کرتا ہے

[97] یہ حیوانات کے تحفظ کا بین الاقوامی ادارہ ہے جو حیوانات کی بے حرمتی، تجربہ گاہوں میں جانوروں کے استعمال اور شکار وغیرہ کے خاتمے کے لئے تحقیق کرتا ہے

[98]یہ حقو ق ِ حیوانات کے تحفط کا عالمی ادارہ ہے جو حیوانات کی بے حرمتی، تجربہ گاہوں میں جانوروں کے استعمال اور شکار وغیرہ کے خاتمے کے لئےتحقیق کرتا ہے

[99]یہ عالمی ادارہ معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں کی انواع کی فہرست بھی جاری کرتا ہے جس میں جانوروں کے تحفظ کے بارے میں تحقیقی مواد ہوتا ہے

[100] یہ ادارہ انٹرنیشنل کونسل آف سائنٹیفک یونینز نے قائم کیا۔

[101]Encyclopedia of Britanica,Vol-1,p.42

[102]Encyclopedia of Britanica,Vol-1,p.42

[103]ھود، 40: 11

[104]الانبیاء، 107: 21

[105]قاسم محمود، سید، اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ص۔ 829

[106]الانعام، 38: 6

[107]أحمد بن شعيب النسائي، السنن، مكتب المطبوعات الإسلامية – حلب، 1406ھ، كِتَابُ الضَّحَايَا، مَنْ قَتَلَ عُصْفُورًا بِغَيْرِ حَقِّهَا، رقم الحدیث، 4446

[108]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ وَمَا يُؤْكَلُ مِنَ الْحَيَوَانِ، بَابُ النَّهْيِ عَنْ صَبْرِ الْبَهَائِمِ، رقم الحدیث، 1958

[109]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ، بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ المُثْلَةِ وَالمَصْبُورَةِ وَالمُجَثَّمَةِ، ، رقم الحدیث، 5513

[110]الحج، 18: 22

[111]عبداللهبنمحمدبنحيان، العظمة، دار العاصمة – الرياض، 1408ھ، ذِكْرُ سَاعَاتِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَعِبَادَةِ الْخَلَائِقِ فِي كُلِّ سَاعَةٍ مِنْهَا5/1741

[112]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كتاب السَّلَامِ، باب تحْرِيمِ قَتْلِ الْهِرَّةِ، رقم الحدیث، 2243

[113]أبو بكر أحمد بن عمرو، مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار، مكتبة العلوم والحكم المدينة المنورة، 2009م، رقم الحد یث، 8771

[114]محمد رضا (المتوفى: 1369هـ) ، أبو بكر الصديق أول الخلفاء الراشدين، دار احیاء الکتب العربیہ، 1369ھ، 1/38

[115] Yousaf Yocel/UMRAN, An Isᾱmic Perspective of the Natural Environment and Animals: Said Nursi and Renewalist Phiosophy,International Journal of Isᾱmic and Civilizational Studies, UTM Press. Vol.5. No.1 (2018) ,p.59

[116] Ibid,p.60

[117] David L.,Bender and Bruno Leone, P.139

[118]النحل، 5: 16

[119]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص، 27

[120]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/228

[121]المائدہ، 1: 5

[122]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/229

[123]البقرہ، 67: 2

[124]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 41

[125]ابن قيم الجوزية، الطبالنبوي، 1/284

[126]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/214

[127]عمرو بن بحر بن محبوب الكناني، أبو عثمان، الشهير بالجاحظ، الحيوان، دار الكتب العلمية – بيروت، 1424 هـ، 2/348

[128]الغاشیہ، 17: 88

[129]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، مجلس نشریات اسلام کراچی، 2006ء، ص۔ 15

[130]محمد بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجه، كِتَابُ التِّجَارَاتِ، بَابُ اتِّخَاذِ الْمَاشِيَةِ، رقم الحدیث، 2305

[131]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/27

[132]الأصمعي أبو سعيد عبد الملك بن قريب، الإبل، دار البشائر، دمشق – سورية، 1424 هـ، 1/145

[133]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، کتَابُ الْحَيْضِ، بَابُ الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الْإِبِل، رقم الحدیث، 360

[134]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/285

[135]النحل، 8: 16

[136]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیوانات قرآنی، ص۔ 89

[137]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/431

[138]ابو عثمان، الجاحظ، البغال، دار و مکتبہ الھلال، بیروت، 1418ھ، 1/125

[139]محمد بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجه، كِتَابُ التِّجَارَاتِ، بَابُ اتِّخَاذِ الْمَاشِيَةِ، رقم الحدیث، 2305

[140]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِبابُ لُحُومِ الخَيْلِ، رقم الحدیث، 5519

[141]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ وَمَا يُؤْكَلُ مِنَ الْحَيَوَانِ، بَابٌ فِي أَكْلِ لُحُومِ الْخَيْلِ، رقم الحدیث، 1941

[142]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/285

[143]إسماعيل حقي بن مصطفى الإستانبولي , المولى أبو الفداء، روح البیان، دار الفكر – بيروت، 5/52

[144]الجمعہ، 5: 62

[145]دریا بادی، عبد الماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 70

[146]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/339

[147]الزمخشري، أبو القاسم محمود بن عمرو، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، دار الكتاب العربي – بيروت، 1407 هـ، 3/498

[148]النحل، 8: 16

[149]دریا بادی، عبداماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 39

[150]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/200

[151]الفیل، 1: 105

[152]دریا بادی، عبد الماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 161

[153]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 2/309

[154]البقرہ، 65: 2

[155]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 167

[156]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 2/330

[157]ص، 24: 38

[158]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 2/488

[159]المدثر، 51: 74

[160]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 169

[161]أبو بكر أحمد بن عمرو، بحر الزخار، مكتبة العلوم والحكم المدينة المنورة، 2009م، رقم الحدیث، 3838

[162]The Encyclopaedia of Isᾱm,Vol.1,Leiden, E. J. Brill,Netherlands,1986, P.682

[163]The Encyclopaedia of Isᾱm,Vol.1,Leiden, E. J. Brill,Netherlands,1986, P.682

[164]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/10

[165]الکہف، 18: 18

[166]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 174

[167]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 2/378

[168]یوسف، 13: 12

[169]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 105

[170]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/500

[171]النمل، 115: 16

[172]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 83

[173]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/424

[174]الصافات، 142: 37

[175]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 74

[176]محمد بن يزيد، سنن ابن ماجه، كِتَابُ الأَطْعِمَةِ، بَابُ الْكَبِدِ وَالطِّحَالِ، رقم الحدیث، 3314

[177]ابنقيمالجوزية، الطبالنبوي، 1/235

[178]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/378

[179]الانبیاء، 79: 21

[180]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیوا ناتِ قرآنی، ص۔ 139

[181]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا، بَابُ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَقْوَامٌ أَفْئِدَتُهُمْ مِثْلُ أَفْئِدَةِ الطَّيْرِ، رقم الحدیث، 2840

[182]أبو داود سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، كِتَاب الضَّحَايَا، بَابٌ فِي الْعَقِيقَة، رقم الحدیث، 2835

[183]النمل، 20: 27

[184]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي (المتوفى: 808هـ) ، حياة الحيوان الكبرى، 2/514

[185]دریا بادی، عبدا لماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 207

[186]الفیل، 3: 105

[187]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/32

[188]البقرہ، 57: 2

[189]اسرار احمد، ڈاکٹر، بیان القرآن (حصہ اول) ، انجمن خدام القرآن لاہور، 2017ء، ص۔ 80

[190]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 112-113

[191]المائدہ، 31: 5

[192]دریا آبادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 152

[193]أبو عثمان، الشهير بالجاحظ، الحيوانـ، 2/417

[194]مبشر حسین، "حلال و حرام پرندے"، تحقیقا تِ اسلامی، علی گڑھ، 4: 30 (اکتوبر-دسمبر 2011ء) ص۔ 102

[195]طحہ، 20: 20

[196]دریا آبادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 77

[197]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي (المتوفى: 808هـ) ، حياة الحيوان الكبرى، 1/389

[198]الاعراف، 133: 7

[199]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص، 133

[200]أبو عبد الرحمن أحمد، النسائي، السنن، كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ، بَابُ الضِّفْدَعُ، رقم الحدیث، 4355

[201]ابن سينا، القانون في الطب، 1/722

[202]ابنقيمالجوزية، الطبالنبوي، 1/254

[203]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 2/117

[204]النحل، 69: 16

[205]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 194

[206]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 2/464

[207]إسماعيل حقي بن مصطفى الإستانبولي الحنفي الخلوتي , المولى أبو الفداء، روح البیان، دار الفكر – بيروت، 5/52

[208]ابن قيم الجوزية، الطبالنبوي، 1/257

[209]القاریہ، 4: 101

[210]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 2/280

[211]الغزالي، أبو حامد محمد بن محمد الطوسي، إحياء علوم الدين' دار المعرفة – بيروت، 4/318

[212]القمر، 7: 54

[213]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 58

[214]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/269

[215] النمل، 18: 27

[216]دریا بادی، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 200

[217]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين، حياة الحيوان الكبرى، 2/497-498

[218] The New Encyclopedia Britannica,Vol- 1,15th Ed.,p.437

[219]سبا، 14: 34

[220]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 91

[221]المرجع السابق۔ 77

[222]لویس معلوف، المنجد عربی اردو، مترجم: مولانا ابو الفضل عبدالحفیظ ، خزینہ علم و ادب اردو بازار لاہور، ص۔ 26

[223]مجمع اللغة العربية بالقاهرة، (إبراهيم مصطفى / أحمد الزيات / حامد عبد القادر / محمد النجار) ، المعجم الوسيط، دار الدعوة، 1/13

[224]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/36

[225]محمد بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجه، كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِيهَا، بَابُ مَا جَاءَ فِي بَدْءِ شَأْنِ الْمِنْبَرِ، رقم الحدیث، 1414

[226]صفي الرحمن المباركفوري، الرحيق المختوم، دار الهلال – بيروت، ص۔ 100

[227]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/35

[228]الحج، 73: 22

[229]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/488

[230]أبو بكر البيهقي، السنن الكبرى، دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان، 1424 هـ، رقم الحدیث، 1192

[231]البقرہ، 26: 2

[232]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 1/184

[233]العنکبوت، 41: 29

[234]دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، حیواناتِ قرآنی، ص۔ 150

[235]الدميري، أبو البقاء، كمال الدين الشافعي، حياة الحيوان الكبرى، 2/225

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...