Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں |
Asian Research Index
قدرتی وسائل اور ان کا استعمال: اسلامی اور سائنسی علوم کے تناظر میں

باب نہم: قدرتی وسائل کےآداب واخلاق
ARI Id

1686875689131_56116010

Access

Open/Free Access

Pages

421

طہارت و نظافت کا اصول

اسلام زندگی بسرکرنے کے ہر پہلو کے متعلق ہدایات و احکام کا جامع تصور دیتا ہے۔ اسلام میں پاک و صاف وسائل ِ حیات کے استعمال کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسلام میں طہارت و نظافت کے معاملے میں انتہائی مثالی تعلیمات و ہدایات بیان کی گئی ہیں۔ اسلام آلودگی و گندگی سے نفرت اور صفائی و پاکیزگی سے محبت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اصول ِ طہارت پر عمل کرنا حکم الہی ہے۔ طہارت کے اصول کی پیروی سے انسان فکری پاکیزگی حاصل کرتا ہے۔ اگر کوئی انسان اپنے نفس کو پاکیزہ رکھنا چاہتا ہے تو اسے لا محالہ طہارت کے اصول پر عمل کو اپنی اولین خصلت بنا نا ہوگا۔ طہارت کے اہتمام سے انسانی قلب و رووح میں نورانیت پیدا ہو جاتی ہے۔ فقہ اسلامی کی ہر کتاب کا آغاز کتاب "کتاب الطھارۃ "کیا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒ نے حجتہ اللہ البالغہ میں طہارت و نظافت کے اصول پر تفصیلی اور فکر انگیز روشنی ڈالی ہے اور اصول ِ طہارت کو اساسیاتِ اخلاق کے اولین درجے پر فائز کیا ہے۔ اصول طہارت کی پیروی انسانی فطرت کا خاصہ ہے۔

علامہ راغب اصفہانی کے مطابق طہارت کی دواقسام ہیں:

" والطَّهَارَةُ ضربان: طَهَارَةُ جسمٍ، وطَهَارَةُ نفسٍ، وحمل عليهما عامّة الآيات"[1]

طہارت کی دو قسمیں ہیں: 1۔ جسمانی و ظاہری طہارت 2۔ قلبی و باطنی طہارت قرآنی آیات میں جہاں بھی طہارت کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں یہ دونوں قسم کی طہارت و نظافت پر عمل کرنا مراد ہوتاہے۔ امام بخاری ؒ نے صیح بخاری کا آغاز نیت کے اخلاص یعنی قلبی پاکیزگی سے کیا ہے۔ یعنی دل کی صفائی کو جسم کی صفائی پر فوقیت و برتری حاصل ہے۔

قرآن میں حلال و پاکیزہ اشیاء (قدرتی وسائل) کے لئے عموماً طیب کا لفظ استعمال ہوہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ملت ِ اسلامیہ کے لئے ساری زمین کو پاکیزہ و طیب قرار دیا ہے۔

صاحب" القاموس الفقهي لغة واصطلاحا" رقم طراز ہیں:

" الطيب: كل ما تستلذه الحواس، أو النفس.: كل ما خلا من الاذى والخبث، وفي الحديث الشريف: جعلت لي الارض طيبة طهورا أي: نظيفة غير خبيثة"[2]

طیب حلال کی صفت ہے۔ طیب کا معنی لذیذ، صاف ستھری اور پاکیزہ چیز ہے۔ بعض اوقات ایک چیز حلال تو ہوتی ہے لیکن طیب نہیں ہوتی۔ جیسے دریا کا پانی پاک اور حلال ہے۔ لیکن جب دریا میں طغیانی ہو تو مٹی اورجھاگ کی بنا پر یہ پانی پینے کا دل نہیں مانتا۔ جس کا معنی یہ ہے کہ پانی تو پاک اور حلال ہے لیکن طیب نہیں۔

قلبی پاکیزگی ( Heart Purification)

قلبی و روحانی طہارت و نظافت کا اصول سلیم الفطر ت انسان کا پسندیدہ ترین اصول ہے۔ دل خیلات ومیلانات و جذبات اور فکروخیال کا مرکز و محور ہے۔ اسلام میں ظاہری پاکیزگی کے ساتھ ساتھ قلبی و روحانی پاکیزگی کے اصول کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ قلبی و فکری طہارت کے بغیر جسمانی و ظاہری پاکیزگی بے معنی و بے وقعت ہو کر رہ جاتی ہے۔ جسمانی پاکیزگی کو قلبی فکرو میلان کی پہلی سیڑھی کہا جا سکتا ہے۔ اسلام نے پاکیزگی کی تمام جہات سے انسان کو شناسا کیا ہے۔ اخلاص ِ نیت کے بغیر بڑے سے بڑا عمل بھی شرفِ قبولیت سے محروم رہتا ہے۔ فرمانِ رسول ؐ کے مطابق شہادت، تلاوتِ قرآن اور انفاق فی سبیل اللہ جیسی اونچے درجے کی عبادات بھی نیت و قلب کے اخلاص کے بغیر قبول نہیں ہوسکتے۔ ظاہری احکام ِ طہارت کی نافعیت و منعفت کے لئے قلبی و باطنی طہارت کا ہونا شرط ہے۔

علامہ ابن ابی الدیناؒ لکھتے ہیں:

"قَالَ الْحَوَارِيُّونَ لِعِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: مَا الْإِخْلَاصُ لِلَّهِ؟ قَالَ: الَّذِي يَعْمَلُ الْعَمَلَ لَا يُحِبُّ أَنْ يَحْمَدَهُ عَلَيْهِ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ"[3]

اخلاص ِ نیت ہی دراصل دل کی پاکیزگی ہے، اس کے لئے کسی بھی اچھا کام کرنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو، لوگوں سے تعریف سننا پسند نہ کیا جائے۔ دل ایک عام قسم کا پمپ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بہترین صناعی کا شاہکار ہے۔ قرآنی تعلیمات براہ راست دل کو مخاطب کرتی ہیں اور دل ہی ان کوسمجھ سکتا ہےانسان کو پیغام ِ اسلام دل و روح کے ذریعہ ہی وصول ہوتا ہے اور وہ انسان جو دل کی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا وہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ صاحب ِ بصیرت ہے۔ ایسا فرد انتہائی بےمقصد مصنوعی لالچ وحرص پر مبنی زندگی کا نظارہ کرسکتا ہے۔ ایسا دل مہر شدہ، مریض اور مردہ دل کہلاتا ہے۔

پاکیزہ اور قلب سلیم کے بارے میں فرمایا گیا ہے:

"يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ۔ اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ"[4]

"جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔ "

علامہ الزمخشری ؒ لکھتے ہیں:

"ومعنى سلامة القلب: سلامته من آفات الكفر والمعاصي"[5]

قلب ِ سلیم سے مراد ایسا دل ہے جوشرک، بدعت، منافقت، کفر، دکھاوے، ریاکاری، حسد اور بغض کی باطنی آلودگیوں سے پاکیزہ ہو۔ سلیم القلب فرد ہی یوم ِ جزا کو سرخرو ہوگا۔ اہل اسلام کی کامیابی کا تعلق ان کے قلب و باطن اور نیت کے اخلاص سے ہے۔

رسول کریم ؐ فرماتے ہیں:

"وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ"[6]

مفہوم حدیث یہ ہے کہ انسانی بدن میں گوشت کا ٹکڑا ہے جو درست یعنی باطنی رزائل سے پاک ہو تو سارا بدن ہی درست کام ہوجاتا ہے اور اگر یہ خراب و غلیظ ہو جائے تو سارا جسم ہی خراب ہو جاتا ہے، یہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے۔

حدیث بالا کی شرح میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرماتےہیں:

" ونِسبة القلب إلى الجسد كنسبة الأمير إلى المأمور وهو الأصل"[7]

کسی بھی فرد کے جسم و بدن کی حرکات و سکنات اور خواہشات و جذبات کا اصلی حکمران وبادشاہ دل ہے، اگر دل صاف ہوگا تو وہ اچھے اور بدن کو منافقت ونجاست سے پاک افعال کا حکم دے گا۔

غسل (Taking Bath)

اسلام نے اپنے پیروکاروں کو پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے لئے ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ غسل کرنا واجب قرار دیتاہے۔ مغرب میں غسل کے اہتمام کا اصول بالکل مفقود ہے۔ چین، امریکہ، اٹلی وغیرہ میں کئی کئی مہینے غسل کا اہتما م نہیں کیا جاتااور طہارت کے لئے پانی کی بجائے کا ٹشو کا استعمال معمول ہے۔ جس کی وجہ سےمغرب میں جسمانی گندگی کا دور دورہ ہے۔ ارشاد ِ نبویؐ ہے:

" عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: غُسْلُ يَوْمِ الجُمُعَةِ وَاجِبٌ "[8]

علامہ ابن حجر العسقلانی ؒ رقمطراز ہیں:

"وَمِنْهَا حَدِيث بن عَبَّاسٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ غُسْلِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ أَوَاجِبٌ هُوَ فَقَالَ لَا وَلَكِنَّهُ أَطْهَرُ لِمَنِ اغْتَسَلَ وَمَنْ لَمْ يَغْتَسِلْ"[9]

حضرت ابوسعید خدری کی بیان کردہ روایت کی تعلیم و تفہیم ہر بالغ پر جمعہ کے دن غسل کےواجب و استحاب پر دلالت کرتی ہے۔ کسی فرد کی پاکیزگی و طہارت اور حفظان ِ صحت کے لئے غسل کے اہتمام کا اصول انتہائی عمدہ ہے۔

مسواک (Tooth Brush)

اسلام میں منہ کی پاکیزگی کے لئے مسواک کے اہتمام کا اصول پایاجاتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ اصول ِ مسواک پر عمل کرنے سے انسان کئی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ متعدد احادیث مبارکہ سے اصول ِ مسواک کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

ارشاد نبویﷺ ہے:

" لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ"[10]

اگرمحسن ِ انسانیت ﷺ اپنی امت کے لئے مشکل نہ خیال کرتے تو ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتے۔

ابن حجر العسقلانیؒ رقم طراز ہیں:

"الْحِكْمَةُ فِي اسْتِحْبَابِ السِّوَاكِ عِنْدَ الْقيام إِلَى الصَّلَاة كَونهَا حَالا تَقَرُّبٍ إِلَى اللَّهِ فَاقْتَضَى أَنْ تَكُونَ حَالَ كَمَالٍ وَنَظَافَةٍ إِظْهَارًا لِشَرَفِ الْعِبَادَةِ"[11]

مذکورہ عبارت سے اصولِ مسواک اور طہارت و نظافت کے مابین گہرا تعلق سامنے آتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ مسواک سے طہارت و نظافت کا کمال حاصل ہوتا ہے اور طہارت و نظافت سے قربِ الہی ہوتا ہے۔

ابن قیم ؒ رقمطراز ہیں:

" وَفِي السِّوَاكِ عِدَّةُ مَنَافِعَ: يُطَيِّبُ الْفَمَ، وَيَشُدُّ اللِّثَةَ، وَيَقْطَعُ الْبَلْغَمَ، وَيَجْلُو الْبَصَرَ، وَيَذْهَبُ

بِالْحَفَرِ، وَيُصِحُّ الْمَعِدَةَ، وَيُصَفِّي الصَّوْتَ، وَيُعِينُ عَلَى هَضْمِ الطَّعَامِ، وَيُسَهِّلُ مَجَارِيَ الْكَلَامِ، وَيُنَشِّطُ لِلْقِرَاءَةِ، وَالذِّكْرِ وَالصَّلَاةِ، وَيَطْرُدُ النَّوْمَ، وَيُرْضِي الرَّبَّ، وَيُعْجِبُ الْمَلَائِكَةَ، وَيُكْثِرُ الْحَسَنَاتِ"[12]

مسواک کے بہت سے فوائد ہیں۔ یہ منہ کو پاک کرتا ہے، مسوڑھوں مضبوط کرتا ہے، بلغم کا خاتمہ کرتا ہے، نظر کو تیز کرتا ہے، چہرے کی جھریاں اور گڑھے ختم کرتا ہے۔ معدے کی اصلاح کرتا ہے، آواز کو صاف کرتا ہے، کھانا ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے، بات کرنے میں آسانی پیدا ہوتی ہےاور انسان قرآن مجید کی تلاوت اور ذکرِ الہی چستی سے کرتا ہے۔ نماز ادا کرنے میں مزہ آتا ہے، نیند دور ہوتی ہے، سب سے اہم بات اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے، جس سے ملائکہ کو حیرت ہوتی ہے اور انسان کی نیکیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسلام میں رہن سہن، وضع قطع اور تمام قدرتی وسائل کی پاکی اورصفائی ستھرائی حکم دیا گیا ہے۔ جیساکہ ارشاد نبویؐ ہے:

"عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ "[13]

حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: مسواک کے ذریعے منہ کی صفائی کرنے سے رب راضی ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کمال طہارت و نظافت کی وجہ سے پنج وقتہ مسواک کرتے تھےاور فرماتے تھے کہ "اگر امت پر شاق نہ ہوتا تو میں پنجوقتہ نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا بھی حکم دیتا۔ "لیکن صحابہ کرام ؓ کے جوشِ عمل کے سامنے کون سا کام شاق تھا، حضرت زید بن ارقم ؓ نے اس شدت کے ساتھ اس کا احترام کیا کہ ہمیشہ قلم کی طرح کان پر مسواک رکھے رہتے تھے۔ [14]

صاف لباس (Clean Dress)

قرآن مجید میں لباس و پوشاک کے استعمال میں طہارت و نطافت کے اصو ل پر عمل کرنے کا حکم ہے۔ پاکیزہ لباس ایک نفیس انسان کی پہچان ہوتا ہے۔

 ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ"[15]

" اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور گندگی سے دور رہو۔ "

صاحب "روح البیان" رقمطراز ہیں:

" وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ جمع ثوب من اللباس اى فطهرها مما ليس بطاهر بحفظها وصيانتها عن النجاسات"[16]

 اسلام میں لباس و پوشاک کی پاکیزگی کا اصول پایا جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ اشعریؓ طہارت و پاکیزگی کے اصول پر سختی سے کاربندتھے۔ حضرت موسیٰ اشعری ؓ کو طہارت کا اسقدر خیال تھا کہ شیشے کے برتن میں پیشاب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بنو اسرائیل کے جسم پر اگر پیشاب کی چھینٹیں پڑ جاتی تھیں تو اس کو قینچی سے کتر دیتے تھے۔

صیح مسلم میں روایت ہے:

" عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو مُوسَى، يُشَدِّدُ فِي الْبَوْلِ، وَيَبُولُ فِي قَارُورَةٍ وَيَقُولُ: إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَ إِذَا أَصَابَ جِلْدَ أَحَدِهِمْ بَوْلٌ قَرَضَهُ بِالْمَقَارِيضِ"[17]

ابو وائل کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوموسی اشعری (رض) پیشاب کے بارے میں بہت سختی کے ساتھ احتیاط فرماتے تھے اور ایک بو تل میں پیشاب کرتے اور فرماتے تھے بنی اسرائیل میں سے اگر کسی کی جلد کو پیشاب لگ جاتا تو وہ اس کھال کو حکماً قینچیوں سے کاٹتا۔

سید ِالانبیا ء ﷺ کا فرمان ہے:

" لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ، وَغَمْطُ النَّاسِ"[18]

حدیثِ بالا کی شرح میں امام نوویؒ رقمطراز ہیں:

" إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ اخْتَلَفُوا فِي مَعْنَاهُ فَقِيلَ إِنَّ مَعْنَاهُ أَنَّ كُلَّ أَمْرِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى حَسَنٌ جَمِيلٌ وَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى وَصِفَاتُ الْجَمَالِ وَالْكَمَالِ"[19]

وضو (Ablution)

 مسلمانوں کی اہم ترین عبادت نماز کی ادائیگی کے لیے وضو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ وضو کے لیے طیب، صاف اورپاک پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وضو کے لیے ہاتھ دھونا، کلی کرنا، مسواک کرنا، چہرہ دھونا، کہنیوں تک ہاتھ دھونا اور پاؤں دھونا وغیرہ ضروری ضروری امور ہیں۔ مسلمانوں کو طہارت و صفائی کے اہتمام کے لئے نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو ہفتہ میں کم از کم ایک بار نہانے کا حکم دیا ہے۔ اسلام میں سب سے اہم عبادت نماز ہے اور نمازکی ادائیگی کے لئے طہارت و نظافت کا اہتمام و انتظام ضروری ہے۔

حدیث ِ مبارکہ ہے:

" عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ"[20]

حضور پاک ﷺکے فرمان کی رو سے نماز کی کنجی طہارت ہے یعنی طہارت کے بغیر نماز کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔

علامہ مغلطائی ؒ رقمطراز ہیں:

"وحديثأبي بكر الصديق، قال عليه السلام: "لا يقبل الله صدقة من غلول، ولاصلاة بغير طهور"[21]

عبادت و ریاضت کے لئے جسم و جگہ کی پاکیزگی شرط ہے۔ پاکیزگی اختیار کرنا سنتِ نبویؐ ہے۔

 صاف ماحول ( Clean Environment)

اسلام میں اپنے گھر اور اس کے ارد گرد پائے جانے والے ماحول کی صفائی و پاکیزگی کا اصول پایا جاتا ہے۔ اسلام اپنے ارد گرد پائے جانے والے مقامات کی صفائی کا حکم دیتا ہے۔

ارشادِ نبوی ؐ ہے:

"إِنَّ اللَّهَ طِيبٌ يُحِبُّ الطِّيبَ، نَظِيفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ، كَرِيمٌ يُحِبُّ الْكَرَمَ، جَوَادٌ يُحِبُّ الْجُودَ، فَنَظِّفُوا بُيُوتَكُمْ"[22]

بےشک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکی کو پسند کرتا ہے، نظیف ہے اور نظافت پسند کرتا ہے، ، پس اپنے گھروں اور ان کے گرد پائے جانے والے علاقے کو پاک و صاف رکھنا اسلام کا سادہ اصول ہے۔

حدیث ِ رسول ﷺہے:

"فَنَظِّفُوا أَفْنَاءَكُمْ وَسَاحَاتِكُمْ"[23]

مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے گھروں اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنا چاہئے۔ ماحولیاتی صفائی سے انسان کئی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ خوشبو کو پسند کرتے تھے اور آپﷺ کے مکان میں بیت الخلاء نہیں تھاکیونکہ اس سے بدبو پھیلتی ہے۔ بیت الخلاء گھر سے الگ ہونا چاہئے کیونکہ ایسا کرنا حفظانِ اصولوں کے عین مطابق ہے۔ ماحولیاتی پاکیزگی صحت و تندرستی کے لئے انتہائی مفید ہے۔

ماحول میں پائے جانے قدرتی وسائل و ذرائع کے استعمال میں طہارت و صفائی کا اہتمام و انتظام کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اسلام طہارت و صفائی کو بندہ مومن کے لئے نصف ایمان کا درجہ دیتا ہے۔

رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:

"عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الطُّهُورُ شَطْرُ الإِيمَانِ"[24]

ابو مالک اشعری (رض) روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ماحول میں طہارت و نظافت کے اصول پر کار بند ہونا نصف ایمان کے برابر ہے۔

امام نوویؒ مذکورہ بالا روایت کی شرح میں رقمطراز ہیں:

"هَذَا حَدِيثٌ عَظِيمٌ أَصْلٌ مِنْ أُصُولِ الْإِسْلَامِ قَدِ اشْتَمَلَ عَلَى مُهِمَّاتٍ مِنْ قَوَاعِدِ الْإِسْلَامِ فَأَمَّا الطُّهُورُ فَالْمُرَادُ بِهِ الْفِعْلُ فَهُوَ مَضْمُومُ الطَّاءِ عَلَى الْمُخْتَارِ وَقَوْلِ الْأَكْثَرِينَ وَيَجُوزُ فَتْحُهَا كَمَا تَقَدَّمَ وَأَصْلُ الشَّطْرِ النِّصْفُ وَاخْتُلِفَ فِي مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطهور شطر الْإِيمَانِ فَقِيلَ مَعْنَاهُ أَنَّ الْأَجْرَ فِيهِ يَنْتَهِي تَضْعِيفُهُ إِلَى نِصْفِ أَجْرِ الْإِيمَانِ"[25]

مذکورہ عبارت کے مفہوم سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں طہارت و نظافت کے اصول پر عمل کیا جائے تو نصف ایمان کے درجہ کے برابر اجرو ثواب حاصل ہوتا ہے۔ ثابت ہواکہ ماحولیاتی آلودگی کا تدارک کے لئے اسلام کے مذکورہ اصو ل پر عمل کرنا ضروری ہے۔

پاکیزہ اشیاء (Clean Things)

اسلام قدرتی اشیاء کے استعمال میں پاکیزگی و صفائی کے اصول اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام ماحول اور قدرتی وسائل کی صفائی کا اعلیٰ ترین تصور پیش کرتا ہے۔ گندگی اور آلودگی صحت کے لئے مضر ونقصان دہ ہے اسی لئے آلودہ اشیاء کے استعمال کو حرام و ناجائز قرار دیا گیا ہے کیونکہ آلودہ اور حرام و ناجائز اشیا ء کا استعمال در اصل شیطان کی پیروی ہے۔ متعدد قرآنی آیات میں قدرتی وسائل کے استعمال میں طہارت و نظافت کے اصول کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

کتاب و سنت میں دنیا بھر کے تمام انسانوں کو اصول ِ طہارت پر عمل کرنے کی نصیحت ہے۔ کیونکہ اصول ِ طہارت سے منہ موڑنا دراصل شیطان پرستی ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

"يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ"[26]

"لوگو ! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انھیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ "

تفیسر مظہری میں ہے:

"والحلال ضد الحرام اى ما لم يمنعه الشرع فان الأصل في الأشياء الحل لقوله تعالى خَلَقَ لَكُمْ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً طَيِّباً مستلذا وَلا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ اى لا تقتدوا به في اتباع الهوى فتحرموا الحلال وتحلوا الحرام"[27]

حلا ل و طیب اشیا کی ضد حرام و آلودہ اشیا ہیں۔ اللہ تعالی ٰ نے دنیا میں تما م وسائل انسان کے استعمال کے لئے تخلیق کیا ہے اس لئے ابلیس کی پیروی میں حلال چیز کو حرام اور حرام چیز کو قرار دینا خلاف ِ اسلام ہے۔ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں انبیاء اور رسولوں کو بھی پاکیزہ اشیاء استعمال کرنے کی تاکید و تلقین ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ"[28]

" اے پیغمبرو، کھاؤ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح، تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خوب جانتا ہوں۔ "

علامہ المراغی ؒ لکھتے ہیں:

"الطيبات: ما يستطاب ويستلذ من المآكل والفواكه"[29]

طیبات سے مراد حلال، طیب اور پاک قدرتی چیزیں جیسے پھل وغیرہ ہیں۔ اللہ نے انسان کو پاک اشیاء رزق عطا کیا ہے اور اسےخوراک کے طور پر صرف حلا ل، طیب، پاکیزہ اشیاء استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔

نشہ آور اور شراب نوشی کو آلودہ، نجس اور گندگی قرار دیا گیا ہے۔ ایسی چیزوں کا استعمال شرعی و قانونی طور پر ممنوع ہے۔

ارشاد ِالہی ہے:

"يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ"[30]

" اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! یہ شراب اور جوا ‘ یہ آستانے اور پانسے ‘ یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ‘ ان سے پرہیز کرو امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔ "

امام قرطبیؒ رقمطرازہیں:

" رِجْسٌ" يَدُلُّ عَلَى نَجَاسَتِهَا، فَإِنَّ الرِّجْسَ فِي اللِّسَانِ النَّجَاسَةُ، ثُمَّ لَوِ الْتَزَمْنَا أَلَّا نَحْكُمَ بِحُكْمٍ إِلَّا حَتَّى نَجِدَ فِيهِ نَصًّا لَتَعَطَّلَتِ الشَّرِيعَةُ، فَإِنَّ النُّصُوصَ فِيهَا قَلِيلَةٌ، فَأَيُّ نَصٍّ يُوجَدُ عَلَى تَنْجِيسِ الْبَوْلِ وَالْعَذِرَةِ وَالدَّمِ وَالْمَيْتَةِ"[31]

امام قرطبی ؒکے مطابق" رِجْسٌ" کا لفظ گندگی و آلودگی، کوڑا کرکٹ، بد بو دار اشیا اور ہر قسم کی نجاست کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

 پانی کا استعمال(Use of Water)

پانی معاشرہ کی مشترکہ ملکیت ہے۔ اسلام میں پانی کے معاملے میں اصول ِ طہارت پر عمل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور پانی گندا کرنے سے روکا گیا ہے۔ آبی آلودگی سے بچاؤ کا حکم دیا گیا ہے۔

معلم ِ انسانیت ﷺ نے فرمایا ہے:

" عَنْ جَابِرٍ: عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى أَنْ يُبَالَ فِي الْمَاءِ الرَّاكِدِ"[32]

 روایت بالا کا مفہوم ظاہر کرتا ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پپشاب کرنے یعنی گندگی و آلودگی کے اسباب و محرکات پیدا کرنا اخلاقی و قومی و دینی جرم ہے۔

فرمان مصطفیٰ ؐ ہے:

" عَنْ جَابِرٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُبَالَ فِي الْمَاءِ الْجَارِي"[33]

بہتے ہوئے پانی میں پیشاب کرنےسے روکا ہے۔ نہروں، نالو ں اور دریا ؤں میں کارخانوں کا زہریلا فضلہ پھینکنا اسلامی اصول ِ طہارت کی مخالفت ہے۔ فیکٹری مالکان ندی نالوں، دریاؤں اور سمندر میں زہریلا پانی پھینک کر مذکورہ حدیث میں بیان کردہ اصول ِ طہارت کی صریح خلاف ورزی کا ارتکا ب کر رہےہیں جو نہ صرف آبی حیات کی بقا بلکہ انسانی و حیوانی کی صحت کےلئے بہت خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔

اشیا ڈھانپنا(Covering Things)

اسلام میں اشیائے خوردو نوش کی ڈھانپنے کا اصول پایا جاتا ہے تاکہ لوگ اس اصول پر عمل کرکے اشیا کو فضائی جراثیموں کی گندگی و آلودگی سے محفوظ رہ سکیں۔

حدیث ِ نبوی ؐ ہے:

، وَخَمِّرُوا الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ "[34]

مذکورہ روایت کا مفہوم ہے کہ رسول اللہﷺ نے ملت ِ اسلامیہ کو ہدایت و رہنمائی فرمائی کہ پانی و خوراک کے برتن ڈھانک دیئے جائیں، پینے والے پانی سے بھرے ہوئے برتن ڈھانک دئیے جائیں اور خالی برتنوں کو الٹا رکھا جائے۔ برتن ڈھانکنے کا حکم دیا گیا تاکہ گندگی وآلودگی سے پھیلنے والی بیماریوں سے کھانے پینے کی اشیاء کو تحفظ حاصل ہو۔ مذکورہ بالا دلائل و براھین سےاسلام میں آبی وسائل کی صفائی کے لئے طہارت کا اصول واضح و نمایاں ہوتا ہے جس پر عوام الناس کو عمل کرنا چاہئے۔

حیوانات کا استعمال (Use of Animals)

حیوانات انسانی خوراک و پوشاک اور دوسری حاجات کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل قدرتی وسائل ہیں۔حیوانات کے استعمال کے سلسلے میں طہارت کے اصول کو کلید ی حیثیت حاصل ہے۔

ارشادِ الہی ہے:

"اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ"[35]

"اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے، کہ مردار نہ کھاؤ، خون سے اورسور کے گوشت سے پرہیز کرو، اور کوئی ایسی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھالے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ "

امام بغویؒ نے لکھا ہے:

"وَالْمَيْتَةُ: كُلُّ مَا لَمْ تُدْرَكْ ذَكَاتُهُ مِمَّا يُذْبَحُ، وَالدَّمَ، أراد به الدم الجاري يدل عليه قوله تعالى: أَوْ دَماً مَسْفُوحاً، وَاسْتَثْنَى الشَّرْعُ مِنَ الْمَيْتَةِ السَّمَكَ وَالْجَرَادَ، وَمِنَ الدَّمِ الْكَبِدَ وَالطِّحَالَ فَأَحَلَّهَا"[36]

مردار ایسا جانور ہے جو ذبح نہ کیا گیا ہو جبکہ الدم سے مراد بہنے والا خون لیاجاتا ہے۔ مراد مچھلی اور ٹڈی کو مستثنیٰ کیا ہے جبکہ تلی اور جگر بھی خون ہے لیکن انہیں بھی استثنی ٰ حاصل ہے، یعنی حلال ہیں۔

جو جانور طبعی موت مرگیا یعنی ذبح نہیں کیا گیا تو وہ حرام ہے کیونکہ اس میں نجاست و غلاظت ہوتی ہے اور اسی طرح خون بھی حرام ہے۔ اسلام میں جانور کوذبح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ صرف گردن کو کاٹا جائے تاکہ شریانوں کے کٹنے سےجسم کا اکثر خون بہہ جائے۔ لیکن اگر تیز دھار آلے کے ایک ہی وار سے جانور کی گردن الگ کردی جائے پھر خون جسم کے اندر باقی رہ جاتا ہے۔ مغرب میں یہی طریقہ رائج ہے۔ اس طریقے سے ذبح کیا گیا ذب ذززگیا جانور حرام و ناجائز ہے اور انسانی جسم وصحت کے لئے بھی مضر ہے۔ کوئی فرد جان کے تحفظ کے لیے حرام کردہ چیز بھی کھا سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اس حرام کی طرف رغبت ومیلان نہ رکھتا ہو اور ناگزیر مقدار کے استعمال سے تجاوز نہ کرے۔

انسانی زندگی کے قدم قدم پر شریعت اسلامیہ رہنما دینی اصول فراہم کرتی ہے، کھانے پینے کی اشیا ء میں مکھی گرجانے پر جو اصول پیارے رسول ﷺنے امت کو سمجھایا ہے حیرت انگیز طور پر جدید سائنس نے اسے حفظان ِ صحت کا اصول تسلیم کیا ہے۔

نبی مکرم ﷺنے فرمایا ہے:

" إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي الطَّعَامِ فَامْقُلُوهُ فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ سُمًّا وَفِي الْآخَرِ شِفَاءً وَإِنَّهُ يُؤَخِّرُ الشِّفَاءَ وَيُقَدِّمُ السُّمَّ "[37]

جب کھانے کی چیز میں مکھی گر جائے تو اس کھانے یا پینے کی چیز میں ڈبو لینا چاہئے کیونکہ مکھی کے ایک پر میں شفا ہوتی ہے اور دوسرے پر میں زہر ہوتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات بھی اس حقیقت کو ثابت کر چکی ہیں۔ کہ مکھی کے ایک پر میں شفا جبکہ دوسرے پر میں بیماری ہوتی ہے۔

انسانی باقیات کی تدفین ( Burying Dead Bodies)

اصول طہارت کا اہم جزو ی پہلو مردوں اور گندگی کو دفن کرنے کا اصول ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کنڑول کرنے کے لئے انسانی باقیات کو دفن کرنے کا جامع اور آفاقی اصول پایا جاتا ہے۔ اس سادہ اسلامی اصول سے انسانی حرمت کا بھی دفاع ہو جاتا ہے اور ان انسانی باقیات کے گلنے سڑنے سے ماحولیاتی آلودگی پھیلنے کا خدشہ ختم ہو جاتا ہے۔ مردوں کو دفن کرنے کا اصول قرآن مجید میں بھی بیان کیاگیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرما یا ہے:

"فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا يَّبْحَثُ فِي الْاَرْضِ لِيُرِيَهٗ كَيْفَ يُوَارِيْ سَوْءَةَ اَخِيْهِ "[38]

" پھر اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔ "

ابن جریر طبریؒ نے بیان کیا ہے:

" بعث الله جل وعز غرابًا حيًّا، إلى غراب ميت، فجعل الغراب الحيُّ يواري سوأة الغراب الميت"[39]

قابیل کو دفنانے کا اصول سمجھانے کے پیش ِ نظر اللہ تعالیٰ نے زند ہ کوے کو مردہ کوا کو زمین میں دفن کرنے کے لئے بھیجا کیونکہ مردار جسم کچھ عرصہ بعد گلنا سڑنا شروع ہو جاتا ہے جس سے ماحول میں گندگی پھیل جاتی ہے جبکہ زمین کی مٹی بدن کو کھا جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہندو مذہب کے ماننے والے مردےکو جلا دیتے ہیں جو انسانی شرف کے خلاف عمل ہے۔ بدھ مت میں مردوں کو اونچی اونچی مچانو ں پر رکھ دیا جاتا ہے اور ان کے فلسفہ مردے ناپاک ہوتےہیں حالانکہ اسلام مرنے کے بعد بھی انسان کی تجہیز و تغسیل و تدفین کا اصول شرف ِ انسانیت پر مہر ثبت کرتا ہے۔

فرمان ِ نبوی ؐ ہے:

" حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: البُزَاقُ فِي المَسْجِدِ خَطِيئَةٌ وَكَفَّارَتُهَا دَفْنُهَا"[40]

مذکورہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو دفن کر دے۔

ابن حجر العسقلانیؒ اپنی معروف تالیف فتح الباری میں رقمطراز ہیں:

"أَنَّ اللُّعَابَ نَجِسٌ إِذَا فَارَقَ الْفَمَ"[41]

تھوک میں نجاست و گندگی ہوتی ہے اسی لئے اسے مٹی میں دفن کرنے کی تلقین کی گئی ہے تاکہ ماحول کو آلودہ ہونے سے بچایا جا ئے۔

ارشاد نبویؐ ہے:

" عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِي أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، لَا تُدْفَنُ"[42]

مذکورہ بالا روایت کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کے اچھے اور برے اعمال مجھ پر پیش کئے گئے تو میں نے ان کے اچھے اعمال میں سے اچھا عمل راستہ میں سے تکلیف دینے والی چیز کا دور کردینا پایا اور میں نے ان کے برے اعمال میں سے مسجد میں تھوکنا اور اس کا دفن نہ کرنا پایا۔

امام نوویؒ مذکورہ بالا حدیث ِ مبارکہ کی شرح میں رقمطراز ہیں:

"هَذَا ظَاهِرُهُ أَنَّ هَذَا الْقُبْحَ وَالذَّمَّ لَا يَخْتَصُّ بِصَاحِبِ النُّخَاعَةِ بَلْ يَدْخُلُ فِيهِ هُوَ وَكُلُّ مَنْ رَآهَا وَلَا يُزِيلُهَا بِدَفْنٍ أوحك ونحوه"[43]

مذکورہ بالا عبارت سے گندگی و نجاست کو دفن نہ کرنے کی مذمت کا اندازہ ہوتا ہے کہ گندگی پھیلانے والا نہیں بلکہ گندگی کو دیکھ کر اسے دفن نہ کرنے والا اس گناہ میں شامل ہو جاتا ہے۔

مذکورہ بالا دلائل و براھین سے معلوم ہوا کہ موجودہ معاشرے میں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر لگانے کی بجائے اسلام کے سنہری اصول ِ دفن پر عمل کرنا چاہئے اور معاشرے کو بدبو اور نت نئی بیماریوں سے چھٹکارہ دلانے میں کردار ادا کرنا چاہئے۔

عوامی مقامات کی صفائی (Cleanling Public Places)

اسلام میں یہ اصو ل نمایاں ہے کہ عوامی جگہوں پر ہر قسم کی آلودگی پھیلانے سے گریز کیا جائے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق لہسن یا پیاز کھاکر مسجد میں آنے سے روکا گیا ہے تاکہ دوسرے لوگ اس کے منہ کی بدبو سے تکلیف محسوس نہ کریں۔

ارشاد نبویؐ ہے:

"عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الْبَقْلَةِ، الثُّومِ وقَالَ مَرَّةً: مَنْ أَكَلَ الْبَصَلَ وَالثُّومَ وَالْكُرَّاثَ فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَتَأَذَّى مِمَّا يَتَأَذَّى مِنْهُ بَنُو آدَمَ "[44]

روایت بالا کا مفہوم یہ ہے کہ محسن ِ انسانیت ﷺ نے فرمایا: جس نے پیاز، لہسن اور کراث (بدبو دار درخت) کھایا تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتے ان چیزوں سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جن سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا اصول کا اطلاق تمام عوامی مقامات پر ہوتا ہے۔ اسلام میں ہر قسم کی بدبو اور گندگی پھیلانے سے روکا گیا ہے۔

حفظان صحت (hygienic)

حفاظت ِ جان اسلامی شریعت کے مقاصد میں سے ہے۔زندگی کے تحفظ کےلئے حفظان ِ صحت کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔ دورِ حاضر میں مغرب کے ہاں استنجاء کے لئے ٹشو کا استعمال کیا جاتا ہے، اسی ناقص ستھرائی کی وجہ سے کرونا جیسی وبائیں وہاں پر موت کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ پانی کا استعمال کئے بغیر جراثیم اور وائرس جسم کے ساتھ ہی چپکے رہتے ہیں اور نت نئی امراض کا باعث بنتےہیں۔ کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ہاتھ دھونا، چہرا دھونا ایک مسلمان کا معمول ہیں جو جدید میڈیکل ڈاکٹر وں کی تحقیق کے مطابق کرونا جیسی وبا سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر ہیں۔

 بدن، لباس، بیت الخلاء اور باورچی خانہ کی صفائی انسان کی سوچ اور شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔ بغلوں یا پیروں سے اٹھنے ولی ہمک برانڈڈ پرفیوم بھی نہیں چھپا سکتے۔ میک اپ اور پرفیوم نصف ایمان نہیں بلکہ نصف ایمان کا آغازقلب، لباس، بدن اورمنہ کی طہارت سے ہوتا ہے۔ اسلام نے ماحول میں پائی جانے والی تما م اشیا (قدرتی وسائل و ذرائع) کی صفائی و ستھرائی کا اصول کار فرما ہے۔ صفائی کے اصول پر عمل کرنے والے آپ ﷺ کے ہاں قابلِ احترام تھے۔

صیح بخاری کی روایت ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَجُلًا أَسْوَدَ أَوِ امْرَأَةً سَوْدَاءَ كَانَ يَقُمُّ المَسْجِدَ فَمَاتَ، فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، فَقَالُوا: مَاتَ، قَالَ: أَفَلاَ كُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي بِهِ دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ - أَوْ قَالَ قَبْرِهَا - فَأَتَى قَبْرَهَا فَصَلَّى عَلَيْهَا"[45]

ایک حبشی مرد یا حبشی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی، جب وہ مرگئی تو نبی کریم ؐ نے اس کی بابت پوچھا، لوگوں کہا کہ وہ مرگئی اور دفنا دی گئی ہے۔ آپ ؐنے اس (قبر) پر نماز پڑھی کیونکہ اصول طہارت پر عمل کرنے والے آپﷺ کومحبوب تھے۔

ابن ابطالؒ کے مطابق روایت ِ بالا کی شرح ہے:

"فيه الحض على كنس المساجد وتنظيفها؛ لأنه عليه السلام، إنما خصه بالصلاة عليه بعد دفنه لأجل ذلك"[46]

مساجد کی صفائی وستھرائی کی ذمہ داری نبھانا انتہائی اعلیٰ کردار ہے، آپﷺاسی خاصیت کی بناء پر دفن ہونے بعد اس کی قبر پر دعا کی اور اس کی قدردانی کی۔ اسلام نظافت و طہارت کے عمل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

اسلام میں انسانی بدن کے سلسلے میں نجاست و گندگی سے تحفظ کے لئے طہارت کا اصول کارفرما ہے۔ زیر ناف بالوں کی صفائی، زیر بغل بالوں کی صفائی، مونچھوں کو تراشنا، دانتوں کی صفائی، غسل جنابت کے اصول وغیرہ اسلام کے پیروکاروں کو کئی اقسام کی امراض کا سبب بننے والے جراثیم سے محفوظ کرتے ہیں۔

حدیث ِ رسول ﷺ ہے:

"عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَى رَجُلًا شَعِثًا قَدْ تَفَرَّقَ شَعْرُهُ فَقَالَ: أَمَا كَانَ يَجِدُ هَذَا مَا يُسَكِّنُ بِهِ شَعْرَهُ، وَرَأَى رَجُلًا آخَرَ وَعَلْيِهِ ثِيَابٌ وَسِخَةٌ، فَقَالَ أَمَا كَانَ هَذَا يَجِدُ مَاءً يَغْسِلُ بِهِ ثَوْبَهُ"[47]

رسول اللہ ﷺ نے پراگندہ حال اور بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ ایک شخص دیکھا تو فرمایا کہ کیا یہ کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس سے اپنے بالوں کو صاف رکھےاور ایک دوسرے آدمی کو دیکھا کہ اس کا لباس میلے کچیلا تھا، فرمایا کہ اسے کوئی ایسی چیز دستیبا ب نہیں جس سے یہ اپنے کپڑوں کو دھو سکے۔ صفائی ایمان کا مرکزی حصہ ہے اور اسلامنظافت و طہارت کی تعلیم دیتا ہے۔ لباس کا قیمتی ہونا ضروری نہیں بلکہ صاف ستھرا ہونا فرض ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ ۭ قُلْ ھُوَ اَذًى ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاۗءَ فِي الْمَحِيْضِ ۙ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰى يَـطْهُرْنَ "[48]

" پوچھتے ہیں: حیض کا کیا حکم ہے ؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے۔ اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہوجائیں۔ "

علامہ راغب اصفہانی ؒ لکھتے ہیں:

"الأذى: ما يصل إلى الحيوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنيوياً كان أو أخروياً"[49]

حیض کو "الاذی" کہا گیا ہے جبکہ الاذی ہر اس ایذا یا تکلیف کو کہا جاتا ہے جو کسی جاندر کو جسمانی، دنیاوی، اخروی اعتبار سے پہنچے۔ مذکورہ دلائل سے جسم و لباس میں نجاست و گندگی سے اجتناب کا اصول نمایاں ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ اسلام کا اصول طہار ت حفظانِ صحت کی تعلیم و نصیحت پر مبنی ہے۔

محبت ِالہی(Love of Allah)

طہارت و نظافت کے اصول پر عمل پیرا ہونے سے محبت ِ الہی ممکن الحصول ہوتی ہے۔ تمام امورمیں طہارت کا اہتمام و انتظام ضروری ہے کیونکہ طہارت کا اہتمام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّـوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ"[50]

" اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔ "

علامہ فخرالدین الرازیؒ نے لکھا ہے:

"وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ وَالْمُرَادُ مِنْهُ التَّطَهُّرُ بِالْمَاءِ، وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: رِجالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ [التَّوْبَةِ: 108] فَقِيلَ فِي التَّفْسِيرِ: إِنَّهُمْ كانوا يستنجون بالماء"[51]

پانی سے بدن کی صفائی تسلی بخش ہوتی ہے اس لئے پانی کے ساتھ استنجاء کرنا ذات باری تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ اور قابل ِ تعریف ہے۔

 غفلت پر وارننگ ( Warning on Negligence)

اسلام میں اصول طہار ت کو اپنانے پر کافی تاکید ہے۔ اصول طہارت سے غفلت برتنے پر عذابِ قبر کی وارننگ دی گئی ہے۔

صیح بخاری کی روایت ہے:

" عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ المَدِينَةِ، أَوْ مَكَّةَ، فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍثُمَّ قَالَ: بَلَى، كَانَ أَحَدُهُمَا لاَ يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَكَانَ الآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ دَعَا بِجَرِيدَةٍ، فَكَسَرَهَا كِسْرَتَيْنِ، فَوَضَعَ عَلَى كُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا كِسْرَةً، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ قَالَ: لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ تَيْبَسَا"[52]

ابن عباس (رض) سے روایت ہے، فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ یا مکہ کے باغات میں تشریف لے گئے، تو دو آدمیوں کی آواز سنی، جن پر قبروں میں عذاب ہورہا تھا، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان دونوں پر عذاب ہورہا ہے، لیکن کسی بڑی بات کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا، پھر آپؐ نے فرمایا ! ہاں (بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا ہے) ان میں سے ایک تو اپنےپیشاب سے نہ بچتا تھا اور دوسرا چغلی کیا کرتا تھا، پھر آپؐ نے درخت کی ایک شاخ منگوائی اور اس کے دو ٹکڑے کئے، ان دونوں میں سے ہر ایک کی قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا، آپ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ آپ نے کیوں کیا ؟ آپ نے فرمایا ! امید ہے کہ جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوجائیں ان دونوں پر عذاب میں کمی ہوجائے۔

علامہ بدرالدین العینیؒ اپنی کتاب عمدہ القاری میں لکھتے ہیں:

" ترك استتار الرجل من بَوْله من الْكَبَائِر، وَهُوَ جمع: كَبِيرَة، وَهِي: الفعلة القبيحة من الذُّنُوب الْمنْهِي عَنْهَا شرعا، الْعَظِيم أمرهَا: كَالْقَتْلِ وَالزِّنَا والفرار من الزَّحْف وَغير ذَلِك"[53]

مذکورہ عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ اصول طہارت سے منہ موڑنا اور اس کی خلاف ورزی کرنا قتل، زنا جیسے کبیرہ گناہوں کے ارتکاب جیسا ہے۔

ارشاد ِ نبوی ؐ ہے:

" اتَّقُوا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَ: الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَالظِّلِّ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ "[54]

مذکورہ حدیث بالا میں تین لعنت والی باتوں سے احتراز و اجتناب کا حکم صادر کیا گیا ہے یعنی پانی پینے کی جگہوں پر، سایہ دار جگہوں پر اور راستوں پر گندگی و آلودگی نہ پھیلائی جائے۔

طہارت و نظافت دنیا کی ہر قوم، قبیلہ، عقیدہ، رنگ و نسل کا مشترکہ اصول ہے۔ طہارت و نظافت کا تصور تقریباً تمام مذاہب و عقائد میں ہے۔ ہندو مذہب میں مذہبی رسوم کی ادائیگی، جسمانی تعلقات کے بعد، خواتین کی مخصوص ایام اور ولادت کےبعد پاکیزگی کے حصول کے لئےغسل کرنے کا تصور ہے۔ بدھ مت میں مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لئے غسل، بال منڈوانا، پاؤں دھونا وغیرہ کی صورتوں میں طہارت کے اصول کا وجود ملتا ہے۔ زرتشت کے پیروکار آتش کدے میں داخل ہونے کے لئے جسمانی اعضاء کا دھونا فرض سمجھتے ہیں جبکہ مذہبی رہنما ؤں کے لئے طہارت کے اصو ل عام پیروکاروں کی نسبت انتہائی سخت گیر ہیں۔ یہودیوں کی کتاب تورات میں طہارت کے اصول و احکام پائے جاتے ہیں۔ حضرت عیسی ؑ نے قلب و روح کی طہارت کے لئے اعلیٰ ترین اصول پیش کئے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ عیسائیوں نے طہارت کے ان اصولوں کی پیروی سے گریز کیا۔ ایک قرآنی آیت کے مطابق حضرت ابراھیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کو بیت اللہ کی صفائی کے لئے طہارت و نظافت کے اصول کی پیروی کا حکم دیا گیا۔

اسراف و ضیاع کی ممانعت

اسلام میں قدرتی وسائل کے غیر داشمندانہ استعمال سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اس لئے وسائل حیات کی حدود قیود سے تجاوز کرنا خلاف شریعت ہے۔ قدرتی وسائل کا ضیاع واسراف دراصل شرعی حدود سے تجاوز ہے۔ اسلام میں قدرتی وسائل کے تحفظ کے لئے اسراف سے گریز کا سادہ اسلامی اصول پا یا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے پانی، خوراک، لباس وغیرہ سمیت ہرقسم کے قدرتی وسائل کے استعمال میں اسراف سے منع کیا ہے۔ انسان کی حاجات و ضروریات پوری کرنے لئے کرہ ارض پر جو قدرتی وسائل و ذرائع موجود ہیں اور جنہیں پیدا کرنے میں انسانی محنت و مشقت کا کوئی دخل نہیں۔ قدرتی وسائل اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں جو تما م انسانوں کےلئے ہیں اور سب لوگ ان سے فائدہ ونفع اٹھا سکتے ہیں۔ اس کی تائید درج ذیل فرمان ِ الہی سے واضح ہو جاتی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا"[55]

" وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔ "

علامہ طنطاویؒ نے انتہائی عمدہ تفسیر فرمائی ہے:

"أنه خلق جميع ما في الأرض من نحو الحيوان والنبات والمعادن والجبال من أجلكم، فهو المنعم عليكم لتنتفعوا بها في دنياكم، وتستعينوا بها على طاعتهوقد أخذ العلماء من هذه الآية شاهدا على أن الأشياء التي فيها منافع مأذون فيها حتى يقوم دليل على حرمتها"[56]

دنیاوی زندگی بسر کے لئے زمین میں پیدا کردہ اشیاء مثلاً حیوانات، نباتات، معدنیات، پہاڑ وغیرہ میں بہت سی منعفتیں پوشیدہ ہیں۔ اگرقدرتی وسائل کے استعمال میں مقررہ حدود سے تجاوز کیا جائے تو ان کی اباحت ان کی حرمت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ قدرتی وسائل کے استعمال میں تجاوز دراصل انہیں ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ قدرتی وسائل کا ضیاع انتہائی ناقابل معافی عمل اور نامناسب فعل ہے۔ سانئسی و مغربی اصطلاح میں اسے "ویسٹج" کہا جاتا ہے۔

ایک ماہر جغرافیہ "ویسٹج"کے متعلق لکھتے ہیں:

“A general term for the denudation of the earth`s surface.”[57]

قدرتی وسائل کے استعمال میں اسراف سےکام لینا دراصل قدرتی وسائل کی ناقدری کے مترادف ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ "[58]

" اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ، پیو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ "

صاحب "التفسیر الوسیط للقرآن الکریم" رقمطراز ہیں:

" فإن من شأن النعمة أن تستحثهم على الطاعة والاستجابة للمنعم سبحانه، في نهيه لهم عن الإفساد في الأرض، فقد هيأ لهم ما يكفهم عنه. والعثو: الإفساد. فقوله بعد ذلك: {مُفْسِدِينَ} حال مؤكدة، لأن المعنى وأحد لكل من العثو والافساد، ولكن لو نظرنا إلى أصل معنى العثو وهو: مجاوزة الحد مطلقا، فسادا أو غيره، يكون التعبير بلفظ {مُفْسِدِينَ} لتعيين المراد من العثو"[59]

قدرتی وسائل کے استعمال میں حدودوقیود سے تجاوز کرنا دراصل فساد فی الارض کے ارتکاب کے مترادف ہے۔

 وسائل کی منصوبہ بندیPlanning of Resources))

اسلام میں قدرتی وسائل کے تحفظ اور ضیاع سے بچاؤ کے لئے اصول ِ منصوبہ بندی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ غلہ کھیتی باڑی کے ذریعہ حاصل ہونے والا اہم قدرتی نباتاتی وسیلہ ہے جس کی حفاظت کے لئے منصوبہ سازی کا اہم اسلامی اصول پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت یوسفؑ کے حوالے سے زندگی کے لئے ضروری وسائل کے تحفظ کی منصوبہ بندی کا اصول بیان کیا گیا ہے۔ جو موجودہ دور کے ماہرین ِ زراعت کے لئے مشعلِ راہ ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

"قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِيْنَ دَاَبًا ۚ فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِيْ سُنْۢبُلِهٖٓ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ"[60]

"یوسف (علیہ السلام) نے کہا " سات برس تک لگاتار تم لوگ کھیتی باڑی کرتے رہو گے۔ اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو ان میں سے بس تھوڑا سا حصہ، جو تمہاری خوراک کے کام آئے، نکالو اور باقی کو اس کی بالوں ہی میں رہنے دو۔ "

قدرتی وسائل و ذرائع کے تحفظ کے لئے منصوبہ بندی کے اصول پر عمل پیرا ہونا جانداروں کی حیات و بقا کے لئے نا گزیر ہے۔ اس لئے متعدد قرآنی آیات اور احادیث ِ مبارکہ میں قدرتی وسائل کی حفاظت کے اصول کا تذکرہ پا یا جاتا ہے۔ حضرت یوسف ؑ نے قدرتی وسائل کے تحفظ کے ہنرو فن کے ماہر تھے اور انہوں نے اصول تحفظ پر عمل کر کے قحط سالی کے دوران نہ صرف مصر بلکہ اس کے ارد گرد علاقوں کی ضرورت ِ خوراک کو پورا کیا۔

ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

"قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ"[61]

"یوسف (علیہ السلام) نے کہا " ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔ "

علامہ زمخشری کے الفاظ میں:

" اجْعَلْنِي عَلى خَزائِنِ الْأَرْضِ ولنى خزائن أرضك إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ أمين أحفظ ما تستحفظنيه، عالم بوجوه التصرف، وصفا لنفسه بالأمانة"[62]

معلوم ہوا کہ خزانوں یعنی وسائل ِ حیات کے تحفظ کی ذمہ اسی فرد کو سونپنا چاہئے جو ان کی حفاظت کے فن کے ساتھ ساتھ دیانتدار بھی ہو۔ حضرت یوسف ؑ میں تحفظ ِ وسائل کا ہنر بھی تھا اور امانتداری کا وصف بھی تھا، اسی لئے انہوں نے اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کیا۔

مسند احمد کی ایک روایت میں آتا ہے:

" عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالأَطْفِئُوا السُّرُجَ، وَأَغْلِقُوا الْأَبْوَابَ، وَخَمِّرُوا الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ "[63]

حضرت ابو ھریرہ (رض) کی مذکورہ بالاروایت کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: چراغوں کو بجھادو، اپنے دروازوں کو بند کرلو اور کھانے پینے کی چیزیں ڈھانک دو۔ مذکورہ روایت میں دورِ جدید کے عالمی مسئلے قدرتی وسائل کے تحفظ، تواانائی کی بچت اور ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے لئے دنیا بھر کےلئے درسِ عمل پایا جاتا ہے۔

شریعت کا بنیادی مقصد انسان کی جائیداد اور مال کا تحفظ ہے۔ جائیداد یا مال فرد کا ہو ہو یا افراد کا، گروہوں کا ہو یا حکومتوں کا، ریاستوں کی ملکیت ہو یا کسی اور ادارے کی، ان سب کا تحفظ شریعت کے بنیاد ی مقاصد میں سے ہے۔ مال کسی کی ملکیت ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں اسے ضائع کرنا جائز نہیں ہے۔ وضو میں دریا کا پانی بھی ضرورت سے زائد استعمال کرنا شرعاً ممنوع ہے۔ [64]کینیڈا کے صوبے "سسکا چون"میں موسمی اثر سے حد درجہ محفوظ گھر بنائے گئے ہیں۔ انہیں گرم رکھنے کے لیے کسی بھٹی کی ضرورت نہیں بلکہ گھر کے نچلے حصے میں ایک چھوٹا سا ہیٹر لگا دینا کافی ہے۔ ان گھروں پر توانائی جو توانائی صر ف ہوتی ہے، وہ اس کا ایک تہائی ہے جو سویڈن کے جدید طرز کے مکانوں میں خرچ ہوتی ہے۔ اسی طرح توانائی کی یہ مقدار امریکہ کے مکانوں میں خرچ ہونے والی توانائی کی اوسط کا دسواں حصہ ہے۔ لندن میں قائم"انٹر میڈیٹ ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ گروپ" نے کم لاگت والا ایک ایسا گھر بنایا ہے جو آرام دہ ہونے کے علاوہ توانائی کی بچت بھی کرتا ہے اور دیہاتی علاقے کے لیے موزوں ہے۔ اب اسی گھر کو افریقہ میں آزمایا جارہا ہے۔ [65]

ابن ماجہ کی روایت میں ہے:

"عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ: فِي الْمَاءِ وَالْكَلَأ وَالنَّارِ"[66]

قدرتی طور پائی جانے والی تین اشیاء میں تما م مسلمان یعنی پانی، چارہ اور آگ میں شریک ہیں۔ قدرتی چشموں، تالابوں، ندی، نالوں، دریاؤں وغیرہ کا پانی مراد ہے۔ جانوروں کا وہ چارہ جو جنگلوں، قدرتی گھاس کے میدانوں میں پایا جاتا ہے اس سبزہ یا چارہ سے فائدہ اٹھانے کا سب کو حق حاصل ہے۔ آگ سے مراد ایندھن میں کام آنے والی لکڑی اور آگ جلانے کا سامان وغیرہ ہے۔ [67]جوں جوں آبادی بڑھ رہی ہے، وسائل ِ حیات کے لئے فکر مند ہونا اور اس کے بہتر استعمال کی پلاننگ کرنا اربابِ اختیار کا دینی و ملی و قومی فریضہ ہےکیونکہ پاکستان کی آبادی 21 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔

پروفیسر فضل کریم بالکل درست مشورہ دیتے ہیں:

“This large population has to be fed, housed and clothed and it witll depend how best we make use of our environment, climate, land, water, and minerals.”[68]

چونکہ قدرتی وسائل کا تحفظ کرنا اہم اسلامی اصول ضوابط میں سے ہے۔ اس لئے قابل تجدید ذرائع توانائی کا استعمال کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پیٹرول، گیس، ڈیزل، کوئلے کی بجائے شمسی توانائی، ہوائی توانائی اور ہائیڈرو پاور کے استعمال سے توانائی کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔

نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

“Solar energy ,air and water considered renewable ;solar energy is exhaustible.”[69]

ہوا، پانی، سورج توانائی کے قابل تجدید ذرائع ہیں اور وافر مقدار میں ان کی مقدار کرہ ارض پر میسرہے، ان سے انرجی کی ضرورت پوری کرنے سے ناقابل تجدید وسائل کی بچت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تحفط کے اصول پر بھی عمل ہو جاتا ہے۔

 خلیفہ اول کی ہدایات (Instructions of Caliph1)

 انسانی حیات و بقا کے لئے ضروری وسائل کی حفاظت اور ان کے ضیاع کی روک تھام کے لئے یارِ غار صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خصوصی ہدایات بنام حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہیں۔ لشکر ِ اسامہ کو خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زریں ہدایات کو وسائل حیات کے تحفظ کا چارٹر اور دستور کہا جا سکتا ہے۔ جنگ و جدل میں بھی انسانی زندگی کے لئے ضروری وسائل و ذرائع کا تحفظ تعلیماتِ اسلامی کا طرہ امتیاز ہے۔

علامہ ابن جریر طبری ؒ نے لکھا ہے:

"لا تَخُونُوا وَلا تَغِلُّوا، وَلا تَغْدِرُوا وَلا تُمَثِّلُوا، وَلا تَقْتُلُوا طِفْلا صَغِيرًا، وَلا شَيْخًا كَبِيرًا وَلا امْرَأَةً، وَلا

تَعْقِرُوا نَخْلا وَلا تُحَرِّقُوهُ، وَلا تَقْطَعُوا شَجَرَةً مُثْمِرَةً، وَلا تَذْبَحُوا شَاةً وَلا بَقَرَةً وَلا بَعِيرًا إِلا لِمَأْكَلَةٍ، وَسَوْفَ تَمُرُّونَ بِأَقْوَامٍ قَدْ فَرَّغُوا أَنْفُسَهُمْ فِي الصَّوَامِعِ، فَدَعُوهُمْ وَمَا فَرَّغُوا أَنْفُسَهُمْ لَهُ، وَسَوْفَ تَقْدَمُونَ عَلَى قَوْمٍ يَأْتُونَكُمْ بِآنِيَةٍ فِيهَا أَلْوَانُ الطَّعَامِ، فَإِذَا أَكَلْتُمْ مِنْهَا شَيْئًا بَعْدَ شَيْءٍ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا وَتَلْقَوْنَ أَقْوَامًا قَدْ فَحَصُوا أَوْسَاطَ رُءُوسِهِمْ وَتَرَكُوا حَوْلَهَا مِثْلَ الْعَصَائِبِ، فَاخْفِقُوهُمْ بِالسَّيْفِ خَفْقًا انْدَفِعُوا باسم الله، أفناكم اللَّهُ بِالطَّعْنِ وَالطَّاعُونِ"[70]

صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہوئی لشکر کے کمانڈر حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کئی گئی سنہری دس نصیحتوں کا خلاصہ یہ ہے: آپ نے خیانت، بد عہدی، چوری، مقتولین کا مثلہ، بچوں، بوڑھوں، خواتین کے قتل سے پرہیز کرنے کا حکم دیا۔ کھجور کے درخت کاٹنے اور جلانے سے پرہیز کیا جائے۔ پھل دار اشجار کے کاٹنے، حصول خوراک کی خاظر کسی بھیڑ یا گائے کے علاوہ کسی حیوان کو ذبح نہ کیا جائے۔ گرجا گروں میں عبادت میں مصروف راہبوں کو نہ چھیڑا جائے۔ لوگوں کی لایا ہوا کھانا شروع کرنے سےپہلے بسم اللہ ضرور پڑھی جائے۔ درمیان سے سر منڈوانے والے اور سر کےارد گرد بڑے لمبے بال رکھنے والوں کو تلوار سے قتل کر دیا جائے۔ اپنی جان کا تحفظ اللہ تعالیٰ کے اسم ِ گرامی سے کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ شکست اور طاعون کی وبا سے حفاظت کرے۔ خلیفہ اول کی ہدایات کا مقصد یہ ہےکہ قدرتی وسائل کے استفادہ کرنا سب انسانوں کا حق ہے اور یہ وسائل ضائع ہونے سے محفوظ ہو جائیں تاکہ سب انسان ان وسائل سے استفادہ کر سکیں۔

اسلام میں جنگ و جدل میں بھی وسائل ِ حیات کی حفاظت کا اصول و تصور پایا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس دوسرے مذاہب و اقوام میں ایسے اصول و قواعد کا ذکر خال خال ہی دکھائی دیتا ہے۔ بچوں، بوڑھوں، خواتین کے قتل، کجھوروں کے درختوں کو جلانے اور کاٹنے سے ممانعت کی گئ ہے۔ بلاضرورت حیوانات یعنی بھیڑ یا گائے وغیرہ کے علاوہ کسی جانور کو ذبح نہ کرنے کا حکم ہے تاکہ حیواناتی وسائل کے ضیاع و اسراف کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔

اسراف کی ممانعت (Prohibtion of Extravagance)

متعددتعلیماتِ اسلامی سے قدرتی وسائل کے استعمال میں اسراف و ضیاع سے اجتناب کا اصول واضح ہوتا ہے۔ نباتات کے تحفظ کے لئے اس اصول کی پیروی کرنا ہر انسان کے لئے ضروری امر ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ " [71]

"وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان اور نخلستان پیدا کیے، کھیتیاں اگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں، زیتون اور انار کے درخت پیدا کیے جن کے پھل صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں۔ کھاؤ ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں، اور اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو، اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ "

بہیقی ؒ کی روایت ہے:

" مَنْ قَطَعَ سِدْرَةً صَوَّبَ اللهُ رَأْسَهُ فِي النَّارِ "[72]

جو بیری کا درخت کاٹے گا اللہ تعالیٰ اس کا سرجہنم میں ڈال دے گا۔ ثابت ہوا کہ اسلام میں نباتاتی وسائل کے ضیاع سے پرہیز کا سخت اصول پایا جاتا ہے۔ مذکورہ اصول سے غفلت برتنے پر جہنم کی سزا کی وارننگ دی گئی ہے۔ اسلام میں قدرتی وسائل کی فضول خرچی سے بچاؤ کا اصول نمایا ں اور واضح ہے۔ قدرتی وسائل و ذرائع کے استعمال میں اسراف و ضیاع سے کام لینا دراصل شیطانی ایجنڈا کی پیروی ہے اسی لئے ضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا "[73]

" فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ "

امام ابن کثیر ؒ اسطرح فرماتے ہیں:

"قال ابْنُ مَسْعُودٍ: التَّبْذِيرُ الْإِنْفَاقُ فِي غَيْرِ حَقٍّ، وَكَذَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لَوْ أَنْفَقَ إِنْسَانٌ مَالَهُ كُلَّهُ فِي الْحَقِّ لَمْ يَكُنْ مُبَذِّرًا، وَلَوْ أَنْفَقَ مُدًّا فِي غَيْرِ حق كان مبذرا. وَقَالَ قَتَادَةُ: التَّبْذِيرُ النَّفَقَةُ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ تعالى، وفي غير الحق والفساد"[74]

اللہ تعالیٰ کی نافرمانی و معصیت اور غیر حق یعنی فضول خرچی کرنا تبذیر کرنا کہلاتا ہے۔ اگر جائز اور حق پر مبنی امور میں مال خرچ کرے تو تبذیر کا ارتکاب کرے گا۔ قتادہ ؒ کے نزدیک حق کے بغیر خرچ کرنا فساد کہلاتا ہے۔

اگر ہم زیادہ ضرورت سے زائد قدرتی وسائل خرچ کرتے ہیں اورضیاع واسراف کرتے ہیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ زمین سے قدرتی وسائل کے ذخائر ختم ہو تےجائیں گےیا اگر ہم صنعتی ترقی کرتے ہیں اور زہریلی گیسوں کا اخراج کرتے ہیں، تو ان زہریلی و کیمیائی گیسوں سے زمین کے درجہ حرارت میں ناقابل برداشت اضافہ ہوگا، گلیشیئرز پگھلیں گے، سطح سمندر میں اضافہ ہوگا، اور زمین کی وہ ساخت جو اربوں سال سے قائم و دائم ہے، اس میں منفی تبدیلی ہوگی جس کا نتیجہ قدرتی آفات، ماحولیات اور موسمیات کی تبدیلی کی صورت میں نکلے گا۔ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے زمین کا ماحول مخلوقات کی حیات و بقا کے لئے سازگار نہیں رہے گا۔ لہٰذا ہم سب کا انسانی و دینی اور اخلاقی فرض ہے کہ قدرتی وسائل کے استعمال میں اسراف سے گریز کے سادہ اسلامی اصول پر عمل پیرا ہوں۔ پانی و خوراک جیسی بنیادی ضروریات میں اسراف و ضیاع سے اجتناب کا اسلامی اصول نمایاں ہے۔ اس اصول کے بارے میں کئی شرعی و اسلامی احکام ہیں۔

نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:

" كُلُوا وَاشْرَبُوا وَتَصَدَّقُوا وَالْبَسُوا مَا لَمْ يُخَالِطْهُ إِسْرَافٌ، أَوْ مَخِيلَةٌ"[75]

مذکورہ بالا روایت کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کھاؤ پیوصدقہ کرو اور پہنو بشرطیکہ اس میں اسراف یا تکبر کی آمیزش نہ ہو۔

اعتدال و توازن کا اصول

اسلام میں قدرتی وسائل کے استعمال میں اسراف و ضیاع کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے جبکہ اشیاء یعنی قدرتی وسائل کے استعمال میں اعتدال و توازن کے اسلامی اصول کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قدرتی وسائل کے استعمال میں میانہ روی اور اعتدال بنیادی اسلامی اصول آفاقی اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اعتدال سے مرادیہ ہے کہ انسانی زندگی کے جتنے تقاضے ہیں، ان سب کے درمیان اس طرح ہم آہنگی رکھی گئی ہو کہ کوئی تقاضا مجروح نہ ہونے پائے۔ کسی ایک تقاضے کی قیمت پر دوسرے تقاضے کی تکمیل کا سامان نہ کیا گیا ہو۔ اس اصول میں دنیا میں کوئی قم اسلامی شریعت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ شریعت نے ہر معاملے میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اعتدال اور میانہ روی پر اس قدر زور دیا کہ اس سے ہٹ جانے والوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ [76]اسراف و تبدیز دونوں الفاظ کسی بھی شے کی فضول خرچی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اسراف و تبدیز سے مراد نعمتوں یعنی قدرتی وسائل کے استعمال میں اعتدال ِحد سے تجاوز کرنا ہے۔

پانی کا مناسب استعمال(Proper Use of Water)

دوسرے امور کی طرح وضو اور غسل کے لئے پانی کے استعمال میں اعتدال و توازن کے اصول کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ پانی کے ضیاع کی روک تھام ممکن بنائی جائے۔

ارشاد نبویﷺ ہے:

"عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ، وَيَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ "[77]

علامہ بدر الدین العینی ؒ لکھتے ہیں:

"أَنه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كَانَ يتَوَضَّأ بِالْمدِّ، وَهُوَ رطلان عِنْد أبي حنيفَة"[78]

"الصَّاعِ" کے بارے میں علامہ العینی ؒ نے لکھا ہے:

" وَقَالَ ابو حنيفَة وَمُحَمّد: الصَّاع ثَمَانِيَة أَرْطَال"[79]

آپ ﷺ نے غسل کے لئے صرف ایک صاع (کم و بیش 4 لٹر) اور وضو کے لئے صرف ایک مد (کم و بیش ایک لٹر) پانی استعمال کیا۔

قابل غور امر یہ ہے کہ کیا ہم غسل اور وضو کی ادائیگی کے لئے پانی کے استعمال میں اعتدال کے اصول پر کاربند ہیں ؟یا پانی کے فقدان کی باوجود مساجد اور حماموں میں پانی کا اسراف بدیہی حقیقت ہے۔

امام بخاریؒ فرماتے ہیں:

" وَبَيَّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ فَرْضَ الوُضُوءِ مَرَّةً مَرَّةً، وَتَوَضَّأَ أَيْضًا مَرَّتَيْنِ وَثَلاَثًا، وَلَمْ يَزِدْ عَلَى ثَلاَثٍ، وَكَرِهَ أَهْلُ العِلْمِ الإِسْرَافَ فِيهِ، وَأَنْ يُجَاوِزُوا فِعْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"[80]

تعلیمات ِ نبویؐ سے واضح ہوا کہ وضو کے اعضاء کو تین مرتبہ سے دھونا پانی کا اسراف و ضیاع ہے۔ تین مرتبہ سے زائد وضو کے اعضاء کو دھونا اہل علم نے مکروہ اور ناپسندیدہ قرار دیا ہے کیونکہ ایسا کرنا سنت ِ نبویؐ کے منافی ہے۔

مومنین کی پہچان (Identification of Believers)

تمام امور و معاملات میں اعتدال و میانہ روی کا رویہ سچے مومن کی پہچان ہے۔قرآن مجید میں مومنین کی صفت وخوبی بتائی گئی ہے کہ وہ تمام انعامات و اشیاکے استعمال کرنے میں میانہ روی کا راستہ اختیا ر کرتے ہیں۔ قدرتی وسائل کے استعمال میں اعتدال و توازن کا رویہ اختیار کرنا دراصل سچے مسلمانوں کی صفت و خوبی ہے۔ قرآن مجید میں مومنین کی اس خوبی کو انتہائی عمدہ انداز میں بیا ن کیاگیا ہے۔

قرآن پاک میں ہے:

"وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا"[81]

" جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ "

صاحب"تفسیر المنار" مذکورہ آیت قرآنی کی تشریح اسطرح فرماتےہیں:

"وَفِي الْأَحَادِيثِ النَّبَوِيَّةِ مِثْلُ ذَلِكَ فَمِنْهَا مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ رَوَاهُ أَحْمَدُ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ. وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ - الِاقْتِصَادُ نِصْفُ الْمَعِيشَةِ "[82]

وہ فرد کبھی تنگ دست اور مفلس نہیں ہوتا جو امور ِ کل میں اعتدال کا اصول اپناتا ہو۔ امور ِ اقتصاد یات میں میانہ روی اختیار کرنا دراصل آدھی معیشت کے برابر ہے۔

رسول کریم ؐ اصول اعتدال کی نافعیت یوں بیان کرتے ہیں:

"سَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَاغْدُوا وَرُوحُوا، وَشَيْءٌ مِنَ الدُّلْجَةِ، وَالقَصْدَ القَصْدَ تَبْلُغُوا"[83]

روایت بالا کا مفہوم کے مطابق درستگی، اعتدال و میانہ روی کا اصول اپنا کر منزل مقصود ممکن الحصول ہوجاتی ہے۔ شریعت ِ اسلامیہ میں تمام اشیاکے استعمال میں اعتدال و توازن کااخلاقی و آفاقی اصول بیا ن کیا گیا ہے جبکہ قدرتی وسائل کے اسراف و ضیاع کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ جو شخص اپنی ضروریات و حاجات کے معاملے میں اعتدال اور توازن کا رویہ اختیار نہیں کرتا، اسے اپنے ہی شوق پورے کرنے سے فرصت نہیں ملتی کہ دوسروں کے حقوق ادا کر پائے۔ قرآن مجید قدرتی وسائل و ذرائع استعمال کرنے میں اعتدال کا رویہ اپنانے کا حکم دیتا ہے۔ قدرتی وسائل اللہ تعالی کی نعمت ہیں ان کے استعمال میں صیح رویہ اعتدال اور میانہ روی ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز لکھتے ہیں:

“Our prosperity thus depends upon the way we use our resources .We have to play a role to maintain ourselves and also to ensure the availability of these resources for the generations yet unborn.”[84]

 مذکورہ قتباس دلالت کرتا ہے کہ آئندہ نسلوں کے لئے وسائل ِ حیات کی حفاظت کے لئے اسلامی اصول ِاعتدال پر عمل ضروری ہے۔ گوشت ہمیشہ مناسب مقدار میں اور اعتدال سے استعمال کرنا چاہیے کیونکہ گوشت کا زیادہ مقدار میں استعمال مضر صحت ہوتا ہے۔ امام مالک ؒ نے اپنی موطا میں حضرت عمر بن خطاب ؓکا درج ذیل قول نقل کیا ہے:

"عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: إِيَّاكُمْ وَاللَّحْمَ، فَإِنَّ لَهُ ضَرَاوَةً كَضَرَاوَةِ الْخَمْرِ"[85]

سلف صالحین کا مطالعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ کھانے پینے میں اعتدال کا رویہ اپنانا بہت ضروری ہے۔ خلیفہ دوم عمر بن خطاب ؓ کی نصیحت کے مطابق زیادہ گوشت کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اسمیں شراب کی طرح ایک چسکا ہوتا ہےیعنی معتدل رویہ اپنانا چاہیے۔

حکیم بقراط کا کہنا ہے:

"لَا تَجْعَلُوا أَجْوَافَكُمْ مَقْبَرَةً للحيوان"[86]

گوشت استعمال کرنے میں اعتدال و میانہ روی کا اصول اپنانا حفصان ِ صحت کے اصولوں میں سے ہے اور اسراف و تجاوز کرتے ہوئے زیادہ گوشت استعمال کرنا دراصل اپنے پیٹوں کو حیوانات کا مقبرہ بنانے کے مترداف ہے اور اصولِ اعتدال کی سراسر پامالی ہے۔

اسلام میں اعتدال و توازن کا آفاقی و فطری اصول پایا جاتا ہے جبکہ دیگر مذاہب کے پیروکار افراط و تفریط کا شکار نظر آتے ہیں۔ کئی مذاہب میں بے جا سختیاں، تشدد، غلو کا پہلو نمایاں ہے۔ یہودیت میں نہانے کے بعد بھی مکمل پاک ہونے کے لئے آفتاب غروب ہونے کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ یہود کے ہاں اصول تھا کہ وہ پیشاب کے قطرے گرنےپر لباس کا وہ حصہ قینچی سے کتر دیتے تھے۔ خواتین کے مخصوص ایام میں انہیں گھر میں الگ تھلگ کر دیا تھا حتیٰ کہ ان کےزیرِ استعمال اشیاء کو بھی نجس قرار د ے دیا جاتا۔ ہندو مذہب و معاشرہ میں بچے کی ولادت پر والد اور والدہ کے ساتھ ساتھ پورے گھر کو ہی سوتک (ناپاک) قرار دے دیا جاتا ہے۔ وفات پانے والے گھر حتیٰ کہ مردے کے ساتھ جانے والے افراد پر بھی سوتک (ناپاکی) کا ٹھپہ لگا کر ان سے سماجی فاصلہ رکھنے کا رواج پایا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں بھی سوتک (ناپاکی) کی اصطلاح کا استعمال اب بھی باقی ہے۔ ہندو مذہب کے ہاں سوتک (ناپاکی) کے نجات کے بھی کئی عجیب و غریب طریقے رائج ہیں۔ لباس سمیت غسل، نمک سے پرہیز، زمین پر سونا، گائے کو ہاتھ لگانا جیسے فضول رواج ہندو مذہب میں پائے جاتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف جوگیوں اور سنیاسیوں کے ہاں روحانی پاپاکیزگی کے حصول کے لئے جسمانی صفائی کو ترک دینا اہم اصول کارفرما تھا۔ گوتم بدھ اور اس کے پیروکاروں نے بھی روحانی پاکیزگی کے لئے ترک ِ طہارت کو اصول کو شامل کر لیا تھا۔ عیسائی راہبوں نے رہبانیت کے لئے یہ اصول شامل کر لیا کہ غسل کرنا یا پانی کو ہاتھ لگانا اپنے اوپر حرام کر لیا اور ایسی مثالیں چھوڑیں کہ کئی راہبوں نے ساری زندگی پانی کو ہاتھ نہیں لگایا اور منہ تک نہیں دھویا۔ [87] مختلف مذاہب و اقوام کے حالات و واقعات کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کے ہاں قدرتی وسائل کے استعمال اور دوسرے امور میں اصول ِ اعتدال کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اسلام ہی ایسا دین ہے جس نے افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال کا سنہری اصول دنیا کے سامنے پیش کیا۔

 فساد برپا کرنے کی ممانعت

اسلام میں قدرتی وسائل کے استعمال میں فساد و بگاڑ سے اجتناب و احتراز کا اصول پایا جاتا ہے۔ اسلام میں قدرتی وسائل کے اس اصول کو وضاحت و صراحت سے سمجھایا گیا ہے۔ قرآن کریم میں فساد کا لفظ جا بجا آیا ہے۔ ماہرین کی آراء کی روشنی میں ماحولیاتی توازن میں بگاڑ یعنی فساد کی تشریح و توضیح کی جاتی ہے۔

فساد کا مادہ ف۔ س۔ د ہے۔ "معجم اللغة العربية المعاصرة" میں فساد کی تشریح کی گئی ہے:

" فسَدَ يَفسُد ويفسِد، فَسَادًا وفُسودًا، فهو فاسِد وفسيد فسَدَ الرجلُ: جانب الصواب، عكسه صلَح "فسَد الفتى من سوء التربيةفسدت المرأةُ فسدت أخلاقه/ حياتُه فسَدَ الطَّعامُ: عطب، تلِف؛ أنْتَن، ضد صلح فسَدت الفاكهةُ- فسَد العصيرُ"[88]

"المفردات في غريب القرآن" میں فساد کے معنی و مفہوم ہے:

"الفَسَادُ: خروج الشيء عن الاعتدال، قليلا كان الخروج عنه أو كثيرا، ويضادّه الصّلاح، ويستعمل ذلك في النّفس، والبدن، والأشياء الخارجة عن الاستقامة، يقال: فَسَدَ فَسَاداً وفُسُوداً "[89]

تفسیر " جامع البيان عن تأويل آي القرآن" میں ہے:

" فَإِنَّ الْفَسَادَ هُوَ الْكُفْرُ وَالْعَمَلُ بِالْمَعْصِيَةِ "[90]

مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے قدرتی وسائل کو خراب کرنا اور اس کے استعمال میں حدود و قیودسے تجاوز کرنا دراصل فساد کی ہی ایک قسم ہے۔ اعتدال و توازن اور اصلاح و اعتدال کا متضاد فساد و بگاڑ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام جاندارمخلو قات کو زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ودیعت فرمایا ہے۔ چنانچہ وہ ابتدائے آفرینش سے اسی متعین فطری طریقے پر عمل پیرا ہیں اور انھوں نے اس سے سر ِ مو انحراف نہیں کیا ہے۔ لیکن نوع انسانی چونکہ شروع ہی سے ارادہ و اختیار کی آزادی حاصل ہے، اس لئےاسے بعض فسادی افراد نے بسا اوقات زندگی کے روّیوں میں راہِ فطرت سے انحراف کی روش اپنائی ہے۔ [91]اسی لئے اسلام نےکرہ ارض پر راہ فطرت سے انحراف کی روک تھام کے لئے فسادو بگاڑ سے منع کیا ہے۔

کلام الہی میں حکم دیا گیا ہے:

" وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ"[92]

" اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔ "

امام بیضاوی ؒ بیان کرتے ہیں:

"وَلا تَبْغِ الْفَسادَ فِي الْأَرْضِ بأمر يكون علة للظلم والبغي، نهي له عما كان عليه من الظلم والبغي"[93]

زمین پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنا خلاف ِ اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی نعمتوں کو برباد کرنا بھی فساد کے زمرے میں آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قابل نفرت فعل ہے۔

نسل و فصل کی بربادی فساد کی ایک شکل ہے۔ فصلوں کی تباہی سے قحط پیدا ہوگا اور اس سے بھوک و افلاس پیدا ہونے سے نسل کی تباہی ہو گی۔ جدید سائنس کی مدد سے ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول ہر ملک و قوم کا خواب ہے جبکہ اس کے مثبت پہلو کی نسبت منفی پہلو زیادہ ہیں۔ ناگاساکی اورہروشیما کی ایٹم بم سے تباہی عبرانگیز ہے۔ نسل و فصل کو آن کی آن میں خاک کر دیا گیا۔ اس سے بڑا فساد کونسا ہو گا۔

آخری آسمانی کتاب میں فرمایا گیا ہے:

" وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ"[94]

" جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے، تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے۔ حالانکہ اللہ ﴿جسے وہ گواہ بنا رہا تھا﴾ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ "

جنگلات و اشجار اور نباتات کے کٹاؤ یعنی ڈی فارسٹیشن (Deforestaion) اور نسلِ انسانی کی تباہی کا باعث بننے والے اموریعنی ماحول کی آلودگی (Environmental Pollution) دراصل دورِ حاضر کا سب سے بڑا فساد ہیں۔ جنگلات کی صفائی کرنے سے کسی بھی ایکوسسٹم میں آکسیجن کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ لازماً انسانیت کی بقا کو شدید خطرہ ہے۔

امام بغویؒ رقمطراز ہیں:

" أَنَّ الْأَخْنَسَ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ ثَقِيفٍ خُصُومَةٌ فَبَيَّتَهُمْ لَيْلَةً فَأَحْرَقَ زُرُوعَهُمْ وَأَهْلَكَ مَوَاشِيَهُمْ"[95]

اخنس اور قبیلہ ثقیف کے درمیان مخالفت و مخاصمت تھی، اخنس نے رات کے اندھیرے میں ان کے فصلوں اور حیوانات کو جلا کر فسا د کا ارتکاب کیا۔

حفاظتِ جان (Life Safety)

زندگی اللہ تعالیٰ کی امانتاً انسان کو عطا کی ہے، اس لئے اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے تحفظ ِ جان کا اصول متعارف کروایا ہے۔ آلودہ اور گندگی پر مشتمل اشیا کا استعمال اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترداف ہے۔ قرآن مجید میں ہر انسان کو اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانے کا آرڈرہے۔

سورت النساء میں ہے:

" وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا "[96]

"اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے۔ "

آیت بالا کی تشریح علامہ المراغی ؒ کے مطابق:

" (وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ) أي لا يقتل بعضكم بعضا، وعبر بذلك للمبالغة فى الزجر، وللإشعار بتعاون الأمة وتكافلها ووحدتها، وقد جاء فى الحديث المؤمنون كالنفس الواحدة ولأن قتل الإنسان لغيره يفضى إلى قتله قصاصا أو ثأرا، فكأنه قتل نفسه"[97]

مذکورہ بالا عبارت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اسلامی تعلیمات ایک دوسرے کی جان کے تحفط کا درس دیتی ہیں کیونکہ پوری ملت اسلامیہ کے مومنوں کو "نفس واحدہ " قرار دیا گیا ہے۔ شرعی اصطلاح میں انسانی جان کا تحفظ دوسرا بنیادی مقصد ہے۔ ایک انسان کی جان لینا پوری انسانیت کی جان لینے کے مترادف ہےاور ایک انسان کی جان کی حفاظت کرنا پوری انسانیت کی حفاظت کرنے کے مترادف ہے۔ بہت سے شرعی اصول و احکام انسانی جان کے تحفظ کے لئے ہیں۔ ایک بیابان میں کتا پیاس سے مر رہا ہے، آپ نےاسے پانی پلا کر اس کی جان بچائی ہے، یہ بھی ایک جان کا تحفظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عزت و شرف سے نوازا ہے اور وہ اللہ کا جانشین اور نائب ہے۔

لہٰذا انسانی جان کا تحفظ احترام، اکرام اور عزت کے ساتھ ضروری ہے۔ [98]مذکورہ بالا دلائل سے قدرتی وسائل کو نجاست و گندگی سے حفاظت کا جواز استدلال کیا جا سکتا ہے۔ قدرتی وسائل کی آلودگی سے پیدا ہونے والی نت نئی اور جان لیوا بیماریاں دورِ جدید کا سنگین ترین مسئلہ ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں سے خارج ہونے والا دھواں اور زہریلا پانی انسان کے لئے جان لیوا اور ہلاکت خیز ثابت ہو رہا ہے۔ انسانی جان کی حفاظت کی خاطر اصول طہارت پر عمل کرنا ہر مسلمان کا اولین فریضہ ہے۔ فیکڑی مالکان زیادہ سے زیادہ سرمایہ کے حصول کے لئے زہریلا دھواں فضا میں چھوڑ کر لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔

قرآن مجید میں قدرتی وسائل کے منفی استعمال پر واضح اور صریح الفاظ میں خبردار کیا گیا ہے۔ زمین میں فساد و بگاڑ پھیلانے والے کے لئے لعنت اور براٹھکانہ ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ "[99]

" اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت برا ٹھکانہ ہے۔ "

"تفسیر الخازن"میں ہے:

" وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ يعني بالكفر والمعاصي أُولئِكَ يعني من هذه صفته لَهُمُ اللَّعْنَةُ يعني الطرد عن رحمة الله يوم القيامة وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ يعني النار"[100]

مندرجہ بالا دلائل و براھین ماحولیاتی آلودگی کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے عذاب ِ الہی کی وارننگ پر شاہد ہیں۔ آلودگی و گندگی کے ذریعے زمین پر بگاڑ پیدا کرنے والوں کے لئے عذاب ِ خدا کی وعید لمحہ فکریہ ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کی ممانعت(Prohibtion of Climate Change)

اسلام کسی بھی طریقے سے موسمیاتی تبدیلی یا ماحولیاتی تبدیلی کا موجب بننے سے روکتا ہے۔ کرہ ارض کے اندر بے شمار قدرتی وسائل کے ذخائر محفوظ ہیں جبکہ زمین پر انسانی حیات کی روانی کے لئے مناسب اور موزوں قدرتی ماحول پایا جاتا ہے،قدرتی اشیا ء اللہ تعالیٰ کی قیمتی نعمتیں ہیں۔ ان قدرتی نعمتوں میں منفی سرگرمیوں کے ذریعے تبدیلیاں پیدا کرنا ناجائز، حرام اور ناقا بل معافی جرم ہے۔ قدرتی وسائل کے استعمال میں حدودوقیود میں تجاوز کی وجہ سے دنیا میں فساد و بگاڑ نمودار ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں پیدا کرنا قابل مواخذہ جرم ہے اور ایسا کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے سزا کا اعلان کیا ہے۔

سورہ البقرہ کی آیت نمبر 211 میں ہے:

" وَمَنْ يُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ "[101]

" اور جو اللہ کی نعمت کو اس کے پانے کے بعد بدل ڈالے تو اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ "

امام فخر الدین الرازی ؒ آیت ِ بالا کی تفیسرمیں لکھتے ہیں:

"الْمُرَادُ بِنِعْمَةِ اللَّهِ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ أَسْبَابِ الصِّحَّةِ وَالْأَمْنِ وَالْكِفَايَةِ وَاللَّهُ تَعَالَى/ هُوَ الَّذِي أَبْدَلَ النِّعْمَةَ بِالنِّقْمَةِ لَمَّا كَفَرُوا"[102]

قدرتی موسم اور قدرتی ماحول نسل انسانی کے لئے اللہ تعا لیٰ کی بہت عظیم نعمتیں ہیں اسی لئے نعمتوں یعنی قدرتی ماحول و موسم میں منفی سر گرمیاں انجام دے کر منفی تبدیلیاں پیدا کردینا کفر کے مترداف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا نظام انسانی زندگی کے لئے ساز گار بنانے کے لئے ہر شے کو متوازن پیدا کیا ہے۔ توازن میں بگاڑ پیدا فساد کی ہی ایک شکل ہے۔ دورِ جدید کا سب سے بڑا مسئلہ ماحولیاتی توازن میں بگاڑ ہے جبکہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان نے قدرتی وسائل میں منفی سرگرمیوں کے ذریعے فساد و بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ قدرتی ماحول میں فساد و بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان قدرتی وسائل کے استعمال میں حدودو قیود سے تجاوز کرتا ہے۔ قدرتی وسائل کے تخریبی و منفی استعمال سے قدرتی ماحول میں فطری توازن بگڑ جاتا ہے۔ جس سے کئی ماحولیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ زمین میں ہر قسم کی کیمیائی اور جراثیمی غلاظتیں تحلیل کرنے کی صلاحیت ہے، جس کی وجہ سے مختلف منفی سرگرمیوں سے دفاع ہوتا رہتا ہے۔ جب منفی وتخریبی سرگرمیاں حد سے تجاوز کرجائیں تو زمین کے فطری وقدرتی توازن میں خلل پیدا ہونے لگتا ہے، نسلیں اور فصلیں اس سے شدید متاثرہوتی ہیں۔ قرآن کریم ایسی منفی سرگرمیوں کو فساد قراردیتاہے۔ قرآن کریم جابجا فساد یعنی منفی سرگرمیوں سے سخت بیزاری کا اعلان کرتاہے۔ زمین میں ہر قسم کا فساد پھیلانا منافقین کا شیوہ ہے۔ زمین میں ہرقسم کی آلودگی اورقدرتی وسائل کا استحصال بھی فساد میں شامل و داخل ہے۔ زمین میں ہر قسم کی منفی و تخریبی سرگرمیوں سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں زمین کے قدرتی ماحول کو اس کی اصلاح و درستگی کے بعد بگاڑنے اور مسخ کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی پھیلانا اورموسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بنناکائنات کے جانداروں کی بقا کے لئے انتہائی تباہ کن ہے۔

ایک سکالر نے انسان کی مفسد سرگرمیوں کے اثرا ت کا جائزہ پیش کیا ہے:

“Deforestation and depletion of forests by human activities or natural hazards is one of the major concerns of the present age. Reproduction in forest areas can create imbalance in nature and ,thus , alter Earth`s Climate.”[103]

کلائمیٹ چینج کی ممانعت کا آیت ِ قرآنی کی رو سے اشارہ ملتا ہے:

" وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا"[104]

" زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے۔ "

کائنات کی اصلاح و درستگی اسلامی اصولوں کو ماننے اور ان پر دل و جان سے عمل کرنے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے دستور العمل سے منہ موڑنا ہی برائی، بد اخلاقی، معصیت و کفر، قتل و خونریزی، موسمیاتی تبدیلی، گلوبل وارمنگ جیسے فسادات کی سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اصول و قوانین کی پامالی کی وجہ سے ہی کلائمیٹ چینچ، گلوبل وارمنگ، اخلاقی و سماجی و ماحولیاتی مسائل میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔

اس تناظر میں ایک مسلم سکالر ابو بکر احمد لکھتے ہیں:

“Over exploitation, abuse, misuse, destruction, and pollution of natural resources are all transgression against the divine scheme. Because narrow-sighted self-interest is always likely tempt men to disrupt the dynamic equilibrium set by God, the protection of all natural resources from abuse is a mandatory duty.”[105]

 اسلامی دستور حیات سے روگردانی منافقت ہے۔ فساد کا موجب درحقیقت منافقوں کا شیوہ ہے۔ قرآن مجید میں کرہ ارض پر منفی سرگرمیاں سر انجام دینے والے یعنی ماحولیاتی وموسمیاتی بگاڑکا باعث بننے والوں کو خسارے و گھاٹے میں قرار دیا گیا ہے۔

اللہ کریم فرماتا ہے:

" وَيُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ اُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ "[106]

" اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ "

علامہ الشوکانی ؒ فرماتے ہیں:

"وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ قَالَ: يَعْمَلُونَ فِيهَا بِالْمَعْصِيَةِ. وَأَخْرَجَ ابْنُ الْمُنْذِرِ عَنْ مُقَاتِلٍ فِي قَوْلِهِ: أُولئِكَ هُمُ الْخاسِرُونَ يَقُولُ: هُمْ أَهْلُ النَّارِ"[107]

قدرتی ماحول کو نقصان پہنچانا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ایک قسم کا فساد ہے، ایسے لوگ مخلوقات ِ خدا کے لئے تکلیف و ضرر کا باعث بن رہے ہیں، یہ لوگ گھاٹے میں ہیں کیونکہ یہ جہنم آگ کا ایندھن بننے والے ہیں۔ تعلیماتِ قرآنی کے مطابق کائنات میں فساد برپا کرنے والے، منفی سرگرمیاں سرانجام دینے والے اور ماحول میں زہریلا مواد پھیلانے والےعقل و شعور سے خالی اور بے حس ہوتے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ"[108]

" خبردار ! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں۔ "

علامہ السمرقندیؒ لکھتے ہیں:

" أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ ألا: كلمة تنبيه، فنبه المؤمنين وأعلمهم نفاقهم، فكأنه قال: ألا أيها المؤمنون، اعلموا أنهم هم المفسدون العاصون. ويكون تكرار كلمة هم على وجه التأكيد، والعرب إذا كررت الكلام تريد به التأكيد. قال تعالى: وَلكِنْ لاَّ يَشْعُرُونَ أنهم مفسدون"[109]

اللہ تعالیٰ نے ملت اسلامیہ کو فسادیوں کے طرزِ عمل سے آگا ہ کیا ہے تاکہ ان کی منافقت کھل کر سامنے آ جائے۔ انسان خلافت و امارت کے مقام و منصب کو چھوڑ کر خدائی فیصلے لینا شروع کر دیتا ہے اور اپنے اس غلط فیصلوں کی وجہ سے کرہ ارض کو فساد و بگاڑ سے بھر دیتا ہے کیوں کہ زمین کے میزان و اعتدال کا انحصار اس امرپر ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے اصول و قوانین جاری و نافذ ہوں ورنہ انسانی منفی سرگرمیوں کی انجام دہی کا نتیجہ زمین میں شدید خرابیوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

ضرر ولا ضرار (Self and Public Safety)

اسلام میں معاشرہ میں امن و امان اور ماحولیاتی فساد و بگاڑ سے حفاظت کی خاطر "ضرر ولا ضرار " کا زریں اور سنہری اصول و قانون پایا جاتا ہے۔ ضرر ولا ضرار سے مراد معاشرے میں اپنی صحت و جان کی حفاظت کی جائے اور اسی طرح دوسروں کی صحت و جان سے بھی نہ کھلواڑ کیا جائے۔ فیکٹری مالکان سرمایہ کے لالچ میں فضائی آلودگی پیدا کرکے معاشرہ میں رہنے والے عام افراد کی صحت کے لئے شدید خطرہ پیدا کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی صحت کا تو بھرپور خیال رکھتے ہیں لیکن عام مزدوروں اور ارد گرد رہنے والے لوگوں کو آلودہ فضا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ٹریٹمنٹ پلانٹ کا بندوبست کئے بغیر فیکڑی کو چلانا "ضرر ولا ضرار " کے سادہ اسلامی اصول کی صریحا ً خلاف ورزی ہے جس کی اجازت دینا اسلامی ریاست کے حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

نبی کریم ؐ نے فرمایا ہے:

" عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضَرر ولا ضِرار، وللرجلَ أن يجعل خشبةً في حائط جاره"[110]

ابن عباس (رض کی مذکورہ روایت کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اسلام میں خود نقصان اٹھانے کی گنجائش نہیں اور کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کی اجاز ت نہیں۔ اگر کسی شخص کو ضرورت ہو تو وہ اپنے پڑوسی کی دیوار پر لکڑی رکھ سکتا ہے۔

اسلام میں عام لوگوں کو تکلیف و ایذا دینے سے منع کیا گیا ہے۔ ماحول کو آلودہ کرنے سے عوام میں بیماریاں پھیلتی ہیں لہٰذا ماحولیاتی آلودگی دراصل کرہ ارض پرفساد و بگاڑ کی بہت بڑی شکل ہے جسے پھیلانے اسلامی طرز ِ حیات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

نبی کریم ؐ کا ارشادہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ"[111]

دراصل مومن وہ ہے جس کی منفی سرگرمیوں سے لوگوں کے جان ومال محفوظ رہیں۔ منفی سرگرمیوں میں فسادوبگاڑ، ماحولیاتی تبدیلی پیدا کرنا وغیرہ سب شامل ہیں۔

عوامی مقامات کی صفائی Cleanliness of Public Places))

اسلام نے عوام الناس کے حفظانِ صحت کی خاطر رستہ سے ہر قسم کی آلودگی ہٹانے کے اصول کا تصور دیا ہے۔ رسول کریم ؐ فرماتے ہیں:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُمِيطُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ"[112]

حضرت ابو ھریرہ (رض) نبی کریمﷺسے روایت کرتے ہیں: راستہ سے گندگی ہٹانا صدقہ ہے۔

ارشاد نبوی ؐ ہے:

" عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ - شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ"[113]

ایمان کی ستر سے اوپر یا ساٹھ سے اوپر شاخیں ہیں ان میں سے افضل شاخ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُکا قول ہے۔ اور ادنیٰ شاخ رستے سے تکلیف دینے والی چیز کو دور کرنا ہے۔ حیا بھی ایمان کی ہی شاخ ہے۔

ماحول کو آلودگی سے لوگوں کا تحفظ کرنے کے لئے سرگرمیوں سرانجام دینے اللہ تعالیٰ انعا م و اکرام سے نوازتا ہے۔

صیح بخاری میں روایت ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ عَلَى الطَّرِيقِ فَأَخَّرَهُ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ"[114]

 ابوہریرہ (رض) کی روایت سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ایک شخص کسی راستہ میں چلا جارہا تھا کہ اس نے راستے میں کانٹوں کی ایک شاخ پڑی ہوئی دیکھی تو اس کو ہٹا دیا پس اللہ تعالیٰ نے اس کا انعام وثواب اس طرح دیا کہ اس کو بخش دیا۔

مذکورہ بالا دلائل و براھین سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں فساد وبگاڑ سے احتراز و اجتناب کا اصول پایا جاتا ہے۔ معاشرے میں رہنے والے افرادکی کسی بھی تکلیف سے دوچار کرنا اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ بغیر ٹریٹمنٹ کے کارخانے کھول کر بھاری سرمایہ کاری کرنا اور فیکٹری کے ارد گرد رہنے والے عوام الناس کی زندگیوں سے کھیلنا اسلامی اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ کارخانہ داروں کو ماحول میں بگاڑ پیدا کرنے کا دنیا اور آخرت میں حساب دینا پڑے گا۔

شجرکاری کی ترغیب و تشویق

تعلیمات اسلامی میں بنجر زمین کی آباد کاری اور کرہ ارض پر زیادہ سے زیادہ پودوں کی شجرکاری کرنے کی ترغیب و تشویق دی گئی ہے ۔اسی طرح بنجر زمین کی آباد کاری کے بارے میں کئی احادیث مبارکہ میں حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، اسلام عالمگیر دین ہے۔ اس لئے اسلام نے انسانیت کے لئے ماحول کو سازگار بنانے کے لئے شجرکاری و زمین کا اصول متعارف کروایا ہے۔

المفردات فی غریب القرآن میں شجر کی تعریف:

"الشَّجَرُ من النّبات: ما له ساق، يقال: شَجَرَةٌ وشَجَرٌ، نحو: ثمرة وثمر"[115]

مذکورہ عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ شجر ایسا نبات ہے جس کا تنا ہو۔ شجر کے واحد کو شجرۃ کہا جاتا ہے جیساکہ ثمرکا واحد ثمرۃ کہلاتا ہے۔ لغوی لحاظ سے جنت دراصل اشجار کا مجموعہ ہوتا ہے۔

علامہ راغب اصفہانی ؒ رقمطراز ہیں:

"والجَنَّةُ: كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض"[116]

 مذکورہ عبارت سے اصول شجرکاری کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ جنت ایسے منفرد خاصیت والا باغ ہے جس میں اشجار اتنے کثیر ہو ں کہ ان کی کثرت کی وجہ سے اس کی زمین نظر نہ آئے۔

متعد د آیات ِ قرآنی میں شجر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قرآن مجید کی آیات الفتح: 18، الواقعہ: 72، الرحمٰن: 6، الواقعہ: 52، الدخان: 43، النساء: 65 میں شجر کاری کی اہمیت و تفصیل ملاحضہ کی جا سکتی ہے۔ حیاتیا تی تنوع پر کنٹرول کائنات میں میں توازن، دنیا سے نایاب ہوتی ہوئی درختوں کی حفاظت انسان کی ذمہ داری ہے۔ کائنات کے توازن میں بگاڑ کا سب سے زیادہ ذمہ دار جدید انسان ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ دنیا بھر میں درختوں کی بہت سی اقسام ناپید ہو رہی ہیں۔ متعدد قرآنی آیات اور احادیت مبارکہ میں شجرکاری کے اہم اسلامی اصول کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ کرہ ارض پر اصولِ شجرکاری کی اہمیت و افادیت واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ سورہ رحمٰن کی آیت: 6 کے مطابق کرہ ارض پر پائے جانے والے تمام اشجار اللہ تعالی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"ءَاَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَهَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِــُٔوْنَ۔ نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَ"[117]

"اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں ؟ ہم نے اس کو یاد دہانی کا ذریعہ اور حاجت مندوں کے لئے سامان زیست بنایا ہے۔ "

صاحب "بحر العلوم" رقمطرازہیں:

" أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها يعني: خلقتم شجرها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ يعني: الخالقون. يعني: الله أنشأها، وخلقها لمنفعة الخلق"[118]

درختوں، پودوں اور جڑی بوٹیوں کو اللہ تعالی ٰ نے مخلوقات کے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے۔ درخت ہوا میں کافی مقدار میں رطوبت شامل کرتے ہیں جس سے درجہ حرارت کم اور ماحول خوشگوار ہو جاتا ہے۔ سرسبزو شاداب صنعتی علاقوں کی ہوا میں شامل 70 فیصد سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹرک ایسڈ جذب کر لیتے ہیں۔

مسند احمد کی روایت میں ہے:

"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ قَامَتْ عَلَى أَحَدِكُمُ الْقِيَامَةُ، وَفِي يَدِهِ فَسِيلَةٌ فَلْيَغْرِسْهَا"[119]

شجرکاری کا شوق دلانے کے لئے بہترین مثال روایت بالا میں موجود ہے۔ قیامت کا وقت آجائے تو بھی تمہارے ہاتھ میں درخت کی قلم ہو اور تم اس کی شجرکاری کرسکتے ہو تو وہ اس کی شجر کاری ضرور کرے۔

درختوں کے کٹاؤ کی وجہ سے جانوروں کی خوراک میں کمی آ رہی ہے اور ان کے رہنے کی جگہ بھی سکڑتی جا رہی ہے، ہوا کی تازگی بھی ختم ہو رہی ہے۔ آکسیجن میں کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑھتی جارہی ہے، زمین کی زرخیزی بھی متاثر ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے خوراک کی قلت پیدا ہو رہی ہے اور انسان اور جانوروں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔

ایک سکالر نے شجر کاری کے بارے میں لکھا ہے:

“Forests are of vital importance to mankind and other plant and animal species, as they provide them oxygen and creat a CO2balance.”[120]

سائنسی تحقیقات کے مطابق پودوں، حیوانات اور بیکٹریا (جراثیم) کے درمیان ایک متوازن عمل رد عمل کا سلسلہ قائم ہے۔ بیکٹریا حیوانوں اور زمینی مٹی سےنائٹروجن لے کر پودوں تک پہنچاتا ہے۔ پودے آکسیجن بناتےہیں جو حیوانوں اور دوسرے جسیموں کی ضرورت ہے اور حیوانات اور بیکٹریا کے توسط سے نائٹروجن کو پودوں تک پہنچاتے ہیں، اسے زندگی کی زنجیر کہا جا تاہے۔ ہوا میں آکسیجن کا 20 فیصد ہونا بے حد ضروری ہے۔ ہر قسم کا دھواں اور خارج ہونے والی چیزیں پودوں کے ذریعے آکسیجن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ [121]زمین کی مٹی کو اللہ تعالیٰ نے پودوں، درختوں کی نشوونما کے لئے مخصوص طور موزوں اور ساز گار بنایا ہے۔

ماہر ماحولیات 'گردیپ راج' لکھتے ہیں:

 “Weathered unconsolidated surface material in which plants anchor their roots and from which they derive nutrients and moisture.”[122]

ذات باری تعالیٰ نے زمین کی سطح میں ایسے مادے رکھے ہوئے ہیں جو شجرکاری کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ پتہ چلا کہ کرہ ارض پر شجرکاری کا عمل ہر ذی روح کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔

حیاتِ انسانی و حیوانی کے لئے شجرکار ی کی ضرورت A R Agwᾱn نے بیان کی ہے:

“By their unique function of production food from the energy of the sun, plants constitute the basic source of sustenance for animal on the earth.”[123]

 درختوں کی شجر کاری فضا کی نمی اور خوشگوار کیفیت کے لئے ضرور ی ہے ۔

 راج گردیپ لکھتے ہیں:

“The vegetation is a significant source of moisture in the atmosphere .”[124]

دنیا کو سانسیں مہیا کرنے میں بہت بڑا ذریعہ اصول ِ شجر کاری ہے۔ شجرکاری پر عمل کرنے کے بہت سے فوائد ہیں، علاقہ کے ماحو ل اور موسم میں مناسب اور خوشگوار تبدیلی آتی ہے، فضا سے گردو غبار، آلودگی، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کثافت دور ہوتی ہے۔

خلیفہ راشد صدیق اکبر (رض) نے حضرت اسامہ (رض) کے لشکر کو روانہ کرتے ہوئے ہدایات دیں جن میں سےایک یہ تھی کہ دشمن کے علاقہ میں واقع درختوں اور اشجار کو نقصان پہنچانے سے اجتناب کیا جائے۔

علامہ ابن خلدون ؒ لکھتے ہیں:

"ولا تقطعوا شجرة"[125]

"ولا تقطعوا شجرة"سے مراد تمام انواع و اقسام کے درختوں کا کٹاؤ یعنی ڈی فار سٹیشن سے منع کرنا ہے جس سے دراصل شجرکاری کی منعفت کو اجاگر ہوتی ہے۔ اسلام میں شجر کاری کی قدرو قیمت کا اندازہ اس امر سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ جنگ و جہاد میں بھی شجروں، درختوں کی حفاظت یقینی بنا نے کا اسلامی قانون و اصول پایا جاتا ہے اور یہ اصول دنیابھر کے ممالک کے لئے درسِ عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جنگ میں درختوں کے کٹاؤ سے اس لئے منع کیا گیا ہے کیونکہ شجرکاری ہر علاقہ اور ملک کی بنیادی ضرورت اور اثاثہ ہوتی ہے۔ علاقہ کے حسن و جمال، آکسیجن کے اخراج، کاربن ڈائی کے انجذاب، درجہ حرارت میں اعتدال کے علاوہ اشجار سے کسی بھی ریاست کے بہت سے معیشت و خوراک کے فوائد جڑے ہوئے ہیں۔

پروفیسر خالد فاروق اکبر کی رائےمیں:

“Forests and Tree Plantations are a great asset for any country and their

conservation and expansion is helpful safeguarding economic growth and food security in the country.”[126]

ڈاکٹر فضل کریم کے مطابق اشجار کی تقطیع کا نقصان:

“Plant cover once removerd from dry lands does not easily reappear because of harsh climatic conditions.”[127]

مذکورہ دلائل سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ کی دوران ِ جنگ درختوں کے تحفظ کی نصیحت و تلقین کی حکمت و مصلحت کافی حد تک واضح ہو جاتی ہے۔

 ابن بیطار (( Iban-e-Baitar

شجرکاریو نباتات پر تحقیق کے حوالے سے مسلم سائنسدان ابن بیطار نے بڑا نام کمایا۔ وہ اپنے زمانے کے معروف اور نباتیات کے ماہر تھے۔ آپ نے دمشق میں شجرکاری کے اصول پر عمل کیا اور مختلف انواع و اقسام کے پودوں کا ایک باغ بنایا۔ آپ اس باغ میں مختلف پودے لگاتے اور ان کی چھان بین اور تحقیقات میں ہمہ تن گوش رہتے۔ آپ شجر کار ی کے لحاظ سے علم و فن کا خزانہ تھے کیونکہ نباتات و اشجار کی تحقیق و جتجو کے لئے شمالی افریقہ، مصر، ایشیائے کوچک اور یونا نی جنگلات کا چپا چپا چھان مارا۔ آپ کا نام ضیاء الدین تھا۔ بیطار کا لغوی معنی "حیوانات کا ڈاکٹر " ہے آپ والد حیوانات کے ڈاکٹر تھے اس لئے آپ ابن بیطار کے نام سے معروف ہوئے۔ آپ اسپین کی ایک بستی میں 1197ء میں پیدا ہوئے۔ "عیون الانبا فی طبقات الاطبا" کا مؤلف ابن بیطار کا شاگرد ِ خاص تھا۔ انہوں نے نباتات اور قدرتی میڈیکل سائنس پر بہت قا بل قدر اور نفع بخش کام کیا۔ آپ نے اپنی تالیفات میں پودوں کے خواص کی تحقیق کے لئے دوردراز علاقوں کی خاک چھانتے رہے۔ ان کی تالیف "جامع الادویہ والاغذیہ " میں معدنیات، نباتات اور حیوانات سے علاج کا مفصل طریقہ بیان کیا گیا ہے جس سے اہل مغرب نے جدید میڈیکل سائنس کے لئے بھرپور فائد ہ اٹھایا ہے۔

صاحب "کشف الظنون" اس کتاب کا تذکرہ کرتے ہیں:

"جامع الأدوية والأغذية المفردةوهو المشهور: (بمفردات ابن البيطار) "[128]

ابن بیطار کی کتاب "جامع الادویہ والاغذیہ المفردہ" نے المفردات کے نام سے شہرت کمائی۔ نباتات کے طبی خواص کے اعتبار سے جامعیت کی حامل کتاب ہے اور نباتاتی و شجریاتی فن کی شاہکار ہے۔

اس کتاب کے متعلق حاجی خلیفہ چلپی بیان کرتے ہیں:

"وكنت وقفت على كثير من الكتب في الفن، فلم أجد أجمع منه، ولا أنفع"[129]

انگریزی میں ابن بیطار کی خدمات و تحقیقات کو (Doctor of Natural Medicines) کتابی شکل میں پبلش کیا گیا ہےجو ان کی ذہانت و فطانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ابن بیطار کے علاوہ بھی مسلم سائنسدان ابن سینا، ابن نفیس، محمد بن ذکریا الرازی وغیرہ کی تالیفات کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو شجرکاری کی افادیت و نافعیت جا بجا نظر آتی ہے۔

شجرکاری کی تشویق (Motivation for Plantion)

کئی احادیث مبارکہ میں اصول شجرکاری کی پیروی پر صدقہ جاریہ یعنی جاری رہنے والے اجر و ثواب کی بشارتیں دی گئیں ہیں۔ شجرکار ی کا فریضہ سرانجام دینے سے انعام و اکرام کے اعلان سے اس کادرجہ بلند ہو جاتا ہے۔

رسول اکرم ؐ کا ارشاد ہے:

"مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا إِلَّا كَانَ مَا أُكِلَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةً، وَمَا سُرِقَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةٌ، وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ مِنْهُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ، وَمَا أَكَلَتِ الطَّيْرُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ، وَلَا يَرْزَؤُهُ أَحَدٌ إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةٌ"[130]

مسلمان شجرکار ی کرتا ہے، اس سے جو حصہ کھایا جائے تو وہ صدقہ ہوجاتا ہے حتیٰ کہ جو اس سے چوری ہو جانے والا میٹریل بھی صدقہ ہے۔ اور جو جنگل کے درندے خوراک بننا، وہ بھی صدقہ ہے۔ اور پرندے کی خوراک بننے والا حصہ بھی صدقہ ہے۔ اس سے کوئی فرد بھی کچھ لے تو پودا لگانے والے لئے صدقہ ہے۔

امام نوویؒ مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

" وَفِي رِوَايَةٍ لَا يَغْرِسُ مُسْلِمٌ غَرْسًا وَلَا يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ منه انسان ولا دابة ولا شئ إِلَّا كَانَتْ لَهُ صَدَقَةٌ وَفِي رِوَايَةٍ إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ فَضِيلَةُ الْغَرْسِ وَفَضِيلَةُ الزَّرْعِ وَأَنَّ أجر فاعلى ذلك مستمر مادام الْغِرَاسُ وَالزَّرْعُ وَمَا تَوَلَّدَ مِنْهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"[131]

شجرکاری کے اصول کی فضیلت و اہمیت بہت زیادہ ہے کہ شجرکاری کا اجروثواب قیامت تک کے لئے جاری رہنے والا ہے۔

 شجرکاری کے بارے میں مسند احمد کی روایت ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ غَرَسَ غَرْسًا أَوْ زَرَعَ زَرْعًا، فَأَكَلَ مِنْهُ إِنْسَانٌ، أَوْ طَيْرٌ، أَوْ سَبُعٌ، أَوْ دَابَّةٌ، فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ "[132]

حضرت جابرؓ کی روایت کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جو مسلمان کوئی پودہ لگائے یا کوئی فصل اگائے اور اس سے انسان پرندے، جانوریا چوہے کھائیں تو وہ اس کے لئے باعثِاجر و ثواب ہے۔

قرآن باغ ( Quran Garden)

خیبر پختونخواہ کے ایک معروف مدرسہ عثمانیہ میں قرآن باغ لگا کر شجر کاری کے اصول کے بارے ایک قابل تحسین کاوش کی گئی ہے۔ خیبر پختونخواہ کے ضلع نوشہرہ میں واقعہ جامعہ عثمانیہ نامی مدرسہ میں ایک منفرد باغ لگایا گیا ہے۔ اس باغ میں قرآن کریم میں مذکور 21 انواع کے پودے لگائے گئے ہیں۔ ہر پودے کے ساتھ اسٹیل کی تختی پر پودے کا عربی، اردو اور پشتو میں نام لکھا گیا ہے۔ تختی پرپارہ، آیت اور سورت نمبر بھی تحریر ہے۔ ان پودوں پر ایم فل کے تحقیقی مقالات لکھوائے جا تے ہیں۔ مدرسہ کے طلبہ پودوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اس کا مقصد موسمیاتی تبدیلی، آلودگی کے بارے میں آگاہی اور پودوں کی افادیت اجاگر کرنا ہے۔ [133]قرآن باغ دراصل شجرکاری کے اصول کا عملی نمونہ ہے جو تمام مدارس و جامعات کے لئے قابل تقلید عمل ہے۔ قرآ ن مجید کی متعدد آیات اور احادیث میں شجر کا لفظ آیا ہے جس سے شجر کاری کے اصول کی قدروقیمت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔

اسلام میں بنجر زمین کی آباد کاری اور کھیتوں میں کاشت کاری کا حکم دیاگیا ہے۔ اہل اسلام پر سختی کی گئی ہے کہ وہ کاشت کاری کے اصول پر عمل پیرا ہوں۔

ارشادِ نبوی ؐ ہے:

" مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً، فَلَهُ مِنْهَا يَعْنِي أَجْرًا، وَمَا أَكَلَتِ الْعَوَافِي مِنْهَا، فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ "[134]

روایت بالا کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے کسی مردہ زمین (بنجر زمین) کو زندہ کیا اسے ا س کا اجر ملے گا اس سے ضرورت مند مخلوق (انسان، جانور، پرندے وغیرہ) جو کچھ کھائے، وہ سب اس کی صدقہ ہے۔

اس تناظر میں مقالہ نگار ابو بکر احمد لکھتے ہیں:

“The governmental authorities have the right, and in this age of increased human impact, the obligation to take a guiding role in planning the development of the land.”[135]

فرمانِ رسول ؐہے:

" عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ وَلَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ"[136]

حضرت سعید بن زید (رض) روایت بالا کا مفہوم یہ ہے کہ سرورِ کائنات حضرت محمد ﷺنے فرمایا جو شخص مردہ زمین (بنجر زمین) زندہ کرے یعنی بنجر وویران زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ہے اور ظالم کی رگ کا کوئی استحقاق نہیں ہے۔

پیارے رسول ؐ فرماتے ہیں:

" عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ"[137]

مذکورہ بالا حقائق و براھین سے اسلام کے اصول شجرکاری کی قدر واہمیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔

ماحولیاتی بحران ( Environmental Crisis)

ماحولیاتی بحران عصر حاضر کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔اسلام کے اصول شجرکاری پر عمل کرنے سے بہت سے ماحولیاتی مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ، فضائی آلودگی، موسمیاتی تبدیلی، گرین ہاؤس ایفیکٹ، ماحولیاتی تبدیل کا حل اصول شجرکاری کو اپنانے میں مضمر ہے۔ ماحولیات کے ماہرین کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایک ایکڑ اشجار سالانہ 27647 پونڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو جذب کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس زمین حرارت و گرمی میں اضافہ کرتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں باربار اصول ِ شجرکاری کاتذکرہ آیا ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق فوسل فیولز کے جلنے سے ہر سال 21 اعشاریہ 3 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے، اس میں سے نصف ہی جذب ہو پاتی ہے، باقی نصف فضا میں موجود رہتی ہے، جو بد ترین فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہے۔

زمین کی آبادی کاری و شجرکاری کا اصول اسلام کا ایک آفاقی اور جامع اصول ہے۔ بنجر زمین کی آبادکاری و شجرکاری سے منہ موڑنا دراصل ایک اہم اسلامی اصول سے روگردانی کے مترادف ہے۔ عصر حاضر میں شجرکاری مہم کا شور تمام دنیا میں بپا ہے، حیرت ناک حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں شجرکاری مہم کا تصور 14 سال قبل ہی دے دیا تھا جب دنیا کو شجرکاری کے نافعیت و افادیت سے یکسر لاعلم تھی۔ شجرکاری کے سادہ اور بنیادی اسلامی اصول کو اپنا کر عالمی ماحولیاتی مسائل سے نجات پانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل کا حل شجرکاری کے اسلامی اصول کو پوری دنیا میں لاگو کرنے میں پنہاں ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی اداے کو اس اصول کو اپنا ماٹو بنانا چاہئے۔

ماحولیاتی اداروں سےتعاون

دنیا بھر میں قدرتی وسائل کے تحفظ و صفائی اور شجر کاری کے لئے مسلم اور غیر مسلم ادارے سرگرم ہیں۔ تعلیماتِ قرآنی میں یہ اصول صراحت اور وضاحت سے موجود ہے کہ قدرتی ماحول کا تحفظ اور شجر کاری دراصل عوام الناس کی خیر و بھلائی ہے ا س لئےایسے اداروں سے تعاون کرنا لائق تحسین اور قرآنی ہدایات کے عین مطابق ہے۔

کلام الہی میں ہے:

" وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى "[138]

" جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو "

امام بغویؒ لکھتے ہیں:

" وَتَعاوَنُوا، أي: ليعن بَعْضُكُمْ بَعْضًا، عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى، قِيلَ: الْبِرُّ مُتَابَعَةُ الْأَمْرِ، وَالتَّقْوَى مُجَانَبَةُ النَّهْيِ، وَقِيلَ: الْبِرُّ: الْإِسْلَامُ، وَالتَّقْوَى: السُّنَّةُ " [139]

 تعاون سے مراد معاشرہ کے افراد کی ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔ قرآنی لفظ "البر" سے مراد اچھے امور کی بجا آوری ہے یعنی اسلام پر عمل ہے جبکہ "تقویٰ" سے مراد برے کاموں سے اجتناب و احتراز ہے۔ جبکہ بعض اہل علم نے "البر " کو اسلام اور "التقویٰ" کو سنت قرار دیا ہے۔

پوری دنیا میں بہت سےمسلم اور غیر مسلم ادارے تحفظِ ماحول کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ قرآن مجید اور آپﷺ کی تعلیمات کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے اداروں سے تعاون از حد ضروری ہے۔ رسول کریمﷺ کی بعثت سے قبل ظلم وزیادتی، خون ریزی اور جنگ وجدال روکنے کےلئے عبداللہ بن جدان کےگھر مشورہ ہوا کہ ظلم وزیادتی کو ہر قیمت پر روکا جائے گا۔ تاریخ میں اس معاہدے کو حلف الفضول کہا جاتا ہے۔ رسول کریمﷺ بھی اس معاہدے میں شریک تھے۔

مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری اپنی کتاب الرحیق المختوم میں رقم طراز ہیں:

" لقد شهدت في دار عبد الله بن جدعان حلفا ما أحب أن لي به حمر النعم، ولو أدعي به في الإسلام لأجبت"[140]

مذکورہ بالا عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ آپﷺعبداللہ بن جدعان کے گھر میں ایسے معاہدے میں شریک ہوئے اور فرمایاکہ مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ (عرب کی سب سے بڑی دولت) پھربھی مجھے پسند نہیں ہےاگر اسلام میں آنے کے بعد بھی مجھے ایسے معاہدے کی دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا۔

حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے:

"عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ"[141]

حضرت جریربن عبداللہ ؓ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ نے ان سے نماز قائم کرنے، زکوٰہ اداکرنے اور ہرمسلمان کی خیرخواہی کےلئے بیعت لی۔ دین ایک دوسرے کی خیرخواہی کا درس دیتا ہے۔

حدیث ِ مصطفی ٰ ﷺ ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الدِّينُ النَّصِيحَةُ قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ"[142]

مذکورہ روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دین خیرخواہی کانام ہے۔ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہﷺ کس کےلئے؟آپﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ، کتاب اللہ، رسول، حکومتِ اسلامیہ اور عام مسلمانوں کےلئے۔ اسلام میں عام لوگوں کے استعمال کے قدرتی وسائل (پانی، آگ، نباتات وغیرہ) کی نگہداشت کی تاکید و تلقین کی گئی ہے۔

سید الانبیاءﷺ کا ارشاد ہے:

" عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ لَمْ يَهْتَمَّ بِأَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ"[143]

حضرت حذیفہؓ کی مذکورہ روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ عمومی مفادات یعنی ماحول میں پائی جانے والےقدرتی وسائل کی حفاظت و نگہداشت نہ کرنا اور ماحولیاتی اداروں سے تعاون نہ کرنااسلامی اصول و ضوابط کے برعکس ہے۔

قدرتی وسائل سے کسی بھی قوم کے اجتماعی مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ تعلیماتِ نبویؐ میں اجتماعی مفادات والے قدرتی وسائل کی حفاظت و نگہداشت پر زوردیا گیا ہے۔ تحفظ ِ ماحول اور عوام الناس کی خیر خواہی کے لئے کام کرنے والے اداروں سے تعاون کرنا اسلامی ہدایات و تعلیمات کے عین مطابق ہے۔

[1]علامہ راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، دارالقلم، بیروت، 1412ھ، 1/525

[2]سعدي أبو حبيب، القاموس الفقهي لغة واصطلاحا، دارلفکر-دمشق 1408 هـ، 1/236

[3]ابو بکر عبداللہ ابن الدینا، الاخلاص والنیۃ، دار البشائر، دمشق، 1413ھ، 1/31

[4]الشعراء، 88: 26-89

[5]علامہ الزمخشری، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، 3/321

[6]محمد بن اسماعیل، صیح بخاری، کتاب الایمان، فَضْلِ مَنِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِه، رقم الحدیث، 52

[7]علامہ انور شاہ کشمیری، فیض الباری ، دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1426ھ، 1/231

[8]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ الجُمُعَةِ، بَابُ فَضْلِ الغُسْلِ يَوْمَ الجُمُعَةِ، رقم الحدیث879

[9]علامہ ابن حجر العسقلانی، فتح الباری شرح شرح البخاری، دار المعرفۃ، بیروت، 1379ھ، 2/362

[10]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ التَّمَنِّي، بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ اللَّوْ، رقم الحدیث، 8240

[11]أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري ، دار المعرفة - بيروت، 1379ھ، 2/376

[12]ابن قيم الجوزية، الطب النبوي، 1/243

[13] أبو بكر البيهقي، السنن الكبرى، جُمَّاعُ أَبْوَابِ السِّوَاكِ، بَابٌ فِي فَضْلِ السِّوَاكِ، رقم الحدیث، 139

[14]ندوی، عبدالسلام، مولانا، اسوہ صحابہ کامل، اسلامی کتب خانہ اردو بازار لاہور، ص۔ 64-65

[15]المدثر5: 74-4

[16]إسماعيل حقي بن مصطفى , المولى أبو الفداء، روح البيان، دار الفكر – بيروت، 10/225

[17]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، کتَابِ الطَّهَارَةِ، بَابُ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، رقم الحدیث، 273

[18]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كِتَابُ الإِيمَانِ، باب الكِبْر وبيانه، رقم الحدیث، 91

[19]امام نووی، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1392ھ، 2/90

[20]محمد بن يزيد ، سنن ابن ماجه، كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا، بَابُ مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ،رقم الحدیث 276

[21]مغلطاي بن قليج بن، أبو عبد الله، شرح ابن ماجہ، مكتبة نزار مصطفى الباز - المملكة العربية السعودية ھ، 1419ھ، 1/30

[22]أبو يعلى أحمد بن علي التميمي، مسند أبي يعلى، مُسْنَدُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، دار المأمون للتراث - دمشق، رقم الحدیث790

[23]أبو يعلى أحمد بن علي التميمي، ، مسند أبي يعلى، مُسْنَدُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، رقم الحدیث، 791

[24] مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، کتَابِ الطَّهَارَةِ، بَابُ فَضْلِ الْوُضُوءِ، رقم الحدیث، 223

[25] يحيى بن شرف النووي، المنهاج شرح صحيح مسلم، دار إحياء التراث العربي، بیروت، 3/100

[26]البقرہ، 168: 2

[27]محمد ثنا ء للہ المظھری، تفسیر المظھری، الکتبۃ الرشدیۃ، الباکستان، 1412ھ، 1/165

[28]المومنون، 51: 23

[29]احمد بن مصطفیٰ، تفسیر المراغی، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابى الحلبي وأولاده بمصر، 1365ھ، 18/28

[30]المائدہ، 90: 5

[31]أبو عبد الله محمد بن أحمد، تفسیر القرطبی، دار الکتب المصریہ، قاھرہ، 1964م، 1/289

[32]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كِتَابِ الطَّهَارَةِ، بَابُ النَّهْيِ عَنِ البوْلِ فِي المَاءِ الرَّاكدِ، رقم الحدیث، 281

ـ[33]أبو القاسم الطبراني، المعجم الأوسط، دار الحرمين – القاهرة، بَابُ الْأَلِفِ، رقم الحدیث، 1749

[34]أحمد بن محمد بن حنبل،مسند، مُسْنَدُ الْمُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ، مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، رقم الحدیث، 8852

[35]البقرہ، 173: 2

[36]الحسین بن مسعود البغوی، معالم التنزیل فی تفسیر القرآن، دار احیا التراث العربی، بیروت، 1420ھ، 1/200

[37]أبو بكر البيهقي، السنن، دار الكتب العلمية، بيروت، 1424 ه، بَابُ مَا لَا نَفْسَ لَهُ سَائِلَةٌ إِذَا مَاتَ فِي الْمَاءِ الْقَلِيلِ رقم الحدیث، 1192

[38]المائدہ، 31: 5

[39]ابو جعفر، ابن جریر الطبری، جامع البیان فی طویل القرآن، مؤسسۃ الرسالہ، 1420 ھ، 10/225

[40]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ كَفَّارَةِ البُزَاقِ فِي المَسْجِدِ، رقم الحدیث، 415

[41]أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، دار المعرفة - بيروت، 1379ھ، 1/353

[42]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ، بَابُ النَّهْيِ عَنِ الْبُصَاقِ فِي الْمَسْجِدِ فِي الصَّلَاةِ وَغَيْرِهَا، رقم الحدیث553

[43]أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي، المنهاج شرح صحيح مسلم، دار إحياء التراث العربي – بيروت، 1392ھ، 5/42

[44]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، بَابُ نَهْيِ مَنْ أَكَلِ ثُومًا أَوْ بَصَلًا أَوْ كُرَّاثًا أَوْ نَحْوَهَ، رقم الحیث، 564

[45]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ الصَّلاَةِ، بابُ كَنْسِ المَسْجِدِ وَالتِقَاطِ الخِرَقِ وَالقَذَى وَالعِيدَانِ، رقم الحدیث، 458

[46]ابن بطال أبو الحسن علي بن خلف بن عبد الملك ، شرح صیح بخاری، مکتبہ الرشد، ریاض، السعودیہ، 1423ھ، 2/107

[47]أبو داود سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود,كِتَاب اللِّبَاسِ، بَابٌ فِي غَسْلِ الثَّوْبِ وَفِي الْخُلْقَانِ، رقم الحدیث، 4062

[48]البقرہ، 222: 2

[49]علامہ راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، دار القلم، بیروت، 1412ھ، 1/71

[50]البقرہ، 222: 2

[51]علامہ فخر الدین الرازی، مفاتیح الغیب، دار احیا التراث العربی، بیروت، 1420ھ، 6/421

[52]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ الوُضُوءِ، بَابٌ: مِنَ الكَبَائِرِ أَنْ لاَ يَسْتَتِرَ مِنْ بَوْلِهِ، رقم الحدیث، 216

[53]بدر الدين العينى، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، دار إحياء التراث العربي – بيروت، 3/114

[54]محمد بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجه، كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا، بَابُ النَّهْيِ عَنِ الْخَلَاءَ عَلَى قَارِعَةِ الطَّرِيقِ رقم الحدیث، 328

[55]البقرہ، 29: 2

[56]محمد سید طنطاوی، التفسیر الوسیط للقرآن الکریم، دار نهضة مصر للطباعة والنشر والتوزيع، الفجالة – القاهرة، 1997م، 1/89

[57]Rᾱo, M.S., Dictionary of Geography, p.392

[58]البقرہ، 60: 2

[59]مجموعة من العلماء بإشراف مجمع البحوث الإسلامية بالأزهر، التفسير الوسيط للقرآن الكريم، 1/114

[60]یوسف، 47: 12

[61]یوسف، 55: 12

[62]علامہ الزمخشری، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، 2/482

[63]أحمد بن محمد بن حنبل، مسند ، مُسْنَدُ الْمُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ، مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، رقم الحدیث، 8852

[64]ڈاکٹر محمود غازی، محاضرات فقہ، ص۔ 313

[65]لیسٹر براؤن، کرہ ارض کا تحفظ، ص۔ 32-33

[66]محمد بن يزيد ، سنن ابن ماجه، كِتَابُ الرُّهُونِ، بَابٌ: الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاث، رقم الحدیث، 2472

[67]عمری، جلال الدین، اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور، اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی، دسمبر 2005ء، ص۔ 137

[68]Fazle Karime, A Geography of Pakistan: Environment, People and Economy, P.66

[69] The New encyclopedia Briatannica, (Chicago: Vlolume 3,1998) ,553-554

[70]محمد بن جرير، أبو جعفر الطبري، تاريخ الرسل والملوك ، دار التراث، بیروت، 1387ھ، 3/227

[71]الانعام، 141: 6

[72]أحمد بن الحسينأبو بكر البيهقي، السنن الكبرى، كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ، بَابُ مَا جَاءَ فِي قَطْعِ السِّدْرَةِ، ، رقم الحدیث، 11758

[73]بنی اسرائیل، 27: 17

[74]علامہ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دارلکتب العلمیہ، بیروت، 1419ھ، 5/64

[75]محمد بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجه، كِتَابُ اللِّبَاسِ، بَابُ الْبَسْ مَا شِئْتَ، مَا أَخْطَأَكَ سَرَفٌ أَوْ مَخِيلَةٌ، رقم الحدیث، 3605

[76]ڈاکٹر محمود غازی، محاضرات فقہ، ص۔ 144

[77]أبو داود سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، كِتَاب الطَّهَارَةِ، بَابُ مَا يُجْزِئُ مِنَ الْمَاءِ فِي الْوُضُوءِ، رقم الحدیث، 92

[78]علامہ بدر الدین العینی، عمدۃ القاری فی شرح البخاری، 3/96

[79]عمدۃ القاری، المرجع السابق

[80]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ الوُضُوءِ، بَابُ مَا جَاءَ فِي الوُضُوءِ، 1/39

[81]الفرقان، 67: 25

[82]محمد رشید بن علی رضا، تفسیر المنار، الهيئة المصرية العامة للكتاب، 1990م، 4/313

[83]محمد بن اسماعیل، صیح بخاری، کتاب الرقاق، بَابُ القَصْدِ وَالمُدَاوَمَةِ عَلَى العَمَلِ، رقم الحدیث، 6463

[84] Kibla Ayᾱz,Dr.,Conservation and Isᾱm,p-15

[85]مالك بن أنس، موطأ الإمام مالك، مؤسسة الرسالة، 1412 هـ، رقم الحدیث، 1962

[86]ابنقيمالجوزية، الطبالنبوي، 1/291

[87]سید مودودی، تفہیم القرآن، 5/328

[88]أحمد مختار عبد الحميد عمر، معجم اللغة العربية المعاصرة، عالم الكتب، 1429 هـ، رقم 3771

[89] الراغب الأصفهانى، المفردات في غريب القرآن، كتاب الفاء،دار الشامية - دمشق،1412 هـ، 1/636

[90]محمد بن جرير، أبو جعفر الطبري، جامع البيان عن تأويل آي القرآن، دار هجر للطباعة والنشر والتوزيع والإعلان، 1422 هـ، 1/297

[91]محمد رضی الاسلام، سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ، انڈیا، جنوی-مارچ 2014 ء، ص 6

[92]القصص، 77: 28

[93]امام ناصر الدین البیضاوی، اسرار التنزیل و اسرار التاویل، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1418ھ، 4/185

[94]البقرہ، 205: 2

[95]أالحسين بن مسعود البغوي، معالم التنزيل في تفسير القرآن، 1/263

[96]النساء، 29: 4

[97]احمد بن مصطفیٰ المراغی، تفسیر المراغی، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابى الحلبي وأولاده بمصر، 1365ھ، 5/19

[98]ڈاکٹر محمود غازی، محاضرات فقہ، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، لاہور، 2005ء، ص-312

[99]الرعد، 25: 13

[100]علاء الدين علي بن محمد، المعروف بالخازن، لباب التأويل في معاني التنزيل، دار الكتب العلمية – بيروت، 1415 هـ، 3/17

[101]البقرہ، 211: 2

[102]امام فخر الدین الرازی، مفاتیح الغیب، 6/366

[103]Mohsin Jameel Butt,Capacity Building and Employment –Generation in the Field of Satellite Remote Sensing,Policies and and Strategies for Successful Implementation of Employment –Generating programs in Renewable Energies, Biotechnology, Agriculture , Environment and ICTs,Comsats Headquarters, Isᾱmabad,2011,p.153

[104]الاعراف، 56: 7

[105]Abūbakar Ahmad, Isᾱmic Principles For The Conservation Of The Natural Environment,P.75

[106]البقرہ، 27: 2

[107]محمد بن علی الشوکانی، فتح القدیر، دار ابن کثیر، دار الکلم الطیب بیروت، 1414ھ، 1/70

[108]البقرہ، 12: 2

[109]أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي، بحر العلوم، 1/28

[110]أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل، مسند الإمام أحمد بن حنبل، رقم الحدیث، 2867

[111]محمد بن عیسی الترمزی، السنن الترمزی، أَبْوَابُ الْإِيمَانِ، بَابُ مَا جَاءَ فِي أَنَّ الْمُسْلِمَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، رقم الحدیث، 2627

[112]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَاب المَظَالِمِ وَالغَصْبِ، بَابُ إِمَاطَةِ الأَذَى، رقم الحدیث، 2467

[113]مسلم بن الحجاج، صیح مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانَ، بَابُ شُعَبِ الْإِيمَانِ، رقم الحدیث 35

[114]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بابُ فَضْلِ التَّهْجِيرِ إِلَى الظُّهْرِ، رقم الحدیث، 652

[115]امام راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، دار القلم، بیروت، 1412ھ، 1/446

[116]المرجع السابق

[117]الواقعہ، 72: 56-73

[118]ابو اللیث نصر بن محمد السمرقندی، بحر العلوم، 3/396

[119]امام احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، مؤسسۃ الرسالہ، 1421ھ، مسند انس بن مالک، رقم الحدیث، 12902

[120]Mohsin Jameel Butt,Capacity Building and Employment –Generation in the Field of Satellite Remote Sensing,p.152

[121]ہلوک، نور باقی، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۔ 216

[122]Rᾱj,Gurdeep,Dictionary of Environment ,p.195

[123] A. R. Agwᾱn, Isᾱm and the Environment, p.81

[124]Rᾱj, Gurdeep,Dictionary of Environment,p.227

[125]علامہ ابن خلدون أبو زيد، ولي الدين، تاریخ ابن خلدون، دار الفكر، بيروت، 1408 هـ، 2/489

[126]Khalid Farooq Akbar, Policies and and Strategies for Successful Implementation of Employment –Generating programs in Renewable Energies, Biotechnology, Agriculture , Environment and ICTs,p.157

[127]Fazle Karīm Khᾱn, A Geography of Pakistan: Environment,People and Economy, Oxford University Press ,Oxford , New York, 1991,p.64

[128],مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي حاجي خليفة ، كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنونمكتبة المثنى – بغداد,1941م، 1/534

[129]المرجع السابق، 2/1772

[130]مسلم بن الحجاج، صحيح مسلم، كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ، بَابُ فَضْلِ الْغَرْسِ وَالزَّرْعِ، رقم الحدیث، 1552

[131]أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، دار إحياء التراث العربي بيروت، 1392ھ، 10/213

[132] أحمد بن محمد بن حنبل، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ، رقم الحدیث 15201

[133]ماہنامہ معارف (انڈیا) ، جولائی 2018ء، ص۔ 75

[134]أحمد بن محمد بن حنبل، مسند أحمد، مُسْنَدُ الْمُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ، مُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، رقم الحدیث، 14271

[135] Abūbakar Ahmad Bakadar, Isᾱmic Principles For The conservation Of The Natural Environment, p.96

[136]محمد بن عيسى، سنن الترمذي، أَبْوَابُ الأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَابُ مَا ذُكِرَ فِي إِحْيَاءِ أَرْضِ المَوَاتِ، رقم الحدیث، 1382

[137]المرجع السابق

[138]المائدہ، 2: 5

[139]ابو محمد، الحسین بن مسعود البغویؒ، معالم التنزیل فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1420ھ، 2/9

[140]صفي الرحمن المباركفوري، الرحیق المختوم، دار الهلال - بيروت ، ص۔ 50

[141]محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ، بَابُ البَيْعَةِ عَلَى إِقَامِ الصَّلاَةِ، رقم الحدیث524

[142]أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب، سنن النسائي، كِتَابُ الْبَيْعَةِ، النَّصِيحَةُ لِلْإِمَامِ، رقم الحدیث6200

[143]سليمان بن أحمد، أبو القاسم الطبراني، المعجم الأوسط، رقم الحدیث 8473

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...