Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

انمول لوگ |
حسنِ ادب
انمول لوگ

پیش لفظ
Authors

ARI Id

1688708377628_56116329

Access

Open/Free Access

Pages

۹

پیش لفظ
کہتے ہیں جب سقراط کو زہر کا پیالہ دیا گیا اور اس نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے ہو نٹوں سے لگاناچاہا تو اس کے ایک شاگرد نے زار قطار روتے ہوئے کہا ’’استاد مجھے افسوس ہے کہ آپ بے گناہ مارے جائیں گے‘‘سقراط نے زہر کے پیالے کو ذرا اور مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا میں بے گناہ ضرور مارا جائوں گا لیکن میری یہ بے گناہی مجھے تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھے گی ۔تم اپنا مشن جا ری رکھنا ‘‘حقیقت بھی یہی ہے کہ ابدی زندگی انہی کو نصیب ہو تی ہے جو بے گناہ مارے گئے یا جو کسی عظیم مقصد کی خاطر اپنے نظریے کی صداقت کا پرچم بلند رکھتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ،
یہ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ آزاد منش لوگوں نے اپنی آزادی کے لیے ہمیشہ رسم دار کو زندہ رکھا ۔ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی منصور ضرور پیدا ہو اجس نے اپنے عہدِ وفا کو نبھانے کے لیے اس رسم کو زندہ رکھنے کے لیے یہ علان کیا کہ :
ہم ہیں منصور اس زمانے کے
ہم سے ہی رسمِ دار زندہ ہے
انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہنسی خوشی زندگی قربان کرنے کا جذبہ اور سر فروشی کی رسم کے پس منظر میں دو محرکات بہت نمایاں رہے ایک تو مذہب اور دوسرا سیاسی فلسفہ ۔ انسانی وقار اور تقدیس کو زندہ رکھنے والی سوچ اور فکر کی آزادی ضمیر کی آواز کی سر بلندی کے لیے جن لو گوں نے کسی سیاسی پلیٹ فارم پر جد وجہد کی انسانی قدرو ں کی پاسداری اور حقیقی جمہوری معاشرے کے لیے جدو جہد کی بلا شبہ تاریخ انسانی میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ۔
سر فروشی کے اس قبیلے میں مذہب بالخصوص اور معاشی و سیاسی جد وجہد بالعموم کر نے والے نماہاں عناصر کے طور پر موجود رہے اور اس مشن کی تکمیل کے لیے نجانے اور کتنے بے گناہ حقِ زندگی سے محروم کر دیے گئے مگر ان لوگوں نے وطن کی مٹی سے عہدِ وفا نبھانے کے لیے وہ تمام قرض ادا کیے جو ان پر واجب نہ تھے ۔
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

 

دنیا بھر میں اٹھنے اور ابھر نے والی سیاسی تحریکیں کسی نہ کسی مقصد اور کسی نہ کسی نظریے کی ترقی کے لیے معرض وجود میں آئیں بعض کو کامیابی نصیب ہو ئی اور بعض اپنا مقصد و مدعا حاصل نہ کر پائیں لیکن ان میں حصہ لینے والوں اور اہم کردار ادا کر نے والے رہنمائوں اور کارکنوں کو ضرور خراج تحسین پیش کیا گیا ہے ۔
برصغیر کی سیاسی تحریکوں میں شامل بے شمار نام ایسے ہیں جن کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مگر طول کلام سے دامن بچاتے ہوئے میں صرف پاکستان میں ان سیاسی کارکنوںتک محدود رہوں گا جو ضیاء کے مارشل لاء کے دور میں جسے میں بدترین مارشلائی دور کہتا ہوں بھٹو شہید کے جیالوں کے طور پر مارے گئے جو تاریک راہوں میں بے گنا ہ شہید کر دیے گئے جن سے زندگی کا حق چھینا گیا قید و بند کی صعو بتیں عطا کی گئیں کوڑے مارے گئے جلا وطن کیے گئے کو ئی ایسا ظلم نہ تھا جو ان پر روا نہ رکھا گیا مگر انھوں نے اپنے نظریے سے غداری نہ کی ۔
اس کتاب کا مقصد نہ تو بیان و زبان کی چاشنی کی داد لینا ہے نہ کسی کی بلاوجہ اور بے جا تعریف و تائید کر نا ہے نہ مجھے مالی معاونت درکار ہے اور نہ میں کسی بھی لاچ مں مبتلا ہوں ۔مجھے تو صرف اور صرف ان بہادر نڈر جیالوں سے محبت ہے اور میں ان کو خراج تحسین و عقیدت پیش کر نے کاخواہش مند ہوں جنھوں نے ایک سچے اور کھرے اور انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل اور اس کی بقا کے لیے جدو جہد کی ایسے معاشرے کا خواب دیکھا جہاں انسان کو شرف انسانی سے محروم نہ کیا جا سکے ۔جہاں انسان کو فطری آزادی اور اظہارِ رائے کا پورا پورا حق ہو ۔اس فرسودہ نظام کی تبدیلی کے لیے جس طلسماتی شخصیت نے پاکستانی نوجوانوں کو وہ قوت اور جذبہ عطا کیا اس کا نام ذوالفقار علی بھٹو ہے ۔پاکستان عوام کی خاطر ایک زندہ نظریہ اپنی جگہ نہایت اہم تھا ۔بھٹو صاحب کی ذات اور ان کا اندازِ سیاست کارکنوں سے ان کی محبت اور سحر انگیز طلسماتی شخصیت نے ان نوجوانوں کے دلوں میں اس قدر گھر کر لیا کہ وہ ان پر جان دینے کو بھی تیار ہو گئے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان جد وجہد کر نے والوں میں بھاری اکثڑیت ان نوجوانوں کی تھی جن کی عمریں بیس سال سے تیس سال کے درمیان تھیں ۔ان لوگوں نے اپنے قائد کو بچانے کے لیے خود سوزی کی کوڑے کھائے قید و بند کی تکلیفیں برداشت کیں اور یہاں تک کہ پھانسی کے پھندوں پر بھی جھول گئے ۔شاید ہی کسی سیاسی رہنما کو یہ مقام حاصل ہوا ہو کہ اس کے چاہنے والوں اور کارکنوں نے اس کی ذات کے لیے اس قدر محبت کی ہو جب ان کو تختہ دار پر لٹکایا جا تا تھا تو وہ جیے بھٹو کا نعرے لگاتے تھے ۔ان پر کوڑوں کی بارش کی گئی تو انہوں نے جیے بھٹو کا نعرہ لگایا ۔
کارکنوں کی اس فہرست میں خود سوزی کر نے والے سانحہ کار ساز سانحہ لیاقت باغ اور سانحہ ایم آر ڈی کے ہزاروں شہیدوں کے نام شامل ہیں ۔بعض دانشوروں کے نزدیک بھگت سنگھ اس دھرتی کا ہیرو ہے لیکن کیا عبدالرزاق جھرنا کی قربانی ان کو نظر نہیں آ تی جو رقص کرتے ہوئے جھومر ڈالتے ہوئے تختہ دار کی طرف گیا اور جیے بھٹو کا نعرہ لگاتا ہوا پھانسی کے پھندے سے لٹک گیا۔
میں نے مختلف جگہوں یوٹیوب ،گوگل ،فیس بک ،سوشل میڈیا ،اخبارات ،رسائل ،مختلف کتب اور بہت سے لوگوں کے انٹر ویو اور ذاتی ملاقاتوں سے تحریریں حا صل کر کے ان کو کتابی شکل میں پیش کر نے کی کوشش کی ہے اس کے لیے میں ان تمام احباب خصوصا اورنگزیب ظفر خخان کا شکر گزار ہوں جو میرے لیے معاون ثابت ہوئے ۔آخر میں اک گزراش پیپلز پارٹی کی قیادت سے کر نا چاہوں گا کہ بلاشبہ اس پارٹی کی بنیادوں میں بے شمار لوگوں کا خوں شامل ہے کہ وہ لوگ جن کا ذکر اس کتاب میں شامل ہے جو ابھی تک گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں ان تک یا ان کے خاندونوں تک رسائی حاصل کی جائے ان کا پتہ لگایا جائے اور ان کے لواحقین کے لیے پارٹی کی سطح پر ایک ٹرسٹ قائم کیا جائے ۔آخر میں بلاول بھٹو سے اپیل کروں گا کہ آپ شہادتوں کے امین اس پارٹی کے چئیر مین ہیں بھٹو شہید اور بی بی شہید کے سیاسی ورثے کے مالک ہیں ۔آپ اس ملک کے لاکھوں محنت کشوں ،مزدوروں ،کسانوں اور طالب علموں کے روشن مستقبل کی امید ہیں اس لیے اپنے کارکنوں کا ضرور خیال کیجیے جن کی زبانوں پر کل بھی جیے بھٹو کا نعرہ تھا اور آج بھی وہ جیے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہیں ۔
راہ تاریک تھی ہم دیپ جلاتے ہی رہے
اپنی پلکوں سے چنے خار مغیلاں ہم نے
پا بہ زنجیر سوئے دار و رسن جاتے رہے
تہی ہونے نہ دیا رسن زنداں ہم نے
نذیر متین

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...