Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > انمول لوگ > جسٹس کے۔ایم صمدانی

انمول لوگ |
حسنِ ادب
انمول لوگ

جسٹس کے۔ایم صمدانی
ARI Id

1688708377628_56116343

Access

Open/Free Access

Pages

۲۷

 

جسٹس کے ایم صمدانی

 جب ستمبر 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو پیپلز پارٹی کے وکلاء نے لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست جمع کروائی مگر اس درخواست کو سننے کیلیے کوئی بھی جج تیار نہیں تھا ۔کوئی جنرل ضیاء الحق کی ناراضگی مول لینے کو تیار نہیں تھا ۔تب اس مردِ مجاید جسٹس کے ایم صمدانی نے اس کیس کی سماعت کی اور بھٹو کی احمد رضا قصوری کے قتل کے الزام میں گرفتاری پر ضمانت منظور کر لی اور یہ بات جنرل ضیاء الحق کو بہت بری لگی کیونکہ ضیاء الحق کے دبائو کے باوجود انہوں نے ضمانت دے دی اور بھٹو کو آزاد کر دیا مگر تین دن کے بعد فوج نے بھٹو کو لاڑکانہ سے گرفتار کر لیا ۔جسٹس کے ایم صمدانی لاہو ر ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج تھے اور وہ چیف جسٹ بننے والے تھے مگر ضیاء الحق نے ان کو عدالت سے نکال کر وفاقی لاء سیکرٹرری بنا دیا اور مولوی مشتاق کولاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا ۔

اسی دن جنرل ضیاء الحق نے وفاقی سیکٹریوں کا اجلاس بلوایا جس میں جسٹس صمدانی بھی لاء سیکرٹری کے طور اس اجلاس میں موجود تھے ۔جنرل ضیاء الحق ڈکٹیٹر نے تمام سیکرٹریوں کو دبائو میں لانے کے لیے کہا کہ آپ لوگ سدھر جائیں ورنہ میں آپ کی پینٹ اتار دوں گا سول بیوروکریٹ نے یہ سنتے ہی ایک دوسریکے چہرے دیکھنے  شرو ع کر دیے اس دھمکی آمیز رویے پر جب چپ سادھ لی تب اس مردِ مجاہد جسٹس نے ضیاء الحق کو مخاطب کرتے ہو ئے کہا کہ آپ نے اپنے کتنے جنرلز کی پینٹیں اتاریں ہم خود بخود اپنی پتلونیں اتار دیں گے جسٹس صمدانی کے ایسے الفاظوں نے ضیاء الحق کو برہم کر دیا اور وہ اجلاس ملتوی کر کے غصے سے اٹھ کر چلے گئے جب سب وفاقی سیکرٹری جانے لگے تو ضیاء الحق کے اسٹاف آفیسر میجر جنرل خالد محمود عارف (کے ایم عارف)نے جسٹس صاحب سے کہا کہ ضیاء الحق صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔صمدانی صاحب ضیاء الحق کے کمرے میں گئے تو ضیاء الحق نے کہا کہ آپ نے اجلاس میں غلط کیا اس پر معذرت کریں تو جسٹس صمدانی نے برجستہ جواب دیا کہ میں معذرت کر نے کے لیے تیار ہوںمگر آپ اجلاس دوبارہ بلائیں تو میں اپنے الفاظوں پر معذرت کروں گا ایسا بولتے ہی جسٹس صاحب وہاں سے چلے گئے ۔کچھ عرصے بعد 1981ء میں اس شرط پر عدلیہ بھیج دیا کہ تم کو پی سی او کے تحت حلف لینا ہے مگر انہوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کر دیا اور اپنے گھر آ گئے تاریخ جسٹس کے ایم صمدانی کو سنہری الفاظ میں آج بھی یاد کرتی ہے ۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...