Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > انمول لوگ > لازوال دوستی

انمول لوگ |
حسنِ ادب
انمول لوگ

لازوال دوستی
Authors

ARI Id

1688708377628_56116346

Access

Open/Free Access

Pages

۳۱

لازوال دوستی

بھٹو صاحب اور جمعہ فقیر کی دوستی کی ہوشربا داستان ۔

’’میری بھٹو صاحب سے محبت یا عقیدت اس وجہ سے نہیں کہ وہ کوئی عظیم قسم کے کلاسکل سوشلسٹ یا مارکسٹ تھے البتہ یہ ضرور ہے کہ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو ایک اچھے سوشلسٹ میں ہو نی چاہییں ۔اسی کو بھٹو ازم کہتے ہیں ۔اس فرق کو سمجھے بغیر آپ بھٹو صاحب کو بھی نہیں سمجھ سکتے ۔ہمارے بائیں بازو کے اچھے خاصے دانشور اس غلط فہمی کا شکار ہیں ۔‘‘

میں نے بھٹو صاحب کے چالیسویں کے موقع پر ان فقیر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔اس دن گڑی خدا بخش میں بھٹو صاحب کے مزار پر عوام کا بے پناہ رش تھا ۔جس کی وجہ سے میں اس فقیر کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دے سکا ۔آج صبح یہ پوسٹ میری نظروں سے گزری تو اس فقیر کا چہرہ میری نظروں کے سامنے گھوم گیا ۔جس دوست نے اس کو فیس بک پر پوسٹ کیا ہے اس کو کل میں نے کسی بات کی وجہ سے ان فرینڈ کیا تھا ۔اس کے بعد اس نے اپنا تعارف کرایا اور مجھ سے اپنی کوتاہی پر معذرت کی ۔آج اتفاقاََ اس نوجوان کی پوسٹ میری نظرسے گزری ۔اس سندھی سے اردو میں ترجمہ شدہ متن سے کچھ غلطیاں میں نے نکال دی ہیں اور اگر مجھے اس کا مکمل متن مل جائے تو میں اس پر مزید تحقیق کر نے کی کوشش کروں گا ۔

ایک دوستی کی داستان ۔دوستی عام ہے لیکن اے دوست! دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے ۔ لاڑکانہ میں لوگوں کو آج بھی ذوالفقار علی بھٹو اور ایک فقیر صفت درویش شخص جمعہ فقیر کی دوستی یاد ہو گی ۔یہ واحد شخص تھا جو بھٹو صاحب سے مذاق بھی کرتا تھا اور طنزیہ جملے بھی کستا تھا ،جمعہ فقیر سومرو ذات کا تھا اور تعلقہ قمبر کے ایک گائوں کور سلیمان کا باسی تھا مگر قمبر چھوڑ کر لاڑکانہ میں رہنے لگا ۔درویش قسم کا فقیر تھا اکثر لاڑکانہ کی گلیوں اور رستوں پر اپنے گدھے کے ساتھ نظر آ تا تھا ۔جمعہ فقیر کا یہ معمول تھا کہ وہ روزانہ گوشت مارکیٹ جا تا اور وہاں ذبح کیے گئے تمام جانوروںکی باقیات اپنے گدھے کے گودھڑوں میں ڈالتا اور پھر لاڑکانہ کے آوارہ کتوں کو وہ یہ چھیچھڑے اور باقیات کھلاتااس طرح وہ کتے بھی جمعہ فقیر کے گرویدہ ہو گئے ۔جہاں فقیر جاتا اس کے پیچھے پیچھے چلتے تھے ۔ذوالفقار قادری کہتے ہیں کہ میں نے ایک بار اسے ایک چائے کا کپ دیا تو کہنے لگا کس خوشی میں چائے پلا رہے ہو تو قادری صاحب نے کہا کہ فقیر امام کی سبیل ہے تو جمعہ فقیر نے کہا اماموں سے کیسا حساب لا دے ۔اپنی دھن میں مگن فقیر کی باتیں صوفیانہ رنگ میں رنگی ہو تی تھیں ۔ایسی گفتار عام آدمی سے ممکن نہیں تھی ۔

ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی دوستی کا تعلق اس وقت قائم ہوا جب بھٹو صاحب وزیر خارجہ تھے ۔جمعہ فقیر کوئی خود چل کر المرتضی نہیں گیا تھا ۔بلکہ بھٹو صاحب خود چل کر ااس فقیر کے پاس اسے دوست بنانے گئے تھے ۔قصہ کچھ یوں ہے کہ کسی نے بھٹو صاحب سے کہا کہ لاڑکا نہ میں ایک فقیر ایسا ہے جس کی باتوں میں دانائی چھپی ہے تو بھٹو صاحب کو بہت تجسس ہوا اور انہوں نے فقیر کو اپنے گھر لانے کے لیے کارندوںکو بھیجا ۔جب کارندوں نے اسے کہا کہ بھٹو صاحب آپ کو بلا رہے ہیں تو اس نے کہا میں کوئی بھٹو کا نوکر ہوں جائو میں نہیں جا تا ان کے پاس ۔بھٹو صاحب کو جب نوکروں نے بتایا کہ وہ ایسا کہہ رہا ہے تو بھٹو صاحب اسی وقت گاڑی میں بیٹھ کر فقیر کو ملنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔جمعہ فقیر اس کو کینیڈی مارکیٹ میں ایک پیپل تلے اپنے گدھے کو گھاس کھلانے میں مشغول ملا ۔بھٹو صاحب گاڑی سے اترے اور فقیر کے پاس پہنچے ۔فقیر نے دیکھتے ہی کہا بھٹو صاحب کیسے بھول پڑے ہو ؟تو بھٹو صاحب نے جواب دیا فقیر حاضری کے لیے آ یا ہوں ۔فقیع نے جواب دیا کہ میں کوئی استاد ہوں جو حاضری بھرنے میرے پاس آئے ہو ۔بھٹو صاحب نے کہا ۔چلیں یار دوستی کر لیتے ہیں ۔جمعہ فقیر نے کہا دوستی رکھنا آسان ہے نبھانا مشکل ۔ا سپر بھٹو صاحب  نے کہا تم دوستی کر کے تو دیکھو ۔باقی تم مرضی کے مالک ہو ۔اپنے گدھے کے ساتھ بیٹھے جمعہ فقیر نے کہا کہ میرے در پر چل کے آ ئے ہو یوں خالی ہاتھ لوٹا نا مناسب نہیں اور اس طرح گلیوں میں گھومنے والے فقیر کی ذوالفقار علی بھٹو سے دوستی ہو گئی ۔جمعہ فقیر سے بھٹو صاحب کبھی کبھار وقت نکال کر ملنے آتے رہے اور یوں دونوں کی دوستی پروان چڑھنے لگی ۔جب بھٹو صاحب پاکستان ک وزیر اعظم بنے تو المرتضی کو وزیر اعظم ہائوس کا درجہ دے دیا گیا ۔وزیر اعظم بننے کے بعد بھٹو صاحب فقیر سے ملنے آ ئے اور کہا میرے حق میں دعا کر و۔فقیر نے کہا لگتا  ہے وزیر اعظم بننے پر خوش نہیں ہو ۔چلو اب ایک کام کرتے ہیں تم میرے گدھے پر بیٹھ کر جمعہ بنو میں بھٹو بنتا ہوں ۔بھٹو صاحب نے کہا مجھے منظور ہے مجھے اپنا گدھا دو ۔اس موقعہ پر کئی وزیر مشیر موجود تھے جو یہ ساری گفتگو سن رہے تھے ۔اچانک فقیر نے کہا بھٹو میں تجھے اپنا گدھا نہیں دوں گا میرے پاس بس یہ ایک ہی گدھا ہے تمہارے پاس پہلے سے ہی بہت گدھے موجود ہیں ۔پہلے انہیں سنبھال لو یہ سنتے ہی بھٹو صاحب کی بے اختیار ہنسی نکل گئی اور ہنستے ہنستے دوہرے ہو گئے ۔اس وقت وہاں پر موجود سارے افسران کے چہرے دیکھنے کے قابل تھے ۔

بھٹو صاحب وزیر اعظم بننے کے بعد جب بھی لاڑکانہ آتے تو وقت نکال کر فقیر سے ملنے ضرور آتے ۔جمعہ فقیر کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا ۔بس بھٹو صاحب پتہ کرتے کہ فقیر کہاں ملے گا تو وہاں پہنچ جاتے ۔جمعہ فقیر کا آخری ٹھکانہ قبرستان میں بنی ایک جھونپڑی تھی بھٹو صاحب نے فقیر سے کہا میں تمہیں گھر بنوا کے دیتا ہوں فقیر بہت جلال میں آ گیا اور کہنے لگا آ ج بول دیا ہے آئیندہ بولا تو تمہاری میری یاری ختم ۔

ایک بار بھٹو صاحب نے موئن جو دورو کے ائیر پورٹ پر اترتے ہی بولا کہ جمعہ فقیرسے ملنا ہے ۔پروٹوکول والے وہ روٹ لیں جہاں جمعہ فقیر کے ملنے کے امکانات ہوں ۔قافلہ چلا اور آخر کار جمعہ فقیر باقرانی روڈ پر اپنے گدھے کے ساتھ نظر آ گیا ۔بھٹو صاحب اس سے ملے اور کہا کہ آج رات کا کھانا میرے ساتھ کھائو فقیر بولا ایک شرط پر کھانا ہم دونوں اکیلے میں کھائیں گے بھٹو نے پوچھا وہ کیوں ۔فقیر بولا یہ جو تمھارے ساتھ آدمی ہوتے ہیں بڑے بھوکے ہیں سارا یہ کھا لیں گے اور ہم دونوں کے حصے میں ہڈیاں ہی آئیں گی ۔بھٹو نے یہ بات سنتے ہی قہقہہ لگایا اور بولے کہ آپ کی شرط منظور ہے اور فقیر نے کہا ایک شرط اور بھی ہے سستے میں جان نہیں چھوٹے گی تم اور میں کھانا کھائیں لیکن میرے گدھے نے کیا قصور کیا ہے ۔کیا اس کا پیٹ نہیں ہے ؟بھٹو نے کہا منظور ہے فقیر منظور ہے ۔

دعوت سے ایک گھنٹہ پہلے بھٹو صاحب نے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ خالد احمد کھرل اور ایس پی محمد پنجل جو نیجو کو احکامات دیے کہ جمعہ فقیر کو المرتضی لایا جائے ۔ڈپٹی کمشنر اور ایس پی نے ڈی ایس پی عنایت اﷲ شاہانی سے کہا کہ جمعہ فقیر کو ڈھونڈو اور اسے پروٹوکول میں المرتضی لے کر آئو ۔جب ڈی ایس پی جمعہ فقیر کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے تو فقیر نے اکیلے جانے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا ہم دو نوں کی دعوت ہے ۔ورنہ جائو میں نہیں چلتا افسران بہت پریشان ہو گئے اور یہ بات بھٹوتک پہنچ گئی جس پر بھٹو صاحب نے کہا جیسا فقیر کہتا ہے ویسے ہی کیا جائے اور اس طرح جمعہ فقیر نے اکیلے میں بھٹو صاحب کے ساتھ دعوت کھائی اور اپنے گدھے کو بھی خوب گھاس کھلائی ۔

لاڑکانہ کے اس درویش فقیر نے آ خر کار 1990ء میں یہ جہاں چھوڑ دیا اور یوں ایک لازوال دوستی اپنے انجام کو پہنچی ۔

سندھی سے اردو ترجمہ

بشکریہ سید فیصل رضا

’’میری بھٹو صاحب سے محبت یا عقیدت اس وجہ سے نہیں کہ وہ کوئی عظیم قسم کے کلاسکل سوشلسٹ یا مارکسٹ تھے البتہ یہ ضرور ہے کہ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو ایک اچھے سوشلسٹ میں ہو نی چاہییں ۔اسی کو بھٹو ازم کہتے ہیں ۔اس فرق کو سمجھے بغیر آپ بھٹو صاحب کو بھی نہیں سمجھ سکتے ۔ہمارے بائیں بازو کے اچھے خاصے دانشور اس غلط فہمی کا شکار ہیں ۔‘‘

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...