Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > انمول لوگ > زلفی بھٹو

انمول لوگ |
حسنِ ادب
انمول لوگ

زلفی بھٹو
Authors

ARI Id

1688708377628_56116367

Access

Open/Free Access

Pages

۵۵

زلفی بھٹو

                                                                                                                                محمد احمد ترازی

زلفی بھٹو تاریخ پاکستان کا لازوال کردار ہے ۔

یہ اپریل 1945ء کی بات ہے جب تحریک پاکستان کے قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں اپنے بام عروج پر تھی اور مسلمانانِ ہند کے ’’لے کے رہیں گے پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘کے نعروںسے پورا برصغیر گونج رہا تھا ۔بچے ،بوڑھے اور جوان سب کا ایک ہی مطالبہ تھا ایک آزاد و خود مختار سر زمین کا حصول جس میں وہ اپنی زندگی اپنی معاشرتی روایات اور مذہبی اقدار کے مطابق بسر کر سکیں ۔گویا حصول پاکستان مسلمانانِ برصغیر کا خواب ہی نہیں ان کی جدو جہد کی حقیقی منزل بھی تھا اس زمانے میں ایک طالب علم نے اپنے محبوب لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک خط  لکھا ۔جس میں اس نے لکھا ۔’’ڈئیر سر ! صوبہ سرحد میں سیاسی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس نے مجھے اتنا جذباتی اور برانگیختہ کر دیا ہے کہ میں اپنے قائد کو اس کے متعلق کچھ لکھنے کی جرأت کر رہا ہوں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کے مسلمانوںکو یہ محسو س کر لینا چاہیے کہ ہندو بنیے ہمارے ساتھ کبھی مخلص و متحد نہیں ہو سکتے وہ ہمارے قرآن پاک اور ہمارے پیغمبر کے شدید ترین دشمن ہیں ۔یہ بھی اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ آپ ہی ہمارے قائد اوررہنما ہیں ۔جناب آپ نے ہمیں ایک پلیٹ فارم اور ایک جھنڈے تلے اکٹھا کیا ہے اور ہر مسلمان کا یہی نعرہ ہے کہ ’’پاکستان کی طرف بڑھو ،ہماری قسمت پاکستان ہے ‘‘ہماری منزل و مقصد پاکستان ہے ۔ہمیں آپ کی ذات میں ایک قابل رہنما مل گیا ہے ۔اب ہمیں کوئی بھی منزل مقصود کی طرف جانے سے نہیں روک سکتا ۔میں حیران ہوں کہ شیخ محمد عبداﷲاور ان جیسے ڈاکٹر خان صاحب وغیرہ اپنے آپ کو مسلمان کیسے کہتے ہیں جب کہ انہوں نے کانگریس کی پالیسیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں ۔میرا دل ڈوبنے لگتا ہے جب میں مسلم لیگ کے خلاف ان کی بیہودہ تقریریں پڑھتا ہوں ۔کیا وہ اتنے ہی بے خبر ہیں یا ان کی حب الوطنی کا یہی تقاضہ ہے ۔ہزاروں لاکھوں عبداﷲ بھی مل کر ہم کو یقین نہیں دلا سکتے کہ ہم غلطی پر ہیں ۔ اپنی ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر بھی وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ انہیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ ہم آپ سے کس قدرمتاثر ہیں اور ہمیں آپ پر کتنا فخر ہے ۔ایک طالب علم کی حیثیت سے میں ابھی اس قابل تو نہیں ہوں کہ مادرِ وطن قائم کر نے کے لیے آپ کی کوئی مدد کر سکوں لیکن ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب میں پاکستان کے لیے اپنی جان قربان کروں گا ‘‘۔

بیس اپریل 1945ء کو سولہ سال کی عمر میں قائد اعظم محمد علی جناح کو خط لکھنے والے نوجوان طالب علم ذوالفقار علی بھٹو تھے ۔کسے معلوم تھا کہ اتنی کم عمری میں قائد اعظم محمد علی جناح کو خط لکھ کر اپنی وفاداری اور ملک کے لیے جان دینے کے عزم کا اظہار کر نے والا طالب علم ایک دن پاکستان کا وزیر اعظم بنے گا اور 4اپریل 1979ء کو ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کر کے اپنے طالب علمی کے عہد پر ایفا کی مہر ثابت کر ے گا ۔قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928ء کو لاڑکانہ میں سر شاہنواز بھٹو کی دوسری بیوی خورشید بیگم کے ہاں پیدا ہوئے ۔جو ایک معمولی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔جاگیردارانہ پس منظر کی وجہ سے خورشید بیگم کو وہ عزت و احترام نہ مل سکا جس کی وہ مستحق تھیں ۔خاندانی تفاوت ،ذہین و فطین بچے ذوالفقار علی بھٹو کے قلب و ذہن پرگہرا انقلابی اثر مرتسم کر گیا ۔ایک انٹر ویو میں خود بھٹو صاحب اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میری والدہ ایک معمولی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں انھوں نے مجھے غریبوں اور مفلسوں کی تکلیفوں سے آ گاہی دی ۔اس کے علاوہ جب میں والد صاحب کے ساتھ دور ے پر جا تا تو غریبوں کی حالتِ زار دیکھ کر آبدیدہ ہو جا تا بمبئی اور اندرونِ سندھ کے غریبوں کی معاشی حالت میں غیر معمولی فرق تھا ۔اس فرق نے افلاس کے نقوش میرے ذہن پر اور بھی گہرے کر دیے ۔‘‘چناچہ بھٹو بچپن ہی سے طبقاتی اونچ نیچ ،معاشرتی ناہمواریوں اور جاگیردرانہ نظام کے خلاف ہو گئے ۔وہ اپنی آخری کتاب ’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا ‘‘میں اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’1935ء میں جب میری عمر سات سال تھی میرے والد اس وقت بمبئی کی حکومت کے وزیر تھے ایک دن بمبئی کے گورنر لارڈ برابورن نے میرے والد کو تینوں بیٹوں کے ہمراہ چائے کی دعوت پر بلایا۔جب میرے بڑے بھائی امداد علی جن کی عمر 21سال تھی کا تعارف ہو چکا تھا تو گورنر نے بھائی کے بارے میںکہا ’’کتنا خوبصورت اور جوان آدمی ہے ۔امدا د علی نے ایک تربیت یافتہ ارسٹو کریٹ ہوتے ہوئے جواب دیا ’’میں اپنے آپ کو بہت مسروراور مغرور سمجھتا ہوں کیونکہ میری تعریف ہمارے خوبصورت گورنر نے کی ہے جب میری باری آئی تو میں نے باریک آواز میں کہا ’’ہزایکسی لینسی گورنر اس لیے خوبصورت ہیں کیونکہ وہ ہمارے خوبصورت ملک کے خون پر پلتے ہیں ۔لارڈ برابورن میرے اس جواب پر ششد ر رہ گیا ایک لمحے تک حیرت زدہ میری طرف دیکھتا رہا اور پھر میرے والد سے کہنے لگا ’’شاہنواز اس میں تمہیں ایک شاعر اور انقلابی ملا ہے ‘‘بھٹو صاحب لکھتے ہیں ’’یہی سب کچھ ہے جو میں ان سارے برسوں میں رہا ہوں ۔ایک شاعر اور ایک انقلابی اور جب تک میرے جسم سے آخری سانس نہیں نکل جاتی میں یہی رہوں گا ‘‘ذوالفقار علی بھٹو کا شمار بیسویں صدی کے جنوبی ایشیاء کے عظیم انقلابی رہنمائوں میں ہوتا ہے ۔وہ ایک ایسے رہنما تھے جو ناصرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے کروڑوں عوام میں بے حد مقبول تھے اور دنیا بھر بالخصوص مسلم دنیا کے سربراہ مملکت انہیں خاص محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ذوالفقار علی بھٹو بے انتہا ذہانت ،اعلیٰ سیاسی بصیرت ،لاجواب تدبر اور دو طرفہ تعلقات کے امور کے ماہر تھے۔وہ ابتدا ہی سے ایشیائی امور میں مغرب کی مداخلت کے کڑے مخالفوں میں سے ایک تھے بھٹو سامراج کے خاتمے ،اقتصادی آزادی ، خود کفالت کے حامی اور زندگی بھر اس مؤقف کے زبردست داعی رہے کہ کسی ملک کے اندرونی معاملے میں مداخلت نہ کی جائے بھٹو کہتے تھے ’’نوآبادیاتی دور ختم ہو رہا ہے ،اب ایشیا ء اور افریقہ میں نئی طاقتیں ابھر چکیں ہیں ،افریشیائی قیادت کے سامنے بنیادی مسئلہ ان کی خودمختاری کے چیلنج کا ہے ۔مغرب میں ایشیائی قیادت کو جس دن برابری اور مساوات کی بنیاد پر تسلیم کر لیاگیا اس دن عالمی امن کے تقاضے پورے ہو جائیں گے ‘‘اپنی اس انقلابی فکر کی وجہ سے وہ زندگی بھر سامراجی حلقوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے ۔1963ء میں وائٹ ہائو س میں امریکی صدر جان کینڈی کی پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات میں امریکی صدر بھٹو کی ذہانت اور وسعت علمی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے بھٹو سے کہا ’’اگر آپ امریکن ہوتے تو میری کابینہ میں وزیر ہو تے ‘‘جناب ذوالفقار علی بھٹو نے برجستہ جواب دیا ’’مسٹر پریذیڈینٹ !محتاط رہیں اگر میں امریکن ہو تا تو آپ کی جگہ ہو تا ‘‘پاکستانی نوجوان کی بلا کی ذہانت ،خود اعتمادی اور بے باکی نے امریکی صدر کو ہلا کر رکھ دیا اور اسی دن سے بھٹو کے باغیانہ خیالات کی وجہ سے امریکن خفیہ ایجنسیوں نے محسوس کر لیا تھا کہ ایک دن یہ شخص امریکہ کے لیے دردِ سر بنے گا ۔چنانچہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے نام کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو 1957ء میں 29سال کی عمر میں پہلی بار اقوام متحدہ میں پاکستانی سب سے کم عمر رکن ہو نے کا اعزاز حاصل ہے ۔بھٹو کی خداداد ذہانت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے اسکندر مرزا نے انہیں بطور وزیر اپنی کابینہ میں شامل کر لیا ۔ 28 اکتوبر 1958ء کو جنرل ایوب خان نے بھٹو کو اپنی حکومت میں وزیر معدنیا ت مقرر کر لیا اور23جنوری 1963ء کو وزیر خارجہ محمد علی بوگرہ کے انتقال کے بعد جناب بھٹو کو وزارتِ خارجہ کا قلم دان سپرد کیا گیا یہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کا نکتہ آغاز تھا ۔بھٹو صاحب کے دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی جن خطوط پر استوار ہوئی اور جس ماہرانہ انداز میں بھٹو صاحب اسے آگے بڑھاتے رہے ۔وہ مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے لیے دردِ سر تھا ۔6ستمبر 1965ء کی رات کے اندھیرے میں جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو نے بین الاقوامی محاذ پر پاکستان کی جنگ لڑی اور چین ،انڈونیشاء سعودی عرب ،ایران ،ترکی ،عراق ،مصر ،اردن، الجزائر،شام ،سوڈان ، یمن ،مراکش ،لیبیا ،کویت کو پاکستان کی اخلاقی اور مالی امدا پر رضا مند کیا ۔ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کا مقدمہ لڑتے ہوئے تاریخی تقریر کی  جس کے ایک ایک لفظ سے زندگی کی حرارت اور جذبوں کی سچائی عیاں تھی ۔ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام عالم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ہزار سال تک جنگ لڑیں گے ‘‘ان کا یہ جملہ پاکستان کے عوام کے دلو ں کی دھڑکن اور جذبوں کا امین تھا ۔اقوام متحدہ میں بھٹو صاحب کی تقریر نے قوم کے حوصلوں کو بلند کر دیا ۔مگر افسوس کہ جنگ کے میدانوں میں جیتی ہوئی بازی جنرل ایوب خان نے تاشقند میں مذاکرات کی میز پر ہار دی ۔16جون 1966ء کو بھٹو صاحب نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور 30 نومبر 1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ کر ملک میں عوامی جدو جہد کا آغاز کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سقوط ڈھاکہ کے بعد 20دسمبر1971ء کو باقی ماندہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی وہ پاکستان کی پہلی شخصیت تھے جس کی سوچ اور فکر کے منفرد ،انقلابی اور تخلیقی انداز نے ایشیائی سیاست میں انقلاب آفریں تبدیلیا ںپیدا کیں ۔افریشیائی اتحاد ،پاک بھارت تعلقات اور پاک چین دوستی کے متعلق بھٹو صاحب کا اندازِ فکر و عمل عالمی سامراج کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوا ۔جس کی وجہ سے اسے جنوب مشرقی ایشیاء میں اپنی پالیسیوں کے تسلسل میں ناکا میوں کا سامنا کر نا پڑا ۔اسی وجہ سے بھٹو صاحب کو کئی بار خریدنے کی بھی کوشش کی گئی ۔ایک بار امریکی صدر جانسن نے انہیں کہا تھا کہ ’’ہمارے راستے سے ہٹ جائو ،تمہیں جتنی دولت چاہیے وہ دنیا کے جس حصے میں چاہو گے مل جائے گی ‘‘۔اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو نے قومی غیرت اور جذبہ حب الوطنی سے لبریز جواب دیتے ہوئے امریکی صدر جانسن کو کہا تھا ۔’’ہم غیرت مند قوم ہیں کوئی بکائو مال نہیں ہیں ‘‘لالچ ،دھونس ، دھاندلی اور دھمکیوں کے باوجود بھٹو صاحب نے پاکستان کی سالمیت ،استحکام ،ترقی اور عوام کی خدمت کا پرخار راستہ منتخب کیا ۔ان کے دورِ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ 7ستمبر1974ء کو قومی اسمبلی و سینٹ سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا اور 10اپریل 1973ء کو مقننہ آئین کی منظوری تھا ۔

ذوالفقار علی بھٹو ایٹمی پاکستان کے اولین معمار و بانی اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے سب سے بڑے علمبردار تھے ۔ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کو دفاعی ،سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط دیکھنا چاہتے تھے ۔مشہور نقاد و دانشور جناب حسن نثار ذوالفقار علی بھٹو کے مختصر دور کے کارناموں کو یوں بیان کرتے ہیں ۔’’چند سالہ دورِ اقتدار میں لاتعداد محاذوں پر لڑنے والا بھٹو ،کراچی میں ایٹمی بجلی گھر بنانے والا بھٹو ،90ہزار جنگی قیدی اور پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ ہندوستان سے چھڑانے والا بھٹو ، اسلامی سربراہی کانفرس کا انعقاد اور اوپن یونیورسٹیاں ایجاد کرنے والا بھٹو ،چواین لائی اور سو ئیکارنو سے لے کر برئینڈر سل تک کا فیورٹ بھٹو ،آئین سے لے کر شاہراہِ قراقرم تک کا معمار بھٹو ۔پورٹ قاسم کی تعمیر ،چشمہ بیراج سے لے کرفرانس اور کینیڈا کے ساتھ دو ایٹمی معاہدے کرنے والا بھٹو ، وزارت مذہبی امور بنانے سے لے کر 17لاکھ ایکڑ زمین ہاریوں میں بانٹنے والا بھٹو ،کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے ہزار سال تک لڑنے والا بھٹو اور عالم اسلام کو نیم وفاق کی زنجیر میں باندھنے کی سعی کر نا ذوالفقار علی بھٹو کا سب سے بڑا جرم تھا جو امریکہ کی نظر میں ناقابل معافی جرم تھا ۔امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرے اور مسلم ممالک کو متحد و منظم کرے چنانچہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر تم نے ایٹمی پروگرام ترک نہ کیا اور اس منصوبے سے باز نہیں آئے تو تمہارا انجام عبرت ناک ہو گا ۔‘‘اس دھمکی کو سن کر جناب ذوالفقار علی بھٹو نے نہایت بہادری سے جرات مندانہ جواب دیتے ہوئے کہا تھا ۔’’مسٹر ہنری کسنجر یہ پاکستانی قوم کا حق ہے اور پاکستانی قوم اپنے حق سے دستبرار نہیں ہو سکتی ،میں یہ پسند کروں گا کہ چند جرنیل میری لاش کو سڑکوں پر کھینچتے پھریں لیکن قوم سے غداری کر کے میں تاریخ کا مجرم نہیں بنوں گا ‘‘بھٹو اپنے اس ناکردہ جرم کی پاداش میں امریکی ایما ء پر ایک فوجی آمر کے ہاتھوں 4اپریل 1979ء کو تختہ ٔ دار پر لٹکا دیے گئے ۔بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے اپنی آخری ملاقات میں بھٹو نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں اپنے اجداد کی زمینوںکی طرف واپس جا رہا ہوں تاکہ اس سر زمین کا اس کی خوشبو اور اس کی فضا کا حصہ بن جائوں ۔خلقِ خدا میرے بارے میںگیت گائے گی ۔میں ان کی کہانیوں کا جاوداں حصہ بن جائوں گا ‘‘آج قائدِ عوام ،فخرِ ایشیاء ذوالفقار علی بھٹو کو ہم سے جدا ہوئے 31برس گزر چکے ہیں لیکن قوم کے دل و دماغ ان کی یادوں سے آج بھی معطر اور ترو تازہ ہیں ۔وہ تاریخ پاکستان کا ایک ایسا زندہ لازوال کردار ہیں ۔جس کے عزم و حوصلے ،جرأت و بہادری بے مثال تدبر اور فہم و فراست سقوط پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی تشکیل نو کا باعث بنی ۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...