Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > انمول لوگ > یومِ عزم

انمول لوگ |
حسنِ ادب
انمول لوگ

یومِ عزم
Authors

ARI Id

1688708377628_56116373

Access

Open/Free Access

Pages

۶۶

13مئی یوم عزم

جس دن صحافیوں کو کوڑے مارے گئے ۔13مئی 1978 ء کی شام لاہور کے تین نوجوان صحافیوں کو فوجی حکومت کے حکم پر برہنہ کر کے پندرہ کوڑے مارے گئے تو انہوں نے اپنے دانت بھینچ لیے تھے اور درد کی آواز دبا لی تھی ۔انہوں نے فوجی دہشت سے خوفزدہ ہو نے سے انکار کر دیا تھا ۔ شام آٹھ بجے لاہور کوٹ لکھپت جیل کے میدان میں تین برہنہ آدمیوں کو لا کر ان کے ہاتھ پائوں ایک ٹکٹکی کے تختے سے باندھ دیے گئے ۔ایک پہلوان نما آدمی چمڑے کے کوڑے کو گھماتادور سے بھاگتا ہوا ان آدمیوں کے قریب آ تا اور ان کے اجسام پر پانچ پانچ بار اپنا کوڑا برساتا ۔ٹکٹکی کے سامنے کچھ دور تقریباََسو باوردی فوجی اہلکار اور سول سرکاری اہلکار کرسیوں پر بیٹھے دنیا کے اس منفرد واقعہ کا تماشا دیکھ رہے تھے ۔جس میں پاکستان کے تین صحافیوں کو پریس کے خلاف فوجی اقدامات پر احتجاج کر نے کے جرم میں کوڑوںکی سزا دی گئی ۔جن تین صحافیوں کے جسم پر ضیاء الحق کے کوڑے پڑے ان میں ایک چوبیس سالہ نوجوان اور روزنامہ کے سب ایڈیٹر خاور نعیم ہاشمی تھے ۔وہ اپنے اس دور کی یادوں کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں ۔’’یہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کا ابتدائی زمانہ تھا جنہوں نے 5جولائی 1977ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کومعزول کر کے اقتدار سنبھالا تھا ۔بیس سے زیادہ اخبارات اور رسائل مارشل لاء حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کر نے کی وجہ سے بند کر دیے گئے تھے اور تمام اخبارات پر سخت سنسر شپ عائد تھی ۔ان میں پیپلز پارٹی کا ترجمان اخبار روزنامہ مساوات بھی شامل تھا ۔خاور نعیم ہاشمی مساوات اخبار میں کام کرتے تھے ۔ان کا کہنا ہے کہ پریس پر دو فوجی تعینات تھے جو اخبار کی کاپی چھپنے سے پہلے اس کا جائزہ لیتے تھے اور ان کے نزدیک جو ناپسندیدہ مواد ہو تا اسے نکال دیتے تا کہ وہ شائع نہ ہو ۔خاور نعیم ہاشمی کا کہنا ہے کہ دو بار ایسا ہوا کہ اخبار کی پیشانی پر شائع کی جانے والی قرآن کی آیات بھی اس سینسر پالیسی کے تحت اتار دی گئیں۔ بہت سے صحافیوں نے مارشل لاء حکومت کے پریس پر پابندیوں کے ان اقدامات کے خلاف اور اخبارات کی بندش سے صحافیوں کی بے روز گاری کے خلاف 1978ء میں دو مرحلوں میں احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ۔پہلے مرحلے میں یہ تحریک لاہو میں اور پھر کراچی میں چلنا تھی لاہور میں تین ماہ تک ہر روز چار افراد ایبٹ روڈ پر رضا کارانہ گرفتاریاں دیتے تھے ۔جہاں عام لوگوں کا ایک بڑا ہجوم جمع ہو جا تا ۔9مئی 1978ء کو ایبٹ روڈ پر گلستان سینما کے چوک میں چار صحافیوں نے گرفتاریاں دیں جن میں خاور نعیم ہاشمی ،مسعود اﷲ خان ،اقبال جعفری اور ناصر زیدی شامل تھے ۔انہیں لاہور کی کیمپ جیل میں لے جا یا گیا ۔جیل میں سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی فوجی عدالت نے ان کے مقدمہ کی سماعت شروع کی جو روزانہ ہوتی تھی ۔

خاور نعیم ہاشمی کا کہنا ہے کہ ’’چوتھے روز 13مئی کو فوجی عدالتی افسر نے ان کے ہاتھوں کی ہتھکڑیاں اتروادیں اور اپنی پیٹی اتار دی ۔‘‘فوجی افسر نے خاور سے کہا کہ’’آئو بیٹھو بات کریں ‘‘ خاور نعیم ہاشمی کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’’ان کا تو صرف ایک ہی مطالبہ کہ اخبار بند نہ کیے جائیں اور سنسر شپ اٹھا لی جائے ‘‘اس پر فوجی افسر اٹھ کر باہر چلا گیا اور کچھ دیربعد آ کر اس نے چاروں صحافیوں کو پانچ پانچ کوڑے مار نے ،تین تین ماہ قید اور جرمانہ کی سزا سنادی ۔خاور نعیم کا کہنا ہے کہ ’’سزا پانے والے صحافیوں نے سمجھا کہ یہ سزا صرف انہیں اور دوسرے صحافیوں کو ڈرانے کے لیے دی گئی تھی اور کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ اس پر عمل کیا جائے گا ۔حکومت نے اس سزا کا ہینڈ آئوٹ اسی شام سات بجے جاری کر دیا تھا ۔ان چاروں صحافیوں کو فوری طور پر کیمپ جیل سے کوٹ لکھپت جیل لے جایا گیا ۔کچھ دیر بعد ایک ڈاکٹر نے ان کا معائنہ کیا ۔ان میں سے ایک صحافی مسعود اﷲ خان پولیو کے باعث ٹانگوں سے معذور تھے ۔ڈاکٹر نے کہا انہیں کوڑے مارنا ممکن نہیں ۔ڈاکٹروں نے کہا خاور نعیم ہاشمی جسمانی طور پر اتنا کمزور ہے کہ طبی طور پر اس پر کوڑے لگا نا موزوں نہیں ۔تین صحافیوں ،خاور نعیم ہاشمی ،اقبال جعفری ،ناصر زیدی سے حکام نے کہا کہ وہ باری باری اپنے تمام کپڑے اتار دیں ۔اس موقع پر انہیں یقین ہو گیا انہیں واقعی کوڑے مارے جائیں گے ۔سب نے عہد کیا کہ وہ کوڑے کھاتے ہوئے درد سے چیخ کی آوا ز نہیں نکلنے دیں گے ۔رات کو تقریباََ آٹھ بجے انہیں باری باری میدا ن میں لے جایا گیا اور ٹکٹکی پر باندھ کر کوڑے مارے گئے ۔کوڑے مارنے کے بعد انہیں تختہ سے اتارا جاتااور ایک مدہوشی کا ٹیکہ دے کر اسٹریچر پر ڈال کر جیل کے ہسپتال میں لے جاتے ۔خاور نعیم ہاشمی کہتے کہ کوڑے کھانے کے بعد انہوں نے قریب آنے والے جیل سپرنٹنڈنٹ سے کہا کہ وہ پیدل چل کر جائیں گے تو ا س نے سرگوشی میں کہا کہ اس طرح اس کی ملازمت جاتی رہے گی ۔اس نے درخواست کی کہ خاور اسٹریچر پر ہی لیٹ کر جائیں ۔تین سال تک خاور نعیم ہاشمی کی پشت پر کوڑوں کے نیل موجود رہے ۔جو بعد میں بی بی سی ٹی وی پر بھی دکھائے گئے تھے ۔بی بی سی ریڈیو نے رات آٹھ بجے کی خبروں میں صحافیوں کو کوڑے مارے جانے کی خبر نشر کر دی تھی ۔جس پر پوری دنیا کے اخبارات میں علامتی ہڑتال کی گئی ۔تاہم پاکستان میں صحافی دو حصوں میں تقسیم تھے۔ اکثر اخباروں میں ہڑتال نہیں کی گئی ۔اگلی صبح ان چار صحافیوں کو بیرکوں میں ڈالا گیا اور وہاں سے ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا ۔اسی سال تیرہ اگست کو ان لوگوں کو رہا کیا گیا ۔خاور نعیم ہاشمی نے اگلے روز کراچی پہنچ کر ایک بار پھر گرفتاری دی ۔انہیں ایک بار پھر فوجی عدالت سے چھ ماہ کی قید کی سزا ہوئی ۔جو انہوں نے سینٹرل جیل کراچی اور حیدر آباد جیل میں کاٹی ۔کراچی میں اس واقعہ کے چار ماہ کے بعد مارشل لاء حکومت نے صحافیوں کی یونین کے کچھ مطالبے مان لیے اور بند کیے گئے  اخباروں کو اشاعت کی اجازت دے دی ۔فوجی حکمران ضیاء الحق نے تحریک شروع ہو نے پر کہا تھا کہ مساوات بند تھا اور بند رہے گا لیکن اس تحریک کے شروع  ہو نے کے بعد انہیں یہ اخبار بھی شائع کر نے کی اجازت دینا پڑی ۔خاور نعیم ہاشمی کہتے ہیں فوجی حکمران کوڑوں سے صحافیوں کو جھکا نا چاہتے تھے ۔لیکن صحافیوں کی مزاحمت کے سامنے انہیں خود جھکنا پڑا ۔پوری دنیا میں 13مئی 1978ء کے اس واقعہ کے بعد ہر سال آزادی صحافت کا جو عالمی دن منایا جا تا ہے اس دن کو شروع کر نے کے محرکات میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل کے پندرہ کوڑے بھی شامل تھے جن کے پڑنے پر تین صحافیوں نے اپنی اپنی چیخیں ضبط کر لیں تھیں لیکن ان کی گونج جیل کی دیواروں سے بہت دور پوری دنیا میں پھیل گئی۔

                                                تحریر :عدنان عادل (بی بی سی اردو ڈاٹ کام ،لاہور )

                                                تحقیق و ترتیب :زوار حسین کامریڈ

 

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...