Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > انمول لوگ > سوگ کا ماحول

انمول لوگ |
حسنِ ادب
انمول لوگ

سوگ کا ماحول
Authors

ARI Id

1688708377628_56116376

Access

Open/Free Access

Pages

۷۱

سوگ کا ماحول

چار اپریل کا وہ دن مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے ۔کراچی میں ٹیپو سلطان روڈ پر واقع گھر کے باہر کھڑا تھا جب گلی گلی بٹنے والے خصوصی ضمیمے کی ایک کاپی میرے بھی ہاتھ آ گئی ۔اس لیے بھاگا بھاگا اندر دوڑا اور لا کر والد صاحب کے سامنے پیش کیا ۔انہوں نے ضمیمہ ہاتھ میں لیا ۔سرخی پر نظر پڑتے ہی جیسے سکتے میں آ گئے ۔آنکھیں جھپکنا بند ہو گئیں اور وہ بس اخبار کو تکتے رہے ۔کئی لمحے ایسے ہی گزر گئے میں نے انہیں ذرا ہلا کر پو چھا ۔’’آپ ٹھیک ہیں ‘‘انھوں نے گھور کر میری طرف دیکھا ۔ اس لمحے مجھے ان کی آنکھوں میں بہت غصہ نظر آ یا ۔جو جلد ہی گہرے صدمے میں بدل گیا ۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر ہمارے گھر میں سوگ کا ماحول تھا اور ملک کے طول و عرض میں گہرا خوف ۔کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا جنرل ضیاء اس حد تک جا سکتے ہیں ۔لیکن شاید ضیاء نے اپنی بقا کے لیے رحم کی تمام اپیلیں مسترد کر کے بھٹو کو تختہ ٔ دار پر لٹکا نا ناگزیر سمجھا ۔

ضیاء کے مارشل لا کی مخالفت کر نے والوں کے خلاف پہلے سے کریک ڈائون جاری تھا ۔ہر طرف ملٹری حکام کے ہاتھوں سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ جاری تھی ۔خیر پور میں ہمارے گھروں پر فوجیوں نے چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے چڑھائیاں کیں ۔خاندان کے کچھ مرد ادھر ادھر چھپ گئے لیکن دادا اور والد صاحب کو فوجیوں نے ہتھکڑیاں لگا کر پہلے تھا نے اور پھر جیل میں ڈال دیا ۔ایسے میں جیے بھٹو کا نعرہ فوجی آمریت کی مزاحمت بن گیا ۔ضیا اور اس کے ساتھی جنرلوں کے لیے لوگوں میں پہلے جو غصہ تھا بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعد خودی میں بدل گیا ۔

آہستہ آہستہ دوست احباب نے ہمارے گھر آنا جا نا چھوڑ دیا کہ کہیں ایجنسیوں والے ان کے بھی پیچھے نہ پڑ جائیں ۔ایک بار جب والد صاحب کچھ پرانے جاننے والوں کو ملنے گئے تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’آپ یہاں آنے کی زحمت نہ کیا کریں ،کیونکہ ہمیں سیاسی لوگوں سے کوئی سرو کار نہیں ‘‘

بھٹو کی پھانسی کے بعد ضیاء نے پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کا جو مشن اپنایا اسے طالب علمی کے دنوں میںہم نے بھی بھگتا ۔سکول میں اعلان ہو ا کہ انگریزی ،اردو اور سندھی کے ساتھ ساتھ اب عربی بھی لازمی ہو گئی ۔ساتھ ہی ہمارا یونیفارم بھی پینٹ شرٹ سے بدل کر شلوار قمیض کر دیا گیا ۔ لڑکپن کے دنوں میں یہ سیاسی زبردستی ایسی ہی تھی جیسے کوئی آ پ کو کہے کہ آج سے آپ نائٹ سوٹ میں سکول جائیں گے ۔

سکول میں جب بھی والدین کو بلایا جا تا تو والدہ ہی جاتیں ۔دوست پوچھتے ’’تمہارے والد کیوں نہیں آ تے ‘‘کیا بتاتے کہ وہ جیل میں ہیں ؟ان دنوں میں ہر کوئی دبئی جانے کے چکروں میں نظر آ تا تھا سو ہم بھی یہی بتاتے کہ وہ دبئی میں کام کرتے ہیں اس لیے نظرنہیں آ تے ۔

مارشل لاء کے دوران ہفتے میں ایک بار والد صاحب سے ملاقات کے لیے کراچی سینٹرل جیل جاتے تھے ۔وہاں دیگر سیاسی اسیروں سے بھی ملاقاتیں ہوتی تھیں ۔فتحیاب علی خان ،معراج محمد خان ،پروفیسر جمال نقوی اور نفیس صدیقی وغیرہ ۔ایم آر ڈی کی تحریک کا زمانہ آ یا ۔جنرل ضیاء نے اسے بھرپور طریقے سے کچلنے کی کوشش کی ۔کئی کو پھانسی چڑھا دیا گیا ۔جو خوش قسمت تھے وہ بچ گئے اور بل آخر رہا کر دیے گئے ۔

فوجی سینسر شپ کا وہ زمانہ آج بھی اچھی طرح یاد ہے ۔صبح گھر پر امن یا مساوات اخبار پڑھتے ۔رات کو گھر آٹھ بجے بی بی سی کا پروگرام سیربین سنتے ۔گھر پر فون نہیں تھا تو کبھی کبھار ایمرجنسی میں پڑوسیوں کے ہاں جا کر فون استعمال کرتے ۔آج کی ڈیجیٹل نسل کو شاید یہ کسی قدیم زمانے کی بات لگے ۔لیکن یہ باتیں اتنی بھی پرانی نہیں ۔

آئیڈیلزم کا یہ دور نوے کی دہائی میں دم توڑ گیا ۔جب جمہوریت کے لیے لڑنے والوں نے جمہوریت کو ایک لطیفہ بنا کر رکھ دیا ۔جب جب اقتدار ملا ،بدعنوانی اور خراب طرز حکمرانی کے نئے ریکارڈ قائم کیے ۔فوجی آمریت کی باقیات اور جمہوریت کے پیرو کاروں میں بظاہر میں فرق مٹتا چلا گیا ۔عوامی سیاسی پروگرام کے بجائے پیسہ اور ہتھیار اور ووٹ کر نے والے خود ہی رئیس اور نواب بن بیٹھے ۔

یوں ذوالفقار علی بھٹو کی پی پی پی نے کئی اتار چڑھائو دیکھے ۔بڑی بڑی غلطیاں کی لیکن بڑی بڑی قربانیاں بھی دیں ۔قربانیوں نے بار بار پارٹی کی ناکامیوں اور غلطیوں کو دھویا ۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست سے کتنا بھی اختلاف کر لیں ایک بات طے ہے کہ وہ ملک کو ایک متفقہ آئین دے گئے ۔گویا قوم کو سیاسی شعور دے گئے اور اپنے حقوق کے لیے لڑنا سکھا گئے ۔یہ سیاسی عمل چلتا رہے ۔آئینی ادارے ترقی پاتے رہیں اور مضبوط ہوتے رہیں ۔اسی میں اس ملک کی بقا ہے مگر یہ ایک لمبی جدو جہد اور راستہ بہت کٹھن ہے ۔

شاہ زیب جیلانی ،بی بی سی اپریل 2017

 

 

کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے

مقتل شہر میں ٹھہرے رہے ،ہجرت نہیں کی

                                                                                                                                فراز احمد فرازؔ

 

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...