1688708377628_56116382
Open/Free Access
۷۷
بھٹو کی شہادت کی پرسہ داری
زوار حسین کامریڈ
میری والدہ خورشید بیگم نے ستر کی انتخابی مہم میں قائد عوام کی جیت کے لیے مجھے بارہ سال کی عمر میں ساتھ لے جا کر گلی گلی خواتین میں پی پی پی کی کینوینسنگ جس جوش و جذبہ سے کی تھی اس کے محرکات سیاسی سے زیاددہ شیعہ عقیدہ سے وابستگی تھی ۔ان کے مطابق چئیر مین پی پی پی ذوالفقار علی بھٹو مولا علی کی تلوا ر ذوالفقار سے منسوب ہے جبکہ انتخابی نشان تلوار بھی تلوارِ حیدر کی علامت ہے ۔ ضیاء نے آمریت نافذکی تو امی نے اسے یزید ثانی قرار دے کر شہید بھٹو کے حق میں احتجاج کر نے کو امام حسین ؑ کی عزاداری کے برابر کا رتبہ دے کر مجھے ہر جلسے جلوس میں شرکت کا حکم دیا شہید ذوالفقار علی بھٹو اور پی پی پی پر ٹوٹنے والے مصائب کے ایام امی جان اور مجھ پر گھریلو مشکلات کا بد ترین دور لے کر آئے ۔جس کی وجہ والد صاحب کی تین شادیاں اور اس کے نتیجہ میں آ نے والی معاشی تنزلی تھی ۔جس سے میری تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ۔گھر کا سیٹ اپ کچھ یوں تھا کہ میری امی سمیت تیسری والدہ شیعہ مسلک سے تھیں اور دونوں ایک ہی گھر میں مقیم تھیں ۔۔جہاں محرم کی عزاداری حد درجہ عقیدت اور غم و رنج میں ڈوب کر منائی جاتی تھی جبکہ میری بڑی والدہ محترمہ اہل سنت مسلک کی تھیں اور بچوں کو دینی تعلیم دیتی تھیں ۔ان کے ہمراہ رہنے والے بڑے بھائی اور دو بہنیں بھی سنی عقیدہ کی تھیں ۔فیملی کے حالات 1979ء کے اوائل تک اس نہج پر پہنچ گئے کہ مجھے اپنا گھر چھوڑ کر بڑی والدہ کے گھر منتقل ہو نا پڑا اور حصول تعلیم کے بجائے بڑے بھائی کی ورکشاپ پر آٹو مکینک کا کام جبری طور پر سیکھنے کی مشقت کر نا پڑ گئی ۔
4اپریل1979ء کی صبح آٹھ بجے معمول کے مطابق میں ورکشاپ کھول کر ورکشاپ پر آنے والا ’’نوائے وقت‘‘اخبار جبر کے ساتھ پڑھنے لگا مگر اس میں شائع ہو نے والا کوئی بھی لفظ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا بس ایک خوف اور غم کی کیفیت احساسات و جسم پر غالب ہوتی جا رہی تھی ۔اسی اثنا میں مارکیٹ میں شور مچ گیا کہ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ۔جیسے ہی شو ر کی آواز سنی میں اپنے آپ کو جسمانی و شعوری طور پر سکتہ میں محسوس کر نے لگا ۔کچھ دیر بعد بڑے بھائی آ ئے تو انھیں ارد گرد کے دکاندار مبارکبادیں دینے لگے ۔میں بت بنا خاموشی سے دل چیر جانے والے منظر دیکھتا رہا ۔دل چاہتا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر روئوں ۔خوشیاں منانے والے سطحی سوچ کے ان بے حس لوگوں کے سامنے رونا کیا چیخنا چنگھاڑنا بھی بے سود تھا ۔تھوڑی دیر بعد مٹھائی بانٹنے کی تو تکار مچ گئی تو میں اپنی پرنم آ نکھوں کے ساتھ گاڑی کا کام کر نے کے بہانے ورکشاپ سے دور آ گیا ۔دوپہر کا کھا نا کھانے کی ہمت ہی نہ ہو سکی ۔شام کو ورکشاپ بند کر کے میں فوری طور پر اپنے دوسرے گھر پہنچا تو وہاں محرم سے بھی زیادہ سوگ وار ماحول تھا ۔میری دونوں والدہ محترمائیں الم وغم کی تصویر بنی تمام بچوں کے ساتھ بھوکی پیاسی بھٹو کے بین کرتی اونچی اونچی آواز میں رو رہی تھیں ۔میں گھر میں داخل ہو کر دونوں کے گلے لگ کر دل کھول کر رویا تو میرا مائوف دماغ آہستہ آہستہ نارمل ہو نے لگا ۔اس دوران آٹھ بجے ہی بی بی سی کی خبریں سیربین سننے کے لیے جھنگ بازار میں پی پی کے جیالوں کے مرکز تمباکو کی ایک دوکان پر سیٹ پر خبریں سنتے ہوئے دھاڑیں مار کر رو رہے تھے ۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
خالد شریف
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |