Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > انمول لوگ > بہادر لوگ اورنگزیب ظفر خان

انمول لوگ |
حسنِ ادب
انمول لوگ

بہادر لوگ اورنگزیب ظفر خان
ARI Id

1688708377628_56116383

Access

Open/Free Access

Pages

۷۹

بہادر لوگ

4اپریل1979ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں چئیر مین بھٹو شہید کی غائبانہ نمازِ جنازہ میں شامل ہو نے والے یہ لوگ ان بہادر لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے پھانسی کے بعد مارشل لاء کے ڈر ،دہشت اور خوف کے باوجودلیاقت باغ کے ارد گرد پولیس اور فوج کے حصار کو توڑا اور بندوقوں کے سائے تلے چئیرمین بھٹو شہید کی نمازِ جنازہ ادا کی ۔سلام ہے ان بہادروں کے قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کو، ان میں سے جو لوگ زندہ ہیں وہ کسی بھی تمغہ شجاعت کے حقدار ہیں ۔میری حالت ایسی تھی کہ اس مجمع میں شامل ہو نے کے باوجود مجھے نہیں پتہ کہ کب صفیں باندھی گئیں اور کب جنازہ ختم ہو ا۔میرا دماغ شل تھا ۔ذہن جیسے کام کرنا چھوڑ گیا تھا ۔میرے پاس کوئی ٹینک توپ نہیں تھا کہ جنرل ضیاء الحق کے گھر آرمی ہائوس پر چڑھ دوڑتا خود بھی مر جاتا اور سب کو جلا کر خاک کر دیتا ۔بی بی سی نے رات کو خبر دی تھی کہ کل صبح لیاقت باغ چئیر مین بھٹو کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی ۔میں جو پوری رات سو نہ سکا تھا ۔چیئر مین بھٹو شہید کی رہائی کی تحریک میں بھر پور شر کت کے باوجود ہم اپنے لیڈر کو بچا نہ سکے ۔جب راولپنڈی کے کمیٹی چوک میں کار کن اپنے آ پ پر پٹرول چھڑک کر آگ لگاتے مجھے افسوس ہوتا کہ کاش یہ اپنے آپ کو آگ لگانے کے بجائے سپریم کورٹ اور اور آرمی چیف کے گھر کو آگ لگائیں ۔لیکن کیا کرتے نہتے کار کن اپنے قائد کو چھڑا نہیںسکتے تھے ۔پھانسی لگتا ہوا دیکھ نہیں سکتے تھے ۔خود سوزیاں کر کے اپنی جان اپنے قائد پر نچھاور کر دیتے یا بھٹو کو رہا کرو جیوے جیوے بھٹو جیوے کے نعرے لگاتے ہوئے گرفتاریاں دیتے ۔جنہیں فوری طور پر سمری ملٹری کورٹ میں پیش کیا جا تا تھا اورفوجی عدالت کوڑوں کی سزا دے کر جیل بھیجتی وہاں ٹکٹی پر باندھ کر کوڑے مارے جاتے ۔کوڑے لگنے سے جو خون بہتا وہی خراج تھا ۔بھٹو کے نام ہر کوڑے کی آواز پر جیے بھٹو کی صدا پوری جیل میں گونجتی ۔میں کبھی کبھی پرانی جیل کے گرد پاگلوں کی طرح طواف کر تا کہ میرا قائد میرا بھٹو یہاں قید ہے کاش میں ان کو چھڑانے کے لیے کچھ کر سکتا کبھی کبھی رات کو اکیلے اپنے بستر اپنی بے بسی دیکھ کر روتا سپریم کورٹ پشاور روڈ راولپنڈی میں چیئر مین بھٹو شہید کی پیشی ہوتی تو گھنٹوں سپریم کورٹ کے آس پاس بیٹھ کر دیکھتا رہتا ۔جس دن احتجاج اور گرفتاریوں کی کال ہو تی نعرے لگانے پولیس پر پتھرائو اسلامی جمعیت طلبا کے غنڈوں کا بھی مقابلہ کرتے جو اپنی ڈنڈا بردار فوج لے احتجا ج کے مقام پر پولیس کے ساتھ پی پی پی کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ۔

غائبانہ نمازِ جنازہ والے دن سے پہلے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکنوں لیڈرز کو گرفتا ر کر لیا تھا کہ جیلوں میں جگہ نہ تھی میں اور پی پی پی کے کارکنوں کی بہت بڑی تعداد پہروں ناکوں کے باوجود لیاقت باغ پہنچی ایسا لگتا تھا کہ پورے پنجاب کی پولیس لیاقت باغ کے ارد گرد تعینات ہے ۔نمازِ جنازہ کا وقت آ یا تو ارد گرد کھڑے ہوئے کارکنوں نے جرأ ت کا مظاہرہ کیا اور لیاقت باغ میں داخل ہونا شروع ہو گئے ۔چند منٹوں میں ہزاروں لوگ لیاقت باغ میں داخل ہو گئے پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے لے کر مقامی قیادت جیلوں میں بند تھی ۔ہجوم جس کی قیادت عوام خود کر رہے تھے پہلے تو ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگے اس دن پہلی بار بی بی سی کے نمائندے مارک ٹیلی کو قریب سے دیکھا جو کارکنوں سے اردو میں بات کر رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ کون سے لیڈر جنازے میں شرکت کریں گے ۔کارکن اتنے رنجیدہ تھے کہ وہ صحافیوںکو جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھ رہے تھے ۔آنسوئوں اور سسکیوں کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ۔کو ئی تو چیخ چیخ کر جنرل ضیاء الحق کو گالیاں نکال رہے تھے ۔میں اپنی دنیا میں مگن یہ سوچ رہا تھا کہ کیا کیا جائے ایک دن پہلے پارٹی کارکن ریاض عرف رشو جس سے میری جیل جانے اور واپس آنے کے بعد ملاقات نہ ہو سکی جس کا مجھے دکھ ہے کیونکہ اس نے چیئر مین بھٹو شہید کی رہائی کی تحریک میں میرے ساتھ بھرپور طریقے سے شرکت کی مگر اقتدار آنے کے باوجود مجھے کبھی نظر نہ آ یا بھابھڑا بازار کی کسی گلی میں رہتا تھا ریاض رشو نے مجھے 32بور کا ایک پستول دیا اور کہا کہ اسے چلانا نہیں صرف اپنی حفاظت کے لیے رکھ لو کل جب لوگ نمازِ جنازہ پڑھیں گے تو ہم اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے ۔ نمازِ جنازہ ختم ہو ئی تو عوام نے اپنا غم وغصہ احتجاج میں بدلا ابتدا پولیس پر پتھرائو سے ہوئی ۔پولیس نے عقل مندی کا ثبوت دیا اور پیچھے کی طرف ہٹتے رہے اور شدید پتھرائو کے باوجود ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس پر اکتفا کیا ۔کارکن تو خیر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں ۔میں اور کچھ کارکن گارڈن کالج کی پچھلی طرف سے نکل گئے ۔

ہزاروں افراد مری روڈ کی طرف نکل گئے ۔ٹرانسپورٹ بند تھی ۔ہم لوگ پولیس سے آنکھ مچولی کرتے ہوئے عالم خان روڈ کی طرف نکل آ ئے ۔ میں نے دیکھا کہ سامنے سے پاکستان ٹیلی کام کی بس آ رہی ہے۔ میں اور دیگر لوگوں نے بس کو روکا بس ڈرائیور بھگانے کی کوشش میں تھا ۔ میں نے پستول نکالی تو ڈرائیور چپ چاپ بس کھڑی کر کے نیچے اتر آ یا اور اس میں بیٹھے لوگ بھی منٹوں میں آگ کے شعلے آسمان تک دکھائی دے رہے تھے ۔پھر جو سرکاری گاڑی نظر آئی جلا دی گئی لیکن ایک بات ضرور تھی کہ کارکنوں نے کسی کی پرائیویٹ پراپرٹی کو آگ نہیں لگائی ۔شام تک راولپنڈی میدان جنگ بنا رہا ۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن اپنے لیڈر کے لیے نہیں نکلے تھے شاید انہیں معلوم نہیں چیئر مین بھٹو شہید کی پھانسی تک خصوصاََ پنجاب کی جیلیں پی پی پی کے کارکنوں نے کبھی خالی نہیں چھوڑیں پھانسی کے بعد پاکستان میں ایک سال تک سکوت رہاکیونکہ تمام لیڈر شپ جیلوں میں بند تھی ۔کارکن مارشل لاء کے خلاف لڑائی کے لیے تیار تھے ۔مگر پارٹی لائن کے انتظار میں بالآخر وہ وقت بھی آن پہنچا جب ایک طرف مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت )کے قیام کا اعلان کیا تو دوسری طرف مرتضی بھٹو شہید اور شاہ نواز شہید نے پیپلز لبریشن آرمی کے پلیٹ فارم سے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف مسلح جد وجہد کا اعلان کیا جس کا نام بعد میں الذوالفقار رکھا گیا ۔

                                                                                اورنگ زیب ظفر

                                                                                سینئر وایس پریذیڈ نٹ پاکستان پیپلز پارٹی کینیڈا

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...