1688708377628_56116385
Open/Free Access
۸۳
جالب میں اور کوٹ لکھپت جیل
ڈاکٹر اسرار شاہ
لاہور میں دوست جالب میلے کا انعقاد کر رہے ہیں اور میں کاغذ اور قلم پکڑے اپنے ماضی میں کھو گیا دوستوں نے اصرار کیا کہ اسرار شاہ لکھو۔
میری دعا ہے کہ کوئی نیا ضیاء الحق پیدا نہ ہو اور مجھے عمرِ رفتہ میں لے جائے میںکالج سے نکلوں تو ایسی یونیورسٹی میں داخل ہو جائوں جہاں ڈاکٹر مبشر حسین ،میاں محمود علی قصوری رائو رشید،رضا کاظم ایڈووکیٹ چوہدری اعتزاز حسین ،جسٹس سعید حسن ،آئی اے رحمن ،پروفیسر امین مغل،چوہدری اصغر خادم ،رشید قریشی ،شعیب ہاشمی ،حمید اختر ،محمد علی ایکٹر اور حبیب جالبؔجیسے پروفیسر اور اساتذہ نظر بند ہوں نئی نسل نا واقف ہے کہ یہ تمام لوگ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے اور ان میں کچھ آج بھی حیات ہیں ۔
کوٹ لکھپت جیل بھی کیا جیل تھی ،جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے جیل کی دیوار کے ساتھ شام کو واک کر نے کی اجازت دی ڈاکٹر مبشر صاحب جیل میں ’’ماں ‘‘کا کردارادا کر رہے تھے وہ جیل سے راشن لیتے اس کو پکواتے تمام لوگ چٹانوں پر بیٹھتے اور سب میں برابر تقسیم کرتے ۔صبح دس بجے سے لے کر دوپہرکے کھانے تک عبدا ﷲملک صاحب کے کمرے میں سٹڈی سرکل ہو تا اور آئی اے رحمن صاحب لیکچر دیتے اور تمام سر نگوں ہوتے ۔
حاجی رشید انور جن کا تعلق مزدور کسان پارٹی سے تھا کیا خوبصورت انسان تھے عمر کے اعتبار سے وہ میرے والد کی طرح تھے جسم میں سی آئی اے چونا منڈی کے تششدد کی دردیں موجود تھیں وہ صبح میرے جسم کو دباتے اور بچوں کی طرح پکارتے ہوئے اٹھاتے کہ ’’اسرار شاہ ‘‘اٹھ جائو سورج نکل آ یا ہے ۔
ہماری بارکوں اور ڈیوڑھی کے درمیان ہسپتال کے سامنے ایک پارک تھا روزانہ دل دہلا دینے والے منظر دیکھتے کہ ایک طاقتور ٹائپ قیدی سرخ لنگوٹ پہنے جسم پر تیل لگائے کرکٹ کے فاسٹ بائولر کی طرح فضا میں کوڑا لہراتے ہو ئے آ تا اور پارک میں درخت کے ساتھ بندھی ہوئی انسانی ڈمی کی پشت پر مارتا علی الصبح کسی بھی صاحب دل کے لیے یہ منظر کافی تھا ۔
محمد علی ایکٹر کیانفیس انسان تھے ہمیشہ بیٹا کہہ کر پکارتے اور تا مرگ اس رشتے کی لاج رکھی 19اپریل1981ء محمد علی کی سالگرہ تھی جیل کے تمام دوستوں نے ان کی سالگرہ منانے کا اہتمام کیا۔سپرنٹنڈنٹ کی منت کر کے کیک کا انتظام کیا گیا اور جالب صاحب نے قیدی کے نام سے ایک نظم سنائی جس میں تمام سیاسی قیدیوں کے نام تھے جو انکی کتاب ’’گنبدِ بے در ‘‘میں موجود ہے ۔
جالب صاحب اور میرے رومیٹ حاجی رشید انور اور قیصر مصطفی کے ناموں کا شعر لکھنا بھول گئے اور اس وقت ہماری بی کلاس نہیں تھی جہاں ہم قید تھے ہر صبح قیدی دو قطاروں میں مشقت کے لیے جیل کی دیوار سے متصل فیکٹری میں کام کرنے جاتے کھدر کا سفید لباس سر پر ٹوپی اور خطر ناک قیدیوں کے پائوں کی بیڑیوں کی جھنکار کو سننا روز کا معمول تھا ۔
کال کوٹھڑی کے دروازے علی الصبح کھل جاتے اور شام بجے بند ہو جاتے سالگرہ کی تقریب ختم ہو ئی تو میں نے حاجی صاحب سے کہا کہ مجھے کاغذ اور پنسل دیجیے میں نظم لکھنا چاہتا ہوںاور اس کے رد عمل میں مجھ پر کچھ اشعار وارد ہوئے ۔صبح ناشتے کے وقت سب چٹائی پر براجمان تھے حاجی صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ اسرار شام نے نظم لکھی ہے جس پر انہوںنے مخصوص لہجے میں کہا ’’ارشاد‘‘جس کے ابتدائی شعر کچھ یوں ہیں :
یہ کیسے تو نے قیدی دیکھے
دیکھ صبح مجبور وہ قیدی
بانہیں جن کی سوکھی ہیں
چلنے سے معذور وہ قیدی
اے، بھی دیکھے، بی، بھی دیکھے
کیوں نہ دیکھے سی، کے قیدی
حیرت سے وہ دیکھ رہے ہیں
یہ ہیں وہ جمہور کے قیدی
جالب صاحب اس وقت سوئے ہو ئے تھے ۔شام جب میں اور جالب صاحب واک کر رہے تھے تو انہوں نے بڑے مخصوص انداز میںکہا ’’تو نے میرے مقابلے میں لکھی ہے ‘‘تو میں نے ادب میں ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور کہا کہ ’’میں آپ سے مقابلے کی گستاخی نہیں کر سکتا ‘‘پھر انہوں نے ارشاد فرمایا ’’میں نے تمہیں شیرِ نر بنا دیا ہے اور انہو ں نے سنایا ’’بندھے بیٹھے ہیں سلاخوں میں شیرِ نر قیدی ‘‘
جالب صاحب سنت نگر میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے ایک دفعہ مشاعرے کی دعوت لے کر ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بستر بھی نہیں تھا لیکن غیرت مند اتنا کہ حکمرانوں سے ٹکرانا ان کا مشغلہ تھا ۔
پندرہ دن کے بعد صرف ایک دفعہ والدین سے ملنے کی اجازت تھی میں ڈیوڑھی میں اپنے والدین سے ملاقات کر نے جا رہا تھا اور جالب صاحب ملاقات کر کے واپس آ رہے تھے تو راستے میں ان سے کراس ہو گیا تو میں نے جالب صاحب سے کہا ۔
’’ملاقات آئی ہے ‘‘
انہوں نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ،ڈاکٹر :
حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی
جو بات وہ کہہ نہ سکی چہرہ سے عیاں تھی
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |