Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > انمول لوگ > جالب میں اورجیل جپھہ(دوسری قسط)

انمول لوگ |
حسنِ ادب
انمول لوگ

جالب میں اورجیل جپھہ(دوسری قسط)
Authors

ARI Id

1688708377628_56116386

Access

Open/Free Access

Pages

۸۶

جالبؔ  میں اور جیل جپھہ

 (دوسری قسط)

انسان ماں کی گود سے گور تک سیکھنے کے عمل سے گزر تا ہے ۔ویسے بھی یو نیورسٹی کا طالبعلم تھا اور زندگی مطالعے کے بجائے مشاہدے میں گزرگئی ۔ضیاء الحق کے دور میں عدالتوں کے اختیارات معطل تھے اور تمام سیاسی قیدی فوجی حکمرانوں کے حکم کے پابند تھے ۔

جنرل جیلانی پنجاب کا گورنر تھا اور اسمبلی حال مارشل لاء ہیڈ کواٹر تھا جو اس وقت کے چیف آف سٹاف ٹو گورنر پنجاب کے کنٹرول میں تھا وہاں سے نظر بندیوں کے حکم جا ری ہو تے تھے ۔جس کی مدت تین ماہ ہو تی اور اس کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی اگلے تین ماہ کا حکم نامہ جا ری کر دیا جاتا۔محمد علی ایکٹر کو ڈسٹرکٹ جیل جھنگ منتقل کر دیا گیا اور سب پر ایسے گزری کہ جیسے خاندان کو ئی فرد بچھڑ رہا ہو ۔

جیل میں شہید ذوالفقار علی بھٹوکی برسی منائی گئی اور یکم مئی پر بھی ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا طوالت کے خوف سے تفصیل نہیں لکھ رہا تین ماہ پورے ہوئے تو اگلے تین ماہ کی نظر بندی کا پروانہ آگیا ۔کچھ وقت گزرنے کے بعد جیل کے حکام کی طرف سے پیغام ملا کہ پیچھے سے حکم ہے کہ جو شخص معافی نامہ اور نیک چلنی کی ضمانت دے گا وہ جیل سے رہا ہو سکتا ہے ۔

جیل کے لان میں تمام نظر بند قیدیوںکی میٹنگ ہوئی ملک محمد حسین ایڈوکیٹ اور دوسرے جیل کے ساتھیوں نے احتجاج کیا کہ ان کی شرائط پر کوئی رہائی حاصل نہیں کرے گا ۔جسٹس سعید حسین اپنے مزاج کے انسان تھے انہوں نے اختلاف کیا اور پنجابی میں کہا

’’ضیاء الحق منافق اے ماں نے چھ فٹ دو انچ دا سوہنڑا منڈا جیلاں وچ سڑن واسطے پیدانئیں کیتا تسی جیل جھپہ پا کے رکھو میں جا رہیا واں ‘‘

کچھ دوستوں نے میری رہائی کا مطالبہ میٹنگ میں رکھا اور کہا کہ اسرار شاہ طالب علم ہے اس کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے اس کے لیے کیا حکم ہے ؟تو پھر رائو رشید صاحب اور تمام دوستوں نے کہا کہ اس کو ہر صورت باہر جا نا چاہیے ۔والد محترم نے مارشل لاء ہیڈ کواٹر میں میری رہائی کے لیے درخواست دی تو معلوم ہو ا کہ میرا کیس مختلف ہے او ر میں الذولفقار کے حوالے سے زیر تفتیش ہوں۔

یکم مئی سے پہلے ایک شخص کو میرے سیل میں نظر بند کیا گیا جس نے اپنا تعارف راجہ اورنگزیب کے نام سے کروایا اور خود کو واہ فیکٹری کا لیڈرظاہر کیا وہ مجھ سے ہر وقت الذولفقار کی باتیںکیا کرتا اور کہتا میرا تعلق میر مرتضی ٰ بھٹو سے ہے اور میں باہر جا کر تمہارا رابطہ افغانستان میر مرتضی بھٹو سے کروں گا ۔میںنے کہا میر امیر مرتضی سے کیا تعلق کہا اس کاغذ پر لکھ دو اوور وہ میرے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا شاید اس کو میری intentionنوٹ کر نے کے لیے سیل میں ڈالا گیا ہو لیکن اس کے بعد میں نے آج تک اس شخص کو نہیں دیکھا اس واقعہ کے بعد مجھے جیل کی ڈیوڑھی سے پیغام ملا کہ تمہاری ملاقات آئی ہے میں ڈیوڑھی میں پہنچا تو مجھے گھر کا کوئی فرد نظر نہیں آ یا تو اشارہ کیا ڈپٹی سپر ٹنڈنٹ جیل کے کمرے میں چلے جائو کمرے میں داخل ہو اتو دیکھا ہلکے پیازی رنگ کے سفاری سوٹ میں ملبوس ہاتھ میں کالے رنگ کی چھڑی لیے ڈپٹی سپرٹنڈنٹ کی کرسی پر ایک شخص جھول رہا تھا اس کے علاوہ چار لوگ سائڈ کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے جیل حکام کے کسی فرد کو کمرے میں آ نے کی اجازت نہ تھی کرسی پر گھومتے ہوئے بڑے فلمی انداز میں مجھے بیٹھنے کا حکم دیا اپنا تعارف میجر مسعود کے نام سے کروایا بعد میں علم ہو اکہ وہ شاہی قلعے میں مقیم قیدیوں کا انچارج تھا ۔ اس نے کہا کہ جو سوال کروں اس کا مجھے صحیح جواب چاہیے پیپلز پارٹی میں کس سے متاثر ہو ؟

’’میں نے کہا ذوالفقار علی بھٹو سے ‘‘

اس نے کہا وہ تو مر گیا اس کے بعد کس سے متاثر ہو ؟میں نے کہا :

’’میرا تعلق پی ۔ایس ۔ایف سے ہے پارٹی کے لوگوں میں میرا زیادہ رابطہ نہیں ۔‘‘

سوال کیا کہ کبھی شیخ رشید (بابائے سوشلزم )سے ملے ہو ؟

میں نے کہا’’ان سے کبھی نہیں ملا پھر بھی پی ۔ایس۔ایف کے حوالے سے جہانگیر بدر سے کبھی کبھی ملاقات ہوتی تھی ۔‘‘

جہانگیر بدر کا نام سن کر اس کے چہرے پر بڑی ذو معنی مسکراہٹ تھی اس نے کہا :

’’میں نے اس سے تفتیش کی ہے اس نے جو ریمارکس دیے میں اس کو دہرانا نہیں چاہتا اس نے کہا کہ تم اس کو لیڈر سمجھتے ہو میں نے کہا کہ ہاں اور مجھے جا نے کا حکم دیا ۔

تفتیش کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ اب میری رہائی ہو جائے گی کیونکہ وہ سمجھ گیا کہ جو جہانگیر بدر کو لیڈر کہتا ہے اس کا اپنا ذہنی معیار کیا ہو گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میں اور جہانگیر بدر ہمیشہ پارٹی میں ایک دوسرے کے حریف رہے اور ساری جنگ میں میرا ایک نظریاتی دوست خالد بٹ سائے کی طرح میرے والدین کے ساتھ رہا اس کے بعد جب میری رہائی کا حکم آ یا تو میرا آخری سمیسٹر ختم ہو چکا تھا اور میرا ایک تعلیمی سال ضائع ہو گیا تھا ۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...