Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > انمول لوگ > ۵۴ جیالے

انمول لوگ |
حسنِ ادب
انمول لوگ

۵۴ جیالے
Authors

ARI Id

1688708377628_56116402

Access

Open/Free Access

Pages

۱۱۲

54جیالے

5مارچ 1985ء ناصر بلوچ کی پھانسی اوور کوٹ لکھپت جیل میں الذوالفقار سازش کیس میں 54چیئر مین بھٹو شہید کے جیالوں کو سزائے موت پھر عمر قید میں تبدیلی ۔

(پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی مقدمے کا آغاز بھی تین سیاسی کارکنوں ادریس بیگ شہید عثمان غنی شہید و ادریس طوطی شہید کو پھانسی لگا کر کیا گیا فیصلے کے دن بھی ناصر بلوچ کو پھانسی دی گئی ۔

4/5مارچ 1985ء کی درمیانی شب تھی صبح ہماری ملاقات کا دن تھا ۔جوکہ ہفتے میں ایک بار 30منٹ کے لیے ہوتی تھی ۔میں اپنیسیل میں بیٹھا سر پر تیل کی مالش کر رہا تھا کہ ثقلین شاہ (چیف چیکر جو جیل کے تمام احاطوں کا انجارج ہو تا ہے )معمول کی گشت پر میرے کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے رک گیا ۔ثقلین شاہ جیل کے اچھے افسروں میں شامل تھا ۔وہ چیئر مین بھٹو شہید کا ہمدردتو تھا ایک واقعہ کے بعد گرویدہ ہو گیا یوںکہ ہمارے مقدمے کی سماعت کے دوران محرم کا مہینہ آ گیا ۔

ہم 54ساتھیوں کو پھانسی پہرہ بلاک نمبر دو سے سپیشل ملٹری کورٹ لے جایا جا تا تھا جو کہ جیل کے آخری کونے میں جہاں فیکٹری تھی وہاں خصوصی طور پر نئی تعمیر کی گئی عمارت تھی ۔ایک بہت بڑا ہال جس میں بیٹھنے کیے لیے لکڑی کے بینچ اور سامنے جج ایک برگیڈئیر ایک کرنل ایک مجسٹریٹ اور اس کا عملہ ۔درمیان میں دس فٹ کا جنگلہ تاکہ ہم جج پر حملہ نہ کر سکیں ۔برگیڈئیر سے بات کر نے کے لیے سپیکر اور مائیک کا استعمال ہو تا محرم الحرام میں جب ہمیں فوجی عدالت میں لے جا یا جا تا تو 54قیدیوں کو بیڑیاں لگی ہوئی تھیں ۔ایک ہتھکڑی دو قیدیوں کو لگائی جاتی تو اس طرح 54قیدیوں کی دو دو قیدیوں کی لائن بنا کر روانگی ہوتی جیل کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک خاصہ فاصلہ تھا ۔54میں سے کوئی 22-20سیاسی قیدی شیعہ تھے ۔انہیں محرم میں ایک جگہ اکٹھے ہو نے کی اجازت نہیں ہو تی تھی ۔(عام قیدیوں کو ہو تی تھی)تو جب ہم پھانسی بلاک سے نکلتے وہ اپنے مرثیے نوحے پڑھنا شروع کر دیتے تو چلتے ہوئے پائوں میں بیڑیوں اور ہتھکڑیوں کی جھنکار اور مرثیہ نوحہ خوانی اور ماتم کی آوازیں اتنی بلند بلند ہوتی کہ پوری جیل گونج  اٹھتی ۔ثقلین شاہ جو ہمارے ساتھ اپنے سپاہیوں کو لے کر چل رہا ہو تا رو پڑتا اور کہتا کہ میں نے اپنی ساری زندگی میں ایسا ماتم بیڑیوں ہتھکڑیوں سمیت نہیں دیکھا ۔اس کے بعد وہ ہمارے زیادہ قریب آ گیا اور خاصا خیال رکھتا ۔

بہر حال جب وہ اس رات میرے کمرے کے سامنے کھڑا ہوا تو کچھ اداس لگ رہا تھا عموماََ ہنستے مسکراتے ہو ئے ملتا ۔رات میں عموما میں بھی کوئی نہ کوئی کتاب پڑھ رہا ہو تا اس رات وہ پوچھنے لگا آج کچھ پڑھ کیوں نہیں رہے ۔میں نے کہاں صبح کراچی جیل میں ہمارے ایک دوست ناصر بلوچ کو پھانسی ہونی ہے ۔اس لیے دل اداس ہے ۔وہ کہنے لگا  جنرل ضیاء الحق سے خیر کی توقع نہیں ۔میں دعا ہی کر سکتا ہوں اسے پتہ تھا کہ شاید آج ہمارا فیصلہ ہو نا ہے اس لیے بہت تسلیاں دے رہا تھا کہ جب تمہارے مقدمے کا فیصلہ ہو تو ہمت جرأت سے سامنا کر نا پھر وہ چلا گیا ۔کچھ دیر بعد جب میں سو گیا تو مجھے جیل میں کچھ ہلچل محسوس ہو ئی ۔آنکھ کھلی تو سیل کے باہر پنجاب پولیس کے سپاہی کھڑے تھے (جیل کی اپنی پولیس ہو تی ہے )ایک سپاہی نے ہتھکڑی باہر ہی سے میری طرف بڑھائی کہ کمرے کے اندر ہی ہتھکڑی لگا کر  باہر نکلنا ہو گااور کہا کہ تمہیں کسی دوسری جیل میں منتقل کیا جائے گا ۔میں سمجھ گیا کہ مقدمہ کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔مگر آدھی رات کو ؟احاطے کے باہر نکلے تو ہم چودہ لوگ تھے باقی ابھی بند تھے ۔جب میں نے نظر دوڑائی تو چودہ وہ دوست تھے جودہ وہ دوست تھے جو جیل کے کھاتے اور فوجیوں کی لسٹ میں خطر ناک ترین قیدی تھے ۔ان کی تصویر پوسٹ کے بعد نیچے لگائوں گا ۔اتنے میں حامد سعید پیا مرحوم میرے پاس آ یا اور کہنے لگا دیکھنا راولپنڈی کی بے عزتی نہ کروانا اگر سزائے موت ہو تی ہے تو حوصلے سے رہنا ۔میں نے اسے ہنستے ہوئے کہا کہ مجھے تمہاری فکر ہے تم مجھے کیا نہیں جانتے ۔خیر ہم سب کو پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ جیل کے پھانسی پہرہ بلاک نمبر دو سے نکلے پولیس والے ہمیں جیل کی دیوڑھی کی طرف لے گئے پولیس کا قیدیون کو لے جا نے والا ٹرک باہر کے بجائے اندر ہی کھڑاتھا ۔ہم نے پوچھا کہاں جانا ہے ۔ایک افسر نے کہا فیصلہ ابھی آنا ہے ۔ہم لوگ تو ذہنی طور پر تیار تھے کہ سزائے موت ہی ہو نی ہے اور تمام بڑے اعتماد اور حوصلے میںتھے کہ جو ہو گا بہادری اور دلیری سے سامنا کر نا ہے ۔جیسے ہمارے سے پہلے پھانسی پانے والے دوستوں نے کیا ۔اتنے میں جیل سپرٹنڈنٹ کا دروازہ کھلتا ہے ۔مسعود انور قریشی سپریٹنڈنٹ بلند آواز میں بولا کہ مبارک ہو فوجی عدالت نے تم لوگوںسمیت 36افراد کو سزائے موت اور 18کو عمر قید کی سزا سنائی تھی ۔مگر ابھی ابھی گورنر پنجاب (جنرل غلام جیلانی جو سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی تھا )نے تمام سزائے موت کے قیدیوں کی سزا بھی عمر قید میں بدل دی ہے ۔یہ اپنی نوعیت کا منفرد فیصلہ تھا جو جج کے بجائے سپریٹنڈنٹ جیل نے بتا یا ۔فوجی عدالت دن کو لگ چکی تھی اور جج نے ہماری غیر مو جود گی میں فیصلہ سنانے کے بعد گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان کو بھجوایا جیسا اسے حکم تھا ۔گورنر نے سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی ۔

سپریٹنڈنٹ جیل فیصلہ سناتے ہی جیل کی ڈیوڑھی میں جیو ے جیوے بھٹو جیوے کے فلک شگاف نعروں سے گونجنے لگے ۔ہم آپس میں ایک دوسرے کے گلے ملے ایک نئی زندگی مل رہی تھی ۔ کیونکہ ہم نے اپنے ساتھیوں کو پھانسی  لگتے دیکھا تھاہم تو ذہنی طور پر تیار تھے بلکہ پھانسی کے بعد اجتماعی قبر کا سوچا پھر فیصلہ تبدیل کیا کہ پنجاب کے مختلف شہروں سے درجنوں جنازے اٹھیں گے تو کیا سما ں ہو گا ۔ہماری اگلی منزل ساہیوال جیل تھی ۔شام کو بی بی سی نے فیصلے کی خبر سنائی تو دوسرے دن میرے ابا جی اور ماں جی ساہیوال جیل پہنچ گئے دوسری طرف ساہیوال جیل میں موجو د بہت ہی پیارے دوست انور بیگ نے کسی سپاہی کو پیسے دے کر راولپنڈی فون کروا دیا تھا ۔ماںنے ملتے ہی کہا منہ کھو لو اور مٹھائی میرے منہ میں ڈال دی میں نے کہا یہ کیا مجھے عمر قید ہو ئی ہے آپ مبارک باد اور مٹھائی کھلا رہے ہیں ۔انہوں نے کہا میں ان پڑھ ضرور ہوں مگر اتنا شعور رکھتی ہوں کہ تمہیں سزائے موت ہو نی تھی ۔ادریس بیگ تمہارے بچپن کے دوست کی لاش ہم پھانسی کے بعد اپنے ہاتھوں سے دفنا چکے ہیں ۔عمر قید ہوئی جب تک جنرل ضیاء الحق زندہ ہے ۔تم جیل میں ہو جس دن یہ مرے گا تم باہر ہو ۔ٹھیک تین سال بعد جنرل ضیاء الحق کا جہاز ہوا میں پھٹ گیا اور پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن جیت گئیی ۔محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے پہلی نشری تقریر میں ہم مارشل لاء کے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کر دیا ۔

آج جب دوستوںکے اصرار پر کچھ لکھنے کی ابتدا کی تو کچھ دیر بعد قلم رک گیا ۔آٹھ سالہ قید کسی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھوم گئی ۔جو دوست بچھڑ گئے مر گئے پھانسی لگ گئے شدت سے یاد آئے کیسے کیسے نگینے بہادر خوبصورت ساتھی بھٹو کے نام پر کٹ مر نے والے جنہیں دیکھ کرحوصلہ بڑھتا تھا خون جوش مارتا تھا ۔لڑنے مرنے کو جی چاہتا تھا ۔لالہ اسد شہید ؒ انجم شہید ایاز سموں لالہ اسلم پٹھان شہید،عبدالرزاق جھرنا شہید کس کس کو یاد کروں میں زندگی میں شاید چند مرتبہ ہی رویا ہوں وہ بھی کسی کے سامنے نہیں آج بھی اکیلے میں بچوںکی طرح رویا ہوں کہ وہ کبھی نہ بھولنے والے ساتھی تھے ۔آپ کے اور دیگر دوستوں کے کہنے پر اپنی یادشتوں کو سمیٹنا شروع کر دیا ہے ۔مشکل کام ہے اس لیے نہیں کہ لکھنا مشکل ہے تلخ یادیں تکلیف دہ ہوتی ہیں یاد کر نے پر دل خون کے آنسو روتا ہے

                                                                                اورنگزیب ظفر خان  ضمیرکا قیدی

 

اورنگزیب ظفر خان

my pic.Death cell kot lakhpat jail

Lahore ...kot lakhpat sazish case ..gen..zia

martial law...1984...with my 53 PPP

Political psisners

مقام فیضؔ کوئی راہ  میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

 

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...