1688708377628_56116421
Open/Free Access
۱۳۴
منشور
اسلم گورداس پوری
ملوں کے مالکو، محلوں کے وارثو سن لو
زمین پاک کے خونی سوداگرو سن لو
وزیرو، شاہو، رئیسو، ستمگرو سن لو
سیاسی لیڈرو ملت کے تاجرو سن لو
تمہارے عہدِ سیاست کے زخم خوردہ عوام
تمہاری سطوت و ہیبت کا سر اتاریں گے
تمہارا نشۂ دولت اڑا کے دم لیں گے
تمہاری قوم کی تقدیر کو سنواریں گے
تمہارے محل بھی غربت سے آشنا ہوں گے
تمہارے پائوں بھی کھیتوں میں چلنا سیکھیں گے
تمہارے ہاتھ بھی محنت کے بیج بوئیں گے
تمام لوگ برابر حقوق رکھیں گے
وہ کوہ نور ہو بیکو ہو یا گندہارا ہو
یہ دس کروڑ کا حصہ ہے ایک دو کا نہیں
ٹرانسپورٹ ہو ریلیں ہوں یا ہوائی جہاز
یہ ساری قوم کا حصہ ہے چار سو کا نہیں
یہ سینما ہال یہ بنگلے یہ خوشنما ہوٹل
بتائو کن کی بدولت یہ جگمگاتے ہیں
تم ان کے خون کو ارزاں خیال کرتے ہو
کہ جن کے خوں سے تمہاری حیات روشن ہے
کہ جن کے ہاتھ سے دن بھر مشینیں چلتی ہیں
کہ جن کے ہاتھ سے سیاہ فارم رات روشن ہے
زمیندارو وڈیرو تمہاری جاگیریں
غریب و محنتی دہقاں کو بانٹی جائیں گی
بلند و پست کے جھگڑے کو ختم کر دیں گے
خدا نے چاہا تو وہ ساعتیں بھی آئیں گی
بہار سارے چمن کو گلوں سے بھر دے گی
ہر ایک گھر میں چراغوں کی روشنی ہو گی
ہر ایک شخص کو روٹی ملے گی عزت کی
ہر ایک فرد کی خوشحال زندگی ہو گی
ابھی تو بحر ستم ہم کو پار کرنا ہے
ابھی خزاں کو بدل کر بہار کرنا ہے
ابھی تو ہم پہ ستم کے ہزار پہرے ہیں
ابھی تو دامنِ شب تار تار کرنا ہے
ہمارے عہد مساوات کے تصور میں
جلال افسر شاہی کا کچھ وقار نہیں
ہمارے دور اخوت میں سب برابر ہیں
کوئی غلام نہیں کوئی تاجدار نہیں
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |