Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > انمول لوگ > وقت کی پکار ،بے نظیر بار بار

انمول لوگ |
حسنِ ادب
انمول لوگ

وقت کی پکار ،بے نظیر بار بار
Authors

ARI Id

1688708377628_56116435

Access

Open/Free Access

Pages

۱۵۹

وقت کی پکار بے نظیر بار بار

                                                                                                                تحریر :ابرار میر ،لندن

جب 18اکتوبر2007ء کو پیپلز پرٹی کے کارواں پر کارساز میں حملہ ہوا تو ٹارگٹ نہ صرف محترمہ شہید بے نظیر بھٹو تھیں بلکہ ٹرکوں گاڑیوں میں موجود پیپلز پارٹی کی صف اول اور صف دوم کی ساری قیادت بھی تھی ۔وہ ہولناک قیامت خیز منظر دیکھے نہیں جا سکتے تھے ۔لیکن انسان کا تعصب ، بغض اور نفرت شاید اس لیے اسے شیطانیت سے بھی زیادہ مکرو ہ کر دیتا ہے ۔برطانیہ میں بیٹھ کر ہم نے ایسے تاثرات بھی سنے کہ کہا گیا ’’یہ حملہ بے نظیر نے خود کروایا تا کہ سستی شہرت حاصل کی جا سکے۔ ‘‘ وہ لاڑکانہ کے دیہات والی لڑکی لال قلندر اور پنڈی کے سکول میں پڑھنے والی اپنے آپ کو شہری بھی کہتی اور دیہاتی بھی مانتی تھی ۔اس لیے وہ کسان مزدور ،غریب اور شخص کی درد شناس اور ہمراز بھی تھی اس کی للکا ر خوشی اور کرب کی ایسی آمیز ش تھی کہ جسے وہی سمجھ سکتی تھی ۔

وہ بچپن سے لڑکپن تک شاہی زندگی گزار رہی تھی مگر جوانی میں ظلم و ستم کے پہاڑ اس کے منتظر تھے اور آغاز شہید ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی قتل کے فیصلے والی پھانسی سے ہوا ۔پھر ایک نہ رکنے والی کربلا شروع ہو گئی اور اس کا جواں سال بھائی شاہنواز بھٹو سن پچاسی میں ان سے چھین لیا گیا۔وہ اس قیامت کو برداشت کرتے ہوئے پھر کھڑی ہوئیں اور ملک بدر ی کے بعد دس اپریل چھیاسی کو پاکستان واپس آئیں ۔لاہور میں جیسے سارا پاکستان ہی ان کے استقبال کو آ پہنچا ہو اور منٹوں کا سفر گھنٹوں میں ہوا کہ جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’مشرق کی بیٹی ‘‘میں بھی کیا ۔سن ستاسی میں شادی ہوئی اور اﷲ نے اگلے ہی سال ایک چاند سے بیٹے ’’بلاول ‘‘سے نواز دیا ۔اسی سال مسلم امہ کی سب سے پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا ۔ان کی دو حکومتوں کو ایسے ختم کیا گیا گویا ناقابل برداشت تھیں ۔حد تو یہ ہو ئی کہ کسی حد تک تھمی ہوئی کر بلا نے ان کے دوسرے دو ر حکومت میں پھر سر اٹھا لیا اور سن چھیانوے میں ان کا ایک اور جوان بھائی میر مرتضی بھٹو دن دیہاڑے شہید کر دیا گیا ۔اس صدمے نے پہلے سے چوٹ کھائی ماں کو مکمل طور پر دماغی طور پر کمزور کر دیا ۔

یہ لڑکی لال قلندر کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنے شوہر آصف علی زرداری کے لیے جیلوں میں چکر لگاتی رہی اسی دوران ایک بار پھر آٹھ سال کے لیے ملک بدری کا سامنا کر نا پڑا۔مگر جب پاکستان میں ایک بار پھر آمریت اپنے عروج پر تھی اور آمر رعونیت کے نشے میں بنیادی انسانی حقوق سمیت آئین کو روندتا چلا جا رہا تھا تو اس وقت اس لڑکی لال قلندر نے آمر کو للکارا اور موت کی بھی پرواہ نہیں کی اور پاکستان واپسی کا اعلان کر دیا ۔دنیا نے کہا بھی کہ بی بی آپ مت جائو وہاں آپ کو مار دیں گے تو دلیر باپ کی بہادر بیٹی نے جواب دیا کہ ’’میںباہر کسی ملک میں ایکسیڈنٹ میں مرنے سے بہتر اپنے ملک میں اپنے عوام کے لیے مر نے کو ترجیح دوں گی ‘‘دوبئی میں اپنے بچوں اور شوہر نے وداع کیا اور وہ ایک ایسا دل خراش منظر ہو گا کہ جب ایک ماں کو پتہ بھی تھا کہ وہ شاید دوبارہ اپنے بچوں کو نہ دیکھ سکے گی وہ پھر بھی نہیں رکی اور مقتل کی طرف روانہ ہو گئی ۔ 27دسمبر2007ء کو وہ جیسے حور پری لگ رہی تھیں کہ اسی تھمی ہوئی کر بلا نے پھر میدان لگایا اور لڑکی لال قلندر نے جام شہادت نوش فرمایا ۔ایک طرف ماں ،اپنے بچے ،شوہر اور اکلوتی بہن کے علاوہ رشتہ دار اور پھر پورا پاکستان سکتے میں چلا گیا ۔وہ چھلاوا بن کر آنا پھر آناََ فاناََجدا ہو گئیں ۔پیپلز پارٹی کاکارکن ایک بے یقینی کی کیفیت میں چلا گیا ۔2008ء میں پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر پورے اقتدار سے رو کا گیا لیکن آج یہ سوال میرے ذہن میں بار بار آ تا ہے کہ صرف پانچ سال کے وقفے کے بعد پیپلز پارٹی کا کارکن اور ووٹر کدھر چلا گیا کہ پنجاب میں جہاں کم از کم پچاس ہزار سے لاکھوں کی تعداد میں ووٹ ملتے تھے وہاں پانچ ہزار سے پندرہ بیس یا پھر تیس چالیس ہزار تک محدود کر دیا گیا لیکن پھر تاریخ کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو امید نظر آتی ہے کہ جب کربلا کی شہادتوں کی داستان دین کو زند ہ کر گئی وہیں سیاسی ولی شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید رانی بے نظیر بھٹو کی قربانی کسی صورت جمہوریت کا سورج غروب نہیں ہو نے دی گی ۔2011ء میں مادر جمہوریت محترمہ نصرت بھٹو بھی دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں وقت کا دھارا بدلتا رہا اور اسی لڑکی لال قلندر کے لخت جگر بلاول بھٹو نے اپنے نانا ،ماموں اور ماں کے غم کو اپنی طاقت بنا یا اور میدان جنگ میں بھٹو کا جھنڈا تھا مے مشن کی تکمیل کا عزم کرتے ہوئے للکار رہا ہے ۔ابھی بلاول بھٹو آ گے بڑھ ہی رہا تھا کہ تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور وقت کی پکار بے نظیر کی شکل میں آصفہ بھٹو بھی عوام کے لیے آ کھڑی ہوئیں ۔اب دنیا کیسے نہ مانے یہ خاندان اقتدار نہیں بلکہ اپنی اقدار کو زندہ رکھنے کے لیے ملک و قوم کی بہتری اور ترقی کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ دیتا ہے ۔یہ وہی خاندان ہے جو سر کٹا دیتا ہے لیکن اپنی قوم کو مایوسی نہیں دیتا ۔آج کا بچہ ،بوڑھا ،جوان اور مائیں بہنیں یک زبان پکار اٹھیں کہ بے نظیر پھر آ گئی جیسے زندگی آ گئی ۔

میری ہمتیں ابھی جھکی نہیں میرے حوصلے ابھی بلند ہیں

مجھے ہار جیت سے غرض نہیں میری جنگ تھی سو میں لڑ گیا

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...