Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > انمول لوگ > چشم کشا انٹر ویو

انمول لوگ |
حسنِ ادب
انمول لوگ

چشم کشا انٹر ویو
Authors

ARI Id

1688708377628_56116441

Access

Open/Free Access

Pages

۱۷۰

چشم کُشا انٹر ویو

پاکستان پیپلز پارٹی کن حالات و مقاصد کے لیے قائم ہوئی ،پارٹی سے قبل لاہور کی کن شخصیات سے بھٹو صاحب کی قربت تھی ۔شہید بھٹو کی پارٹی کے قیام سے پہلے لاہور ،لائلپور ،گجرات کے دوروں کے دوران عوام کی طرف سے والہانہ اظہار محبت کے کیا کیا واقعات پیش آئے ،تاسیسی اجلاس میں لاہور ،قصور ،راولپنڈی ،فیصل آباد ،سرگودھا ،ملتان ،ساہیوال ،وہاڑی اور سندھ سے شریک ہو نے والے مندوبین کون تھے ۔لیفٹ کی بھٹو شہید سے نفرت کے محرکات کیا ہیں ۔ہالا کنونشن میں معراج محمد خان کی طرف سے پرچی کی بجائے برچھی سے خون سوشلسٹ انقلاب کے مطالبہ پر قائد عوام نے کیا جواب دیا ۔۔۔۔یہ سب کچھ جاننے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی،رکن ،شہید بھٹو کے ساتھی ،ترقی پسند دانشور ،شاعر ،محقق و ادیب جناب اسلم گورداسپوری کا چشم کشا مضمون ۔

عام تاثر یہی تھا اور اب بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی والے کھلے ،ڈلے ،منہ پھٹ ،سر کش ، اپنی لیڈر شپ کے ساتھ زیادہ فرینک قسم کے لوگ ہوتے ہیں جبکہ مسلم لیگیے عموما کاروباری ٹائپ ، میسنے ،موقع شناس و موقع پرست چاپلوس قسم کی طبیعتوںکے مالک ہو تے ہیں جوکبھی ’’گیلے ‘‘پر پائوںنہیں رکھتے ،رسک نہیں لیتے ،انتہائی لچکدار ’’کردار ‘‘کے حامل ہوتے ہیں ۔ماضی کی حد تک یہ تاثر شاید درست بھی تھا کہ معراج محمد خان ،مختار رانا آف لائلپور ،جے اے رحیم اور حنیف رامے جیسے نرم مزاج ،دانشور مصور فنکار قسم کے لوگ بھی بھٹو جیسے بندے کے خلاف ڈھے گئے ۔جبکہ مسلم لیگ کے مزاج میں سازش اور ٹانگیں کھینچنا تو موجود تھا لیکن آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مزاحمت کا رواج ہر گز نہیں تھا لیکن اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ رولز ہی ریورس ہوگئے جس کی تازہ ترین مثالیں مریم اور بلاول ہیں ۔بلاول پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنمائوںکی گود میں کھیلا ہے ۔ممکن ہے بھلے وقتوں میں دو چار چھ قائدین کی گود گیلی بھی کی ہو لیکن جب اس کل کے بچے کو سکائی لیب کی طرح پارٹی کی صف اول لیڈر شپ کے اوپر مسلط کیا گیا تو کسی طرف سے چوںکی آواز بھی نہیں سنائی دی ۔مجال ہے جو کسی ایک ’’جمہوری چیمپئین ‘‘نے بھی احتجاج کرتے ہوئے کہا ہو کہ یہ فیصلہ نہ جمہوریت کے لیے ٹھیک ہے نہ پارٹی کے لیے درست ہے نہ خود بلاول کے لیے صحیح ہو گا ۔بلاول بے شک پارٹی کی قیادت کرے لیکن چند سال بعد اور تب تک اسے مختلف پوزیشنز میں کام کر کے مختلف قسم کے تجربات سے اورپوری طرح بالغ ہو نے کا موقع دیا جائے لیکن نہیں ۔۔۔۔کے پھنے خانوں نے ’’فردِ واحد ‘‘ابو بلاول آصف زرداری کا یہ فیصلہ مٹی کے مادھوئوں کی طرح تسلیم کر لیا کہ شاید یہی ان کی اس بد صورت جمہوریت کا حسن اور عوام سے انتقام ہے۔کسی نے سوچنے کا تکلف تردد بھی نہیںکیاکہ جو پارٹی اپنے سینئر ترین قائدین سے انصاف نہیں کر سکتی وہ عوام کے ساتھ کیا کرے گی ۔ جو خود اپنے اندر میرٹ کو اس طرح روندتے اور ذلیل کرتے ہیں وہ باہر کیا کریں گے ؟یہ درست کہ معاشرہ بری طرح شخصیت پرستی کی لعنت میں گرفتار ہے جوکسب نہیں نسب پر ریجھتا ہے لیکن دکھاوے کی حد تک ہی سہی ۔۔۔چند سال ہی انتظار کر لیا ہو تا لیکن نہیں …نہ پارٹی کے پرو پرائٹر کو شرم آئی نہ اس نام نہاد سینئر قیادت کو جس نے اتنی ہی بے شرمی سے یہ فیصلہ قبول کر لیا ۔مجھے سو فیصد اعتماد ہے کہ اگر پارٹی کے سب نہ سہی صرف آٹھ دس بزرگ اپنے سفید بالوں کی لاج رکھتے ہوئے بیک وقت نرم سا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے یہ عرض کر دیتے کہ اگر زرداری صاحب اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتے تو مجبوراََ ہمیں واپس گھر و گھری جا نا ہو گا لیکن نہیں …خدا جا نے بے عزت ہو نے میں ایسی کونسی لذت ہے جسے چھوڑنا ممکن نہیں ۔پیپلز پارٹی کے ہی پرانے جیالے اسلم گورداسپوری کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں ۔

زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لیے

عہد کم ظرف کی ہر بات گوارا کر لی

دوسری طرف مسلم لیگ نون کی حیران کن پرفارمنس ہے جس کے چند باوقار چند سینئر لوگوں نے نواز شریف کو ’’مائنس مریم ‘‘فارمولا تسلیم کر نے پر مجبور کر دیا ۔میںیہ بات اخبارات میں شائع ہونے والی خبروںکے تناظرمیں عرض کر رہا ہوں اور ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کر نا چاہتا ہوں جنہوں نے پاکستان کے سیاسی کلچر میں یہ نئی روایت متعارف کرائی ہے ۔یہ رویہ جمہوریت کو اصلی اصلی حقیقی جمہوریت کے قریب تر کر نے میں معاون ثابت ہو گا ۔ہماری تقریبا تمام تر سیاسی قیادت 66تا70سال کے درمیان ہی اینی زندگی کے بڑے نوٹ خرچ کرنے کے بعد اب میری طرح ان کے پاس بھی ریز گاری کے سوا کچھ نہیں ۔سو ظاہر ہے مستقبل بلاول اور مریم کی نسل کا ہی ہے۔یہ جم جم آئیں ،سر آنکھوں پر ،چشم ما روشن دل ماشاد لیکن وقار کے ساتھ مرحلہ وا ر آئیں ۔پوری طرح تیار آئیں کسی چھوٹے موٹے پراسیس سے گزر کر آئیں تاکہ ان کی آمد باعزت ،مستحکم ،مضبوط اور دیر پا ہو ۔اخبار یا یوںکہیں کسی بھی کارو بار کا مالک اوور نائٹ کچھ بھی اپنے بچوں کے سپرد نہیں کر دیتا کہ اس سے کارو بار ہی نہیں برخودار بھی نقصان میں رہتا ہے ۔لائلپور میں میرے 80فیصد کلاس فیلوز ،دوستوںکا تعلق تگڑے کارو باری گھرانوں سے تھا ۔کسی ایک کو بھی ایک جست میں گدی نصیب نہیں ہوئی ،متعلقہ کاروبار کے ہر شعبے کی سیر کرائی گئی پھر کہیں جا کر اڈے پر بیٹھے ۔۔۔یہاں تو کاروبارِ حکومت کا معاملہ ہے جب تک موروثیت کے مرض سے نجات نہیں ملتی۔ ضرور لائو اپنی اولادوں کو لیکن کسی سلیقے اور رنگ ڈھنگ سے کہ نہ ان کے بزرگ جو کر دکھائی دیں نہ یہ خود ۔ بلاول،مریم موسٹ ویلکم لیکن بھونڈے طریقے سے نہیں ۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...