Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > انمول لوگ > سید قمر عباس

انمول لوگ |
حسنِ ادب
انمول لوگ

سید قمر عباس
ARI Id

1688708377628_56116444

Access

Open/Free Access

Pages

۱۷۵

لال سلام بھٹو

 

سید قمر عباس

وہ پشاور یونیورسٹی کی طلبہ کی سیاست میں متحرک تھے اور پی ایس ایف کے مقبول رہنما تھے ۔ سید قمر عباس نے ہم سے کہا کہ قاضی سلطان محمود صاحب سے کہو کہ مجھے کچھ دن دیں ان شاء اﷲ خیبر پختونخواہ کے طلبہ پنجاب کے طلبہ کے شانہ بہ شانہ تحریک  چلائیں گے ۔ہم واپس راولپنڈی آ گئے دوسرے دن رات کو بی بی سی اردو سنا کہ پشاور یو نیورسٹی کے طلبہ کا بھرپور احتجاج یونیورسٹی بند کر دی گئی جمرود روڈ مکمل بلاک سید قمر عباس شہید ایک بہادر انسان تھے وہ مشہور شاعر فارغ بخا ری کے صاحبزادے تھے ۔پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانیوں میں سے تھے ۔ساری زندگی جد وجہد میں گزاری متعدد بار جیلوں میں گئے ان کی شہادت سے پیدا ہو نے والا خلاء آج تک پر نہیں ہو سکا ۔

یہ سال 1972کی بات ہے اور غالبا مہینہ بھی فروری کا تھا کیو نکہ مجھے یاد ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو بر سراقتدار آئے ہوئے یہی کوئی مہینہ ڈیڑھ ہو ا تھا ۔میں ان دنوں گورڈن کالج راولپنڈی کی سٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا ۔چونکہ بھٹو صاحب نے جنرل یحی کوreplace کیا تھا اس لیے وہ نہ صرف ملک کے صدر تھے بلکہ مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر بھی تھے ۔اسی اعتبار سے صوبوںکے گورنر ،ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ٹھہرے پنجاب میں غلام مصطفی کھر کے پاس یہ عہدہ تھا۔کھر صاحب نے صوبے امور چلانے کے لیے ایک کابینہ تشکیل دے رکھی تھی ۔جس میں راولپنڈی سے منتخب شدہ ایم این اے خورشید حسن میر تعلیم کا مشیر بنا یا گیا تھا ۔میںنے صدارت کا الیکشن بھاری اکثریت سے جیت رکھا تھا ۔نسبتاََ آسانی سے کیونکہ گزشتہ سال بھی میں نائب صدر رہ چکا تھا ۔نائب صدارت کا الیکشن کا فی مشکل تھا کیونکہ میرے مدِ مقابل نئیر بخاری تھے ،جو بعد میں ملکی سینٹ کے صدر بنے اور آج کل پیپلز پارٹی کے معروف لیڈر ہیں ۔

مجھ میںجہاں اور بے پناہ خامیاں ہیں وہاں ایک یہ بھی ہے کہ مجھے کسی کے پیچھے پیچھے چلنا گوارہ نہیں میں یا تو آ گے آ گے چلوں گا اگر یہ ممکن نہیں تو پھر الگ ہو کے اکیلا ہی چل دوں گا ۔اس لیے میں نے یہ دونوں مندرجہ بالا الیکشن بطور آزاد امیدوار لڑے اور جیتے یہی وجہ ہے کہ سیاسی ذہن رکھنے کے باوجود کبھی کسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوا ۔مجھے یقین ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت جوائن کرتا بھی تو انہوںنے مجھے پارٹی سے جلد ہی باہر نکال پھینکنا تھا کیونکہ مجھ میں ایک اور خرابی یہ بھی ہے کہ میںنے اپنے دل اور زبان کے درمیان منافقت اور مصلحت کے فلٹر نہیں لگا رکھے۔ تمہید ضرورت سے زیادہ لمبی ہو گئی بتانا یہ تھا کہ فروری 1972ء کا ہی کوئی ایک دن تھا کہ میں اپنے دوست حبیب خان کے ساتھ کالج آ یا ،تو دیکھا کہ کالج تقریبا خالی ہے اور کوئی سٹوڈنٹ نظر نہیں آ رہا ۔میںنے سوچا کہ خدانخواستہ کو ئی حادثہ نہ ہو گیا ہو ۔اور یوں کالج میں چھٹی کر دی گئی ہو خیر تھوڑا آگے ہی بڑھا تھاکالج کا چپڑاسی عاشق نظر پڑا ۔میرے پوچھنے پر اس نے بتا یا کہ کالج میں چھٹی نہیں بلکہ سارے سٹوڈنٹس جوبلی ہال میں ہیں اور کوئی فنکشن ہے ۔میںنے دل میں سوچا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کالج میں طالب علموں کا کوئی فنکشن ہو اور مجھے اس بات کا علم ہی نہ ہو ؟خیر جب جوبلی ہال پہنچا تو دیکھا کہ اسٹیج پر خورشید حسن میر صاحب تشریف فرما ہیں اور ساتھ ان کے کالج کے پرنسپل صا حب بیٹھے ہیں اور ایک پروفیسر روسٹرم سے میر صاحب کے بارے میں کچھ فرما رہے ہیں ۔

میں چلتا ہوا سیدھا اسٹیج پر چلا گیا اور پروفیسر صاحب سے معذرت کرتے ہوئے مائیک پہ آگیا اور پرنسپل کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا ’’محترم پرنسپل صاحب!تو انہیں سٹاف روم میں ملوائیے ۔لیکن طلبہ کو بھاشن تب تک نہیں دے سکتے جب تک میں اجازت نہ دوں ۔‘‘اس پر کچھ پیپلز پارٹی کے حامی طلبہ نے احتجاج کرنے کی کوشش کی اور یہ دیکھتے ہوئے میر صاحب بھی پکے ہو گئے اور اسٹیج چھوڑنے سے انکار کر دیا ۔اس پر میر ی طالب علموں کو صرف اتنا کہنے کی دیر تھی کہ ’’آپ لوگ میر صاحب کے باہر جانے میں مدد کریں ‘‘کہ انہوں نے میر صاحب کے پیر زمین پر نہ لگنے دیے اور اپنے کندھوں پر اٹھا کر ہال کے طویل ترین راستے سے ہوتے ہوئے باہر کی سیڑھیوں پر جا کر پھینک دیا ۔اس ہوائی سفر کے دوران مجھے یقین ہے کہ میر صاحب نے سوچا ہو گا کہ ان سے سیاسی غلطی سرزد ہو گئی ہے کیونکہ کندھوں سے اترتے ہی انہوںنے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی خیر میں چلا گیا وہ کہنے لگے کہ ان کا کوئی ایسا ارادہ نہیں تھا ۔بس ایک غلط فہمی سمجھیں اور یہ کہ وہ چاہتے ہیں کہ طالب علموںکے سامنے اپنی پوزیشن کلئیر کر دیں ۔میں نے کہا کہ ضرور کیجیے۔اس پر وہ اپنی سرکاری کار کی چھت پرچڑھ گئے اور خطاب شروع کر دیا ۔طالب علم تھے کہ ان کی بات سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے ۔یہ دیکھتے ہوئے میں بھی کار پر چڑھ گیا اور سب کو تلقین کی کہ میر صاحب کو سنا جائے ۔یہ تصویر اسی لمحہ کی ہے ۔

یہ وہ دن تھے کہ بڑے سے بڑا سورما بھی حکومت کے خلاف چوں تک بھی نہیں کرتا تھا اس کے وزیر کو نکال دینا تو دور کی بات ہے لیکن ہماری بھی جوانی کے دن تھے کہ جب ہم بقول اقبال :

تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

چونکہ حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے اور انہیں فوری نوعیت کے اور بہت سے مسائل سے واسطہ تھا ۔اس لیے میری بحث ہو گئی ۔ورنہ یہی حرکت سال ایک دو کے بعد ہوئی ہوتی تو کسی سڑک کے کنارے مار دیا جاتا ۔یا کسی دلائی کیمپ میں گل سڑ گیا ہو تا اور یہ تحریر لکھنے کی نوبت ہی نہ آ تی ۔

سینتالیس سال پرانی بات ہے ،سوچا سنا ہی دوں

کیونکہ بقول یار ِ دیرینہ شعیب بن عزیز :

میری صورت سے نہ کر میری حقیقت کا قیاس

میری بنیادوں میں جو تھا میرے ملبے میں نہیں

                                                                                                                                شاہد مسعود

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...