Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > انمول لوگ > چھوٹے قد کا بڑا آدمی

انمول لوگ |
حسنِ ادب
انمول لوگ

چھوٹے قد کا بڑا آدمی
ARI Id

1688708377628_56116449

Access

Open/Free Access

Pages

۱۸۲

چھوٹے قد کا بڑا آدمی

قاضی سلطان محمود مرحوم کو ہم سے بچھڑے پانچ سال ہو گئے ۔میرے سیاسی استادوںمیں دو لو گ شامل ہیں ۔قاضی سلطان محمود اور سابق سینئر استاد سردار سلیم صاحب ۔جن سے نہ صرف بہت کچھ سیکھا بلکہ 1978ء میں شروع ہو نے والا مزاحمتی سیاست کا سفر ان کے ساتھ راولپنڈی اس لحاظ سے خوش قسمت شہر تھا جسے پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست میں نہ صرف نمایاں مقام حاصل رہا ہے بلکہ سردار سلیم صاحب اور قاضی سلطان محمود مرحوم جیسی بہادر قیادت ملی دونوں بائیں بازو کی ترقی پسند سیاست پر یقین رکھتے تھے ۔ان کی سوچ فکر نے میرے جیسے سینکڑوں کا رکنوں کی سیاسی تربیت کی جنہوں نے آگے چل کر جنرل ضیاء الحق کے خلاف جمہوریت کی بحالی کی جنگ میں بھرپور کردار ادا کیا ۔

چھوٹے قد کا بڑا آدمی جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف مزاحمتی تحریک کا ایک اہم کردار سلطان محمود قاضی۔ 1979ء بلدیاتی انتخابات کا بگل بج چکا تھا راولپنڈی میں ٹکٹوںکی تقسیم ہو چکی تھی ہمارے حلقہ میں سنا تھا کہ ٹکٹ شیخ جلیل اختر مرحوم کو ملا ہے جو پی پی پی وارڈ کمیٹی ڈھیری حسن آباد کے چئیر مین تھے ۔ایک صبح دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے ملک الطاف حسین مرحوم کھڑے تھے ۔میرا ان سے کوئی تعارف نہ تھا لیکن بلدیاتی انتخابات کے بعد تو ملک صاحب میرے قریب ترین دوستوں میں شامل ہوئے ۔شاہی قلعہ تک اکٹھے گئے ۔ملک الطاف حسین مرحوم نے بتا یا کہ انہیں پاکستا ن پیپلز پارٹی نے وارڈ نمبر 5سے ٹکٹ دیا ہے ۔میں نے انہیں کہا کہ میری تو ابھی ووٹ بھی نہیں بنی میں میٹر ک کا طالب علم ہوں تو انہوں نے ہنستے ہو ئے کہا کہ مجھے باہر دکاندار چاچا شفیق نے بتا یا کہ اس محلے کے ووٹ حاصل کر نے ہیں تو ظفر سے ملو وہ چھوٹا ہے مگر پاکستا ن پیپلز پارٹی کا زبردست سپوٹر ہے ۔میںنے ٹکٹ کے متعلق کہا کہ سنا تھا کہ ٹکٹ شیخ جلیل اختر مرحوم کو ملا ہے تو وہ کہنے لگے کہ انہیں ہی الیکشن لڑنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن وہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے تو ٹکٹ مجھے مل گیا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اگر آپ کو ٹکٹ مل گیا ہے تو آپ کی بھر پور سپورٹ کروں گا پھر بھی میںنے تفصیل کے لیے علاقے کے کارکن طفیل قریشی کو ساتھ لیا اور قاضی سلطان محمود مرحوم کے گھر جھنڈا چچی چلا گیا وہ اس وقت پاکستا ن پیپلز پارٹی راولپنڈی کے جنرل سیکرٹری تھے ۔قاضی صاحب ک وتو ویسے میں چیئر مین بھٹو شہید کی رہائی کی تحریک میں اکثر کمیٹی چوک میں ہوئے مظاہروں میں دیکھا کرتا تھا مگر میرا تعارف نہیں ہوا تھا خیر جھنڈا چچی ان کے گھر میں ان سے پہلا تعارف تھا وہ بھی صرف ٹکٹ کنفرم کر نے کی حد تک ۔میرا تعلق ہائی سکول میںہی پیپلز سٹوڈنٹس سے جڑ چکا تھا اس لیے پارٹی سے براہ راست کوئی تعلق نہ ہو تا تھا ۔بلدیاتی انتخابات میں آہستہ آہستہ پارٹی کے لیڈران سے تعلق بنا ۔اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کالعدم پیپلز پارٹی تھی۔اقبال روڈ پر موجود دفتر سیل ہو چکا تھا ۔پاکستا ن پیپلز پارٹی کی قیادت پارک ہوٹل میں بیٹھا کرتی تھی جس میں سردار سلیم قاضی سلطان محمود مرحوم ،رشید میر ،آغا محمد اقبال ،بابو رشید مرحوم ،غضنفر علی شاہ نمایاں تھے ۔میں پھر اکثر پارک ہوٹل ان سے ملنے جا یا کر تاتھا ۔اسی زمانے میں اپنے ساتھی شیخ عبدالقیوم جو آج لندن میںہیں بھی دوستی ہوئی کو کہ میرے علاقے میں رہتے تھے ۔پاکستا ن پیپلز پارٹی کے کسی لیڈر کے پاس اپنی گاڑی تک نہ تھی سب میری طرح بسوں ویگنوں ٹانگہ ٹیکسی یا پیدل مارچ ہوتے ۔شیخ عبدالقیوم کے پاس اپنی موٹر سائیکل تھی تو پارک ہوٹل آنا جانا مستقل ہو گیا ۔ بلکہ اکثر واپسی پر ہم قاضی سلطان محمود کو اپنے ساتھ بٹھاتے اور جھنڈا چچی ان کے گھر اتار کر گھر جاتے ۔بلکہ ہم دونوںکی حیثیت ان کے فیملی ممبر جیسی ہو گئی ۔جب بھی ان کے گھر جاتے وہ کھانا کھائے بغیر نہیں جانے دیتے جہاں ان کے بھانجوں بھتیجوں سے بھی دوستی ہو گئی یہاں قاضی صاحب کے بھانجوں بھتیجوں کا کردار بھی قابل تحسین ہے کہ اگر وہ ساتھ نہ دیتے تو ان کی سیاسی جدوجہد کبھی کامیاب نہ ہوسکتی تھی ۔قاضی صاحب اور سردار سلیم صاحب کو میں اپنے سیاسی استادوں میں شمار کرتا ہوں ۔جن سے میںنے بہت کچھ سیکھا قاضی صاحب مجھے لیکچر کے علاوہ کتابیں بھی پڑھنے کے لیے دیتے ۔سبط حسن کی کتابیں انہوں نے مجھے پڑھنے کے لیے دیں بائیں بازو کی سیاست پر یقین رکھتے تھے ۔اسی وجہ سے وہ بابائے سوشلزم شیخ رشید کے اتنے قریب تھے ۔ان کے کہنے پر ہم مارشل لاء کے خلاف پوسٹر ،پمفلٹ تقسیم کرتے جنرل ضیاء الحق کے خلاف وال چاکنگ کرتے تھے ۔جب میر مرتضی بھٹو نے الذوالفقار تنظیم بنائی تو اس میں قاضی سلطان محمود سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کا سب سے اہم رول تھا۔ کابل جانے سے پہلے انہوں نے مجھ سے کہاکہ میں تم سے جھو ٹ نہیں بولوں گا یہ آگ اور خون کا راستہ ہیجان ہتھیلی پر رکھ کر کفن سر پر باندھ کر جدو جہد کر نا ہو گی ۔تم تیار ہو تو ٹھیک ہے اس طرح انہوںنے میرے سمیت شیخ عبدالقیوم ،سید فیاض حسین شاہ ، ریاض ساجد ،مرزا اختر بیگ ،نعیم اختر وارثی ،سائیں تاج مرحوم ،حامد سعید پیا مرحوم ،محمد شفیع ،رفعت بابا ،زاہد شاہ ،مرزا ادریس بیگ شہید ،اشفاق علی مرحوم اور بہت سے کارکنان کو کابل بھیجا جب انہیں گرفتار کر کے شاہی قلعہ بھیجا گیا تو میں اس وقت شاہی قلعہ سے تفتیش مکمل ہو نے کے بعد کوٹ لکھپت جیل شفٹ ہو چکا تھا ۔جب جیل منتقل ہوئے تو مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے میں تم سے بہت خوش ہوں اتنی کم عمری کے باوجود تم نے دلیری سے شاہی قلعہ کاٹا ۔میرا شاگرد ہونے کے باوجود کہیں بھی تم نے میرا نام نہیں لیا میرا اور امتیاز خاں کا چونکہ ہم دونوں جیل میں کم عمر قیدی تھے بہت خیال رکھتے تھے ان کے ساتھ جیل میں رہنے کا ایک الگ ہی تجربہ تھا ۔جہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملا جیل میں سب ساتھیوں کاحوصلہ بڑھاتے کئی سال گزرنے کے بعد انہیں رہائی ملی تو اپنی خوبصورت لکھائی میں مجھے جیل سے خط لکھتے رہے جو میرے پاس آج بھی موجود ہیں اور عید کارڈ بھیجنا نہ بھولتے تھے۔لکھتا رہوں تو ان کی شخصیت اور ان کی جد وجہد پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔قاضی سلطان محمود مرحوم پاکستا ن پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے لیے ایک مشعل راہ کا نام ہے جنہوں نے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود 10سال تک راولپنڈی جیسے شہر کی صدارت اور جنرل سیکرٹری کے فرائض ا نجام دیے ۔چیئر مین بھٹو سے لے کر میر مرتضی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ،آ صف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے ساتھ کام کیا ۔آخری عمر میں بالآ خر پاکستا ن پیپلز پارٹی کے اہم ترین عہدے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بنے ۔جناب آصف علی زرداری نے ان کی خدمات اور بیش بہا قربانیوں کو سراہتے ہوئے کراچی کی ایک شاہرہ کا نام قاضی سلطان محمود روڈ رکھا ۔

 

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...