Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > پرکھ > خالد جاوید کی نعت گوئی

پرکھ |
حسنِ ادب
پرکھ

خالد جاوید کی نعت گوئی
ARI Id

1688708668008_56116704

Access

Open/Free Access

Pages

۱۵

خالد جاوید کی نعت گوئی

ادب میں مذہبی شخصیات کی تعریف و ثناء کا سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب سے انسان نے اپنے جذبات و عقیدت کو الفاظ میں بیان کرنا شروع کیا ہے یہ سلسلہ دنیا کے ہر ادب اور خطے میں موجود ہے۔ہر مذیب کو ماننے والے اپنے اپنے انداز میں ان ہستیوں سے اظہار محبت الگ الگ انداز میں کرتے ہیں۔کہیں ان کی شان میں گیت گائے جاتے ہیں اور کہیں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔اظہار کا ذریعہ کوئی بھی ہو،اصل بات اس عقیدت کی ہے جو ان کے من میں ان ہستیوں کے بارے میں ہے۔

ان ہستیوں کی مدح سرائی انتہائی مشکل کام ہے اس لئے کہ اس ہستی کے شایان شان الفاظ کا انتخاب ایسا ہونا چاہیے جس میں آپکی عقیدت کے ساتھ اس ہستی کی ظاہری و باطنی خوبیاں بھی کْھل کر سامنے آ ئیں،تاکہ پڑھنے والے پر اس کا اچھا اثر پڑے اور وہ ان کے نقش قدم پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے۔مدح سرائی کرتے وقت مدح نگار کو انتہائی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔کیونکہ اس میں مبالغہ آمیزی کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔مگر جو مدح نگار ان ہستیوں کی محبت میں ڈوبا ہوا ہو،وہ یہ کام نہیں کر سکتا۔ایسے مدح نگاروں میں ایک نام خالد جاوید کا بھی ہے۔

خالد جاوید کی عقیدتوں کا سفر ’’خوشبوئے مدینہ‘‘ کی صورت میں شائع ہو کر عاشقان رسولﷺ میں عقیدت و محبت بانٹتا ہوا دیکھائی دیتا ہے نعتیہ مجموعہ کلام میں ہر جگہ آپ کی نبی پاک سے محبت عیاں ہورہی ہے۔نعت کہنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں یہ کام خالد جاوید جیسا عاشق رسول ہی کر سکتا ہے کیونکہ یہ سب نبی پاک کی نظر کرم سے ممکن ہوتا ہے جب آپ کی نعت گوئی کو عمیق نظروں سے دیکھا جائے تو مندرجہ ذیل پہلو بیان ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔نعت کے آغاز میں جاوید صاحب نے آپ کی آمد سے پہلے کے حالات و واقعات کو یوں بیان کیا ہے۔کہتے ہیں کہ آپ کی آمد سے پہلے عرب معاشرے میں ہر شخص کا اپنا اپنا خدا تھا جس کی وہ پوجا کرتے تھا۔پیار و محبت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی تھی اور معاشرے میں ہر طرح ظلم روا رکھا جاتا ہے۔یوں کہنا چاہے۔ کہ ہر شخص اپنے وجود سے نالاں تھا۔

زمانہ کتنا برا تھا حضور سے پہلے

ہر ایک کا اپنا خدا تھا حضور سے پہلے

زمانہ مہر و محبت سے جیسے خالی تھا

ہر ایک ظلم روا تھا حضور سے پہلے

ہر ایک شخص تھا نالاں وجود سے اپنے

زمانہ خود سے خفا تھا حضور سے پہلے(ص48)

پھر اللہ کی رحمت جوش میں آئی۔آپؐ دنیا میں تشریف لائے ہر طرف اجالا ہو گیا۔آپ تمام نبیوں کے سردار بن کے آئے اور آپکی تعلیمات سے بکھرا ہوا عرب معاشرہ ایک مرکز پر جمع ہو گیا۔

خدا کے محبوب بن کے رحمت زماں پہ چھائے ہمارے آقاؐ

تمام نبیوں کے ہوئے سرور جہاں میں آئے ہمارے آقاؐ

کرم ہے ان کا سبھی پہ یکساں کہ رحمت للعالمین ہیں

کہ ایک مرکز پہ دیکھ خالد وہ سب کو لائے ہمارے آقاؐ(ص80)

پھر کیوں نہ ایسی ہستی کی تعریف خالق کائنات خود کرے۔

ذکر تیرا ہے ورفعنا لک ذکرک

تعریف خدا آپ بتانے کیلئے ہے(ص66)

اور کسی ہستی کی تعریف خود خدا کرے۔اس ذات بابرکت سے ایسا ہونا کوئی عجیب بات نہیں۔کیونکہ خدا اپنے محبوب کی تمام باتوں کو مانتا ہے۔

لوٹا بھی تھا سورج چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تھے

حیرت تو فقط آئینہ خانے کیلئے ہے(ص57)

جب نبی دو جہاں کیلئے رحمت بن کر آئے تو نظر کرم کی طلب تو بنتی ہے کہا جاتا ہے کہ وائی دو جہاں میری زندگی تاریکیوں میں گھری ہوئی مجھے روشنی کی راہ دکھایئے۔

گھری تاریکیوں میں زندگی میری

ملے روشن مجھے بھی کوئی راہ آقاؐ(ص59)

میں تیرے در کا گدا ہوں مجھے اپنی کملی میں جگہ عطا کریں۔

میں بھی گدا ہوں آپؐ کے در کا

کملی میں اپنی مجھ کو چھپا لیں(ص49)

بروز محشر میرا بھرم رکھ لیں اور غموں کی دھوپ میں سایہ عطا کر دیں۔

بروز محشر میں میرا بھی بھرم رکھنا میرے آقاؐ

اگر ہو پرسش اعمال کملی میں چھپا لینا

غموں کا سلسلہ ہے اور سر پہ دھوپ عصیاں کی

مجھے اے شافع محشر تمازت سے بچا لینا(ص74)

میری کشتی بھنور میں پھنس گئی ہے مجھے کنارہ چاہیے۔

گھری کشتی ہے لہروں میں ہوائیں بھی مخالف ہیں

میری کشتی کو مل جائے کنارہ یارسولؐ اللہ(ص95)

اے محترم ذات میں نے مدینہ دیکھنا ہے اس لئے مجھے اپنے پاس بلا لیں۔

شہر مدینہ میری طلب ہے

مجھ کو اپنے پاس بلا لیں(ص49)

میرے آقاؐ میری یہ خواہش پوری کر دیں اور مجھے اس سعادت سے بہرہ مند فرما۔

یہ خواہش ہے میرے آقا مدینے میں بلا لینا

سعادت گر یہ حاصل ہو تو مجھ کو اور کیا لینا(ص74)

میں حسرت سے زمانے کو آپ کے در پر جاتا دیکھتا ہوں اگر آپ مجھے اپنے در پر بلا لیں تو زمانہ مجھے دیکھے گا۔

میں زمانے بھر کو جاتا دیکھتا ہوں یا نبیؐ

مجھ کو بھی در پر بلا لو کہ زمانہ دیکھ لے(ص75)

اس دعا کو جاوید صاحب ربی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں۔

میرے مولا عطا کر دے زیارت مجھ کو آقا کی

نگاہ کرم مجھ پر تو اے مالک بحر و بر کر دے(ص71)

اس لئے کہ میرا کوئی اور سہارا نہیں ہے جہاں مجھے پناہ ملے۔

سوائے آپ کے میرا کوئی نہیں

میں ڈھونڈوں آپ کے در پہ پناہ آقاؐ(ص59)

اے اللہ میں قیامت والے دن نبی پاکﷺ کی شفاعت چاہتا ہوں۔

بروز محشر خالد کے لئے بھی

محمدؐ کی شفاعت چاہتا ہوں(ص61)

یہی شفاعت کی خواہش جاوید صاحب کو مدینے کا سفر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔مدینہ پاک دیکھنے کی خواہش کو یوں بیان کیا ہے:

میری طیبہ میں ہو حاضری

آپؐ کا دیکھ لوں میں بھی در(ص51)

وقت نزع دیدار مصطفیٰ ﷺکی خواہش کا اظہار بہت اچھے انداز میں کرتے ہیں۔

دل خدا کی فقط ایک ہی خواہش ہے حضور

وقت نزع مجھے حاصل ہو زیارت تیری(ص90)

اس محبت کا صلہ یہ ملتا ہے کہ انسان سے ہر قسم کی مصیبت ٹل جاتی ہے۔

تجھ سے خالد ہر مصیبت دور پھر ہو جائے گی

کر کے آقاؐ سے محبت یہ نظارہ دیکھ لے(ص75)

یہی نہیں بلکہ نعت لکھنے کی وجہ سے اہل فن میں  بلند مرتبہ بھی حاصل ہوا ہے۔

نعت کی جو سعادت عطا ہو گئی

اہل فن میں ہمیں مرتبہ مل گیا(ص76)

مدینے سے دوری کا احساس ہمہ وقت لاحق رہتا ہے۔اس بے بسی کو کتنے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے:

جانے کب ہوگی ہماری ان کے در پر حاضری

کب میں پہنچوں گا مدینے دل بڑا بے تاب ہے(ص85)

اے کملی والے آپ کے روضہ اقدس سے دوری بہت تڑپاتی ہے۔اس لئے مجھ پراپنی رحمتوں کا دروازہ کھول دے۔

آپؐ کے روضے سے آقاؐ دور ہوں میں آج تک

کھول دیں میرے لئے جو رحمتوں کا باب ہے(ص86)

مجھ پر اپنی نظر کرم کریں آپ کا امتی ہوں اور حاضری کو ترس رہا ہوں۔

امتی ہوں آپؐ کا رحمت للعالمین

حاضری کو ترسے خالد سبز گنبد کے مکین

چشم رحمت ہو خدارا

الصلوت السلام(ص112)

جہاں شہر نبیؐ سے محبت کا اظہار کرکے ذات اقدس سے چشم رحمت طلب کی جاتی ہے وہاں مدینہ پاک کی ایک ایک شے سے محبت ہے۔یہاں سے مدینہ پاک آنے والی ہوا راحت آموز لگتی ہے۔جاوید صاحب کا خیال ہے کہ جس ہوا کے چھونے سے دلی اطمینان ملے وہ یقینا شہر نبی سے آتی ہے۔

راحت آموز گیا ہے جو ہوا کا جھونکا

عین ممکن ہے مدینے سے ہی آیا ہوگا(ص81)

دل کو سکون دینے والی ہوا مدینہ اور مدینے کی پوری فضا مثل جنت ہے۔

دل مزیں کا سکوں ہے ہوا مدینے کی

فضائے خلد کی ہمسر فضا مدینے کی(ص83)

جاوید صاحب کی نعت گوئی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ عشق مصطفیٰ کے بیان کے ساتھ ساتھ انسانیت کی اصلاح کیلئے اشعار میں نصیحت کو بھی بیان کیا ہے،کہتے ہیں اے انسان تو تفرقہ بازی سے کیوں ہر جگہ اپنا تماشہ آپ بن رہے ہو۔

ملت تو بن کے توڑ دے بتان رنگ و بو

بنتا ہے کیوں تماشہ اے ناداں ہر جگہ(ص92)

شاعر کا اپنی دھرتی سے پیار اور اپنی ثقافت سے پیار کا اظہار بھی ملتا ہے۔کہا جاتا ہے جب کوا دیوار پر بولے تو اس کا بولنا کسی مہمان کی آمد کی اطلاع ہوتی ہے۔مگر خالد صاحب کے نزدیک دیوار پر کوے کا بولنا نور کی آمد کی اطلاع ہے۔

سوچ آنگن میں نور اترے گا

بولے مینڈھ پر جو کاگے ہیں(ص68)

نعت کے اشعار میں ہمیں مناقب کا رنگ بھی دیکھائی دیتا ہے حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی کو یوں یاد کرتے ہیں:

خدا کی راہ میں جس نے لٹا دی جاں اپنی

حسینؑ آج بھی روشن مثال ہے لوگو(ص87)

حضرت بلال کی وفااور پیار جو آپ کی ذات اقدس سے تھا اس کو یوں بیان کیا ہے:

وفا کا پیار کا جس نے بھرم ہے رکھا وہ

غلام آپؐ کا حضرت بلال ہے لوگو(ص87)

حضرت حسان کی ثناء رسولﷺ کی بدولت جاوید صاحب کو آقائے کریم کی صفت بیان کرنے کا طریقہ آیا۔

آقا نے مجھے حضرت حسان کے صدقے

لفظوں کو سجانے کا ہنر بخشا قرینہ(ص103)

آخر میں شان علی علیہ السلام بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی ذات وہ ذات ہے جس کو نبی پاک نے اپنا بھائی کہا ہے اور راہ خدا میں مخلوق خدا کی خدمت باکمال کی ہے۔

یہ بھی نسبت خوب ہے مولا علی شیر خدا

بھائی آقا نے کہنا نسبت ہے باکمال

راہ خدا میں خلق کی خدمت ہے لا جواب

خالد مرے علی کی حقیقت ہے باکمال(ص105)

اگرچہ خالد جاوید  کے اس نعتیہ مجوعہ کلام میں آپ کا عشق مصطفیٰﷺ ہر ہر لفظ میں دیکھائی دیتا ہے۔جو اس بات کی علامت ہے کہ آپ کو نہ صرف دین سے لگاو ہے بلکہ سیرت رسول سے گہرا شغف رکھتے  ہیں۔کیونکہ نعت صرف وہ شاعر کہہ سکتا ہے جس نے تعلیمات نبوی کو اپنی زندگی کے ہر معاملے میں اس طرح اپنایا ہو،جیسا نبی پاک کی ذات اپنے پیروکاروں سے چاہتی تھی۔مگر صفحہ نمبر 79 پر جو نعتیں درج ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک کی بجائے دو ہیں۔پہلے تین اشعار میں ربط ہے مگر اگلے دو اشعار کا پچھلے اشعار سے کوئی ربط نہیں۔بلکہ میں ان کو حمدیہ اشعار میں اشعار کروں گا مثال کچھ یوں ہے:

اس جہاں میں رب کے احکامات جو پورے کرے

حشر میں اس شخص کی ہی خلد بخشی جائے گی

زندگی میں تو بھی خالد کر خدا کی بندگی

قرب بھی اس کا ملے گا،شان بخشی جائے گی(ص79)

مضمون کا اختتام بہت ہی دعا پر:

میرے دل کو روشن کر دے

کر دے دور اندھیرے یا رب(ص46)

اے باری تعالیٰ مدینے میں مستقل رہنے اور مدفن ہونا مقدر میں لکھ دے

مدینے میں رہوں ہر دم وہیں مدفن بھی ہو میرا

دعا اس کے سوا پھر اور کیا ہوگی مدینے میں(ص55)

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...