Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > پرکھ > طالب حسین کوثریؔ کی نعت گوئی

پرکھ |
حسنِ ادب
پرکھ

طالب حسین کوثریؔ کی نعت گوئی
ARI Id

1688708668008_56116705

Access

Open/Free Access

Pages

۲۱

طالب حسین کوثریؔ کی نعت گوئی

نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تعریف یا وصف بیان کرنا کے ہیں اگرچہ عربی زبان میں اس مقصد کیلئے مدح کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔مگر ادبی اصطلاح میں لفظ نعت نبی کریمﷺ کی مدح و تعریف کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔فارسی لغات میں نعت سے مراد نبی کریمﷺ کے اوصاف اور ثناء بیان کرنا کے ہیں۔اردو زبان کی ’’نور اللغات‘‘ میں لکھا ہے۔کہ یہ لفظ معنی مطلق وصف ہے۔اور اس کا استعمال نبی پاکﷺکی تعریف و ثناء کے بیان کے لیے وقف ہے۔اس لیے نعت کا لفظ عربی،فارسی،اردو،پنجابی اور دیگر زبانوں میں ایسے ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور وہ سارے اشعار اور نظمیں  نعت کے گھیرے میں آ جاتی ہیں جن میں آپﷺ کے محاسن بیان ہوئے ہوں۔اس طرح نعت کا گھیرا وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔چونکہ نعت کا محور آپﷺ کی ذات پاک ہے۔اس لیے آپﷺ کی ذات سے صفات تک،افکار سے اعمال تک غرض ذات مقدس کا کوئی ایسا پہلو نہیں جو لغت کا موضوع نہ بنا ہو۔اخلاق ،سیرت،معجزات، غزوات، خطبات، عبادات، معاملات، عادات ،تعلیمات سب کچھ نعت کے گھیرے میں آ گئے ہیں۔

نعت کا وجود عربی ادب میں آپﷺ کی مبارک زندگی سے ہی نظر آتا ہے۔بہت سارے صحابہ کرام نے آپﷺکی پاک زندگی کے ایک ایک پل کو شعر وادب میں محفوظ کیا ہے۔یہی صحابہ کرام کا ورثہ تھا اور یہی ہمارا قیمتی اثاثہ ہے۔یوں تو اردو ادب میں لا تعداد شعراء کرام نے نبی پاکﷺ سے عقیدت و محبت کے اظہار کیلئے نعت گوئی کی،مگر بہت کم شعراء کرام ایسے ہیں جن کی ادب میں پہچان نعت گوئی بنی ہو۔دور حاضر کے ممتاز نعت گو شعراء کرام میں ایک نام جناب طالب حسین کوثریؔ کا بھی ہے۔جنہوں نے اپنی نعت گوئی کے حوالے سے ادب میں بلند مرتبہ حاصل کیا ہے۔طالب حسین کوثریؔ کے ہاں نعت گوئی کا اصل محرک نبی پاکﷺذات با برکات سے عشق ہے۔آپ کی نعمتوں میں یہ جذبہ بہت شدت سے دکھائی دیتا ہے۔جس کی وجہ سے انتہائی خوبصورت اور دل میں اترنے والی نعتیں لکھی ہیں،آپ نے اس جذبے کے اظہار کیلئے موزوں اور مناسب الفاظ کا چناؤ کیا اور پھر ان کو مناسب ترتیب دے کر اشعار کی صورت میں پیش کیا۔آپ نے اللہ کے رسولﷺکے ظاہری وباطنی حسن کے ساتھ اسوہ حسنہ کے ہر پہلو کو نعت میں بیان کیا ہے۔آپ کی نعت گوئی کے کچھ موضوعات کا احاطہ اس مضمون میں پیش خدمت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو باطنی حسن کے ساتھ ساتھ ظاہری حسن و جمال سے بھی توانا ہے۔آپﷺ کا چہرہ مبارک چاند کی طرح روشن اور سورج کی طرح چمکدار تھا۔جو بھی اس چہرہ مبارک کو دیکھتا ایمان لے آتا۔آپﷺ کی آنکھیں خوبصورت اور بصیرت سے جہان روشن ہوا۔

آپؐ کے حسن بصارت پر ہے مازاغ البصر

آپؐ کے حسن بصیرت سے جہاں روشن ہوا(ص40)

آپﷺ صحابہ کرام کے درمیان تشریف ہوتے تو سب سے ممتاز نظر آتے۔

مجمع اصحاب میں واضح نظر آتے تھے آپؐ

قد میانہ اور اونچا قامت خیر الوریٰ(ص12)

آپ? خلق عظیم کے مالک ہیں۔کفار سے بھی محبت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔

کیا عظیم المرتبت تھا صاحب خلق عظیم

کافروں کے واسطے چادر بچھا دیتا رہا(ص82)

امہات المومنین نے قرآن پاک کو آپﷺ کا خلق قرار دیا۔

جو پوچھا خلق کے بارے میں ام المومنین بولیں

کہ خلق رحمت اللعالمین قرآن جیسا تھا(ص92)

چونکہ آپﷺکا کلام قرآن تھا۔اس لیے تمام صحابہ کرام کو آپﷺکے ارشادات عالیہ میں خاص دلچسپی تھی۔

حدیث پاک سے تھی اس لیے الفت صحابہ کو

کہ ہر جملہ فروزاں آیت فرقان جیسا تھا(ص92)

زمانے میں آپﷺ کے عدل کی مثال نہیں ملتی۔

زمانے میں نہیں منصف محمد مصطفیٰ جیسا

کہاں ایوان ان کے عدل کے ایوان جیساتھا(ص92)

نعت میں آپﷺ کی ذات اقدس سے منسوب معجزات کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔اس موضوع پر لکھنے کیلئے نعت گو کا سیرت طیبہ کا مطالعہ ،قرآن و حدیث پر گہری نظر اور علم عمرانیات کا جاننا بہت ضروری ہے۔تاکہ نعت میں گہرائی و اثر پیدا کیا جا سکے۔کیونکہ اگر نعت میں کسی معجزے کا ذکر ہو رہا ہے تو اس کی سند یا حوالہ نہایت احترام کے ساتھ اس طرح پیش کیا کہ محبت کے اظہار کے ساتھ ساتھ تاثیر دوگنی ہو جائے۔سورج کے پلٹنے والے معجزے کے بارے میں یوں کہتے ہیں:

اتر کر آفتاب پلٹ آیا جس کے اشارے سے

اسی کو ماہتاب آسمان نے ٹوٹ کر چاہا(ص9)

اور یہ سب کچھ آپﷺ کی صداقت کی گواہی تھی۔

شمس پلٹا چاند ٹوٹا ٹوٹ کر تارا گرا

آسمان ان کی صداقت کا پتہ دیتا رہا(ص81)

آپؐکے ایک اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوا۔آپؐ کی اس طاقت کا کوئی بھی اندازہ نہیں کر سکتا۔

جس کی انگلی کا اشارہ چاند کے ٹکڑے کرے

عقل سمجھے گی بھلا قوت خیر الوریٰ(ص12)

اور یہ بھی آپﷺ کا معجزہ رہا کہ پتھر بولنے لگے۔

آمنہ کے لعل کی معجزہ نمائی دیکھئے

پتھروں کو بولنے کا ڈھب سکھا دیتا رہا(ص81)

نعت میں تاریخی واقعات کو بیان کرنے سے پہلے اور اس واقعہ کے درست ہونے کی تصدیق لازمی ہے۔کیونکہ غلط حوالے سے نہ صرف لوگوں کے بھٹکنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔بلکہ نعت باعث ثواب کی بجائے باعث گناہ بن جاتی ہے۔اس لیے علماء کرام نے تاریخی واقعات کو بیان کرنے سے پہلے اس کی صحبت کے درست ہونے پر زیادہ زور دیا ہے۔طالب حسین کوثریؔ نے جو تاریخی واقعات بیان کیے ہیں۔وہ انگوٹھی میں نگینے کی مانند نظر آتے ہیں۔واقعہ عام الفیل کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:

تھے توکل کا مرقع آپؐ کے دادا حضورؐ

ہاتھیوں کی بے بسی تھی طائروں کے سامنے(ص66)

واقعہ معراج نے آج تک کو حیران کیا ہوا ہے۔

معراج پر انگشت بدنداں ہے کائنات

حیرت سراپا بن گئے سدرہ کے سب طیور(ص99)

اور اس سفر کے دوران وقت رکا رہا۔یہ سب آقائے دو جہانؐ  کی عظمت کی دلیل ہے۔

فلک پہ جانا زمین پہ آنا وہاں کا عرصہ یہاں کا لمحہ

وہ جس کی خاطر زماں کا دھارا رکا ہوا ہے وہ مصطفیٰ ہے(ص118)

موجودہ دور میں لکھی جانے والی نعت کے موضوعات میں بہت زیادہ تبدیلی آ گئی ہے۔اب شعراء کرام مدینے جانے کی خواہش ،روضہ انور حاضری کی چاہت گناہوں پر معافی کی طلب،آپﷺ کے ہجر میں تڑپنا،روز قیامت بخشش کی سفارش آپﷺ پر جان قربان کرنے کی آرزو اور آپﷺکا اسوہ حسنہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ عصری حالات کے تناظر میں اپنے دور کے مسائل و مصائب کا ذکر کرکے سرور کائنات سے مدد کی درخواست بھی کرتے ہیں۔کوثریؔ صاحب لکھتے ہیں کہ امت مشکلات کا شکار ہے۔مشکل کشائی کیجئے ذلت میں گھرے مسلمان پر نام حسینؑ کے وسیلے سے رحمت کی نظر ڈالیئے۔

امت ہے مشکلات میں یا شاہ بحر و بر

مشکل کشائی کیجئے یا سید البشر

ذلت میں گھر گئے ہیں مسلمان ہر طرف

نام حسینؑ کیجئے رحمت بھری نظر(ص22)

کئی اشعار میں آیات مبارکہ کو بیان کیا ہے۔انداز ایسا اپنایا ہے کہ روانی متاثر نہیں ہوئی اور پڑھتے ہوئے یہ احساس نہیں ہوتا کہ غزل کے الفاظ پڑھے جا رہے ہیں۔نمونہ کلام اس طرح ہے:

کْل نفس ذائقہ الموت پر ایمان ہے

کاش ہو لب پر دورود پاک جب آئے قضا(ص41)

خدا کہتا ہے تو لاَ کَمَا کیا خوب کہتا ہے

حقیقت میں جہاں سارے کا سارا مصطفیٰ کا ہے(ص133)

کئی شعراء کرام نعت کو اپنے لیے باعث برکت خیال کرتے ہیں۔کوثریؔ صاحب کا خیال ہے کہ ادب کی دنیا میں اگر انکا کوئی مقام ہے تو وہ صرف نعت لکھنے کی وجہ سے ہے۔

کیسی سخنوری ہے مری شعر گوئی کیا

نعت نبیؐ سے ہے میری عزت بنی ہوئی(ص47)

کہتے ہیں کہ میری آرزو ہے کہ حشر کے روز نعت میری پہچان بنیاور نعت کی روشنی میری جبین پر سج جائے۔

ہے آرزو کے حشر میں پہچان نعت ہو

یہ روشنی ہو لوح جبیں پر سجی ہوئی(ص48)

اور اسی نعت کی بدولت ہی حضرت حسان تمام صحابہ کرام میں ممتاز ہوئے۔

کیا ممتازاس کو نعت گوئی کی سعادت نے

وگرنہ ہر صحابی حضرت حسان جیسا تھا(ص92)

اس مضمون کو میں کوثریؔ صاحب کے ایک نصیحت آموز شعر پر ختم کرتا ہوں۔جس میں آپ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے مسائل کا حل چاہتا ہییا سچی توبہ کرنا چاہتا ہے۔تو اسے چاہیئے کہ وہ درود پاک پڑھے۔کیونکہ اسکی برکت سے نہ صرف توبہ قبول ہوگی بلکہ سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔

توبہ کا بہترین وسیلہ درود پاک

جو چاہتا ہے ختم ہوں عصیاں پڑھے درود(ص21)

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...