Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > پرکھ > ’’حقانی رباعیات‘‘ میری نظر میں

پرکھ |
حسنِ ادب
پرکھ

’’حقانی رباعیات‘‘ میری نظر میں
ARI Id

1688708668008_56116706

Access

Open/Free Access

Pages

۲۵

’’حقانی رباعیات‘‘ میری نظر میں

شاعری ایک خوبصورت اور من موہنی صنف رْباعی ہے۔ رْباعی کا لفظ رْبع سے نکلا ہے۔عربی زبان میں اربعہ کے معنی ’’چار‘‘ کے ہیں۔اس وجہ سے ایسی صنف شاعری کو رْباعی کہا جائے گا جس کے چار مصرعے ہوں۔

شاعری کی اصطلاح میں رْباعی اس صنف کا نام ہے جس میں مخصوص وزن کے چار مصرعوں میں ایک مضمون یا خیال بیان کیا جاتا ہے۔یعنی رْباعی وہ شعری صنف ہے جس میں عروض کے ماہرین کے مقرر کیے ہوئے خاص وزن،خیال کی وحدت اور بیان کے تسلسل کی پابندی بہت ضروری ہے۔

رْباعی میں بیان کے تسلسل اور خیال کی آہستہ آہستہ بڑھوتری کے اظہار کے لیے ضروری ہے کہ رباعی کے چار وں مصرعے زنجیر کی گھریوں کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں،الفاظ کا چناؤ موضوع اور خیال کے مطابق ہو پہلے مصرعے میں مناسب الفاظ کے ذریعے خیال کے بارے میں معلومات دی جائیں۔دوسرے اور تیسرے مصرعے میں خیال مکمل طور پر پورے زور و شعور کے ساتھ ڈرامائی انداز میں پیش کیا جائے کیوں کہ چوتھا مصرعہ ہی رباعی کے مجموعی تاثر اور خلاصے کو بیان کرتا ہے۔اس میں ہی رباعی کا اصل خیال یا مضمون کو بیان کیا جاتا ہے جس کی خاطر رباعی لکھی گئی ہے۔

جہاں تک رباعی کے مضامین اور موضوعات کا تعلق ہے۔اس صنف کاآغازمذہبی مضامین کے بیان سے ہوا۔شروع شروع میں حمد،نعت اور توحید کا ذکر ہی رباعی میں کیا جاتا تھا۔پھر آہستہ آہستہ صوفیانہ خیالات ،معرفت کے مضامین رباعی کے موضوعات بن گئے۔صوفیاء کرام کا دین کی تبلیغ کا کام کرنا،لوگوں کو اخلاق کا درس دینا اور معاشرے کی اصلاح یہ سبھی مضامین صوفی شعراء نے رباعی میں بیان کیے۔اگر فارسی رباعی پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ابو سعید ،ابو الخیر نظامی گنجوی،خواجہ کرمانی اور فریدالدین عطار نے رباعی میں صوفیانہ خیالات لوگوں تک پہنچائے ہیںاور ان کو اخلاقیات کا درس دیا ہے۔اس کے بعد مستی رندی،حکمت اور عشق کے خیالات کو رباعی میں پیش کیا جانے لگا،مزید وقت گزرنے کے ساتھ موجودہ زمانے کے مسائل کو بھی رباعی میں جگہ دی گئی اور اب غزل کی طرح ہر قسم کے مضامین رْباعی میں بیان کئے جا رہے ہیں۔جیسا کہ برطانیہ میں رہائش پذیر شاعر عطا محمد عنبر نے کیا ہے۔

آپ نے مختلف مضامین کو رْباعی صنف میں’’حقانی رباعیات‘‘ کے نام سے اردو ادب کی رْباعی صنف کو امر کرنے کی کوشش کی ہے۔آپ نے جن مضامین پر اس شعری مجموعہ میں اظہار خیال کیا ہے۔اسکا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔اگرچہ عنبر صاحب کی رباعیات میں موضوعات کی رنگا رنگی موجود ہے۔مگر زیادہ تر رباعیات میں حمد و نعت کا پہلو نمایاں طور پر پڑھنے کو ملتا ہے۔جو آپ کی مذہب سے وابستگی کو ظاہر کرتی ہے،مگر ایک عجیب بات یہ ہے کہ آپ نے مسلمان فرقوں میں سے ایک فرقہ کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔جو کہ میرے نزدیک درست نہیں اس لیے کہ شاعر کا کام عوام الناس میں پیار پیدا کرنا ہوتا ہے نہ کہ نفرت ،قارئین میں اس مخصوص فرقہ کے لوگ شامل ہو ںگے یقیناً وہ ایسی تحریر کو پڑھنا پسند نہیں کریں گے جو ان کے مذہبی عقائد کے خلاف ہو۔اس طرح سے عنبر صاحب نے اپنے آپ کو دائرہ قارئین میں محدود کر لیا ہے اور اپنے پر ایسی چھاپ لگالی ہے کہ آئندہ بھی ایسے لوگ آپ کی تحریروں کا مطالہء نہیں کریں گے۔

دوسری بات جو ایک اچھا شاعر ہونے کے باوجود آپ کو دوسرے شعراء سے الگ کرتی ہے اور آپ کے قارئین کی تعدا د میں کمی کی باعث بنتی ہے وہ انتہائی مشکل فارسی نما اردو ہے۔ذخیرہ الفاظ کا ہونا اچھی بات ہے مگر شعر کہتے وقت قارئین کی علمی استعداد کو مدِ نظر رکھا جائے تو ابلاغ کا کام بہت موثر انداز میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔میری سمجھ سے عنبر صاحب کا یہ طرز کلام بالاتر ہے۔کیونکہ پڑھتے ہوئے جا بجا مشکل الفاظ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اگر آسان الفاظ میں ہی بیان ہوتا تو کتاب کی پذیرائی دو چند ہونا تھی۔

بلاشبہ عنبر صاحب شاعر بہت اچھے ہیں جن کے ہاں موضوعات کی بھر مار ہے۔ذخیرہ الفاظ کشادہ ہونے کی وجہ سے موقع محل کے مطابق الفاظ کے استعمال کا فن بھی جانتے ہیں۔مگر تعریف وہ جو کوئی دوسرا کرے یہاں تو عنبر صاحب اپنی تعریف خود ہی اپنے مْنہ سے کر رہے تھے۔کچھ مثالیں یوں ہیں:

یاں عمر خیام آئے رْباعی مری دیکھے

آئے تو رباعی پہ رْباعی مری دیکھے

لکھتا ہوں عجب رنگ میں ہر ایک رْباعی

وہ رنگ ہے ایسی لکھائی مری دیکھے(ص333)

 

کیا خْوب رباعی پہ رباعی ہے عطا

مصرع کی گرہ خوب لگائی ہے عطا

کوزے میں سمندر کو کیا بند کہ واہ

اسلام کی یوں جوت جگائی ہے عطا(ص222)

 

عنبرؔ کے اشعارہ مضامین نرالے

ان میں کوئی نون کوئی میخ نکالے

عنبرؔ کے اشعار میں دم خم بھی نیا ہے

معنی میں ہم رنگ ہیں اشعار نرالے(ص408)

اگرچہ اس مجوعہ کلام میں آپ نے شروع میں حمد باری تعالی بیان نہیں کی۔مگر پوری کتاب میں آپ باری تعالی کی مدح سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔آپ اللہ تعالی کی ہر صفت کو بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔اس سے آپ کی عاجزی کا پتہ بھی چلتا ہے۔کہتے ہیں کہ اللہ مختار ہے قہار ہے جبار ہے اور اس دنیا میں اسی کا حکم چلتا ہے۔

اللہ ہی مکون ہے تو مختار ہے اللہ

جو چاہے وہی کرتا ہے قہار ہے اللہ

اْس روز اْگل دے گی ہر اک راز یہ دھرتی

حکم اللہ کا چلتا ہے کہ جبار ہے اللہ(ص71)

اللہ ایک ہے اور محمدﷺ بھی ایک ہے اور وہ اکبر ہے۔

اللہ ہے احد اللہ سب سے جدا ہے

 احمدؐ کا محمدؐ کا احد رب عْلا ہے

اکبر ہے وہ اکبر ہے وہ اکبر ہے وہ اکبر

تکبیر و تکبر کا سزاوار خْدا ہے(ص419)

اگرچہ پوری کتاب میں جا بجا عاشق رسولﷺ میں ڈوبی رباعیات آپکے عشق رسول کی گواہی دے رہی ہیں۔مگر اس رباعی میں آپ کا عشق رسولﷺ عروج پر دکھائی دیتا ہے۔

رہ نما محمدؐ ہے یہ مصطفیٰ محمدؐ

نام اس کا احمدؐ بھی تو مرتضیٰ محمدؐ

مثل ہو محمدؐ کی کہیں نہیں نہیں ہے

بے مثل احمدؐ ہے تو مجتبیٰ محمدؐ(ص450)

عنبر صاحب نے کئی رباعیات میں منقبت بھی بیان کی ہے۔آپ کا انداز بیان ایسا ہے کہ عقیدت و محبت کے علاوہ تاریخ نگاری بھی پڑھنے کو ملتی ہے۔پھر آپ نے انداز بیان ایسا بنایا کہ مذکور شخصیت کی ظاہری و باطنی خوبیاں کھل کر سامنے آگئی ہیں حضرت سلیمانؐ کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:

اللہ نے سلیماںؑ پہ بہت فضل کیا تھا

اللہ نے سلیماںؑ کو عجب علم دیا تھا

ہر ایک پرندے کو سمجھتا تھا وہ بولی

اللہ نے عجب تخت رواں اس کو دیا تھا(ص302)

کہتے ہیں کہ حضرت مریمؑ جیسی ماں اور حضرت عیسیٰؑجیسا بیٹا اس دنیا میں کوئی نہیں۔

توہین ہے یہ عیسیٰؑ دوراں نہیں کوئی

پر عیسیٰ کی مانند تو پسراں نہیں کوئی

تشبیہہ کسی کو نہ دو مریمؑ کے پسر سے

ہاں عیسیٰؑ کی مانند تو پسراں نہیں کوئی(ص98)

حضرت خدیجۃ الکبریٰ اْمت کی ماں ہیں۔زوجہ نبیﷺ کی کوئی مثال اس دنیا میں نہیں۔

کیا بات ہے خدیجہؑ کی ہے وہ اْم یقیں ہے

اْس جیسی کوئی ماں بھی کوئی ماں ہی نہیں ہے

امت کی ہے وہ ماں کہ وہ زوجہ نبیؐ کی

اور ایسی کہیں ماں تو کوئی اور نہیں ہے(ص126)

امام حسینؑ نے حق کے لیے جان راہ حق میں قربان کی۔

کربل میں حسینؑ ابن علیؑ کا کنبہ

کنبہ وہ رسولؐ عربی کا کنبہ

ایمان پہ دی جان سبھی نے عنبر

کیا خوب محمدؐ سے نبی  کا کنبہ(ص49)

آپ نے تاریخ اسلام کے بہت سارے واقعات کو رباعیات میں پیش کیا ہے۔اس سے آپکی تاریخ بینی کا پتہ چلتا ہے۔اشعار کے ساتھ تاریخی واقعات کو رباعیات میں پیش کیا ہے۔اس سے آپکی تاریخ بینی کا پتہ چلتا ہے۔اشعار کے ساتھ تاریخی واقعات کو اشعار میں بیان کرنا مشکل کام ہے۔یہ کام عنبر جیسا کہنہ مشق شاعر ہی کر سکتا ہے۔حضرت یوسفؑ کو مصر کی بادشاہی کیسے ملی۔اس واقع کا یوں بیان کیا ہے:

یعقوبؑ کے بیٹے کو ملا مصر کا تخت

یوسفؑ کو نصیب ایسے ہوا مصر کا تخت

یوسفؑ کو مصائب سے گزار گیا وہاں

یوں اللہ نے یوسفؑ کو دیا مصر کا تخت(ص106)

حضرت سلیمانؑوہ جلیل القدر نبی تھے۔جن کی حکومت کائنات کی ہر چیز پر تھی۔آپ ہر جانور چرند پرند کی زبان جانتے تھے۔پرندے ہْد ہْد اور آپ کے درمیان جو بات چیت ہوئی۔اس تاریخی واقعہ کو آپ نے تین رباعیات میں بیان کیا ہے۔آخری رباعی میں ملکہ بلقیس کے اسلام قبول کرنے کے واقعہ کو اس طرح سے بیان کیا ہے:

ہر طرح تھی مظبوط سلیمانؑ کی حکومت

بلقیس پہ بیٹھی تھی سلیمانؑ کی ہیبت

رانی نے پڑھا خط چلی آئی وہ فوراً

پھر دل سے قبول اس نے کی اسلام کی دعوت(ص301)

عنبر صاحب کی رْباعیات میں معاشرتی اصلاح کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔وہ درددل رکھنے والے شاعر ہیں،کئی رباعیات میں آپ نے نصیحت نگاری بھی کی ہے،مقصد انسانیت کی اصلاح ہے تاکہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں سدھار پیدا ہو جائے اور معاشرہ امن وسکون کیساتھ ترقی کرے۔کہتے ہیں کہ حسد سے انسان کو کچھ نہیں ملتا۔اس سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔

جو بغض جو حسد ہے تم حسد سے رہو دور

ضد اچھی نہیں ہے ایسی ضد سے رہو دور

حاسدِکو حَسد سے کچھ نہیں ملتا رقیب

ہے زْعم بداں پہ زْعمِ بد سے رہو دور(ص36)

لوگ جب ایک دوسرے سے حسد سے کرتے ہیں تو انکی عقل ختم ہو جاتی ہے لہذا اس سے بچنا چاہیے۔

شاعر ہیں ادیب ہیں بلا کے ہیں فہیم

ڈاکو یہ نہیں ہیں پھر لْٹیرے نہ غنیم

اک دوجے سے کرتے ہیں حسد کیوں یہ زعیم

مت ماری حسد نے کھو گئی عقل سلیم(ص34)

کہتے ہیں اللہ کا حکم ہر جگہ چلتا ہے۔لہذا بندوں اسکی بندگی کرنی چاہیے۔اور انسانوں یہ وظیفہ ہر وقت کرتے رہنا چاہیے۔

حکم اللہ کا چلتا ہے سمجھ جائے یہ بندہ

جو چاہے وہ کرتا ہے سمجھ جائے یہ بندہ

بندوں کے لیے خاص ہے یہ اکسیر وظیفہ

لاحول ولا قوت الا باللہ(ص50)

یہ وظیفہ کرنے سے انسان جہنم کی آگ سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

گر چاہے جہنم کی ہوا کھائے نہ بندہ

اللہ کے احد ہونے پر اترائے نہ بندہ

ڈالے نہ گلے خود کے یہ شیطان کا پھندہ

طاغوت کے بردا نہ بنے رب کا یہ بندہ(ص73)

کہتے ہیں کہ اللہ کو توبہ سے بڑھ کر کوئی شے عزیز نہیں ہے۔

کیونکہ ہے بندوں کی اکڑ شیطان سے بڑھ کر

کیا لینا ہے بندوں نے اللہ سے لڑ کر

بندہ توبہ ہے تو کرو توبہ گنہ سے

اللہ کو کوئی شے نہیں توبہ سے بڑھ کر(ص354)

موت کی حقیقت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

اللہ کے سوا موت نہ چھوڑے گی کسی کو

اللہ نے کہا موت نہ چھوڑے گی کسی کو

ہر جان کو مرنا ہے ہر اک جان مرے گی

کون اس سے چھپا موت نہ چھوڑے گی کسی کو(ص243)

کہا جاتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔کہتے ہیں کہ ہر وقت پا کی حالت میں رہو،ناپاکی سے بچواور اللہ کی حمدوثنا بیان کرتے رہو۔

نصف ایمان صفائی ہے صفائی پہ مرو

پاک اللہ کی ہر وقت بیاں پاکی کرو

شرک ایسی نجس شے ہے بچو شرک سے اب

اس رجس کو توحید سے اب پاک کرو(ص143)

کسی بھی قسم کی ترقی میں تعلیم کا کردار بہت اہم ہوتا ہے جو قومیں تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔وہ کبھی ترقی نہیں کر پاتیں۔تعلیم کی اہمیت کو یوں بیان کرتے ہیں:

تعلیم کے میدان میں جو قوم ہے پیچھے

رکھتا ہے زمانہ تو اسے پاؤں کے نیچے

جس قوم کے قرآں کو پس پشت کیا ہے

صد حیف ترقی کے ہْئے بند دریچے(ص71)

عنبر صاحب کا عصری شعور بہت گہرا ہے،معاشرہ میں پیدا ہونے والی برائیوں پر ان کی گہری نظر ہے۔ان برائیوں کو بیان کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔کہتے ہیں کہ آج کا مسلم معاشرہ فرقوں میں بٹ چکا ہے۔الگ الگ رنگ کا لباس تن زیب کئے ان نام نہاد مذہبی ٹھگوں نے دین کی عزت داؤ پر لگا رکھی ہے۔

فرقوں کی وجہ سے یہ مسلم کی ہے حالت

خرقوں بنا سے ہے ارے اسکی یہ ذلت

جو رنگ برنگے ہیں لباس ایسے ٹھگوں کے

داؤ پہ چڑھا رکھی ہے یوں دین کی حرمت(ص42)

ایسے نام نہاد لوگ صرف اپنا مفاد سامنے رکھتے ہیں۔رعایا کی ان کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔

چندے کے لیے کرتے ہیں پر بندھ ہمیشہ

پیٹ اپنے ہی بھرتے ہیں یہ ہر چند ہمیشہ

سورج کی کڑی دھوپ مریدوں کے لیے ہی

باغ اپنے لیے کھائیں یہ گل قند ہمیشہ(ص260)

اس جہالت کی وجہ سے پوری قوم پریشان ہے۔

خود اپنی حماقت سے پریشاں ہیں مسلماں

حد درجہ جہالت سے پریشاں ہیں مسلماں

یک جان تھی امت تو عدو خوف زدہ تھے

فرقوں کی رقابت سے پریشاں ہیں مسلماں(ص346)

ملک میں معاشی فرق اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔اسے پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا اور امیروں کے کتے عیش کرتے ہیں۔

بٹتی ہے مٹھائی تو کہیں پر ہیں پتاشے

بھوکے ہیں بہت لوگ جو پھرتے ہیں ادا سے

پر بندھ کہیں پر غربا کا نہیں کوئی

ان لوگوں سے اچھے تو امیروں کے ہیں کتے(ص70)

اس معاشی فرق نے ملک کی امن وامان کی حالت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔آج وطن عزیز میں کہیں دھماکے ہیں تو کہیں اسلحہ چلنے سے لہو بہہ رہا ہے۔سرمایہ دار یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں۔

چلتی ہیں کہیں گولی کہیں پر ہیں دھماکے

بہتا ہے کہیں کون کہیں گرتے ہین لاشے

سب اسلحے کی دوڑ ہے ہوتی ہے کمائی

زردار جہاں بھر کو دکھاتے ہیں تماشے(ص69)

امن وامان کی صورت حال کیا خراب ہوئی پورا نظام سیاست و معیشت ہی تباہ ہو گیا۔

بگڑی ہے ہر اک چال کرپشن کا ہے رونا

ہر سمت برا حال کرپشن کا ہے رونا

بد حال ہے اب دنیا کرپشن ہے کرپشن

ہیں مرتشی خوشحال کرپشن کا ہے رونا(ص151)

عنبر صاحب کو سماجی برائیوں کے متعلق بات کرنے کا انداز ہی نہیں آتا بلکہ آپ بین الاقوامی حالات و واقعات پر غور فکر کرتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال مسئلہ کشمیر ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ مسئلہ 70 سال سے حل طلب چلا آ رہا ہے اور اس مسئلے پر ان کی آپس میں تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔کہتے ہیں کہ کشمیری مجاہدین کی جدوجہد سے اب وہ دن دور نہیں جب کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔

کشمیری جہاد اب جو کریں گے خوب کریں گے

جی جان سے دشمن سے وہ اب خوب لڑیں گے

آزادی ملے ان کو وہ دن دور نہیں ہے

دشمن کو بھسم کرکے وہ مغلوب کریں گے(ص182)

عنبر صاحب نے رباعیات کو خوبصورت بنانے کے لیے کئی محاورات کا استعمال کیا ہے۔اسی طرح سے جہاں رباعیات میں ادبی کوخوبصورتی کا جنم ہویا ہے وہاں کلام میں گہرائی بھی پیدا ہوئی ہے۔کیونکہ محاورات کو موقع محل کے مطابق اشعار میں استعمال وہی شاعر کر سکتا ہے۔جس کو شاعری کے رموز پر اچھی طرح گرفت ہو۔کیونکہ ایسا کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے والی بات ہے۔یعنی اپنی لمبی چوڑی بات کو مختصر انداز میں ا س طرح سے بیان کرنا کہ ابلاغ کا کام بھی موثر ہوا اور شعری حسن متاثر نہ ہو۔چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

شہرت ملے تو سچی ملے جھوٹی نہیں

شہرت بروں کی اچھی نہیں سچی نہیں

جلدی نہ مچاؤ کہ عذاب اچھا نہیں

دال ایسے منافق کی کبھی گلتی نہیں(ص86)

 

کہتے ہیں سبھی چور کی داڑھی میں ہے تنکا

اب ایسا نہیں پورا وجود ان کا ہے چھلکا

اب چور مچاتے ہیں بہت شور کہ سرقہ

ایسے میں کہے کون کہ ساتھ نہیں ٹھنکا(ص163)

 

کچھ بھی کرو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہ بناؤ

شیطان کی خاطر تو تماشہ نہ لگاؤ

فرقوں میں بٹے جاتے ہو کچھ شرم و حیا بھی

ختم اس کو کرو،ختم کرو بھدا اتناؤ(ص267)

 

یہ کیسی ترقی ہے ترقی کے پجاری

صد حیف کہاں چرنے گئی عقل تمھاری

کب روکا ترقی سے تمھیں دین ھدیٰ نے

ضد دیں سے ہے شیطان کی سر اپنے بلا لی(ص276)

دال گلنا،چور کی داڑھی میں تنکا،ڈیڑھ اینٹ کی مسجد،اور عقل چرنا،ایسے محاورات ہیں جو عام زندگی میں استعمال کرتے ہیں اور ان کے معنی ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہیں۔

اگرچہ اس شعری مجموعے میں اکثر مقامات پر بہت ہی مشکل زبان استعمال کی گئی ہے،مگر یہ بات خوش آئندہ ہے کہ عنبر صاحب نے اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش کی ہے۔معاشرتی و سماجی برائیوں کو بے نقاب کیا ہے اور اصلاح معاشرہ کا کام ان کی رباعیات سے لیاہے۔یہ خوبصورت شعری مجموعہ رباعی روایت کو اسیر کرتا نظر آتا ہے اورنئے شعراء کرام کے لیے راہنمائی کا کام بھی دے گا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...