Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > پرکھ > ’’خدائے سخن‘‘ کی نظمیں

پرکھ |
حسنِ ادب
پرکھ

’’خدائے سخن‘‘ کی نظمیں
ARI Id

1688708668008_56116707

Access

Open/Free Access

Pages

۳۵

خدائے سخن‘‘ کی نظمیں

نظم کے معنی ’’موتیوں کی لڑی‘‘ کے ہیں۔موتیوں کو لڑی میں پرونا ہے۔لیکن ادبی اصلاح میں نظم سے مراد اشعار کا وہ مجموعہ ہے جس میں کوئی ایک مرکزی خیال ہوتا ہے۔بہت زیادہ اشعار ہونے کی صورت میں خیال کی درجہ بدرجہ بڑھوتری کو ظاہر کرنے کے لیے اشعار کو مختلف حصوں میں تقسیم کر لیا جاتا ہے تاکہ نظم کے معنی اور مفہوم کو اجاگر کیا جا سکے۔نظم میں ایک خیال یا تصور کو موضوع بنایا جاتا ہے۔نظم میں اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہوتی صرف خیال کے تسلسل کو سامنے رکھا جاتا ہے۔

نظم میں موضوع کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔اس میں کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کیا جا سکتا ہے موضوع چاہے تاریخی ہویا جغرافیائی دینی ہویا دنیاوی،تہذیبی ہویا ثقافتی،معاشی ہو یا معاشرتی،سیاسی ہو یا مذہبی،قومی ہو یا انقلابی،قدیم ہو یا جدیدعلمی ہو یا ادبی غرض ہر موضوع اور دنیا کے ہر معاملے،زندگی کے ہر مسئلے اور کائنات کے ہر پہلو پر نظم لکھی جا سکتی ہے۔

موضوع کی طرح نظم کے لیے خاص ہیئت کی پابندی ضروری نہیں جس طرح نظم کا کوئی بھی موضوع منتخب کیا جا سکتا ہے اسی طرح نظم لکھنے کے لیے کوئی بھی ہیئت اختیار کی جا سکتی ہے۔اگرچہ روائیتی طور پر نظم کی کچھ خاص اصناف کے لیے خاص ہیئت مخصوص ہیں۔مگر عام طور پر نظم کے لیے کوئی خاص ہیئت مقرر نہیں کی گئی،یہ بات ہمیں عطا محمد عنبر کی نظموں کی کتاب ’’خدائے سخن‘‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔انہوں نیاپنے اس شعری مجموعہ میں جو نظمیں شامل کی ہیں۔ان کو مختلف ہیئتوں میں لکھا ہے کہیں کہیں نظم کا تاثر پھیکا پڑتا دکھائی دیتا ہیاور غزلیہ رنگ نمایا ں نظر آتا ہے۔کیونکہ آپ کی بہت ساری نظموں میں سے ایک سے زیادہ مضامین کا بیان ملتا ہے۔مگر زیادہ تر نظموں میں اللہ اور اس کے محبوب کی حمد و ثناء کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔اصلاح فرد اور اصلاح معاشرہ کی طرف خصْوصی توجہ دیتے ہیں۔نظموں میں نصیحت نگاری کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔مگر آپ نے انتہائی مشکل زبان استعمال کرکے اپنے آپ کو ایک خاص مکتب فکر تک محدود کر لیا ہے۔اس وجہ سے کئی اشعار قارئین کی سمجھ سے بالاتر ہو گئے ہیں۔آپ نے جن موضوعات کو نظموں میں بیان کیا ہے۔اس کا فنی وفکری جائزہ کچھ اس طرح سے ہے۔

آپ نے خود اشعار میں مشکل بیان کو تسلیم کیا ہے۔اور اپنے اشعا ر کو دین ھدیٰ کا پیغام کہا ہے۔اگر وہ یہ پیغام آسان الفاظ میں دیتے تو پڑھنے والوں کی تعداد بڑھ سکتی تھی۔اشعار کے بارے میں کہتے ہیں:

یہ شاعری نہیں یہ انوکھا کلام ہے

ہر شعر گویا دین ھدیٰ کا پیام ہے(ص17)

اگرچہ آپ نے کتاب کے آغاز میں باقاعدہ حمد و نعت کو شامل نہیں کیا مگر جا بجا حمدیہ اشعار میں اللہ تعالی کی شان میں رَطبْ اللسان نظر آتے ہیں،کہتے ہیں،آخری نبی کا جو رب ہے وہی عیسیٰ و مریمؑکا رب بھی ہے۔وہ ہر عیب سے پاک اور ذی اقتدار ہے۔

احمد کا رب ہے عیسیٰ مریمؑ کا رب ہے وہ

پاک از عیوب و شرک ہے ذی اقتدار ہے(ص355)

وہ ہر چیز کا خالق ہے سمندر میں جو اریھا ٹار اْسی کے حکم سے آتا ہے۔

خالق ہے رب کل ہی کسوف و خسوف کا

حکم خدا سے بحر میں بھاٹا جوار ہے(ص376)

آقا کریمﷺ سے جا بجا اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔اکثر اشعار میں وہ عشق رسولﷺمیں ڈوبتے دکھائی دیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ محمدﷺجیسا اعلی صفات کا حامل کوئی اور نبی اللہ تعالی نے اس دنیا میں معبوث نہیں فرمایا حالانکہ اعلیٰ سے اعلیٰ پیغمبر دنیا میں آئے۔

پیدا خدا نے دوجا محمدؐ کیا نہیں

خیر الا نام جیسا کہاں سے بشر ملے

احمدؐ رسول جیسا نبی دوسرا نہیں

اعلیٰ سے اعلیٰ دنیا کو پیغام بر ملے(ص99)

آپﷺ کے کردار میں متانت کس قدر تھی اس کو گواہی قرآن دیتا ہے۔

ما ینطق عن الھوی الوحء پرمدار

بالائے شک شبہ متانت حضور کی(ص100)

آپﷺ کا انداز گفتگو ہر لحاظ سے فصیح  و بلیغ تھا۔

احمدؐ کا البیان فصیح و بلیغ ہے

ہر طرح مقرف ہے وضاحت حضور کی(ص101)

آپﷺ کی رسائی عرش معلیٰ تک ہے۔

عرش معلیٰ تک ہے رسائی حضوؐر کی

لوٹے رسول مسند یزداں کو دیکھ کر(ص300)

لہٰذا ایسی ہستی کی الفاظ میں مدحت کا بیان بہت مشکل ہے۔

لفطوں سے ماورا ہے محمدؐ کی شان خاص

مدحت کی حد تو ہی نہیں بے حد کہی ہے آج(409)

اپنی اس بات کا ثبوت آپ نے نبی پاک ? کی ایک حدیث ایک شعر میں بیان کرکے دیا ہے۔

ہے لا نبی بعدی کا فرمان محترم

ایسا تو احترام کسی اور کا نہیں(ص260)

آپ کا کلام اخلاقیات سے بھرا پڑا ہے۔حمدیہ اور نعتیہ اشعار کے بعد سب سے زیادہ اخلاقیات کا مضمون بیان ہوا ہے۔آپ نے شاعری سے اصلاح معاشرہ کا کام لیا ہے ،کہتے ہیں کہ فرد نے اپنے دل کوشرک سے پاک کر لیا اور اسے ابدی سکون مل گیا او ر جس نے سنت نبوی پر عمل کیا وہ سرخرو ہوا۔

شرک دریا سے پاک کیا جس نے اپنا قلب

واللہ امن چین سے دل اس کا بھر گیا

ٹالی ہے جس نے بات محمد کی اس پہ حیف

مانی ہے جس نے اْس کا مقدر سنور گیا(ص129)

جس شخص نے لاحول پڑھ کر توبہ کی اللہ نے اس کے سارے گناہ معاف کر دیئے۔

لاحول پڑھ کے جس نے بھی توبہ کی دل سے یار

اللہ نے اس کے ہر گنہ جڑ سے مٹا دیا(ص282)

وہ شخص بہت بے وقوف ہے جس نے توبہ کو کل پر ٹال دیا۔

بیوقوفی ہے بیوقوفی

توبہ کو کل پر ٹال رکھنا(ص256)

انسان کو احتیاط سے زندگی گزارنے کی نصیحت اس طرح دیتے ہیں۔

عنبر تو اب لگا دے اپنے شعور کو

آگے قدم بڑھاؤ تو مگر پھونک پھونک کر(ص301)

موت برحق ہے اور اسکا ایک وقت مقرر ہے۔ کوئی انسان اپنے وقت سے پہلے نہیں مرتا۔

وقت ایک طے ہے موت کا ہر نفس کے لیے

ہے کون ایسا جو موت سے پہلے مر سکے(ص404)

اس وقت کے آنے سے پہلے ہمیں وقت کی قدر کرنی چاہیئے۔

قدر کرنا ساعتوں کی

ذہن میں ماہ و سال رکھنا(ص256)

وقت کی قدر کا بہت خوبصورت استعمال اللہ تعالی کی یاد ہے کہتے ہیں:

سب سے حسین نام ہے اللہ کے مومنو

یاد ان کو جو کرے گا وہ اللہ کا یار ہے(ص384)

آپ کی ملکی حالات پر گہری نظر ہے امن و امان کی صورت حال ہو یا سیاسی،سیاست دانوں کے کرتوت بیان کرنا ہو یا مذہبی نام نہاد ٹھیکے داروں کے رویے کو ،ہر معاملے کو باریک بینی سے دیکھتے ہیں،پھر اشعار میں معاشرہ اور انسان پر پڑنے والے اثرات کو بیان کر دیتے ہیں۔ ملک میں ارباب اقتدار کا لوگوں کے ساتھ کیا رویہ ہوتا ہے۔اسکو بہت خوبصورتی سے اس شعر میں بیان کرتے ہیں:

ارباب اختیار سمیٹیں حرام مال

پر جا کے واسطے بہانے ہیں عجب عجب(ص151)

ان لٹیروں کے لیے چودہ اگست کا دن جشن آزادی کا دن ہوتا ہے۔

آزادی مل گئی ہے لٹیروں کو لوٹنے کی

چودہ اگست ان کے لیے جشن کا سبب(ص151)

یہ لٹیرے دھونس سے منتخب ہوتے ہیں ان کی عادات کتوں سے ملتی ہیں کیونکہ یہ اپنے مفاد کی خاطر کتوں کی طرح لڑتے ہیں اور شریفوں کو یہ تنگ کرتے ہیں۔جب کسی محنت کش کی فصل پک جاتی ہے تو اس پر وڈیرا قبضہ کر لیتا ہے۔

دھونس ایسی ہے لٹیرے ہی ہوتے ہیں منتخب

ہوتا ہے پھر جو تبصرہ ہر انتخاب پر

خْو ان سے ملتی جلتی ہے کتوں سے دیکھئے

کتوں کی طرح لڑتے ہیں ہڈی کو دیکھ کر

رشوت حلال جان کر لیتے ہیں مرتشی

گویا یہ طنز کرتے ہیں اللہ کی نار پر

ملنے لگیں شریفوں کو بھتے کی پرچیاں

انکار ہو تو وار یہ کرتے ہیں جان پر

محنت کشی سے فصلیں اگاتا ہے نت کسان

قبضہ وڈیرا کرتا ہے نت اس کے دھان پر(ص182)

کہتے ہیں جس ملک کا صدر وزیر اعظم رشوت خور ہوگا وہاں امن وامان کیسے پیدا ہوگا۔

جس ملک کے صدر ہوں راشی مرتشی

کیسے کریں گے گفتگو امن وامان پر(ص182)

حالانکہ ہر روز سورج عروج وزوال کی داستان بیان کر رہا ہوتا ہے۔

عنبر ہے مختصر سی کہانی عروج اوج

سورج گواہی دیتا ہے خود کے زوال کی(ص158)

مگر اس کے باوجود لوگ ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتے اور سینے میں کینہ رکھتے ہیں۔

ہر چند ڈنڈی مار کا خانہ خراب ہے

عیار ہے سْنار اگر کیا کرے عیار

سینے میں کینہ مخفی ہے اور منہ میں رام رام

جوتوں سے پیار چھوت ہے کیوں سیایہ چمار(ص172)

ان حالات کو دیکھ کر نئی نسل کو انقلاب کا پیغام بھی دیتے ہیں،کہتے ہیں کہ اب اٹھو ورنہ تمہاری بے حسی تمہیں لے ڈوبے گی۔اٹھو اور حرام خوروں کی مرمت کرو۔

اٹھو ورگرنہ بے حسی لے ڈوبے گی تمہیں

لوگو! حرام خوروں کی درگت بناؤآپ(ص151)

ایسے لوگوں کو ختم کر دو جو رعایا کے ٹیکسوں پر عیاشی کرتے ہیں:

سرکار انکی ہے تو لگان ان کو ہیں معاف

ڈالیں یہ رعب بنک پہ قرضے معاف کر

اٹھو جوانو! اب کے بساط ان کی دو لپیٹ

اللہ الحفیظ ہو نعرہ زبان پر(ص303)

اب تیرے پاس طاقت ہے لہٰذا اس گند کو صاف کر۔

راحیل ویر بن کے اٹھ اب صاف کر دے گند

اٹھا اب کہ تیرے پاس تو تیرو کمند ہیں

جہاں تک آپ کے کلام میں فنی خوبیوں کا تعلق ہے۔آپ کا کلام بہت ساری خوبیوں سے بھرا پڑاہے۔ان میں ایک خوبی محاورات کا استعمال ہے۔آپ نے محاورات کو اس طرح اپنے اشعار میں بیان کیا ہے کہ ادبی خوبصورتی کے ساتھ معنیوں میں گہرائی بھی پیدا ہوئی ہے اور یہ کام صرف کہنہ مشق شاعر ہی کر سکتا ہے۔کچھ مثالیں حاضر خدمت ہیں:

سینے میں کینہ مخفی ہے اور منہ میں رام رام

جوتوں سے پیار چھوت ہے کیوں سایہ چمار(ص172)

کاٹھ کی ہنڈیا چڑھی کب

سینت کر اپنی دال رکھنا(ص254)

پہچانو لاٹھی والے کی ہوتی ہے بھینس کیوں

عنبر بچا لو جتنے بھی تانی تند ہیں(ص326)

ان مثالوں میں بغل میں چھری منہ میں رام رام،کاٹھ کی ہنڈیا،جس کی لاٹھی اس کی بھینس،ایسے محاورات ہیں جو یہاں کے لوگ روز مرہ زندگی میں بولتے ہیں۔اشعار کی خوبصورتی کے لیے خوبصورت تشبیہہ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس کی مثال پڑھیے:

عنبرؔ ہے مختصر سی کہانی عروج اوج

سورج گواہی دیتا ہے خود کے زوال کی(ص158)

آپ نے عربی الفاظ کو بہت خوبصورت انداز میں اشعارکی زینت بتایا ہے۔پڑھتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کسی دوسری زبان کے الفاظ پڑھ رہے ہیں۔بلکہ روانی میں پڑھ جاتے ہیں۔چند اک مثال اس طرح سے ہیں:

وما ینطق عن الھویٰ الوحی پر مدار

بالائے شک شبہ،متانت حضورؐ کی

لَیس کمثلھہ شیِِ، خالق ہے ہر شے کا

وہ نور کا بھی رب ہے وہ پروردگارِ نار

اعلان رب کل لمن الملک قال تام

قہار العلی کو تمام اختیار ہے(ص380)

مختصر بات یہ ہے کہ عنبر صاحب نے چاہے مشکل اردو زبان میں اشعار لکھے ہیں۔مگر ان اشعار میں گہرائی بہت ہے۔فنی خوبیوں سے مالا مال ہے یہ مجموعہ کلام مذہبی شاعری میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔اگرچہ اس میں کہیں کہیں ایک فرقے خلاف تعصب کی بو بھی آتی ہے۔جو میرے نزدیک اچھی بات نہیں۔میں اسکی اشاعت پر عنبر صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...