Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > پرکھ > سید مبارک شاہ کی ’’ ہم اپنی ذات کے کافر‘‘ پر طائرانہ نظر

پرکھ |
حسنِ ادب
پرکھ

سید مبارک شاہ کی ’’ ہم اپنی ذات کے کافر‘‘ پر طائرانہ نظر
ARI Id

1688708668008_56116708

Access

Open/Free Access

Pages

۴۱

سیّد مبارک شاہ کی

’’ ہم اپنی ذات کے کافر‘‘ پر طائرانہ نظر

سیّد مبارک شاہ کی پہلی کتاب ’’جنگل گمان کے‘‘ 1993ء میں منظر عام پر آئی اور اشاعت کے اولین ماہ میں ہی سٹالوں پر دستیاب نہ رہی۔دوسری کتاب 1995ء میں شائع ہوئی جبکہ تیسری کتاب ’’مدارنارسائی میں‘‘1998ء میں چھپ کر سامنے آئی۔تینوں کتابوں کو اہل ذوق محبت میں عجلت دکھاتے ہوئے۔دکانوں سے اپنی لائبریریوں میں اور اشعار کو اوراق سے اپنے دلوں میں منتقل کر لیا۔سیّد مبارک شاہ کی دوسری کتاب ’’ہم اپنی ذات کے کافر‘‘ 1995ء میں چھپ کر اہل ذوق سے داد وصول کر چکی ہے۔یہ کتاب آپ کی غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔اس مجموعہ کلام میں (48) غزلیں شامل ہیں۔ان غزلوں کا موضوعاتی جائزہ لینے سے پہلے غزل کی تعریف اور ارتقاء پر روشنی ڈالتا ہوں۔

عربی،فارسی،پنجابی اور اردو کی مشہور و مقبول صنف غزل ہے۔اس صنف میں اتنی دلکشی،جاذبیت اور کھچاؤ موجود ہیکہ ہر دور اور ہر طبقے کے دلوں کی دھڑکن بنی رہی اور زندگی کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی رہی ہے۔لفظ ’’غزل‘‘ کے ماخذ کے بارے میں ماہرین زبان و ادب کے درمیان اختلاف رائے موجود ہے۔ایک گروہ کا خیال ہے کہ ’’غزل‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی اون کتنا،اون کو تار تار کر کے دھاگہ تیار کرنا کے ہیں۔(1)

جب کہ دوسرے گروہ کا نظریہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ بات چیت کرنا،اْن کے حسن و عشق کے بارے میں باتیں کرنا۔

’’در لغت حدیث کردن بازناں ومعاشقہ با ایشاں است ومغازلہ نیز عشق بازی و محاولہ بازناں است، در اصطلاح عبارت است ازابیاتی چند بریک وزن و قافیہ کہ بشعر مشتمل بر مضامین معاشقہ و تصویر احوال عشاق وجمال مشعوق۔‘‘(2)

مطلب یہ کہ غزل کے لغوی معنی عورتوں سے بات چیت کرنا،ان کے ساتھ عشق کرنا،اصطلاح میں غزل ان اشعار کا نام ہے جن میں اک وزن اور قافیہ پایا جاتا ہے۔عاشقوں کا حال معشوقوں کے حسن کا بیان اور عشقیہ مضامین بیان کئے جاتے ہیں۔

نور اللغات میں غزل کی تعریف کچھ یوں لکھی ہوئی ہے۔ غزل ’’(ع،مونث) لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا،اصطلاح میں وہ اشعار جن میں حسن وعشق ، وصال و فراق، ذوق و اشتیاق، جنون و یاس وغیرہ کی باتیں جو عشق سے متعلق ہوں کہی جائیں۔ غزل ہر بحر میں کہی جاتی ہے ہر شعر جداگانہ مضمون کا ہوتا ہے۔‘‘(3)

غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں۔جس میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ قافیہ سے مراد وہ ہم وزن الفاظ جو غزل کے ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں اپنے ہم آواز اور ہم وزن الفاظ کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔قافیہ ہمیشہ ردیف سے پہلے آتا ہے اور شعر میں موسیقی یا ردھم پیدا کر تا ہے۔ردیف کے لغوی معنی ہیں ،سوار کے پیچھے بیٹھنے والا یا پیچھے پیچھے چلنے والا،ردیف ہمیشہ قافیہ کے پیچھے آتی ہے۔اس لئے ردیف کا مطلب ہے کہ وہ الفاظ جو قافیے کے بعد غزل کے ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔مگر تبدیل نہیں ہوتے،ردیف سے بھی شعر میں سنگیت کا جنم ہوتا ہے اور اس سے غزل کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔مقطع سے مراد غزل کا وہ آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے۔

غزل کا ہر شعر اپنی جگہ ایک مکمل اکائی ہوتا ہے جس میں شاعر اپنی فکر،تخیل یا جذبہ مکمل طور پر بیان کرتا ہے۔اس وجہ سے کچھ نقاد اس صنف کو ’’وحشی صنف‘‘ یا منتشر الخیال صنف خیال کرتے ہیں۔ کیونکہ اس میں نظم یا مثنوی کی طرح خیالات میں ربط اور تسلسل نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود غزل کے سارے اشعار ردیف قافیہ کے داخلی دھاگے کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔(4)ڈاکٹر وزیر آغا کا خیال ہے:

’’غزل کا ہر شعر ایک ایسا جزو ہے جو غزل کا حصہ ہونے کے باوجود اس سے جدا بھی ہے۔ہر شعر ایک الگ حیثیت کا حامل ہے۔ لیکن اس کے باوصف غزل کے دھاگے سے منسلک بھی ہے۔‘‘(5)

غزل میں موضوعات کی کوئی پابندی نہیں ،اس میں حسن وعشق جوانی و بڑھاپا،زمین و آسمان،سماج ومعاشرہ،ریاست وسیاست،علم وفن غرض ہر قسم کے خیالات مختلف اشعار میں بیان کئے جا سکتے ہیں۔مگر سبھی اشعار کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے ایک مخصوص داخلی رنگ،مخصوص جذبے اور احساس کی ضرورت ہوتی ہے اوریہ اْس وقت ممکن ہوگا جب شاعری زندگی کے سبھی خارج مظاہر کو اپنی ذات اور فکر کا حصّہ بنا لے اور شعر لکھتے وقت ان کو اپنی ذات سے الگ نہ کر ے۔بلکہ اس کا انداز آپ بیتی والا ہونا چاہیئے۔شاعر غزل کے ایک شعر میں بڑے سے بڑا اور وسیع سے وسیع خیال پیش کر سکتا ہے،یعنی سمندر کو کوزے میں بند کر لیتا ہے۔اس کے لیے الفاظ کا چناؤ بہت احتیاط سے کرنا پڑتاہے۔اس سے الفاظ کی قدروقیمت ظاہر ہونے کے ساتھ میں غزل میں ایجازواختصار پیدا ہوتا ہے۔شمیم احمد اس بارے میں لکھتے ہیں:

’’غزل میں ایجاز و اختصار ایک ایسا وصف ہے جسے لانے کیلئے شاعر علامتوں، کنایوں، استعاروں، تشبیہوں اور صنائع بدائع جیسے سہاروں سے کام لیتا ہے۔‘‘(6)

غزل کے ہر شعر میں اختصار شعر کی جان اور شاعر کی فنی پختگی کو ظاہر کرتا ہے۔اس سے غزل میں ایمائیت اور رمزیت پیدا ہوتی ہیاور غزل کا حسن نکھر جاتا ہے۔اسی طرح اس سے غزل میں لوچ،نیاپن،وسعت اور موسیقیت بھی پیدا ہوتی ہے۔اردو غزل میںحسرت موہانی،فانی بدایونی،جگر،اثر، اقبال،جوش،حفیظ،فراق،فیض،احمد ندیم قاسمی،فراز،شہزاد احمد،قتیل شفائی اور منیر نیازی نے بہت نام کمایا ہے۔انیسویں صدی کے غزل گو شعراء میں ایک نمایاں نام سید مبارک شاہ بھی ہے۔جن کے اب تک شاعری کے تین مجموعہ کلام کی اشاعت ہو چکی ہے۔آپ کے دوسرے مجموعہ کلام ’’ہم اپنی ذات کے کافر‘‘ کاموضوعاتی جائزہ کچھ اس طرح سے ہے۔اگرچہ اس مجموعے میں نظمیں بھی شامل ہیں۔مگریہاں پر بات صرف غزلوں کے بارے میں ہوگی۔آپ کے غزلیہ موضوعات کو رومانوی،معاشرتی اور عصری عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔

معاشرتی پہلو

 کسی بھی شاعر کی شاعری میں جاذبیت اور قارئین کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے،کہ اْس شاعر کا نقطہ نظر معاشرتی و عصری مسائل کے بارے میں کیا ہے؟ شاعری میں عوامی پن اْسی وقت وجود میں آئے گا۔جب شاعر اپنے آپ کو معاشرے کا ایک فرد خیال کرے گا۔کیونکہ اس طرح کرنے سے اْسے عوام کی خواہشات،سوچوں اور مسائل کا ادراک ہوگا۔معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے ان مسائل کا جب خود سامنے کرے گا۔تو اْسے معاشرتی مسائل اور معاشرتی سوچ کو اجاگر کرنے کی مدد ملے گی۔اس طرح سے وہ معاشرتی مسائل اور ان مسائل کے باعث لوگوں کی عادات و اطوار پر پڑنے والے اثرات کو بھی اشعار میں بیان کر سکتا ہے۔ان اثرات کا مجموعی طور پر معاشرت پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ان کو اشعار میں بیان کرکے لوگوں کی توجہ اْن مسائل کی طرف مبذول کرواتا ہے۔ان کے اچھے یا بْرے نقصانات سے آگاہ کرتا ہے اور لوگوں کو ان مسائل کے حل کی ترغیب دیتا ہے۔معاشرتی مسائل صرف فرد کو ہی متاثر نہیں کرتے بلکہ یہ معاشرتی ترقی و گراوٹ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتے ہیں۔جیسے آج سے کچھ سالوں پہلے معاشرے میں امن و سکون تھا۔ لوگ خواہش کم ہونے کی بناء پر مختلف معاشرتی برائیوں کا شکار نہ تھے،احترام انسانیت عام تھا۔پیار و محبت کی فضا میں معاشرتی اقدار سے معاشرے میں ہر طرف سکون ہی سکون تھا۔اتحاد و یگانگت کی مثالیں اخلاقیات کی بنیادیں بہت مظبوط تھیں۔اسی بناء پر نظام عدل کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔مگر اب حالات اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔اس حالت کو بیان کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے جو حساس طبعیت اور درد دل رکھتا ہو،نڈر ہو،بات کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو،بڑے ظرف سے لوگوں کی تنقید برداشت کر سکتا ہو،جبر کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتا ہو۔کیونکہ جب وہ معاشرتی برائیوں کو بیان کرے گا تو اْسے ظالم حکمرانوں کے ظلم و ستم اور دہشت کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ کام سید مبارک شاہ جیسا کہنہ مشق شاعر ہی سر انجام دے سکتا ہے۔کیونکہ اْس میں مذکورہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔شاہ صاحب کی شاعری میں معاشرتی برائیوں کو کس طرح بیان کیا گیا ہے۔اس کا مختصر جائزہ اس طرح سے ہے:

انسان جو اپنے وقتی فائدے کیلئے بلند انسانیت کے مرتبے سے گر چکا ہے اور دو عملی کا شکار ہے۔اْس کے اصل چہرے پر ایک اور چہرہ ہے جس کی وجہ سے اْس کی پہچان مشکل ہو گئی ہے۔تاریکی کا گلہ نہ کربلکہ اْجالہ دیکھنے کی کوشش کر۔کیونکہ جب تو آئینہ میں دیکھتا ہے تو آئینہ تجھے بہروپیا روپ پر ملامت کرتا ہے۔

سورج کے ڈوبنے کا نہ اتنا ملال کر

آنکھیں طلوع کر کے اجالا بحال کر

کہتا ہے آئینہ کہ یہ صورت نہیں تری

پھرتا ہے کس کی شکل کو چہرے پر ڈال کر(ص60)

تو ایسی صورت حال میں دل محبت سے خالی ہو جاتے ہیں مگر چہروں کی شادابی کی بدولت اصلیت کا پتہ نہیں چلتا۔

یہ کیا کہ دل ہوئے جاتے ہیں صحرا

مگر چہروں پہ ویرانی نہیں ہے(ص 148)

انسان کا دل جب محبت سے خالی ہوتا ہے۔تو دنیا داری اْس کے دل میں سما جاتی ہے اور کبھی کبھار تونوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ دولت و شہرت کے گھمنڈ انسان اپنی سوچ میں خدا ہونے کا دعویٰ بھی کر بیٹھتا ہے۔

عین ممکن ہے کہ معیار بشر سے گِر کر

اپنی دانست میں انسان خدا ہو جائے(ص97)

معیار بشریت سے گرنے کی خوبصورت مثال احساس کا ختم ہونا ہے۔جب کسی کی تکلیف کا احساس آپ کے دل سے جاتا رہے گا تو بے حسی جنم لے گی۔

نہ جانے بے حسی کیا چیز ہوگی

کہ جب احساس پتھر ہو گیا ہے(ص146)

اسی بے حسی سے درد آشنائی ختم ہوتی ہے اور انسان دوسرے کا دل رکھنے کیلئے جونہی تعریف کرتا ہے۔

تو بھی سخن شناس نہ تھا درد آشنا نہ تھا

تو نے بھی شعر سن کرکے مرے واہ واہ کی(ص169)

حالانکہ شاعر کو لوگوں کی سوچ کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ سامعین با امر مجبوری بیٹھے اور سنتے ہیں،اندر سے سب اْکتاہٹ کا شکار ہیں۔

کتنی گہری دلچسپی سے لکھنے والا دیکھ رہا ہے

ایسا کھیل کہ جس کے سب کردار بہت اْکتائے ہیں(ص125)

ایسے لوگ معاشرتی مسائل سے تو اکتائے ہیں مگر دنیا چھوڑنا ان کو گوارہ نہیں کیونکہ ان کی سوچ ہے کہ ان کے بعد دنیا کا کیا ہوگا۔

بہت سے لوگ اتنا سوچ کر مرنے سے ڈرتے ہیں

کہ ان کے بعد دنیا کا نہ جانے حال کیا ہوگا(ص77)

یہ لوگ دنیا کی لوٹ مار میں غرق ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔

دنیا کی لوٹ مار نے دنیا اجاڑ دی

پل بھر کو آنکھ کیا لگی پروردگار کی(ص73)

ایسے لوگ محنت کش کا لہو تک پی جاتے ہیں۔سخت مشقت کے بعد بھی انکی تعریف کرنا تو درکنار معاوضہ تک نہیں دیتے۔

ہمارا خون پینا چاہتے ہیں

عناصر ہیں جو جینا چاہتے ہیں

لہو مزدور کا خشک ہو گیا ہے

مگر آجر پسینہ چاہتے ہیں(ص112)

پھر انصاف کا قتل ہونا یہ کوئی انہونی بات نہیں ہوتی۔کیونکہ ایسے لوگ اپنے مفاد کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔شاہ صاحب بڑی خوبصورتی سیایک محنت کش کی فریاد اللہ کے حضور سوالیہ انداز میں پیش کی ہے۔اللہ تعالیٰ نے صبر کے ساتھ زندگی بسر کرنے والوں کو انعام کی بشارت دی ہے۔یہاں انکے حالات دیکھ کر کہتے ہیں:

آسودگی عمر رواں کیوں نہیں دیتے

جو چیز وہاں دو گے یہاں کیوں نہیں دیتے(ص75)

اس غریبی اور خوف کی فضا میں لوگ جرائم اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا دیکھتے ہیں مگر عدالت میں بیان دینے کو تیار نہیں ہوتے۔

انصاف کو مرتے ہوئے دیکھا ہے جنھوں نے

وہ لوگ عدالت میں بیان کیوں نہیں دیتے(ص75)

کیونکہ ان کو پتہ ہے ان کا حال بھی ایسا ہی ہوگا۔

کیا اس سے معتبر بھی شہادت ہے منصفوا

آنکھیں شہید ہو گئیں میرے گواہ کی(ص168)

ان لوگوں کو ہر وقت جان کا خطرہ رہتا ہے۔لوگ جینا چاہتے ہیں مگر کاروان زندگی کو صفحہہستی سے مٹانے کے لیے پھر کہیں نہ کہیں کوئی دھماکہ ہو جاتا ہے۔

دھماکے گونج اٹھیاس بنا پر

ادھر دیکھو یہ جینا چاہتے ہیں(ص112)

دھماکہ کیا ہوا پورا شہر اپنے لہو سے سرخ ہو گیا۔

مرے شہر بدن کی ہر گلی میں

مرا اپنا لہو پھیلا ہوا ہے(ص149)

شاہ صاحب نے کہا اے اللہ تو لوگوں کو ایک بار موت کیوں نہیں دیتا تاکہ وہ روز مرنے کے عذاب سے چھوٹ جائیں۔

ہر وقت لگا رہتا ہے مرجانے کا دھڑکا

جان دے کے ہمیں اسکی اماں کیوں نہیں دیتے(ص75)

ایسے میں معاشرہ ایک ان دیکھے خوف میں مبتلا رہتا ہے۔کیوں کہ  انسان جبر و گھٹن کی حالت میں کوئی کام بھی اپنی مرضی سے نہیں کر سکتا۔

وہ گوہر معقود یہاں بھی نہ ملا تو

پانی میں یہی خوف اترنے نہیں دیتا

مرضی سے سزا رکھی ہے اس نے تو ہمیں کیوں

مرضی سے خطا کوئی بھی کرنے نہیں دیتا(ص79)

پھر انسان دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے اپنے آپ سے باتیں نہ کرے تو اور کیا کرے۔

طاری ہے کتنی دیر سے یہ خاموشی سنو

جاری ہے اپنے آپ سے یہ گفتگو ابھی(ص98)

یہ خوف دن کی بجائے رات کو بھی آرام کرنے نہیں دیتا کیونکہ لا شعور میں چھپے خوف میں اکثر انسان ایسے مناظر دیکھتا ہے۔

اب کس سے کہوں مجھ کو کیوں نیند نہیں آتی

روتا ہوا دیکھا ہے خوابوں میں خدا میں نے(ص128)

یہ خوف اس وقت لاحق ہوتا  ہے۔جب انسان عام لوگوں سے ہٹ کر چلتا ہے۔یعنی روایت کی پاسداری نہیں کرتا دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ غلط روایات کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔

اس زعم کے باعث ہی میں بھیڑ میں شامل ہوں

اک راہ نکالی ہے اوروں سے جْدا میں نے(ص128)

جب جبر کے باعث معاشرے میں بظاہر سکوت دکھائی دے گا تو جان لیں کہ کوئی انقلاب آنے والا ہے۔اکثر انقلاب کی صورت میں مالی و جانی نقصان ہوتا ہے۔لہذا ایسی حالت کو تبدیل کرنے کا جتن کرنا چاہیے۔

کسی بھی طور سے یارو جمود عافیت توڑو

یہ کیفیت رہے گی تو یقیناً حادثہ ہوگا(ص78)

یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جاہل لوگ عبادت کا کام صرف چند مخصوص دنوں کیلئے کرتے ہیں اور پھر اپنے شیطانی کاموں میں مگن ہو جاتے ہیں۔

دس روز تک روا ہے تجھے غم حسین

پھر سال بھر اطاعت شمر و یزید کر(ص57)

یہ روایت نام نہاد علماء نے ڈالی ہے۔اپنے علم پر فخر کرنے پوچھے کئے سوالات کا جواب ایسے دیتے تھے کہ سوال پوچھنے والا لاجواب ہو جاتا تھا۔

علم رکھنے والوں کا ایک المیہ یہ تھا

بے سوال لوگوں، کو لا جواب کیا کرتے(ص108)

اسی لیے کہتے ہیں کہ اے لوگو! ان لوگوں کی باتوں پر عمل کرنے کی بجائے خود قرآن پاک کا مطالعہ کرو۔

کرتے ہیں ابن جہل کیوں اس کی وضاحتیں

اپنی زباں سے شرح کلام مجید کر(ص57)

ایسے لوگ بظاہر اپنے علم و فن کی نمائش کرتے ہیں اور اس کو نام جدیدیت کا دیتے ہیں۔

پیراہن بدن کی یہ تنگی عبث نہیں

یہ مرحلہ ہے میری نمو کی نمود کا(ص33)

جب کوئی ان کے سامنے انکی بات یا نظریات سے لا علمی کا اظہار کرے تو  انکا رویہ  ایسا ہوتا ہے۔

مری بے نیازی پہ بے نیاز برس پڑا

ارے نامراد! یہ کیا کہا نہیں چاہیے(ص102)

حالانکہ یہی لوگ اپنی باتوں کا یقین دلانے کیلئے اللہ کا نام لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

لیتے ہیں تیرا نام وضاحت کے واسطے

کرتے ہیں اختصار سے تفصیل آرزو(ص156)

پرانی اعلیٰ اقدار کو انقلاب نو کا نام دیتے ہیں اور پرانی اقدار میں کچھ نیا اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تجدید کر رہی ہیں قدامت کی جدتیں

ہر انقلاب نو ہے مجدد جمود کا(ص33)

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے لوگ اپنی سوچ بھی نہیں رکھتے بلکہ غیروں کی بات کرتے تھکتے نہیں۔پرائی سوچ رکھنے والوں کی حالت کچھ ایسی ہی ہوتی ہے:

جاتی نہیں دماغ سے لکنت خیال کی

جب لوگ سوچتے ہیں پرائی زبان میں(ص39)

مگر شاید وہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ انسانی برتری پرائی سوچ سے نہیں بلکہ خالق کے تخلیق کے تصور کو عام کرنے میں ہے۔

اس شرف کے باعث ہی مخلوق میں افضل ہوں

خالق کے تصور کو تخلیق کیا میں نے(ص128)

اور لوگوں کے ساتھ رشتے بنانے اور نبھانے میں ہے۔

دوستی کی دولت ہی عمر بھر کمائی ہے

اور ہم بھی دولت پر افتخار کرتے ہیں(ص111)

حالانکہ انسان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ اس دنیا میں تمام قیام عارضی ہے۔ مرنے کے بعد اصل سفر شروع ہوگا۔

مسافر ہو تو اتنا یاد رکھنا بس دم ر خصت

یہ رستے لو ٹ جائیں گے تو آغاز سفر ہوگا(ص76)

انسانی حالت ایسی ہے کہ وہ ساری عمر دوسروں کی نقل اتارتے گزار دیتا ہے۔کبھی یہ نہیں سوچتا کہ جن کی نقل اتار رہا ہے۔ان کا انجام کیا ہوا حالانکہ ان کو چاہیئے تھا کہ وہ یہ کام کرتے۔

تمہیں مار ڈالا تھا جن کے طرز حیات نے

انہیں جا کے شہر قبور میں بھی تو دیکھتے(ص101)

کیونکہ ساری عمر خوشبو میں بسا بدن مرنے کے بود تعفن دینا شروع کر دیتا ہے۔

اک عمر کی بسی ہوئی خوشبو نکل گئی

اعلان کر رہا ہے تعفن وجود کا(ص33)

اور پھر ساری عمر کی کمائی کا دن بھی آ گیا۔اب حقیقت واضح ہو جائے گی۔

روز حساب اجرت کار حیات ہے

یا قرض جاں پہ کوئی تقاضا ہے سْود کا(ص33)

ناصحانہ پہلو

درد دل رکھنے والے شعرا کرام اشعار تفریح طبع کے لیے نہیں لکھتے بلکہ اس میں اصلاح انسانیت کی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ مْلا کی واعظ غور سے نہیں سنتے۔کیونکہ وہ اس کام کو ان کا پیشہ قرار دیتے ہیں۔مگر جب یہی کام کائی شاعر کرے تو اشعار کو غور سے سنتے ہیں،سمجھتے ہیں اور اس کی تشریح اپنے اپنے انداز میں لوگوں کی بھلائی کی خاطر کرتے ہیں۔یہ خوبی شاہ صاحب کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہے۔یوں تو کہا جاتا ہے کہ خدا کا وجود ہر جگہ پر ہے۔ اس لیے کہ اس کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ مگر شاہ صاحب اپنی شاعری کیلئے اس کے وجود کو ضروری قرار دیتے ہیں تاکہ اسکی رحمت و فضل ہر حال میں شامل حال رہے۔

خدا اس واسطے بھی ہے ضروری

کہ اس کے دم سے میری شاعری ہے(ص151)

اسی کی تلاش میں انسان کبھی طواف کعبہ کرتا ہے اور کبھی بوسہ اسود لیتا ہے۔

یہ طوافِ کعبہ، یہ بوسہ سنگ سیاہ کا

یہ تلاش کس کی ہے پتھروں کے حجاب میں(ص80)

اس لیے انسان کو عاجزی میں رہنا چاہیے تاکہ اسکا فضل ملتا رہے۔انسان معاشرے میں چاہیے قابل عزت ہو مگر اس کے اندر کی حالت کو وہی جانتا ہے۔

ہزار معتبر سہی جہان کی نگاہ میں

میں کتنا شرمسار ہوں خود اپنی بارگاہ میں

تو آپ بھی نہ گن سکے کہ تیرے کتنے روپ ہیں

کبھی تو خود آکے دیکھ اپنی جلوہ گاہ میں(ص129)

ایسے میں انسان کو اپنا محاسبہ بھی کرتے رہنا چاہیے۔کیونکہ ایسا کرنے سے گمراہ ہونے کے امکانات معدوم موجود ہوتے ہیں۔

وہ ترک آرزہ کا مرحلہ بھی طے ہوا آخر

جو سب سے جاں گْسل حصہ صراط جستجو کا تھا(ص34)

کیونکہ جو لوگ اپنی ذات کا محاسبہ نہیں کرتے ان کو کوئی حق نہیں کہ وہ دوسرے افراد کے اعمال پر تنقید کریں۔

جب محاسبہ اپنے شوق کا نہ کرپائے

پھر کسی کی آنکھوں کا احتساب کیا کرتے(ص107)

معاشرہ میں ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ جب لوگ خدائی کے دعوے دار بن جائیں تو وہاں سے اصل خدا کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔اس کیلئے ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کیلئے تاویلا یں پیش کرتا ہے۔

ہو خداؤں کا تسلط جس جگہ

اس علاقے میں خْدا نہیں ہوتا(ص171)

اور اپنے تسلط کو طویل دینے کیلئے ہم کچھ بھی کرنے کو تیارہیں۔یہاں تک کہ اللہ کا نام بھی استعمال کرنا  تو گریزاں نہیں ہونگے۔

خدا سے ہم کو ورثے میں ملی ہے

قسم کھانے کی عادت ہو گئی ہے(ص152)

لہٰذا کائنات کو تسخیر کرنا چاہیئے ،کیونکہ جلالت،خودپرستی اور تکبر سے انسان گمراہ ہوتا ہے اور انسانیت کا بدنام کرتا ہے۔

جسے معبود کہتے ہیں اْسے تسخیر کیا کرنا

وگرنہ تواطاعت سے خدا بھی رام ہو جائے

جلالت، خودپرستی، بے نیازی یا تکبر ہو

ترے اوصاف پا کر آدمی بدنام ہو جائے(ص135)

لہٰذا ہمت کو اپنا شعار بنانا چاہیے اور کسی چیز کو کھونے کا ملال نہیں ہونا چاہیئے۔

سورج کے ڈوبنے کا نہ اتنا ملال کر

آنکھیں طلوع کرکے اجالا بحال کر(ص60)

ہمت سے اگر انسان کام لے تو اْسے مشکل میں بھی راحت ملے گی۔کیونکہ مشکل حالات کو انسان اپنی ہمت سے ہی بدل سکتا ہے۔

جو کشید کرنے کا حوصلہ ہے تو کیجئے

کہ ہزار طرح کی راحتیں ہیں عذاب میں(ص80)

کیونکہ کسی اونچے مقام تک انسان اپنی لگن اور مسلسل محنت سے ہی پہنچتا ہے۔

پر تو ہوا میں رہ گئے اول اڑان میں

پہنچا ہوں میں اس مقام تک اپنے ہی دھیان میں(ص38)

جب انسان اپنے دھیان سے اڑان بھرے گا تو اسے مظاہر قدرت اپنا سرمایہ معلوم ہونگے۔

اس دنیا میں ہم جیسے زردار کس نے دیکھے ہیں

دھرتی،سورج،چاند،ستارے سب اپنے سرمائے ہیں(ص125)

تاریخ نگاری

اشعار میں تاریخی واقعات کا بیان بہت ہی مشکل کام ہے۔کیونکہ جب تک تاریخی واقعات کو اس کے پس منظر میں بیان نہ کیا جائے تو پڑھنے والے کو خاطر خواہ ا س واقعہ کے بارے میں معلومات نہیں ملتیں۔پھر واقعات کی ایک طویل تفصیل ہوتی ہے۔اسے دومصرعوں میں وہی شخص بیان کر سکتا ہے جسے تاریخ پر مکمل عبور ہو۔ذخیرہ الفاظ وسیع ہو اور تاریخی واقعات کو مناسب الفاظ میں بیان کرنے کا انداز بھی آتا ہو۔اس ضمن میں شاہ صاحب نے کچھ تاریخی واقعات کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے،جیسے حضرت علیؑ نے جب دشمن کو زیر کیا اور دشمن کو اپنی موت یقینی نظر آنا شروع ہوئی تو اْس نے آپ کے منہ پر تھوک دیا اور یوں کرنے سے بچ گیا۔

حد امکاں سے باہر تھا بظاہر اْس کا بچ جانا

مگر کیا کیجئے دشمن نے ہمارے منہ پہ تھوکا تھا(ص34)

کہتے ہیں کشش ثقل کا راز سائنس دان نے سیب گرنے پر پایا۔

تفکر ہو تو اک لمحے کی بینائی غنیمت ہے

وگرنہ سیب ٹہنی سے تو پہلے بھی گرا ہو گا(ص77)

کہتے ہیں کہ ستارے کو دیکھ کر حضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ یہی میرا خدا ہے۔اس واقعہ کو یوں شعری روپ دیا ہے۔

تحیر شیوۂ پیغمبری ہے اور پیمبر نے

ستارہ دیکھ کر سوچا کہ شاید یہ خدا ہوگا(ص77)

رومانوی پہلو

غزل میں رومان کا بیان ابتدائی دور سے ہی ہوتا آرہا ہے کہا جاتا ہے کہ غزل میں محبوب کے حسن و جمال کی تعریف،عاشقوں کا حال، ہجر کی کیفیات کو بیان کیا جاتا ہے۔پرانے وقتوں میں غزل حرف ان موضوعات کے گرد ہی گھومتی تھی۔زمانہ میں تبدیلی کے ساتھ غزل کے موضوعات بھی بدلتے گئے۔مگر اب یہ بھی یہ موضوع غزل کے موضوعات میں سر فہرست ہوتا ہے،شاہ صاحب نے اس موضوع پر کھل کا اظہار سخن کیا ہے۔کئی غزلوں کے اشعار میں رومانوی پہلو اجاگر ہوتا ہے کہتے ہیں کہ ہمیں جہان کی کوئی خبر نہیں۔کیونکہ سارے جہان میں آپ جیسا کوئی نہیں۔

تیرے جہان کی تو کچھ خبر کچھ نہیں مگر

تجھ سا کوئی نہیں ہے ہمارے جہان میں(ص38)

جب محبوب لاثانی ہوگا تو زندگی کے رنگین ہونے کا جواز بھی اْسی کے دم سے ہوگا اور بے ثباتی کا تصور بھی اْس کی جادوائی شخصیت سے جڑا ہوا ہوگا۔

تمہارے ساتھ دیکھی تھی وگرنہ زندگی ہم کو

نہ تب محسوس ہوتی تھی نہ اب محسوس ہوتی ہے

ہمیں اس بے ثباتی کے تصور کی اذیت بھی

تمہاری جاودانی کے سبب محسوس ہوتی ہے(ص100)

محبت تو ہوگی سارے زمانے کو بتا دیا مگر محبوب کا اتنا رعب دبدبہ کہ اْسے نہ بتا سکے۔

زمانے بھر کو جتلانا ہمیں تم سے محبت ہے

مگر تم سے نہ کہہ پانا،ہمیں تم سے محبت ہے(ص106)

محبوب کو محبت کا تو نہ کہہ سکے مگر اْسکی بے رخی سے زندگی کو رائیگاں ہوتے ہوئے اور بدگماں ہوتے ہوئے ضرور دیکھا ہے۔

کیا قیامت تھا تمہارا بے رخی سے دیکھنا

ہم نے دیکھا زندگی کو رائیگاں ہوتے ہوئے

ہم یقیں سے ماورا ہو کر جسے سوچا کئے

اْس نے کچھ بھی تو نہ سوچا بد گماں ہوتے ہوئے(ص109)

محبوب چاہے بد گماں ہو جائے مگر اس کے وصل کی خواہش میں اپنے آپ سے بے خبر ہونا چھوڑا نہیں جاتا۔

کسی کے وصل کے رد عمل میں

کوئی خود سے بچھڑتا جا رہا ہے

میں اپنے آپ سے یوں بے خبر ہوں

کہ بس میرا خدا ہی جانتا ہے(ص147)

محبوب کے وصل کی تمنا چھوڑی نہیں جا تی حالانکہ اْسے چھوڑنے کا فیصلہ بہت مشکل سے کیا۔

انتخاب مشکل ہے پھر بھی چھوڑ کر تجھ کو

جا تری تمنا کو اختیار کرتے ہیں(ص111)

بڑی کوشش کی کہ ضبط کا بندھن  نہ ٹوٹے مگر ایسا نہ ہو سکا۔

لوگ انبار طلب لے کے کھڑے تھے لیکن

ہم سے اک تیری تمنا بھی سنبھالی نہ گئی(ص74)

جب محبت زمانے بھر میں نشر ہوئی تو دوریاں درمیان حائل ہوگئیں اور جدائی کے لمحات ساری عمر یاد رہے اور انتظار کی کیفیت ابھی تک باقی ہے۔

اتنا تو مجھ کو یاد ہے بچھڑے تھے اْس گھڑی

جب مل رہی تھیں ساعتیں لیل ونہار کی

یہ کیا طلسم ہے کہ زمانے سے گزر گئے

لیکن ڈھلی نہ شام ترے انتظار کی(ص73)

جدائی کا خوف خیالات پر اس قدر حاوی ہو ا کہ اب دوسروں لوگوں کو ملتے ہوئے دیکھ کر یہ کہنا پڑا۔

قریہ ہجر میں ملتے ہوئے لوگو! سوچو

جانے کب کون،کہاں،کس سے جْدا ہو جائے(ص97)

جبکہ محبوب کا بچھڑنے کے بعد حال کچھ اس طرح سے ہے:

اے مرے فراموش! ترا حال تو یوں ہے

کچھ رکھ کے کہیں جیسے کوئی بْھول گیا ہے(ص130)

معلوم ہوتا ہے کہ محبوب کی یہ بھول جیسے شعوری طور پر ہو،کیونکہ اْس نے محبت کرنے سے پہلے اس فوائد سوچ رکھے تھے،بات دنیاداری کی مگر واسطے محبت کے۔

نا تمام رہنے تھے سلسلے محبت کے

اْس نے سوچ رکھے تھے فائدے محبت کے

عہد لے رہا تھا وہ مجھ سے دنیا داری کا

اور دے رہا تھا بس واسطے محبت کے(ص58)

شاید اْسے معلوم نہ تھا کہ جب ایک بار محبت کا روگ کسی کو لگ جائے تو یہ روگ عارضی نہیں ہوتا دائمی ہوتا ہے۔

دائمی نہیں ہوتی لذت لب و عارض

عارضی نہیں ہوتے عارضے محبت کے(ص58)

اور اب اس دل کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ اس کی ویرانی دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہاں بھی کبھی محبت کرنے والوں نے پڑاؤ کیا ہو۔

کون دل کی ویرانی دیکھ کہ یہ سمجھے گا

اس جگہ بھی ٹھہرے تھے قافلے محبت کے(ص56)

اس ویرانی کا ایک سبب محبوب کا حسن وجمال ہے۔جب حسین پری چہرہ دیکھا تو عاشق کو اپنی بصارت چھنتی ہوئی لگی۔

لپکی تھی اک مثل ہی اْس بے نظیر کی

اتنے میں بجھ گئی تھی بصارت بصیر کی(ص59)

اْس کی نگاہ سے نکلنے والے تیر سے مجھے احساس ہوا کہ میں کسی کی نگاہ کا شکار ہو گیا ہوں۔

نکلا کماں سے تیر تو احساس تب ہوا

کچھ کہہ رہی تھیں مجھ سے نگاہیں شکار کی(ص73)

نئی خوبیاں

کسی بھی شاعر کی شاعری کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مذکورہ شاعر کا کلام فنی لحاظ سے کتنا مظبوط ہے۔مراد اْس نے اپنے خیالات کو عروض شاعری میں کس حد تک نبھانے کا جتن کیا ہے۔شاہ صاحب نے اپنی غزلیات میں جہاں ردیف و قافیہ کی بندش کو مد نظر رکھا۔وہیں تشبیہ،استعارہ سے کلام کو خوبصورت بنانے کا جتن کیا ہے۔علامت نگاری آپ کی شاعری کی ایک اور خوبی ہے۔حالانکہ علامتوں کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار بہت مشکل ہوتا ہے۔اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عام قاری شاعری میں مروج علامتی نظام سے واقف نہیں ہوتا۔دوسرا یہ کہ علامتوں سے ابلاغ کا کام بھی مشکل ہو جاتا ہے۔شاہ صاحب میں معاشرے میں گھٹن کی کیفیت میں کھلتی آنکھ جو معاشرے کا چہرہ دیکھتی ہے۔اْسے کچھ یوں بیان کیا ہے:

سناٹا گونجتا ہے مکینوں کی یاد میں

پھر آنکھ کھولتی ہیں دڑاریں مکان میں(ص38)

انگڑائی زمیں لیتی ہے بھونچال کی صورت

کم بخت کا گردش سے بدن ٹوٹ رہا ہے(ص130)

بزرگان دین کا کہنا ہے کہ اللہ انسانی دل کے اندر بستا ہے۔شہ رگ سے بھی قریب ہے۔مگر دکھائی صرف ان کو دیتا ہے جو دل پر نظر رکھتے ہیں۔ورنہ روایت کی پاسداری کیلئے سبھی کعبے کا طواف کرتے چلے جاتے ہیں۔

کبھی اپنے دل کے اندر تجھے دیکھتے تو رکتے

ترے کاخ بے مکیں کا یہ طواف کرنے والے(ص159)

مدحیہ پہلو

مدح کے اصطلاحی معنی تعریف کرنا کے ہیں۔اردو ادب میں اس کیلئے قصیدہ کی صنف بھی استعمال کی جاتی ہے۔کسی بھی فرد کی تعریف کیلئے اْس کے علم،جسمانی بناوٹ اور معاشرتی رتبے کا مد نظر رکھ کر الفاظ کا چناؤ بہت احتیاط سے کیا جاتا ہے۔

اگر آپ متعلقہ فرد میں وہ خوبیاں بیان کریں جو کہ اس میں نہیں ہیں تو مبالغہ آرائی ہوگی۔جہاں تعریف کیم گئے فرد کی شخصیت مسخ ہوگی، وہیں تعریف کرنے والا بھی لو گوں کے طنز سے بچ نہیں پائے گا۔مگر شاہ صاحب کی مدحیہ شاعری پر نظر ڈالیںتو حقیقت کا گمان ہوتا ہے کیونکہ آپ نے ہر لحاظ سے تعریف شخصیت کو مد نظر  رکھ کر کی ہے۔اس تعریف سے متعلقہ شخصیت کے اوصاف کھل کر سامنے آئے ہیں۔جیسے میرتقی میر کا غزل میں مقام کا تعین اس طرح کرتے ہیں:

شہر غزل کو شہر خموشاں نہ جانیے

آواز اس میں گھومتی پھرتی ہے میرؔ کی(ص59)

آپ مرزا غالب سے متاثر تھے۔اس کا برملا اظہار کرتے ہیں:

مانا کہ میرے شعر میں غالبؔ کا رنگ ہے

میرا بھی رنگ کوئی کلام اسدؔ میں تھا(ص100)

اس طرح یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مبارک شاہ کی شاعری فنی و فکری لحاظ سے بہت عمدہ شاعری ہے۔آپ نے زندگی کے ہر پہلو پر کھل کر اظہار خیالات کیا،اظہار خیالات کا اندازہ اچھوتا اور نیا ہے۔یعنی موضوعات پرانے ہیں مگر انداز بیان ہم عصر شعراء کرام سے بالکل الگ ہے۔یقیناََ اس انداز سے وہ موجودہ دور کے با کمال شاعر ہیں اور انکی شاعری نئی نسل کے شعراء کرام کیلئے راہنمائی کا کام کرتی رہے گی۔

 

حوالہ جات

1۔            سیّد اختر جعفری ڈاکٹر،پنجابی ادبی صنفاں،پبلشرز ایمپوریم22 اردو بازار لاہور،2003، ص192

2۔            آقائی اصفحانی میرزا جلال الدین،تاریخ ادبیات،ایران ،جلد اول تہران،ایران1949،ص49

3۔            نیر نور الحسن،نور اللغات،جلد اول،لکھنو،1929 ص،583

4۔            سیّد اختر جعفری ڈاکٹر ،پنجابی ادبی صنفاں،ص196

5۔            وزیر آغا ڈاکٹر، اردو شاعری کا مزاج،لاہور،1980،ص203

6۔            شمیم احمد،اصناف سخن اور شعری ہیتیں ،لاہور،س،ن،ص63

7۔            اشعار کا متن لیا گیا: سیّد مبارک شاہ،ہم اپنی ذات کے کافر،بک ہوم،46فرنگ روڈلاہور،2014ء

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...