Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > پرکھ > طاہرہ انعام کی غزلیات پر ایک نظر

پرکھ |
حسنِ ادب
پرکھ

طاہرہ انعام کی غزلیات پر ایک نظر
ARI Id

1688708668008_56116709

Access

Open/Free Access

Pages

۵۹

طاہرہ انعام کی غزلیات پر ایک نظر

انسانی جذبات و احساسات کو منظوم شکل میں پیش کرنا شاعری کہلاتی ہے اور یہ کام صرف اہل درد اور اہل علم و دانش کی ذہنی معراج ہوتی ہے۔دراصل فن شاعری ایک ایسا ہنر ہے جس کے ذریعے باکمال لوگ اپنی قلبی کیفیات کا اظہار ایسے پیرائے میں کرتے ہیں جس کو پڑھ کر قاری ایسے محسوس ہو کہ اس کے دلی جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔اس کے ذریعے زمانے کے تلخ و شیریں تجربات اور رومانوی باتوں کو اشعار کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔اس کیلئے کسی بھی صنف سخن کو اپنایا جا سکتا ہے۔دور حاضر میں غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جس کا ڈنکا چہار اطراف بجتا دکھائی دیتا ہے۔اس صنف میں نت نئے تجربات و مشاہدات کے ذریعے کئی نئے باب کھولنے کے روشن امکانات پیدا ہو گئے ہیںتاکہ اس صنف کے نئے دور کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔اس صنف کے تابندہ مستقبل کیلئے کام کرنے والوں میں ایک نام ممتاز شاعرہ طاہرہ انعام کا بھی ہے۔

طاہرہ انعام کی شاعری میں موجودہ کرب ناک حالات اور المیوں کا بیان بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔اس کے علاوہ عشق و وفا میں انسانی جذبات کو مجروح کرنا اور دلی جذبات کو ٹھیس پہنچانا جیسے موضوعات پر بھی خوب لکھا گیا ہے۔شاعرہ نے یہ سب کچھ اپنے شاعری کے مجموعے ’’تراشیدم‘‘ میں لکھا ہے۔اس مجموعے کلام میں زیادہ غزلیات شامل ہیں مگر چند نظمیں بھی پڑھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نظر آتی ہیں۔اس مجموعہ کلام کا مختصر فکری جائزہ کچھ اس طرح ہے:

شاعر کسی بھی سماج کا حساس ترین فرد ہوتا ہے اردگرد پیش آنے والے حالات و واقعات پر اسکی گہری نظر ہوتی ہے۔عام لوگوں کی نسبت وہ ان حالات و واقعات کا اثر زیادہ قبول کرتا ہے اور ان اثرات کو اشعار کے ذریعے بیان کرکے جہاں اپنا نقطہ نظر قارئین کے سامنے رکھتا ہے وہاں لوگوں کی توجہ ان مسائل و مصائب کی طرف بھی دلاتا ہے۔جیسے شاعرہ کہتی ہیں کہ معاشرے میں مسائل اس قدر گھمبیر ہو گئے ہیں کہ ہر طرف مایوسی پھیلتی جا رہی ہے،لوگ روشنی کی تلاش میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔مگر وہ جدھر بھی دیکھتے ہیں ان کو اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دیتا ہے۔

مسافر روشنی کو ڈھونڈتا ہے

نگر میں شام ہوتی جا رہی ہے(ص125)

اس اندھیرے کو عام کرنے میں مذہبی راہنماؤں کو بڑا ہاتھ ہے۔ان لوگوں نے اپنی ذاتی مفاد کیلئے مذہب کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کر دیا ہے۔لوگوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر لڑارہے ہیں اب سمجھ میں نہیں آتا کہ حق پر کس کی موت ہوئی ہے۔

مرتی رہی سپاہ تو لڑتے رہے فقیہہ

کس موت کو سزا کہوں کس کو بقا لکھوں(ص28)

اس مجموعہ کلام میں دوسرا بڑا موضوع عشق و محبت کا بیان ہے۔محبت کا رشتہ بھی کیا خوب نشہ ہے۔ جب محبوب کا قرب میسر ہوتا ہے تو وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔

تمھاری قربتوں کے کیف میں یوں وقت رکتا ہے

جہاں کی گود میں جیسے سکوت نیم شب ٹھہرے(ص29)

اس کی سوچ سے ہی راستے میں اجالا ہو جاتا ہے۔

تم ساتھ تو ہو میری راہوں میں

یہ سوچ اجالا کرتی ہے(ص139)

اور جب ایسے شخص کی تلاش کا سفر ہو تو پھر اپنے آپ کو نہیں دیکھا جاتا ہے۔

سفر تیری طلب کا ہے یہ ہمدم

تو خود کو سامنے رکھتے نہیں ہیں(ص120)

پھر اس کے لہجے سے سماعتوں کو قرا رملتا ہے اور اس کو پانے کیلئے اگر سارے اثاثے بھی ہارنے پڑ جائیں تو یہ گھاٹے کا سودا نہ ہوگا۔

پھر اس کے لہجے میں پیار آیا

سماعتوں کو قرار آیا

وہ شخص شہرِ وفا میں ٹھہرا

تو سب اثاثوں کو ہار آیا(ص118)

وہ شخص جادوئی خصوصیات اپنے اندر رکھتا ہے۔جہاں سے گزرتا ہے۔ہر دل میں پیار کا جذبہ دکھائی دیتا ہے۔

وہ سحر گر تھا جہاں سے گزرا

دلوں میں جذبے اتار آیا(ص119)

سفر ہجر میں اگرچہ بہت سے کاروان رنگ وبو ہم سفر ہیں مگر محبوب کی یاد۔

ہیں میرے ساتھ کئی کاروان رنگ و بو

کہ تیری یاد کا موسم گلاب جیسا ہے(ص127)

محبوب کی یاد میں ڈوبی شامیں بہت کرب ناک ہوتی ہیں۔

تمھاری یاد کا ہر موسم حصار رہتا ہے

یہ انتظار کی شامیں کٹھن گزرتی ہیں(ص186)

اور اس کے روٹھنے سے غزلوں کی تازگی ختم ہوگی کیونکہ الفاظ کے معنی ہی بدل گئے۔

تو مجھ سے بدلا تو میرے لفظوں کی باس روٹھی میرے لبوں سے

غزل میں اب تو محبتوں کی خزاں نصیبی کا تذکرہ ہے(ص158)

اس کے باوجود بلند ہمتی کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔

شکستہ ہیں مگر سمٹے ہوئے ہیں

ذرا سی ٹھیس پر گرتے نہیں ہیں(ص121)

طاہرہ انعام کی غزلیات میں انسانی نفسیات یعنی انسانی رویوں کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ معاشرے میں انسانی رویوں کا بھرپور علم رکھتی ہیں اور ان کو اشعار میں بیان کرنے کی صلاحیت بھی۔انا پرستی موجودہ دور کا اہم مسئلہ ہے۔

فقط اپنی انا کے معترف ہیں

تمھاری اور مری مشکل یہی ہے(ص45)

جو شخص انا پرستی کا شکار ہو جاتا ہے بعض اوقات اسے بہت زیادہ نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

وہ شخص شہر انا میں ٹھہرا

تو سب اثاثوں کو ہار آیا(ص118)

اگر ایسے شخص سے جذبوں کی بات کی جائے مگر وہ درمیان میں اپنی انا کو ضرور لاتا ہے۔

میں نے جذبوں کی بات چھیڑی تھی

وہ مگر بیچ میں انا لایا(ص100)

ایسے شخص کو بعض اوقات وقت بہت بڑی سزا دیتا ہے۔

گردش وقت سے الجھنے کی

وقت کتنی بڑی سزا لایا(ص100)

موجودہ دور میں باہمی رشتوں کا احترام ایک طرف رشتوں پر سے اعتماد کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔دراصل اسکی وجہ مفادات پر مبنی رشتوں کا قیام ہے۔اسی لیے شاعرہ کو کہنا پڑا۔

رشتوں سے جڑے ہیں تو بہت ٹوٹ گئے ہیں

تنہائی میں ہم میں بھی تب و تاب بہت تھی(ص49)

ایسی فضا کی ترجمانی اس شعر میں بہت خوب انداز میں کی ہے۔

جیسے امید بکھرتی ہے یہاں لمحوں میں

ایسے اشجار سے پتے بھی نہیں جھڑتے ہیں (ص34)

مختصر بات یہ کہ طاہرہ انعام کی شاعری میں موضوعات کی رنگا رنگی ملتی ہے۔انکی شاعری میں آپ کو بہت کچھ پڑھنے کو ملے گا۔مجھے انکی شاعری پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے۔جیسے زندگی کے سب رنگ حسیں ہو کر اسکی شاعری میں جلوہ گرہوں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...